علمی حیثیت سے علمائے دیوبند کی ولی اللّٰہی جماعت ’اہل السنة والجماعة‘ ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت اور اجماع و قیاس پر قائم ہے، اس کے نزدیک تمام مسائل میں اول درجہ نقل و روایت اور آثار سلف کو حاصل ہے، جس پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہوئی ہے، اس کے یہاں کتاب و سنت کی مرادات محض قوت مطالعہ سے نہیں بلکہ اقوال سلف اور ان کے متوارث مذاق کی حدود میں محدود رہ کر نیز اساتذہ اور شیوخ کی صحبت و ملازمت اور تعلیم وتربیت ہی سے متعین ہوسکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ عقل و درایت اور تفقہ فی الدین بھی ا س کے نزدیک فہم کتاب وسنت کا ایک بڑا اہم جز ہے، وہ روایات کے مجموعے سے شارع علیہ السلام کی غرض و غایت کو سامنے رکھ کر تمام روایات کو اسی کے ساتھ وابستہ کرتا ہے، اور سب کو درجہ بدرجہ اپنے اپنے محل پر اس طرح چسپاں کرتا ہے کہ وہ ایک ہی زنجیر کی کڑیاں دکھائی دیں؛ اس لئے جمع بین الروایات اور تعارض کے وقت تطبیق احادیث اس کا خاص اصول ہے، جس کا منشاء یہ ہے کہ وہ کسی ضعیف سے ضعیف روایت کو بھی چھوڑنا اور ترک کردینا نہیں چاہتا جب تک کہ وہ قابل احتجاج ہو، اسی بنا پر اس جماعت کی نگاہ میں نصوص شرعیہ کسی بھی تعارض اور اختلاف سے مبرا رہ کر ایک ایسا گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں ہررنگ کے علمی و عملی پھول اپنے اپنے موقع پر کھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسی کے ساتھ بطریق اہل سلوک (جو رسمیات اور رواجوں اور نمائشی حال و قال سے مبرا اور بری ہے) تزکیہٴ نفس اور اصلاح باطن بھی اس کے مسلک میں ضروری ہے، اس نے اپنے منتسبین کو علم کی رفعتوں سے بھی نوازا اور عبدیت و تواضع جیسے انسانی اخلاق سے بھی مزین کیا، اس جماعت کے افراد ایک طرف علمی وقار، استغناء (علمی حیثیت سے) اور غناء نفس (اخلاقی حیثیت سے) کی بلندیوں پر فائز ہوئے، وہیں فروتنی، خاکساری اور ایثار و زہد کے متواضعانہ جذبات سے بھی بھرپور ہوئے، نہ رعونت اور کبر و نخوت کا شکار ہوئے اور نہ ذلت نفس اور مسکنت میں گرفتار۔ وہ جہاں علم و اخلاق کی بلندیوں پر پہنچ کر عوام سے اونچے دکھائی دینے لگتے ہیں وہیں عجز و نیاز، تواضع وفروتنی اور لا امتیازی کے جوہروں سے مزین ہوکر عوام میں ملے جلے اور کأحد من الناس بھی رہے۔ جہاں وہ مجاہدہ و مراقبہ سے خلوت پسند ہوئے وہیں مجاہدانہ اور غازیانہ اسپرٹ نیز قومی خدمت کے جذبات سے جلوہ آرا بھی ثابت ہوئے۔ غرض علم و اخلاق ، خلوت و جلوت اور مجاہدہ و جہاد کے مخلوط جذبات و دواعی سے ہردائرہٴ دین میں اعتدال اور میانہ روی ان کے مسلک میں ان کی امتیازی شان بن گئی، جو علوم کی جامعیت اور اخلاق کے اعتدال کا قدرتی ثمرہ ہے۔ اسی لئے ان کے یہاں محدث ہونے کے معنیٰ فقیہ سے لڑنے یا فقیہ ہونے کے معنیٰ محدث سے بیزار ہوجانے یا نسبتِ احسانی (تصوف پسندی) کے معنیٰ متکلم دشمنی یا علم کلام کی حذاقت کے معنیٰ تصوف بیزاری کے نہیں بلکہ ان کے جامع مسلک کے تحت اس تعلیم گاہ کا فاضل درجہ بدرجہ بیک وقت محدث، فقیہ، مفسر، مفتی، متکلم، صوفی (محسن) اورحکیم و مربی ثابت ہوا، جس میں زہد و قناعت کے ساتھ عدم تقشف، حیا و انکساری کے ساتھ عدم مداہنت،ر أفت و رحمت کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، قلبی یکسوئی کے ساتھ قومی خدمت اور خلوت در انجمن کے ملے جلے جذبات راسخ ہوگئے۔ ادھر علم و فن اور تمام ارباب علوم و فنون کے بارے میں اعتدال پسندی، حقوق شناسی اور ادائیگی حقوق کے جذبات ان میں بطور جوہر نفس پیوست ہوگئے۔ بنابریں دینی شعبوں کے تمام ارباب فضل و کمال اور راسخین فی العلم خواہ محدثین ہوں یا فقہاء ، صوفیاء ہوں یا عرفاء ، متکلمین ہوں یا اصولیین، امراء اسلام ہوں یا خلفاء ، ان کے نزدیک سب واجب الاحترام اور واجب العقیدت ہیں۔ جذباتی رنگ سے کسی طبقے کو بڑھانا اور کسی کو گرانا یا مدح و ذم میں حدودِ شرعیہ سے بے پروا ہوجانا اس جماعت کا مسلک نہیں۔ اس جامع طریق سے دارالعلوم نے اپنی علمی خدمات سے شمال میں سائبیریا سے لے کر جنوب میں سماٹر ا اور جاوا تک اور مشرق میں برما سے لے کر مغربی سمتوں میں عرب اور افریقہ تک علوم نبویہ کی روشنی پھیلادی جس سے پاکیزہ اخلاق کی شاہراہیں صاف نظر آنے لگیں۔
دوسری طرف سیاسی اور ملکی خدمات سے بھی اس کے فضلاء نے کسی وقت بھی پہلو تہی نہیں کیا حتیٰ کہ ۱۸۰۳ء سے ۱۹۴۷ء تک اس جماعت کے افراد نے اپنے اپنے رنگ میں بڑی سے بڑی قربانیاں پیش کیں جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں، کسی وقت بھی ان بزرگوں کی سیاسی اورمجاہدانہ خدمات پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا، بالخصوص تیرہویں صدی ہجری کے نصف آخر میں مغلیہ حکومت کے زوال کی ساعتوں میں خصوصیت سے حضرت شیخ المشائخ مولانا حاجی امداداللہ صاحب قدس سرہ کی سرپرستی میں ان کے دو مریدان خاص حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب اور ان کے منتسبین اور متوسلین کی مساعی انقلاب، جہادی اقدامات اورحریت و استقلال ملی کی فداکارانہ جد و جہداور گرفتاریوں کے وارنٹ اور قید و بند وغیرہ وہ تاریخی حقائق ہیں جو نہ جھٹلائی جاسکتی ہیں نہ بھلائی جاسکتی ہیں۔ جو لوگ ان حالات پر محض اس لیے پردہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ خود اس راہ سرفروشی میں قبول نہیں کئے گئے تو اس سے خود ان ہی کی نامقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ اس بارے میں ہندوستان کی تاریخ سے باخبرحضرات اور ارباب تحقیق کے نزدیک ایسی تحریریں خواہ وہ کسی دیوبندی النسبت کی ہوں یا غیر دیوبندی کی جن سے ان بزرگوں کی ان جہادی خدمات کی نفی ہوتی ہو ناقابل توجہ اور قطعاً ناقابل التفات ہیں، اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو ان تحریرات کی زیادہ سے زیادہ توجیہ صرف یہ کی جاسکتی ہے کہ ایسی تحریریں وقت کے مرعوب کن عوامل کے نتیجے میں محض ذاتی حد تک حزم و احتیاط کا مظاہرہ ہیں، ورنہ تاریخی اور واقعاتی شواہد کے پیش نظر نہ ان کی کوئی اہمیت ہے نہ وہ قابل التفات ہیں۔ ان خدمات کا سلسلہ مسلسل آگے تک بھی چلا اور انھیں متوارث جذبات کے ساتھ ان بزرگوں کے اخلاف رشید بھی سرفروشانہ انداز سے قومی اور ملی خدمات کے سلسلے میں آگے آتے رہے، خواہ وہ تحریک خلافت ہو یا استخلاص وطن کی جد وجہد، انھوں نے بروقت ان تمام انقلابی اقدامات میں اپنے منصب کے عین مطابق حصہ لیا۔
مختصر یہ کہ علم و اخلاق کی جامعیت اس جماعت کا طرہٴ امتیاز رہا اور وسعت نظری، روشن ضمیری اور رواداری کے ساتھ دین وملت اور قوم و وطن کی خدمت اس کا مخصوص شعار، لیکن ان تمام شعبہ ہائے زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت اس جماعت میں علومِ نبوت کی تعلیم و تعلم کو حاصل رہی ہے، جب کہ یہ تمام شعبے علم ہی کی روشنی میں صحیح طریق پر بروئے کار آسکتے تھے اور اسی پہلو کو اس نے نمایاں رکھا اس لئے اس مسلک کی جامعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ جامع علم و معرفت، جامع عقل و عشق، جامع عمل و اخلاق، جامع مجاہدہ و جہاد، جامع دیانت و سیاست، جامع روایت و درایت، جامع خلوت و جلوت، جامع عبادت و مدنیت، جامع حکم وحکمت، جامع ظاہر و باطن اور جامع حال وقال ہے۔
اس مسلک کوجو سلف و خلف کی نسبتوں سے حاصل شدہ ہے اگر اصطلاحی الفاظ میں لایاجائے تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیناً مسلم، فرقةً اہل السنة والجماعة، مذہباً حنفی، مشرباً صوفی، کلاماً ماتریدی اشعری، سلوکاً چشتی بلکہ جامع السلاسل، فکراً ولی اللّٰہی، اصولاً قاسمی، فروعاً رشیدی اور نسبتاً دیوبندی ہے۔
الغرض دارالعلوم دیوبند کا مسلک اعتدال سات اصولی بنیادوں پر قائم ہے جو مختصر تشریح کے ساتھ ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:
(۱) علم شریعت:
اس میں اعتقادات، عبادات، معاملات، وغیرہ کی سب انواع داخل ہیں جن کا حاصل ایمان اور اسلام ہے، بشرطیکہ یہ علم سلف کے اقوال و تعامل کے دائرے میں محدود رہ کر ان مستند علمائے دین اور مربیان قلوب کی تعلیم وتربیت اور فیضان صحبت سے حاصل شدہ ہو، جن کے ظاہر و باطن، علم و عمل اور فہم و ذوق کا سلسلہ سند متصل کے ساتھ حضرت صاحبِ شریعت علیہ افضل الصلوات والتحیات تک مسلسل پہنچا ہوا ہو، خود رائی یا محض کتب بینی اور قوت مطالعہ یا محض عقلی تگ و تاز اور ذہنی کاوش کا نتیجہ نہ ہو، گو وہ عقلی پیرایہٴ بیان اور استدلالی حجت و برہان سے خالی بھی نہ ہو کہ اس علم کے بغیر حق و ناحق، حلال و حرام، جائز و ناجائز، سنت و بدعت اور مکروہ و مندوب میں امتیاز ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے بغیر دین میں خودرو تخیلات، فلسفیانہ نظریات اور بے جا توہمات سے نجات ممکن ہے۔
(۲) پیروئ طریقت:
یعنی محققین صوفیہ کے سلاسل اور اصول مجربہ کے تحت (جو کتاب وسنت سے ماخوذ ہیں) تہذیب اخلاق، تزکیہٴ نفس اور سلوک باطن کی تکمیل، کہ اس کے بغیر اعتدالِ اخلاق، استقامتِ ذوق ووجدان، باطنی بصیرت، ذہنی پاکیزگی اور مشاہدہٴ حقیقت ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ یہ شعبہ اسلام و ایمان کے ساتھ احسان سے متعلق ہے۔
(۳) اتباعِ سنت:
یعنی زندگی کے ہرشعبہ میں سنت نبوی کی پیروی اور ہرحال و قال اور ہرکیفیت ظاہر و باطن میں ادبِ شریعت برقرار رکھ کر سنت مستمرہ کا غلبہ، کہ اس کے بغیر رسوم جہالت، رواجی بدعات و منکرات اور باوجود احوال باطن کے فقدان کے محض رسمی طور پر اہل حال کے وجدی شطحیات و کلمات کی نقالی یا انھیں شریعت کے متوازی ایک مستقل قانون عام کی صورت دیے دیئے جانے کی بلا سے نجات ممکن نہیں۔
(۴) فقہی حنفیت:
اسلامی فرعیات اور اجتہادیات کا نام فقہ ہے، اور اکابر دارالعلوم چونکہ عامةً حنفی ہیں اس لیے فقہی حنفیت کے معنیٰ اجتہادی فرعیات میں فقہ حنفی کا اتباع اور مسائل و فتاویٰ کی تخریج میں اسی اصول تفقہ کی پیروی کے ہیں کہ ا س کے بغیر استنباطی مسائل میں ہوائے نفس سے بچاوٴ اور تلفیق کے راستے سے مختلف فقہوں میں تلون کے ساتھ دائر سائر رہ کر عوام کی حسب خواہش، نفس مسائل میں قطع و برید یا ہنگامی حالات کی مرعوبیت سے ذہنی قیاس آرائی اور لاعلمی کے ساتھ مسائل میں جاہلانہ تصرفات اور اختراعات سے اجتناب ممکن نہیں، ظاہر ہے کہ یہ شعبہ اسلام سے متعلق ہے۔
(۵) کلامی ما تریدیت:
یعنی اعتقادات میں فکر صحیح کے ساتھ طریق اہل سنت والجماعت اور اشاعرہ و ماتریدیہ کے تنقیح کردہ مفہومات اور مرتب کردہ اصول و قواعد پر عقائد حقہ کا استحکام اور قوت یقین کی برقراری کہ اس کے بغیر زائغین کی شک اندازیوں اور فرق باطلہ کے قیاسی اختراعات اور اوہام و شبہات سے بچاوٴ ممکن نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شعبہ ایمان سے متعلق ہے۔
(۶) دفاع زیغ و ضلالت:
یعنی متعصب گروہ بندوں اور ارباب زیغ کے اٹھائے ہوئے فتنوں کی مدافعت، مگر وقت کی زبان و بیان میں اور ماحول کی نفسیات کے شعور کے ساتھ وقت ہی کے مانوس و سائل کے ذریعہ جس سے اتمامِ حجت ہو۔ نیز مجاہدانہ روح کے ساتھ ان کے استیصال کی مساعی کہ اس کے بغیر ازالہٴ منکرات اور معاندین کی دست برد سے شریعت کا تحفظ ممکن نہیں، اس میں ردِّ شرک و بدعت، ردِّ الحاد و دہریت، اصلاحِ رسومِ جاہلیت اور حسبِ ضرورت تحریری یا تقریری مناظرے، اور تغییرمنکرات سب شامل ہیں، ظاہر ہے کہ یہ شعبہ اعلاء کلمة اللہ بفحوائے ”لتکون کلمة اللّہ ہی العلیا“ اور اظہار دین بفحوائے ”لیظہرہ علی الدین کلہ“ اور عام نظمِ ملت سے متعلق ہے۔
(۷) ذوقِ قاسمیت و رشیدیت:
پھر یہی پورا مسلک اپنی مجموعی شان سے جب دارالعلوم دیوبند کے مربیانِ اول اور نبض شناسانِ امت حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی رحمہما اللہ کے روح و قلب سے گزرکر نمایاں ہوا تو اس نے وقت کے تقاضوں کو اپنے اندر سمیٹ کر ایک خاص ذوق اور خاص رنگ کی صورت اختیار کرلی جسے مشرب کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ دستورِ اساسی دارالعلوم دیوبند منظور شدہ شعبان ۱۳۶۸ھ میں اس حقیقت کو بایں الفاظ کہا گیا ہے کہ ”دارالعلوم دیوبند کا مسلک اہل السنة والجماعة حنفی مذہب اور اس کے مقدس بانیوں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اورحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہما کے مشرب کے موافق ہوگا“۔ (دستورِ اساسی ص:۶)
اس لیے مسلکِ دارالعلوم دیوبند کے اجزاء ترکیبی میں یہ جز ایک اہم عنصر ہے جس پر دارالعلوم کی تعلیم و تربیت کا کارخانہ چل رہا ہے، جو احسان کے تحت آتا ہے جب کہ اس کا تعلق روحانی تربیت سے ہے، پس علم شریعت، پیروئ طریقت، اتباعِ سنت، فقہی حنفیت، کلامی ماتریدیت، دفاعِ ضلالت اور ذوقِ قاسمیت و رشیدیت اس مسلک اعتدال کے عناصر ترکیبی ہیں، جو ”سبع سنابل فی کل سنبلة مأة حبة“کا مصداق ہیں، ان سبعِ سنابل کو اگر شرعی زبان میں ادا کیا جائے تو ایمان، اسلام، احسان اور اظہارِ دین سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ہرنمبر میں ا سکی طرف اشارہ بھی کردیا گیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ان ہی دفعاتِ سبعہ کا مجموعہ بہ تفصیلات بالا دارالعلوم دیوبند کا مسلک حدیث جبریل ہے تو بے محل نہ ہوگا۔
پھر ان تمام بنیادی عناصر کی بنیاد و اساس کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ، اجماعِ امت اور قیاس مجتہد ہے، جن میں سے پہلی دو حجتیں تشریعی ہیں جن سے شریعت بنتی ہے اور آخر کی دو حجتیں تفریعی ہیں جن سے شریعت کھِلتی ہے، پہلی دو حجتیں منصوصات کا خزانہ ہیں جو روایتی ہیں، جن کے لیے سند و روایت ناگزیر ہے اوردوسری دو حجتیں درایتی ہیں جن کے لیے تربیت یافتہ عقل و فہم اور تقویٰ شعارِ ذہن و ذوق ناگزیر ہے، اس لیے یہ مسلک اعتدال نقلی بھی ہے اور عقلی بھی، روایتی بھی ہے اور درایتی بھی، مگر اس طرح کہ نہ عقل سے خارج ہے نہ عقل پر مبنی، بلکہ عقل و نقل کی متوازن آمیزش سے بایں اندازہ برپاشدہ ہے کہ نقل اوروحی اس میں اصل ہے اور عقل اس کی ہمہ وقتی خادم اور کارپرداز ہے۔
اس لیے علمائے دیوبند کا یہ مسلک نہ تو عقل پرست معتزلہ کا مسلک ہے جس میں عقل کو نقل پر حاکم اور متصرف مان کر عقل کو اصل اور وحی یا اس کے مفہوم کو عقل کے تابع کردیا گیا ہے؛ جس سے دین فلسفہٴ محض بن کررہ جاتا ہے، عوام کے لیے زندقہ کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور ساتھ ہی سادہ مزاج عقیدت مندوں کا کوئی رابطہ دین سے قائم نہیں رہتا، اور نہ یہ مسلک ظاہریہ کا مسلک ہے، جس میں الفاظ وحی پر جمود کرکے عقل و درایت کو معطل کردیا گیا ہے، اور دین کے باطنی علل و اسرار اور اندرونی حِکم و مصالح کو خیرباد کہہ کر اجتہاد اور استنباط کی ساری راہیں مسدود کردی گئی ہیں، جس سے دین ایک بے حقیقت بلکہ بے معنویت غیر معقول اورجامد شے بن کررہ جاتا ہے اور دانش پسند اور حکمت دوست افراد کا اس سے کوئی علاقہ باقی نہیں رہتا، تو ایک مسلک میں عقل ہی عقل رہ جاتی ہے اور ایک مسلک میں عقل معطل اور بے کار؛ ظاہر ہے کہ یہ دونوں جہتیں افراط و تفریط اور ”وکان امرہ فرطا“ کی راہیں ہیں جن سے یہ متوسط اور جامع و معتدل دین بری ہے۔ اس لیے دین کا جامع عقل و نقل مسلک یہی ہے اور یہی ہو بھی سکتا ہے کہ تمام اصول و فروع میں عقل سلیم نقل صحیح کے ساتھ ہمہ وقت وابستہ رہے مگر دین کے ایک مطیع و فرمانبردار خادم اور پیش کار کی طرح کہ اس کی ہرایک کلی و جزئی کے لیے عقلی براہین، معقول دلائل اور حسی شواہد نظائر فراہم کرتی رہے جس سے دین، امت کے ہرطبقہ کے لیے قابل قبول اور ہمہ جہتی دستورِ حیات ثابت ہو اور یہ امت ”وجعلناکم امة وسطا“کی صحیح مصداق دکھائی دے، یہی مسلک اہل السنة والجماعة کا مسلک کہلاتا ہے اور علمائے دیوبند اس مسلک کے نقیب اورعلم بردار ہیں، اسی لیے وہ اس مسلکِ جامع اور ان تمام دینی علوم کے اجتماع سے بیک وقت مفسر بھی ہیں اور محدث بھی، فقیہ بھی ہیں اور متکلم بھی، صوفی بھی ہیں اور مجاہد و مفکر بھی اور پھر ان تمام علوم کے امتزاج سے ان کا مزاج معتدل بھی اور متوسط بھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے جماعتی مزاج میں نہ غلو ہے نہ مبالغہ، اور اس وسعت نظری کی بدولت نہ تکفیربازی ہے نہ دشنام طرازی، نہ کسی کے حق میں سب وشتم ہے نہ بدگوئی، نہ عناد و حسد اور طیش ہے اور نہ غلبہٴ جاہ و مال اور افراطِ عیش، بلکہ صرف بیانِ مسئلہ ہے اور اصلاحِ امت یا احقاقِ حق ہے اور ابطالِ باطل،جس میں نہ شخصیات کی تحقیر اور بدگوئی کا دخل ہے، نہ مغرور انہ طعن و استہزاء کا، ان ہی اوصاف و احوال کے مجموعہ کا نام دارالعلوم دیوبند ہے، اور اسی علمی و عملی ہمہ گیری سے اس کا دائرہٴ اثر دنیا کے تمام ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
ماخذ: مسلک علمائے دیوبند ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب بحوالہ تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلداول، ص ۴۲۴ تا ۴۳۵