دارالعلوم کا نظام تعلیم

دارالعلوم میں شوال میں نئے داخلے لیے جاتے ہیں اور داخلہ کی کاروائی مکمل کرنے کے بعد اوائل ذی قعدہ سے اسباق شروع ہوجاتے ہیں جو آخر رجب تک جاری رہتے ہیں۔ ششماہی امتحان ماہ ربیع الاول کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے جب کہ سالانہ امتحان شعبان میں ہوتا ہے جو تقریباً تین ہفتے تک جاری رہتا ہے۔ شعبان کے آخری ہفتے سے عام تعطیل ہوجاتی ہے جو شوال کے پہلے ہفتے تک جاری رہتی ہے۔ شوال کے دوسرے ہفتہ سے داخلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جمعہ کے دن ہفتہ کی تعطیل ہوتی ہے۔رمضان و عید الفطر کی بڑی تعطیل کے علاوہ عید الاضحی میں تقریباً دس دن کی تعطیل ہوتی ہے۔

اوقات تعلیم

دارالعلوم میں درس کے اوقات صبح و شام دو حصوں میں تقسیم ہیں، پہلا حصہ چار گھنٹے کا ہے اور دوسرا دو گھنٹے کا۔ موسم گرما میں صبح ۶ /بجے سے ۱۰/ بجے تک اور بعد ظہر ساڑھے تین سے ساڑھے پانچ بجے تک اور موسم سرما میں صبح کو ۸/بجے سے ۱۲/بجے تک اور بعد ظہر ۲/بجے سے ۴/بجے تک درس کے اوقات ہیں۔ موسم کے تغیر کے ساتھ تدریجاً اوقات بدلتے رہتے ہیں، یعنی چھ سے سوا چھ اور دوسے سوادو، اسی طرح آٹھ سے پونے آٹھ اور ساڑھے تین سے سوا تین وغیرہ۔دارالعلوم میں ہر تعلیمی گھنٹہ پورے ۶۰/منٹ کا ہوتا ہے۔

امتحانات

دارالعلوم سے پہلے ہندوستان میں جتنے تعلیمی مراکز تھے ان کی حیثیت بالعموم شخصی درس گاہوں کی تھی اور یہ امرسب میں بطور قدر مشترک تھا کہ نہ ان میں درجہ بندی تھی، نہ حاضری کے رجسٹر ہوتے تھے، نہ طلبہ کو مجبور کیا جاتا تھا کہ فلاں کتاب اور فن کے ساتھ فلاں کتاب اور فن کا لیناضروری ہے، مطلق آزادی تھی۔ جس کا جو جی چاہتا پڑھتا تھا اور جب تک چاہتاتعلیمی سلسلہ جاری رکھتا،تعلیم کی کوئی مدت معین نہ تھی اور امتحان کا بھی کوئی خاص دستور نہ تھا۔ جماعت بندی، مدت تعلیم، حاضری اور امتحان کے التزام اور تناسب مضامین وغیرہ امور کے اجرا کی اولیت دارالعلوم کو حاصل ہے اور یہیں سے مدارس عربیہ میں یہ امور بتدریج رواج پذیر ہوئے ہیں۔

دارالعلوم سے قبل مدارس عربیہ میں امتحانات کا طریقہ عموماً مروج نہ تھا ، تاہم کچھ مدارس میں سالانہ امتحان کی تفصیلات ملتی ہیں۔ مگر قیام دارالعلوم کے قریبی زمانہ میں یہ رواج متروک ہوچکا تھا اور مدارس عربیہ میں ششماہی اور سالانہ امتحان کا طریقہ جو طالب علم کی استعداد اور محنت وجانفشانی کے اندازہ کرنے کاایک عمدہ ذریعہ ہے، مروج نہیں تھا۔طالب علم جب استاد سے ایک کتاب پڑھ لیتا تو اس سے مافوق دوسری کتاب بغیر امتحان لئے شروع کرادی جاتی تھی ۔ظاہر ہے کہ اس میں طا لب علم کی استعداد جانچنے اور پرکھنے کا کوئی موقع نہ تھا ۔

دارالعلوم نے اس نقص کو محسوس کرتے ہوئے اس طریقے کو ختم کرکے ششماہی اور سالانہ امتحان کو لازمی قرار دیا۔دارالعلوم میں امتحانات کے سلسلے میں جو قواعد مروج ہیں وہ بھی کافی مستحکم ہیں، یہاں پرائیوٹ اور فاصلاتی امتحان کا نظام نہیں ہے۔

قوانین امتحان

امتحان جو طلبہ کی تعلیمی استعداد اور اساتذہ کی محنت وجاں فشانی کے اندازے کا معیار ہے اور جس پر ترقی درجات کا انحصار ہے، بہت ضروری چیز ہے، لیکن دارالعلوم کو جس طرح حکومت کے اثر سے بالکل علاحدہ رکھا گیا ہے،اسی طرح امتحان میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کو بھی ناپسند کیا گیا،نصاب تعلیم خود دارالعلوم کا اپنا مجوزہ ہے اور امتحانات بھی دارالعلوم خود ہی اپنی نگرانی میں لیتا ہے۔

امتحان دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک امتحان داخلہ،یہ ان طلبہ کا ہوتا ہے جو کسی دوسرے مدرسہ سے آکر دارالعلوم میں داخل ہونا چاہیں، یہ امتحان شوال میں ہوتا ہے، اس امتحان میں بہت ہی احتیاط برتی جاتی ہے اور بسا اوقات ایک عشر طلبہ داخلہ پاتے ہیں اور بقیہ طلبہ ایسے ہوتے ہیں جن کو امتحان داخلہ میں ناکام ہونے کے باعث واپس ہو جانا پڑتا ہے۔دوسرا امتحان خواندگی ہوتا ہے ، یہ سال میں دو مرتبہ لیا جاتا ہے، ششماہی ماہ ربیع الاول میں اور سالانہ شعبان میں ہوتا ہے۔

امتحانات میں انتہائی احتیاط او رسخت نگرانی کی جاتی ہے۔پہلے اور دوسرے سال کے تمام اور تیسرے سال کی چند کتابوں تک امتحان زبانی سوال و جواب کے ذریعے لیا جاتا ہے، اوپر کی جماعتوں کا امتحان تحریری ہوتا ہے، سوالات کے پرچے نہایت احتیاط اور راز داری کے ساتھ چھپوائے جاتے ہیں۔

مفت تعلیم اور وظائف

مدارس عربیہ میں تعلیم پانے والے طلبہ اکثرو بیشتر غریب اور نادار ہوتے ہیں، ان کے سر پرستوں میں اتنی استطاعت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں روپیہ خرچ کرکے ان کو تعلیم و تہذیب سے آراستہ کر سکیں۔ہر ترقی کر نے والی قوم کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ترقی کا راز اس قوم کے عوام کے تعلیم یافتہ ہونے میں مضمر ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعلیم کا مفت انتظام نہ ہو۔چناں چہ صد ہابرس کے تجربے کے بعد بیسویں صدی کے بڑے بڑے ماہرین تعلیم بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ عوام کی تعلیم مفت ہونی چاہئے اور جب تک یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے گا تعلیم کا عام ہونا مشکل ہے، جدید تعلیم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہو کر رہ گئی جو اپنے اخراجات کے خود متحمل ہو سکیں، گویا عصری تعلیم کے حصول میں غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔لیکن ہمارے قدیم تعلیمی نظام میں مصارف کو طلبہ کے بجائے درس گاہوں کے ذمے رکھا گیا ہے، اس تعلیمی نظام میں تعلیم پر کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ طلبہ کے لیے زیر درس کتابوں کا انتظام بھی مفت کیا جاتا ہے، بلکہ نادار اور غریب طلبہ کو درس گاہوں کی جانب سے کھاناکپڑا اور دوسری ضروریات کے لیے نقد وظائف بھی دیئے جاتے ہیں، حتی کہ دارالعلوم میں شروع ہی سے اس امر کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ غریب نادار طلبہ کے قیام وطعام، لباس، مصارف علاج اور دوسری لازمی ضروریات کی کفالت کا بار طلبہ کے بجائے دارالعلوم کی جانب سے برداشت کیا جائے، الایہ کہ جو طلبہ خود اپنی کفالت پر قدرت رکھتے ہیں، وہ طعام و لباس اور بعض دوسرے مصارف خود برداشت کرتے ہیں۔

مگر اجراء وظائف میں یہ لحاظ رکھنا ناگزیر ہے کہ طلبہ میں تعلیمی امور سے بے رغبتی کی عادت پیدا نہ ہونے پائے اور وہ ہمہ تن تعلیمی مشاغل میں منہمک رہیں،اس لیے تمام و ظائف ایک سال کے لیے جاری کئے جاتے ہیں ، سال آئندہ میں ان کی از سر نو تجدید کرانی ہوتی ہے، طالب علم اگر کسی وقت بھی امتحان میں ناکام ہوتا ہے تو وظیفہ بند کردیا جاتا ہے اور جب تک وہ اجرائے امداد کے قانون کے مطابق مطلوب اوسط نمبرات سے امتحان میں کامیابی حاصل نہ کرلے وظیفہ جاری نہیں ہوتا، البتہ دارالاقامہ میں قیام کے لیے جگہ اور کتب خانہ سے سال متعلقہ کی زیر درس کتابیں بلا تخصیص مستحق وغیر مستحق ہر طالب علم کو مستعار طریقے پر مفت دی جاتی ہیں۔

وظیفہ حاصل کرنے کے لیے حسب ذیل شرائط ضروری ہیں:

(الف) طالب علم کم از کم نور الایضاح اور ہدایة النحو وغیرہ کتب (جو دوسرے سال میں پڑھائی جاتی ہے) پڑھ چکا ہو۔

(ب) مذکورہ کتب کے امتحان میں سونمبروں میں کم از کم ۵۵/ نمبر حاصل کئے ہوں، جو کامیابی کا درجہٴ اوسط ہے۔

(ج) غربت کی وجہ سے امداد کا طلب گار ہو۔

وظیفے کی دو قسمیں ہیں: کھانا اور نقدوظیفہ۔ کھانے کے انتظام کے لیے مطبخ ہے، جس سے ہر طالب علم کو ایک وقت میں دو تندوری روٹیاں دی جاتی ہیں جو ۲۵۰گرام (خشک)آٹے کی ہوتی ہیں، دوپہر کو دال اور شام کو کھانے میں گوشت دیا جاتا ہے۔ ہر ہفتہ دوپہر کے کھانے میں فی طالب علم ایک کلو بریانی دی جاتی ہے۔

کھانے کے علاوہ مختلف مقدار میں نقد وظائف بھی دیئے جاتے ہیں،جو تین سو روپے ماہانہ تک ہوتے ہیں یہ دونوں قسم کے وظائف دارالعلوم کی اصطلاح میں ”امداد“ کہلاتے ہیں۔ جن طلبہ کی ”امداد“ جاری ہو جاتی ہے ان کو سال بھر میں دو جوڑے کپڑے اور دو جوڑے جوتے دیئے جاتے ہیں۔ حجروں میں روشنی اور کپڑوں کی دھلائی کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر ہے، بیمار طلبہ کے لیے معالج مقرر ہیں، طلبہ کو دوا مفت مہیا کی جاتی ہے اور کھانا پرہیزی ملتا ہے۔

طالب علم کو مالی امداد ملتی ہو یا نہ ملتی ہو دونوں صورتوں میں اس کے لیے رہائش کا نظم مفت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی طالب علم سے تعلیم یا امتحانات کی کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے۔ ان امور کے علاوہ احاطہٴ دارالعلوم کی تمام گزرگاہوں ، درس گاہوں اور کمروں میں روشنی کا نظم ہے۔ اقامت گاہوں میں پانی کے نل ، ٹوائلٹ اور غسل خانے بنے ہوئے ہیں۔ موسم سرما کے لیے لحاف دیئے جاتے ہیں اور گرم پانی کا نظم کیا جاتا ہے۔ موسم گرما میں ٹھنڈے پانی کی فراہمی کے لیے جگہ جگہ ریفریجریٹر لگے ہوئے ہیں۔

تقسیم انعام

دارالعلوم میں بعض دوسرے امور کی طرح شروع ہی سے تقسیم انعام کا بھی رواج ہے۔ طلبہ میں تعلیمی مشاغل کی نسبت ترغیب اور مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے سالانہ امتحان میں کامیابی پر طلبہ کو مستحق انعام سمجھا جاتا ہے، جو طالب علم اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتا ہے اسے خصوصی انعام دیا جاتا ہے، انعام میں طالب علم کی استعداد کے مطابق درسی وغیر درسی کتابیں دی جاتی ہیں۔

تصدیق نامہ اور سند

جوطلبہ نصابِ دارالعلوم کی تکمیل کرکے سالانہ امتحانوں میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ان کو فراغت تعلیم کے بعد سند دی جاتی ہے، سند میں ہر پڑھی ہوئی کتاب کے نام کے اندراج کا التزام رکھا جاتا ہے، مگر جس کتاب کے امتحان میں ادنی کامیابی سے کم نمبر ہوں وہ داخل سند نہیں کی جاتی۔سند میں ان کتابوں کے ناموں کے علاوہ جن کا امتحان دیاجاچکا ہے، طالب علم کی علمی و ذہنی استعداد اور حسن قابلیت کا بھی ذکر ہوتا ہے اور اس بات کی شہادت دی جاتی ہے کہ اس نے دارالعلوم میں تعلیم پائی ہے، علوم وفنون میں مہارت رکھتا ہے، درس و تدریس اور افتاء کا اس کو حق حاصل ہے، اس کے علاوہ اس کے اخلاق، چال چلن کے متعلق بھی اظہار کیا جاتا ہے۔ سند مطبوعہ ہوتی ہے جس پر مہتمم اور اساتذہ کے دستخط اور دارالعلوم کی مہر ثبت ہوتی ہے۔

ماخذ:  تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد دوم،ص ۲۹۲ تا ۳۰۱(مع ضروری حذف و اضافہ)