از:  عصمت اللہ نظامانی‏، متعلّم:جامعہ  علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی

                اگر دینِ اسلام کے احکامات پر غور کیا جائے اور ان میں  پنہاں  اسباق اور حکمتوں  پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا ہر رکن اور ہر حکم پورے معاشرے کی اصلاح اور انسانی انفرادی واجتماعی کامیاب زندگی حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ مثلاً اسلام کا ایک بڑا فرض رمضان المبارک کے روزے ہیں ۔ اگر ان روزوں  کا پیغام اور حکمتیں  ہمارے سامنے ہوں  تو ایک طرف ہماری انفرادی زندگی صحت مند اور پر سکون ہوگی، تو دوسری طرف ایک تندرست اور جذبہ ایثار وقربانی پر استوار معاشرہ جنم لے گا۔ ایک ایسا معاشرہ جس کا ہر فرد دوسرے کی تکلیف واذیت کو اپنی تکلیف محسوس کرے گا، جس کے افراد میں  اخوت وبھائی چارگی عام ہوگی، وہاں  کے لوگ خودغرض نہیں ؛ بلکہ ہمدرد اور خیرخواہ ہوں  گے۔الغرض روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کرنا نہیں ؛ بلکہ اس میں  بیشمار حکمتیں ، اسباق اور پیغامات پوشیدہ ہیں ، جنہیں  ذیل میں  اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

دوسروں  کی تکلیف محسوس کرنا

                بھوک کی تکلیف کیسی ہوتی ہے،فاقے سے رات بسر کرنے کی اذیت کیا ہے، چھوٹے معصوم بچوں  کوبھوک سے بلکتے دیکھنا، کھانا طلب کرتے ہوئے ان کے آنسودیکھنے اور ان کی آہیں  سننے سے کس طرح سینے پر برچھی لگتی ہے، اپنی اولاد کو خالی پیٹ نڈھال دیکھنا کتنا اذیت ناک ہے، دوسروں  کی حقارت سے دی گئی خیرات لینا کتنا تکلیف آمیز ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ وہ شخص کبھی بھی نہیں  لگاسکتا جو ہر وقت شکم سیر رہے اور جس کو ہروقت پیٹ بھر کر کھانا ملے۔

                اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو روزے کا حکم دیا۔ انھیں  صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا پیاسا رہنے کا حکم دیا  اور ایسا صرف ایک دو دنوں  کے لیے نہیں ؛ بلکہ پورا مہینہ اس طرح کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہمیں  دوسروں  کی بھوک وپیاس کا احساس ہو، ان کی تکلیف سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو، کسی بھوکے پیاسے شخص کو دیکھ کر ہمیں  اپنا بھوکا اور پیاسا ہونا یاد آجائے؛تاکہ اس کی مدد اور تعاون کرنے میں  آسانی ہو اور شکم سیری کی وجہ سے خودغرض اور بے حس نہ بن جائیں ۔

                حضرات صحابۂ کرامؓ کی حیات پر نظر کرنے سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوگی کہ وہ روزے کی حالت میں  بھی خوب صدقہ وخیرات اور غرباء ومساکین کی مالی مدد کرتے تھے اور کسی سائل اور ضرورتمند کو خالی ہاتھ جانے نہیں  دیتے تھے، چاہے اپنی افطاری کے لیے بھی کچھ نہ بچے، اور محض پانی پر روزہ افطار کرنا پڑے؛چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں ، گھر میں  ایک روٹی کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں  تھی، ایک مسکین نے آکر سوال کیا تو وہ اکلوتی روٹی بھی سائل کو دے دی۔(۱)

                حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو ایک لاکھ دراہم دیے تو اسی دن تمام دراہم لوگوں  میں  بانٹ دیئے، ایک درہم بھی اپنے لیے نہیں  رکھا؛ جب کہ وہ خود روزے سے تھیں ۔(۲)

عجز وانکساری کا احساس

                روزہ ہمیں  تواضع وانکساری کی عملی تربیت دیتا ہے، یہخود پسندی اور تکبر سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ رکھنے سے ہی انسان کو تجربے اور مشاہدے سے اور عین الیقین کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے عطا کردہ رزق کا کتنا محتاج ہے؛ چنانچہ اس بات کا استحضار کرنے سے انسان سراپا عاجری وانکساری ہوجاتا ہے  اور اگر روزہ افطار کرنے کی دعا پر غور کیا جائے تو اس سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملے گا؛چنانچہ ایک حدیث میں  ہے کہ حضور… روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پرھتے تھے: ’’اللّٰہم لَکَ صُمْت وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ‘‘(۳) ترجمہ:اے اللہ!میں  نے آپ کے لیے ہی روزہ رکھا اور آپ کی روزی سے ہی افطار کیا۔ یعنی افطار کے وقت اس بات کا استحضار ہو کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی وہ سب محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا فضل ہے، اور یہی تواضع وانکساری ہے جو روزے کا ایک پیغام اور حکمت ہے۔

تحمّل اور قوتِ برداشت میں  اضافہ

                روزہ رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی ہمت مضبوط اور قوتِ برداشت میں  اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور تکالیف پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے؛ کیونکہ ایک طرف مسلمان کو روزے کی حالت میں  کھانے پینے وغیرہ سے روکا گیا ہے، جس سے وہ بھوک پیاس برداشت کرتا ہے، اور دوسری طرف بھوکا پیاسا ہونے کی وجہ سے اس میں  چڑچڑا پن اور غصہ پیدا ہونے اور دوسروں  سے الجھنے کا خدشہ تھا؛ اس لیے شریعت نے روزہ کی حالت میں  کسی سے نازیبا گفتگو یا لڑائی جھگڑا کرنے سے بھی سختی سے روکا ہے؛ چنانچہ نبی کریم… کا ارشاد ہے:

                وإذا کانَ یَومُ صومِ أحدِکُمْ فَلا یَرْفَثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإنْ سَابَّہٗ أحدٌ أَوْ قَاتَلَہٗ، فَلْیَقُلْ إنّي امرؤٌ صائم۔(۴)

                ترجمہ: جب تم میں  سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ فحش باتیں  نہ کرے اور نہ ہی شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس کو برا بھلا کہے یا جھگڑا کرنے لگے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس (سامنے والے)سے کہہ دے کہ میں  روزے سے ہوں ۔

                فضول گوئی اور چیخنا چلانا تو ویسے ہی ممنوع ہے؛ لیکن روزہ دار کو ان باتوں  سے زیادہ سختی سے روکا گیا ہے؛ تاکہ اس میں  تحمل وبردباری، مضبوط ہمت اور قوتِ برداشت پیدا ہو جو کہ روزہ کی حکمتوں  میں  سے ایک حکمت اور پیغام ہے۔

اللہ کی نعمتوں  پر شکر

                یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعمت کی موجودگی میں  اس کی اتنی قدر واہمیت نہیں  ہوتی، جتنی اس سے محرومی کی صورت میں  ہوتی ہے۔ انسان پر ہر لمحہ لاتعداد نعمتوں  کی بارش ہوتی رہتی ہے؛ لیکن ان کا اتنا استحضار نہیں  ہوتا اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی طرف بھی دھیان نہیں  جاتا اور اگر کبھی شکر ادا کیا جاتا ہے تو اجمالی اور زبانی ہوتا ہے۔ نعمتوں  کا استحضار کرکے دھیان اور دل سے شکر ادا نہیں  کیا جاتا؛ لیکن روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں  کا حقیقی طور پر ادراک ہوتا ہے اور بوقت افطار انسان کا تمام بدن؛ بلکہ روح تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں  کے ضیاع سے انسان محفوظ رہتا ہے اور اس کو ان نعمتوں  کی قدر ہوتی ہے۔

تقوی کا حصول

                روزے کی تمام حکمتوں  اور اس میں  پوشیدہ اسباق اور پیغامات کا احاطہ کسی انسان کے بس میں  نہیں ؛ لیکن ان تمام کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ کی آیت نمبر183 میں  دو لفظوں  ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ‘‘ میں  ہی ذکر کردیا ہے،یعنی تقویٰ کا حصول۔ روزے کی جتنی حکمتیں  بیان کی جائیں ، یا جو بھی فلسفہ ذکر کیا جائے، ان سب کا  مقصد یہی ہوگا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

                یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (بقرہ:۱۸۳)

                ترجمہ:اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں  جس طرح تم سے پہلے لوگوں  پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو۔

                تقوی کی تعریف میں  متعدد اقوال ہیں ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کی خاطر نیک اعمال کرنا اور اس کی ناراضگی اور عذاب کے ڈر سے معاصی اور گناہ چھوڑنا۔(۵)

                غرباء ومساکین کی مدد کرنا، بھوکوں  اور ضرورت مند افراد کو کھانا کھلانا، کسی کی طرف نادانستہ تکلیف واذیت ملنے پر تحمّل وبرداشت کا مظاہرہ کرنا، تکبّر وغرور سے بچنا اور تواضع وانکساری اپنانا۔ الغرض تمام نیک اعمال پر عمل کرنے، اور گناہوں  سے بچنے کے لیے کوشش کرنا ’’تقوی‘‘کے وسیع مفہوم میں  داخل ہے اور اسی تقویٰ کا حصول روزہ کی حکمت ہے۔

                خلاصۂ کلام یہ ہے کہ روزہ ایک بڑی عبادت ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت بھی ہے اور انسان کی انفرادی صحتمند زندگی اور اجتماعی پُرسکون حیات اور ایک بہترین معاشرے کا ضامن بھی ہے، بشرطیکہ شریعت میں  مقرر کردہ حدود کا لحاظ اور پابندی کرکے روزے رکھے جائیں ۔

٭           ٭           ٭

حواشی

(۱)          الموطا للإمام مالک، کتاب الصدقۃ، باب الترغیب فی الصدقۃ، رقم الحدیث: ۱۸۱۰، الناشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت۔

(۲)         الطبقات الکبری لابن سعد، (۸/۶۷)، الناشر: دار صادر، بیروت۔

(۳)         سنن أبي داود، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، (۲/۲۷۸)، رقم الحدیث: ۲۳۶۰، الناشر: دارالکتاب العربی، بیروت۔

(۴)         صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب ہل یقول إني صائم إذا شئتم، (۳/۲۶)، رقم الحدیث: ۱۹۰۴، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط: ۱۴۲۲ھـ۔

(۵)         جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلي، (۱/۴۰۰)، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بیروت، ط: ۱۴۲۲ھـ/۲۰۰۱م۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3، جلد:107‏، شعبان المعظم – رمضان المبارک 1444ھ مطابق مارچ 2023ء

Related Posts