جمعیت کا چونتیسواں اجلاس عام
از: مولانا اشرف عباس قاسمی، مدرس عربی دارالعلوم دیوبند
دہلی کے ’’رام لیلا گراؤنڈ‘‘ میں منعقد اسلامیانِ ہند کی نمائندہ تنظیم جمعیت علماء ہند کے چونتیسویں اجلاس عام میں اجلاس کے روایتی آغاز یعنی جھنڈا لہراکر ترانہ پڑھے جانے سے صدارتی خطاب تک اسٹیج کی ایک جانب بیٹھ کر اجلاس کو بہ راہ راست سننے دیکھنے اور اس کے پیغامات سمجھنے کا موقع ملا، یہ اجلاس کئی پہلوؤں سے بے نظیر اور تاریخی تھا؛ تاہم ذیل کی سطروں میں اجلاس کے حوالے سے بعض مشاہدات اور اس کی چند حصولیابیوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے:
(۱) اجلاس میں شرکاء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ دہلی کا یہ میدان جو اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامانی کا شکوہ کرتا نظر آیا،صرف سہارنپور ضلع سے273 بڑی بسیں پو پھٹتے ہی پہنچ چکی تھیں ، ابنائے ملت کے اس جم غفیر کودیکھ کر اندازہ ہوا کہ فتنوں کے اس دور میں بھی لوگوں کے اپنے دین اور ملت سے کس قدر گہری وابستگی ہے، ایسا نہیں ہے کہ یوں ہی تماشائیوں کا ایک ریلا آگیا ہو؛ بلکہ عام لوگوں میں بھی دین کے تئیں شعور اور حساسیت میں اضافہ ہورہاہے۔
(۲) اجلاس کا نظم ونسق انتہائی عمدہ اور قابل دید تھا، جو درحقیقت قائد جمعیت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی حفظہ اللہ اور ان کے فعال ومخلص رفقاء کی شبانہ روز کی مساعی مشکورہ کا عکس جمیل تھا۔ جو لوگ بلاک سطح کا یا کسی چھوٹے ادارے کا کوئی پروگرام کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے نیند غائب ہوجاتی ہے اور رات دن ایک کر نے اور کئی سطح کی مشکلات پر قابو پانے کے بعد ہی گوہر مقصود ہاتھ لگتا ہے اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح کے عظیم اجلاس کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑا ہوگا،اس آبلہ پائی پر مولانا مدنی اور جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب سمیت جمعیت کی مقامی یونٹ سے لے کر اعلیٰ عہدیداران سب کے سب شکریے کے مستحق ہیں ، فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ أحسن الجزاء۔
(۳) جمعیت علماء ہند نے اپنی قدیم روایات کو باقی رکھتے ہوئے نہایت فراخ دلی اور کشادہ قلبی کے ساتھ جماعت اسلامی، جمعیت اہل حدیث، جیسی ملی تنظیموں کے صف اول کے قائدین کے علاوہ اجمیر ونظام الدین اولیاء جیسی معروف درگاہوں سے وابستہ سجادہ نشینوں کو بھی اعزاز کے ساتھ مدعو کرکے اظہار خیال کا موقع دیا، اس طرح ایک ہی اسٹیج پر مرکز رشد و ہدایت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم ،نائب مہتمم اور صدرالمدرسین کے پہلو بہ پہلو مختلف مسالک ونظریات رکھنے والی شخصیات کا اجتماع دیکھ کر ان لوگوں کی آنکھیں یقینا ٹھنڈی ہوتی ہیں جو ملت کا دردرکھتے ہیں ۔
(۴) جمعیت نے ملک کے مخصوص حالات میں نفرت کی فضا ختم کر کے باہمی اعتماد کاماحول بنانے کے لیے ’’سدبھاؤنا منچ‘‘ قائم کررکھا ہے،اس کے تحت ہندومت ،جین ازم،سمیت مختلف مذاہب کی نمائندہ شخصیات اسٹیج پر موجود تھیں ، انھیں بھی جمعیت نے عوام کے جم غفیر سے خطاب کا اعزاز بخشا؛ لیکن ان میں سے کسی نے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرکے مسلمانوں کے مسائل پر کچھ بولنے اور اقتدار پر قابض حکم رانوں کو آئینہ دکھا نے کی جرأت نہیں دکھلائی،اس کے بر عکس امن وایکتا کی باتوں کو بھی راشٹر واد اور مودی سرکار کی تعریف کا شیرہ لگا کر ہی پیش کرتے رہے اور جب مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے یہ اشخاص حکومت کی منشاء سے ہٹ کر ہمدردی کا ایک بول آپ کے لیے آپ کے اسٹیج پر نہیں بول سکتے تو سمجھاجاسکتا ہے کہ صورتحال کس قدر تشویشناک ہے۔
(۵) اجلاس کا کلیدی خطاب امیرالہندحضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ کا تھا، جس میں حضرت نے کہا کہ مذہب کو زور زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا ہے، مذہب تو دل سے ماننے کی چیز ہے۔ حضرت نے پوری قوت کے ساتھ ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پر مسلمانوں کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کو ملک اورمذہب کی تاریخ سے جہالت اور ناواقفیت کا نتیجہ قرار دیا۔ حضرت مولانا نے واضح کیا کہ ہندستان بلکہ پوری دنیا کا اصل مذہب توحید اور اسلام تھا۔سب سے پہلے جو چراغ ہندوستان سے روشن ہوا تھا ،چودہ سو سال پہلے وہی عرب سے چمکا ، اسلام کے پیغمبرِ اول حضرت آدم علیہ السلام کے ہندستان میں نازل ہوئے، یہ سرزمین اسلام اور مسلمانوں کی اولین سرزمین اور قدیم ترین وطن ہے۔انھوں نے اس پرمزید بولتے ہوئے کہا کہ قران آسمانی کتاب ہے اور آدم پہلے انسان ہیں جن کوانگریزی میں ’’ایڈم‘‘کہتے ہیں اور ہندی میں ’’منو‘‘ کہتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ ہم پہلے سے ہی آدم کے گھر میں ہیں ؛ اس لیے ہمیں گھر واپسی کی ضرورت نہیں ۔مولانا نے واضح لفظوں میں نغمۂ توحید سناکراپنے منصب اور شخصیت کا حق ادا کردیا ہے،اس نغمہ توحید سے جہاں اہل توحیدسرشار نظر آئے، وہیں بعض متعصب قسم کے مذہبی رہنما چراغ پا ہوگئے اور انھوں نے اپنی حرکتوں سے مکی دور کی یاد دلادی ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام توحید کو سن کر مجمع کے سامنے ہی ابولہب نے مشتعل ہوکر کہا تھا: تَبًّا لَکَ سَائِرَ الیومِ، ألِہذا جَمَعْتَنَا۔’’تمھارا ناس ہو!کیا تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟‘‘
(۶) ضرورت اس بات کی ہے حضرت مولانا نے توحید کا جو راگ چھیڑ دیا ہے اس کے سرمیں سر ملا کر اسے ایک عام بیانیہ بنا دیا جائے۔اس سے مسلمانوں کے عقیدئہ توحید میں بھی مضبوطی آئے گی اور برادران وطن کے سامنے بھی صحیح نہج پر غور وفکر کی نئی راہیں کھلیں گی؛ بلکہ اس تناظر میں اس پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ ملک کے دعوتی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ان کے بنیادی نظریات اور مذہبی وسماجی روایات پر جو عام زندگی سے متعلق ہیں ، مثبت انداز میں سوالات کھڑے کیے جائیں ؛تاکہ خود ساختہ نظام کی قلعی کھل سکے ، ورنہ آئے دن ہمارے نکاح ،طلاق ، وراثت ،حجاب ،ختنے اور پرسنل لا پر ہمیں ہی اصلاح کا درس دے کر ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے رہیں گے ،اب وقت آگیا ہے کہ تہذیبوں کی برتری کی اس جنگ میں دفاعی خول سے نکل کر کچھ اقدامات کے بارے میں سوچیں اور کچھ نئی چیزیں اپنی ترجیحات میں شامل کریں !
(۷) اتنے بڑے اجلاس میں مسلمانوں کی طرف سے جو تحمل اور برداشت اور ڈسپلن دیکھنے میں آیا وہ یقینا قابل داد ہے۔ایک تو جین مذہبی رہنما لوکیش منی کی ہرزہ سرائی پر مجمع عام میں اور اسٹیج پر موجود حضرت مولانا کے سیکڑوں شاگردومعتقدین نے حددرجہ قوت برداشت کا مظاہرہ کیا ،دوسری بار صورتحال اس وقت پریشان کن ہوگئی جب بعض مذہبی رہنماؤں کے اسٹیج سے اٹھ جانے کے معاً بعد بجلی کی سپلائی منقطع ہونے کی وجہ سے پورا ساؤنڈ سسٹم ہی ٹھپ پڑگیا،مائک پر شاعراسلام جناب مولانا احسان محسن صاحب تھے، رام لیلا جیسے گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے اتنے عظیم پروگرام میں یہ ایک غیر معمولی بات تھی ،اور یہ سلسلہ تقریباً دس منٹ تک رہا؛ لیکن اس دوران پورا مجمع اور پورا اسٹیج پر سکون رہا،نہ کوئی انتشار اور نہ کوئی شور وہنگامہ۔حضرت مولانا محمود مدنی کے ہاتھوں کا اشارہ ہی مجمع کو پرسکون رکھنے کے لیے کافی تھا ،دس منٹ بعد پروگرام اسی طرح چلنے لگا جیسے کوئی بات پیش ہی نہیں آئی۔
(۸) جمعیۃ علماء ہند کے اس اجلاس میں ملک وملت کی موجودہ صورت حال پر طویل بحث ہوئی۔ اجلاس میں اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں اسلامو فوبیا فروغ پارہا ہے اور مرکزی حکومت خاموش ہے؛ جب کہ اسے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔مسلمانوں کی مذہبی تعلیم، جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع کو محدود کیا جا رہا ہے۔ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے اور یکساں سول کوڈ کے ذریعے ملک کے اتحاد و سالمیت کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے۔ مولانا محمود مدنی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا:جمیع جمعیت کے اکابر نے برادران وطن کے ساتھ دوش بدوش چلنے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی روش اختیار کی اور جمعیت آج بھی اسی روش پر مضبوطی سے قائم ہے۔ متحدہ قومیت اور ہندو مسلم یک جہتی کا فکر و فلسفہ جمعیت کے اکابر کی عطا کردہ وراثت ہیں ۔ اس کے مدمقابل ’’ہندو تو‘‘ کی تشریح موجودہ دور میں جو کی جارہی ہے اور ہندوتو کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔اجلاس عام کے اسٹیج سے جمعیۃعلما ء ہند نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ترکی اور شام میں زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے ایک کروڑ روپے کی مالی امداد کا بھی قابل قدر اعلان کیا۔
(۹) اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے باـضـابطہ عہدنامہ پیش کیا ، جس کی تائید مجمع نے لفظ بہ لفظ دوہرا کر کھڑے ہو کر کی۔لوگوں نے عہد کیا کہ وہ مذہبی رہ نماؤں اور مقد س کتابوں کا کبھی اپمان نہیں کریں گے ، ہنسا اور نفرت سے سماج کو آزاد کریں گے اوردیش کی رکشا ، سرکشا ، مان سمان او راکھنڈتا کے لیے پریاس کریں گے۔دارالعلوم دیوبندکے استاذ حدیث اور جمعیت علماء ہند کے نائب صدر حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری نے کہا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ڈائیلاگ میں حصہ لے کر اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں ،باہمی گفت و شنید بڑی طاقت ہے،اسے نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے۔
(۱۰) پروگرام کو بہتر انداز میں چلانے اور نتیجہ خیز بنانے میں ناظم پروگرام کا اہم کردار ہوتاہے، محترم مفتی سید محمد عفان منصورپوری کی نظامت بھی قابلِ تعریف رہی ، موقع محل کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے اتنے بڑے اجلاس کو جس خوبی کے ساتھ انھوں نے چلایا وہ انھیں کا حصہ ہے۔
امید ہے کہ اس عظیم الشان اجلاس کے دیرپا مثبت اثرات سے ملت کو نئی توانائی ملے گی،اس کا کھویا حوصلہ بحال ہوگا اور ملک اور سماج میں صالح تبدیلی آئے گی۔
٭ ٭
دارالعلوم ، شمارہ : 3، جلد:107، شعبان المعظم – رمضان المبارک 1444ھ مطابق مارچ 2023ء