از: مولانا عبدالمتین،مدیر مدرسہ دار ارقم لیاری کراچی
الحمدللہ ہمارے ہاں نکاح کی مجالس میں خطبہ نکاح پڑھنے کی سنت ادا ہوتی ہے؛ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطبے میں کیا کہا جارہا ہے اس کا بالکل بھی پتہ نہیں ہوتا؛ حالانکہ اس کا سمجھنا خود عائلی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔
خطبہ نکاح کا حکم
خطبہ نکاح کا مجلس میں پڑھنا سنت ہے اور خطبے کا سننا واجب ہے؛ اسی لیے اس دوران بات چیت کرنا یا شور مچانا انتہائی بے ادبی کی بات ہے۔
خطبہ نکاح کی تاریخ
خطبہ نکاح کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے اہل عرب کے ہاں بھی نکاح سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا تھا؛ لیکن اس میں وہ اپنے خاندان،قبیلہ اور آباو اجداد کے مناقب بیان کیا کرتے تھے؛ لیکن جب آپ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپ نے دیگر امور کی طرح خطبہ نکاح کے مندرجات کو بھی تبدیل فرمادیا اور اس میں حمد باری تعالی، رسالت و شہادت، قرآن کریم کی منتخب آیات و روایات کا ایسا حسین مجموعہ جمع فرمایا کہ یہ خطبہ زوجین اور فریقین کے لیے عائلی زندگی کے لیے ایک ایسا خوب صورت پیغام بن گیا جس میں گراں قدر ہدایات موجود ہیں ۔
مضمون کا مقصد
عام طور پر ہمارے ہاں جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ اور مختصر سے تشریح پیش خدمت ہے تاکہ اس خطبے کو سننے سمجھنے کا رواج پیدا ہو اور عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکیں ۔
خطبہ نکاح
خطبے میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کی تعریف اور شہادت رسالت کا بیان ان الفاظ میں ہوتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئآتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ہَادِیَ لَہُونَشْہَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْہَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ(ترمذی)
ترجمہ:تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس کی ہم تعریف بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں اور اسی پر یقین رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی ہماری ذات کے شر سے اور ہمارے برے اعمال کے شر سے۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہیں اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سر کے تاج ہمارے سردار ہمارے مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص بندے اور پیغمبر ہیں ۔
مسلمان کی نظریاتی اساس
خطبے کے اس حصے میں اس سبق کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نظریاتی طور پر دو چیزوں کو سب سے پہلا درجہ دیتے ہیں :
۱- توحید
۲- رسالت
توحید یعنی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور تمام قسم کی تعریف اسی ایک ذات کے لیے ہے؛ کیونکہ وہی ذات ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا، انسان کو پیدا فرمایا زندگی موت، نفع نقصان، صحت بیماری، مالداری فقر و فاقہ، اولاد و نعمت ، ہدایت گمراہی وغیرہ سب کا سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اسی لیے ہمیں یقین اور بھروسہ ہے کہ دنیا آخرت میں ہماری بخشش،معافی تلافی فقط وہی ذات کرسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری نظریاتی اساس یہ ہے کہ وہ اپنا پیغام انبیاء کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور انھیں انبیاء کے سنہرے سلسلے کی آخری کڑی آپ علیہ السلام کی ذات مبارک ہے جو سید البشر رحمت للعالمین اور ختم نبوت کا تاج لے کر آئے اور ان سے محبت اور ان کا طریقہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک قابل عمل و ناگزیر ہے۔
شادی اور تقوی
اس کے بعد خطبے میں قرآن کریم کے تین مختلف مقامات سے آیات قرآنیہ پڑھی جاتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں آیات میں ’’تقوی‘‘ کا ذکر موجود ہے۔ اس کی حکمت علماء یہ بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ تقوی کا مطلب اللہ کا خوف و ڈر ، خشیت الٰہی، قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہے اور جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو تب تک انسان کسی رشتے کو نبھا نہیں سکتا اور میاں بیوی چونکہ ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عرصے میں مزاج کی تلخی عین ممکن ہے، اس تلخی کے ساتھ ساری زندگی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اللہ رب العزت کی نگرانی اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے، یہ ہوا تو پھر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے گا کہ میرے کسی رویے سے وہ عظیم ذات جو مجھے ہر آن ہر لمحہ دیکھ سن سمجھ رہی ہے کہیں میری گرفت نہ کرے اور اس احساس میں آکر ہی زوجین ایک دوسرے کے جانی مالی حقوق کی پرواہ کرسکتے ہیں اور اگر یہ نہ رہے تو کوئی خاندان کا سربراہ، انجمن، پنچائت، کورٹ کچہری ان کو مکمل پابند نہیں کرسکتا۔
خاتمہ بالخیر کی فکر اور طریقہ
سب سے پہلی آیت میں بیان فرمایا:
یٰٓأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(آل عمران)
ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہیں ہر گز موت نہ آئے؛ مگر اسلام کی حالت میں یعنی اپنے خاتمہ بالخیر کی فکر کرو اور ایک دوسری روایت میں خاتمہ بالخیر کا طریقہ یوں سمجھایا کہ
کَمَا تَعِیشُونَ تَمُوتُونَ وَ کَمَا تَمُوتُونَ تُبْعَثُونَ وَکَمَا تُبْعَثُونَ تُحْشَرُونَ(روح البیان)
ترجمہ: جیسے تم زندگی گزارتے ہو ویسے تمہیں موت آئے گی اور جیسے تمہیں موت آئے گی ویسے ہی تمہیں اٹھایا جائے گا اور تمہارا حشر ہوگا۔
یعنی دارومدار سارا کا سارا آج کے عمل پر ہے اگر کسی کا حال درست ہے تو خاتمہ بالخیر کا مستقبل بھی درست رہے گا اور اس سے آگے کی منزل بھی پار لگ جائے گی؛ لیکن آج متاثر ہے تو ہر طرح کا مستقبل خطرے میں ہے۔
اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین اپنے حالیہ رویے پر خصوصی نظر رکھیں اور مادی مستقبل کی جستجو کے علاوہ اپنے ایمانی مستقبل کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں ۔
تخلیق انسانی کا تسلسل
دوسری آیت میں فرمایا:
یٰٓأیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَائً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا) (النساء)
ترجمہ:لوگو! اپنے رب سے ڈرو! جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادئیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو! بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔
یہاں آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے ان کی تخلیق کا نقطئہ آغاز بیان فرمادیا کہ تمہیں آدم علیہ السلام جوکہ پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں ان سے پیدا فرمایا اور وہ تمہارے آباو اجداد میں اول کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی سے تمہاری اول ماں بی بی حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے پوری انسانیت کی تخلیق کا ذریعہ بنا اور سمجھادیا کہ تم اس سرزمین میں کیسے آئے اور کہاں سے آئے،ساتھ میں اشارہ فرمادیا کہ اب تم نکاح کے ذریعے اسی سلسلے کا حصہ بننے جارہے ہو۔
رشتہ داروں کا مقام
اس کے ساتھ رشتے داروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے خاص طور پر ڈرو ؛کیونکہ اب تم بھی ان رشتوں کا حصہ بن چکے ہو ایک فرد سے جوڑے میں اور جوڑے سے فیملی اور فیملی سے ایک خاندان کا حصہ بننے جارہے ہو اور خاندان میں تم اور تمہارے والدین بیوی بچوں کے علاوہ بھی ایک خوب صورت رشتوں کا گلدستہ موجود ہے، ان کے حقوق کی خصوصی رعایت کرنا، خودغرضی کا شکار مت ہوجانا؛ ان کے ساتھ اپنے رویے کو درست کرلینا۔
سچائی کا رشتہ
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(احزاب)
ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو! اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ سیدھی سچی کھری اور دوٹوک بات کرنے کی عادت بنائو۔ انسان زندگی میں بہت سے معاملات اور لین دین کرتا رہتا ہے؛ لیکن نکاح کا معاملہ چونکہ ساری زندگی ساتھ رہے گا؛ اسی لیے اپنی زبان کی خبرگیری کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے زبان کا ٹھیک استعمال کیا تو یہ رشتہ ایک خوب صورت تعلق میں بدل جائے گا اور اگر تم نے زبان کو قابو میں نہ رکھا تو پھر یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جو روایات عام طور پر خطبے میں پڑھی جاتی ہیں ان میں سب سے پہلی اور معروف روایت یہ ہے۔
نکاح کی عالی نسبت
النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ(ابن ماجہ)ترجمہ:نکاح میرا طریقہ ہے۔
فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی(بخاری)
ترجمہ:جس نے میرے طریقے کو نظر انداز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح کوئی معمولی عمل نہیں ؛ بلکہ یہ میرا طریقہ ہے اور آپ کا اتنا کہنا ہی اس عمل کے ضروری اور اہم ہونے کے لیے کافی ہے؛ کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو آپ کا طریقہ ہے وہ یقینا کامیابی کا طریقہ ہے۔
امت کے نوجوان
دوسری روایت میں فرمایا:
رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاء(مسلم)
ترجمہ:اے جوانوں کی جماعت!تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے،یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے، اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے۔
اس روایت میں آپ کے مخاطب امت کا نوجوان طبقہ ہے جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نکاح بھرپور جوانی میں ہونا چاہیے آپ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو!اگر مالی پوزیشن ضرورت کی حد تک درست ہے تو ضرور نکاح کرو اس سے تمہیں دو فائدے حاصل ہوں گے:
۱- نگاہ کی حفاظت۔
۲- شرمگاہ کی حفاظت
نکاح کے فوائد
نکاح کے فوائد میں آپ نے نکاح کا مقصد بھی ذکر فرمادیا؛چونکہ نوجوان اپنے شباب اور جذبات میں جی رہا ہوتا ہے اور اس کے پاس خدا کی دی ہوئی صحت کی نعمت اپنے جوبن میں ہوتی ہے تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس نعمت کا کہیں غلط استعمال کربیٹھو اور اپنی صحت اور جوانی کو نقصان پہنچادو، تمہارے ارد گرد فحاشی کے مناظر، خواتین کا جال، موبائل کی سہولت یہ سب تمہیں اپنی قوت کو غیر فطری خرچ کی دعوت دے سکتے ہیں ، اسی لیے تمہارے لیے نکاح ضروری ہے؛ تاکہ تمہاری قوت صحیح وقت پر صحیح جگہ لگ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا ذکر خاص طور پر فرمایا؛ نگاہ اور شرمگاہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں نگاہ کی غلطی شرمگاہ کی غلطی پر ختم ہوا کرتی ہے، اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہ نوجوان کے قیمتی جذبات کو ضائع کرنے کی راہ یہیں سے کھلتی ہے اور جب نکاح نہ ہو تو یہ دونوں سرپھرے آوارہ بن جاتے ہیں اور جب نکاح ہوجائے تو ان کی نگرانی آسان ہوجاتی ہے۔
رشتہ کرنے کا طریقہ
تیسری روایت میں فرمایا کہ
إِذَا خَطَبَ إِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِینَہُ وَخُلُقَہُ فَزَوِّجُوہُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیضٌ(ترمذی)
ترجمہ:جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا۔
رشتہ کرنے کا ایک سنہرا اصول بیان فرمایا کہ جب رشتہ کرو تو دو چیزیں خاص طور پر پرکھ لیا کرو۔
۱- دین داری
۲- اخلاق
جس مرد میں یہ دو جوہر پائے جائیں تو رنگ صورت، مال و متاع کی جھنجھٹ مت پالو؛ بلکہ اللہ کا نام لے کر ہاں کردو؛ کیونکہ دین داری ہوگی توایسا شخص ایمان،صوم و صلات،رویہ سلوک،لین دین اور حقوق کا خیال رکھنے والا ضرور ہوگا اور ایسا رشتہ ملنا ایک غنیمت ہے۔
ساتھ میں تنبیہ فرمائی کہ ایسا رشتہ کسی مادی سبب کی وجہ سے اگر ٹھکرانے کا رواج بڑھ گیا معاشرہ فساد کا شکار ہوجائے گا۔
دیندار خاتون
چوتھی روایت میں ذکر فرمایا کہ
تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِہَا وَلِحَسَبِہَا وَجَمَالِہَا وَلِدِینِہَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ تَرِبَتْ یَدَاکَ(بخاری)
ترجمہ:عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر ، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کومٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی)۔
فرمایا کہ عام طور لڑکی کے انتخاب میں حسن و جمال، مال و دولت اور خاندانی وجاہت کو دیکھا جاتا ہے؛ جب کہ اصل چیز دین داری ہے؛ کیونکہ باقی ساری چیزیں فانی ہیں اور زندگی کا سکون حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہیں ؛ جب کہ دین داری اصل ہے اور زندگی بھر کا سکون دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے اور ایک دوسری روایت میں عورتوں کی دین داری کا مختصر اور خوب صورت نقشہ پیش کردیا فرماتے ہیں :
الْمَرْأَۃُ إِذَا صَلَّتْ خَمْسَہَا وَصَامَتْ شَہْرَہَا وَأَحْصَنَتْ فَرْجَہَا وَأَطَاعَتْ بَعْلَہَا فَلْتَدْخُلْ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شَائَتْ (رَوَاہُ أَبُو نعیم فِی الْحِلْیۃ)
ترجمہ:جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ (رمضان)کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اس کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجا۔
٭ ٭ ٭
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:107، شعبان المعظم – رمضان المبارک 1444ھ مطابق مارچ 2023ء