حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی ؒکی سند حدیث، اہمیت اور تحقیق

از:   مولوی محمد معاذ لاہوری‏، جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور

                حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے اولین مفتی اوراستاذ حدیث تھے، جو حضرات ذکر سندکے دیوبندی مزاج سے واقف ہیں ، وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ سند حدیث بیان کرتے ہوئے مشائخ دیوبند اور فضلاء دیوبند کا یہ معمول رہا ہے کہ جب ان سے دورئہ حدیث کے اساتذہ کی تفصیل پوچھی جاتی ہے تو جواب میں صرف صدر مدرس کا نام لیا جاتا ہے کہ:حضرت شیخ الہند کے شاگرد ہیں ، علامہ کشمیری کے شاگرد ہیں یا حضرت مدنی کے شاگرد ہیں اس جملے کا یہ مطلب نہیں کہ دیوبند میں صدر مدرس تمام کتب حدیث پڑھاتا تھا؛  یہ خلاف واقعہ ہے۔

                اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے دیوبند میں ایک دو سال نہیں بلکہ تقریباً پچیس سال حدیث شریف پڑھائی ہے، آپ کے زیر درس کتب حدیث  میں سنن نسائی، موطا امام مالک، موطا امام محمد، شرح معانی الآثار طحاوی اور مشکوٰۃالمصابیح کا نام کثرت سے ملتا ہے؛ جب کہ ایک سال سنن ابی داؤد پڑھانے کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔

                حضرت مفتی صاحب کے زیر درس کتب حدیث اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں کہ آپ کی زندگی اور بعد کے ادوار میں بھی ان کتابوں کی دیوبندی سندوں میں مدار الاسنادآپ ہی ہیں ۔

                ذیل میں ہم اپنی معلومات کی حد تک مندرجہ بالا کتب کی نشاندہی کرتے ہیں کب تک یہ کتب براہ راست حضرت مفتی صاحب کے زیر درس رہیں اس کے علاوہ ان مشہور فضلاء کے نام بھی درج کیے جاتے ہیں جنھوں نے دیوبند ہی میں حضرت مفتی صاحب کی سند سے یہ کتب پڑھائیں ۔

                نوٹ:اسباق کی تفصیلات ہمیں ذاتی ذخیروں ، سوانح، مشاہیر علماء مرتبہ قاری فیوض الرحمن اور محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند سے حاصل ہوئیں ۔

سنن نسائی:

                ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب نے سنن نسائی درج ذیل سالوں میں پڑھائی:

                1323ھ، 1325ھ، 1327ھ، 1328ھ، 1329ھ، 1330ھ۔

                اس سے آگے عموماً ان حضرات نے سنن نسائی پڑھائی جو حضرت مفتی صاحب کے شاگردہیں ، ذیل میں ان سالوں کی تفصیل پیش خدمت ہے جن میں مفتی صاحب کے تلامذہ نے سنن نسائی پڑھائی۔

                ٭ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (فراغت:1325ھ):1337ھ، 1338ھ، اور 1339ھ۔ اس کے بعد سنن نسائی پڑھانے کی صراحت نہیں ملتی۔

                ٭ حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی (فراغت:1323ھ): 1343ھ، 1351ھ، 1352ھ،1353ھ۔

                ٭ حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی (فراغت:1327ھ): 1348ھ، 1349ھ۔

                ٭ حضرت مولانا مفتی ریاض الدین بجنوری (فراغت:1330ھ):1354ھ، 1355ھ، 1356ھ،1357ھ، 1358ھ، 1359ھ، 1360ھ اور 1362ھ۔

                ٭ حضرت مولانا عبدالشکورعثمانی دیوبندی(فراغت:1329ھ) : 1363ھ اور 1364ھ۔

موطا امام مالک اور موطا امام محمد:

                ٭حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب نے موطا امام مالک اور موطا امام محمد درج ذیل سالوں  میں پڑھائیں :1323ھ، 1325ھ،1327ھ، 1332ھ، 1333ھ، 1334ھ، 1335ھ، 1336ھ، 1337ھ، تقریبا 1345ھ تک موطا امام مالک اور موطا امام محمد آپ ہی کے پاس رہی، 1345ھ کے بعد آپ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل سورت چلے گئے تھے۔

                حضرت مفتی صاحب کی سند سے جن حضرات نے دارالعلوم میں موطا امام مالک اور موطا امام محمد پڑھائیں دریافت ریکارڈ کی موجودگی میں اس کی تفصیل یہ ہے:

                ٭حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی (فراغت:1336ھ) :1349ھ میں موطا امام مالک،  1352ھ میں موطا امام محمد، 1353ھ میں موطا امام مالک و موطا امام محمد،1354ھ میں موطا امام مالک، 1355ھ میں موطا امام محمد، 1356ھ میں موطا امام مالک،1357 ھ میں موطا امام مالک،  1359ھ میں موطا امام مالک، 1360ھ موطا امام مالک۔

                ٭حضرت مولانا عبدالحق نافع گل کاکا خیل (فراغت:1340ھ): 1355ھ موطا امام مالک، 1356ھ موطا امام محمد، 1357ھ موطا امام محمد، 1358ھ موطا امام مالک و موطا امام محمد، 1365ھ موطا امام محمد، 1366ھ موطا امام مالک۔

                ٭حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی (فراغت:1337ھ):1361ھ موطا امام مالک، 1367ھ موطا امام محمد، 1368ھ موطا امام مالک و موطا امام محمد۔

                ٭حضرت مولانا قاضی شمس الدین کیمل پوری (فراغت:1341ھ):1362ھ موطا امام محمد۔

                ٭حضرت مولانا عبدالخالق ملتانی (فراغت:1342): 1365ھ موطا امام مالک و موطا امام محمد، 1366ھ موطا امام محمد۔

                ٭حضرت مولانا ظہور احمد دیوبندی (فراغت:1337ھ):1361ھ موطا امام محمد، 1371ھ، 1373ھ، 1377ھ میں موطا امام مالک۔

                ٭حضرت مولانا قاری محمد طیب (فراغت:1337)نے بھی مختلف سالوں میں موطا امام مالک و موطا امام محمد پڑھائی ہیں ۔

شرح معانی الآثار طحاوی شریف:

                حضرت مفتی صاحب نے طحاوی شریف دستیاب معلومات کے مطابق درج ذیل سالوں میں پڑھائی: 1323ھ، 1327ھ، 1332ھ، 1333ھ، 1334ھ، 1335ھ، 1336ھ، 1337ھ، 1338ھ، 1339ھ، 1340ھ، 1345ھ درمیان کے سالوں میں بھی طحاوی کی تدریس ممکن ہے؛ مگر اس کی صراحت نہیں ملی۔

                حضرت مفتی صاحب کے تلامذہ میں درج ذیل حضرات نے دیوبند میں طحاوی شریف پڑھائی:

                ٭حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی (فراغت:1323ھ):1342ھ، 1351ھ۔

                ٭حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی (فراغت:1327ھ):1349ھ، 1352ھ، 1353ھ، 1367ھ، 1368ھ۔

                ٭حضرت مولانا سید عبدالحق نافع گل کاکا خیل (فراغت:1340ھ):1355ھ، 1362ھ مفتی شفیع عثمانی کی رخصت کے بعد۔

                ٭حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی (فراغت:1336ھ) :1359ھ، 1360ھ، 1361ھ، 1362ھ ربیع الاول تک۔

                ٭حضرت مولانا سید مبارک علی نگینوی (فراغت 1325):1372ھ، 1375ھ۔

سنن ابی داؤد شریف:

                حضرت مفتی صاحب کے تذکرے میں سنن ابی داؤد ایک ہی مرتبہ1327ھ میں پڑھانا ملتا ہے،  اس جماعت میں حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ شامل تھے، حضرت علامہ بلیاوی نے بھی زندگی میں ایک مرتبہ1347ھ کے سال میں ابوداؤد شریف پڑھائی، اس سال ابوداؤد شریف پڑھنے والوں میں حضرت مولانا فخرالحسن مراد آبادی شامل تھے جنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں متعدد سال ابو داؤد شریف پڑھائی۔

                مندرجہ بالا تفصیل کے بعد حضرت مفتی صاحب کی سند کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، اگلا مرحلہ اس تحقیق کا ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے دیوبند میں حدیث کی کون کون سی کتب پڑھی ہیں ؟ اس سلسلے میں تذکرہ نگاروں نے زیادہ ترتاریخ دارالعلوم دیوبند کی عبارت ’’1295ھ میں بخاری، مسلم اور شرح عقائد پڑھ کردارالعلوم سے فراغت حاصل کی‘‘سے استفادہ کیا ہے اس کے علاوہ رجسٹر فضلاء میں اسی سال آپ کو دارالعلوم دیوبند کا فاضل قرار دیا گیا ہے، اس عبارت سے بہت سے حضرات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مفتی صاحب کی فراغت 1295ھ ہی کی ہے اور آپ نے کتب حدیث میں سے صرف دو کتابیں ہی پڑھی ہیں ۔

                اس سلسلے میں عرض ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں ڈیڑھ صدی تک کتب بندی رائج تھی نہ کہ درجہ بندی، استاذ طالب علم کے مناسب حال کتب تجویز کردیتا یا طالب علم خود لکھ دیتا کہ اس سال یہ یہ کتابیں پڑھنی ہیں ، اس وجہ سے دیوبند کے قدیم طلبہ کتب حدیث دیگر کتب فنون کے ساتھ دو یا تین سالوں میں پڑھتے تھے، جیساکہ حکیم الامت حضرت تھانوی، شیخ الاسلام حضرت مدنی، علامہ انور شاہ کشمیری،  حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا محمد شفیع محدث (صدرمدرس مدرسہ عبدالرب دہلی)،  مولانا سید میاں اصغر حسین دیوبندی اور مفتی محمودحسن گنگوہی کے تعلیمی ریکارڈ سے واضح ہے، اب رہی بات یہ کہ فضلاء کی لسٹ میں نام کب آئے گا؟؟  تو جس سال بخاری شریف پڑھی ہوتی اس سال فضلاء کی لسٹ میں نام آجاتا، یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب کی تعلیمی کیفیت تاریخ دارالعلوم دیوبند میں بھی 1295ھ تک ہی لکھی ہے، مفتی صاحب پر علی گڑھ سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا گیا اس میں بھی رودادوں کی مدد سے سال مذکور تک ہی کی تعلیمی کیفیت لکھی ہے اور رجسٹر فضلاء ہی کی وجہ سے فتاوی دارالعلوم، دارالعلوم کی تاریخی شخصیات اور دیگر کتب کی روایت کہ ’’مفتی صاحب کی فراغت 1298ھ‘‘ ہے کو رد کیا ہے۔

                راقم اس تحقیق کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ندوہ لائبریری مری روڈ حاضرہوا، وہاں دارالعلوم کی اسی سالہ رودادیں موجود ہیں ؛ لیکن یہ سفر انجام تک نہ پہنچا تھا اور لائبریری میں 1296ھ، 1297ھ، 1298ھ اور 1299ھ کی رودادیں موجود نہیں تھیں ، اب معاملہ کا حل محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند ہی کے پاس تھا؛ چنانچہ ان سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا وہاں سے جو جواب آیا اس سے راقم کی مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں :

 قدیم طلبہ دورہ کی کتابیں متعدد سالوں میں پڑھتے تھے:

                ٭ مفتی صاحب نے طحاوی کے علاوہ تمام کتب حدیث دیوبند میں پڑھی ہیں ، طحاوی اس وقت تک مدارس میں آئی ہی نہیں تھی، ذیل میں دارالعلوم دیوبند سے ہوئی مکاتبت اور ان کا جواب درج کیا جاتا ہے:

                مکرمی ناظم تعلیمات صاحب زید شرفکم دارالعلوم دیوبند

                السلام علیکم ورحمۃاللہ

                حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ کی تعلیمی کیفیت 1295 ہجری تک کی رودادوں میں ملتی ہے، سال مذکور میں مفتی صاحب نے کتب حدیث میں بخاری اورمسلم پڑھی، دارالعلوم کے قدیم طالب علم عموماً کتب حدیث دو یا تین سالوں میں مکمل کرتے تھے، جس طرح حضرت مدنی اور حضرت کشمیری کے تذکروں میں صراحت ملتی ہے اور رجسٹر فضلاء میں نام اس سال لکھا جاتا تھا جس سال بخاری پڑھی ہو۔

                معلوم یہ کرنا تھا کہ مفتی صاحب نے حدیث کی بقیہ کتب:ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور موطا امام محمد دیوبند میں پڑھیں یا نہیں ؟؟؟

                پاکستان میں ایک لائبریری میں دیوبند کی رودادیں موجود ہیں راقم سفر کرکے وہاں حاضر بھی ہوا مگر 1295 سے آگے 1296،1297،1298 کی رودادیں موجود نہیں ہیں ، جناب اگر کتب حدیث کی بابت یہ معلومات طالب علم کی انفرادی معلومات سے عنایت فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

                جناب کو اس جتن میں ڈالنے کی غرض سند حدیث ہے، مفتی صاحب کا شمار دارالعلوم دیوبند کے کبار محدثین میں ہوتا ہے، عموماً سنن نسائی، موطا امام مالک اور موطا امام محمد جناب ہی سے متعلق رہتی تھیں ، جناب اگر اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ مفتی صاحب نے یہ کتب دیوبند میں ان ان سالوں میں پڑھی ہیں تو نوازش ہوگی۔

عرض گزار

معاذ لاہوری

جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور پاکستان

                اس عرضی کا دیوبند سے درج ذیل جواب دیا گیا:

                حضرت والا زید مجدکم

                السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ!

                عرض خدمت ہے کہ منسلکہ درخواست میں مطلوب ممکنہ معلومات حسب ذیل ہیں :

                ریکارڈ کے مطابق حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی رحمہ اللہ نے حدیث شریف کی مندرجہ ذیل کتابیں درج ذیل سنین میں پڑھیں ہیں :

                1295ھ:بخاری شریف، مسلم شریف

                1296ھ:ابوداؤد شریف

                1297ھ:ابن ماجہ شریف، شمائل ترمذی شریف، نسائی شریف، ترمذی شریف، مسلم شریف، بخاری شریف

                1298ھ:موطا امام مالک، موطا امام محمد

                                                                                                                                                                والسلام

                                                                                                                                                                عبدالسلام قاسمی

                                                                                                                                محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند

                                                                                                                                                                17 ذوالحجہ 1443ھ

                                                                                                                                                                17 جولائی 2022ء

                اب رہی یہ بات کہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے اساتذئہ حدیث دارالعلوم دیوبند میں کون کون ہیں ؟

                اس سلسلے میں کوئی صراحت نہیں ملی؛ البتہ مفتی صاحب کے قریب ترین فاضل حضرت تھانوی تھے جنھوں نے اپنے اساتذئہ حدیث صراحت سے لکھے تھے؛ مگر یہ تفصیل موجود نہیں تھی کہ کون سی کتاب کس سال پڑھی اس کے لیے ایک مرتبہ پھر دارالعلوم دیوبند رابطہ کیا گیا، وہاں سے حضرت تھانوی کی تعلیمی تفصیل کے ساتھ ساتھ روداد 1295 ھ سے اس سال کے اسباق، کا نقشہ بھی بھیجا گیا، حضرت تھانوی کی دریافت معلومات اور1295 کا نقشہ اسباق حضرت مفتی صاحب کے اساتذہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوا، حضرت تھانوی کی تعلیمی کیفیت سے متعلق دارالعلوم دیوبند سے درج ذیل مکاتبت ہوئی:

                مکرمی جناب ناظم صاحب محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند

                السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!

                جناب نے کچھ عرصہ قبل حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی کی کتب حدیث کی تعلیمی تفصیل عنایت فرمائی تھی، فجزاہ اللہ عنی خیر الجزاء اس سے اگلا مرحلہ مفتی صاحب کے اساتذہ کی تحقیق کا تھا، اساتذہ کی تفصیل کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی بتائی ہوئی ترتیب پر قیاس کیا گیا تھا سنن نسائی اور ابن ماجہ کے علاوہ، عرضی کے ساتھ لف صفحہ راقم ہی کے مضمون کا ہے جس میں ہر کتاب کے ساتھ استاذ کا نام اور حاشیہ میں اس کا تقریبی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔

                فی الوقت عرضی کا مقصد یہ ہے کہ جناب اگر رودادوں کی مدد سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتب پڑھنے کی تفصیلات مہیا فرمادیں تو ہمیں اساتذہ قیاس کرنے میں مزید شرح صدر ہوجائے گا، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا سال فراغت فہرست فضلاء کے مطابق1299 ہجری ہے، 1300 کی روداد بندہ نے خود ملاحظہ کی تھی اس میں حضرت تھانوی کا تذکرہ نہیں ہے؛ جب کہ 1296، 1297، 1298   اور  1299  ہجری کی رودادیں جس لائبریری میں بندہ رودادیں دیکھنے جاتا ہے وہاں موجود نہیں ہیں ، عرض ہے کہ ان رودادوں میں سے حضرت تھانوی کی کتب حدیث کی تفصیلات عنایت فرمادیں ۔

                یا اگر محافظ خانہ کے ریکارڈ میں مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے اساتذہ مفصلاً لکھے ہوئے ہوں تو وہ تفصیل عنایت فرما دی جائے۔ امید ہے جناب حسب سابق شفقت فرمائیں گے۔

                                                                                                                                                                                محتاج دعا

                                                                                                                                                                محمد معاذ لاہوری عفی عنہ

                                                                                                                                                جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور پاکستان

                اس عرضی کا جواب یہ آیا:

                حضرت والا زید مجدکم

                السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ

                منسلکہ درخواست میں مطلوبہ معلومات کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ:

                حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے دورئہ حدیث شریف کی کتب درج ذیل سالوں میں پڑھیں ہیں :

                1296ھ:شمائل ترمذی               1297ھ:ترمذی شریف            1298ھ:مسلم شریف

                1299ھ:بخاری شریف، ابن ماجہ شریف، موطا امام محمد، ابوداؤد شریف، موطا امام مالک، نسائی شریف

                نوٹ:مذکورہ سنین کے اسباق کی تفصیلات دستیاب نہیں ؛ البتہ روداد دارالعلوم 1295ھ میں اساتذئہ کرام کے اسباق کی تفصیلات درج ہیں ، اس کا عکس ہمرشتہ ہے۔

                                                                                                                                                                والسلام

                                                                                                                                                                عبدالسلام قاسمی

                                                                                                                                                                محافظ خانہ دارالعلوم دیوبند

                                                                                                                                                                2 جمادی الاولی 1444ھ

                                                                                                                                                                27 نومبر 2022ء

                ان مضبوط وضاحتوں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ آپ نے کتب حدیث درج ذیل اساتذہ سے پڑھیں :

                صحیح بخاری:حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی

(روداد دارالعلوم دیوبند 1295ھ ص:2)

                صحیح مسلم:حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی

(روداد دارالعلوم دیوبند 1295ھ ص:2)

                جامع ترمذی، شمائل:حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (ماخوذ از احد عشر کوکبا)

                سنن ابی داؤد:حضرت  ملا محمود دیوبندی

                1295ھ اور 1299ھ کی رودادوں میں سنن ابی داؤد ملا محمود دیوبندی ہی کے پاس لکھی ہے۔

                موطا امام مالک:حضرت ملا محمود دیوبندی

                موطا امام محمد:حضرت ملا محمود دیوبندی

                (1295ھ اور 1299ھ کی رودادوں میں موطا امام مالک و موطا امام محمد ملا محمود دیوبندی ہی کے پاس لکھی ہے)

                سنن نسائی:حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھی

                سنن ابن ماجہ:حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھی

                (ندائے شاہی، شاہی نمبر ص 306 پر روداد دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے نقل ہے:

                حضرت شیخ الہند کی (حج سے) واپسی کے بعد آپ (مولانا عبدالعلی میرٹھی)کو مدرس پنجم بنایا گیا  اور اس عہدہ پر جُمادی الاخری 1298ھ تک فائز رہ کر نسائی شریف، ابن ماجہ شریف  وغیرہ کا درس دیا۔ملخص روداد:1294ھ تا 1298ھ)

                مشکوٰۃشریف:شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی

                (حیات شیخ الہند ص 22 پر مرقوم ہے:1293ھ میں آپ مشکوٰۃ شریف پڑھاتے تھے)

                اس تمام تفصیل کو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کتابوں میں اس سند کو بیان کیا جائے جو اصل قراء تی سند ہے؛ تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2، جلد:107‏، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء

Related Posts