علمائے دیوبند کا سلسلہٴ سند و استناد

دارالعلوم دیوبندکا سلسلہٴ سند مسندِ ہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ(۱۷۶۲ء-۱۷۰۲ء )سے گزرتا ہوا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے، دارالعلوم اور جماعت دیوبندی کے مورثِ اعلیٰ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ہی ہیں جن کے علمی و فکری منہاج و طریق پر منتسبین دارالعلوم اور بالفاظ واضح دیوبندی مکتب فکر کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس لیے بحمد اللہ دیوبندی مکتب فکر کوئی نوپید جماعت نہیں بلکہ علمی، دینی اور سیاسی احکام و امور میں علمائے دیوبند مسند ہند شاہ ولی اللہ کے توسط سے سلف صالحین سے پوری طرح مربوط ہیں۔

حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے ولی اللہی سلسلہ کے تلمذ سے اس رنگ کو نہ صرف اپنایا جو انھیں ولی اللہی خاندان سے ورثہ میں ملا تھا بلکہ مزید تنور کے ساتھ اس کے نقش و نگار میں اور رنگ بھرا۔ وہی منقولات جو حکمت ولی اللہی میں معقولات کے لباس میں جلوہ گر تھے، حکمت قاسمیہ میں محسوسات کے لباس میں جلوہ گر ہوگئے۔ پھر آپ کے سہل ممتنع انداز بیان نے دین کی انتہائی گہری حقیقتوں کو جو بلاشبہ علم لدنی کے خزانہ سے ان پر بالہام غیب منکشف ہوئیں، استدلالی اور لمیاتی رنگ میں آج کی خوگر محسوس یا حس پرست دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ اور ساتھ ہی اس خاص مکتب فکر کو جو ایک خاص طبقہ کا سرمایہ اور خاص حلقہ تک محدود تھا،دارالعلوم دیوبند جیسے ہمہ گیر ادارہ کے ذریعہ ساری اسلامی دنیا میں پھیلادیا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ولی اللہی مکتب فکر کے تحت دیوبندیت در حقیقت ’قاسمیت‘ یا قاسمی طرز فکر کا نام ہے۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کے انتقال کے بعد اس دارالعلوم کے سرپرست قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ نے قاسمی طرز فکر کے ساتھ دارالعلوم کی تعلیمات میں فقہی رنگ بھرا، جس سے اصول پسندی کے ساتھ فروع فقہیہ اور جزئیاتی تربیت کا قوام بھی پیدا ہوا۔ اور اس طرح فقہ اور فقہاء کے سرمایہ کا بھی اس میراث میں اضافہ ہوگیا۔ ان دونوں بزرگوں کے بعد دارالعلوم کے اولین صدر مدرسشاہ عبد العزیز ثانی حضرت مولانا محمد یعقوب قدس سرہ نے دارالعلوم کی تعلیمات میں عاشقانہ اور والہانہ جذبات کا رنگ بھرا، جس سے صہبائے دیانت دو آتشہ ہوگئی۔

پھر دارالعلوم دیوبند کے سرپرست ثالث اور حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے تلمیذ خاص حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند ان تمام علوم و فیوض کے محافظ ہوئے۔ انھوں نے چوبیس سال دارالعلوم کی صدارت تدریس کی مسند سے علوم و فنون کو تمام منطقہائے اسلامی میں پھیلایا اور ہزارہا تشنگان علوم ان کے دریائے علم سے سیراب ہوکر اطراف عالم میں پھیل گئے۔

علمائے دیوبند کا سلسلہٴ تلمذ

علم حدیث میں دارالعلوم دیوبند کے حضرات اکابر کا سلسلہٴ تلمذ کچھ واسطوں سے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ (۱۸۲۳ء-۱۷۴۶ء ) تک پہنچتا ہے۔ حدیث میں اکابرین دیوبند کے استاذ شاہ عبد الغنی مجددی رحمة اللہ علیہ ہیں جو حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمة اللہ علیہ کے جانشین تھے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمة اللہ علیہ ، حضرت شاہ عبد العزیز کے نواسے اور ممتاز شاگرد تھے اور ان کے انتقال کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے وارث اور جانشین ہوئے۔ حضرت شاہ عبد العزیز اپنے زمانے کے سب سے زیادہ متبحر اور جلیل القدر عالم دین تھے جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے صاحب زادے ہونے کے ساتھ اُن کے علوم کے امین اور اُن کی تحریک کے سب سے بڑے قائد و علم بردار تھے۔

علمائے دیوبند کا دوسرا سلسلہٴ تلمذ حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور مولانا رشید الدین خان دہلوی رحمة اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمة اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔ حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمة اللہ علیہ اکابر علماء جیسے حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ، حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندی رحمة اللہ علیہ، حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمة اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی رحمة اللہ علیہ وغیرہم کے استاذ تھے اور حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمة اللہ علیہ ان کے لائق و فائق صاحب زادے تھے جو دارالعلوم کے اولین صدر المدرسین اور ممتاز عالم دین ہوئے۔

اکابر دارالعلوم کا سلسلہٴ سند حدیث

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ سے اوپر کا سلسلہ تمام مشہور و متداول کتب حدیث کے مصنفین کرام تک پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے سندمتصل کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جا ملتا ہے۔

مثال کے طور پر بخاری کا سلسلہٴ سند اس طرح ہے:

(۱) الشاہ ولی اللہ المحدث الدہلوی رحمة اللہ علیہ                         (۲) الشیخ ابو طاہر المدنی رحمة اللہ علیہ

(۳) الشیخ ابراہیم الکردی رحمة اللہ علیہ                      (۴) الشیخ احمد القشاشی رحمة اللہ علیہ

(۵) الشیخ احمد بن عبد القدوس الشناوی رحمة اللہ علیہ     (۶) الشیخ شمس الدین محمد بن الرملی رحمة اللہ علیہ

(۷) شیخ الاسلام زکریا بن محمد الانصاری رحمة اللہ علیہ            (۸) الشیخ احمد بن حجر العسقلانی رحمة اللہ علیہ

(۹) الشیخ ابراہیم بن احمد التنوخی رحمة اللہ علیہ                        (۱۰) الشیخ احمد بن ابی طالب الحجار رحمة اللہ علیہ

(۱۱) الشیخ حسین بن مبارک الزبیدی رحمة اللہ علیہ        (۱۲) الشیخ عبد الاول بن عیسی الہروی رحمة اللہ علیہ

(۱۳) الشیخ عبد الرحمن بن مظفر الداؤدی رحمة اللہ علیہ   (۱۴) الشیخ عبد اللہ بن احمد السرخسی رحمة اللہ علیہ

(۱۵) الشیخ محمد بن یوسف الفربری رحمة اللہ علیہ                    (۱۶) الشیخ محمد بن اسماعیل البخاری رحمة اللہ علیہ

اکابر دارالعلوم کا سلسلہٴ احسان و سلوک

علمائے دیوبند احسان و تصوف یا اہل اللہ اور اولیائے کرام کے سلاسل اورطرق تربیت کے منکر نہیں بلکہ وہ خود ان سلسلوں سے بندھے ہوئے ہیں، البتہ وہ بے بصر معتقدین کی غلوزدہ رسموں اور نقالیوں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک سیدھا اور بے غل و غش راستہ سنت نبوی کا اتباع اور سلف صالحین صحابہ و تابعین ، ائمہ مجتہدین اور فقہائے دین کا تلقین کردہ راستہ ہی سلامتی کا طریق ہے جو مستند علمائے ربانیین سے معلوم ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کا طبقہ مسلک علمائے دیوبند کی رو سے امت کے لیے روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے جس سے امت کی باطنی حیات وابستہ ہے جو اصل حیات ہے۔

حضرات اکابر دیوبند احسان و تصوف کے چاروں سلاسل طیبہ ( چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ) کا یکساں احترام کرتے ہیں اوران سلاسل کے بزرگان کی محبت و عظمت کو تحفظ ایمان کے لیے مفید و ضروری سمجھتے ہیں، مگر غلو کے ساتھ اس محبت و عقیدت میں معاذ اللہ انھیں ربوبیت کا مقام نہیں دیتے۔ بلکہ حضرات اکابر دیوبند اپنی باطنی اصلاح اور ایمانی ترقی کے لیے ان سلاسل سے باضابطہ مربوط بھی ہیں ۔

حضرات اکابر دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحب کا چشتی سلسلہ حسب ذیل ہے:

(۱) حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ   (۲) الشیخ نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیہ

(۳) الشاہ عبد الرحیم شہید رحمة اللہ علیہ          (۴) الشیخ عبد الباری امروہوی رحمة اللہ علیہ

(۵) الشیخ عبد الہادی امروہوی رحمة اللہ علیہ    (۶) الشیخ عضد الدین امروہوی رحمة اللہ علیہ

(۷) الشیخ محمد مکی رحمة اللہ علیہ    (۸) الشیخ الشاہ محمدی رحمة اللہ علیہ

(۹) الشیخ محب اللہ الہ آبادی رحمة اللہ علیہ       (۱۰) الشیخ ابو سعید گنگوہی رحمة اللہ علیہ

(۱۱)الشیخ نظام الدین البلخی رحمة اللہ علیہ       (۱۲) جلال الدین تھانیسری رحمة اللہ علیہ

(۱۳) الشیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ (۱۴) الشیخ محمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ

(۱۵) الشیخ احمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ            (۱۶) الشیخ عبد الحق ردولوی رحمة اللہ علیہ

(۱۷) الشیخ جلال الدین پانی پتی رحمة اللہ علیہ (۱۸) الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ

(۱۹) الشیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة اللہ علیہ        (۲۰)الشیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ

(۲۱)الشیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ           (۲۲) شیخ المشائخ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ

(۲۳)الشیخ عثمان الہارونی رحمة اللہ علیہ        (۲۴)السید الشریف الزندانی رحمة اللہ علیہ

(۲۵)الشیخ مودود الچشتی رحمة اللہ علیہ          (۲۶)الشیخ ابو یوسف الچشتی رحمة اللہ علیہ

(۲۷)الشیخ ابو محمد الچشتی رحمة اللہ علیہ       (۲۸)الشیخ احمد الابدال الچشتی رحمة اللہ علیہ

(۲۹)الشیخ ابو اسحاق الشامی رحمة اللہ علیہ      (۳۰)الشیخ ممشاد علوی الدینوری رحمة اللہ علیہ

(۳۱)الشیخ ابو ہبیرة البصری رحمة اللہ علیہ     (۳۲)الشیخ حذیفہ المرعشی رحمة اللہ علیہ

(۳۳)الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی رحمة اللہ علیہ (۳۴)الشیخ فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ

(۳۵)الشیخ عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ      (۳۶) الشیخ حسن البصری رحمة اللہ علیہ

(۳۷) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ     (۳۸) سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم

علمائے دیوبند مکمل طور پر صحابہ کرام سے لے کر محدثین دہلی اور صوفیائے عظام تک اسناد اسلام کی ہر کڑی سے پورے وفادار رہے اور سلف صالحین کی اتباع کے اس حد تک پابند رہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدعت کو بھی دین نہ بننے دیا۔ تسلسلِ اسلام اور اسناد دین کو کمزور کرنے والے مختلف طبقوں سے دارالعلوم اور اس کے علماء نے اختلاف کیا، تو اس لیے نہیں کہ وہ اختلاف پسند تھے یا انھیں کسی طبقے سے ذاتی بغض تھا بلکہ محض اس لیے کہ اسلام جس مبارک وپاکیزہ سلسلے سے ہم تک پہنچا ہے اس سے پوری وفا کی جائے۔ ان کے الحادی یا بدعی نظریات کی تردید و تخریب اس لیے ضروری تھی کہ اس کے بغیر اسلام کی تعمیر وبقاء کی کوئی صورت نہیں تھی؛ لیکن ان کی یہ تردید بھی اصولی رہی اور انداز جدل بھی احسن رہا جس کی تعلیم خود قرآن نے دی ہے ”وجادلہم بالتی ہی أحسن“ ( سورة النحل، آیت ۱۲۵)

مآخذ:

  • دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی، ص ۲۲ تا ۲۳
  • تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول، ص ۹۲ تا ۱۰۰
  • علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ
  • سلاسل طیبہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ