محمد سلمان بجنوری
ماہ نامہ دارالعلوم کے صفحات پر عام طورسے، دیگر اداروں یا ملّی تنظیموں (بشمول جمعیۃ علماء ہند) کی سرگرمیوں کا تذکرہ نہیں ہوتا؛ لیکن جمعیۃ علماء ہند کے حالیہ اجلاس عام منعقدہ ۱۰،۱۱؍فروری ۲۰۲۳ء کی آخری عمومی نشست میں امیرالہند حضرت مولانا سیدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کے خطاب نے جو تحریک پیدا کی، اس کا تقاضا ہے کہ اس کا مختصر ہی سہی، تذکرہ کیا جائے۔
یوں تو اس اجلاس کے خطبۂ صدارت کا پیغام بھی بہت اہمیت کے ساتھ سناگیاتھا اور اس کو میڈیا میں بھرپور کوَریج ملی تھی؛ کیوں کہ اس میں ملک وملت کو درپیش مسائل کے بارے میں دوٹوک باتیں کی گئی تھیں اور اُس میں وہ مضمون یا پیغام بھی اجمالی طور پر آگیا تھا جو حضرت مولانا مدظلہم کے خطاب کا خلاصہ تھا؛ لیکن حضرت کے خطاب میں جس صراحت وقوت کے ساتھ ایک مخصوص انداز سے یہ پیغام دیاگیا اس نے نہ صرف ملکی وعالمی میڈیا میں ارتعاش پیدا کردیا؛ بلکہ کروڑوں لوگوں تک توحید کا پیغام اس انداز سے پہنچادیا جس طرح اب تک یہ پیغام نہیں پہنچا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو اس خطاب پر موافق ومخالف رد عمل کا بازارگرم ہے دوسری طرف بے شمار لوگوں نے اس کی برکت سے سوچنے کا ایک رُخ پایا ہے اور وہ اس موضوع پر مزید مطالعہ وتحقیق میں لگ گئے ہیں ۔ اس صورت حال میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے مثبت پہلوئوں کو طاقت ور بنائیں اور اس خطاب کے ذریعہ جو توحید کی صدا لگائی گئی ہے، اُس پیغام کو عام کریں ، خاص طور پر علماء کرام سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر مزید مطالعہ ومحنت کے ذریعہ دعوت کی اس فضا سے فائدہ اٹھائیں اور نغمۂ توحید سے اس چمن کو معمور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔
دارالعلوم ، شمارہ : 2، جلد:107، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء