رپورٹ اجلاس ششم مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

از قلم: (مولانا) شوکت علی قاسمی بستوی‏، ناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ و استاذ دارالعلوم دیوبند

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کا اجلاس مہمان خانہٴ دارالعلوم دیوبند میں حضرت اقدس مولانامرغوب الرحمن صاحب زیدمجدہم مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی زیرصدارت مورخہ ۱۲/ ذی قعدہ ۱۴۲۷ھ مطابق ۴/دسمبر ۲۰۰۶/ کو جناب مولانا قاری محمد آفتاب صاحب امروہوی استاذ تجوید دارالعلوم دیوبند کی تلاوت قرآن پاک سے ساڑھے آٹھ بجے صبح شروع ہوا، حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب نائب مہتمم دارالعلوم زیدمجدہم نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہم نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے حضرت صدر اجلاس زیدمجدہم کی جانب سے افتتاحیہ پیش فرمایا۔ افتتاحیہ میں حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس اسلامیہ کے اغراض ومقاصد اور ان کی روشن خدمات اور کارناموں پر روشنی ڈالی اور موجودہ حالات کے تناظر میں مدارس اسلامیہ اور ان کے ذمہ داران و وابستگان پر فرقہ پرستوں اور فسطائی عناصر کی جانب سے لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات اور ان کے کردار و وقار کو مجروح کرنے کی منصوبہ بند کوششوں اور سازشوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار فرمایا، حضرت والا نے مرکزی حکومت کی جانب سے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی تجویز مدارس کے نصب العین اور روح کے یکسرمنافی قرار دیا اور اسے مدارس کو حکومت کے زیرکنٹرول لانے اور ان کے نصاب و نظام میں بنیادی تبدیلی کرنے کی سمت ایک خطرناک قدم سے تعبیر فرمایا، حضرت والا نے اپنے افتتاحیہ میں مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم و تربیت کو بہتر اور چست بنانے اور باہمی ربط و اتحاد کو فروغ دینے کے لیے ضابطہٴ اخلاق کی پابندی پر زور دیا، اسی کے ساتھ خطبہٴ افتتاحیہ میں رابطہ مدارس کی صوبائی شاخوں کو فعال بنانے کی تاکید بھی کی گئی۔

       خطبہٴ افتتاحیہ کے بعد حسب پروگرام حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے نظام تعلیم و تربیت کے موضوع پر نہایت ہی وقیع خطاب میں فرمایا کہ آج عام طور پر مدارس اسلامیہ کی تعلیم کا معیار گرتا جارہا ہے، طلبہ کی استعداد کمزور ہوتی جارہی ہے مجلس کو اس کا جائزہ لینا چاہیے اور اسباب انحطاط پر غور کرکے انھیں دور کرنے کی کوشش کی جانی ضروری ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ طلبہ کی استعداد اور لیاقت میں جب بہتری ہوگی جب تین چیزوں کا اہتمام و التزام کیا جائے گا۔(۱) طلبہ عزیز ہونے والے سبق کا مطالعہ کرکے آئیں (۲) پوری توجہ اور انہماک سے سبق پڑھیں اور استاذ کے درس کو سنیں، سمجھیں (۳) پھر پڑھے ہوئے سبق کا مذاکرہ اور تکرار کریں۔

       آپ نے فرمایاکہ معیار تعلیم بلند کرنے کے لیے اساتذہ کی فنی مہارت ضروری ہے، ماہرفن اساتذہ کی قدردانی کی جائے، جس فن سے جس استاذ کو مناسبت ہو اس فن کی کتابیں دی جائیں اور فنی ترقی کے لیے فضاء کو سازگار بنایا جائے، ہمت افزائی کی جائے۔ ہمارے مدرسوں کا نصب العین مردم سازی ہے اس پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے، نصاب تعلیم سے متعلق حضرت مولانا نے فرمایا کہ سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ ہمارے نصاب تعلیم کا مقصد تفقہ فی الدین ہے اس لیے علوم قرآن و حدیث میں پختہ صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ علوم عالیہ کو تو چھیڑا نہیں جاسکتا، ہاں علوم آلیہ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح تعلیم کے ساتھ ساتھ تزکیہ اور دینی تربیت پر بھی خصوصی توجہ مبذول رکھنے کی ضرورت ہے۔

       حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند زیدمجدہم نے ضابطہٴ اخلاق کے موضوع پر اپنے خطاب میں حمدوصلاة کے بعد فرمایا:

       حضرت مہتمم صاحب زیدمجدہم کے خطبہٴ افتتاحیہ میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ ضابطہٴ اخلاق کو رابطہ مدارس اسلامیہ سے مربوط تمام مدارس میں نافذ کیا جائے، نظام کو چست اور فعال بنایا جائے۔ مدرسے سے متعلق تین چیزیں ہیں: (۱) انتظامیہ جس کے سربراہ مہتمم صاحب یا مجلس شوریٰ ہوتی ہے، (۲) اساتذہ ، (۳) طلبہ۔ اگر سب اپنے مفوضہ فرائض دستور کے مطابق انجام دیں تو یہی ضابطہٴ اخلاق کی پابندی ہے۔ مثلاً ذمہ داران و ارکان صائب الرائے ہوں، مدرسین اپنی تدریس میں مخلص ہوں، طلبہ میں جدوجہد کا جذبہ اور لگن ہو، سب کو ضابطہٴ اخلاق کا پابند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہرمدرسے کا ایک دستور ہو جس میں سب کے حقوق و فرائض کی تفصیل ہو اور سب اس کی پابندی اپنے لیے ضروری سمجھیں۔ ضابطہٴ اخلاق کے سلسلہ میں مزید وضاحت کے بعد آپ کے مدارس کے خلاف جاری مہم کے سلسلہ میں فرمایا کہ: آج مدارس اسلامیہ کے خلاف چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں، جب کہ یہ مدارس اسلام اور علوم اسلامیہ کی حفاظت اور اسلامی تشخص کے بقاء کے مضبوط قلعے ہیں، اگر ہم مدارس کے علماء و ذمہ داران مضبوط ہوتے تو ان کو حملے کرنے میں دشواری ہوتی۔

       اس کے بعد ایجنڈے کی دفعات پر اجتماعی غور و خوض شروع ہوا، اور سب سے پہلے سابقہ اجلاس کی کارروائی ناچیز نے پڑھ کر سنائی، اور حضرت صدر اجلاس نے کارروائی رجسٹر پر اپنے توثیقی دستخط ثبت فرمائے۔ پھر احقر نے ہی مرکزی دفتر رابطہ مدارس کی رپورٹ پیش کی جس میں رابطہ مدارس کے مرکزی دفتر اور صوبائی شاخوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیاگیا تھا۔ بحمداللہ اس پر اظہار اطمینان کیاگیا۔

       بعد ازاں ایجنڈے کی مختلف دفعات کے تعلق سے حضرات اراکین گرامی نے اپنے خیالات پیش کیے۔

       حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم ناظم تعلیمات دارالعلوم و صدر جمعیة علماء ہند نے فرمایا کہ: ساری دنیا میں مدارس اسلامیہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اصل نشانہ قرآن وحدیث کی تعلیم ہے۔ بعض عرب ممالک کے نصاب سے دینی مضامین کم کرادئیے گئے ہیں۔ مرکزی حکومت نے مرکزی مدرسہ بورڈ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا مقصد مدارس کی روح کو ختم کردینا ہے، بہار میں اور دیگر کئی صوبوں میں تجربہ کیا جاچکا ہے۔ صوبائی بورڈ سے ملحق مدرسے اپنی حقیقت کھوچکے ہیں۔ وسیع پیمانے پر یہی کام مدارس مخالف لوگ پورے ملک میں کرنا چاہتے ہیں، اس وقت ضروری ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں تمام مدارس کے علماء و ذمہ داران کو جمع کیا جائے اور مدارس اسلامیہ کے کل ہند اجلاس عام میں مرکزی مدرسہ بورڈ کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے اور فیصلہ لیا جائے تاکہ مدارس کو حکومت کی گود میں جانے اور سرکاری امداد قبول کرنے سے روکا جاسکے۔

       حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم نے فرمایا کہ تمام مدارس اسلامیہ کے اجلاس کی جو تجویز حضرت مولانا سید ارشد مدنی زیدمجدہم نے رکھی ہے وہ بہت ضروری اور برمحل ہے، اس سے قبل مجلس شوریٰ میں بھی میں نے یہ تجویز رکھی تھی کہ مدارس اسلامیہ کا کل ہند اجلاس بلایا جائے۔ اس سے مدارس میں بیداری بھی پیدا ہوگی اور مسلک کا تحفظ ہوسکے گا۔ دارالعلوم کی اصول ہشت گانہ کو خوب عام کیا جائے، اور بلا کسی تحریک کے زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کیے جائیں ۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب خاموش کارگزار مہتمم دارالعلوم مدظلہ نے بھی مرکزی مدرسہ بورڈ کو مدارس کے لیے نقصان دہ قرار دیا اور کل ہند اجتماع کی ضرورت پر زور دیا۔

       حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب زیدمجدہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ مدرسہ بورڈ کی مضرتوں کو نشان زد کرکے اہل مدارس کو ان سے آگاہ کرایا جائے۔ مثلاً جو نصاب بنے گا اس سے دینی عناصر کو کم کرکے ہندی انگریزی زبان، اور نئے علوم داخل کرائے جائیں گے۔ جیسا کہ الہ آباد بورڈ کے نئے نصاب میں کیاگیا ہے۔

       حضرت مولانا ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے خلاف دارالعلوم میں مدارس اسلامیہ کا کل ہند اجلاس منعقد کیا جائے لیکن اس میں وقت لگے گا۔ مرکزی مدرسہ بورڈ کے سلسلہ میں تجویز کا مطالعہ کرکے رابطہ مدارس کا فوری رد عمل اور دارالعلوم کا نقطئہ نظر اخبارات میں دیا جانا چاہیے اور ذمہ داران مدارس کو تاکید کی جانی چاہیے کہ وہ حکومت کے دام فریب میں نہ آئیں۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب قاسمی زیدمجدہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے فرمایا کہ: اس وقت یورپ اور امریکہ اسلام دشمنی میں اندھے ہوچکے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ مدارس اسلامیہ کو ختم کردیاجائے۔ مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام درحقیقت مدارس کے کردار کو ختم کردینے کی سازش ہے، جو لوگ ہمارے وجود کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ان کو ہمارے مدارس کی کیوں فکر ہونے لگی۔ مدارس کو بیدار کرنے اور ان کو خطرات سے بچانے کے لیے جو کام دارالعلوم کرسکتا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اس لئے اس سلسلہ میں مدارس کا اجلاس عام دارالعلوم میں بلایا جائے، اس سلسلہ میں تجویز آخر میں ملاخطہ فرمائیں۔

       حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی زیدمجدہم رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم نے، مدارس اسلامیہ کے زیر انتظام مکاتب دینیہ کے قیام کے حوالہ سے فرمایا کہ مکاتب دینیہ کے قیام کے سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے ایک تجویز پاس کی تھی، جو آپ حضرات تک پہنچ چکی ہے۔ کہ ہر مدرسہ مکاتب کے قیام و انتظام پر اپنے سالانہ بجٹ کا دس فیصد حصہ خرچ کرے، جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا شروع سے اس پر توجہ دے رہا ہے۔ اس وقت جامعہ کے زیر انتظام سترہ سو مکاتب چل رہے ہیں، جن میں ہزاروں بچے پڑھ رہے ہیں اور ہر بچے پر ڈھائی سو روپیہ سالانہ خرچ اوسطاً آتا ہے، مکاتب کے قیام کے عنوان سے بھی امت سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔ امت آپ کی ہر بات قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ضرورت ہے صحیح معنوں میں پوری دیانت داری و اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی، ہم اپنا حساب و کتاب صاف رکھیں، انشاء اللہ کبھی مدارس کو مالی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ اجلاس میں غور و خوض کے بعد طے پایا کہ ہر مدرسہ اپنے وسائل کے بقدر مکاتب دینیہ کے قیام اور ان کی نگرانی کی طرف توجہ دے اور اگر ممکن ہو تو اپنے بجٹ کا دس فیصد حصہ مکاتب کے لیے مخصوص کردے۔

       ایجنڈے کی مختلف دفعات پر غور و خوض کے دوران دیگر حضرات ارکان مجلس عاملہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ جناب مولانا احمد دیولوی صاحب صدر رابطہ مدارس گجرات نے گجرات میں مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی، اور صوبائی ذمہ داروں کی طرف سے مدارس کے سلسلہ میں گورنر کو جو میمورنڈم پیش کیاگیا اور مدارس کے تحفظ کا مطالبہ کیاگیا، اس کے پس منظر اور نتائج سے مجلس عاملہ کو روشناس کرایا اور یہ رائے بھی پیش کی کہ حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے رابطہ کی طرف سے ان کو میمورنڈم پیش کیا جانا مفید ہوگا۔

       جناب مولانا قاری شوکت علی صاحب مہتمم جامعہ اعزازالعلوم ویٹ غازی آباد نے فرمایا کہ فرقہ پرستوں نے مدارس اسلامیہ کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ جب مدارس کے سلسلہ میں ذمہ داران حکومت سے بات کی جاتی ہے کہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تو وہ تذبذب کا شکار رہتے ہیں اور ان کا ذہن صاف نہیں رہتا، لیکن ہمیں اپنا حوصلہ بلند رکھنا چاہیے اور مدارس کے تحفظ کے سلسلہ میں تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ جناب مولانا حکیم محمد عرفان صاحب حسینی کلکتہ نے، اپنی مرسلہ تجویز میں فرمایا کہ پچھلے چند دنوں میں دورئہ حدیث قائم کرنے والے مدارس کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے اس پر روک لگنی ضروری ہے، اسی طرح کوئی بھی شخص کسی مدرسے سے الگ ہونے کے بعد کہیں بھی مدرسہ کھول لیتا ہے اس پر کنٹرول کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں دستور ہند کا اردو ترجمہ داخل نصاب ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کو دستور اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور ان کے حصول کا طریقہ معلوم ہو۔ مجلس میں مولانا موصوف نے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کی مخالفت کی اور فرمایا کہ بورڈ قائم کرنے کے لیے کل جو سرکاری میٹنگ بلائی گئی تھی اس کا دعوت نامہ میرے پاس آیا تھا اور صدیقی صاحب کا فون بھی آیا لیکن میں نے کہا کہ میں اس کا شدید مخالف ہوں، میں شریک نہ ہوں گا، کہ شرکت بھی تعاون ہے۔ جناب مولانا عبدالقوی صاحب مہتمم جامعہ اشرف العلوم حیدرآباد نے فرمایا کہ مدارس اسلامیہ کے خلاف ملکی سطح پر جو لوگ فتنے اور غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدارس میں کیا ہوتا ہے، اور ان کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ میمورنڈم وغیرہ پیش کرنے سے اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں میڈیا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو شکوک و شبہات پیدا کیے جارہے ہیں ان میں ذرائع ابلاغ کا بڑا دخل ہے۔ مدارس کے سلسلہ میں جو مضامین ہم شائع کرتے ہیں، جو ابات دیتے ہیں وہ صرف اردو اخبارات میں شائع ہوتا ہے۔ ہمیں ہندی اور انگریزی اخبارات میں مضامین کی اشاعت پر توجہ دینا چاہیے۔

       جناب مولانا محمد شمس الدین صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم شاہ ولی اللہ بنگلور نے فرمایا کہ محترم مولانا زین العابدین صاحب کو کرناٹک رابطہ کا ذمہ دار اور صدر بنایا گیا ہے ، اب رابطہ مدارس کو فعال بنانے کی توجہ شروع ہوئی ہے۔ پورے صوبے کے مدارس اسلامیہ کو رابطہ سے مربوط کرنے کے لیے مہم شروع کردی گئی ہے۔ جناب جسٹس سہیل صدیقی صاحب بنگلور بھی آئے تھے، ذمہ داران مدارس کو انھوں نے مدعو کیا اور مدرسہ بورڈ کے فوائد بیان کیے، میں نے اس موقع پر کہا کہ تمام مدارس اسلامیہ کا مرکز دارالعلوم دیوبند ہے، اکابر دارالعلوم دیوبند نے جو نصاب تعلیم جاری کیا ہے وہی ہمارے یہاں بھی رائج ہے۔ نصاب تعلیم، نظام تعلیم وغیرہ میں ہم پورے طور پر دارالعلوم دیوبند کے تابع ہیں انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے اگر کوئی مفید اور نتیجہ خیز چیز آئے تو ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اس کی تائید بھی کرنی چاہیے مثلاً سچر کمیٹی کی سفارشات میں مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی ترقی کے سلسلہ میں جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، ہمیں ان کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور ان کے نفاذ کے لیے حکومت پر زور ڈالنا چاہیے۔

       جناب مولانا عبدالہادی صاحب مہتمم مدرسہ نورالعلوم ہرہرپور نے تدریب المعلمین کا نظام قائم کرنے، طریقہٴ تعلیم درست کرنے اور مکاتب کے قیام پر مزید توجہ دینے پر زور دیا۔ اسی طرح طلبہ کے قیام و طعام اور اساتذہ کے مشاہرے پر بھی خصوصی توجہ کی تاکید فرمائی۔

       جناب مولانا رحمت اللہ صاحب میر قاسمی مہتمم دارالعلوم بانڈی پورہ وصدر رابطہ مدارس جموں کشمیر نے فرمایا کہ مدارس کے بارے میں جو کچھ ہورہا ہے یہ صرف مقامی اور ملکی مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے، بڑی طاقتوں کی طرف سے ڈور ہلائی جارہی ہے اس لیے کوئی اقدام کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح اور وسیع پیمانے پر غور و خوض کرلیا جانا ضروری ہے۔

       جناب مولانا ظفیرالدین صاحب صدر رابطہ مدارس دہلی نے طلبہ کے داخلہ کا نظام بہتر بنانے پر زور دیا اور فرمایا کہ ہمیں مدارس کے تحفظ پر توجہ مرکوز رکھنی ہے تاکہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے فرقہ پرستوں کو مدارس اسلامیہ کو بدنام کرنے کا موقع ملے۔

       جناب مولانا عبدالقادر صاحب ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس آسام نے آسام کے دینی مدارس کی صورت حال بیان کی، کہ ہمارے یہاں بھی سرکاری افسران ذمہ داران کو تنگ کرتے ہیں مدارس میں آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے ذمہ داران کو بیحد محتاط رہنے اور مدارس کے نظام کو صاف وشفاف بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔

       مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جو اور حضرات اجلاس میں شریک ہوئے ان میں حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی، حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری، حضرت مولانا نورعالم صاحب امینی، حضرت مولانا محمد احمد صاحب قاسمی، جناب مولانا عبدالہادی صاحب پرتاپ گڈھ، جناب مولانا قاری شوکت علی صاحب ویٹ، جناب مولانا اشہد رشیدی صاحب مرادآباد، جناب مولانا احمد بزرگ صاحب ڈابھیل، جناب مولانا ممتاز صاحب شملہ، جناب مولانا قاری امین صاحب پوکرن، جناب مولانا محمد قاسم صاحب پٹنہ، جناب مولانا رحمت اللہ صاحب میر قاسمی کشمیر، جناب مولانا محمد الیاس صاحب پیپلی مزرعہ ہریانہ، جناب مولانا خلیل الرحمن صاحب قاسمی مہاراشٹر، جناب مولانا عبدالقدوس صاحب نمائندہ جناب مولانا صدیق اللہ صاحب چودھری کلکتہ، جناب مولانا سراج الحق صاحب نمائندہ مولانا عبدالعزیز صاحب نیپال، جناب مولانا عبداللہ صاحب قاسمی نمائندہ جناب مولانا حسین احمد صاحب پونچھ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

       ایجنڈے میں شامل مختلف موضوعات پر تبادلہٴ خیال اور اجتماعی غور وخوض کے بعد ۸۔تجاویز اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ تجاویز کا متن حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی زیدمجدہم نائب مہتمم دارالعلوم نے پیش کیا، حضرت ناظم اجلاس مولانا قاری محمد عثمان صاحب زیدمجدہم نائب مہتمم دارالعلوم نے رابطہ مدارس اسلامیہ سے مربوط مدارس کے لیے مجوزہ ضابطہ اخلاق کی دفعات پڑھ کر سنائیں جن کو اتفاق رائے سے منظور کیا اور ضابطہ اخلاق کے نفاذ کا فیصلہ کیاگیا۔

       اجلاس میں فدائے ملت امیرالہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی رکن شوریٰ دارالعلوم و صدر جمعیة علماء ہند کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیاگیا اور دعائے مغفرت کی گئی۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا محمد اسمٰعیل موٹا صاحب رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم، نیز والدہ ماجدہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب زیدمجدہم کارگزار مہتمم دارالعلوم، جناب اخلاق الرحمن صاحب برادر زادہ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم، اور جناب مولانا مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط عثمانی مفتی دارالعلوم دیوبند، جناب مولاناعبداللہ عباس صاحب ندوی اور جناب مولانا محمد عارف صاحب سنبھلی اساتذئہ دارالعلوم ندوة العلماء اور جناب مولانا سراج الساجدین صاحب صدر رابطہ مدارس صوبہ اڑیسہ کے انتقال پرملال پر بھی رنج و الم کا اظہار کیاگیا، دعائے مغفرت کی گئی اور تجویز تعزیت منظور کی گئی۔

       جناب مولانا محمد جابر صاحب مدظلہ کو اڑیسہ رابطہ مدارس کا صدر اور رکن عاملہ رابطہ مدارس طے کیاگیا، صدر اجلاس حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم کی دعا پر ایک بجے دوپہر کو اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

       منظور شدہ تجاویز کا متن اور ضابطہٴ اخلاق پیش خدمت ہے:

تجاویز

منظور کردہ

اجلاس ششم مجلس عاملہ

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ:۱۲/ ذیقعدہ ۱۴۲۷ھ مطابق ۴/دسمبر ۲۰۰۶/ بروز پیر

——————————–

تجویز ﴿۱﴾

مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام، مدارس کی آزادی کو ملک گیر سطح پر سلب کرنے کی سازش

مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کایہ اجلاس مرکزی حکومت کی جانب سے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوراس سے اتفاق کو کسی بھی درجہ میں مناسب نہیں سمجھتا، اجلاس کی نظر میں یہ کوشش درحقیقت وسیع پیمانے پر مدارس کی آزادی کو سلب کرنے اور ان کے آزادانہ کردار پر قدغن لگانے کی ایک سازش ہے۔ جب کہ مدارس اور تعلیمی اداروں کا قیام اور ان کے نصاب و نظام کے سلسلہ میں مکمل آزادی ہمارا دستوری حق ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ مدارس کو عصری ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر کی جانے والی یہ کوششیں مدارس کی بنیادی روح کے سراسر منافی ہیں، مدارس اسلامیہ کا مقصد جس قسم کے خدام دین تیار کرنا، اورنسل نو میں جس دینی ذہن کی آبیاری کرنا ہے، مذکورہ کوششیں اس کو بالکل مخالف سمت میں لے جانے والی ہیں، اس لئے یہ اجلاس تمام ارباب مدارس سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس قسم کی ترغیبات سے بے نیاز رہ کر مدارس کے صاف و شفاف دینی کردار کو استحکام بخشیں اور دین وملت کے لئے نیک نہاد اور پاک باز خدام کی تیاری کے اپنے نصب العین کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرگرم عمل رہیں۔

تجویز ﴿۲﴾ مدارس اسلامیہ کے نمائندہ اجلاس کی ضرورت

رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عاملہ کا یہ اہم اجلاس، حکومت ہند کی جانب سے مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کے بعد دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام دیوبند میں تمام مدارس اسلامیہ عربیہ کے نمائندہ اجلاس کی ضرورت محسوس کرتا ہے تاکہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے بارے میں مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد راہ عمل متعین کی جاسکے اور مدارس اسلامیہ عربیہ کی مشکلات اور دیگر مسائل پر اجتماعی غور وفکر سے فیصلہ کیاجائے۔

تجویز ﴿۳﴾ صوبائی سطح پر رابطہ مدارس کو فعال بنانے پر زور

مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ جس طرح رابطہ کا نظام مرکزی سطح پر فعال و سرگرم عمل ہے اسی کی روشنی میں صوبائی سطح پر اس نظام کو کار فرما کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس مبارک وفاقی عمل کا دائرہ وسیع ہواوراس کے فوائد دیگر مدارس تک عام ہوں، اسی ضرورت کے پیش نظر اجلاس کے ایجنڈے میں بھی اس کو شامل کیاگیا ہے، یہ اجلاس صوبائی ذمہ داران سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ وہ طے شدہ نظام کی روشنی میں صوبائی شاخوں کو منظم فرمائیں اور عملی طور پر ان کی سرگرمیوں کا آغاز فرمائیں۔ نیز اپنی کارکردگی کی رپورٹ باقاعدگی کے ساتھ مرکزی دفتر کو ارسال فرمائیں۔

تجویز ﴿۴﴾ مدارس اسلامیہ کے آزادانہ کردار کی حفاظت

مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا یہ اہم اجلاس مدارس اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کو نہایت اہمیت کے ساتھ اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی ہمہ جہتی خدمت، خاص طورپر نئی نسل کو اسلامی تعلیم سے آراستہ کرنے اورامت مسلمہ کے ایمان کی بقاء و تحفظ کے عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی، اسلامی مدارس کے آزادانہ کردار ہی کی مرہون منت ہے۔ ان مدارس نے دارالعلوم دیوبند کے منہاج کے مطابق روز اول ہی سے دین وایمان پر ملت اسلامیہ کواستوار وکاربند رکھنے کا جو لازوال تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن باب ہے، یہ حیرت انگیز اور بے مثال کردار، مدارس کو ہر قسم کی حکومتی امداد سے آزاد رکھنے کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے، اس تاریخی کردار پر روک لگانے کے لئے آج طرح طرح کے خوبصورت عنوانات کے تحت مدارس کو جال میں پھانسنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ اجلاس، مدارس اسلامیہ سے موٴکد اپیل کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کے حکومتی تعاون سے مکمل اجتناب کریں، خواہ وہ کسی عمومی گرانٹ کی شکل میں ہو یا خاص طور پر کمپیوٹر کی تعلیم، ایک ٹیچرکی تنخواہ یا طلبہ کے ناشتہ یا کھانے میں تعاون کے عنوان سے ہو، کیوں کہ اس قسم کی کوئی بھی امداد، مستقبل میں، مدارس اسلامیہ کے نظام میں حکومتی مداخلت کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔

تجویز ﴿۵﴾

نصاب تعلیم کی بنیادی روح کی حفاظت اور نصاب میں حتی الامکان یکسانیت

نصاب تعلیم میں تبدیلی کی آوازیں وقتاً فوقتاً اس طبقہ کی جانب سے اٹھتی رہتی ہیں جس کو اسلامی مدارس کے مقاصد تاسیس سے نہ واقفیت ہے نہ ہمدردی، آج کل بھی ناعاقبت اندیش حلقوں کی جانب سے اس قسم کے مطالبے ازسرنو سامنے آرہے ہیں اس لئے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس اس بات کو ایک بار پھر نہایت قوت کے ساتھ دہرانا ضروری سمجھتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا قیام، امت مسلمہ کی اقتصادی ترقی یا معاشی خوش حالی کے لئے نہیں ہوا ہے بلکہ ان مدارس کا مقصد، ایسے رجال کار تیار کرنا ہے جو ستائش کی تمنا یا صلے کی پروا سے قطعاً بے نیاز ہوکر دین متین کے دفاع و تحفظ کا فریضہ انجام دیں، اسلامی علوم و فنون کے ماہر اوراسلام کی حقیقی روح سے واقف ہوں اور اپنی دینی و روحانی طاقت اور علمی مہارت سے اسلام دشمن طاقتوں اور فرق باطلہ کے سیلاب بلاخیز پر بند باندھ سکیں۔ اس قسم کے علماء مخلصین اور خدام دین کی تیاری کے لئے مدارس اسلامیہ کا نصاب آج بھی کافی ہے، بشرطیکہ پورے اخلاص و احتساب کے ساتھ اس نصاب کی تعلیم و تدریس اور طلبہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ اس لئے یہ اجلاس نصاب تعلیم میں کسی بھی بنیادی تبدیلی کو یکسر مسترد کرتا ہے اورمدارس اسلامیہ سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے یہاں دارالعلوم دیوبند کا نصاب تعلیم نافذ کریں تاکہ یکسانیت کے ساتھ اجتماعی طورپرمنزل مقصود کی جانب رواں دواں ہونا ممکن ہو۔

تجویز ﴿۶﴾ مغرب کی اسلام مخالف یلغار کی مذمت

اسلام کے خلاف مغرب کی سازش اور اس کے لئے تمام وسائل کے استعمال کی کوشش ایک مسلسل عمل ہے جس میں آج کل تیزی لائی جارہی ہے۔فکری و نظریاتی یلغار کے ساتھ ساتھ طاقت کے ناجائز استعمال کا تسلسل آج کی ایک شرمناک حقیقت ہے، اسی کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اوران کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کا گھناؤنا عمل بھی بڑھتا جارہا ہے جس میں گذشتہ دنوں عیسائی مذہبی رہنما تک مبتلا ہوگئے۔ مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس اس قسم کی تمام سازشوں اور چیرہ دستیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور تمام انصاف پسند طاقتوں سے اس صورت حال کے خلاف متحد اور سرگرم عمل ہونے کی اپیل کرتا ہے۔

تجویز ﴿۷﴾ مدارس کے ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی ضرورت

اسلامی مدارس کواپنا بہترین کردار ادا کرنے کے لئے اپنے داخلی نظام کو بہتر بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے اس کام کو آسان بنانے کے لئے ایک ضابطہ اخلاق برائے مدارس اسلامیہ، منظور کیاگیا ہے۔ مجلس عاملہ کا یہ اجلاس رکن مدارس سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ وہ اس ضابطہ اخلاق کو اپنے یہاں نافذ کریں تاکہ مردم سازی کے میدان میں وہ اپنا کردار بہتر طریقے پر ادا کرسکیں اور مدارس کے متعلق منفی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے لئے کسی نکتہ چینی کا موقع باقی نہ رہے۔

تجویز ﴿۸﴾ مدارس اسلامیہ کے زیر انتظام مکاتب دینیہ کا قیام

یہ حقیقت محتاج دلیل نہیں ہے کہ تعلیم و تربیت اور دینی و مذہبی ذہن سازی کے لئے مکاتب دینیہ کی بنیادی اہمیت ہے۔ انہیں مکاتب سے مدارس اسلامیہ عربیہ کو بھی درمیانی اوراعلیٰ تعلیم کیلئے افراد ملتے ہیں۔ اور تعلیمی سلسلہ منقطع ہوجانے یا تعلیم کی دوسری لائن اختیار کرنے کی صورت میں کم از کم بنیادی دینی تعلیم سے بقدر ضرورت واقفیت ہوجاتی ہے۔ اور دین و عقیدہ کی حفاظت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔

اسی بنا پر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند اور مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی طرف سے اس سے قبل بھی مدارس اسلامیہ کو اس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ ہر مدرسہ اپنے وسائل کے بقدر مکاتب دینیہ کے قیام اور ان کی نگرانی کی طرف توجہ دے۔ اگر ممکن ہوتواپنے بجٹ کا دس فیصد حصہ مکاتب کے لئے مخصوص کردے۔ یہ اجلاس ارباب مدارس کو اپنی اس ذمہ داری کی طرف ایک بار پھرمتوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے۔

تجویز ﴿۹﴾ تجویز تعزیت

مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس ان اکابر و علماء کرام کے سانحہٴ ارتحال پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے جو گذشتہ اجلاس کے بعد واصل بحق ہوئے۔ جن میں سرفہرست،امیرالہند فدائے ملت، حضرت اقدس مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ کی ذات گرامی ہے، حضرت موصوف کو باری تعالیٰ نے جن اوصاف و خصوصیات سے بہرہ ور کیا تھا آج ان کی کوئی مثال نہیں ہے، ان کا تدبر، دوراندیشی، اصابت رائے، قوت فیصلہ، فتنوں کو دور سے بھانپ لینے کی صلاحیت، جوش عمل، تقویٰ طہارت، ریاضت ومجاہدہ، جہد مسلسل، حق گوئی، شجاعت و بہادری، جرأت و ہمت، بے مثال عزیمت، وسعت نظر، اور سوزدروں ایسی صفات ہیں جنھوں نے ان کو ملت اسلامیہ کا بے بدل رہنما بنادیا تھا، وہ ہر وقت سرگرم عمل رہتے تھے ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف تھا، ان کی ذات گرامی دارالعلوم دیوبند اور تمام مدارس اسلامیہ کے لئے پشتیبان کی حیثیت رکھتی تھی، وہ رابطہ مدارس اوراس کی سرگرمیوں سے بے حد دلچسپی رکھتے تھے، مجلس عاملہ کا گذشتہ اجلاس ان کے خطاب سے سرفراز ہوا تھا آج ہم ان کی طاقت ور شخصیت سے محروم ہیں۔ دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو ان کی خدمات پر اپنے شایان شان اجر سے نوازے اوراس نازک موقع پر ملت اسلامیہ کی دستگیری فرمائے، آمین۔

اسی طرح یہ اجلاس دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے موقر رکن حضرت مولانا اسمٰعیل موٹا صاحب (گجرات) کے سانحہٴ ارتحال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے، موصوف ملت کے ایک مخلص خادم اور دارالعلوم دیوبند کے بہی خواہ تھے، بہت سی دینی و علمی خدمات ان سے وابستہ تھیں، حق تعالیٰ ان کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

علاوہ ازیں یہ اجلاس، دارالعلوم دیوبند کے مخلص، یکسو، سادہ دل اور مستعد مفتی حضرت مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی رحمہ اللہ کے حادثہٴ وفات پر بھی اظہار غم کرتا ہے، موصوف نہایت پرہیزگار اور صاف و شفاف شخصیت کے مالک تھے، چند ماہ قبل اچانک داغ مفارقت دے گئے۔

نیز رابطہ کی مجلس عاملہ کے ایک رکن حضرت مولانا سراج الساجدین صاحب (اڑیسہ) جو رابطہ کے صوبائی صدر بھی تھے انتقال فرماگئے،موصوف صوبہ اڑیسہ کے ایک فعال اور معروف عالم دین تھے، مختلف دینی خدمات میں مصروف تھے، یہ اجلاس ان کے حادثہٴ وفات پر اظہار تعزیت کرتا ہے۔

اسی طرح دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ کے دو ممتاز علماء حضرت مولانا عبداللہ عباس ندوی اور حضرت مولانا محمد عارف سنبھلی رحمہما اللہ کے حادثہٴ انتقال پر بھی یہ اجلاس اظہار تعزیت اور دعائے مغفرت کرتا ہے۔

نیز چند دن پہلے دارالعلوم دیوبند کے کارگذار مہتمم حضرت مولانا غلام رسول خاموش صاحب دام ظلہم کی والدہ محترمہ اور حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کے بھتیجے جناب اخلاق الرحمن صاحب بھی انتقال فرماگئے، یہ اجلاس ان دونوں حضرات سے تعزیت کرتا ہے اور مرحومین کے لئے دعاء مغفرت کرتا ہے۔

$$$

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ضابطہٴ اخلاق

برائے

مدارس متعلقہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ

دارالعلوم دیوبند

(۱)  مربوط مدارس اسلامیہ کے نظم ونسق کو درست اور بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہر مدرسہ، رابطہ مدارس کے تجویز کردہ اصول وضوابط کی پابندی کے ساتھ ساتھ اپنا نظام اپنے طے شدہ دستور کے مطابق چلائے، نظم باضابطہ اور بہتر بنانے کے لئے مدرسہ کا اپنا دستور اورلائحہٴ عمل ہونا ضروری ہے جس کی دفعات کی روشنی میں نظام استوار رکھا جائے۔

(۲)  مربوط مدارس کے ذمہ دار حضرات باہمی تعاون و تناصر کے جذبہ کو فروغ دیں، اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کی جائے، ہر قسم کی آپسی رسّا کشی اورمخالفت سے گریز کیا جائے کہ باہمی منافرت یوں بھی بری چیز ہے اور موجودہ حالات میں مدارس کے مخالفین کو مدارس میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔

(۳) ذمہ داران مدارس آپس میں ایک دوسرے کے متعلق منفی اظہار خیال سے گریز کریں۔

(۴) ارباب انتظام اوراساتذہ کرام میں اتحاد و یگانگت، باہمی رواداری اور اعتماد کی فضا قائم رکھی جائے، بدگمانی اورآپسی چپقلش سے مدرسے کا ماحول پراگندہ ہوتاہے۔

(۵) مدارس کا نظم و نسق ارباب شوریٰ کے مشورے اور دستور کے مطابق چلانے کی کوشش کی جائے۔

(۶)  اختلاف کی صورت میں مدرسے کے مفاد کو پیش نظر رکھا جائے اورہرایسی کوشش سے اجتناب کیا جائے جس سے مدرسے کا مفاد متاثر ہوتا ہو، مدرسے کے مفادات کو مقدم رکھ کرایثار و قربانی کے جذبہ سے کام لیا جائے اوراپنی رائے اور نظریہ پراصرار نہ کرکے خوش اسلوبی کے ساتھ نزاع کو ختم کردیاجائے۔

(۷) مدارس کے کردار کو ہرقسم کی خارجی مداخلت سے آزاد رکھنے کے لئے ہر قسم کی حکومتی امداد سے اجتناب کیا جائے۔

(۸) مدارس اسلامیہ دین کی حفاظت کے قلعے اوراسلامی علوم کے سرچشمے ہیں، ان کا بنیادی مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جوایک طرف اسلامی علوم کے ماہر، دینی کردار کے حامل اور فکری اعتبار سے صراط مستقیم پر گامزن ہوں، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اس لئے ضروری ہے کہ مدارس اپنے نظام تعلیم و تربیت کو مزید بہتر بنائیں، طلبہ کی تربیت اوراستعداد سازی پر بھرپور توجہ دی جائے، اساتذہ کے انتخاب میں صلاحیت اورصالحیت اورطلبہ کے انتخاب میں کمیت سے زیادہ کیفیت کا لحاظ رکھا جائے۔

(۹)  دارالاقامہ کے نظام کو چست بناکر طلبہ کی اخلاقی تربیت و نگرانی کا اہتمام کیا جائے، خصوصاً نماز باجماعت کے اہتمام اور وضع قطع کی درستی پر خصوصی توجہ فرمائی جائے۔ داخلہ کے وقت سابقہ مدرسہ کا تصدیق نامہ لازم قرار دیا جائے اوراس معاملے میں احتیاط کو عمل میں لایا جائے۔

(۱۰)اساتذہ کے عزل و نصب اورطلبہ کے اخراج و داخلہ کے بارے میں مدرسہ کے طے شدہ دستور کی پابندی کی جائے ۔

(۱۱) طلبہ واساتذہ کے مسلک صحیح (مسلک دیوبند) پرکاربند ہونے کا لحاظ رکھا جائے، اور طلبہ سے ذمہ داران تک مدرسے سے متعلق تمام لوگ، شعائردین کی پابندی کا خاص اہتمام کریں۔

(۱۲)امتحانات کے نظام کو چست اور درست نیز اصول پرمبنی بنایا جائے۔

(۱۳) معاشرہ سے مربوط رہنے کی کوشش کی جائے، معاشرہ میں پیدا ہونے والی، عقیدہ وعمل کی خرابیوں کی اصلاح کے لئے اپنے تمام وسائل استعمال کئے جائیں۔ فرق باطلہ کی تردید منظم انداز میں کی جائے۔

(۱۴)اسلامی مدارس اور مذہب اسلام کے دشمنوں کی سازشوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔

(۱۵)موجودہ دور میں مدارس پر لگائے جانے والے دہشت گردی وغیرہ کے بے بنیاد الزامات کے ازالے کے لئے، علاقہ کے غیرمتعصب برادران وطن اور مقامی حکام سے رابطہ رکھا جائے، وقتاً فوقتاً ان کو مدعو کرکے مدارس کے حالات و خدمات اورمذہب اسلام کے امتیازات وخصوصیات سے روشناس کرایا جائے۔ خاص طورپر علماء مدارس کی ملکی وملی خدمات سے ان کو واقف کرایا جائے۔

(۱۶)اجمالی طور پر حدیث شریف کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ کو پیش نظر رکھ کر نہایت دیانت وامانت، اخلاص و للہیت، بیدار مغزی وحوصلہ مندی، مستعدی وجانفشانی کے ساتھ دین متین کی خدمت کے مبارک جذبہ کے ساتھ مدارس کا نظام چلایا جائے۔

(۱۷)مدارس میں تحریر وتصنیف کا ماحول بھی بیدار کیاجائے اور تحریر کی راہ سے بھی دین متین کی خدمت انجام دی جائے۔

منظور کردہ: مجلس عاملہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ: ۱۲/ ذی قعدہ ۱۴۲۷ھ مطابق ۴/دسمبر ۲۰۰۶ء

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 91 ‏، ربیع الثانی1428 ہجری مطابق مئی2007ء

Related Posts