دارالعلوم کا نصب العین اور بنیادی اصول

ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کے بعد علماء و امراء کو قتل و تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، وہیں مدارس بند کردیے گئے ، اوقاف اور جائدادیں ختم ہوگئیں۔مسلمانوں کا سیکڑوں سال کا تعلیمی نظام برباد ہو کر رہ گیا تھا۔ دوسری طرف ہندوستان میں انگریزی تہذیب، نصرانیت اور مغربی علوم رائج کیے جانے لگے۔ انیسویں صدی کا یہ زمانہ مسلمانوں کی زندگی کا نہایت پر آشوب دور تھا۔ اس وقت مسلمانوں کی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جو تیز و تند بادہائے مخالف کے تھپیڑوں سے متاثر نہ ہوا ہو۔ مسلم حکومت کے سقوط کے ساتھ مسلمانوں کے عقائد اور فکر ونظر کی بنیادیں بھی ہل گئی تھیں۔ اسلام کے سیدھے سادھے فطری اصولوں کی جگہ شرک و بدعت اور رسوم و رواج نے لے لی تھی۔ عقائد و افکار اور اخلاق و کردار تک ان کی زندگی کا ہر ہر گوشہ متاثر ہوگیا تھا۔

انگریزوں سے قبل ہندوستان میں جو تعلیمی نظام رائج تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دینی علوم کے ساتھ بڑے سے بڑے ملکی اور فوجی منصب کے لیے بھی طلبہ کو تیار کرتا تھا ؛ حتی کہ ان ہی مدارس کے تعلیم یافتہ افراد وزارت و حکم رانی تک کے فرائض نہایت کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ لیکن انگریز جو نظام تعلیم لائے تھے وہ سابقہ نظام سے یکسر مختلف تھا اور اس میں مذہبی تعلیم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ انگریزوں کے اس تعلیمی نظام کا مقصد ہندوستانیوں کو عیسائی بنانا اور اپنی حکومت کا نظام چلانے کے لیے نوکر تیار کرنا تھا۔

انگریزوں کے جدید نظام تعلیم کے جاری ہونے سے مسلمانوں کا علمی اور عملی شیرازہ منتشر اور پراگندہ ہوتا جارہا تھا۔ ایسے نازک اور پرآشوب دور میں اس وقت کے کچھ علماء و اکابر نے اسلامی عقائد کی حفاظت، دینی تعلیم وتربیت کے فروغ اور باعزت و آزاد سیاسی زندگی کے حصول کے گوناگوں مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے دینی مدارس کے نئے نظام کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ یہ مدرسہ عوامی چندوں اور شوریٰ کی بنیادوں پر قائم کیا گیا۔ اللہ تعالی نے دارالعلوم کی اس تحریک کو شرف قبول عطا فرمایا اور ملک کے طول و عرض میں ہرطرف دینی مدارس قائم ہونے لگے۔

دارالعلوم کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں لایا گیا، ان کی تفصیل دارالعلوم کے قدیم دستورِ اساسی میں حسبِ ذیل بیان کی گئی ہے:

(۱) قرآن مجید، تفسیر، حدیث، عقائدو کلام اور ان کے علوم کے متعلقہ ضروری اور مفید فنون آلیہ کی تعلیم دینا، اور مسلمانوں کو مکمل طور پر اسلامی معلومات بہم پہنچانا۔ رشد و ہدایت اور تبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت انجام دینا۔

(۲) اعمال و اخلاق اسلامیہ کی تربیت اور طلبہ کی زندگی میں اسلامی روح پیدا کرنا۔

(۳) اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دین کا تحفظ و دفاع، اور اشاعت اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر و تقریر بجالانا اور مسلمانوں میں تعلیم و تبلیغ کے ذریعے سے خیرالقرون اور سلف صالحین جیسے اخلاق و اعمال اور جذبات پیدا کرنا۔

(۴) حکومت کے اثرات سے اجتناب و احتراز اور علم و فکر کی آزادی کو برقرار رکھنا۔

(۵) علوم دینیہ کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر مدارسِ عربیہ قائم کرنا اور ان کا دارالعلوم سے الحاق۔

دارالعلوم کے نئے دستور اساسی میں، جو ۱۳۶۵ھ میں منظور ہوا، الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ پہلی شق میں درج ذیل دو نکات کا اضافہ ہے:

ثانوی مرتبہ میں دیگر علوم وفنون کی جو عربی زبان کی تحصیل یا مذہبی اغراض کی تکمیل کے لیے ضروری یا مفید ہوں، اسی طرح فارسی اور اردو ودیگر زبانوں کی بقدر ضرورت تعلیم دینا۔

دوسرے فنون و حرفوں کو بقدر ضرورت اسی حد تک اختیار کرنا کہ اصل مقصد تعلیم میں نقصان واقع نہ ہو، اور جنھیں اصل مقصد کے لیے معین و مفید سمجھا گیا ہو۔

یہ وہ مقاصد ہیں جو اگرچہ اسلامی روایات و تاریخ کے دامن سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں مگر اس وقت ان کے احیاء و تجدید کی ضرورت اس لیے درپیش تھی کہ تیرہویں صدی ہجری کے نصفِ آخر میں حکومت کی تبدیلی اور محرومی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے علم وعمل اور فکر و نظر میں جو اختلال اور رخنہ پیدا ہوگیا تھا ا س کے انسداد کے لیے ناگزیر تھا کہ آئندہ کے لیے ایسے وسائل اختیار کئے جائیں جن کے ذریعہ سے اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کی جاسکے۔ دارالعلوم کا نصب العین ان ہی مقاصد کا احیاء اور ان کی تجدید ہے۔

نصب العین کی تشریح

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم کے نصب العین کی تشریح ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

اول مذہبیت: دارالعلوم مذہبی قوت کا سرچشمہ ہے اور اول سے آخر تک اسلام کے دستور و آئین کا پابند ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ہرفرد اسلام کا نمونہٴ کامل ہے۔

دوم آزادی: جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دارالعلوم مکمل طور پر بیرونی غلامی کے خلاف ہے، اس کا نظامِ تعلیم وتربیت، اس کا نظامِ مالیات اور اس کا نظامِ اجتماعی سراسرآزاد ہے۔ دنیا میں یہ پہلی جامعہ ہے جس کے سامنے حکومت نے بارہا پیش کش کی مگر اس نے لاکھوں روپے کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کردیا۔

سوم سادگی اور محنت پسندی: جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں کے علماء اور فضلاء جہادِ زندگی میں بڑی سے بڑی مصیبت برداشت کرنے کے عادی ہیں۔

چہارم کردار و بلند اخلاقی: جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں کے طلبہ اس کردارِ بلند کا نمونہ کامل ہیں جس کو انھوں نے اپنے اکابر سے پایا ہے، یہ کردار سراسر روحانی ہے۔

پنجم علمی اور تعلیمی وابستگی: یہ وہ خصوصیت ہے جسے دارالعلوم کودیکھنے والا اولین لمحات میں محسوس کرتا ہے، یہ نہ کہنے کی بات ہے نہ سننے سے متعلق ہے ، دارالعلوم کی ہرخصوصیت کو اس کی زندگی کے آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں دنیا کے ہرحصے کے طلبہ موجود ہیں، دارالعلوم کے اساتذہ دنیا کے بہترین اساتذہ ہیں اور دارالعلوم کے خدام ایثار و قربانی کا زندہ نمونہ ہیں، مسلمانوں کو ان لوگوں پر اعتماد ہے اور دنیا کے ہرحصے سے اس دارالعلوم کے لیے مالی امدادیں وصول ہوتی ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی داغ بیل ان علمائے ربانییّن نے ڈالی تھی جو سراپا خلوص و للّٰہیت تھے، ان کا دل و دماغ ملت اسلامیہ کے شاندار مستقبل کے لیے بے چین تھا، انھوں نے خود کو اشاعتِ دین اور ترویجِ علومِ دینیّہ کے لیے وقف کردیا تھا، رب العالمین نے دارالعلوم اور اس کی خدمت کو مقبولیت عطا فرمائی اور اس نے ملک اور بیرون ملک کی دینی، علمی، اخلاقی اور اصلاحی جو خدمات عظیم انجام دی ہیں وہ کبھی بھلائی نہیں جاسکتی ہیں، یہاں سے ہزاروں علماء اور صوفیاء پیدا ہوئے جن میں بہترین محدثین، فقہاء، مصنّفین اور مبلغین کا جم غفیر بھی ہے، اور رشد و ہدایت اور تزکیہٴ باطن کرنے والوں کی ایک لمبی جماعت بھی ہے، بلکہ ان میں وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں جنھوں نے ملک کی آزادی اور یہاں کے باشندوں کی اصلاح کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند، اول ، ص ۱۴۴تا ۱۴۵)

حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصول ہشت گانہ اور اس کی خصوصیات

مذکورہ بالا نصب العین کے ساتھ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کے تحریر فرمودہ ان اصولِ ہشت گانہ پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے جو دارالعلوم دیوبند ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے تمام اسلامی مدارس کے لیے رہنما اصول یا دستورِ اساسی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اصولوں کی گہرائی تو ان کے عمیق مطالعہ سے واضح ہوسکتی ہے لیکن اس سلسلے میں یہ حقیقت بہرحال قابل ذکر ہے کہ دارالعلوم آج بھی الحمدللہ انھیں اصولوں پر قائم ہے اور ان پر کاربند رہنے کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتا ہے۔

(۱) اصل اول یہ ہے کہ تا مقدور کارکنان مدرسہ کی ہمیشہ تکثیر چندہ پر نظر رہے، آپ کوشش کریں اور وں سے کرائیں خیراندیشان کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے۔

(۲) ابقاء طعام بلکہ افزائش طعام طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیراندیشان مدرسہ ساعی رہیں۔

(۳) مشیران مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدا نخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی کہ اہل مدرسہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفتِ رائے اور اوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھر اس مدرسہ کی بناء میں تزلزل آجائے گا۔ القصہ تہِ دل سے بروقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں اسلوبیٴ مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو، اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہارِ رائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیت نیک اس کو سنیں، یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو بدل و جان قبول کریں گے اور نیز اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ مہتمم امورِ مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیرِ مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی وارد و صادر جو علم و عقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو، اور نیز اسی وجہ سے ضروری ہے کہ اگر اتفاقاً کسی وجہ سے کسی اہل مشورہ سے مشورہ کی نوبت نہ آئے اور بقدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتد بہ سے مشورہ کیا گیا ہو تو پھر وہ شخص اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتے ہیں۔

(۴) یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین باہم متفق المشرب ہوں اور مثل علماء روزگار خود بیں اور دوسروں کے درپئے توہین نہ ہوں۔ خدا نہ خواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تو پھر اس مدرسہ کی خیر نہیں۔

(۵) خواندگی مقررہ اس انداز سے ہو جو پہلے تجویز ہوچکی ہو یا بعد میں کوئی انداز مشورے سے تجویز ہو ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر آباد ہوگا تو بے فائدہ ہوگا۔

(۶) اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسی جاگیر یا کارخانہ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجاء جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔

(۷) سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔

(۸) تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسن نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے۔

دارالعلوم دیوبنداوراس کے منہاج پر جاری دیگر مدارس دینیہ کے اصول و مقاصد کو حجة الاسلام مولانا نانوتوی قدس سرہ نے اساسی اصول ہشتگانہ کے عنوان سے خود تحریر فرمایا تھا، جو ماہنامہ القاسم ، محرم ۱۳۴۷ھ کے دارالعلوم نمبر میں شائع بھی ہوچکا ہے۔

عوامی تعلق اور عام مسلمانوں میں تعلیم کا فروغ

اصول ہشت گانہ سے ہندوستان میں مضبوط و مستحکم دینی تعلیمی نظام کی بنیاد پڑی۔ اس کا بنیادی اصول یہ تھاکہ مدارس کو حکومت و امراء کی سرپرستی سے نکال کر جمہور اور عوام سے جوڑا گیا ۔ عوام کے چندوں سے چلنے والے اس نظام میں استحکام بھی تھا اور سماج کے ہر طبقہ سے بھر پور ربط بھی،جس کی وجہ سے تعلیم سماج کے ہر حلقہ میں پہنچنے لگی۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم ہونے والے اداروں کے ذریعہ مسلمانوں کے ہر طبقے میں تعلیم و تعلم کا فروغ ہوا جو اس سے پہلے اتنی وسیع سطح پر کبھی نہ ہوا تھا۔

شورائی اور جمہوری نظام

دوسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ مدارس کا نظام شورائی بنیادوں پر قائم ہو، تاکہ اس کی کارکردگی زیادہ بہتر ہواور اس کے نظام میں شفافیت ہو۔ گویا ہندوستان میں جمہوری سیاسی نظام شروع ہونے سے پون صدی قبل ہی دارالعلوم نے جمہوری اداروں کی بنیاد رکھ دی تھی۔

قابل ذکر بات ہے کہ دارالعلوم کا آغاز جس معمولی حالت اور بے سرو سامانی کے ساتھ ہوا تھا اس کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم کے نظم و نسق کا مشاورت کے اصول پر مبنی ہونا تعجب خیز معلوم ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس وقت جمہوری نظام سے لوگ عام طور پر ناآشنا اور نامانوس تھے۔ دارالعلوم نے اس وقت اسلامی طرز پر مجلس شوری کی بنیاد رکھی اور اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلا کر قوم کے سامنے ایک عمدہ مثال قائم کردی۔ اسی طرز فکر کا نتیجہ تھا کہ انتظامات میں بڑی وسعت کے ساتھ جمہوری انداز قائم ہوگیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تحریر فرمودہ ہشت نکاتی دستور العمل کی تیسری دفعہ میں اس امر پر زور دیا ہے کہ مشیران ہمیشہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی کو مدنظر رکھیں اور اپنی رائے کی مخالفت اور تنقید کو ناگوار نہ سمجھیں ورنہ مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا۔ اخلاص اور آزادیٴ اظہار رائے، جمہوری نظام کے یہ دو عمدہ اصول ہیں جن سے بہتر کوئی دوسرا طریق کار نہیں ہوسکتا۔ اس تجویز سے تعمیری تنقید کی راہ کھل گئی جو کسی ادارہ کی ترقی کے لیے بڑی ضروری ہے۔

عوامی چندہ

آج سے ڈیڑھ سو سال قبل بلا شبہ ایک عجیب و غریب بات تھی کہ عوامی چندے کی بنیاد پر ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے جو حکومت کے اثرات سے آزاد ہو۔ آنے والے جمہوری دور کے پیش نظر یہ ایک زبردست پیش بینی اور پیش بندی تھی۔ اب جب کہ بڑی بڑی ریاستیں خواب و خیال ہوچکی ہیں اور زمینداریاں ختم ہوگئی ہیں، مگر کشمیر سے آسام تک ہزاروں دینی مدرسے چل رہے ہیں اور ان پر حکومت اور سیاست کی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس سے عوامی چندہ کی اہمیت و افادیت اور مدارس کی بنیادوں کے استحکام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اوقاف کے سابقہ طریقہ کے بجائے عوامی چندے کا یہ طریقہ بہت کامیاب اور بڑا نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ دینی مدارس کے قیام اور دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کے لیے یہ ایک ایسا مفید اور مستحکم طریقہ تھا جس نے دینی تعلیم کے فروغ کو عوامی چندہ کی تحریک سے مربوط کردیا۔

حکومتی امداد سے احتراز اور توکل علی اللہ

حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس دستور العمل میں سرکار اور امراء کی شرکت کو مضر اور نقصان دہ بتایا گیا ہے ، بلکہ ایسے افراد کے چندہ کو موجب برکت محسوس کیا گیا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو۔ اس اصول سے مدارس میں درآنے والے بہت سے فتنوں کا سد باب ہوگیا۔ حکومتی امداد سے سرکاری دخل اندازی کے راستے کھلتے ہیں اور اسی کے ساتھ دیگر مفاسد در آتے ہیں۔ آج سرکاری مدارس کا جو برا حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس طرح اس اصول کی روشنی میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے جس تعلیمی تحریک کی بنیاد رکھی وہ زمان و مکان کی قیدوں سے آزاد ایک ایسی مستحکم تحریک تھی جو زمانے کی الٹ پھیر، حکومتوں کے کی آمد و رفت اور دیگر پابندیوں سے ماورا و محفوظ تھی۔

حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ کے لیے مستقل ذریعہ آمدنی کو بھی نقصان دہ اور باعث اختلاف و انشقاق تصور کیا۔ توکل علی اللہ ، خوف و رجا اور توجہ الی اللہ کو اس کی بقا و ترقی کی ضمانت سمجھا۔ دارالعلوم کی تاسیسی جماعت کے ایک دوسرے رکن حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو نظم میں اس طرح ڈھالا ہے:

اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لیے

کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہو جائے گا

پھر یہ قندیل معلق اور توکل کا چراغ

یوں سمجھ لینا کہ بے نور و ضیا ہوجائے گا

 

مآخذ:

  • تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول، ص ۱۳۶ تا ۱۴۵
  •  دارالعلوم دیوبند نمبر، ماہنامہ القاسم، محرم ۱۳۴۷ھ، ص ۵تا۶، ۳۳