مولانا مفتی محمود زبیر قاسمی، حیدرآباد، استاذ دارالعلوم رحمانیہ و منتظم مجلس علمیہ آندھرا پردیش
انسانی اقدار روز بروز روبہ زوال ہیں، اخلاق وکردار کی گراوٹ روز افزوں ہے، بعض طبقوں کی جانب سے اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لیے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے، یہ مسئلہ اس وقت اور سنگین ہوجاتا ہے جب نوجوان نسل کی بات آتی ہے؛ کیونکہ یہ کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، کسی بھی قوم کے انقلاب میں گراں قدر حصہ انہی نوجوانوں کا ہوتا ہے، دوسری طرف نوجوان عقل کے کچے اور جذبات کے اندھے ہوتے ہیں، جس طرف ان کی عقل چل گئی، چل گئی․․․ جیسی بھی ان کی فکر بن گئی، بن گئی ․․․ زندگی کا یہ دور بڑا نازک ہوتا ہے․․․ اس مرحلہ میں آدمی بنتا بھی ہے بگڑتا بھی ہے، جو نقوش اس وقت مرتب ہوتے ہیں، زندگی بھر کے لیے ہوتے ہیں، کل حشر کے میدان میں بھی بطورِ خاص زندگی کے اس حصہ کے اعمال کی باز پرس ہوگی۔ (الحدیث)
لن تزول قدما عبدٍ یوم القیامة حتی یسئل عن أَربع خصال، عن عمرہ فیما أَفناہ، وعن شبابہ فیما ابلاہ، وعن مالہ من این اکتسبہ وفیما أَنفقہ وعن علمہ ماذا عمل فیہ․ (الترغیب والترہیب: ۴/۲۱۴)
کسی شخص کے قدم قیامت کے دن اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے جب تک کہ چار باتوں کی اس سے پوچھ گچھ نہ ہوجائے: (۱) عمر کہاں لگائی؟ (۲) جوانی کہاں گنوائی؟ (۳) مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ (۴) علم پر کہاں تک عمل کیا؟
جس قوم کے جوانوں میں عقابی روح بیدار ہوتی ہے، کچھ کرگزرنے کا جذبہ ان میں انگڑائی لینے لگتا ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ وہ قوم ترقی کی معراج پر ہوتی ہے اور جس قوم کے جوان خوابیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں، وہ قوم روز افزوں تنزل کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔
سائنس و ٹکنالوجی کی دم بخود ترقی نے جہاں نئے، نئے ایجادات اورانکشافات سے دنیا کے لیے سہولیات اور معلومات کا انبار لگادیا، وہیں اس نے دنیائے شہوت پرستی کے لیے نئی راہیں بھی کھول دیں،مواصلاتی دوریوں نے سمٹ کر جہاں انسانیت کو آسانیاں دیں، وہیں نفسانی خواہشات کے دیوانوں کو تسکین کا سامان بھی کیا، چند دن قبل شائع شدہ اخباری رپورٹ کے مطابق ”کچے گوشت“ کی دلالی کا کاروبار بھی انٹرنیٹ پر زور و شور سے ہورہا ہے، جس میں مالدار اور ان میں بالخصوص نوجوان نسل کو مائل کیاجارہا ہے اور بڑی بھاری رقومات ان سے حاصل کی جارہی ہیں؛ بلکہ اس بہانےDebit اور Credit کارڈس کے نمبرس حاصل کرتے ہوے اور ان کے Passwords کو محفوظ کرتے ہوے کھاتے خالی کیے جارہے ہیں․․․ یعنی اخلاق وایمان کی بربادی کے ساتھ مال کی بھی بربادی ․․․ اس کے علاوہ بیسیوں ویب سائیٹس فحش مناظر اور لٹریچر سے بھری ہیں․․․ جذبات مشتعل بھی کیے جارہے ہیں اور اس کی تسکین کے لیے دلالی بھی کی جارہی ہے۔
حکومت کی جانب سے انفارمیشن ٹکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں؛ لیکن انتہائی بے ہودہ اور فحش ویب سائیٹس کو بند کرنے کے لیے کسی بھی طرح کا اقدام نہیں کیاگیا اور نہ ہی انٹرنیٹ فراہم کرنے والوں نے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوے اس طرح کی ویب سائیٹس کو بند کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجہ میں ایسا لگتا ہے جیسے بے حیائی اور فحاشی کا سیلاب امڈ آیا ہے اور بالخصوص نوجوان نسل اس کی زد میں ہے۔
بی بی سی ٹیلی ویژن نے اس سلسلہ میں ماہرینِ نفسیات اور عام شہریوں کے درمیان ۲۰۰۳/ سے قبل ایک مباحثہ کا اہتمام کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ ۱۵/فیصد سے زائد افراد ہیجان انگیز اور عریاں مواد سے دل بہلاتے ہیں، اسی مباحثہ میں اس رپورٹ کا بھی افشاء کیاگیا کہ ۹/فیصد برطانوی لوگ فی ہفتہ گیارہ گھنٹے جنسی تصاویر دیکھتے ہیں، یہ رپورٹ آج سے چار سال قبل کی ہے، جب انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا شیوع اس قدر نہیں تھا، غریب طبقے کے مقابلے میں مالدار لوگ انٹرنیٹ پر شہوانیت کے نت نئے طریقے سیکھ رہے ہیں، جنسی طور پر ایک دوسرے کو تکلیف دے کر خوش ہونا، ہم جنس پرستی، جانوروں سے تعلقات، چھوٹے بچوں، بچیوں، عورتوں، بوڑھوں، ماں، بہن،بیٹی کے ساتھ عمل قوم لوط، زنا بالجبر اور دیگر کئی طرح کی چیزیں مالدار اور انٹرنیٹ سے مربوط نوجوان نسل سیکھ رہی ہے، جس کو وہ اپنے معاشرے اور بیویوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس سے رشتوں کا تقدس بھی پامال ہورہا ہے اور شادی شدہ جوڑے بے کیفی کی زندگی گزار رہے ہیں، رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں کئی لاکھ جوڑے ایسے ہیں جن کی ازدواجی زندگی انٹرنیٹ کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت انٹرنیٹ پر دس لاکھ سے زائد عریاں تصاویر موجود ہیں اور ایک لاکھ سے زائد عریاں فلمیں انٹرنیٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
یہ تو ان بے ہودہ اور غلط پروگراموں کی ہلکی سی جھلک ہے، حقیقتاً ایسے بہت سے پروگرام انٹرنیٹ پر کمپیوٹر کے ذریعہ دستیاب ہیں جنھیں دیکھ کر شرافت آنکھیں بند کرلیتی ہے۔
ماں باپ اور سرپرت پوری احساس ذمہ داری کے باوجود اپنی نوجوان نسل کو اس طرح کے فواحش سے روکنے میں بہت کم کامیاب ہیں․․․ بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ، ان کے یہاں اگر بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال سے روکا جائے تو معلومات کے ایک اہم ذخیرہ سے وہ محروم رہیں ․․․ اگر اپنے گھر انٹرنیٹ رکھیں تو ان کی نگرانی کیسے کی جائے؟ اور ان کو فحش ویب سائیٹس سے کیسے بچایا جائے․․․ انٹرنیٹ کے استعمال کنندگان جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دے رکھی ہے، یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس سے کروڑہا افراد بیک وقت مربوط اور ایک دوسرے کے خیالات اور سہولتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں، یہاں ہر اہم عالمی چیز آپ کو مل جاتی ہے، اس کی معلومات، تعارف اور توضیحات بس ایک ”کلک“ کی محتاج، کسی بھی اہم مسئلہ کی عقدہ کشائی چند منٹوں میں ہوجاتی ہے، دنیوی میدان کی بہت کم چیزیں ایسی ہیں جو انٹرنیٹ پر دستیاب نہ ہوں، معلومات کے حصول کی اتنی بڑی سہولت سے اگر آپ ان کو روکنا چاہیں تو یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور حصول تعلیم کے ذرائع سے روکنے کا الزام بھی آپ کے سر لگادیا جائے گا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ دین محض نماز، روزے اور دیگر عبادات ہی کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر عمل اور ہر حرکت کے لیے دینِ اسلام میں رہنمائی موجود ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں ان کا اتباع بھی لازم ہے۔
لہٰذا اس تعلق سے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ اسلامی حدود میں رہتے ہوے اس کا استعمال ہو اور اس کے برے اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، آپ کو یہ جان کر یقینا حیرت ہوگی اور آپ مسرور بھی ہوں گے کہ انٹرنیٹ کے مختلف پروگرام چلانے کے لیے جہاں بہت سے سافٹ ویر ہیں، وہیں چند ایک پروگراموں اور Sex Based Sites کو (Block) بند کرنے کے لیے بھی چند ایک سافٹ ویر موجود ہیں۔
اگرآپ کے نیٹ فراہم کرنے والے مخصوص اور غیرشرعی ویب سائیٹس کو بند کرنے کی کوئی سہولت نہ دیں تو آپ مندرجہ ذیل سافٹ ویرس کی مدد سے جو مارکیٹ میں دستیاب بھی ہیں، نامناسب، غیر اخلاقی، فحش اوراسلام مخالف ویب سائیٹس کو بند کرسکتے ہیں، ان سافٹ ویرس کے نام حسبِ ذیل ہیں:
(1) Cyber Sitter. (2) Net Nanny. (3) Cyber Petrol.
(4) Norton Internet Security. (5) Mcafee Parental Control.
ان سافٹ ویرس کو اپنے کمپیوٹر پر انسٹال Instal کریں، اس کے بعد ان کی Setting کریں، یہ فحش ویب سائیٹس کو بلاک (بند) کردیتے ہیں، دراصل یہ سافٹ ویرس بھی غیراسلامی ویب سائیٹس کو بنیادی طور پر بند نہیں کرتے لیکن ان میں ایسے آپشنز (Options) ہوتے ہیں جن کی مدد سے آپ کسی بھی غیرشرعی اور فحش ویب سائیٹ کو بند اور Blook کرسکتے ہیں، ان سافٹ ویرس کی سیٹنگ (Setting) مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
سافٹ ویر کی مدد سے فحش اور غیراسلامی لٹریچر سے بچنے کا یہ طریقہ ان حضرات کے لیے تھا، جہاں حکومت اور نیٹ فراہم کرنے والے ادارے اس طرح کی ویب سائیٹس کو بلاک (بند) کرنے کی کوئی سہولت اپنے صارفین کے لیے فراہم نہ کیے ہوں، ان کے بالمقابل ترقی یافتہ ممالک میں اقامت پذیر لوگوں کے لیے یہ مسئلہ آسان ہے، وہ اس طور پر کہ ان ممالک کے لوگ جب انٹرنیٹ کا کنکشن (Connection) خریدیں تو اس وقت اس کمپنی سے جس سے انٹرنیٹ خرید رہے ہیں یہ کہیں کہ ہمیں Parental Control چاہیے یا اگر انٹرنیٹ خریدتے وقت کمپنی کوئی فارم پر کروالے تو اس میں Parental Control پر ٹک لگادیں، اس طریقہ پر جب آپ اُس انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی کے صارف بنیں گے تو آپ کے گھر استعمال ہونے والے کمپیوٹر پر فحش مواد پر مبنی ویب سائیٹس نہیں کھلیں گے۔
انٹرنیٹ کی مضرتوں سے بچنے کے لیے مذکورہ بالا طریقوں کو اختیار کرنا اور اپنے گھر والوں کے ایمانی، اسلامی، اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے تحفظ کے لیے ان کی مسلسل نگرانی ناگزیر ہے؛ ورنہ انٹرنیٹ سے ضرر رساں تعلق قائم کرتے ہوے آپ یہ بھی ضرور سوچ لیں کہ آپ اپنے گھر والوں کے مذہب، تہذیب اور اخلاق کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں، آپ کی بچی کسی اجنبی سے بات کرے تو کیا آپ بے تعلق رہ سکتے ہیں؟ آپ کا بچہ گلیوں میں نکل کر اجنبیوں سے راہ و رسم بڑھاے تو کیا آپ خاموش رہیں گے؟ یقینا ہرگز نہیں؛ لیکن یقین کریں کہ انٹرنیٹ پر گھر بیٹھے یہی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، شیطان اور اس کے پیروکار گھروں میں گھس کر ہمیں تباہ کررہے ہیں اور ہماری نسلوں کو بے حیائی اور بدچلنی پر برانگیختہ کررہے ہیں۔
اس ٹکنالوجی سے اوراس پر موجود علمی مواد سے فائدہ اٹھانے کے وقت یہ بات ضرور سامنے رہنی چاہیے کہ اس کے فاسد مواد اور نقصانات سے کس طرح بچا جاسکتا ہے۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد: 91 ، ربیع الثانی1428 ہجری مطابق مئی2007ء