دارالعلوم کے علمی و دعوتی شعبہ جات

دارالعلوم محض ایک تعلیمی درس گاہ ہی نہیں بلکہ ایک مکتب فکر اور تجدید دین کا مرکز بھی ہے۔ اسی وجہ سے یہاں قال اللہ و قال الرسول کے زمزموں کے ساتھ ہمیشہ علمی و فکری اور دعوتی و تبلیغی خدمات کا ایک سلسلہ قائم رہا ہے۔ انھیں سلسلوں کواستحکام و تقویت دینے کے مقصد سے حسب ضرورت باضابطہ کچھ شعبے بھی قائم کیے گئے جو اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔

دارالعلوم کا شعبہٴ دارالافتاء عوام کی دینی رہ نمائی کا سب سے موقر ادارہ ہے۔ دارالعلوم کی فکری و مسلکی ترجمانی اور عوام الناس کی اصلاح و دعوت کے مقصد سے شعبہٴ تبلیغ قائم ہے۔ فرق ضالہ اور مذاہب باطلہ کے رد، اسلام کے حدود و ثغور کی حفاظت و پاسبانی اور عوام کو دین مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے مجلس تحفظ ختم نبوت، شعبہٴ مطالعہٴ عیسائیت، شعبہٴ تحفظ سنت، دفتر محاضرات علمیہ قائم ہیں۔ تحریر و صحافت کے میدان میں دارالعلوم کی ملک و بیرون ملک میں نمائندگی کے لیے ماہنامہ دارالعلوم اردو اور ماہنامہ الداعی عربی کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ شیخ الہند اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے علمی و تحقیقی کاوشوں کی تیاری و اشاعت کا کام انجام پاتا ہے۔ عصر حاضر کی جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ کے ذریعہ آن لائن فتوی اور آن لائن دعوت کا قابل قدر سلسلہ بھی قائم ہے۔

دارالعلوم کے علمی و دعوتی شعبہ جات حسب ذیل ہیں:

(۱) دارالافتاء                                (۲) شعبہٴ انٹرنیٹ وآن لائن فتوی

(۳) شعبہٴ تبلیغ                              (۴) شیخ الہند اکیڈمی

(۵)کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت                    (۶) شعبہٴ تحفظ سنت

(۷) شعبہٴ مطالعہٴ عیسائیت ودیگر مذاہب           (۸) شعبہٴ محاضرات علمیہ

(۹) دفتر مجلہ الداعی                                  (۱۰) دفتر ماہنامہ دارالعلوم

(۱۱) رابطہٴ مدارس اسلامیہ              (۱۲) شعبہٴ ترتیب فتاوی

دارالافتاء

دارالعلوم جس وقت قائم ہوا اس زمانے میں پُرانے علماء کی درس گاہیں ویران اور مسندیں خالی ہوچکی تھیں ۔ علماء خال خال رہ گئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ کوئی مسئلہ بتانے والا مشکل سے ملتا تھا۔ اس لیے جوں ہی دارالعلوم کا قیام عمل میںآ یا ، لوگوں کی توجہ فوراً اس کی جانب مبذول ہوگئی اور ملک کے اطراف و جوانب سے طلب فتاوی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ اولاً یہ کام اساتذہ کے سپرد رہا، چناں چہ حضرت مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ صدارت تدریس کے ساتھ فتوی نویسی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ مگر جب طلب فتاوی کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھنے لگی تو باضابطہ شعبہ کے قیام کی طرف توجہ ہوئی اور ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ھ میں دارالافتاء کا باضابطہ قیام عمل میں آیا اور حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس اہم خدمت کے لیے منتخب ہوئے۔ حضرت ممدوح اپنے زمانے کہ یگانہٴ روزگار عالم اور زبردست فقیہ ہونے کے علاوہ زہد و تقوی میں بھی امتیازی حیثیت رکھتے تھے ۔ اس وقت سے اب تک اس خدمت پر ایسے حضرات مامور ہوتے رہے جن کو فقہ میں زیادہ سے زیادہ بصیرت حاصل ہوتی تھی۔

دارالافتاء ، دارالعلوم کا نہایت اہم شعبہ ہے اور اس کو روز اول ہی سے مرکزیت حاصل رہی ہے۔ اس سے ملک و بیرون ملک کے علماء و عوام، مختلف مسائل میں رہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ دارالافتاء سے جو فتاوی طلب کیے جاتے ہیں ان میں روزمرہ کے معمولی مسائل کے علاوہ اہم، پیچیدہ اور غور طلب مسائل، پنچایتوں کے فیصلے، عدالتوں کی اپیلیں اور مختلف الاحکام فتاوی کثرت سے ہوتے ہیں۔ دارالافتاء کا فرض ہے کہ وہ سوال کرنے والوں کو پوری تحقیق اور صحت کے ساتھ مسائل شرعیہ بتلائے ۔ دارالافتاء کے فتاوی کو ہر جگہ وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عدالتیں یہاں کے فتاوی کو اہمیت دیتی ہیں۔ عوام کے علاوہ علماء بھی اکثر مسائل میں اس کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس اہمیت و نزاکت کے باوجود دارالافتاء کا کام عام اور خاص مسلمانوں میں ہمیشہ اطمینان اور وقعت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ الحمد للہ یہ شعبہ آج بھی اپنے امتیاز کے ساتھ مصروف عمل ہے۔

دارالافتاء سے گذشتہ تقریباً سوا سو سال کے درمیان صادر ہونے والے فتاوی کی تعداد آٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔ اس وقت ہر سال تقریباً دس ہزار استفتاء ات کے جوابات لکھے جاتے ہیں۔ فتاوی پر کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے۔

فتاوی دارالعلوم : حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی کو کتابی شکل میں مرتب کر کے فتاوی دارالعلوم کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ شروع کی بارہ جلدیں (تا کتاب اللقطہ) حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب کردہ ہیں ۔ ۲۰۰۵ء میں ترتیب فتاوی کا کام دوسری بار شروع ہوا اور حضرت مفتی عزیزالرحمن کے مابقی فتاوی پر کام ہوکر مزید چھ جلدیں مرتب کی گئیں۔ حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب کے علاوہ دیگر حضرات مفتیان کرام کے گران قدر فتاوی بھی دارالافتاء کے رجسٹروں میں محفوظ ہیں جنھیں کمپیوٹر پر محفوظ کیے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

شعبہٴ انٹرنیٹ و آن لائن فتوی

عصر حاضر میں انفارمیشن ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کی حیرت انگیزترقی سے جہاں بہت سارے نت نئے سیاسی ، سماجی اور مذہبی مسائل پیدا ہوئے ہیں، وہیں کمپیوٹر و انٹرنیٹ کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ان وسائل کا استعمال کر کے اسلامی پیغام اور مذہبی تعلیمات کو انتہائی آسانی اور تیزرفتاری کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے وقت کی رفتار کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ۱۴۱۵ھ /۱۹۹۶ء میں ہی شعبہٴ کمپیوٹر کا آغاز کیا اور ملک میں انٹرنیٹ سروس عام ہوتے ہی ۲۰۰۲ء میں انٹرنیٹ سیکشن قائم کیاجو ۱۴۲۶ھ/ ۲۰۰۵ء سے ایک مستقل شعبہ کی شکل میں گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس وقت دارالعلوم کی ویب سائٹ ایشیا، یورپ ، افریقہ ، امریکہ و آسٹریلیا کے تقریباً ہر قابل ذکر ملک میں دیکھی اور پڑھی جاتی ہے اور ماہانہ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد ای میل کے ذریعہ رابطہ کرتے ہیں۔

شعبہٴ انٹرنیٹ کی خدمات کے تین اہم عناوین ہیں: (ا)آن لائن فتوی (۲) آن لائن دعوت (۳) آن لائن رابطہ

آن لائن فتوی : www.darulifta-deoband.com

دارالعلوم دیوبند نے انٹرنیٹ پر ای میل کے ذریعہ آنے والے استفتاء ات کی کثرت کے پیش نظردارالافتاء کے لیے ۲۰۰۷ء میں خصوصی طورپر ایک نئی ویب سائٹ شروع کیا۔دوزبانوں؛ اردو و انگریزی میں یہ ڈاٹا بیس ویب سائٹ دو لسانی فتوی سروس پیش کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ دارالعلوم دیوبندکے شعبہٴ دارالافتاء سے استفتاء کے خواہش مند حضرات اس ویب سائٹ پر آکرسوال کرسکتے ہیں ۔ اب تک اس ویب سائٹ پر تقریباً چالیس ہزار اردو و انگریزی زبانوں میں منتخب جوابات شائع کیے جاچکے ہیں جو ہمیشہ قارئین کے لیے آن لائن موجود رہتے ہیں۔

آن لائن دعوت : www.darululoom-deoband.com

آن لائن دعوت کے تحت دارالعلوم ویب سائٹ پر اسلامی لائبریری کا آغاز کیا گیا ہے جس میں اسلامی عقائد ، اعمال ، تاریخ وغیرہ سے متعلق اہم علمی و دعوتی مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اردو اور عربی میں مختلف اسلامی موضوعات پر مضامین کا ذخیرہ موجود ہے۔ دوسری طرف دارالعلوم کے اردو و عربی ترجمان رسالے ماہنامہ الداعی اور ماہنامہ دارالعلوم ویب سائٹ پر قارئین کے لیے آن لائن شائع کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ای میل سے رابطہ کرنے والوں کو عام اسلامی و دعوتی معلومات و مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ نیز اسلامی موضوعات پر ریسرچ کرنے والوں کی رہ نمائی بھی کی جاتی ہے۔

آن لائن رابطہ : info@darululoom-deoband.com

دارالعلوم کے ای میل کے توسط سے پوری دنیا سے دارالعلوم کے محبین دارالعلوم سے مختلف امور کے لیے رابطہ قائم کرتے ہیں اور انھیں شعبہٴ انٹرنیٹ کے ذریعہ جواب دیا جاتا ہے۔ دارالعلوم میں داخلہ اور دیگر ضروری امور کے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ویب سائٹ پر آن لائن چندہ کا وسیع نظام قائم ہے جس کے ذریعہ دارالعلوم کے معاونین کہیں سے بھی دارالعلوم کو براہ راست چندہ کی رقومات بھیج سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں، دارالعلوم کے درجات عربیہ اور تکمیلات کے امتحانات سالانہ کے نتائج بھی ویب سائٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ دارالعلوم کی خبریں، اہم بیانات کی صوتی ریکارڈنگ بھی ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہے۔ ویب سائٹ پر چار زبانوں میں دارالعلوم کا جامع تعارف بھی موجود ہے۔

شعبہٴ تبلیغ

یہ شعبہ دارالعلوم کی فکری و مسلکی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ شعبہٴ تبلیغ کا قیام ۱۳۴۲ھ / ۱۹۳۴ء میں اس وقت عمل میں آیا جب ہندوستان میں شدھی اور سنگٹھن تحریکوں نے ارتداد کا فتنہ پیدا پھیلا دیا تھا۔ یہ آریہ سماج کی منظم تحریک تھی جس کا مقصد اسلام سے ناواقف سادہ لوح مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ اس مقصد کے پیش سوامی شردھانند نے مسلمانوں کی شدھی کا کام شروع کیا جب کہ ڈاکٹر مونجے نے انھیں مقاصد سے سنگٹھن قائم کیا جو خالص ہندوٴں کی جماعت تھی۔ اس نازک ترین موقع پر دارالعلوم نے وہی کیا جو اس جیسے دینی اور مذہبی ادارے کے شایان شان تھا۔ بحمد اللہ دارالعلوم کی تبلیغی اور دعوتی کوششوں کے نتیجہ میں بے شمار مرتدین تائب ہوکر اسلام میں واپس ہوئے اور لاکھوں سادہ لوح مسلمانوں کی تبدیلیٴ مذہب کے رجحان پر روک لگ گئی۔

اس کے بعد سے آج تک یہ شعبہ دعوت و تبلیغ کے کام میں سرگرم عمل ہے۔ اس شعبہ کو ہمیشہ باصلاحیت علماء وفضلاء کی خدمات حاصل رہیں جو تقریر و مناظرہ اور افہام و تفہیم کے ذریعہ دین کی تبلیغ کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ اس وقت بھی اس شعبہ میں حضرات مبلغین مقرر ہیں جو مختلف علاقوں میں مدارس اور عام مسلمانوں کی دعوت پر سفر کرنے کے علاوہ اقدامی طور پر بھی تبلیغی اسفار کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان حضرات کی مساعی جمیلہ مسلمانوں کو دین اسلام پر ثابت قدم رکھنے اور دارالعلوم سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

شیخ الہند اکیڈمی

شیخ الہند اکیڈمی ، دارالعلوم دیوبند کا تحقیقی و تالیفی شعبہ ہے جس کا قیام علمی منصوبوں کے ذیل میں ۱۴۰۳ھ میں عمل میں آیا۔ اکیڈمی کے بنیادی مقاصد حسب ذیل ہیں:

(۱) حضرات اکابر رحمہم اللہ کے علمی سرمایہ کی حفاظت (۲) حضرات اکابر کی شخصیات اور ہمہ گیر خدمات پر عصر حاضر کے زندہ اسلوب میں تالیفات کی اشاعت کے ذریعہ عام مسلمانوں اور اہل عرب کو روشناس کرانا (۳)مسلک دارالعلوم اور دیگر اسلامی موضوعات پر تحقیقی کتابوں کی اشاعت (۴) طلبہ کو تصنیف و تالیف اور ترجمہ و مضمون نگاری کی تربیت دینا۔

اللہ کا شکر ہے کہ اکیڈ می روز اول ہی سے اپنے نگراں حضرات اور کارکنان کی مساعی کے نتیجہ میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم ہے۔ حضرات اکابر کے علمی سرمایہ کی حفاظت کے سلسلے میں اکیڈمی کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ ان کی عبارت میں کسی ترمیم کے بغیر رموز املاء کے اہتمام اور ضروری حواشی کے ذریعہ ان کی تسہیل اور طباعتی اغلاط سے پاک طباعت کی کوشش کی جائے۔ نیز، دیگر موضوعات پر اکیڈمی کتابیں تیار کراتی ہے یا تیار شدہ مسودات پیش کیے جائیں اور اکیڈمی کے مقصد سے ہم آہنگ اور اکیڈمی کے معیار کے مطابق ہو تو ان کا خیر مقدم کرتی ہے اور مجلس شوری کی اجازت کی بعد ان کی اشاعت عمل میں آتی ہے۔ اب تک اکیڈمی سے تقریباً تین درجن معیاری عربی اور اردو کتابیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں جن میں سے کچھ مشہور کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں: (۱) شوری کی شرعی حیثیت (۲) اشاعت اسلام (۳) تفہیم القرآن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (۴) ادلہٴ کاملہ (۵) ایضاح الادلہ (۶)خیرالقرون کی درس گاہیں (۷) ائمہ اربعہ (۸) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات اور کارنامے (۹)حضرت گنگوہی: حیات اور کارنامے(۱۰) حضرت شیخ الہند: حیات اور کارنامے(۱۱) مجموعہٴ ہفت رسائل حضرت نانوتوی (۱۲) تذکرة النعمان (۱۳) آئینہٴ حقیقت نما (۱۴) تقریر دل پذیر (۱۵) مقالات حبیب (۱۶)علماء دیوبند : اتجاھھم الدیني و مزاجھم المذھبي (۱۷) علماء دیوبند و خدماتھم في علم الحدیث (۱۸) بحوث في الدعوة (۱۸) لآلي منثورة (۱۹) الاسلام والعقلانیة (۲۰) محاورات فی الدین (۲۱) حجة الاسلام (۲۲)ردود علی اعتراضات موجھة الی الاسلام (۲۳) الفتنة الدجالیة (۲۴) تحریک ریشمی رومال انگریزی وغیرہ ۔

اس شعبہ کے ذریعہ فضلائے دارالعلوم کو اساتذہ کی نگرانی میں مضمون نگاری اور صحافت کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ دارالعلوم کے دورہٴ حدیث یا تکمیلات سے فارغ طلبہ کو ایک سال کے لیے اردو صحافت اور مضمون نگاری سکھائی جاتی ہے۔

کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت

مرزا غلام احمد قادیانی کے پھیلائے ہوئے فتنہٴ ارتداد کی سرکوبی اور تعاقب میں اکابرین دارالعلوم اور علمائے دیوبند نے سنہری خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے بعد اس فتنہ نے پوری قوت کے ساتھ پاکستان میں سراٹھایا۔ چناں چہ وہاں کے علماء و مسلم قائدین نے پاکستانی پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد اس فتنہ نے دوبارہ ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ ہندوستان میں پاؤں پھیلانا شروع کیا۔ چناں چہ دارالعلوم اپنی روایت کے مطابق اس کی بیخ کنی کے لیے میدان میں آیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ۲۹ تا ۳۱/ اکتوبر ۱۹۸۶ء میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت منعقد ہوا۔ اس کے بعد کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں آیا تاکہ اس فتنہ کا مسلسل اور کامیاب تعاقب کیا جاسکے۔ یہ مجلس اس وقت سے پورے ملک میں نہایت سرگرمی کے ساتھ مصروف عمل ہے۔

تربیتی کیمپ: مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملک کے ایسے مقامات پر جہاں قادیانی فتنہ کسی شکل میں موجود تھا وہاں کے علماء و ائمہ کو اس فتنہ کی دسیسہ کاریوں اور تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے کے لیے تربیتی کیمپوں کا سلسلہ شروع کیا ۔ سب سے پہلے حضرت مولانا محمد اسماعیل کٹکی  کی سرپرستی میں دارالعلوم دیوبند میں ۱۹۸۸ء میں دس روزہ تربیتی کیمپ منعقد کیا جس میں بہت سارے علماء نے رد قادیانیت پر تربیت حاصل کی۔ دارالعلوم نے دوسرا تربیتی کیمپ ۱۹۹۰ء میں مشہور عالم حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی (پاکستان) کی زیر تربیت منعقد کیا۔ اس کے علاوہ اب تک مختلف صوبوں اور علاقوں میں پانچ روزہ و سہ روزہ تربیتی کیمپ منعقد کیے گئے؛ مثلاً فیروزآباد (یوپی)، گوہاٹی ، میل پالم (تمل ناڈو)، الوائی (کیرالہ) بھاگل پور(بہار) ، بنگلور ، کلکتہ ، مرشد آباد (بنگال) ، ندیا (بنگال)، ۲۴ پرگنہ (بنگال)، اجمیر (راجستھان) ، ہاپوڑ (یوپی) ، کان پور (یوپی) اور پڑوسی ملک نیپال میں تربیتی کیمپ لگائے جاچکے ہیں جن کی تعداد ۱۰۶/ ہے۔

ہر سال تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں خصوصی تعلیم و تربیت کے لیے چار طلبہ کا داخلہ لیا جاتا ہے جنھیں ردّّقادیانیت کے متعلق کتابوں کے مطالعہ کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی تربیت دی جاتی ہے۔ شعبہ کی طرف سے دورہٴ حدیث اور تکمیلات سے فارغ ہونے والے طلبہ اور دیگر مدارس کے فارغین کے لیے ہر سال ماہ شعبان میں پانچ روزہ تربیتی کیمپ بھی لگایا جاتا ہے۔ نیز، مدارس و معاہد کے اساتذہ و مبلغین کے لیے دارالعلوم میں ہی وقتاً فوقتاً خصوصی تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔

اجتماعات اور کانفرنسیں: مجلس تحفظ ختم نبوت کے قیام کے بعد ہی سے مجلس کی طرف سے یا اس کی نگرانی میں یوپی، بہار، مغربی بنگال، پنجاب، آندھرا پردیش، ہریانہ، ہماچل پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، تمل ناڈو، آسام، میگھالیہ، راجستھان، کیرالہ، جموں و کشمیر اور نیپال میں بہت سے چھوٹے بڑے جلسے اور اجتماعات ہوئے جن کی تعداد تقریباً سوا دو سو ہے۔ خصوصاً ۱۴/ جون ۱۹۹۷ء کو دہلی کے اردو پارک میں تاریخی تحفظ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اسی طرح، ۲۰ جون ۱۹۹۸ء کو دہلی ہی میں تحفظ ختم نبوت کی دوسری بڑی کانفرنس منعقد ہوئی۔ علاوہ ازیں متاثرہ علاقوں میں خصوصی میٹنگوں اور دوروں کا اہتمام کیا گیا۔

نیز، قادیانی پرچارک کبھی کبھی مناظرے اور مباحثے کا چیلنج بھی کرتے ہیں۔ مجلس نے اب تک بہت سارے مقامات پر قادیانی پرچارکوں کا تعاقب کیا، کم از کم ۲۴/ مقامات پر قادیانی یا تو مباحثہ میں لاجواب ہوگئے یا چیلنج دے کر روپوش ہوگئے۔ دوسری طرف مجلس کی خدمات کا تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی مساعی سے مختلف علاقوں اور گھرانوں کے سیکڑوں قادیانیوں کو توبہ کی توفیق ملی ۔

شعبہٴ تحفظ سنت

بر صغیر میں غیر مقلدیت تقریباً دو سو سال پہلے سے موجود تھی اور علماء دیوبند کو ابتدا ہی سے غیر مقلدین سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ لیکن ادھر خلیجی عرب ممالک میں تیل کی دریافت کے بعدغیر مقلدین نے نام نہاد سلفیت کا لبادہ اوڑھ کر عرب عوام اور علماء کو علمائے دیوبند اور احناف کے سلسلہ میں ورغلانا شروع کردیا، تا آں کہ یہ اس صدی کا ایک بڑا فتنہ بن گیا اور مسلم نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے دام فریب میں آکر علمائے سلف اور فقہاء کی شان میں گستاخی کرنے لگا۔ چناں چہ دارالعلوم نے اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے طلبہ کے لیے رد غیر مقلدیت کے عنوان سے محاضرات کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۴۲۷ھ /۲۰۰۶ء میں شعبہٴ تحفظ سنت قائم ہوا۔ اس شعبہ کے ذریعہ ردّغیر مقلدیت کے تعاقب کے سلسلے میں منتخب طلبہ کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

شعبہٴ مطالعہ ٴعیسائیت و دیگر مذاہب

دارالعلوم دیوبند ایسے وقت قائم ہوا تھا جب ملک مکمل طور پر عیسائیوں کے قبضہ میں جاچکا تھا اور انگریز اپنے اقتدار و حکومت کے نشہ میں کہیں بزور قوت اور کہیں بزور دولت ہندوستانی مسلمانوں کے دین و مذہب پر حملہ آور ہورہے تھے۔ انگریزوں کے تربیت یافتہ پادری ملک کے گوشہ گوشہ میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے پھرتے اور کھلم کھلا اسلام پر اعتراضات کرتے تھے۔ ایسے پرآشوب حالات میں فتنہٴ عیسائیت سے ٹکر لینے کے دارالعلوم کے اکابر علماء اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان حضرات نے تحریری و تقریری دونوں میدانوں میں عیسائی مشنریوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور ہندوستان کو عیسائی ملک بنانے کے ان کے ناپاک ارادہ پر پانی پھیر دیا۔

کم و بیش ایک صدی کے بعد عیسائیت کا فتنہ دوبارہ سر اٹھانے لگا اور ہندوستان کے طول و عرض سے تشویشناک خبریں دارالعلوم پہنچنے لگیں تو دارالعلوم کی مجلس شوری نے اجلاس صفر ۱۴۱۹ھ /۱۹۹۹ء میں فتنہٴ عیسائیت کے تعاقب کی خاطر رد عیسائیت کمیٹی تشکیل دی جسے بعد میں شعبہ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس شعبہ میں کچھ فضلائے دارالعلوم کو با ضابطہ داخلہ دے کر اس موضوع پر تیار کیا جاتا ہے۔

اس شعبہ کے ذریعہ عیسائیت کے مختلف موضوعات پر تحقیقی کتابچے اور رسائل بھی ترتیب دیے گئے جس میں عیسائیوں کے لچر اعتراضات اور معاندانہ شبہات کے تحقیقی و الزامی جوابات دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی عام مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی حفاظت کے لیے دلائل بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ضرورت کے پیش نظر کتابچوں اور رسائل کا انگریزی اور ہندی میں ترجمہ بھی شائع کیا گیا۔

اسی طرح ملک میں مختلف مقامات پر کیمپ لگاکر رجال کار کی تیاری کا کام بھی انجام دیا گیا۔ اس سلسلے میں ۱۴۲۲ھ میں دارالعلوم میں دو روزہ تربیتی کیمپ لگایا گیا جس سے بنگال، بہار، راجستھان، کشمیر، آندھراپردیش، کرناٹک، تامل ناڈو، آسام، پنجاب اور اترپردیش وغیرہ کے ڈیڑھ سو سے زیادہ علماء و فضلاء نے استفادہ کیا۔ شعبہ کی طرف سے حسب ضرورت متاثرہ مقامات پر مبلغین و واعظین بھیج کر اصلاح حال کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

شعبہٴ محاضرات علمیہ

دارالعلوم دیوبند اپنی مرکزیت کے پیش نظر دین و مذہب کے ہر شعبہ میں باصلاحیت افراد تیار کرنا اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہے۔ امت مسلمہ کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے جو نت نئے باطل نظریات اور فتنے پیدا ہوتے ہیں ، اس سلسلہ میں دارالعلوم نے اپنی ذمہ داری محسوس کی کہ فرزندان دارالعلوم کو امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء میں طلبہ کی تربیت کا ایک سلسلہ ’محاضرات علمیہ ‘کے عنوان سے شروع کیا گیا جس میں اس وقت سات موضوعات پر طلبہ کو تربیت دی جارہی ہے۔وہ موضوعات درج ذیل ہیں: (۱)ہندومت (۲) عیسائیت (۳)شیعیت (۴)قادیانیت (۵) غیر مقلدیت (۶)بریلویت(۷) مودودیت۔

ہر موضوع پر سال بھر میں متعدد محاضرے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہر موضوع کے لے الگ الگ اساتذہ متعین ہیں جو متعلقہ موضوع پر تیار شدہ مقالہ پیش کرتے ہیں۔ محاضرات میں صرف دورہٴ حدیث سے فارغ شدہ (افتاء وتکمیلات کے) طلبہ شرکت کرتے ہیں جن کی تعداد سوا دو سو کے قریب رہتی ہے۔ ہر جمعرات کو بعدنماز ظہر دو گھنٹہ طلبہ کے سامنے مقالہ پیش کیا جاتا ہے۔ ہر ہفتہ ایک موضوع کا مقالہ پیش ہوتا ہے۔ دوران مقالہ بھی سوالات وجوابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح طلبہ کو ان موضوعات سے بصیرت کے ساتھ واقفیت ہوجاتی ہے اور عقائد حقہ اور باطل نظریات کے درمیان فرق کرنا اور عام مسلمانوں کی رہ نمائی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

دفتر ماہنامہ دارالعلوم

دارالعلوم نے تحریر و صحافت کی اہمیت اور اس راہ سے اسلامی تعلیمات، علوم اکابر اور مسلک صحیح کی اشاعت کی ضرورت کو ہر دور میں پیش نظر رکھا۔چناں چہ اولاً علمائے دیوبند کے علوم و معارف اور مضامین عام مسلمانوں تک پہنچانے اور عوام الناس کو دین کے صحیح عقائد و مسائل سے باخبر رکھنے کے لیے ۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰ء میں ہی حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اکابر علماء کی نگرانی میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام نامی سے منسوب ’القاسم ‘کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا گیا۔ ماہنامہ القاسم علمی اور تاریخی مضامین کی اشاعت کے علاوہ دارالعلوم کے مقاصد اور اس کی دینی و علمی خدمات سے بھی عام مسلمانوں کو روشناس کرانے کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اس لیے اس کا اجراء دارالعلوم کے مصارف سے ہونا چاہئے تھا، مگر ابتدا میں دارالعلوم کو مصارف سے بچانے کے لیے حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اپنے ذاتی مصارف سے چلایا اور ۱۳۳۱ء میں اس کا تعلق دارالعلوم سے باضابطہ قائم کردیا گیا اور دارالعلوم نے اس کو اپنی تحویل میں لے کر شائع کرنا شروع کیا۔ یہ رسالہ ۱۳۳۹ھ میں بند ہوگیا۔ اسی طرح ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴ء میں ایک دوسرے رسالہ ماہنامہ الرشید کا اجراء عمل میں آیا جو ۱۳۳۹ھ تک شائع ہوکر بند ہوگیا۔ ماہنامہ القاسم ۱۳۴۴ھ میں دوبارہ شروع کیا گیا، لیکن محرم ۱۳۴۷ھ تک شائع ہوکر پھر بند ہوگیا۔

بلاشبہ ان دونوں رسالوں نے نہایت معیاری انداز میں اپنا فرض ادا کیا۔ القاسم اور الرشید نے مسلمانوں کی گراں قدر علمی خدمات انجام دی ہیں اور اہم معلومات کے ذخائر بہم پہنچائے ہیں۔ ان رسائل کے بند ہونے کے بعد مختلف اسباب و عوامل کے تحت پیہم ایسے حالات پیش آتے رہے کہ ایک عرصہ تک کوئی رسالہ جاری نہ ہوسکا۔

آخر کار مخلصین و متوسلین کی جانب سے مسلسل ایک ماہنامہ کے اجرا کے لیے اصرار پر دارالعلوم نے دوبارہ جمادی الاولی ۱۳۶۰ء /۱۹۴۱ء میں ’دارالعلوم ‘ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا۔ یہ رسالہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہوا الحمد للہ آج بھی جاری بلکہ رو بترقی ہے۔ عصر حاضر کے معیار کے مطابق یہ رسالہ کمپیوٹر کتابت کے ساتھ آفسیٹ پریس پر طبع ہوتا ہے۔

علمی و اصلاحی مضامین اور مختلف دینی و سیاسی موضوعات پر پرمغز اور وقیع تحریریں اور اداریے اس رسالہ کی خصوصی امتیاز ات میں سے ہیں۔رسالہ دارالعلوم کے دفتری امور کی دیکھ بھال کے لیے مستقل دفتر قائم ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے رسالہ دارالعلوم کی ویب سائٹ پر آن لائن بھی شائع ہورہا ہے۔

 دفتر مجلہ الداعی

عربی زبان اسلام کی مذہبی اور رسمی زبان ہے اور دارالعلوم عربی ادارہ ہے؛ اس لیے قدرتاً یہ بات ضروری تھی کہ دارالعلوم عربی میں اپنا کوئی ترجمان رسالہ جاری کرے تاکہ دارالعلوم کے احوال و کوائف اور مسلک حقہ سے عربوں کو انھیں کی فصیح و بلیغ زبان میں روشناس کرایا جاسکے۔ اس مقصد کے تحت سب سے پہلے ۱۳۸۴ء /۱۹۶۵ء میں ایک سہ ماہی عربی مجلہ ’دعوة الحق‘ کے نام سے نکالا گیا۔ دعوة الحق برصغیر کے عربی مدارس کے علاوہ عرب ممالک میں بھی دل چسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ بعد میں پھر ۱۳۹۷ء /۱۹۷۶ء میں اس رسالہ کی جگہ مجلة الداعی کا اجراء عمل میںآ یا۔ ابتدا سے یہ رسالہ پندرہ روزہ تھا، ۱۴۱۴ھ میں ماہانہ کردیا گیا۔

مجلہ الداعی عربی صحافت و ادب اور علم و تحقیق کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے اداریے ، اشراقے اور دیگر تحریریں عالم عرب میں بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ ماہنامہ الداعی اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں کے اعتبار سے ملک و بیرون ملک کے اسلامی مجلات میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ماہنامہ الداعی کے دفتری امور کی دیکھ بھال کے لیے مستقل دفتر قائم ہے جہاں مجلہ کی طباعت و ترسیل، خریداروں کے ریکارڈ کی دیکھ بھال وغیرہ جیسے امور انجام پاتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے مجلہ دارالعلوم کی ویب سائٹ پر آن لائن بھی شائع ہورہا ہے۔

رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ

دارالعلوم کے قیام کے بعد علمائے دیوبند کی کاوشوں سے ہندوستان و بیرون ہند میں دارالعلوم کے طرز پر ہزاروں مدارس عربیہ قائم ہوئے۔ یہ مدارس فکری اور مسلکی اعتبار سے دارالعلوم دیوبند سے مربوط رہے ہیں اور دارالعلوم ہی انھیں آب حیات فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن مدارس کا کوئی باضابطہ بورڈ یا وفاق نہیں تھا جس کے فلیٹ فارم سے مدارس کے اجتماعی مفاد اور مسائل و مشکلات کے حل پر غور و خوض کیا جاسکے۔ ادھر ہندوستان میں مختلف داخلی اور خارجی عوامل کی بنیاد پر ایسے حالات پیدا ہوتے گئے کہ مدارس کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ دوسری طرف مدارس کے نصاب و نظام پر بھی انگلیاں اٹھائی جانے لگیں اور نصاب میں جدید علوم کی شمولیت کی تجویزیں آنے لگیں۔

ان نازک حالات میں دارالعلوم نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور ۲۰ ،۲۱ محرم ۱۴۱۵ھ /جون ۱۹۹۵ء کو ملک گیر پیمانے پر ارباب مدارس کا نمائندہ اجتماع بلایا۔ مدارس عربیہ کے معیار تعلیم و تربیت کو بلند کرنے اور دینی معاہد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دو ہزار بڑے عربی مدارس کے نمائندگان کی تجویز سے دارالعلوم میں کل ہند رابطہ مدارس عربیہ کا مرکزی دفتر قائم کیا گیا۔ رابطہ مدارس عربیہ کے درج ذیل اغراض و مقاصد طے کیے گئے:

(۱) مدارس اسلامیہ عربیہ کے نظام تعلیم و تربیت کو بہتر بنانا

(۲) اتحاد و ہم آہنگی کو فروغ دینا اور روابط کو مستحکم کرنا

 (۳) مدارس کے تحفظ و ترقی کے لیے صحیح اور موٴثر ذرائع اختیار کرنا

(۴) ضرورت کی جگہوں پر مدارس و مکاتب کا قائم کرنا

(۵) بوقت ضرورت نصاب تعلیم میں کسی جزوی ترمیم و تسہیل پر غور کرنا

 (۶) اسلامی تعلیم اور اس کے مراکز کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور سازشوں پر نظر رکھنا

 (۷) مسلم معاشرہ کی اصلاح اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ سے اب تک ملک کے تقریباً تمام ہی صوبہ جات کے تین ہزار سے زائد مدارس مربوط ہو چکے ہیں۔ ان میں دارالعلوم کے نصاب کے پابند ہرصوبہ کے بڑے اور کلیدی ادارے شامل ہیں۔ رابطہ کی تمام اہم صوبہ جات میں صوبائی شاخیں قائم ہیں۔ ہر صوبہ میں ایک صدر مقرر ہیں۔ رابطہ کے امور کی انجام دہی کے لیے ایک ۵۱ رکنی مجلس عاملہ ہے جو حضرات اراکین شوری دارالعلوم، اساتذہ علیا دارالعلوم اور ملک کے اہم علماء پر مشتمل ہے۔ رابطہ کی ایک مجلس عمومی ہے جو حضرات اراکین شوری، پندرہ اساتذہٴ دارالعلوم اور ہر مدرسہ کے ایک ایک نمائندہ پر مشتمل باڈی ہے۔

 رابطہ کی مجلس عمومی کا پہلا اجلاس ۱۶ صفر ۱۴۲۳ھ/ مئی ۲۰۰۲ء کو ہوا جس میں رابطہ کے دستور العمل (آئین) کو منظور کیا گیا۔

رابطہ کے مقاصد میں مدارس کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا تعاقب بھی شامل ہے۔ گزشتہ برسوں میں فرقہ پرست عناصر کی جانب سے دینی مدارس کو ہدف تنقید بنایا جارہا تھا اور ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے تھے۔ کبھی مدارس کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا جاتا اور کبھی دہشت گردی کا اڈہ، کبھی خود حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات کیے گئے جن سے مدارس کے نظام کو خطرات لاحق ہوگئے۔ چناں چہ دارالعلوم نے ایسے موقعہ پر کل ہند مدارس کا اجتماع بلا کر صورت حال کا جائزہ لیا اور اس کے تدارک و تعاقب کا لائحہٴ عمل طے کیا۔ الحمد للہ دارالعلوم کا یہ طریقہٴ کار کامیاب رہا اور مدارس کے تئیں فرقہ پرست عناصر کی سازشیں ناکامی کا شکار ہوئیں اور خود حکومت کو بھی مسلم رائے عامہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑا۔

اب تک رابطہ مدارس عربیہ کی طرف سے ایسے دسیوں بڑے اجتماعات نیز مجلس عاملہ کے متعدد اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔ ان اجلاسوں میں نصاب تعلیم، طریقہٴ تدریس، نظام تربیت، مدارس کے مابین ربط کے استحکام ، تحفظ ختم نبوت، مدارس اسلامیہ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کی مذمت، اصلاح معاشرہ اور اسلام کی حفاظت میں مدارس کے کردار، تدریب المعلمین، اصلاح معاشرہ کی اہمیت، مدارس کے بارے میں حکومت کی منفی پالیسی اور مدارس اسلامیہ کے داخلی نظام اور عصری اداروں میں دینی تعلیم ، تحفظ سنت اور مسلک حق کے دفاع کے حوالے سے تقریباً پچاس تجاویز منظور ہوچکی ہیں۔ ان تجاویز سے مدارس کے نظام تعلیم و تربیت کو فعال و بہتر بنانے اور مسائل ومشکلات کے حل میں بڑی مدد ملی ہے۔

۱۹۹۸ء میں اتر پردیش حکومت نے مذہبی عمارات و مقامات ریگولیشن بل پاس کرکے عوام بالخصوص مسلمانوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی ناروا سعی کی تو دارالعلوم نے ۱۲ نومبر ۱۹۹۸ء کو ملک گیر اجلاس بلا کر اس کی سخت مذمت کی اور بحمد اللہ یہ بل سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح جب یوپی کی حکومتی تعلیم گاہوں میں وندے ماترم گیت پڑھنا ایک آرڈیننس کے ذریعہ لازم کیا گیا تو اس موقع پر بھی دارالعلوم نے کل ہند اجتماع بلا کر سخت رد عمل ظاہر کیا اور آخر کار حکومت کو یہ آرڈیننس واپس لینا پڑا۔

ان اجتماعات میں سب سے اہم فروری ۲۰۰۸ء کی دہشت گردی مخالف کانفرنس تھی جس میں ملک کی ہر جماعت اور مدرسہ کے نمائندوں سمیت بیس ہزار سے زائد علماء نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس سے ملک و بیرون ملک میں نہایت مثبت پیغام پہنچا اور اس کے دور رس اثرات سامنے آئے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کردہ ’مرکزی مدرسہ بورڈ‘ کی تجویز کے خلاف بھی رابطہ مدارس عربیہ نے اپنے کل ہند اجتماع میں آواز اٹھائی اور متحد ہوکر اس کا بائیکاٹ کرنے کا عزم کیا۔ آخر کار حکومت نے بھی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کیا۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ یعنی حق تعلیم ایکٹ اور ڈائریکٹ ٹیکسز کوڈ کے خلاف بھی موٴثر آواز اٹھائی گئی کیوں کہ ان قوانین کی وجہ سے یا تو مدارس کا وجود خطرے میں پڑتا نظر آرہا تھا یا ان کی کارکردگی متاثر ہورہی تھی۔

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے تحت ہر تین سال میں مجلس عمومی کا اور ہر سال مجلس عاملہ کا اجلاس ہوتا ہے اور مدارس کو درپیش داخلی و خارجی مسائل پر اجتماعی غور و خوض کے بعد اس کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔

شعبہٴ ترتیب فتاوی

فتاوی کا کام دارالعلوم کے قیام سے ہی شروع ہوچکا تھا ، لیکن دارالافتاء کا باضابطہ قیام ۱۳۱۰ھ /۱۸۹۲ء میں ہوا۔ ابتدا میں فتاوی کی نقول رکھنے کا معمول نہیں تھا۔ ۱۳۲۹ھ /۱۹۱۲ء سے فتاوی کی نقول رکھنے کا قاعدہ مقرر ہوا۔ اس لیے دارالعلوم کے ۴۷ سال کے فتاوی کی نقول موجود نہیں ہیں۔

ترتیب فتاوی کا پہلا مرحلہ ۱۳۷۴ھ سے شروع ہوا جب حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تجویز پر اس سلسلہ کا آغاز ہوا۔ مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف مفتی اول حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی کو مرتب کیا جو فتاوی دارالعلوم کے نام سے بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ فتاوی دارالعلوم کی پہلی جلد ۱۳۸۲ھ میں شائع ہوئی۔ان بارہ جلدوں میں کتاب الطہارة سے کتاب اللقطہ تک کے مسائل فقہی ترتیب پر مرتب کیے گئے ہیں۔ کتاب اللقطہ سے ترتیب کا کام موقوف ہوگیا تھا۔

ترتیب فتاوی کا دوسرا مرحلہ ۱۴۲۴ھ /۲۰۰۵ء میں رکن شوری حضرت مولانا بدر الدین اجمل کی تحریک پر شروع ہوا۔ مجلس شوری کی منظوری کے بعد کتاب اللقطہ سے ترتیب فتاوی کا کام دوبارہ شروع کیا گیا اور حضرت مفتی عزیز الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی فقہی ترتیب سے مرتب ہوکر مزید چھ جلدوں (کل اٹھارہ جلدوں) میں مکمل ہوئے۔ ترتیب فتاوی کے لیے مستقل دفتر قائم ہے ۔

دارالافتاء کے فتاوی کے سیکڑوں رجسٹروں کی کمپوزنگ، کوڈنگ اور ترتیب کا کام شعبہٴ کمپیوٹر کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی کے علاوہ دیگر مفتیان کرام کے فتاوی بھی کمپیوٹر پر ٹائپ ہو کر محفوظ ہو رہے ہیں۔ دارالافتاء کے سو سال سے زیادہ کا ریکارڈ بارہ سو رجسٹروں میں موجود ہے جس کے کاغذ مرور زمانہ کی وجہ سے بوسیدہ ہوتے جارہے تھے؛ اس لیے جدید ٹکنالوجی کی مدد سے انھیں کمپیوٹر پر محفوظ کیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اب تک حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ حضرت مفتی شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اعزاز علی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مفتیان کرام کے رجسٹر ٹائپ کیے جاچکے ہیں۔