حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ کشمیریؒ کے مایہ ناز شاگر د اور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ  کے رفیقِ خاص (۲/۲)

از:  جمیل احمد بن مولانا برہان احمد‏، استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن،ورفیق مجلس دعوت وتحقیق اسلامی کراچی

                 ذیل میں  حضرت مولانا یوسف بنوریؒ اور مولانا غلام نبی کامویؒ کے باہمی تعلق سے متعلق کچھ واقعات اورمنقولات ذکر کی جاتی ہیں  :

مولانا کامویؒ کا دوران درس حضرت مدنیؒ سے علمی مکالمہ کی کہانی حضرت بنوریؒ کی زبانی

                مولانا غلام نبی کامویؒ کے پوتے ڈاکٹر عبد الملک نے واقعہ سنایا کہ دار العلوم سرحد پشاور کے مہتمم اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے تلمیذ رشید شیح الحدیث مولانا سید ایوب جان بنوری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت بنوریؒ اور مولانا غلام نبی کامویؒ کا باہمی گہرا تعلق تھا، حضرت کے قیام پشاور کے زمانہ میں  دونوں  حضرات کبھی یکجا ہوتے تو خوب مجلس جمتی، گھنٹوں  دونوں  حضرات علمی مباحث میں  مشغول ومشغوف رہتے، مولانا ایوب جان بنوریؒ نے ایک مرتبہ افغانستان کے عظیم جہادی لیڈر حضرت اقدس مولانا جلال الدین حقانی رحمہ اللہ (۲۱) کو ان دونوں  کا یہ واقعہ سنایا کہ مولانا غلام نبی صاحب اور محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری صاحب کا آپس میں  گہرا تعلق تھا، دونوں  حضرت شاہ صاحب کے خصوصی شاگرد تھے تاہم مولانا غلام نبی صاحب عمرمیں  مولانا بنوری صاحب سے بڑے تھے اور دونوں  یہاں  تشریف لایا کرتے تھے ایک مرتبہ علامہ سید محمد یوسف بنوی نے مجھے (مراد مولانا ایوب جان بنوریؒ)یہ قصہ سنایا کہ دار العلوم دیوبند میں  علامہ محمد انورشاہ کشمیریؒ کے دیوبند سے ڈابھیل چلے جانے اور بعد ازاں  ۱۹۳۴م میں  دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد مستقل طور پر شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث مقرر ہوئے، مولانا غلام نبیؒ کو جب اس تبدیلی کا علم ہوا تو انھیں  مولانا مدنیؒ کے اس منصب پر فائز ہونے میں  تردد تھا؛ چنانچہ وہ علامہ کشمیریؒ کے بعد کسی کو اس منصب کا اہل نہیں  سمجھتے تھے؛ چونکہ ان کو مولانا مدنیؒ کے کمالات کا مشاہدہ نہ ہوا تھا؛ اس لیے مولانا یوسف بنوریؒ کے سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ اس بات کے قائل تھے کہ علامہ کشمیریؒ کے بعد کوئی بڑا عالم نہ رہا؛ چنانچہ جس وقت مولانا کامویؒ دار العلوم دیوبند میں  تعلیم حاصل کررہے تھے، ٹھیک یہی وہ وقت تھا کہ حضرت مدنیؒ اپنے شیخ ومرشد شیخ الہندؒ کے ساتھ اسیر کی حیثیت سے مالٹا میں  مقید تھے، جب حضرت مدنیؒ اسارت سے رہائی پاکر ہندوستان پہونچے اس کے کچھ عرصہ بعد مولانا کامویؒ افغانستان لوٹ آئے، یوں  دونوں  حضرات کی باہمی مجالست یا علمی نوعیت کا کوئی تعلق نہ رہا؛ اس لیے وہ ان کے علم وفضل کے اب تک قائل نہ تھے، حضرت بنوریؒ فرماتے ہیں  کہ میری دیرینہ خواہش تھی کہ ایک مرتبہ مولانا غلام نبی ہندوستان آتے تاکہ میں  انھیں  دیوبند لے کر جاتا اور ان کی حضرت مدنیؒ سے ملاقات کراتا اور یہ خود کمالات وفیوضات کا مشاہدہ کرتے، (مولانا یوسف بنوریؒ اس وقت گجرات کے جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں  استاذ الحدیث تھے، اور یہ سن ۱۹۳۴م کے بعد کا زمانہ ہے، قبل ازیں  ۱۹۳۳م میں  علامہ کشمیریؒ کی وفات ہوچکی تھی) حضرت بنوریؒ مزید فرما تے ہیں  کہ خدا کی شان کہ محض ایک مہینہ بعد مولانا غلام نبی کامویؒ ڈابھیل تشریف لائے، رات گزارنے کے بعد ہم صبح سویرے ہی دار العلوم دیوبند کو روانہ ہوئے مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ کے درس بخاری شروع کرنے کے ساتھ ہی ہم آکر شریک درس ہوگئے، مولانا غلام نبی صاحب ہمہ تن گوش درس میں  شریک رہے، اور میں  برابر دل میں  اللہ کے حضور یہ دعا کرتا رہا کہ دورانِ درس ایسے علمی نکات اور موشگافیوں  کا ظہور ہو کہ مولانا غلام نبی صاحب پر حضرت مدنی صاحبؒ کی علمیت آشکارا ہوجائے، یہ بات میرے دل میں  مچل ہی رہی تھی کہ مولانا مدنی نے ایک منطقی اور فلسفی دلائل کا سہارا لے کر ایک غامض کلامی مسئلہ پر گفتگو کا آغاز کیا، یہی وہ لمحہ تھا جب مولانا غلام نبی صاحبؒ نے اس مسئلہ سے متعلق اپنے چند اشکالات اور خدشات کا اظہار حضرت مدنیؒ سے سوالات کی شکل میں  کیا، حضرت مدنیؒ باوجود عمر کی زیادتی کے ٹھنڈے سینے سے ان کے تشفی بخش مضبوط اور علمی جوابات دیتے رہے، مولانا غلام نبی کے سوالات کے نتیجے میں  حضرت مدنیؒ کی تحقیقی گفتگو قدرے طویل ہوگئی کہ اس دن بخاری شریف کا درس ڈیڑھ گھنٹے سے تین گھنٹے پر محیط ہوگیا، اس دوران وہ لمحہ بھی آیا کہ ان کے ایک فلسفی سوال پر مولانا مدنی صاحب نے مدلل جواب دیا اور ساتھ ہی علم فلسفہ کی مشکل کتاب صَدْرَا کی دو صفحہ کی عبارت زبانی سنادی، گفتگو کا یہ سلسلہ چلتا رہا کہ مولانا غلام نبی قانع ہوگئے، درس کے اختتام پر جب مولانا مدنیؒ چلے گئے، تو میں  نے ان سے پوچھا کہ اب آپ کی مولانا مدنی کی علمیت کے بارے میں  کیا رائے ہے؟ کہنے لگے: یوسف جان مولوی صاحب!! اب مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں  یہ رائے ہے کہ اگر اس زمانے میں  نبوت جاری ہوتی تو مولانا حسین احمد مدنی نبوت کے منصب پر فائز ہوتے۔ (۲۲)

                مذکورہ واقعہ سے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی علمیت، ذوق تحقیق، اور اعلی ظرفی کے علاوہ چند مزید باتیں  بھی معلوم ہوتی ہیں  :

                ۱- مولانا غلام نبی کامویؒ کا مولانا بنوریؒ کا باہمی ربط اور تعلق دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد، پشاور اور بعد ازاں  حضرت بنوریؒ کے ڈابھیل کی طرف علم کی خاطر ہجرت کرنے کے بعد بھی رہا۔

                ۲- مذکورہ واقعہ ہر دو حضرات کے باہمی علمی تعلق اور بے تکلف ربط کا بین ثبوت ہے۔

                ۳- یا تو حضرت بنوریؒ کی دعا کا اثر تھا، یا حضرت مدنیؒ کی کرامت تھی کہ مولانا غلام نبی کامویؒ کی تشویش اور خدشہ کے ازالے کے لیے اچھا موقع میسر ہوا کہ شاگردوں  کی موجودگی میں  اچھی خاصی طویل علمی مجلس قائم ہوگئی۔

                ۴- نیز وہ منظر بڑا دل کش تھا کہ جب مولانا غلام نبی کامویؒ جیسے جبل علم علمی موشگافیوں  کی تحلیل کے سلسلے میں  حضرت مدنیؒ سے سوال پر سوال کررہے ہیں  اورحضرت مدنی اس کے مدلل اور تحقیقی جوابات دے رہے ہیں  اور حضرت بنوریؒ بھی شریک محفل ہیں ۔

مولانا کامویؒ کا اپنے استاذ حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ سے متعلق تبصرہ

                حضرت بنوریؒ کے تلمیذ رشید شہید اسلام مولانا محمد امین اورکزئیؒ نے فرمایاکہ حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ کا مقولہ حضرت الشیخ (مراد حضرت بنوریؒ) نے نقل فرما یا کہ جتنے بڑے علماء ہم نے دیکھے ہیں ، اگر چاہیں  تو ہم ان جیسے عالم بن سکتے ہیں  إلَّا أنور شاہ رحمہ اللہ۔ (۲۳)

مولانا غلام نبیؒ کی پشاور میں  ملاقات کے لیے آمد اور حضرت بنوریؒ کی خوشی

                ۱۹۲۹م کو تعلیم الدین ڈابھیل سے فراغت کے بعد حضرت بنوریؒ نے اپنے شیخ علامہ انورشاہ کشمیریؒ کے آبائی گاؤں  کشمیر میں  تقریبا چھ ماہ کا عرصہ گزارا، اس دوران آپ نے حضرت کشمیریؒ کی خوب خدمت کی، نیز ان سے علم وفلسفہ سے متعلق کثیر مباحث میں  انفرادی طور پر استفادہ کیا، ۱۹۳۰ عیسوی میں  پشاور لوٹ آئے اور ۱۹۳۴م تک برابر چار سال آپ پشاور میں  علمی اور ملی خدمات میں  مصروف رہے، اس عرصہ میں  آپ کا معاصر علماء اور بزرگوں  سے خط وکتابت کے ذریعے رابطہ رہا، حضرت مولانا عبد الحق نافع صاحبؒ جو آپ کے معاصر، دوست، اور قد یم رفیق تھے اور اس زمانہ میں  و ہ دار العلوم دیوبند میں  صدر المدرسین کے منصب پر فائز تھے، ان سے مکاتبت کرتے ہوئے ایک خط میں  حضرت بنوریؒ نے مولانا غلام نبی کامویؒ کی آمد کا ذکر کیا ہے، خط کی عبارت سے جہاں  علامہ کامویؒ اور علامہ بنوریؒ باہمی محبت اور الفت کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں  اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبد الحق نافعؒ کا بھی مولانا غلام نبی کامویؒ سے ارتباط تھا، خط کافی طویل اور عربی زبان میں  تحریر کیا گیا ہے، مختصراً اس سے یہ عبارت پیش خدمت ہے:

                ’’اجتمع إلینا الأضیاف من نواح شَتَّی، فذہب وقتٌ طویلٌ فی العِشاء ۔۔۔ وبیننا فی ذلک أنْ تَفَضَّل مولانا غلام نبی، وَ مَکَث فی حجرۃ المَسجد لِمَکان الضیوف وأطلعنی بورودہ خفیًا بإرسالہ إلیَّ نجیا، فاختلت عنہم فرصۃ الاغتیاب واحتفزتُ عن الأصحاب وانطلقت إلیہ للقاء والترحاب حتی تفکہنا نحو ساعتین بالمکالمۃ والآن صدر عنا فأتیت وطائی۔ (۲۴)

                ترجمہ: مختلف علاقوں  سے کچھ مہمان آئے تھے، رات گئے تک مجلس چلتی رہی، عشا کے کافی دیر بعد ہم ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ محترم مولانا غلام نبی صاحب کی آمد ہوئی، وہ مسجد کے حجرے میں  فروکش ہوئے، خاموشی سے مجھے اپنی آمد سے مطلع کیا؛ چنانچہ کسی طریقہ سے مہمانوں  سے جان چھڑا کر جلدی سے ان کے پاس استقبال اور خوش آمدید کے لیے اٹھ چلا آیا، تقریباً دو گھنٹے تک دونوں  دل لگی کے باتوں  میں  مصروف رہیں ، ابھی دو گھنٹے بعد ان کی واپسی ہوئی، اور میں  اٹھ کر اپنے بستر کی طرف آیا۔

آپ کی تصنیفات اور تالیفات

                 تالیف اور تصنیف سے آپ کو خصوصی شغف رہا، تفسیر، فقہ، علم الکلام، منطق اور فلسفہ میں  آپ نے کئی یادگاریں  چھوڑیں ، آپ نے عربی فارسی، اور دَرّی زبان میں  تقریباً دس کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں  تالیف کی، جن میں  :

                (۱) تفسیر کابلی، (تفسیر شیخ الہند المعروف بہ تفسیر عثمانی کا فارسی، درّی، ترجمہ، تین جلدوں  میں )، اس تفسیر کو افغان علماء کی ایک جماعت نے مرتب کیا؛ لیکن ان سب کے سرخیل، راہنمائی کرنے والے اور پھر بنیادی اور مرکزی کردار آپ ہی تھے، یہ سن ۱۳۶۸ھ بمطابق ۱۹۴۹م کا واقعہ ہے۔

                (۲) سلم العلوم کی شرح ملا مبارک پر حاشیہ ۔

                (۳) اثبات حشر ونشر کے موضوع ایک بھر پور علمی اور منطقی رسالہ۔

                (۴)  تقریباً چالیس کے قریب وعظ ونصیحت اور علم و تحقیق پر مجموعۂ مقالات، ان مقالات کو ڈاکٹر عبدالملک صاحب نے خوبصورت دیدہ زیب طباعت کے ساتھ کابل سے شائع کیا ہے اور کئی سوصفحات پر مشتمل یہ مقالات فارسی زبان میں  ہیں ۔

                (۵) اثبات النبوۃ والرسالۃ کے عنوان کے تحت کلامی مباحث پر مشتمل کتاب۔

                یہاں  یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا صاحب کو اس کتاب کے بدلے اس وقت کے افغان وزیر فیض محمد خان کی طرف سے معارف کی وزات میں  بڑے علمی منصب پر فائز کیا گیا اور اس کتاب کی بہت جلد طبع ہونے کا وعدہ بھی کیا؛ لیکن کہا جاتا ہے کہ درسی کتب کے چھاپنے کی وجہ سے اس کتاب کی طباعت میں  تاخیرہوگئی؛ لیکن اس کے بعد مولانا صاحب نے کئی بار وزات تعلیم میں  درخواست دی کہ کتاب واپس کی جائے؛ تاکہ میں  ذاتی خرچ پر اس کو طبع کراؤں ؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ نہ مولانا کو دوبارہ واپس کیا گیا اور نہ اب تک اس کی طباعت ہوسکی (۲۵)، امید کی جاتی ہیں  کہ اب تک یہ کتاب معارف کے وزارت میں  محفوظ ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے، اس کتاب کو تلاش کرکے اس کی طباعت کانظم کیا جائے۔

                مقالات کامویؒ کے علاوہ یہاں  کراچی میں  مولانا کی مطبوعہ دیگر کتب ہمیں  میسر نہ ہوسکی، مذکورہ تعارف اور تبصرے خاندانی روایات اور محفوظ تاریخی دستاویزات کی روشنی میں  کی گئیں  ۔

تفسیر کابلی لکھنے کا باعث اور مولانا کا منہج واسلوب

                ۱۳۶۸ھ بمطابق ۱۹۴۹م کے سال جب افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی طرف سے حکومت کے صدر اعظم مرحوم محمد ہاشم خان کو یہ حکم دیا گیا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اورشیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے ترجمۂ قرآن اور تفسیر کو اردو زبان سے پشتو، دَرِّی اور فارسی مِلّی زبانوں  میں  ترجمہ کیا جائے، بادشاہ کے حکم پر اس عظیم اور تاریخی خدمت کو سر انجام دینے کے لیے بڑے بڑے نامور علماء کی کمیٹی بنی،اس کمیٹی کے سرخیل مولانا غلام نبی کامویؒ تھے۔

                تفسیر کابلی کے لکھنے میں  آپ نے محض ترجمہ کرنے پر اکتفا نہ کیا؛ بلکہ بعض مقامات پر ترجمہ اور تفسیر کی دقت اور مشکلات کے پیش نظر آپ نے مصادراور مراجع کی طرف مراجعت کی؛ چنانچہ فرماتے ہیں : میں  نے اس تفسیر کے ترجمہ میں  صرف اس پر اکتفاء نہیں  کیا کہ یہ بڑے نامور اساتذہ کی لکھی ہوئی ہے اور یہ اسناد کافی ہے؛ بلکہ اس تفسیر کے ماخذوں  کی چھان بین کے ساتھ ساتھ پرانے اور نئے معتمد تفاسیر میں  تلاش کرنے اور اس کے ساتھ تطبیق کرنے اور تصدیق کے بعد میں  نے اپنی فکر کا اظہار کیا۔ (۲۶)

مولانا کامویؒ کے اولاد واحفاد

                آپ کی کل چھ اولاد ہوئی، جن میں  چارلڑکیاں  اور دو لڑکے ہیں ، ایک بیٹے کی وفات آپ کی حیات ہی میں  ہوگئی تھی، آپ کے دوسرے بیٹے مولوی شیخ عبد العلی کامویؒ کی تربیت اور تعلیم میں  آپ نے کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دی، انھوں  نے آپ کے زیر اشراف دار العلوم عربی کابل میں  مکمل تعلیم حاصل کی، بعد ازفراغت تین سال اسی دار العلوم عربی کابل میں  انھوں  نے تدریسی خدمات بھی انجام دیں ، آپ مولانا قاضی شیخ عبد العلی کاموی کے نام سے مشہور ہوئے اور کافی عرصہ تک کابل اور ننگرہار کے ’’قاضی القضاۃ‘‘ بعد ازاں  افغانستان کے سپریم کورٹ میں  فاضل سینئر جج کے طور پر آپ نے کام کیا۔

                قاضی عبد العلی کے سات بیٹے ہوئے، سب صاحبِ علم وکمال ہوئے اور اپنے والد اور دادا محترم کے اچھے جانشین ثابت ہوئے، اکثر دنیا کے مختلف ممالک میں  علمی اور عملی خدمات انجام دے رہے ہیں ، جو بالترتیب اس طر ح ہیں  :

                ۱- الحاج شیخ مولوی عبد الحئی کاموی: جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کے فاضل ہیں ، آج کل کامہ میں  اپنے جد محترم کے قائم کردہ مدرسہ کے مہتمم ہے، اور ننگر ہار میں  فلاحی اور رفاہی کاموں  میں  پیش پیش رہتے ہیں ۔

                ۲- انجینئر محمد علی کاموی، انھوں  نے انجینئری کے شعبہ میں  ماسٹر کیا اور پانچ سال قبل فوت ہوگئے۔

                ۳- قاضی محمد عامر کاموی : فقہ،قانون اور قضا کی تعلیم انھوں  نے جامعہ ازہر مصر سے حاصل کی، اور اب افغانستان میں  قضا کے شعبہ میں  کام کررہے ہیں ۔

                ۴- ڈاکٹر عبد الملک کاموی : انھوں  نے جامعہ ازہر مصر سے ’’فقہ المقایس‘‘ کے عنوان پر جامعہ ازہر مصر سے دکتوارہ کی ڈگری لی اور اب علمی وتصنیفی کام انجام دے رہے ہیں ۔

                ۵- ولید کاموی : کینیڈا  میں  ذاتی تجارت کے سلسلے میں  مقیم ہے۔

                ۶- ڈاکٹر حافظ خالد کاموی : یہ حافظ قرآن ہیں  اور طب میں  تخصصکیاہے، اب برطانیہ میں  ایک بڑے ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں  ۔

                ۷- الحاج موسی کاموی: انھوں  نے پشاور سے معاشیات کے شعبہ میں  ماسٹر کیا، اور اب امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت مالیات میں  شعبۂ تکافل کے مسئول ہے۔

  وَفات

                علم وعرفان کا یہ سورج برابر اٹھتر سال تک علمی اور ملی خدمات میں  مصروف رہ کر ایک بڑی اسلامی مملکت کو اپنی تابناکیوں  سے روشن اور فیض یاب کرتا رہا ۱۳۹۲ھ بمطابق ۱۹۷۲م بروز جمعہ دو بجے دن مختصر بیماری کے بعد کابل کے وزیر اکبر خان ہسپتال میں  ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، انتقال کی خبر جلد ہی افغانستان بھر میں  پھیل گئی؛ چنانچہ پل خشتی کی جامع مسجد میں  آپ کی نماز جنازہ جمعیت علمائے افغان کے صدر اور سلسہ عالیہ قادریہ کے مشہور پیشوا مولانا الحاج الحافظ کی امامت میں  پڑھی گئی، اس کے بعد آپ کا جسد خاکی گاؤں  سنگر سرائی ضلع کامہ ننگر ہار منتقل کیا گیا اور وہیں  آپ کے قائم کردہ مدرسہ اور قدیمی مسجد کے پہلو میں  تدفین عمل میں  آئی، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃً۔ (۲۷)

٭           ٭           ٭

حواشی

(۲۱)        آپ کی پیدائش افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ایک گاؤں  کاریز میں  1939م کو ہوئی، 1964م میں  دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے شہادت فراغ حاصل کیا، داؤد خان کے دور آپ میں  جلاوطن ہوکر پاکستان کے قبائلی علاقہ میران شاہ میں  آباد ہوئے، روس اور امریکہ کے خلاف جہاد میں  بھر پور حصہ لیا، آپ کا خاندان علم اور جہاد کا خاندان شمار ہوتاہے، انھوں  نے جہاد افغان میں  سب سے زیادہ قربانیاں  دیں  ، امارت اسلامی افغانستان کے موجودہ وزیر داخلہ عالی قدر خلیفہ سراج الدین حقانی آپ کے فرزند ارجمند ہے، آپ کی وفات 3ستمبر 2018م کو ہوئی۔

(۲۲)       مذکورہ قصہ کے راوی مولانا غلام نبی کاموی ؒ کے بڑے پوتے جامعہ ازہر کے فاضل، ڈاکٹر عبد الملک کاموی -حفظہ اللہ- ہے راقم السطور نے یہ واقعہ انکی زبانی سنا۔

(۲۳) مقالات امین ، از فادات مولانا محمد ورکزئی شہیدؒ، ۔ مرتبہ:مولانا محمد طفیل کوہاٹی ۔ (ص:376)، خوان بنوری سے خوشہ چینی، ط:دار التحقیق جامعہ یوسفیہ ہنگو، 1440ھ۔

(۲۴)  مکاتیب حضرت بنوریؒ بنام مولانا عبد الحق نافع ۔

(۲۵)        شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:45)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔

(۲۶)        شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:46)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔

(۲۷)       شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:49)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 3، جلد:107‏، شعبان المعظم – رمضان المبارک 1444ھ مطابق مارچ 2023ء

Related Posts