تعلیم جس قدر سادہ اور مختصر سا لفظ ہے اتنا ہی اہم اور روح کی گہرائی تک کو متأثر کرنے والا عمل ہے،تعلیم محض نقوش حروف ، خطوط، آواز، بولیوں اور چھوٹی بڑی کتابوں کانام نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی ذہنی ودماغی اور علمی تربیت کا نام ہے جس کا مقصد انسان کی فطری قوت وصلاحیت کو ابھار کر سنوار نا اور منظم کرنا ہے اور انسانی جذبات واحساسات کو ایک عمدہ اور اعلیٰ نصب العین کے تحت لاکر مہذب اور شائستہ بناناہے، تاکہ نوع انسانی کے لیے مفید ثمرات ونتائج حاصل کئے جاسکیں، انسان کو اس کی اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرانا بہت دشوار ہے اورجس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی ہے۔
بالفاظ دیگر یوں سمجھئے کہ اگر تعلیم صرف نہ جانی ہوئی چیزوں کی واقفیت تک محدود ہوتو کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی لیکن اگر اسے عمل کا پابند بنادیاجائے تو پھر اس کی دشواریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں، اگر چہ علم کی قدر دنیاکی ہر قوم کرتی ہے، لیکن علم کی نسبت مسلمانوں کا جو نظریہ ہے، وہ دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہے، غیر مسلم علم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے دنیامیں قوت وعظمت اورترقی وبر تری حاصل کریں، علم کو عام طور پر حصول معاش کے لیے وسیلہ سمجھا جاتاہے، مگر مسلمانوں کی یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے علم کو وسیلے کے بجائے مقصد سمجھا ہے، ذریعہٴ معاش نہیں سمجھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ علم کو علم کے لیے سیکھاہے، انھوں نے علم کو کبھی اس لیے خاص نہیں کیا کہ اس کے ذریعے معاش حاصل کریں، مسلمانوں کے نزدیک حصول علم ایک فریضہ ہے جو دنیوی مفادکے علاوہ اخروی نجات کاذریعہ بھی ہے، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم“ یعنی ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔
تحصیلِ علم کی یہ فرضیت عمل ہی کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے اور ہر شخص پر تحصیلِ علم بقدر ضرورت واجب ہے۔ تاریخ کی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک سربلند نہیں ہو سکتی جب تک اس میں علم و عمل کی قوتیں بیدار نہیں ہوتیں، تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی بدولت روحانی اور اخلاقی، تمدنی اور تہذیبی ترقی ہو سکتی ہے جو انسانی تخلیق کا مقصد اعلی ہے۔ ایسی ترقی کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بہتر سے بہتر طریقہ پر نشو و نما کر سکے، بالفاظ دیگر معاشرے کا فرض اولین ہے کہ وہ تمام ایسی سہولتیں مہیا کردے جس سے ہر طالب علم اپنے بہتر ین جو ہر دکھاسکے۔ در حقیقت علم سے قومیں بنتی ہیں اور جہل سے بگڑتی ہیں، بناء بریں ضروری ہے کہ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں، اسلام نے تعلیم کو سماج کے مخصوص طبقوں کی اجارہ داری سے نجات دلاکر انسانیت پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ہر ترقی حاصل کرنے والی قوم کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس کی ترقی کا راز اس قوم کے عوام کے تعلیم یافتہ ہونے میں مضمر ہوتا ہی، اور یہ اس وقت تک آسان نہیں جب تک تعلیم کا مفت انتظام نہ ہو۔ موجودہ طریقہٴ تعلیم میں مصارف کی گراں باری نے اکثریت کو تعلیم کے فوائد سے محروم کردیا ہے، صد ہا برس کے تجربے کے بعد بیسویں صدی کے ماہرین تعلیم بالآخر اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ عوام کی تعلیم مفت ہونی چاہیے اور جب تک یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے گا، تعلیم کا عام ہونا مشکل ہے۔
قدیم تعلیمی نظام میں ہمیشہ سے اسی اصول پر عمل در آمد رہا ہے، چنانچہ ان مدارس میں تعلیم کا جو نہج اختیار کیا گیا تھا اس میں تعلیمی مصارف کو طلبہ کے بجائے در سگاہوں کے ذمہ رکھا گیا تھا، اس تعلیمی نظام میں تعلیم پر کوئی فیس عائد نہ تھی اور اتنا ہی نہیں بلکہ طلبہ کے لیے زیر درس کتابوں کا انتظام بھی مفت ہوتا تھا، پھر نہ صرف یہ کہ تعلیم مفت تھی اور قیام گاہ (بورڈنگ ہاوٴس) کا کرایہ نہیں لیا جاتا تھا، بلکہ نادار اورغریب طلبہ کو درس گاہوں کی جانب سے کھانا، کپڑا اور دوسری ضروریات کے لیے نقد روپئے بھی دیئے جاتے تھے، مدارس عربیہ کی یہ وہ خصوصیت ہے جس کی مثال دنیا کے کسی تعلیمی نظام میں نہیں پائی جاتی ۔
اس کے علاوہ مدارس عربیہ میں حصول علم پر کبھی کوئی ایسی پابندی نہیں کی گئی جس کے ذریعے قوم کے کچھ افراد پر تعلیم و تعلم کے دروازے بند کردئیے گئے ہوں،بلکہ ان میں ہر وہ شخص جس کو اکتساب علم کا ذوق ہوتا بغیر کسی رکاوٹ کے علم حاصل کرسکتا تھا، عمر اور پیشے کی قید سے ہمارے مدارس ہمیشہ آزاد رہے ہیں اور ان میں رنگ ونسل، امیر وغریب اور اونچ نیچ کے مابین کوئی امتیاز اور فرق روا نہیں رکھا گیا۔ اسی بناء پر ہر شخص کے لئے خواہ وہ کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو اور کتنا ہی کم مقدور کیوں نہ ہو، بلا تکلف اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی راہیں ہمیشہ کھلی رہی ہیں۔ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں بے شمار ایسے علماء وفضلاء ملیں گے جو آبائی طور پر مختلف ادنیٰ واعلیٰ پیشوں سے تعلق رکھتے تھے، مدارس دینیہ میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ قیود وشرائط سے آزاد رکھے جانے کا اصول پیش نظر رکھا گیا ہے۔ادنیٰ پیشے والوں سے تعلیم کی پابندی اٹھانا دنیا نے مسلمانوں ہی سے سیکھا ہے اور جس چیز کا سہرا آج یورپ کے سر باندھا جارہا ہے، وہ درحقیقت مدارس عربیہ ہی کی دین ہے۔
مفت تعلیم
ہمارے قدیم نظام تعلیم کی یہی روایات دارالعلوم کا طرہٴ امتیاز ہیں۔یہاں بھی طلبہ سے کوئی فیس نہیں لی جاتی، غیر مستطیع اور ضرورت مند طلبہ کو دارالعلوم کی جانب سے کھانا، کپڑا اور نقدوظائف دیئے جاتے ہیں، زیر درس کتابیں اور قیام کے لئے جگہ ہر مستطیع و غیر مستطیع طالب علم کیلئے مفت مہیا کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دارالعلوم کی تعلیم صرف دولت مندوں کے ساتھ مخصوص نہیں رہی ہے بلکہ غریب سے غریب شخص بھی اس کے ذریعے سے اپنے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرسکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند ہندوستان میں وہ پہلی تعلیم گاہ ہے جو مفت تعلیم (Free Education)کی بنیادپر قائم ہوئی اور ڈیڑھ صدی سے زیادہ مدت سے یہ مفت نظام تعلیم پوری کامیابی سے جاری و ساری ہے۔
غیر فاصلاتی تعلیم
زمانہ ٹیکنیکل تعلیم میں ترقی کرکے ثریا پر پہنچ گیا ہے اور زمین کا سینہ چاک کرکے ا س کے خزانے نکال لایا ہے، لیکن تعلیم اپنے اصل مقصد بلند اخلاقی اور جوہر انسانیت کے ساتھ آراستگی سے آج تک محروم ہے، دارالعلوم نے اپنا نظام تعلیم اس طرح مرتب کیاہے کہ اس میں تعلیم کی پختگی کے ساتھ اخلاق کی بلندی اور اعمال و کردار کی پاکیزگی کی طرف یکساں توجہ دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا تصور طلبہ اور اساتذہ کے درمیان فاصلاتی طور پر مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم نے فاصلاتی تعلیم کو اپنے نظام میں کوئی جگہ نہیں دی ہے۔ گرچہ ٹیکنیکل ترقی نے پوری دنیا کو ایک ٹیبل پر سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور جدید مواصلاتی نظام نے دوری کے تصور کو ختم کردیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فاصلاتی تعلیم یا آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ اور ہرطرح کے علم کا حصول تو ممکن ہے لیکن اس صورت میں تعلیمی ماحول کی پاکیزگی، اساتذہ کی نگرانی میں تربیت اور صالح صحبت کے تعین کے ذریعے شخصیت کا ارتقا نہ صرف مشکل بلکہ غیر ممکن ہے۔
فاصلاتی تعلیم کی یہی وہ خامی ہے جس کی بنیاد پر دارالعلوم نے اس نظام کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ نہ پاکر مسترد کردیا ہے، البتہ دینی امور میں رہنمائی کے لیے آن لائن کا دروازہ پوری دنیا کے لیے کھول رکھا ہے۔ دارالعلوم دیوبند اپنے اس نظریہٴ تعلیم میں کہاں تک کامیاب ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج دنیا کے چپے چپے میں یہاں کے فضلاء دینی علوم و فنون پر دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی روحانی و اخلاقی قدروں سے آراستہ ہوکر اسلامی دعوت و تبلیغ کی جد و جہد میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور اپنے اعمال کی درستگی اور کردار کی پاکیزگی میں پوری دنیا کے لیے نمونہ بنے ہوئے ہیں۔
تعلیمی آزادی
برطانوی دور حکومت میں دارالعلوم وہ پہلی درس گاہ تھی جس نے ’آزادانہ طریقہٴ تعلیم‘کو پیش کیااور سیاسی غلامی کی فضا میں ملت کی ذہنی آزادی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کی۔ اگر چہ یہ کام بہت مشکل تھا مگر دارالعلوم نے اس پر عمل کرکے اس مشکل کو آسان بنادیا،دارالعلوم نے حکومت برطانیہ کی پیش کش کے باوجود کبھی اس کی امداد قبول نہیں کی، اس لئے وہ بہت سی ایسی پابندیوں سے آزاد رہا ہے جو سرکاری ”زر امداد“ کے ساتھ ساتھ آنی لازمی ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جب حکومت دارالعلوم کو گراں قدر مالی امداد دینے پر آمادہ تھی تو اس کو قبول امداد میں احتراز وانکار مناسب نہ تھا، قوم خواہ کتنی ہی فیاضی دکھائے مگر پھر بھی حکومت کی پیش کردہ امداد کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ان لوگوں کی نظر غالباً اس امر پر نہیں گئی کہ مدارس عربیہ کو حکومت کے اثر سے اس لئے آزاد رکھنا ضروری ہے کہ حکومت خواہ مسلمانوں ہی کی کیوں نہ ہو جب تک وہ خالص اسلامی طر ز کی حکومت نہ ہو اس کی سیاست بے لاگ اور بے غل وغش نہیں ہوسکتی اور مدارس عربیہ کے لئے ایسی تعلیم درکار ہے جو ہر قسم کے غیر اسلامی اثر اور خارجی عمل دخل سے بالکل آزاد ہو۔
دارالعلوم دیوبند نے کبھی حکومت وقت سے امداد حاصل نہیں کی، اس کا تمام تر سرمایہ اعتماد علیٰ اللہ ہے، دارالعلوم صرف مسلم عوام کے بھروسے پر دین کی خدمت میں منہمک رہا ہے اور لیل ونہار کی تیزوتند گردشوں کے باوجود اپنی قدیم شان دار روایات کے ساتھ قائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ اس کا فیض جاری رہے گا۔
دارالعلوم کو حکومت کی اعانت اور سرکاری مداخلت سے بالکل علیٰحدہ اور آزاد رکھا گیا ہے، برطانوی حکومت کی جانب سے تعلیم وتربیت کا جو نظام اس زمانے میں جاری رکھا گیا تھا وہ نہ صرف یہ کہ اسلامی نصب العین اور عقیدے سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا بلکہ مسلمانوں کے لئے سخت مضر تھا، اگر اس کو قبول کر لیا جاتا تو ہماری موجودہ نسل محض یہی نہیں کہ اسلام سے بے بہرہ ہوتی بلکہ عجب نہیں کہ وہ اسلام سے منحرف اور باغی ہوچکی ہوتی۔دارالعلوم کے اکابر نے بروقت اس خطرے کا احساس کیا اور سیاسی غلامی کے باوجود ذہنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے قدیم نظام تعلیم کی ازسر نو بنیاد ڈالی تاکہ اس نصاب کی تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ ایک مرد مومن کی حیثیت سے زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھ سکیں۔
طلب علم کا اعلی مقصد
آج بھی عمومی طور پر بد قسمتی سے تعلیم کا مقصد یہ ہوکر رہ گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے کوئی اچھی اور پُر منفعت ملازمت حاصل کرکے معقول روزی کمائی جائے، گویا تعلیم کا مفہوم ہی سرے سے بدل ڈالا گیا ہے، اور ”علم برائے علم“ کے بجائے اب صرف حصول معاش کے دوسرے بہت سے ذرائع کی طرح یہ بھی ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے، حالانکہ شرف علم کا قدرتی تقاضا ہے کہ اس کا نصب العین بلند ہو۔ بلا شبہ دنیاوی علوم وفنون اس لئے حاصل کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے دنیاوی ترقی حاصل کی جاسکے، لیکن اگر اس نصب العین کو صرف اپنے ذاتی مفاد تک محدود کردیا جائے اور اپنی ہی منفعت سامنے رکھی جائے تو یہ خود غرضی ہے، علم جیسی گراں قدردولت کو صرف اپنی اغراض پر خرچ کرنا علم کی عظمت کو نہ پہچاننا ہے، دنیاوی علوم وفنون حاصل کرنے کا مقصد یہ بھی ہونا چاہئے کہ اس کے ذریعے سے پوری قوم کے سرمائے کو ترقی دی جاسکے اور نہ صرف اپنے عروج وترقی کا بلکہ وہ ملک وملت کی ترقی کا ذریعہ بن سکے۔
مدارس عربیہ کے طلبہ کے سامنے حصول علم کا مقصد اور نصب العین اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی مخلوق کی بہترین خدمت ہے، شاگرد استاد کو استاد ہی سمجھتے ہیں، استادی اور شاگردی کی قدیم حدود مراتب کا پوری طرح لحاظ رکھتے ہیں، شاگرد اپنے استاذ کا ویساہی ادب کرتے ہیں جیسے اپنے والدین کا۔ اساتذہ کی خدمت کو ہر طالب علم باعث ازدیاد علم وبرکت تصور کرتا ہے۔
اسلامی تاریخ کا یہ زریں واقعہ یادر کھنے کے لائق ہے کہ بغداد میں جب مدرسہ نظامیہ قائم ہوا اور اس کے اساتذہ اور طلبہ کے گراں قدر مشاہرے مقرر ہوئے اور حکومت کی جانب سے ہر قسم کا سامانِ آسائش مہیا کیا گیا تو علمائے بخارا نے ’زوال علم‘ کی مجلس ماتم منعقد کی اور اس پر اظہار افسوس کیا کہ اب علم، علم کے لئے نہیں جاہ وثروت کے لئے حاصل کیا جائے گا، ظاہر ہے کہ جس شخص کے سامنے علم کا یہ اعلیٰ مقصد نہ ہو گا، وہ عصری اداروں کے بجائے دارالعلوم کا رخ ہی کیوں کرے گا، جس کی سند کی قیمت حکومت کی نظر میں تقویم پارینہ سے زائد نہیں ہے۔
دارالعلوم کے نصاب تعلیم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ سرکاری امتحانات ”مولوی، فاضل“ وغیرہ کے معیار سے کہیں زیادہ بلند پایہ ہے، اس لئے اگر دارالعلوم چاہتا تو حکومت سے بآسانی اپنی سند کو ”مولوی، فاضل“کے مساوی تسلیم کراسکتا تھا، مگراس نے اپنی سند کو سرکاری محکموں کی ملازمت کے لئے ”پروانہ راہ روی“ بنانے کے بجائے اس امر کو زیادہ مناسب سمجھا کہ وہ طلبہ میں ایسی علمی قابلیت وفضیلت پیدا کرنے کی سعی کرے کہ لوگ اس طالب علم اور اس کی سند کو دیکھتے ہی یہ باور کرلیں کہ یہ کوئی کام کی چیز ہے اور یہ شخص دین کے جس کام کو اپنے ذمہ لے گا اس کو قابلیت اور خوش اسلوبی سے انجام دے سکے گا۔
اعلیٰ روحانی واخلاقی قدریں
دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں اس بات کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے طالب علم اسلام کی روحانی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم وفنون میں بھی پورے طور پر دسترس اور مہارت حاصل کرسکے، تاکہ یہاں سے نکلنے کے بعد ملت کی مخلصانہ قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا اہل ہوجائے اور اسلامی دعوت وتبلیغ کی جد وجہد میں اہم کردار اداکرسکے۔ دارالعلوم میں طلبہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تعلیم کا مقصد ڈگریاں حاصل کرنا یا سرکاری ملازمتوں اور عہدوں کے لئے تیاری کرنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خالص دینی تعلیم ہے جس کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔
ہندوستا ن کے سیاسی اور جغرافیائی حالات کا تقاضہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت موجود رہنی چاہئے جو اعلاء کلمة اللہ اور احیاء سنت کے لئے ہمیشہ سر گرم عمل رہے۔ خدا کاشکر ہے کہ دارالعلوم اپنے اس تعلیمی مقصد میں کامیاب ہے، اس درس گاہ سے ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء، مبلغین ، مصنفین وقائدین نکلے ہیں جنہوں نے دارالعلوم کے اس مقصدسے کبھی گریز نہیں کیا ہے۔
حدیث نبوی ،کتاب اللہ کی شرح وتفسیر اوراسلامی قانون کا دوسرا اہم ماخد ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے بیشتر دینی ودنیوی علوم کی خدمات انجام دی ہیں مگر اُن میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت حدیث کے درس کو حاصل رہی ہے، دارالعلوم کادرس حدیث روایت ودرایت اور تفقہ کے تمام اصول کا جامع رہا ہے۔یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ حدیث کی شرح اور اس کے متعلقہ مباحث پر ایسی تفصیل طلبہ کے سامنے آجائے جس سے احادیث نبوی کی جمع وتطبیق اور ترجیح وتاویل میں طلبہ کو اپنی آئندہ زندگی میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ درس حدیث میں دارالعلوم دیوبند تمام دینی مدارس میں احترام وعظمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند اپنے تعلیمی نظام کی وسعت، اتباع سنت میں پختگی اور علوم وفنون میں کامل رسوخ کی بنا پر برصغیر میں منفرد تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتا ہے، خصوصاً حدیث نبوی کی تعلیم میں ایک منفرد اسلوب کا حامل ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی اس خصوصیت نے اسے دوسری تمام تعلیم گاہوں سے ممتاز بنادیا ہے، اس کے دارالحدیث میں ہر سال ایک ہزار سے زائدطالبان علوم حدیث نبوی کا اجتماع رہتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں سے محض حدیث کی تعلیم کے لئے یہاں ا ٓتے ہیں، ان طالبان حدیث میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو دوسرے مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور صرف اس لئے یہاں آتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند ہندوستان ، پاکستان، برما، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ ملکوں کے دینی مدارس کی سر براہی کرتا ہے اور بہت سے مدارس طریقہ تعلیم اور اندرونی نظم ونسق میں دارالعلوم دیوبند کی تقلید کرتے ہیں۔
ماخذ: تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد دوم، ص ۲۸۴ تا ۲۹۱