دارالعلوم دیوبند عالم اسلام کا مشہور دینی و علمی مرکز ہے۔ بر صغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ اور دینی علوم کی تعلیم کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے ہر دور میں ایسے باکمال فضلاء تیار ہوکر نکلے جنھوں نے وقت کی دینی ضرورت کے تقاضوں کے مطابق صحیح دینی عقائد اور علوم دینیہ کی نشر و اشاعت کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں کے فضلاء برصغیر اور بر صغیر کے باہر تقریباً پوری دنیا میں علمی و دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ہر جگہ ان کو ممتاز حیثیت سے مسلمانوں کی دینی رہ نمائی کا مقام حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند تیرہویں صدی ہجری کی ایک عظیم دینی ، تعلیمی اور اصلاحی تحریک تھی جس نے احیائے اسلام اور تجدید دین کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔ یہ وقت کی ایسی ضرورت تھی کہ جس کی عدم تکمیل کی صورت میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے لیے وجود و بقا کا مسئلہ پیش آجاتا اور شاید اسپین کی طرح مسلمان بر صغیر کی تاریخ کا ایک قصہٴ پارینہ بن کر رہ جاتے؛ لیکن دارالعلوم دیوبند کی اس دینی و اصلاحی تحریک نے نہ صرف ہندوستان کو دوسرا اسپین بننے سے بچا لیا، بلکہ اس کی کوششوں سے ہندوستان میں قال اللہ و قال الرسول کے وہ زمزمے چھڑے کہ قدیم اسلامی مراکز کا سماں بندھ گیا اور ہندوستان میں اسلامی علوم و معارف کا ایسا چرچا ہوا کہ پوری مسلم دنیا میں اس کی گونج سنائی دی۔
دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں نہ صرف دینی علوم اور اسلامی قدروں کی بقا و تحفظ کے زبردست اسباب فراہم کیے ہیں ، بلکہ اس نے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر سے ملت اسلامیہ ہند کی دینی، معاشرتی اور سیاسی زندگی پر بہت دور رس اور نتیجہ خیز اثرات ڈالے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہٴ انقلاب میں شکست کھا کر مسلمانوں پر بہت پژمردگی اور بڑی قنوطیت طاری ہوچکی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی فضا میں ہولناک سناٹا چھا گیا تھا۔ اگر اس وقت دارالعلوم قائم ہو کر مشعل راہ نہ بنتا تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کیا ہوتی۔
تقریباً گزشتہ ڈیڑھ صدی سے دارالعلوم دیوبند نہ صرف بر صغیر بلکہ تمام دنیائے اسلام میں مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لیے ایک بے نظیر درس گاہ سمجھی جاتی رہی ہے۔ جامع ازہر مصر کے علاوہ اسلامی اور دینی علوم و فنون کا کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو اپنی قدامت، مرجعیت و مرکزیت اور طلبہ کی کثرت کے لحاظ سے اتنی اہمیت رکھتا ہو جتنی دارالعلوم دیوبند کو دنیائے اسلام میں حاصل ہے۔ ہندوستان کے اس چھوٹے سے قصبے میں دارالعلوم کی بنیاد کچھ ایسے بزرگوں کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی کہ جن کے اخلاص کی برکت سے بہت تھوڑے عرصہ میں اس کی علمی عظمت دنیائے اسلام میں قائم ہوگئی اور یہ اسلامی دنیا کی نہایت ہردل عزیز درس گاہ سمجھی جانے لگی اور ممالک اسلامیہ کے طالبان علم دارالعلوم دیوبند میں علوم و فنون کی طلب و تحقیق کے لیے جمع ہونے لگے۔ آج بر صغیر کے طول و عرض میں جو دینی و علمی شخصیات نظر آتی ہیں ان کی بڑی تعداد اسی دریائے علم سے سیراب ہوئی ہے اور بڑے بڑے نامور علماء نے اسی درس گاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ علمی خدمات کی گراں مائیگی، دینی و اصلاحی تحریک کی وسعت اور احیاء اسلام کی مرکزیت کے اعتبار سے نہ صرف بر صغیر بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی کوئی تعلیم گاہ ایسی نہیں جس نے ملت اسلامیہ کی اتنی وقیع اور اہم دینی و علمی، سماجی و سیاسی اور تبلیغی و اصلاحی خدمات انجام دی ہوں۔
علمائے دیوبند کے دینی و علمی تبلیغی و تصنیفی کارناموں کا بر صغیر ہی میں نہیں بلکہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی بارہا اعتراف کیا گیا، خصوصاً ارشاد و تربیت اور تدریس و تبلیغ کے میدانوں میں یہ سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دارالعلوم کے غلغلے سے افغانستان اور بخارا و سمر قند تک کی علمی مجلسیں گونج اٹھیں۔ یہ ایک مستند تاریخی حقیقت ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا یہ چشمہٴ فیض اپنی خصوصیات کے ساتھ تشنگان علوم کو سیراب کرنے میں ایک صدی سے زائد مدت سے مصروف ہے، اور پورا ایشیا بلکہ سارا عالم اس چمنستان نبوت کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کی انہی دینی، علمی اور فکری سرگرمیوں نے اسے دنیائے اسلام کی نگاہوں کا مرکز بنادیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے وجود پر برصغیر کے مسلمان جس قدر بھی فخر و مسرت کا اظہار کریں، اس کے درست اور حق بہ جانب ہونے میں کوئی تامل نہیں کیا جاسکتا۔ دارالعلوم کی تاریخ عہد حاضر میں مسلمانوں کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اقامت دین اور حریت فکر کی اس عظیم جد و جہد کو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ کا اگر بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت صاف نظر آتی ہے کہ یہ قدیم طرز کی صرف ایک درس گاہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت احیائے اسلام اور قیام ملت کی ایک عظیم الشان تحریک ہے۔
دیوبند کی سرزمین پر اس دینی درس گاہ کا قیام اور اس کا استحکام بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک متحدہ سعی و کوشش کا نتیجہ ہے۔ دین کی خدمت ، اسلام کی تائید، اسلامی علوم و فنون کا احیاء اور ان کی نشر و اشاعت ، علم کے شائق طلبہ کی دست گیری دارالعلوم دیوبند کے مخصوص اور مہتم بالشان کارنامے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند تقریباً ڈیرھ سو سال سے سلف صالحین کے مسلک کے مطابق مسلمانوں کی صحیح علمی اور عرفانی تربیت اور رہ نمائی کررہا ہے۔ زوال بغداد کے بعد جس طرح قاہرہ اسلامی علوم و فنون کا مرکز بنا، ٹھیک اسی طرح دہلی کے زوال کے بعد علمی مرکزیت دیوبند کے حصے میں آئی اور بڑی بڑی نامور شخصیتیں اس درس گاہ سے اٹھیں۔ بے شمار علماء و فضلاء نے اس کی آغوش تربیت میں پرورش پائی۔ یہاں سے ہزاروں علماء و مشایخ، محدثین و فقہاء ، مصنفین اور دوسرے علم و فن کے ماہرین پیدا ہوئے اور آسمان علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب بنے، جنھوں نے مختلف انداز سے دین کی خدمات انجام دی ہیں اور آج بھی اس بر صغیر کے گوشے گوشے میں انجام دے رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ ، اسلام کی تاریخ میں ایک عہد آفریں دور کا تاریخی باب ہے۔ مختصر یہ کہ علوم و فنون کا یہ بحر زخار تشنگان علم کی بہت بڑی تعداد کو اب تک سیراب کرچکا ہے، جنھوں نے نسیم بہار بن کر اس کی علمی خوشبو کو چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان ایک ایسے گھنے درخت کے مشابہ ہیں جس کی سر سبز و شاداب شاخوں اور پتوں کا شمار کرنا آسان نہیں ہے۔
دارالعلوم دیوبند اپنے یوم تاسیس سے شریعت و طریقت دونوں کا مرکز رہا ہے۔ آسمان شریعت و طریقت اور علم وعمل کے جتنے بھی ماہ و انجم اس وقت بر صغیر میں چمک رہے ہیں، ان میں سے بیشتر اسی شمس بازغہ کی روشنی سے منور ہیں اور اسی سرچشمہٴ علم و عرفان سے سیراب ہوکر نکلے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ بر صغیر کے اکثر و بیشتر بڑے بڑے علماء نے اسی درس گاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے اور بہت سے ایشیائی ملکوں میں خوان دارالعلوم کے زلہ ربا موجود ہیں جنھوں نے برصغیر اور اس کے باہر بہت سے ملکوں میں کتاب وسنت کے چراغ روشن کیے ہیں اور بے شمار انسانوں نے ان کے ذریعہ رشد و ہدایت کا فیض پایا ہے۔
دارالعلوم دیوبند صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ در حقیقت ایک تحریک ہے، ایک مکتب فکر اور ایک بحر بیکراں ہے۔برصغیر کے اطراف میں جس قدر دینی مدارس اس وقت موجود ہیں ان کے اساتذہ تقریباً بلا واسطہ یا بالواسطہ دارالعلوم ہی کے فیض یافتہ ہیں اور ہر سال سیکڑوں طلبہ یہاں سے فارغ ہوکر درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ سے اشاعت دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اب تو یوروپ و امریکہ اور افریقہ وغیرہ تک یہ سلسلہ پھیل چکا ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے مسلمانوں کی فکر و نظر کو تازگی و پاکیزگی، قلب کو عزم و حوصلہ اور جسم کو قوت و توانائی بخشنے میں بڑا کام کیا ہے۔ اس کا فیضان عام ہے ، اس سے ایسے بے شمار لوگوں نے اپنی علمی تشنگی بجھائی ہے ، جن کے علمی شوق کو پورا کرنے کے لیے اسباب مہیا نہ تھے۔ اسی کے ساتھ دارالعلوم کے نقش قدم پر بہت سے علمی اور دینی چشمے جاری ہوگئے جن میں سے ہر چشمہ اپنے افادہ و فیضان کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے۔ یہ سب اسی نظام شمسی کے ستارے ہیں جن کی روشنی سے برصغیر میں مسلمانوں کی علمی و دینی زندگی کا گوشہ گوشہ روشن ہے۔ ان دینی مدارس سے لاکھوں مسلمان گھرانوں کی حالت سدھر گئی، مسلمانوں کا احساس کمتری دور ہوا اور ان کی بدولت ملت کو ایسے بے شمار افراد میسر آگئے جنھوں نے حالات اور وقت کے مطابق زندگی کے مختلف گوشوں میں مسلمانوں کی رہ نمائی کی۔جہاں جہاں دارالعلوم کے نقش قدم پر قائم ہونے والے دینی مدارس صحیح خطوط پر سرگرم عمل ہیں ، وہاں اسلام کی حیثیت اور مسلمانوں کی ملی خصوصیات بڑی حد تک محفوظ ہیں۔
دارالعلوم دیوبندنے بر صغیر کے مسلمانوں کی دینی زندگی میں ان کو ممتاز مقام پر پہنچانے کا بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ نہ صرف ایک بین الاقوامی تعلیمی ادارہ ہے بلکہ ذہنی نشو و نما ، تہذیبی ارتقاء اور ملی حوصلہ مندیوں کا ایسا مرکز بھی ہے جس کے صحیح علم اور بلند کردار پر مسلمانوں کو ہمیشہ بھروسہ اور فخر رہا ہے۔ جس طرح عربوں نے ایک زمانے میں یونانیوں کے علوم و فنون کو ضائع ہونے سے بچایا ، اسی طرح دارالعلوم دیوبند نے اس زمانے میں علوم اسلامیہ کی حفاظت و ترقی اور بالخصوص علم حدیث کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ اسلام کی علمی تاریخ میں ایک عظیم کارنامے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ماخذ: تاریخ دارالعلوم دیوبند(مرتبہ سید محبوب رضوی)، جلد اول، ص۵۸تا ۶۲، ۴۴۰