محدثین دہلی اور ان کے چشمہٴ علم و عرفان سے سیراب دارالعلوم اور علمائے دیوبند اپنے مسلک اور دینی رخ کے اعتبار سے کلیتاً اہل سنت والجماعت ہیں پھر وہ خودرَو قسم کے اہل سنت نہیں بلکہ اوپر سے ان کا سندی سلسلہ جڑا ہوا ہے؛ اس لیے مسلک کے اعتبار سے وہ نہ کوئی جدید فرقہ ہیں نہ بعد کی پیداوار ہیں بلکہ وہی قدیم اہل سنت والجماعت کا مسلسل سلسلہ ہے جو اوپر سے سند متصل اور استمرار کے ساتھ کابراً عن کابرٍ چلا آرہا ہے۔
علمائے دارالعلوم دیوبند کے اس جامع، افراط و تفریط سے پاک مسلک معتدل کو سمجھنے کے لیے خود لفظ اہل سنت والجماعت میں غور کرنا چاہیے جو دو اجزاء سے مرکب ہے: ایک ’السنة‘ جس سے اصول، قانون، اور طریق نمایاں ہیں اور دوسرا ’الجماعة‘ جس سے شخصیات اور رفقائے طریق نمایاں ہیں۔ اہل السنة والجماعة کے اس ترکیبی کلمہ سے یہ بات پورے طور پر واضح ہو تی ہے کہ اس مسلک میں اصول و قوانین بغیر شخصیات کے اور شخصیات بغیر قوانین کے معتبر نہیں کیوں کہ قوانین ان شخصیات ہی کے راستے سے آتے ہیں؛ اس لیے ماخوذ کو لیا جانا اور ماخذ کو چھوڑ دینا کوئی معقول مسلک نہیں ہوسکتا۔
حدیث ” ما أنا علیہ و أصحابي “ میں بہتّر (۷۲) فرقوں میں سے فرقہٴ ناجیہ کی نشاندہی فرماتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معیار حق ان ہی دو چیزوں کو قرار دیا ”ما انا“ سے اشارہ سنت یعنی طریق نبوی یا قانون دین کی طرف ہے اور ” واصحابی“ سے اشارہ الجماعة یعنی برگزیدہ شخصیات کی طرف ہے بلکہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں اصحابی کے بجائے الجماعة کا صریح لفظ موجود ہے۔
اس لیے تمام صحابہ، تابعین، فقہائے مجتہدین، ائمہ محدثین اور علمائے راسخین کی عظمت و محبت ادب و احترام اور اتباع و پیروی اس مسلک کا جوہر ہے؛ کیوں کہ ساری دینی برگزیدہ شخصیتیں ذات نبوی سے انتساب کے بدولت ہی وجود میں آتی ہیں۔ پھر مختلف علوم دینیہ میں حذاقت و مہارت اور خداداد فراست و بصیرت کے لحاظ سے ہر شعبہٴ علم میں ائمہ اور اولوالامر پیدا ہوئے اور امام و مجتہد کے نام سے انھیں یاد کیا گیا۔ مثلاً ائمہ اجتہاد میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہ، ائمہ حدیث میں امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی وغیرہ، ائمہ درایت و تفقہ میں امام ابویوسف، امام محمد بن حسن، امام خلال، امام مزنی، امام ابن رجب وغیرہ۔ ائمہ احسان و اخلاص میں اویس قرنی، فضیل بن عیاض وغیرہ، ائمہ حکمت و حقائق میں امام رازی، امام غزالی وغیرہ، ائمہ کلام میں ابوالحسن اشعری، ابو منصور ماتریدی وغیرہ نیز اس قسم کی دین کی اور بھی برگزیدہ شخصیتیں ہیں جن کی درجہ بدرجہ توقیر و عظمت مسلک دارالعلوم دیوبند میں شامل ہے۔
پھر ان تمام دینی شعبوں کے اصول و قوانین کا خلاصہ دو ہی چیزیں ہیں: ”عقیدہ و عمل“ عقیدے میں تمام عقائد کی اساس و بنیاد عقیدئہ توحید ہے اور عمل میں سارے اعمال کی بنیاد اتباع سنت ہے۔
توحید
مسلک دیوبند میں عقیدئہ توحید پر بطور خاص زور دیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہوں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو۔ ساتھ ہی تعظیم اہل اللہ اور اربابِ فضل و کمال کی توقیر کو عقیدئہ توحید کے منافی سمجھنا مسلک کا کوئی عنصر نہیں۔
خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ
علمائے دیوبند کا یہ ایمان ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر و افضل الانبیاء ہیں، مگر ساتھ ہی آپ کی بشریت کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے علودرجات کو ثابت کرنے کے لیے حدود عبدیت کو توڑ کر حدود معبودیت میں پہنچادینے سے کلی احتراز کرتے ہیں۔ وہ آپ کی اطاعت کو فرض عین سمجھتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو جائز نہیں سمجھتے۔
علمائے دیوبند برزخ میں آپ کی حیات جسمانی کے قائل ہیں مگر وہاں معاشرت دنیوی کو نہیں مانتے۔ وہ آپ کے علم عظیم کو ساری کائنات کے علم سے بدرجہا زیادہ مانتے ہیں پھر بھی اس کے ذاتی و محیط ہونے کے قائل نہیں ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
علمائے دیوبندتمام صحابہ کی عظمت کے قائل ہیں؛ البتہ ان میں باہم فرق مراتب ہے تو عظمت مراتب میں بھی فرق ہے، لیکن نفس صحابیت میں کوئی فرق نہیں اس لیے محبت و عقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا پس ”الصحابة کلہم عدول“ اس مسلک کا سنگ بنیاد ہے۔ صحابہ بحیثیت قرن خیر من حیث الطبقة ہیں اور پوری امت کے لیے معیار حق ہیں۔ علمائے دیوبند انھیں غیر معصوم ماننے کے باوجود ان کی شان میں بدگمانی اور بدزبانی کو جائز نہیں سمجھتے اور صحابہ کے بارے میں اس قسم کا رویہ رکھنے والے کو حق سے منحرف سمجھتے ہیں۔
علمائے دیوبند کے نزدیک ان کے باہمی مشاجرات میں خطا و صواب کا تقابل ہے حق وباطل اور طاعت ومعصیت کا نہیں؛ اس لیے ان میں سے کسی فریق کو تنقید و تنقیص کا ہدف بنانے کو جائز نہیں سمجھتے۔
صلحائے امت
علمائے دیوبند تمام صلحائے امت و اولیاء اللہ کی محبت و عظمت کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس محبت و تعظیم کا یہ معنی قطعاً نہیں لیتے کہ انھیں یا ان کی قبروں کو سجدہ و طواف اور نذر و قربانی کا محل بنالیا جائے۔
وہ اہل قبور سے فیض کے قائل ہیں استمداد کے نہیں۔ حاضری قبور کے قائل ہیں مگر انھیں عیدگاہ بنانے کو روا نہیں سمجھتے ، وہ ایصال ثواب کو مستحسن اور اموات کا حق سمجھتے ہیں مگر اس کی نمائشی صورتیں بنانے کے قائل نہیں۔
وہ تہذیب اخلاق، تزکیہٴ نفس اور عبادت میں قوتِ احسان پیدا کرنے کے لیے اہل اللہ کی بیعت و صحبت کو حق اور طریق احسانی کے اصول و ہدایات کو تجربتہً مفید اور عوام کے حق میں ایک حد تک ضروری سمجھتے ہیں اور اسے شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے بلکہ شریعت ہی کا باطنی و اخلاقی حصہ مانتے ہیں۔
فقہ اور فقہاء
علمائے دیوبند احکام شرعیہ فروعیہ اجتہادیہ میں فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں بلکہ برصغیر میں آباد مسلمانوں میں کم وبیش نوے فیصد سے زائد اہل السنة والجماعة کا یہی مسلک ہے؛ لیکن اپنے اس مذہب و مسلک کو آڑ بناکر دوسرے فقہی مذاہب کو باطل ٹھہرانے یا ائمہ مذاہب پر زبانِ طعن دراز کرنے کو جائز نہیں سمجھتے کیوں کہ یہ حق و باطل کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ صواب و خطا کا تقابل ہے۔ مسائل فروعیہ اجتہادیہ میں ائمہ اجتہاد کی تحقیقات میں اختلاف کا ہوجانا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اور شریعت کی نظر میں یہ اختلاف صحیح معنوں میں اختلاف ہے ہی نہیں۔ قرآن حکیم ناطق ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوحاً وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بہ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوسٰی وَعِیسٰی أَنْ اَقِیمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ۔ (سورة الشوریٰ)
ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک شریعتوں اور منہاج کا کھلا ہوا اختلاف رہا پھر بھی قرآن حکیم ان کو ایک ہی دین قرار دے رہا ہے اور شریعتوں کے باہمی فروعی اختلاف کو وحدتِ دین کے معارض نہیں سمجھتا۔ اگر یہ فروعی تنوع بھی افتراق و اختلاف کی حد میں آسکتے تو پھر ”وَلاَ تَتَفَرّقُوْا فِیْہِ“ کا خطاب کیوں کر درست ہوتا؟
لہٰذا جس طرح شرائع سماویہ فروعی اختلاف کے باوجود ایک ہی دین کہلائیں اور ان کے ماننے والے سب ایک ہی رشتہ اتحاد و اخوت میں منسلک رہے۔ تحزب و تعصب کی کوئی شان ان میں پیدا نہیں ہوئی؛ اسی لیے وہ ”وَکَانُوْا شِیَعًا“ًکی حد میں نہیں آئے۔ ٹھیک اسی طرح ایک دین حنیف کے اندر فروعی اختلافات اس کی شان اجتماعیت و وحدت میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔
مواقع اجتہاد میں اہل اجتہاد کا اجتہاد بھی دین کا مقرر کردہ اصول ہے۔ اسے دین میں اختلاف کیسے کہا جاسکتا ہے۔ رہا جماعتِ مجتہدین میں سے کسی ایک کی پیروی و تقلید کو خاص کرلینا تو دین کے بارے میں آزادیِ نفس سے بچنے اور خودرائی سے دور رہنے کے لیے امت کے سواد اعظم کا طریق مختار یہی ہے، جس کی افادیت و ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ باب تقلید میں علمائے دیوبند کا یہی طرز عمل ہے۔ وہ کسی بھی امام، مجتہد یا اس کے فقہ کی کسی جزئی کے بارے میں تمسخر، سوئے ادب یا رنگ ابطال و تردید سے پیش آنے کو خسران دنیا و آخرت سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ اجتہادات شرائع فرعیہ ہیں اصلیہ نہیں کہ اپنے فقہ کو موضوع بناکر دوسروں کی تردید یا تفسیق و تضلیل کریں؛ البتہ اپنے اختیار کردہ فقہ پر ترجیح کی حد تک مطمئن رہیں۔
مذکورہ بالا امور میں علمائے دیوبند کا یہ طرز عمل اور مسلک ان کی موٴلفات (شروح حدیث، تفسیر، فقہ وکلام وغیرہ) میں پوری تفصیل کے ساتھ مندرج ہیں، جنھیں دیکھ کر خود فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
فقہ میں سنت کی راہیں
برصغیر میں کم و بیش نوے فی صد مسلمان فقہ حنفی پر عامل ہیں۔ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ کے اجتہادات، ان کے تلامذہ کے استخراجات اور اصحاب ترجیح کے فیصلوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر بحث و تحقیق اور کانٹ چھانٹ کے بعد فقہ کا کوئی مسئلہ اصولِ شریعت کے خلاف باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر اس طریق عمل میں ایک پہلو یہ بھی تھا کہ عمل کرنے والے کی نظر ائمہ و فقہاء کی تخریجات تک محدود رہتی، گو وہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریق سے متجاوز نہ ہوتا؛ مگر عمل کرنے والے کا شعور اتباع سنت کی لذت پوری طرح محسوس نہیں کرسکتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ عظیم تاریخی کارنامہ ہے کہ اس نے اعمال و عبادات کو ان کے بنیادی مصادر کی طرف لوٹایا۔ احادیث کے دفاتر کھلے، رجال کی گہری نظر سے پڑتال ہوئی، معانی حدیث میں بحث کی گئی، گو ان حضرات کو اس علمی و تحقیقی کاوش سے فقہ کا کوئی مفتی بہ قول اصول شریعت سے معارض نہ ملا تاہم اس راہ تحقیق نے (جو ظاہریت کی تفریط اور اہل بدعت کی افراط سے پاک سلف صالحین کے مقرر کردہ منہاج پر مبنی ہے) ایسی فضا پیدا کردی کہ پہلے جن مسائل پر فقہ سمجھ کر عمل کیا جاتا تھا اب وہی مسائل سنت کی خنک روشنی دینے لگے اور ان اعمال میں اتباع حدیث کی وہ لذت محسوس ہونے لگی جو اس فکری تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
علمائے دارالعلوم کا فکری اعتدال
علمائے دیوبند دین کے سمجھنے سمجھانے میں نہ تو اس طریق کے قائل ہیں جو ماضی سے یکسر کٹا ہو کیوں کہ وہ مسلسل رشتہ نہیں ایک نئی راہ ہے۔ اور نہ وہ اس افراط کے قائل ہیں کہ رسم و رواج اور تقلیدِ آباء کے تحت ہربدعت، اسلام میں داخل کردی جائے۔ جن اعمال میں تسلسل نہ ہو اور وہ تسلسل خیر القرون سے مسلسل نہ ہو وہ اعمال اسلام نہیں ہوسکتے۔ یہ حضرات اس تقلید کے پوری طرح قائل ہیں جو قرآن وحدیث کے سرچشمہ سے فقہ اسلام کے نام سے چلتی آئی ہے۔ قرآن کریم تقلید آباء کی صرف اس وجہ سے مذمت کرتا ہے کہ وہ آباء عقل و اہتداء کے نور سے عاری تھے: ”اَوَلَو کَانَ آبَاءُ ہُم لا یَعْقِلُون شیئاً وَلاَ یَہتَدُون“۔ ائمہٴ سلف اور فقہائے اسلام جو علم وہدایت کے نور سے منور تھے ان کی پیروی نہ صرف یہ کہ مذموم نہیں بلکہ مطلوب ہے ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ صرف حضرات انبیاء علیہم الصلاة والسلام ہی کی نہیں، صدیقین، شہداء اور صالحین کی راہ پر چلنے چلانے کی ہر نماز میں اللہ سے درخواست کریں؛ کیوں کہ یہی صراط مستقیم ہے۔ ”اِہدِنا الصِّراطَ المُسْتَقِیم صِراطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمتَ عَلَیہِمْ‘۔ اس منہج اعتدال کی بنا پر علمائے دیوبند مذہبی بے قیدی اور خودرائی سے محفوظ ہیں اور شرک و بدعت کے اندھیرے انھیں اپنے جال میں نہ کھینچ سکے۔
علمائے دیوبند نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں ہی کو سنت کا شعور بخشا بلکہ دیگر بلاد اسلامیہ مصر و شام وغیرہ بھی ان کے اس فکر سے متاثر ہوئے۔ دیوبندی مکتبہٴ فکر کا نصوص فہمی میں منہج مختار یہی ہے۔علمائے دیوبند کی تالیفات مثلاً فیض الباری شرح بخاری، لامع الدراری شرح بخاری، فتح الملہم شرح صحیح مسلم، الکوکب الدری شرح جامع ترمذی، معارف السنن شرح جامع ترمذی، بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد، اوجز المسالک شرح موٴطا امام مالک، امانی الاحبار شرح معانی الآثار للطحاوی،اعلاء السنن، ترجمان السنة، معارف الحدیث وغیرہ میں اس منہج مختار کو دیکھا جاسکتا ہے۔
مآخذ :
- تلخیص مقالہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب، ماہنامہ الرشید لاہور فروری مارچ ۱۹۷۶ء، دارالعلوم نمبر ، ص ۱۵۷ تا ۱۶۵
- مقالات حبیب، مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، جلد اول، ص ۵۶تا ۶۳