دارالعلوم کا نظم و نسق

دارالعلوم دیوبند کے تمام تعلیمی وانتظامی امور دستور اساسی کی روشنی میں مجلس شوریٰ کی سرپرستی میں انجام دیے جاتے ہیں۔ انتظامی نظم و نسق دفتر اہتمام کے ذریعہ انجام پاتا ہے اور تعلیمی امور کا نظم و نسق صدر المدرسین کی نگرانی میں انجام پاتا ہے ۔ذیل کے سطور میں دارالعلوم کے نظم و نسق سے متعلق ضروری معلومات پیش کی جارہی ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا دستور اساسی

دارالعلوم دیوبند کا ایک دستور اساسی اور آئین ہے ، جس کی روشنی میں دارالعلوم کے تمام تعلیمی و انتظامی امور طے پاتے ہیں۔دستور اساسی، اکابر دارالعلوم میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد سے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ تک مجلس شوری کی تجاویز پر مشتمل ایک مضبوط دستاویز ہے؛ کیوں کہ ابتدا میں دارالعلوم کا در و بست مجلس شوری کی تحویل میں چلتا رہا اور جس سلسلہ میں ضرورت پیش آتی رہی ، اکابر دارالعلوم شریعت کے مطابق احکام نافذ کرتے رہے۔اکابر دارالعلوم اور مجلس شوری کے یہ احکام ’آئین مدرسہ‘ کے نام سے سال اول کی روداد سے طبع ہوتے رہے ہیں۔

پھر ترقی پذیر دارالعلوم میں اس دستور کو باقاعدہ مرتب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مجلس شوری کے ایک تجربہ کار اور قانونی دماغ رکھنے والے ممبر مولانا محمود احمد رام پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مجلس شوری کے حکم سے ایک مختصر دستور اساسی مرتب کیا۔ پھر کچھ دنوں بعد مفتیٴ اعظم ہندحضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مجلس شوری کی درخواست پر اس پر نظر ثانی فرماکر اس کو باقاعدہ اور مفصل بنایا۔ پھر ۱۳۶۰ھ/ ۱۹۴۱ء میں مجلس شوری نے مکمل اور مفصل دستور کی ضرورت محسوس کی اور اس وقت کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دستور اساسی مرتب کرنے کا مکلف بنایا۔ حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۶۴ھ / ۱۹۴۵ء میں دستور مرتب فرماکر مجلس شوری میں پیش کیا ۔ حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میمون سے دیگر اکابر کے عہد تک کی مجلس شوریٰ کی تجاویز اور بنیادی رہنما اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ دستور اساسی مرتب کیا۔ پھر مختلف مجلسوں میں اس دستور اساسی کے دفعات اور مشمولات پر بحث ہوتی رہی اور بالآخر ۲۲/ شعبان ۱۳۶۸ھ/ ۱۹/ جون ۱۹۴۹ء میں اس دستور کو پاس کردیا گیا اور ۱۱/ شوال ۱۳۶۸ھ /۶/ اگست ۱۹۴۹ء سے اسے نافذ العمل قرار دیا گیا ۔ آج تک اسی دستور کے مطابق عمل ہو رہا ہے۔ نیز، حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے دستور اساسی کی بنیاد پر دارالعلوم کو ۱۹۶۵ء میں سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ بھی کرایا گیا۔

مجلس شوریٰ

 دارالعلوم کی ایک مجلس شوری ہے جس کو ہیئت حاکمہ کا درجہ حاصل ہے اور دارالعلوم کے تمام تعلیمی وانتظامی امور میں اس کا فیصلہ حتمی ہے۔ مجلس شوری کے علاوہ مجلس عاملہ ، مجلس تعلیمی اور دیگر شعبہ جات و دفاتر قائم ہیں جو اپنے اپنے دائرہ میں کام کرتے ہیں۔

دارالعلوم کا نظم و نسق شروع ہی سے وامرھم شوریٰ بینھم کے مطابق شورائی اصول پر قائم ہے۔ اس کے لیے ایک با اختیار مجلس اعلی ہے جس کی تشکیل قیام دارالعلوم کے ساتھ ہی عمل میں آگئی تھی۔ یہ جماعت مجلس شوری کے نام سے موسوم ہے۔ مجلس شوری کی یہ ذمہ داری ہے کہ دارالعلوم کے تمام کاموں کی نگرانی و رہ نمائی کرے۔

مجلس شوری دارالعلوم کی سب سے بااختیار مجلس ہے۔ دارالعلوم کا تمام نظم و نسق اسی جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی جملہ تجاویز در بارہ انتظام و تعلیم قطعی اور جملہ کارکنان دارالعلوم کے لیے واجب التعمیل ہوتی ہیں۔ دارالعلوم کی مجلس شوری ایک طرف چندہ دینے والوں کی نمائندگی کرتی ہے، اسے چندہ دہندگان کے شرعی وکیل کی حیثیت حاصل ہے۔ دوسری طرف دارالعلوم کے آمد و صرف اور اہم انتظامی امور کے متعلق کثرت رائے سے اپنے فیصلے صادر کرتی ہے۔ دارالعلوم کی تمام کارروائیاں اور تمام ضروری فیصلے دستور اساسی کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ مجلس شوری انتظامی آئین وضوابط وضع کرتی ہے۔ دارالعلوم کے جملہ اوقاف اور جائدادیں اس کی تولیت و نگرانی میں ہیں اور یہی مجلس دارالعلوم کے مسلک کی حفاظت اور ملازمین کے عزل و نصب کی ذمہ دار ہے۔

مجلس شوری کے ارکان کی تعداد ۲۱ ہوتی ہے جس میں کم از کم ۱۱ /علماء کا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔ باقی ارکان مسلمانوں کے دیگر طبقات سے منتخب ہوسکتے ہیں، مگر حتی الامکان دو ممبر باشندگان دیوبند سے لیے جاتے ہیں۔ مہتمم اور صدر مدرس بحیثیت عہدہ مجلس شوری کے رکن ہوتے ہیں۔ اس مجلس کے سال میں دو جلسے ہوتے ہیں؛ ایک محرم یا صفر میں اور دوسرا رجب یا شعبان میں۔ انعقاد اجلاس کے لیے اراکین کی کم از کم ایک تہائی تعداد کا شریک اجلاس ہونا ضروری ہے۔

مجلس عاملہ

مجلس شوری کے ماتحت ۱۳۴۵ھ (مطابق ۱۹۲۷ء) سے مستقل مجلس بنام ’مجلس عاملہ‘ قائم ہے۔اس مجلس کا کام مجلس شوری کے کاموں میں اعانت و امداد بہم پہنچانا اور مجلس شوری کے تفویض کردہ اختیارات کے مطابق دارالعلوم کے انتظامی امور کو عملی جامہ پہنچانا ہے۔ مجلس عاملہ ، مجلس شوری کے فیصلوں اور منظور کردہ تجاویز کے عمل در آمد کے سلسلہ میں ذمہ داروں کے طریق عمل پر نظر رکھتی ہے۔ نظم و تعلیم اور دفاتر کے حسابات اور کارکردگی کی نگرانی اس کے ذمہ ہے۔

اس مجلس کے اراکین کی تعداد نو ہوتی ہے۔ مہتمم اور صدر مدرس باعتبار عہدہ اس کے مستقل رکن ہوتے ہیں جب کہ بقیہ سات ممبر مجلس شوری کے ارکان میں سے منتخب کیے جاتے ہیں۔اس مجلس کا انتخاب سالانہ ہوتا ہے۔ مجلس عاملہ کے سال بھر میں حسب ضرورت چار جلسے ہوتے ہیں؛ پہلا جلسہ ربیع الاول میں، دوسرا جمادی الاولی میں، تیسرا شعبان میں اور چوتھا ذوالقعدہ میں۔ مجلس عاملہ کا کورم پانچ کا ہے۔

مہتمم دارالعلوم

دارالعلوم انتظامیہ کا سربراہ اعلی مہتمم ہوتا ہے جومجلس شوری کی نمائندگی کرتا ہے اور شعبہ تعلیمات کے علاوہ دارالعلوم کے جملہ شعبہ جات کی نگرانی و نظم کا ذمہ دار اعلی اور بہ حیثیت عہدہ مجلس شوری کا رُکن ہوتا ہے۔ مجلس شوری کی نظامت کے فرائض مہتمم دارالعلوم انجام دیتے ہیں اور دارالعلوم کے جملہ امور میں وہی جواب دہی کرتے ہیں۔ مہتمم دارالعلوم صرف مجلس عاملہ اور مجلس شوری کے روبرو جواب دہ ہوتے ہیں۔ حسب ضرورت مہتمم دارالعلوم کے ایک یا دو نائب ہوتے ہیں جنھیں مہتمم کے تفویض کردہ فرائض و اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور مہتمم کی عدم موجودگی میں محدود اختیارات کے ساتھ قائم مقام ہوتے ہیں۔

اہتمام کے اہم منصب کے لیے ہمیشہ یہ اصول مدنظر رہا ہے کہ اس کے لیے ایسی شخصیتوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو علم و فضل، دیانت و تقویٰ اور انتظامی امور میں خاص صلاحیتوں کے مالک ہونے کے علاوہ ملک میں اپنا خاص اثر اور رتبہ بھی رکھتی ہوں۔ دارالعلوم دیوبند کا یوم تاسیس ہی سے یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ مسند اہتمام کو آراستہ کرنے کے لیے اسے ایسی شخصیتیں ملتی رہی ہیں جنھوں نے نظم ونسق کی پوری صلاحیت کے ساتھ خلوص وللہیت او ر تقوی ودیانت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کی نظیر بمشکل ہی ملے گی۔

نائب مہتمم

 دستور اساسی کی روشنی میں مہتمم حضرات کے کاموں میں تعاون کے لیے ان کی موجودگی و عدم موجودگی میں نائب مہتمم کا عہدہ بھی رکھا گیا ہے۔ نائب مہتمم حضرات کو بھی نظم و انتظام میں خاص دخل ہوتا ہے اور یہ حضرات عموماً دارالعلوم میں تدریس کے ساتھ متعدد علمی و انتظامی شعبہ جات کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی دارالعلوم میں کارگزار مہتمم اور معاون مہتمم کا عہدہ بھی رہا ہے۔

صدر مدرس اور مجلس تعلیمی

 دارالعلوم کے تعلیمی امور کی نگرانی کے لیے صدر مدرس کا عہدہ قائم ہے جو شعبہٴ تعلیمات کا ذمہ دار اعلی اور بہ حیثیت عہدہ مجلس شوری کا رکن ہوتا ہے۔صدر مدرس کی ذمہ داریوں میں تعلیمی امور کی نگرانی ، طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت ، مجلس تعلیمی کی سفارشات اور شعبہٴ تعلیمات کی رپورٹ مجلس شوری میں پیش کرنا وغیرہ شامل ہے۔

تمام درجات عربی، فارسی، اردو، دینیات اور تجوید وغیرہ کے تعلیمی امور کے انتظام و انصرام اور صدر المدرسین کو مشورہ دینے کے لیے مجلس تعلیمی کے نام سے ایک کمیٹی قائم ہے۔اس مجلس کا دائرہٴ عمل داخلہ کے امتحانات کاانتظام، نصاب تعلیم میں حسب ضرورت تبدیلی و ترمیم کی سفارش، اسباق کی تقسیم، امتحانات کا انتظام اور طلبہ کے مشاغل علمیہ وعملیہ کی نگرانی وغیرہ تک محیط ہے۔ اس مجلس کے ارکان مہتمم، صدر مدرس، نائب مہتممین اور طبقہٴ علیاء کے دو مدرس ہوتے ہیں جن میں سے ایک مجلس تعلیمی کا ناظم ہوتا ہے جسے ناظم تعلیمات کہا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کا مجلس شوری کی طرف سے مقرر کردہ ایک نائب ناظم بھی ہوتا ہے۔ صدر المدرسین اس کمیٹی کا صدر ہوتا ہے۔

ناظمِ تعلیمات

 دارالعلوم کے تعلیمی امور کی نگرانی کے لیے صدر مدرس کے ساتھ ناظم تعلیمات کا عہدہ بھی رہا ہے۔ ناظمِ تعلیمات کے ذمہ صدر مدرس کے ساتھ تعلیمی امور کی نگرانی اور دفتر تعلیمات کی نظامت متعلق ہوتی ہے۔ مدرسہ ثانویہ کے امور کی دیکھ بھال کے لیے نائب ناظم تعلیمات کا بھی عہدہ ہے۔

دفاتر و شعبہ جات

دارالعلوم میں دو مرکزی شعبے ہیں؛ شعبہٴ اہتمام اور شعبہٴ تعلیمات۔ شعبہٴ اہتمام سے دارالعلوم کے تمام شعبہ جات کا نظم متعلق ہوتا ہے اور شعبہٴ تعلیمات سے تعلیمی شعبہ جات کا تعلیمی نظام متعلق ہوتا ہے۔ شعبہٴ اہتمام کی سربراہی مہتمم اور شعبہٴ تعلیمات کی صدارت صدر المدرسین کے ذمہ ہوتی ہے۔

دارالعلوم میں جملہ تعلیمی و انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے دفاتر و شعبہ جات قائم ہیں۔ دارالعلوم کا وسیع انتظامی ، تعلیمی اور علمی نظام اس وقت تقریباً تین درجن شعبہ جات اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ ہر ایک شعبہ کا وسیع دائرہٴ عمل ہے اور بعض شعبہ جات تو اپنی وسعتِ کار کے لحاظ سے مستقل ادارہ کے حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر شعبہ میں داخلی امور کی نگرانی اور انجام دہی کے لیے ناظم، نگراں یا ذمہ دار وغیرہ ہوتے ہیں جو اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر دفتر اہتمام کی نگرانی میں مفوضہ امور انجام دیتے ہیں۔

دارالعلوم کے تعلیمی شعبہ جات

(۱) شعبہٴ عربی و تکمیلات   (۲) شعبہٴ انگریزی زبان و ادب

(۳) شعبہٴ کمپیوٹر (۴) شعبہ جات کے تحت تعلیمی کورسز

(۵) شعبہٴ خوش خطی          (۶) شعبہٴ دارالصنائع

(۷) شعبہٴ تجوید و قرأت       (۸) شعبہٴ تحفیظ القرآن و ناظرہ

(۹) شعبہٴ دینیات اردو و فارسی

دارالعلوم کے انتظامی شعبہ جات

(۱) دفتر اہتمام      (۲) دفتر تعلیمات

(۳) شعبہٴ محاسبی (۴) محافظ خانہ

(۵) کتب خانہ       (۶) شعبہٴ تنظیم و ترقی

(۷) دارالاقامہ       (۸) شعبہٴ مطبخ

(۹) شعبہٴ تعمیرات (۱۰) شعبہٴ اوقاف

(۱۱) مکتبہ دارالعلوم          (۱۲) شعبہٴ برقیات

(۱۳) عظمت اسپتال            (۱۴) مہمان خانہ

(۱۵) شعبہٴ خریداری           (۱۶) اسٹاک روم

(۱۷) کمپیوٹر برائے کتابت   (۱۸) دفتر صفائی و چمن بندی

(۱۹) شعبہٴ مکاتب اسلامیہ

دارالعلوم کے علمی و دعوتی شعبہ جات

(۱) دارالافتاء        (۲) شعبہٴ انٹرنیٹ وآن لائن فتوی

(۳) شعبہٴ تبلیغ      (۴) شیخ الہند اکیڈمی

(۵)کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت        (۶) شعبہٴ تحفظ سنت

(۷) شعبہٴ مطالعہٴ عیسائیت و دیگر مذاہب          (۸) شعبہٴ محاضرات علمیہ

(۹) دفتر مجلہ الداعی          (۱۰) دفتر ماہنامہ دارالعلوم

(۱۱) رابطہٴ مدارس اسلامیہ  (۱۲) شعبہٴ ترتیب فتاوی