قطب الارشاد حضرت مولانارشید احمد گنگوہیؒ: تعارف وخدمات

خطاب: حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ

ضبط وترتیب:  حافظ خرم شہزاد

                 حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا پہلاتعارف یہ ہے کہ حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اس وقت کے بڑے عظیم اساتذہ میں سے تھے اور دہلی میں پڑھاتے تھے اور ان کے شاگردوں میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒبھی تھے ، اسی طرح حضرت گنگوہیؒ اُن کے اجلہ تلامذہ میں سے تھے اورحضرت نانوتویؒ کے ہم سبق بھی تھے ۔انھوں نے شاہ ولی اللہ کے خانوادے میں سے شاہ عبدالغنی محدث دہلوی ؒجو حضرت شاہ محمد اسحق رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہوئے، اُن سے حدیث پڑھی ہے۔اسی طرح اس زمانے میں بڑے اکابر علماء میں سے مفتی صدرالدین آزردہؒ تھے،وہ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا فتویٰ دینے والوں میں سے تھے،اس میں وہ گرفتار ہوئے اوراُن کی جائیداد بھی ضبط ہوئی، بہت کچھ ہوا۔حضرت گنگوہیؒ اُن کے بھی شاگرد تھے۔اسی طرح اپنے وقت کے بہت بڑے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ بھی تھے۔ 

                حضرت گنگوہی ؒ کا دوسراتعارف یہ ہے کہ جب یہ تحصیل علوم سے فارغ ہوئے تو اپنے گھر میں بیٹھ گئے۔اس زمانہ میں مدارس کی یہ (موجودہ زمانے کی)شکل نہیں ہوتی تھی یہ تو ۱۸۵۷ء کے بعد کے تقاضوں کے باعث شکل بنی ہے۔ اس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ صاحبِ علم آدمی کسی جگہ بیٹھا ہوا ہے، لوگ آرہے ہیں اوروہ پڑھا رہے ہیں ۔مدرسہ کا کوئی نام نہیں ہے بس ایک شخصیت بیٹھی ہے لوگ آتے ہیں اور پڑھتے ہیں ، کوئی نحو پڑھ رہا ہے ، کوئی صَرف پڑھ رہا ہے اور کوئی حدیث پڑھ رہا ہے۔ اس زمانے کا مدرسہ یہ ہوتا تھااور یہ منظر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، گکھڑ(ضلع گوجرانوالہ)میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدر رحمۃ اللہ علیہ سنہ ۱۹۴۳ء میں دیوبند سے فارغ ہوکر آئے تھے ، آکر مسجد میں بیٹھ گئے اور سنہ ۱۹۵۲ء میں جامعہ نصرۃ العلوم(گوجرانوالہ) قائم ہوا ہے، اِن درمیان کے دس سالوں میں والد محترمؒ کے پاس لوگ آتے تھے، مسجد میں قیام ہوتا تھااُس زمانے میں (تقریباً) پینتیس چالیس طلباء ہوتے تھے۔محلہ والے روٹی کھلا دیتے تھے اور استاد جی پڑھا دیتے تھے،یہ تھا مدرسہ! میں نے ایک مرتبہ والد صاحب ؒ سے پوچھا کہ ’’آپ دن میں کتنے سبق پڑھا لیتے تھے؟‘‘فرماتے ’’(دن میں )بائیس بائیس سبق بھی پڑھائے ہیں ‘‘

                 اس زمانے کا مدرسہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی صاحب علم شخصیت آکر بیٹھ گئی ہے اور لوگ پڑھنے کے لیے آرہے ہیں ، نہ اس بات کی پرواہ ہے کہ کہاں رہیں گے،کھائیں گے کہاں سے؟ لہٰذا مسجد بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی،محلے دار روٹی کھلا دیتے تھے اور استاد جی پڑھا دیتے تھے۔تنخواہ کا چکر نہ کوئی گریڈ کا چکر اور نہ ہی کوئی باقی سہولتوں کا چکر تھا۔اسی طرح حضرت گنگوہیؒ بھی آکر بیٹھ گئے، صاحب علم اور بڑے ذہین تھے اور تقریباً پچاس سال گنگوہ میں بیٹھ کر آخر وقت تک شخصی مدرسہ میں پڑھاتے رہے اور ہزاروں سے بھی زیادہ لوگ ان سے پڑھتے رہے۔یہ ان کا دوسرا تعارف ہے کہ اپنے دور کی بڑی علمی شخصیات میں سے تھے کہ جن کے پاس پورے جنوبی ایشیاء کے لوگ آتے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔میں گنگوہ گیا ہوں ، مولانا اللہ وسایا صاحب بھی ساتھ تھے اور انھوں سے یہ ساری روئداد (’’ایک ہفتہ شیخ الہندؒ کے دیس میں ‘‘ کے نام سے) شائع کی ہے۔

                ان کا تیسرا تعارف یہ ہے کہ جب ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو جہاد کا فتویٰ دینے والوں میں ان کے استادِ محترم مفتی صدرالدین آزردہؒ بھی تھے ،اورانھوں نے جہاد کے فتوے پر دستخط کرکے اپنی جائیدادضبط کروائی اور قید بھی کاٹی تھی۔اس جہاد میں عملاً شرکت کرنے والوں میں تھے، یہ پورا ایک گروپ ہے۔ شاملی کے مقام پر جہاں جنگ ہوئی تھی  الحمدللہ میں وہ میدان بھی دیکھ کر آیا ہوں ۔میرا اپنا ذوق ہے، اسی طرح جب میں امریکہ کے شہراٹلانٹاگیاتو جہاں جنوب اور شمال کی جنگ ختم ہوئی تھی اور جنرل لی نے جنرل واشنگٹن کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور جنوب اور شمال کی ایک صدی کی طویل خانہ جنگی ختم ہوئی تھی ، تو میں نے دوستوں کو کہا کہ مجھے وہ میدان دکھاؤ۔وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو نہیں پتا ، میں نے کہا مجھے پتا ہے ۔ میں اپنے ذوق کی بات کررہاہوں ۔خیرمیں نے شاملی کامحاذ بھی دیکھا ہے اورگنگوہ کی خانقاہ بھی دیکھی ہے ۔

                تھانہ بھون ان کا مرکز تھااور یہ خانقاہ تھی ،حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت مولانا حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ یہ حاجی صاحبؒ کے مریدوں کا گروہ تھا۔اس خانقاہ والوں نے بھی جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کرلیااور جہاد کیا،جنگ لڑی اور جیتی ۔وہ تو دہلی میں جنرل بخت خان رحمۃ اللہ علیہ کو شکست ہوگئی تھی اور پھریہاں بھی پسپا ہونا پڑا،وگرنہ یہ اپنی جنگ جیت چکے تھے اور شاملی میں انھوں نے قبضہ کرلیا تھااور علاقائی سطح پر حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے’’ امیرالمومنین‘‘ ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اس میں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ’’ کمانڈرانچیف ‘‘تھے اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ’’ چیف جسٹس ‘‘تھے اور سارانیٹ ورک بنالیاتھا،اُدھر جنرل بخت خان کو شکست ہوگئی اور یہاں پھر پسپا ہونا پڑا،  ورنہ یہ اپنا نظم بناچکے تھے اور جنگ جیت کر اپنی پوری تحصیل شاملی کو اپنی ریاست بنا چکے تھے؛لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔یہ ان کا تیسرا تعارف ہے کہ یہ تحریک آزادی کے قائدین میں سے تھے ۔شکست کے بعد وارنٹ جاری ہوئے تویہ گرفتار بھی ہوئے۔ حاجی صاحبؒ چھپتے چھپاتے حجازمقدس تشریف لے گئے اور حضرت گنگوہی ؒ پکڑے گئے اور چھ مہینے جیل میں رہے اور مقدمہ چلا تو پھر وہ حالات بدل گئے تھے کیونکہ انگریز کا قبضہ ہوگیا تھا تو انھوں نے کہا ان کو چھوڑدیتے ہیں خوامخواہ خلفشار رہے گا۔حضرت گنگوہی ؒ کا یہ عمل بتاتا ہے کہ علماء اور صوفیاء کاکام صرف کتاب پڑھنا اور تسبیح پھیرنا نہیں ، وقت آنے پر میدانِ جنگ میں آنا بھی ان کا کام ہے۔

                ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد چونکہ ہم ہر لحاظ سے زیرو پوائنٹ پر تھے،معاشی کنڑول پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس تھاپھر برطانوی حکومت نے سنبھال لیا،سیاست بھی حکومت بھی ،مدارس وغیرہ ہر چیزختم ہوگئی ،ہم نے نئی قومی زندگی کا آغاز زیرو پوائنٹ سے کیاتھا  اور سب نے اپنے اپنے انداز میں آغاز کیا،سرسید احمد خان نے اپنے انداز میں اور ہمارے اکابر نے اپنے ایس اوپیز میں اپنے اپنے انداز میں !تو اس وقت ضرورت کی دو چیزیں تھی،کیونکہ ۱۸۵۷ء میں ہر چیز صاف ہوگئی تھی اور یہ بات بھی ریکارڈ میں ہے؛ لیکن میں دوبارہ یاد دلانا چاہوں گاکہ۱۸۵۷ء سے پہلے تعلیمی نظام ایک ہی تھایعنی درسِ نظامی!اس میں قرآن پاک ، حدیث ،فقہ ،ریاضی ،طِب اور سائنس(جو اس وقت کی سائنس تھی)سب علوم اکٹھے پڑھائے جاتے تھے۔ درسِ نظامی کا پہلامدرسہ اورنگزیب کے زمانہ میں فرنگی مالکہ میں شروع ہوا تھا، ملانظام الدین سہالوی اورنگزیب کے معاصر تھے۔ اسی تپائی پرمشکوٰۃ شریف پڑھائی جاتی تھی اور اسی پر اقلیدس ،طِب، (اس وقت کی) ٹیکنالوجی اور میڈیکل بھی پڑھائی جاتی تھی۔ تمام علوم اکٹھے تھے؛ لیکن ۱۸۵۷ء کے بعدجب انگریز براہِ راست آگیا تو اس نے دو بنیادی فیصلے کیے۔

                (۱)پورے ملک کی زبان بدل دی،پہلے سرکاری زبان فارسی تھی جوایران سے ہمایوں لے کر آیا تھا۔فارسی سرکاری ، قومی اور عدالتی زبان بھی تھی،وہ منسوخ کرکے انگریزی لے آئے اور جب زبان بدلی تو ہر چیز بدل گئی ۔ویسے بھی معاملات میں جب زبان بدلتی ہے تو ہر شے بدل جاتی ہے۔ جب قوموں میں زبان بدلتی ہے تو ہر شے بدل جاتی ہے ۔اب دفتر ی اور عدالتی نظام چلانے کے لیے انگریزی پڑھنی ضروری ہو گئی ۔

                (۲)دوسرا انھوں نے قانون بدل دیا۔یہاں ایک ہزار سال سے مسلمان حکمران تھے تو فقہ حنفی حکمران تھی او رنگزیب سے پہلے بھی اور بعد میں بھی قانون یہ تھا غوری کے زمانے میں بھی ،التمش کے زمانے میں بھی ،سوری اور مغلوں کے زمانے میں بھی فقہ حنفی یہاں کا قانون تھا۔ انگریزوں نے وہ قانون بھی بدل دیا۔ ملک کا قانوں بدل گیا، زبان بدل گئی تو اسی طرح تعلیم بھی بدل گئی ۔ انگریزوں نے جو نیا نصابِ تعلیم دیا تو اس میں چار مضمون نکال دیے کہ یہ ہماری ضرورت کے نہیں ہیں ۔قرآن پاک، حدیث ،فقہ ، عربی اورفارسی کی ضرورت اب نظام میں نہیں رہی تھی،یہ چار پانچ مضامین نکال دیے۔آج یہ جو کہتے ہیں ’’کہ ان(دینی وسائنسی) علوم کو اکھٹے کرو‘‘حالانکہ ایسٹ انڈیا کے دور میں بھی یہ اکٹھے علوم ہم مسجد وں میں پڑھاتے رہے ہیں ۔ جب ایجوکیشن کا نظام انگریزوں نے سنبھالاتو  انھوں نے یہ چار پانچ مضامین غیر ضروری سمجھ کر نکال دیے تھے،یہ ہم نے نہیں نکالے تھے ۔

                اب جو پانچ علوم(قرآن ،حدیث، فقہ ،عربی اور فارسی)نکالے تھے ان کی تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے یہ چند بزرگ اکھٹے ہوئے کہ ان کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے کیونکہ گورنمنٹ نے تو نکال دیے ہیں ۔لہٰذا ہم یہ علوم چندہ اور زکوٰۃ لے کر پرائیویٹ پڑھائیں گے۔یہ ہے مدرسے کا پس منظر! ۱۸۵۷ء کے نوسال بعددیوبند کا پہلا مدرسہ ۱۸۶۶ء میں اس اصول پر قائم ہواتھا۔اس زمانے میں عربی اور انگریزی کا تقابل بھی تھا،یہ سب مدرسہ عربیہ کے نام سے شروع ہوئے تھے یعنی انگریزی کے مقابلے میں عربی اور انگریزی قانون کے مقابلے میں فقہ اور حدیث!دارالعلوم دیوبند کا پہلا نام ’’مدرسہ اسلامی عربی ‘‘ ہے، بعد میں دارالعلوم دیوبند بنا ہے ۔ تقابل یہ تھا کہ انگریزی کے مقابلہ میں عربی اور انگریزی قانون کے مقابلہ میں فقہ اور حدیث،ہمیں ان علوم کو باقی رکھنے کے لیے پڑھاناہے ۔   

                جن حضرات نے اس سسٹم کی آبیاری کی ان میں مولاناحاجی سیّدمحمد عابدؒ ، مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ،مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اورمولانا رشید احمد گنگوہیؒ تھے؛ البتہ تعلیمی سسٹم کی بنیاداور اس کی بیک پر دو افراد تھے،مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒاورمولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۔وہ آخر عمر تک اس سسٹم کے سرپرست رہے اور آبیاری کرتے رہے۔ مولانا گنگوہیؒ دو کام کرتے تھے اور یہ بھی مولانا گنگوہیؒ کے کمالات میں سے ہے۔دیوبند کے نصاب میں دورۂ حدیث نہیں ہوتا تھا،اور اس زمانے میں (رائج )درسِ نظامی بھی نہیں تھا۔یہ جو ایک سال صحاحِ ستہ پڑھاتے ہیں اس کو ایجاد کرنے والے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ہیں ۔اس ترتیب کے ساتھ صحاحِ ستہ کہیں نہیں پڑھائی جاتی تھی۔دیوبند کا نصاب مکمل کرکے طلباء گنگوہ چلے جاتے تھے کہ حضرت کی زیارت کریں گے اور ان کی خدمت میں رہ کر فیض بھی حاصل کریں گے اور حدیث بھی پڑھیں گے ۔ ایک سال میں صحاحِ ستہ مکمل پڑھاناحضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے کیا ہے اور جب تک دیوبند میں دورۂ حدیث ٹاپ پر نہیں پہنچاحضرت گنگوہیؒ پڑھاتے رہے ہیں ۔ یہ انھیں کی ایجاد،آغازاور سنت مبارکہ ہے ۔آج دیوبندی ہوخواہ بریلوی ہویا اہلحدیث ہو یہ سب کوکرنی پڑتی ہے، الحمدللہ یہ سارا فیض ان کا ہے ۔

                اس سارے سسٹم میں حضرت گنگوہیؒ کا کنٹری بیوشن کیا ہے؟ایک تو یہ تھا کہ فارغ ہونے والے اپنی تکمیل کے لیے گنگوہ جاتے تھے۔یعنی دیوبندمیں برتن بننے کے بعد پالش ہونے کے لیے گنگوہ جاتے تھے۔اس پر ایک واقعہ سناتاہوں کہ حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے اکابر میں سے تھے ،والد محترم (حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ ) کے استادِ محترم تھے ۔ اور حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگردوں میں سے تھے،مَیں جامع مسجدگوجرانوالہ میں اُن کے ساتھ خادم کے طور پر آیا تھا،پہلے بارہ(۱۲) سال ان کا نائب رہا ہوں اور پھر ان کی وفات کے بعد اب تک ان کی جگہ خطیب ہوں اور بحمداللہ مجھے اب باون(۵۲) سال ہوچکے ہیں ۔ حضرت مفتی صاحب ؒ نے ایک واقعہ سنایا ،میں اسے لکھ بھی چکا ہوں کہ یہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے بعد کی بات ہے اور اس وقت اُن کے فرزندارجمند حضرت مولانا حافظ احمد صاحبؒ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے،مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے والد ہیں ۔اب اس زمانے میں انگریزی مستحکم ہوچکی تھی اور ریاستیں بن چکی تھیں اور سارا سسٹم ڈویلپ ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں ریاستیں تھی اوران میں سب سے مالدار ریاست حیدرآباد دکن کی ریاست تھی،حضرت حافظ صاحبؒ بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیوبند،دکن کے سفر پر گئے تووہاں کے نواب صاحب سے ملاقات ہوئی،نواب صاحب نے استقبال اور دعوت بھی کی ہوگی، اس کے ساتھ ایک پیشکش بھی کی کہ ’’حضرت!ہم نے تجربہ کیا ہے کہ آپ کے پڑھے ہوئے بچے جہاں جاتے ہیں ہم ان کو سروسز میں لگاتے ہیں تووہ کارکردگی،دیانت اور صلاحیت میں بھی دوسروں سے بہترثابت ہوتے ہیں ۔یہ ہمارا تجربہ ہے لہٰذا مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کرلیں کہ جتنے فارغ طلباء ہیں انھیں ہمارے پاس بھیج دیں ہم انھیں ملازمتیں دیں گے ، اور آپ کا سارا خرچہ ہم دیں گے۔‘‘

                وہ زمانہ اچھا تھا،حافظ صاحبؒ نے فوراً معاہدہ نہیں کیا؛ بلکہ فرمایا کہ پہلے ہم اپنے بزرگوں سے پوچھ لیں ۔ حافظ صاحبؒ واپس آئے ،اس وقت دیوبند میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ صدر مدرس تھے اور حافظ احمد صاحبؒ مہتمم تھے۔تو انھوں نے حضرت شیخ الہندؒ سے ذِکرکیا کہ نواب صاحب نے یہ پیشکش کی ہے؛ لہٰذا ہمارے تو دونوں مسئلے حل ہو گئے ہیں ۔آج کاسب سے بڑا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کھپنا کدھر ہے،کیا دورئہ حدیث کرنے کے بعد ملازمت ملے گی؟ اور چندے سے جان بھی چھوٹ جائے گی ۔مہتمم کو اور کیاچاہیے !دونوں مسئلے حل ہوگئے ۔حضرت شیخ الہندؒ نے پوچھا کہ ’’مولوی احمد! وعدہ تو نہیں کرآئے؟‘‘ انھوں نے فرمایا’’نہیں !حضرت مجھے آپ سے پوچھنا تھا۔‘‘ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا: ایسا کرو کہ گنگوہ جاؤ،ہمارے بڑے وہ (حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ) ہیں ، ان کو جاکر سنا دو ۔اس زمانے میں یہ ماحول تھا۔گنگوہ وہاں سے کئی میل کے فاصلے پر ہے، لہٰذاحافظ صاحبؒ وہاں گئے اور حضرت گنگوہی ؒ کی خدمت میں ساری بارت پیش کی اور ویسے بھی وہ حضرت گنگوہیؒ کے شاگرد تھے ۔

                حضرت گنگوہی ؒ نے پوچھا:’’مولوی احمد!اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘

                مولانا احمد صاحبؒ نے کہا ’’حضرت ہمارے دونوں مسئلے حل ہوسکتے ہیں ۔فارغ ہونے والوں کی ملازمتوں اور مدرسہ کے خرچے کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے ،میرا خیال ہے کہ پیشکش قبول کرلینی چاہیے۔‘‘ 

                حضرت گنگوہی ؒ کا جملہ حضرت مفتی صاحبؒ نے نقل کیا ہے ،میں عرض کردیتا ہوں ، فرمایا: ’’احمد!  میں تجھے بیوقوف تو سمجھتا تھا؛مگر اتنا نہیں ،اللہ کے بندے ہم نے یہ مدرسے نواب حیدرآباد کی ریاست چلانے کے لیے بنائے ہیں ؟بلکہ ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ مسلمانوں کو مسجد میں امام، خطیب ، مفتی ،مدرس ،حافظ اور قاری ملتارہے۔بھاڑ میں جائے حیدرآباد کی ریاست،ہم نے مدرسے اس لیے بنائے ہیں کہ مسجدیں آباد رہیں ،قرآن پاک کی تعلیم چلتی رہے،لوگوں کو مسئلے بتانے والے ملتے رہیں ،ہمیں (اس پیشکش کی ) ضرورت نہیں ہے ۔‘‘

                میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی بصیرت کی بات تھی ۔آپ دومنٹ کے لیے سوچیں اگریہ معاہدہ ہو جاتاتو دس سال میں اس ملک میں مسجدوں کے لیے کوئی مولوی ملتا؟قرآن پاک پڑھانے والا کوئی ملتا؟سب ریاستوں میں چلے جاتے ۔حضرت گنگوہی رحمہ اللہ اس سسٹم کے سرپرست اور نگرانِ اعلیٰ تھے ،حضرت نانوتویؒ کی زندگی میں دونوں اور حضرت نانوتوی ؒ کی زندگی کے بعد ہمارا مدارالمہام حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تھے۔جہاں سے ہم راہنمائی ، فیض اور فیصلے لیتے تھے۔

                ایک بات اور کہہ کر بات سمیٹتا ہوں اور میں نے پہلے بھی کسی مجلس میں عرض کیا ہے کہ’’ دیوبندیت اور بریلویت کیا ہے ؟ ‘ ‘ ۱۸۵۷ء کے بعد مسائل کی تعبیرات اور فتوے میں جو رنگ اور رُخ مولانا احمدرضا خان نے اختیار کیاوہ بریلوی بن گئے اور جو رُخ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اختیار کیاوہ دیوبندی بن گئے۔ یہ ساری تقسیم ہے؛ لہٰذا بنیادی شخصیتیں دو ہیں اُدھر مولانا احمدرضا خان بریلوی اور اِدھر مولانا رشید احمد گنگوہیؒ !

                دوسری بات یہ کہ ہمارے دیوبندیوں میں بھی ایک دائرہ عقائد کی تعبیرات اور جدید چیلنجزکے سامنا کرنے کا ہے؛ کیونکہ مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ہمیں آج مغربی فکر،ہیومنزم، فیمینزم، مغرب کی مادرپدر آزاد جمہوریت اور مغرب کے سیکولرازم کا سامنا ہے ۔ اور متکلم اُسے کہتے ہیں جو وقت کی ضروریات اور مسائل محسوس کرتا ہو، انھیں ڈسکس کرتا ہو اور اس دور کے حوالوں سے اسلام کی تعبیر بیان کرتاہو ۔ اور فقیہ وہ ہوتا ہے جو فقہ کی بنیاد پر مسائل کا حل بتائے ،یہ دونوں دائرے الگ الگ ہیں ۔ ہمارے متکلم اعظم مولانا محمد قاسم نانوتوی اور فقیہ اعظم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہما تھے۔اس زمانے میں جو اعتقادی اور کلامی مسائل تھے ان کو ڈسکس کیا اورپنڈت دیانندسرسوتی سے مناظرے کیے،پادری فنڈرسے آمنا سامنا ہوا۔دین کا دفاع اور وقت کے تقاضوں کے مطابق دین کی تعبیرحضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے کی اورشریعت کی بنیاد پرمسائل کا فقہی حل بتانایہ فقیہ کاکام ہے اورہمارے فقیہ اعظم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒتھے۔اور ہمارے صوفی اعظم اور روحانی پیشوا حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تھے،اِن تین بزرگوں کی تکون کا نام ’’دیوبندیت‘‘ ہے اور ہم ان کے نام لیوا ہیں ۔اللہ پاک ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے،آمین ۔                 اور آخر میں ایک بات کہہ کر بات ختم کروں گا ، اور میں طلباء اور علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے بزرگوں سے عقیدت تو ہوتی ہے،ان کے نعرے بھی لگاتے ہیں ،جن بزرگوں کے نام سے ہم اپنا تعارف کرواتے ہیں یعنی یہ جو چند بزرگ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ،حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولاناشبیر احمد عثمانیؒ،مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت گنگوہی ؒہیں ، انھیں کے نام سے ہم اپنا تعارف کرواتے ہیں اور انھیں بزرگوں کے نام سے عزت بھی حاصل کرتے ہیں اور انھیں کے نام سے کھاتے بھی ہیں ۔ہمارا معاشرتی اسٹیٹس اور عز ت انھیں بزرگوں کے نام سے ہوتی ہے لہٰذا اِن کو پڑھ بھی لیا کریں ۔ بس آخر میں میری یہ درخواست ہے کہ ان بزرگوں کے نعرے بھی لگائیں ، اپنے جذبات کا اظہار بھی کریں ؛ مگر انھیں کچھ پڑھ بھی لیا کریں کہ یہ کون تھے اورانھوں نے کیا کیا تھا؛تاکہ ہم بھی کچھ نہ کچھ کرسکیں ۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2، جلد:107‏، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء

Related Posts