از: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند
ہم اللہ کے بندے ہیں ، ہم پر اسی کی بندگی واجب ہے، اس کے علاوہ کسی کی بندگی جائز نہیں ، یہی ’’توحید‘‘ ہے، بندگی سکھانے کے لیے اللہ نے نبیوں کو بھیجا یہی ’’رسالت‘‘ ہے، پہلے نبی حضرت آدم اور آخری نبی جناب محمد رسول اللہ… ہیں ، اللہ اور رسول کی باتوں کو ماننا ہی ’’اسلام‘‘ ہے، اسلام ہر انسان کا اصلی مذہب ہے، اسی پر انسان کو پیدا کیاگیا ہے؛ مگر ماں باپ اور مخالفِ اسلام ماحول کی وجہ سے انسان اپنے اصل مذہب سے ہٹ جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے:
کُلُّ مولودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہ یُہَوِّدَانِہٖ أو یُنَصِّرانِہٖ أو یُمَجِّسَانِہٖ (بخاری۱۳۸۵)
ترجمہ: ’’ہربچہ (اسلام کی) قابلیت پر پیدا ہوتا ہے؛ لیکن اس کے ماں باپ اُسے یہودی بنالیتے ہیں ، یا نصرانی بنالیتے ہیں ، یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں کو اس کے اصلی مذہب پر چلنے کا حکم فرمایا ہے، اس کے لیے ’’عہد الست‘‘ میں اپنی معرفت کی ایک جھلک دکھاکر دلوں میں ایمان کی ایک چمک ڈال دی تھی، اگر انسان اپنے خراب ماحول سے متاثر نہ ہوتو وہ بلاتکلف اسلام ہی کو مانے گا، اسی کو یاد دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حنیفًا، فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(روم:۳۰)
ترجمہ: لہٰذا تو ایک طرف ہوکر دین (اسلام) پر سیدھا منھ کیے چلا جا، اللہ کی دی ہوئی قابلیت وصلاحیت پر، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘
سارے انسانوں کا مذہب اسلام ہی ہے، آٹھ سو سال بعد حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے گمراہی آئی اور چند لوگوں نے بتوں کی پوجا شروع کردی؛ اس لیے اللہ نے جنت کی خوش خبری دینے والے اور جہنم سے ڈرانے والے نبیوں کو بھیجا۔ (بقرہ:۲۱۳ روح البیان)
اصلی مذہب یعنی اسلام کو قبول نہ کرنے والے جہنم میں جائیں گے؛ اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری کائنات کے انسانوں کی خیرخواہی کریں اور اُن کو فطری مذہب کی طرف بلائیں ، اسی کا نام ’’دعوت‘‘ ہے۔ اگر وہ سارے انسانوں کو دعوت پہنچا نہیں سکتے تو کم سے کم اپنے مسلمان بھائیوں کو سنبھالیں کہ وہ بھٹک نہ جائیں !
ایمان سب سے بڑی نعمت
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جتنی نعمتیں اُتاری ہیں ، اُن میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، فقہائے کرام نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو جان، مال اور نسل (اولاد) سب کچھ قربان کردینے کی نوبت آئے تو بھی اس میں دریغ نہ کرے (موافقات امام شاطبی)
آج ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں ، لذت لے رہے ہیں ؛ اس لیے اس کی قدر ہے، آخرت میں جنت کو دیکھیں گے اس کی لذت لیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ جنت کے مقابلے میں دنیا کی لذت کی کوئی حیثیت نہیں ؛ لیکن یہ دنیا اسی حد تک مفید ہے؛ جب تک کہ اس کے ذریعے اللہ کی فرماں برداری کی جائے، اگر اس کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی ہونے لگے تو دنیا کو تھوک دینا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
قارون کو اللہ تعالیٰ نے ’’حافظِ تورات‘‘ بنایا تھا؛ مگر دنیا کی محبت اس میں اتنی داخل ہوگئی کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے لگا اور دین سے پھرگیا، اللہ تعالیٰ نے اُسے پوری دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا، اس کے دھنسنے سے پہلے بہت سے لوگ اس کی دولت پر رال ٹپکارہے تھے؛ مگر جب معلوم ہوا کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوگیا تو لوگوں نے کہا: توبہ توبہ، دنیا کوئی چیز نہیں ، مال ودولت سب فانی ہیں ، باقی صرف اللہ کی ذات ہے اور آخرت کا ثواب سب سے بہتر ہے اور وہ ایمان اور عمل صالح پر جمنے کے بعد ہی نصیب ہوگا۔ (قصص:۷۹-۸۰)
ایمان کے لیے نبیوں کی فکر
دنیا میں اللہ کا پیغام نبیوں نے پہنچایا ہے، خود اس پیغام پر ایمان لائے اور عمل کرکے دوسروں کو بتایا، لوگوں کو ایمان کی دعوت دی، ماننے والوں کو جنت کی خوش خبری دی اورنہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرایا، اس دنیا میں نبیوں کے علاوہ کسی کے ایمان کے باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ، پھربھی انبیائے کرامؑ نے ایمان کی فکر کی، ایمان کے ضائع ہونے سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو ایمان پر جمے رہنے اور ایمان پر ہی مرنے کی وصیت فرمائی:
وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۲)
ترجمہ: اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو تاکید کی کہ اے میرے بیٹو! یقینا اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو چن دیا ہے؛ لہٰذا ہرگز نہ مرنا؛ مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان رہو!
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد سے ایمان پر باقی رہنے کا وعدہ لیا تھا، انھیں فکرتھی کہ میں تو مسلمان ہوں ، زندہ ہوں تو اولاد کی نگرانی کررہا ہوں ؛ لیکن چوں کہ نبیوں کی اولاد کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ ایمان پر باقی رہے گی یا نہیں ؟ اس لیے انھوں نے وعدہ لیا، جب سب نے مسلمان رہنے کا اقرار کیا اور ان کو اطمینان دلایا تب اُن کی پریشانی دور ہوئی، آیت ملاحظہ ہو!
أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَائَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۳)
ترجمہ: کیاتم موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی؟ جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے؟ انھوں نے کہا: ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں ۔
اور حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:
تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَاَلْحِقْنِي بالصالحین (یوسف:۱۰۱)
ترجمہ: مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دیجیے! اور نیک لوگوں سے ملا دیجیے!
اوپر کی تینوں آیتوں کو بار بار پڑھیے کہ انبیائے کرام کو ایمان کی کتنی فکر تھی کہ وہ اپنے ایمان اور اپنی اولاد کے ایمان کے لیے بڑے فکرمند تھے، ایمان کی حالت میں جینا اور ایمان کی حالت میں مرنا چاہتے تھے اور ایمان کی دولت کو اپنی نسل اور آنے والی اولاد میں باقی رکھنا چاہتے تھے؛ اس لیے ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایمان کی فکر ہونی چاہیے، ایمان کے ساتھ ہی دنیا اچھی ہے اگر ایمان نہ ہوتو دنیا کی کوئی چیز اچھی نہیں ، ہمیں ہمیشہ چوکنّا رہنا چاہیے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ایمان ضائع نہ ہوجائے، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان چلا جائے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے، حدیث شریف میں ہے کہ ایمان کے لیے مؤمن فکر مند رہتا ہے اور منافق بے فکر رہتا ہے (بخاری ۱/۲۱۹)
ایمان بچانے کی فکر انبیائے کرامؑ کواسی لیے تھی کہ
ایمان کا باقی رہنا ہی جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے، دنیا تو بس دھوکے کا سامان ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔ (آل عمران:۱۸۵)
ترجمہ: چنانچہ جو دوزخ سے دور رکھاگیا اور جنت میں داخل کیاگیا تو وہ کامیاب ہوچکا اور دنیوی زندگی بس دھوکے کا سامان ہے۔
ایمان کے لیے دعائے نبوی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان ویقین کی دعا مانگتے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، ذیل میں دعائیں ذکر کی جاتی ہیں :
۱- اللّٰہُمَّ أعْطِني إیمانًا صَادِقًا ویَقینًا لیس بعدَہٗ کُفرٌ۔ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث:۱۱۱۹)
اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!
۲- اَللّٰہُمَّ إني أَعُوْذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ۔ (نسائی:۱۳۴۷)
اے اللہ! میں کفر (وارتداد) سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔
ہمیں بھی اپنے لیے اپنی اولاد اور امت مسلمہ کے لیے سچے ایمان کی دعا کرنی چاہیے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے!
۳- یا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰی دِیْنِکَ۔ (مشکوٰۃ)
اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادیجیے!
ہندوستانیوں کی قوتِ ایمانی
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے اپنے خون بہائے ہیں ، جانیں دی ہیں ، تختۂ دار کو چوما ہے؛ تب جاکر یہ ہندوستان آزاد ہوا ہے؛ لیکن آج یہ فرقہ پرست مسلمانوں کی قربانیوں کی کوئی قدر نہیں کررہے ہیں اور انھیں تاریخ کے صفحات سے کھرچ کر ختم کردینا چاہتے ہیں ؛ غرض یہ کہ اگرایمان کی مضبوطی نہ ہوتی تو یہ ملک آزاد نہ ہوتا، اس وقت لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دی جاتی تھی کہ اگر عیسائی بن جائو تو جان بچ جائے گی؛ مگر کسی نے اسلام کو نہیں چھوڑا۔
سرخیل مجاہد آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ اپنے شاگرد حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ سے فرمارہے تھے کہ ہم ہندوستانیوں کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ پھانسی کے وقت بھی کوئی خوف زدہ نہیں ہورہا تھا، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
’’پھانسی گڑی ہوئی تھی اور ان ناکردہ مظلوموں کا پَرّا بندھا ہوا تھا (یعنی لائن لگی تھی) جن کو پھانسی کا حکم دیا جاچکا تھا، وہ لوگ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نعش کو اتارا جارہا ہے اور دوسرے زندہ کو چڑھایا جارہا ہے، اس طرح موت ان کی نظر کے سامنے تھی اور ان کو عین الیقین تھا کہ چند منٹ بعد میرا شمار مُردوں میں ہوا چاہتا ہے؛ بایں ہمہ کوئی جھوٹوں بھی ان کے متعلق ضعفِ ایمان کا یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ کسی بچہ نے بھی موت سے ڈرکر اسلام سے انحراف یا تبدیل مذہب کا خیال کیا ہو، باوجود قلتِ علم اور غلبۂ جہالت کے ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ مرنا قبول تھا؛ مگر مذہب پر حرف آنا قبول نہ تھا۔‘‘ (تذکرہ الخلیل ص۱۶۸، بحوالہ کفروارتداد کا زمانہ اور امت مسلمہ کی بے حسی، ص۱۸۱)
قیامت کے قریب مسلمانوں کی آزمائش
ہم لوگ آج جو صورتِ حال دیکھ رہے ہیں ، اس کی پیش گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کردی تھی کہ اخیرزمانے میں مسلمانوں کو ایمان پر رہنا بڑا مشکل ہوگا، ایمان پر باقی رہنا ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں انگارہ لینا، بہت سے لوگ صبح کو مسلمان رہیں گے اور شام کو کافر ہوجائیں گے جس طرح لوگ جُٹ کے جٹ ایمان میں داخل ہوے اسی طرح جٹ کے جٹ ایمان سے نکل بھی جائیں گے؛ یہاں تک کہ قیامت سے پہلے مسلمانوں کی بہت ساری جماعتیں مورتی پوجا کرنے لگیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !ذیل میں چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :
۱- حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یأتي عَلی النَّاسِ زَمانٌ، اَلصَّابِرُ فِیْہِمْ علی دینہٖ کالقابِضِ عَلَی الجَمَرْ۔(ترمذی۲۲۶۰)
ترجمہ: مسلمانوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر جمے رہنے والا انگارے کو پکڑنے والے کی طرح (پریشان) ہوگا۔
۲- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بَادِرُوْا بالأعمال فِتَنًا، کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمْ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِنًا وَیُمْسِيْ کَافِرًا أوْ یُمْسِيْ مُؤمنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیا۔
ترجمہ: فتنوں کی وجہ سے نیکیاں جلدی جلدی کرو، (فتنے) تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہیں ؛ آدمی صبح کو مسلمان رہے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا یا شام کو مسلمان رہے گا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچے گا۔
۳- ایک موقع سے حضرت جابرؓ روتے ہوے فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ اللہ کے دین میں جُٹ کے جٹ داخل ہوے ہیں ؛ لیکن آگے (ایسازمانہ آئے گا کہ لوگ) جٹ کے جٹ اسلام سے نکلیں گے۔ (مسنداحمد ۳/۳۴۳)
برصغیر کے مسلمانوں کا سنگین مسئلہ
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ ہندوستان میں ارتداد کے مسئلے کو سنگین مسئلہ سمجھتے تھے اور بار بار اس کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرتے تھے، ایک موقع سے انھوں نے فرمایا:
’’برصغیر کے مسلمانوں کا اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم ترین مسئلہ جس کو وہ خود مسئلہ نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کی سنگینی و ہولناکی کا خود ان کو اندازہ نہیں ہے، وہ نئی نسل میں بڑھتے فکری ارتداد کاہے، میری گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر اس کی نزاکت کا امت کو احساس نہیں ہوا تو یہ تہذیبی وفکری ارتداد امت کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دے گا اور اس ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کچھ دنوں کے بعد نام کی مسلمان رہ جائے گی اور غیرشعوری طور پر وہ بتدریج ایمان وتوحید کی نعمت سے محروم ہوجائے گی۔‘‘ (فکر وخبر بھٹکل)
ارتداد کی صورتیں
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہوجائے، یا مندر میں جائے، بھجن گائے، پوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے اور بتوں کو سجدہ کرے؛ حالاں کہ ایسی بات نہیں ، آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے؛ جب کہ وہ اللہ کو ایک نہ مان رہا ہو، اللہ کے حکم کو نہ مان رہا ہو، قرآن کا مذاق اڑا رہا ہو، سنت نبوی کو حقارت سے دیکھ رہا ہو، متواتر احکام کا انکار کررہا ہو، مثلاً زکوٰۃ کا انکار کرتا ہو جناب محمد رسول اللہ … کو آخری نبی نہ مان رہا ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا انکار کررہا ہو، آج قادیانی اس کی مثال ہیں ، شکیل بن حنیف اور ان کے ماننے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ، یہ لوگ قرآن وسنت کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، روزہ نماز کرتے ہیں ، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں پھر بھی وہ اسلام میں داخل نہیں ۔
آج کے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی خوب گمراہ ہورہے ہیں ، ان کی گمراہی کو ’’فکری ارتداد‘‘ کا نام دیا جانا بہتر ہے:
(۱) کوئی عورتوں کو دیے ہوئے اسلامی حقوق کو کم سمجھ رہا ہے۔
(۲) یا عورتوں کی حق تلفی تصور کررہا ہے۔
(۳) کوئی میراث میں بعض صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا دینے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۴) کوئی عورتوں کو میراث دینے ہی کو غلط تصور کررہا ہے کہ جب اسلام میں ان کے ذمے خرچے نہیں ہیں تو ان کو میراث کیوں دی جارہی ہے؟
(۵) کوئی مردوں کو طلاق کا حق دیے جانے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۶) کوئی ازواجِ مطہرات پر اعتراض کی تائید کررہا ہے۔
(۷) کوئی صحابۂ کرامؓ پر کیچڑاچھال رہا ہے۔
(۸) کوئی اسلامی سزائوں کو وحشیانہ سمجھ رہاہے۔
(۹) کوئی مرد کو چار شادیوں کے حق دینے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۱۰) کوئی روزہ کو بے فائدہ سمجھتا ہے اور کوئی نماز کو بے کار تھکنے سے تعبیر کرتا ہے۔
یہ سب لوگ گمراہی اور ارتداد کا شکار ہیں ، ہمیں ان سب کے ایمان کی فکر کرنی ہے، ان سب کو خالص اسلام کی طرف بلانا ہے، بہ ظاہر مسلمان کی صورت میں مرتد کی مثال حدیث شریف میں آئی ہے کہ اخیرزمانے میں لوگ نماز روزہ کریں گے، حج کریں گے؛ مگر مرتد ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سَیَأتي عَلٰی أُمَّتِيْ زمانٌ یُصَلِّيْ فِيْ الْمَسْجِدِ، مِنْہُمْ ألفُ رَجُلٍ وزیادۃٌ لا یکونُ فِیْہِمْ مؤمنٌ۔ (دیلمی ۳۲۶۵)
ترجمہ: ’’آگے میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجد میں نماز پڑھیں گے، ان میں سے ہزار آدمی اور اس سے زیادہ آدمی ہوں گے (مگر) ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔‘‘
ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ حج کررہے ہوں گے، نماز روزہ کررہے ہوں گے؛ لیکن ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔ (اتحاف الجماعۃ ۲/۶۸)
غیروں کی خواہش ہے کہ تم بھی غیرمسلم ہوجائو!
آج عالمی پیمانے پر غیرمسلمین مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنا چاہ رہے ہیں وہ اپنے کفر پر جمے ہوے ہیں ، وہ کیا اسلام قبول کریں گے؛ البتہ وہ اپنے جیسا سارے مسلمانوں کو بنانا چاہ رہے ہیں ، وہ برابر اسی کوشش میں لگے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس کی صراحت فرمائی ہے:
۱- وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُونُون سوائً (نساء:۸۹)
ترجمہ: وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم بھی کافر ہوکر برابر ہوجائو۔
۲- وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتّی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ إنِ اسْتَطَاعُوْا۔ (بقرہ:۲۱۷)
ترجمہ: وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر ان کا بس چلے۔
۳- وَدَّ کثیرٌ مِنْ أہلِ الکتابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إیمانِکُمْ کفّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الحقُّ۔ (بقرہ:۱۰۹)
ترجمہ: بہت سے اہل کتاب تو اپنے حسد سے حق ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تمہیں ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹاکر لے جائیں ۔
۴- وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الیَہُوْدُ وَلاَ النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔ (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی؛ یہاں تک کہ تم ان کے مذہب پر چلنے لگو!
مسلمانوں کا جواب
سارے غیرمسلمین مسلمانوں کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں ، یہود ونصاریٰ اپنے مذہب کی پیروی کرانا چاہتے ہیں اور دوسرے مشرکین اپنے مذہب کی تو اس کا کیا جواب ہونا چاہیے؟
اللہ تعالیٰ نے خود اس کا جواب مذکورہ بالا آیت کے بعد دیا ہے:
قل: إنَّ ہُدی اللّٰہِ ہُو الہدیٰ (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: (ان سب سے) کہہ دیجیے کہ جو راستہ اللہ دکھائے وہی راستہ ہے۔
یعنی سارے مذاہب غلط اور منسوخ ہیں اُن کے یہاں اللہ تعالیٰ کی ہدایت موجود نہیں ، صرف قرآن میں اللہ کی ہدایت ہے؛ اس لیے اسی کی پیروی کی جاسکے گی، کسی اور کی پیروی گمراہی ہوگی۔
غیرمسلم کی بات ماننے والا جہنم میں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی شرما حضوری میں سامنے والے کی بات مان لیتا ہے؛ اس لیے اس کی وضاحت قرآن نے کردی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مذہب کو مانے گا اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی ہاں میں ہاں ملائے گا تو اس کی خیر نہیں ؛ اس لیے کہ اسلام کی قطعیت کھل کر سامنے آچکی ہے، اگر کوئی اسلام کو چھوڑے گا تو آخرت میں اس کا کوئی یارومددگار نہ ہوگا:
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أہْوائَہُمْ بَعْدَ الذي جَائَکَ مِنَ العِلْمِ، مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَليٍ وَّلا نصیر (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: اور (اے مخاطب!) اگر تونے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے (تو) اللہ سے (بچانے والا) تیرا نہ کوئی یار ہوگا اور نہ مددگار!
مکمل اسلام کو مانو!
ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اپنے کو مسلمان بھی کہیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے شبہات کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول کریں ، قرآن پر شبہات کو اپنے دلوں میں رکھیں ، انبیاء اور صحابہ پر اعتراض کرنے والوں کا ساتھ دیں اور ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا تصور رکھیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے پورے اسلام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا ہے، یکسو ہوکر اللہ والے ہوجائیں ، یہی مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
یَـٰٓأَیُّہَا لَّذِینَ ئَامَنُواْ دْخُلُواْ فِی لسِّلْمِ کَآفَّۃ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ الشَّیْطَانِ۔ (بقرہ:۲۰۸)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو (اسلام کو) مان چکے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو! اور شیطانوں کے قدموں پر نہ چلو!
اسلام سے پھرجانے والا اصل کافر سے بدتر
ایک ہے اسلام قبول نہ کرنا، یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے؛ اس لیے کہ کلمہ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہوتا، چاہے وہ خیرات میں اپنی پوری دولت دے دے تب بھی اس کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، جو ملنا ہے اسی دنیا میں مل جائے گا، آخرت کی کامیابی کے لیے ایمان شرط ہے، کافر محروم ہوتا ہے؛ مگر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنا، اس سے زیادہ بُرا ہے۔
’’الردۃُ: ہِيَ أَفْحَشُ أنْوَاعِ الکفرِ ویُحْبَطُ بِہَا العَمَلُ۔ (إعانۃُ الطالبین ۴/۱۴۹)
اسلام سے پھرجانا، کفر کی قسموں میں سب سے بُری قسم ہے اور اس کی وجہ سے نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں ۔
اسلام سے پھر جانے والوں کے چہرے قیامت کے دن کالے کلوٹے ہوں گے، انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم کی سزا ہوگی، قرآنِ پاک میں اس کی وضاحت ہے:
فأمَّا الذین اسْوَدَّتْ وُجوہُہُمْ، أکَفَرْتُم بَعْدَ إیمانِکم فَذُوْقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُون (آل عمران:۱۰۶)
ترجمہ: تو رہے وہ لوگ جن کے چہرے کالے ہوں گے، (ان سے پوچھا جائے گا:) کیا تم نے ایمان کے بعد کفر کیا تھا؟ تو عذاب چکھو! اس وجہ سے کہ تم (اسلام کا) انکار کرتے تھے۔
اسلام سے پھرنے والا جہنم میں
اسلام سے پھرنے والا بدبخت ہوجاتا ہے، اس کی ساری نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں ، دنیا میں کیا ہوا کوئی اچھا عمل اُسے کام نہیں آئے گا، نہ تومرتد ہونے سے پہلے کی نیکی کام آئے گی اورنہ ہی مرتد ہونے کے بعد کی نیکی کام آئے گی؛ بلکہ وہ دیکھنے میں ہی نیکی ہوگی حقیقت میں نیکی نہیں ہوسکتی؛ اس لیے کہ نیکی وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نیک کہہ دیں اور قبول فرمالیں !
مرتد جہنم میں جائے گا، اس کی صراحت بھی آیت کریمہ میں ہے:
وَمَنْ یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِینِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَـٰٓئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأُوْلَـٰٓئِکَ أَصْحَٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَٰلِدُونَ۔(بقرہ:۲۱۷)
ترجمہ: اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے پھر کافر ہی مرجائے تو یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں وہ اُسی میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسلام سے پھرنے والے کی توبہ
اگر کوئی مسلمان اپنی کوتاہی اور نادانی سے اسلام سے پھر جائے، یا اسلام کے کسی حکم کا انکار کربیٹھے، جس سے ایمان چلاجاتا ہے، پھر وہ توبہ کرکے اسلام میں دوبارہ آنا چاہے تو اللہ کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہے وہ توبہ کرکے پھر اسلام میں داخل ہوجائے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
توبہ قبول کرنا بس اللہ کے ذمے ہے ان لوگوں کی جو نادانی میں گناہ کربیٹھتے ہیں پھر جلدہی توبہ کرتے ہیں تو وہی لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتے ہیں ۔ (نسائی:۱۷)
اسبابِ ارتداد
اسلام کبھی معلوب نہیں ہوسکتا، اس کی حقانیت آفتاب کی طرح روشن ہے؛ البتہ عالمی منظرنامے پر مسلمان مغلوب نظر آرہے ہیں ، یہ ہمارے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہے، اس کے اسباب اور عوامل پراگر غور کیا جائے اور تفصیل لکھی جائے تو بڑی طویل ہوجائے گی، ذیل میں چند اسباب اور وجوہ ذکر کیے جارہے ہیں ، جس سے آج کی حالتِ زار کو سمجھنے میں مدد ملے گی:
۱- سب سے پہلی وجہ اسلامی اقتدار کا زوال ہے، ’’عثمانیہ حکومت‘‘ کے زوال کے بعد سے اب تک مسلمان مظلوم ومقہور ہیں اور ان کو دبانے کی عالمی کوششیں ہوتی رہی ہیں ، آج کی عالمی طاقتیں مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے سے خوف زدہ ہیں ؛ اس لیے وہ مختلف مسائل اور مصائب میں مسلمانوں کو مبتلاکرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔
یہودی سازش اور عیسائی مشنریاں سب سے آگے ہیں ،یہ سب مسلمانوں کواصل دین سے پھیرنا چاہتی ہیں ، چرچ کے تحت چلنے والے ’’این جی اوز‘‘ کی سرگرمیاں بھی مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں ، وہ ایک طرف مسلمانوں کو کھلے طور پر عیسائی بنانے کی مہم چلارہے ہیں ، دوسری طرف وہ عام مسلمانوں کو فکری ارتداد کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ اگر مکمل نہ بدل سکے تو کم از کم قرآن وسنت میں شک وشبہ پیدا ہوجائے، جس سے اسلام بیزاری کی راہ ہموار ہوجائے، اس کے لیے وہ قرآن کو بدلنے کی مہم بھی چلارہے ہیں ، قرآن کے مقابلے میں شام کے بشارالاسد کی تیار کردہ ’’البرہان الحق‘‘ اسی کی کڑی ہے۔ بہت سے ممالک میں ارتداد کی لہرچل رہی ہے، مثلاً الجزائر، افریقہ، لبنان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش ان سب میں سرفہرست ہندوستان ہے۔ جہاں مختلف طریقوں سے لوگوں کو مذہب سے دور کیا جارہا ہے۔ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا، کشمیر اور یوپی سب ارتداد کی زد میں ہیں ۔ یہاں ’’قادیانی‘‘ بھی اسلامی لباس پہن کر اسلام سے پھیرنے کا کام کررہے ہیں ، ’’شکیل بن حنیف‘‘ کا فتنہ بھی قادیانی فتنہ کا نیا ایڈیشن ہے، اس کا مقصد بھی مرتد بنانا ہے، اس کے ماننے والے مسجد میں لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں ، سفید کرتا پاجامہ پہن کر ہاتھوں میں تسبیح رکھ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہیں ؛ حالاں کہ وہ اسلام سے خارج ہیں ، حدیث شریف میں نماز روزہ کرنے والے مرتد کا ذکر موجود ہے، یہ سب اسی کے مصداق ہیں ۔
۲- شدت پسند ہندو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے جمہوریت مٹ جائے، اصول وقوانین ختم ہوجائیں ، ’’آئینِ ہند‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور پورا ملک فرقہ پرست کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے، اس کے لیے وہ کوششیں کررہے ہیں ، اسلام کے مختلف احکامات پر اعتراض کرتے ہیں ، قرآن کی آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر اعتراض کرتے ہیں ،ازواجِ مطہرات کو نشانہ بناتے ہیں ، محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالم گیر کے کارناموں میں عیوب نکالتے ہیں ، جمہوریت پسند لیڈران پر تنقید کرتے ہیں ؛ تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور مسلمان اسلام کے تئیں شکوک وشبہات میں پڑکر پہلے فکری ارتداد میں مبتلا ہوں ، اسلام سے نفرت کریں پھر اسلام کو چھوڑدیں ۔
مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کی سازش بھی یہی لوگ کررہے ہیں ، آر، ایس، ایس سے وابستہ ’’ہندوجاگرن منچ‘‘ نے سیکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندو گھرانوں کی بہو بنانے کا ہدف بنا رکھا ہے اور مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر انعامات رکھ رکھے ہیں ۔ (قومی آواز بیورو ۲۹؍نومبر ۲۰۱۷ء)
مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کی سازش کے لیے جو تدبیریں کی جارہی ہیں ان میں سے ’’وندے ماترم‘‘ کو اسکولوں میں لازم کرنا ہے، ’’شری رام‘‘ کے نعرے لگوانا اور اس کے لیے مجبور کرنا ہے، ’’این، آر، سی اور سی، اے، اے‘‘ بھی اسی کی ایک کڑی ہے اور ’’گھرواپسی‘‘ نام کی تحریک تو کھلے طور پر اسلام سے پھیرنے کی تحریک ہے؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کلمہ پڑھنے والوں کے لیے بنایا ہے اور جب تک کلمہ پڑھنے والے رہیں گے تبھی تک یہ دنیا رہے گی اور ہم سب کے باوا آدمؑ مسلمان تھے۔ اس دنیا میں رہنے والا جب تک آدم علیہ السلام کے مذہب پر ہے تب تک وہ اپنے ہی گھر میں ہے واپسی کی ضرورت اس کو ہے، جس نے آدم کے گھر کو چھوڑدیا ہے۔
آدم علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک سارے لوگ مسلمان رہے اور انسان کا اصل مذہب اسلام ہی ہے اس لیے گھرواپسی کا صحیح مطلب یہ ہونا چاہیے کہ سارے انسان دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام کے سائے میں آجائیں اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی عبادت کرکے اور اس کے قانون پر عمل کرکے زندگی کو پرسکون بنائیں اور مرنے کے بعد جنت کے مستحق ہوجائیں ؛ تاکہ مرنے کے بعد افسوس نہ ہوکہ کاش اسلام کو مانا ہوتا تو جہنم کی سزا نہ ہوتی!
۳- اسکولوں ، کالجوں میں ارتداد
علم سیکھنے سکھانے کا کوئی انکار نہیں کرتا؛ مگر کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ علم حاصل کرنے میں ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جو علم ایمان کے لیے خطرہ ہو وہ لعنت ہے، ہندوستان میں بہت سے اسکول ہیں ، جہاں اسباق کے بعد پانچ منٹ ’’اشلوک‘‘ پڑھایا جاتا ہے اور اسکول انتظامیہ اس پر اصرار کرتی ہے، مسلمان بچوں کو الگ کرنے کے مطالبے کو قبول نہیں کرتی، بعض اسکولوں میں ’’وندے ماترم‘‘ ضروری ہے، وہاں بھی مسلمان بچوں کو الگ رکھنے کی بات مانی نہیں جاتی، بعض اسکولوں میں ’’سرسوتی‘‘ کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بچوں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اس مورتی کو تعلیم کی دیوی کہا جاتا ہے۔ اس پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور پانی بھی ۔ بعض اسکولوں میں ’’سوریہ نمسکار‘‘ کرایا جاتا ہے، یہ سب اعمال شرک ہیں ، ان سے بندہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہ صریح ارتداد ہے، ایسے اسکولوں میں تعلیم دلانا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟
اور بعض اسکولوں میں اسلام کے خلاف مواد داخل نصاب ہے، شرکیہ باتیں کتابوں میں جبراً پڑھائی جاتی ہیں ؛ جب کہ جمہوری ملک ہے یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت ہے؛ اس لیے کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے!
بعض اسکولوں میں قرآن کی آیات کے خلاف بچوں کا ذہن بنایا جاتا ہے، خصوصاً جہاد کی آیتوں کو نکالنے کی بات کی جاتی ہے؛ جب کہ کوئی مسلمان کسی مذہب کی کتاب کے خلاف کچھ نہیں کہتا، اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ تم کسی کے معبود کو بُرا نہ کہو کہ وہ بدلے میں اللہ کو بُرا کہنے لگیں :
لَا تَسُبُّوا الّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دونِ اللّٰہ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (انعام:۱۰۸)
ترجمہ: تم ان لوگوں کو گالی نہ دو جو اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں کہ وہ نہ جاننے کی وجہ سے دشمنی میں اللہ کو گالی دے بیٹھیں ۔
۴- مفلسی کی وجہ سے ارتداد
آج بہت سے علاقوں میں مسلمان غریب ونادار ہیں ، ان کی مفلسی نے انھیں پریشان کررکھا ہے؛ اس لیے بعض عیسائی مشنریاں ان کو مال کا لالچ دے کر عیسائی بنالیتی ہیں ، مشرکین انھیں مشرک بنالیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کفر سے پناہ مانگی ہے اسی طرح فقروفاقے سے بھی پناہ مانگی ہے؛ اس لیے کہ بہت سی مرتبہ غریبی انسان کو کفر سے قریب کردیتی ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے: ’’کاد الفقرُ أن یکونَ کُفْرًا‘‘ (بیہقی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دعاء بھی منقول ہے:
اَللّٰہُمَّ اِنّيْ أعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ۔ (حصن حصین)
ترجمہ: اے اللہ! میں (اسلام کا) انکار کرنے اور محتاج ہونے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔
۵- عشق میں ارتداد
مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ رہتے ہیں ، اس پر سیکس کی تعلیم کا لزوم پٹرول میں آگ لگانے کا کام کرتی ہے، آن لائن تعلیم نے بھی تعلقات کی پاکیزگی ختم کردی ہے۔
بے پردگی کی وجہ سے بھی گندے تعلقات ہوجاتے ہیں معاشقے میں ذات پات کی کوئی قید نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے مسلم اور غیرمسلم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے مذہب کو محض شادی کے لیے قبول کرلیتے ہیں ، ان میں نہ تو مسلمان ہونے والوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہوتا ہے اورنہ غیرمسلم ہونے والوں کو؛ دونوں مذہب بے زار ہوتے ہیں ، مسلمانوں کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے؛ تاکہ ارتداد سے بچ سکیں ۔
خیرالقرون میں مرتدین کا مقابلہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام ؓکے زمانے میں بھی ارتداد کی ہوا چلی تھی، وہ بھی اللہ کی مصلحت تھی، اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے ایسے موقع سے رسول اللہ … اور صحابۂ کرامؓ کا نمونہ دکھانا چاہا؛ تاکہ اگر بعد میں بھی ارتداد کی لہر چلے تواس کا مقابلہ اسی انداز سے کیا جاسکے۔
(الف) کچھ لوگوں نے اسلام سے پھر کردوبارہ بتوں کی پوجا شروع کردی تھی، اہل کتاب منافقین کی پلاننگ بھی تھی کہ ایمان میں جھوٹ موٹ صبح کو داخل ہوجائو اور شام کو پھر جائو اور پوچھنے پر کہہ دو کہ ہم نے غور کیا؛ مگر ہمیں اسلام سمجھ میں نہیں آیا، اس طرح جو لوگ پکے مسلمان ہیں ان کا ایمان کمزور ہوجائے گا؛ لیکن ان کی یہ سازش چلی نہیں اللہ تعالیٰ نے پردہ فاش کردیا:
وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَٰبِ ئَامِنُواْ بِالَّذِیٓ أُنزِلَ عَلَی الَّذِینَ ئَامَنُواْ وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوٓاْ ئَاخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ۔ (آل عمران:۷۲)
ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کہا: جو کچھ مسلمانوں پر اترا ہے اس پر صبح کو ایمان لائو اور شام کو اس کا انکار کردو، شاید کہ وہ پھر جائیں !
ایک عیسائی منافقت سے ایمان لایا اور سول اللہ … سے قریب ہوگیا؛ لیکن چنددنوں بعد وہ مرتد ہوگیا، عیسائیت میں داخل ہوگیا، پھر بتوں کی پوجا کرنے لگا، جب وہ مرا تو لوگوں نے قبر میں دفن کیا؛ مگر زمین نے قبول نہیں کیا، باہر کردیا، لوگوں نے دوبارہ دفن کیا، پھر باہر کردیاگیا، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !
(ب) یمامہ کے کچھ لوگوں نے مسیلمہ کذاب کی پیروی شروع کردی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نبوت میں شریک کرلینے کا مطالبہ کیا، جسے آپ نے مسترد کردیا؛ لیکن اس نے یمامہ میں چالیس ہزار لوگوں کو ہم نوا بنالیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بغاوت پر اترآیا اورنہ ماننے والوں کو قتل کرنا شروع کردیا، خلیفۂ اول کو چیلنج دیا توآپ نے پہلے حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ بھیجا؛ لیکن کامیابی نہ ملی؛ بالآخر حضرت خالد بن ولیدؓ نے تیرہ ہزار کے لشکر کے ساتھ یمامہ کا رخ کیا اور گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت وحشی بن حربؓ نے مسیلمہ کو ایسا نیزہ مارا کہ وہ ڈھیر ہوگیا اور اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔
(ج) صنعا (یمن) کے اسود عنسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کوشش فرمائی کہ وہ ایمان لے آئے؛ مگر وہ شعبدہ بازی کے ساتھ مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہا تو آپ … نے یمن کے مسلمانوں کے نام فتنہ کی سرکوبی کے لیے خط بھیجا؛ بالآخر فیروزنامی ایک بہادر شخصیت نے اس کا کام تمام کردیا اور اس کے مرنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنائے جاچکے تھے۔
(د) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا، روزہ نماز کا انکار نہیں کیا، کلمہ کا انکار نہیں کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ کیا آپ ان لوگوں سے جہاد کریں گے جو کلمہ پڑھتے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں ! جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس سے میں جہاد کروں گا؛ اس لیے کہ وہ بھی مرتد ہے۔
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوا کہ ارتداد کا مقابلہ کرنا مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے، مرتد ہونے والا اگر کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو سناجائے گا اس کا جواب دیا جائے گا؛ اس لیے کہ اسلام مدلل مذہب ہے، اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی زبردستی نہیں ، اسلام تلوار سے نہیں پھیلا ہے، اسلام کے کسی حکم میں کسی کو شبہ ہوتو اس شبہ کو دور کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مذہب کی آزادی ہے، یہاں مرتد کو قتل کرنے اور ان سے جہاد کرنے کی بات تو نہیں کہی جاسکتی؛ اس لیے کہ سزائوں کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے؛ البتہ دلائل سے سمجھا جائے گا اور مسلمان بھائیوں کے فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس میں جمہوریت رکاوٹ نہیں ہے۔
ارتداد سے بچنے کی تدبیریں
اب سوال یہ ہے کہ آج ہندوستان کے موجودہ ماحول میں ہمیں فتنۂ ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے بھائیوں کو جہنم سے بچانے کی تدبیریں سوچنی چاہیے اور اس کے لیے مناسب اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے؛ اگرچہ ہم تعداد میں کم ہیں ؛ مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں اور اللہ جمے رہنے والوں کے ساتھ ہیں ۔ (بقرہ:۲۴۹)
مسلمانوں کو ارتداد سے کیسے بچایا جائے؟ ان کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ تو اس سلسلے میں چند صورتیں ذہن میں آرہی ہیں اللہ کرے کہ وہ مفید ثابت ہوجائیں :
۱- ارتداد کی عالمی اورملکی سازش کا جائزہ لیا جائے اور ممکن حد تک ہر طرح کی کوشش کی جائے؛ تاکہ مسلمان بھائیوں کا ایمان محفوظ رہے۔
۲- اہلِ وطن سے بحث ومباحثہ نہ کیا جائے، اس سے بات الجھتی ہے؛ نتیجہ ہاتھ نہیں آتا۔
۳- غریب مسلمانوں کے تعاون کا نظام بنایا جائے۔
۴- ایسے اسکول اور کالج سے بچا جائے جہاں نونہالانِ امت ارتداد سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
۵- مسلمان اپنے اسکول کھولیں اور پاکیزہ ماحول میں نونہالان کو تعلیم دیں ۔ مخلوط تعلیم سے بچا جائے، اسی طرح ’’مکاتب‘‘ کے قیام پر توجہ دی جائے، اگر مستقل مکاتب نہ قائم کرسکیں تو مساجد میں مکاتب کا نظام بنائیں !
۶- دینی تعلیم کے فروغ کی کوشش کی جائے، عقیدے سمجھائے جائیں ، عموماً عقیدہ نہ جاننے کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ۔
۷- مسلمانوں کے اندر دینی غیرت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، دین اسلام کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔
۸- نماز کا اہتمام کیا جائے اور ایک دوسرے کو مسجد سے قریب کرنے کی ہرممکن کوشش ہو، ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے احباب اس پر زیادہ توجہ رکھیں !
۹- اگر محسوس ہوکہ کوئی ایمان پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے دور رہا جائے، ایسوں کی صحبت ہرگز اختیار نہ کی جائے۔
۱۰- اپنی اولاد اور خاندان پر گہری نظر رکھی جائے! غلط صحبتوں سے بچایا جائے۔
۱۱- معاشرے میں پردے کا التزام کیا جائے؛ تاکہ گندے تعلقات نہ ہونے پائیں ، جو اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتے ہیں ۔
۱۲- اسلام پر ہونے والے اعتراضات نہ سنے جائیں ، عموماً موبائل پر بہت سے لوگ اسلام کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ، اُن کو نہ سنا جائے، صرف قابلِ اعتماد اور صحیح عقیدہ لوگوں کی باتیں سنی جائیں !
۱۳- علماء اعتراضات کا جواب تیار کریں اور ان کو شائع کریں ، اس کا ایک نظام بنایا جائے، اسلام کے خلاف اعتراضات جمع کیے جائیں پھر جواب تیار کرکے کئی زبانوں میں انھیں پھیلایا جائے؛ تاکہ شکوک وشبہات والوں کے لیے شفا کا ذریعہ ہو!
۱۴- مدارسِ اسلامیہ میں باقاعدہ دفاعِ اسلام کا نظام بنایا جائے!
۱۵- تعارفِ اسلام کے کتابچے تیار کیے جائیں اور وہ مسلمانوں تک پہنچائے جائیں اور غیروں کو بھی دیے جائیں !
۱۶- جمعہ کی تقریروں میں ایمان کی اہمیت اور اس کے عقیدے بیان کیے جائیں ۔
۱۷- جہاں ارتداد کا خطرہ ہو وہاں مبلغین بھیجے جائیں ، مساجد میں اس کا نظام مضبوط انداز میں بنایا جائے! اس کے لیے مساجد میں باصلاحیت فکرمند اماموں کا تقرر کیا جائے جو وقت پر کام آسکیں ، جن کے اندر تقریر کی صلاحیت ہو۔
۱۸- کفریہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے! اس لیے کہ ان الفاظ سے آدمی ایمان سے نکل جاتا ہے، یا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتاہے اور ا ُسے پتہ بھی نہیں چلتا۔
۱۹- مختصرکورس تیار کیا جائے جس میں ایمانیات کی باتیں ہوں اسلام کا تعارف، اہمیت ، عقیدے، ارکانِ اسلام، دعائیں اور دیگر ضروری معلومات ہوں کہ اس کا پڑھنے والا، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اورمعاشرت سب کو سمجھ لے۔
۲۰- عوام اور علماء کے تعلقات کو مضبوط کیا جائے؛ ان کا قرب جتنا رہے اتنا ہی ارتداد سے بچ سکیں گے۔ صحبتِ صالحین کی ترغیب دی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ۔
۲۱- کالجوں میں تعارفِ اسلام اور اسلام پر اعتراضات سے متعلق محاضرات کا نظام بنایا جائے۔
۲۲- اسکول اور کالج کی چھٹیوں کے موقع کو غنیمت جان کر طلبہ وطالبات کو دین سمجھانے کا نظام بنایا جائے! سنڈے کلاس کا نظام بنایا جائے۔
۲۳- چھوٹی ہجرت کی جائے، مثلاً جہاں غیرمسلمین زیادہ ہیں ، مسجدیں نہیں ہیں یا دور ہیں ، ان علاقوں کو چھوڑ کر کثیر مسلم علاقے میں رہائش اختیار کی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا بَریئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أظْہُرِ المُشْرِکِینَ (ابوداؤد)
ترجمہ: میں ہراُس مسلمان سے بے تعلق ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتے ہیں ۔
لَا تُسَاکنوا المشرکینَ وَلَا تُجَامِعُوْہُمْ! فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أو جَامَعَہُمْ فلیس مِنَّا۔ (ترمذی)
ترجمہ: مشرکین کے درمیان رہائش اختیار نہ کرو اور ان کے ساتھ جمع نہ رہو؛ اس لیے کہ جو ان کے ساتھ رہائش اختیار کرے گا یا اُن کے ساتھ جمع رہے گا تو وہ ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں ہے۔
۲۴- حفاظتِ اسلام کے لیے دعائوں کا اہتمام کیا جائے!
اَللّٰہُمَّ أرنا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتباعَہٗ وأرِنَا الباطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجتِنَابَہٗ!
٭ ٭ ٭
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:107، شعبان المعظم – رمضان المبارک 1444ھ مطابق مارچ 2023ء