حرفِ آغاز
حبیب الرحمن اعظمی
۱۸۵۷ء کی انقلابی تحریک میں مدرسوں سے وابستہ علماء و فضلاء کی مجاہدانہ خدمات اور ان کے قائدانہ اقدامات سے سفید فام سامراج اچھی طرح واقف تھے اس لئے مدرسوں کی جانب سے ان کا ذہن کبھی صاف نہیں رہا وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ ان مدارس کے نظام تعلیم و تربیت میں ایسی تبدیلی کردی جائے کہ حب الوطنی، حریت فکر اور مذہب سے گرویدگی کا جذبہ انکے اندر سے ختم ہوجائے اپنی اس مخفی خواہش کو بروئے عمل لانے کے لئے انھوں نے اپنی جیسی تدبیریں بھی کیں؛ مگر براہ راست مدارس میں مداخلت یاکھلی مخالفت اور قوم وملت کے لئے انہیں نقصان دہ اور خطرناک بتانے کی غلطی سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے تھے بلکہ اس کے برعکس موقع بموقع اسلامی درسگاہوں کی علمی، ثقافتی، معاشرتی خدمات کا دبے لفظوں میں سہی اعتراف بھی کرتے تھے۔
مگر آج کے آزاد بھارت میں جو دستوری لحاظ سے جمہوریت اور سیکولر نظام کا پابند ہے، آئین و قانون کی رو سے جہاں پر مذہبی ولسانی اکائیوں کو اپنے مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں بغیر کسی خارجی مداخلت کے چلانے کامکمل حق حاصل ہے، ایک خاص فکر وذہن اور موہوم سیاسی تحفظات کے تحت ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی مذہبی تعلیم گاہوں کو سرزمین ہند سے نیست و نابود کردینے یا کم از کم ان کے دینی وثقافتی کردار کو پامال کردینے کی ایک عرصہ سے حکومتی سطح پر مہم چلائی جارہی ہے، مغربی سیاست کے ماہر ”میکاؤلی“ کی اس تھیوری کے مطابق کہ دشمن کو مارنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے خوب بدنام کیا جائے۔ اعلیٰ انسانوی قدروں کو فروغ دینے والے ان مدرسوں کو قومی مجرم بنانے کی ناروا سازشیں رچی جارہی ہیں اور ملک کے وہ عناصر دہشت گردی جن کاشیوہ اور خوں ریزی وسفاکی جن کا پیشہ ہے جن کی جارحیت سے ارض وطن کا چپہ چپہ رنگین ہے امن وآشتی کے ان گہواروں کو دہشت گردی کا اڈہ بتاتے ہیں، چنانچہ بی، جے، پی کے زیر قیادت این، ڈی ، اے کی سابقہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں وزارت داخلہ کی سرپرستی میں گروپ آف منسٹرس کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو آج بھی وزارت داخلہ کے ریکارڈ پر موجود ہے اس کمیٹی میں سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز بھی شامل تھے، اس کمیٹی نے دینی مدارس سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ داخل دفتر کی تھی اس رپورٹ میں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیاگیا تھا۔ نیز مدارس پر الزام لگایا گیا تھا کہ ان میں طلبہ کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے، بالخصوص سرحدی اضلاح کے مدارس کو آئی، ایس، آئی کی آماجگاہ بھی بتایا گیا تھا، دینی مدارس کے ذرائع آمدنی پر سوال کھڑا کیاگیا تھا۔ ان خودساختہ اور من گھڑت مجرمانہ سرگرمیوں سے مدارس کو پاک و صاف کرنے کے لئے رپورٹ میں متعدد اقدامات تجویز کئے گئے تھے اس میں ایک یہ بھی تھا کہ ”مدارس کی جدیدکاری“ کی جائے۔
این ڈی اے حکومت اپنے دور اقتدار میں نہ جانے کیوں اس تجویز کو نافذ نہیں کرسکی۔ جدید سیاست کی تہہ داریوں سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ بھاجپائی سرکار کی اس تجویز کو اب ”یوپی اے“ کی موجودہ حکومت عملی جامہ پہنانے کی فکر میں ہے اور وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ کی تشکیل کا اعلان اسی کی تمہید اور پہلا قدم ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
کانگریس پارٹی کی اب تک کی تاریخ سے یہ بات بڑی حد تک ہم آہنگ بھی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس پارٹی میں اس کے ابتدائے قیام سے ایک ایسا عنصر ہمیشہ سے موجود رہا ہے جو خود کانگریس پارٹی کے اصول و ضوابط کے برخلاف تنگ نظری و فرقہ پرستی کو سیکولر نظریات پر ترجیح دیتا ہے۔ کانگریس پارٹی کے اس عنصر نے ہمیشہ فرقہ پرستی اور فرقہ پرست تنظیموں کو تقویت پہنچائی ہے، بابری مسجد کے مقفل دروازے کو کھولوانے، بابری مسجد کی سرزمین پر آنجہانی راجیوگاندھی سے سیلانواس کرانے اور بابری مسجد کی قدیم تاریخ کے منہدم کرانے میں اس عنصر کا اہم کردار رہا ہے۔ اس لئے قرین قیاس ہے کہ اسی عنصر کے زیر اثر مدارس کے نظام میں بہتری لانے اور انہیں مروجہ تعلیمی ضرورت کے مطابق بنانے کے خوشنما عنوان سے مدارس پر شکنجہ کسنے کی یہ مہم شروع کی گئی ہو ورنہ آزادی کے وقت سے آج تک تو ہماری قومی حکومتیں (جن میں کانگریس پارٹی سرفہرست ہے) مسلمانوں کو زندگی کے ہر نفع بخش شعبے سے دھکے مارکر پیچھے دھکیلتی رہی ہیں (جسے خود حکومت کی قائم کردہ سچرکمیٹی نے اس طرح مدلل کرکے واضح کردیا ہے کہ اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں باقی بچی ہے) آخر اپنے اس دیرینہ رویہ کے برخلاف حکومتِ وقت کو مدرسوں کی فلاح و بہبود کا یہ اچانک خیال کیسے آگیا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
اگر ان ساری باتوں سے آنکھیں بند کرکے (جو اگرچہ خلاف عقل و تجربہ ہے) حکومت کے اس اقدام کو نیک نیتی پر ہی محمول کرلیا جائے پھر بھی سرکار کی جانب سے مرکزی مدرسہ بورڈ کی تشکیل کے اس اقدام کو درست اور مدارس دینیہ کے حق میں مفید نہیں کہا جاسکتا ہے؛ کیونکہ کسی عمل کے صحیح اور مفید ہونے کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام بجائے خود مبنی بر مصلحت اورنفع بخش ہو جبکہ مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام درج ذیل اسباب وجوہ کی بناء پر مدارس کے لئے نفع بخش کم اور نقصان دہ زیادہ ہے۔
(۱) آئین بھارت کی دفعہ ۲۶ الف و باء کی رو سے مسلم اکائی کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے اور بغیر کسی خارجی مداخلت کے انھیں چلانے کا حق حاصل ہے۔ سرکار کے قائم کردہ مرکزی بورڈ سے منسلک وملحق ہوجانے کے بعد ان کا یہ حق بہرحال مجروح ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
(۲) ملک کی مختلف ریاستوں میں حکومت کی زیر سرپرستی مدارس بورڈ عرصہ سے قائم ہیں ان بورڈوں سے ملحق مدارس کی انتظامی، تعلیمی اور دینی زبوں حالی عالم آشکارا ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اس کی کیا ضمانت ہے کہ مرکزی بورڈ سے ملحق ادارے اس زبوں حالی کا شکار نہیں ہوں گے۔
(۳) یہ ایک امرواقعہ ہے کہ سرکاری اداروں میں آئے دن تجاویز وترمیمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان بدلتی ہوئی قرار دادوں کے ساتھ مدارس سکون و اطمینان سے اپنے تعلیمی و تربیتی امور کو کیونکر باقی رکھ سکیں گے۔
(۴) مسلم اقلیتوں نے جو عصری تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں ان کے ساتھ حکومت اور اس کے اہل کاروں کا رویہ غیر منصفانہ وجانبدارانہ ہے، ان اداروں کی منظوری جوے شیر لانے کے مرادف ہے، ان پر اقلیتی سرٹیفکیٹ کے لزوم کا جابرانہ حکم جاری کردیاگیا ہے، نیز ان کی نشستوں پر پچاس فیصد غیراقلیتی طلبہ کے داخلہ کے لئے حکومت بیجا کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ پھر ان اداروں کی انتظامیہ میں بیجا دخل اندازی بھی کی جارہی ہے۔ سرکار کے مرکزی بورڈ سے ملحق ہوجانے کے بعد مدارس اس قسم کے غیرمنصفانہ طرز عمل سے دوچار نہیں ہوں گے اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔
(۵) اگر یہ بات مان لی جائے کہ موجودہ حکومت دینی مدارس سے وابستہ علما و طلبہ کی خیرخواہ ہے اورانھیں کی فلاح و بہبود کے لئے یہ بورڈ قائم کررہی ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ بھی یہی بہی خواہ سرکار موجود رہے گی۔ اور کوئی ایسی سرکار نہیں آئے گی جو فرقہ پرست اور مسلم بیزار ہو۔ ایسی صورت میں سرکاری بورڈ کے شکنجے میں کسے ان مدرسوں کا کیا حال ہوگا وہ دن کے اجالے کی طرح ظاہر ہے۔
(۶) اس جمہوری وسیکولر ملک میں دینی مدارس کے آزادانہ نظام کے بنیادی مقاصد یہ ہیں:
(الف) قرآن و سنت اور دیگر اسلامی علوم ثقافت کی حفاظت اورمسلم معاشرہ کا ان سے ربط و تعلق برقرار رکھنا۔
(ب) مساجد ومدارس کے نظام کو قائم و استوار رکھنا اور اس اہم مقصد کے لئے رجال کار تیار کرنا۔
(ج) یورپ کی فکری و تہذیبی یلغار کے بالمقابل اسلامی عقائد واعمال اور طرز معاشرت کا تحفظ اور انہیں پروان چڑھانا، مالک کائنات اور خدائے وحدہ لاشریک لہ کے فرمان ”فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ“ کے تحت مسلمان اس کے مکلف ہیں کہ مسلم سماج ومعاشرہ میں ایسا بندوبست کریں جس سے مسلمانوں کی ایک جماعت خالص کتاب وسنت اور فقہ اسلامی کی تعلیم حاصل کرسکیں یہ مدارس دینیہ اسی حکم الٰہی کے عملی مظاہر ہیں جن کا اپنی اصلی حالت میں برقرار رہنا اسلامی معاشرہ کے تسلسل کے لئے ضروری ہے۔ جبکہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے ملحق ہوجانے کے بعد مدارس اپنا یہ کردار بحالہ باقی نہیں رکھ سکیں گے۔
ان وجوہ و اسباب کی بناء پر ہم سمجھتے ہیں کہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے مدارس دینیہ کا الحاق ان کی عرفی حیثیت اور ملی کردار کے لئے سم قاتل ہے۔ بورڈ کے جال میں پھنسنے کے بعد وہ اپنے اصلی وجود کو برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
آخر میں ہم اپنی حکومت سے بھی مخلصانہ اپیل کرتے ہیں سچر کمیٹی سے یہ بات واضح ہوچکی ہے مسلم طلبہ کا صرف چار فی صد ہی مدارس و مکاتب کا رخ کرتا ہے باقی ۹۷ یا ۹۸ فیصد بچوں میں سے نصف سے زائد بچوں کو اسکول کا منھ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔ اس لئے حکومت اگر واقعی مسلم اقلیت (جو فی الحقیقت دوسری اکثریت ہے) کی فلاح و بہبود چاہتی ہے تو ان ناخواندہ مسلم آبادی کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کی جانب خصوصی توجہ کرے اور باقی نصف جو سرکاری اسکولوں کالجوں میں زیر تعلیم ہیں ان کے تعلیمی معیار کے بلند کرنے اور انھیں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے منصوبہ بنائے۔ کیونکہ یہ حکومت کی نوازشوں کے اولین مستحق ہیں۔
رہے یہ مذہبی مدارس جو حکومت پر بغیر بوجھ بنے اپنے طور پر ملک وملت کی غیرمعمولی خدمت انجام دے رہے ہیں انھیں بیجا بورڈ کے شکنجے میں کسنے کی فکر چھوڑ دے کیونکہ اس سے خود حکومت کی سیکولر شبیہ بھی خراب ہوگی اور مسلم معاشرہ میں بھی اضطراب و بے چینی بڑھے گی۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 91 ، ربیع الاول1428 ہجری مطابق اپریل2007ء