حضرت شیخ الہندؒ اور علامہ کشمیریؒ کے مایہ ناز شاگر د اور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے رفیقِ خاص (۱/۲)
از: جمیل احمد بن مولانا برہان احمد
استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن،ورفیق مجلس دعوت وتحقیق اسلامی کراچی
علامہ محمدانور شاہ کشمیریؒ کے فیضانِ نظر اور علمی لیاقت نے بر صغیر ہندوستان سمیت ایشیا کے کئی ملکوں میں ضیا پاشی کی، آپؒؒ نے دار العلوم دیوبند کے بعد دار العلوم اسلامیہ ڈابھیل گجرات میں لمبے عرصے تک تفسیر حدیث اور فقہ سمیت منقولات اور معقولات کی تدریس کی، اس دوران جہاں آپ نے تصنیف اور تالیف کے میدان میں ۔(۱) الإتحاف لمذہب الأحناف،(۲)التصریح بما تواتر فی نزول المسیح،(۳)إکفار الملحدین،(۴)حاشیہ بر سنن ابو داؤد، اور(۵)حاشیہ بر مستدرک حاکم سمیت دسیوں علمی اور تحقیقی کتب اور رسائل تالیف ومرتب کیے، وہیں آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا محمدبدر عالم میرٹھی، مولانا مناظر احسن گیلانی،ؒمولانا احمد رضا بجنوریؒاور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ، جیسے نابغۂ روزگار وں پر مشتمل ہزاروں شاگردوں کی عظیم جماعت بھی تیارکی۔
بر صغیر پاک وہند میں خدمات انجام دینے والے آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد سے دنیا واقف ہے؛ البتہ وسطی ایشیا، افغانستان اور روس سے ملحقہ اُس وقت کی ریاستوں میں موجود آپ کے بعض شاگردوں کا تعارف ہنوز نہ ہوسکا ہے، ذیل کے مضمون میں افغانستان کے لالہ زار علاقہ ننگر ہار سے وابستہ آپ کے شاگردِ رشید او ر علمی دنیا کے جیّد اور روشن ستارے علامہ غلام نبی کامویؒ کا تعارف پیش خدمت ہے، آپ کا شمار حضرت کشمیریؒ کے چُنیدہ لائق اور فائق شاگردوں میں ہوتا ہے، افغانستان کے طول وعرض میں آپ کی علمی خدمات کی بڑی گونج ہے؛ البتہ ہند اور پاکستان کے تذکرہ نگاروں سے نہ معلوم ان کی شخصیت کیوں پوشیدہ رہ گئی؟ چنانچہ علمائے بر صغیر میں ان کی خدمات کا اعتراف بجز محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوریؒ کے ہمیں کہیں نہ مل سکا۔
علامہ غُلام نبی کامویؒ اور ان کا مولد و آبائی مسکن
آپ کی پیدائش امارتِ اسلامی افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار کے ایک بڑے اور مشہور ضلع کامہ کے ایک قریہ سنگر سرائے میں ہوئی، اسی نسبت سے آپ کو کاموی کہا جاتا ہے، پشاور سے براہِ طورخم تین گھنٹہ کی مسافت پر واقع یہ ضلع ایک لالہ زار خوبصورت اور سر سبز وشاداب علاقہ ہے، اس کے قریبی مشہور علاقوں میں جلال آباد خاص طور پر قابل ذکر ہے، گاؤں سنگر سرائے ضلع کامہ جلال آباد سے ۴۵منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
علامہ غلام نبی کامویؒ کی پیدائش ضلع کامہ کے ایک گاؤں سنگر سرائے میں ہجری سن کے اعتبار سے ۱۳۱۲بمطابق ۱۸۹۵م کو ہوئی، مولوی محمد ہاشم کاموال اور حضرت علامہ غلام نبیؒ کے پوتے ڈاکٹر عبد الملک کاموی نے اپنے مضامین میں ان کی یہی تاریخ پیدائش لکھی ہے۔(۱)
آپ کے والد محترم ملا شیخ محمد حسینؒ کی شہرت ایک نامور عالم فاضل متدین بزرگ، اور خدا ترس زاہد انسان کے طور پر تھی، سلسلۂ قادریہ کے مشہور بزرگ مجاہد کبیر حضرت شیخ نجم الدین آخوند زادہ ہڈی ملا صاحب (ت:۱۳۱۹ھ، ق،بمطابق ۱۹۰۱م)(۲)سے آپ کا بیعت اور اصلاح کا تعلق رہا، ان کی سرپرستی اور مشارَکت میں آپ نے انگریز اور برطانوی استعمار کے خلاف جہادِافغان میں بھر پور حصہ لیا۔
آپ کے تین بھائی اور ایک بہن تھی، علم اور شرافت میں آپ کا خاندان ممتاز تھا، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے:غلام نبیؒ بن ملاشیخ محمد حسینؒ بن ملا صاحب گل بن محمد عمرؒ۔
آپ کی رسمِ بسم اللہ حضرت شیخ نجم الدین آخوند زادہ ہڈی ملا صاحب نے کی، نیک او رعلمی ماحول کے بدولت آپ کا صغر سنی ہی میں کتاب، قلم اور مسجد سے تعلق قائم ہوگیا تھا؛ چنانچہ کھیل کود سے آپ کا طبعی لگاؤ نہ تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی؛ چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بالخصوص اہتمام رہا۔
حضرت شیخ مولانا نجم الدین ہڈی ملا صاحبؒ کی دعا کا اثر
افغان روایت اور رواج کے مطابق بچوں کی تعلیمی زندگی کے آغاز سے قبل کسی صاحب طریقت وعرفان کی خدمت میں پیش کرکے دعا لینے کی اچھی روایت رہی ہے، والد محترم نے اپنے شیخ مجاہد کبیر مولانا نجم الدین آخوند زادہ صاحب سے ان کے حق میں بطور خاص دعا کرائی؛ چنانچہ اس کی مختصر روئداد لکھتے ہوئے محترم خلیل زی رقم طراز ہے:
ایک دن بعد نماز جمعہ حضرت والد محترم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت نجم الدین ہڈی ملا صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور بطور خاص ان کے مقبول عالم دین ہونے کے لیے دعا کی درخواست کی، انھوں نے دعا فرمائی، ان کے حجرہ سے رخصت ہونے کے بعد واپسی میں کافی راستہ طے کرنے کے بعد درمیان راستہ میں والد محترم نے دوبارہ اِن کے حجرہ کی راہ لی اور خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر عرض کیا، حضرت دوبارہ دعا فر مائیں ؛ چنانچہ انھوں نے دوبارہ دعا فرمائی اور رخصت ہوگئے، کافی راستہ طے کرنے کے بعد والد صاحب کے دل میں سہ بارہ دعا کی درخواست کا اشتیاق پیدا ہوا؛ چنانچہ نصف راستہ سے دوبارہ واپس ہوئے اور عرض کیا حضرت خصوصی دعا فرمائیں ؛ چنانچہ وہ مسکرائے اور فرمایا مولوی حسین!! اللہ تعالی آپ کے بچے کو اپنے علم میں سے بہت کچھ عطا کرے!
علامہ کامویؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں سنے ہوئے ان کی دعا کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں رَس گُھولتے ہیں ۔(۳)
چنانچہ اس کامل مرشد کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ کو جلیل القدر اساتذہ مُیسَّر ہوئے، دیارِ افغان اور ہند کے نَامور اداروں میں علم کی تحصیل کی توفیق ہوئی اور نہایت محنت عزیمت اور بیداری کے ساتھ علوم آلیہ وعالیہ کی تکمیل کی۔
تعلیمی زندگی
آپ کی تعلیمی زندگی کو ہم دو ادوار پر تقسیم کرسکتے ہیں :
۱- وطن مالوف افغانستان میں حصول علم کا زمانہ۔
۲- ہندوستان میں تعلّم کا زمانہ۔
آپ نے علوم آلیہ کی قریباً نصف تعلیم افغانستان میں رہ کر حاصل کی، اس کے بعد ہندوستان کی طرف عازم ہوئے، اور وہاں بھوپال، دہلی اور پھر دیوبند کے مدارس میں رہ کر علوم آلیہ کی تکمیل کی؛ البتہ تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم خصوصی طور پر آپ نے دار العلوم دیوبند سے حاصل کی، اس کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ۔
افغانستان میں علوم آلیہ صرف ونحو منطق وفلسفہ وغیرہ کی تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم والد محترم ملا محمد حسین سے حاصل کی(۴)، والد سے ان کی تعلیم کی حدود کیا تھی، اس بارے میں ہمیں معلومات نہ مل سکیں ، اندازاً یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے اعتبار سے عربی ادب، صرف ونحو، مبادی فقہ، اور پشتو ادب کی کچھ کتب کی تحصیل انھوں نے والد محترم سے کی، غالباً یہ تعلیم گھر میں یا گھر کے قریب کسی مسجد میں ہوئی ہوگی، بعد ازاں علوم آلیہ کی تحصیل کے لیے آپ نے رحلات کیے اور افغانستان کے مختلف مدارس میں نہایت محنت اوردِقَّتْ سے آپ نے ان علوم کی تحصیل کی، جس کی کچھ تفصیل ذیل میں آتی ہے۔
والد محترم سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے افغانستان ہی میں علوم آلیہ کی تعلیم حاصل کی؛ چنانچہ والد محترم کے علاوہ آپ نے درج ذیل اساتذہ سے بھی استفادہ کیا :
۱- مولانا محمد ابراہیم کاموی۔ؒ
۲- مولانا ملا محمد مسکینؒ۔
ان دو حضرات سے آپ نے صرف ونحو کی ابتدائی کتب پڑھی۔
۳- قاضی القضاۃ علامہ عبد القدیر صدیقی لغمانیؒ: ان سے آپ نے نحو کی منتہا درجہ کی کتب مثلا شرح جامی وغیرہ پڑھی، علامہ عبد القدیر لغمانیؒ افغانستان بھر میں نحو صرف، منطق اور فلسفہ کے امام متصوَّر کیے جاتے تھے، حضرت محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے بھی آپ سے کابل میں ملاجلال پڑھی(۵)، بعد میں علامہ عبد القدیر لغمانیؒ افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کے ضلع جلال آباد میں محکمۂ شرعیہ کے قاضی مرافَعَہ مقرر ہوئے، غالباً علامہ غلام نبیؒنے بھی علامہ عبد القدیرؒ سے کابل میں استفادہ کیا۔
۴- علاقہ مزینی کے ایک عالم المعروف بہ لوی ملا صاحبؒ سے آپ نے منطق کی کچھ کتابیں پڑھی۔
۵- علامہ میاں عبد العلی صاحب قیلغوالمعروف بہ لوی میاں صاحبؒ سے آپ نے منطق کی کتابیں مثلِ میر زاہد، ملا جلال، قطبی، فیروزبا، وغیرہ پڑھی۔(۶)
۶- مولانا میر علم کاپیساییؒ: ان سے مولانا نے دار العلوم کابل میں کچھ کتابیں پڑھیں ۔(۷)
افغانستان میں آپ کی تعلیم کا دورانیہ کتنا تھا؟ اس کی تاریخ اور زیادہ تفصیل وغیرہ معلوم نہ ہوسکی، خاندانی روایت کے مطابق آپ نے۱۳۳۱ھ سے لے کر۱۳۳۹ھ تک کا زمانہ دیوبند میں گزارا، اس طرح گویا ۱۳۳۰ھ سے قبل کا عرصہ آپ نے افغانستان دہلی اور بھوپال وغیرہ میں گزارا، اور علوم آلیہ سمیت علوم عالیہ کی تحصیل کی۔
ہند کی طرف رحلت اور بھوپال و دِہلی میں تعلیم کا زمانہ
علاقہ کے علماء سے مروجہ علوم وفنون میں اپنی پیاس بجھانے کے بعد آپ نے ہند وستان کا سفر کیا، تاریخی دستاویزات سے آپ کے ابتدائی اسفار کی تفصیلات نہ مل سکیں ؛ البتہ خاندانی روایت کے مطابق اتنا معلوم ہے کہ دار العلوم دیوبند میں آپ کی آمد کا زمانہ ۱۳۳۱ھبمطابق ۱۹۱۳م ہے اور اس سے قبل آپ نے بھوپال اور دہلی میں علوم آلیہ کی تحصیل کی، اس اعتبار سے گویا ۱۹۱۲م سے پہلے کے دو تین سال کا عرصہ آپ نے بھوپال اور فتح پور دہلی وغیرہ میں گزارا۔
ہندوستان میں آپ کی تعلیم کی مدت تقریباًدس سال پر محیط رہی، عیسوی اعتبار سے یہ زمانہ ۱۹۱۰م سے ۱۹۱۹میلادی بنتا ہے، شورش اور پر آشوب حالات پر مشتمل اس زمانہ میں ہندوستان کی باگ ڈور مکمل طور پر برطانوی استعمار اور ان کے گماشتوں کے ہاتھ میں تھی؛ البتہ بھوپال کسی قدر اس تسلط سے محفوظ تھا، یہی وہ زمانہ تھا کہ جس میں مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ بکھرکرتیس حصوں میں منتشر ہوگئی، ترک اور ان کے حلیف جرمنی کی شکست در شکست سے مسلمانانِ ہند کے حوصلے اور حواس باختہ ہوچکے تھے، دوسری طرف اسی عرصہ میں آزادیِ ہند میں مسلم قومیت کی حقیقی قیادت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ برطانوی استعمار پر آخری وار کرنے کی غرض سے تحریک ریشمی رومال کا سہارا لے کر عرب میں موجود پاشاؤں کے پاس گئے، قریب تھا کہ یہ تحریک مقبول ہوتی اور انگریزی سلطنت کے خلاف ایک نیا محاذ گرم ہوتا، شریفِ مکہ کی دین بیزاری نے اس تحریک کو جزیرئہ عرب میں غرقاب کر کے سن ۱۹۱۹م شیخ الہند اور ان کے رفقا کو جزیرہ انڈیمان اور مالٹا کی یخ بستہ قید میں لا گرفتار کیا، یوں مسلمانانِ ہند ایک حقیقی اور بے باک لیڈر سے محروم ہوگئے، ان تمام حالات کے باوجود دار العلوم دیوبند نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور کسی طور پر ہند میں علم وعرفان کو ز وال نہ ہونے دیا، ان گوناگو حالات میں علامہ غلام نبیؒ نے فتح پور دہلی، بھوپال اور دیوبند سے دینی علوم کی تحصیل کی اور بھر پور طریقے سے کی۔
بھوپال میں تعلیم
بھوپال میں آپ نے کس ادارے اور کن اساتذہ فن سے کن علوم کی تحصیل کی، اس کی تفصیل ہمیں نہ مل سکی؛ البتہ ایک استاذ ملا دہبایی صاحب کا صرف نام ملتا ہے، غالب خیال یہی ہے کہ آپ نے مشہور افغانی سردار نواب آف بھوپال سردار دوست محمد خان کے قائم کردہ دینی مدرسہ وقفیَّہ میں تعلیم حاصل کی، نیز اس زمانہ میں ریاست بھوپال میں دینی تعلیم کا مشہور مدرسہ صرف یہی مدرسہ وقفیہ تھا، بعد میں چل کر یہی جامعہ احمدیہ بھوپال کے نام سے موسوم ہوا۔(۸)
۱۹۴۶م میں جب مولانا سید سلیمان ندویؒ اس مدرسہ کے مدیر مقرر ہوئے، انھوں نے حضرت محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ کو بھی تدریس اور تالیف کی غرض سے مدعو کیا؛ لیکن حضرت جو اس وقت مجلس علمی ڈابھیل سے وابستہ تھے، جانے پر تیار نہ ہوئے۔(۹)
بعد ازاں سن ۱۹۴۷م کی تقسیم اور تحلیل کے ساتھ یہ مدرسہ بھی اپنے اختتام کو پہونچا اور ہندی حکومت نے اس کو بحقِ سرکا رضبط کیا، مولانا سلیمان ندویؒ نے بھی پاکستان ہجرت کی۔
دِہلی میں تعلیم
دِہلی میں آپ کی تعلیم وتعلّم سے متعلق بھی زیادہ معلومات نہ مل سکی، صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ فتح پور دہلی (غالباً مراد قدیم مدرسہ عالیہ فتح پور ہے)میں آپ نے مولانا رحمدل خان قندہاریؒ اور مولانا تاج الدین المعروف بہ کابلی ملا سے منطق وفلسفہ کی منتہا درجہ کی کتابیں پڑھیں ، جن میں شرح المطالع، الافق المبین، صدرا، الشمس البازغۃ، میبذی شرح ہدایۃ الحکمۃ، شرح اشارات، وغیرہ پڑھی، نیز اس دوران آپ نے حساب ریاضی اور ہیئت وغیرہ کی کتابیں بھی ان سے پڑھیں ۔(۱۰)
دار العلوم دیوبند میں تعلیم اور پھر تدریس
دہلی اور بھوپال میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند کی طرف عازم سفر ہوئے، یہ ۱۹۱۳م کا زمانہ تھا، دیوبند کی فضا میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا محمد انورشاہ کشمیریؒاور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی علمی وروحانی برکات کا عظیم سلسلہ قائم تھا، ۱۳۳۳ھ بمطابق ۱۹۱۵م کو شیخ الہند مولانا محمود حسن نے حجاز کا مقدس سفر کیا، وہاں گرفتاری کا واقعہ پیش آیا، یوں ان کی دیوبند سے جدائیگی ہوئی اور چند سال تک قید وبند کی صعوبتوں میں رہے۔
اس دوران آپ نے جن حضرات سے استفادہ کیا، ان میں شیخ الہند اور علامہ کشمیریؒ کے علاوہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
دار العلوم دیوبند میں آپ کی تعلیمی مدت(۱۳۳۱ھ تا۱۳۳۹ھ بمطابق ۱۹۱۲م تا ۱۹۲۱م) ۹سال کے طویل عرصہ پر محیط ہیں ، بعد از فراغت ۱۳۳۹ھ تا ۱۳۴۳ھ بمطابق ۱۹۲۱تا ۱۹۲۵م آپ نے دارالعلوم دیوبند میں ایک مایہ ناز مدرِّس کے طور پر خدمات انجام دی، جس کی کچھ تفصیل ذیل میں آتی ہیں :
نو سال کے عرصۂ تعلیم میں آپ نے حضرت شیخ الہند مولانا محمدانور شاہ کشمیریؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ سے علوم عالیہ مثل تفسیر، فقہ اور حدیث وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، تفسیر اور حدیث میں خصوصی طور پر آپ نے حضرت شیخ الہند اور اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ سے استفادہ کیا، اسی وجہ سے ’’ظاہر شاہ‘‘ کے دورِ حکومت میں جب افغانستان میں تفسیر شیخ الہند المعروف بہ تفسیر عثمانی کی پشتو اور درّی زبان میں ترجمہ کی حاجت ہوئی، تو تمام علماء کی نظرِ انتخاب آپ ہی پر پڑی، آپ نے۱۳۶۸ھ بمطابق ۱۹۴۹م میں علماء کی ایک جماعت کی معیت میں اس کا شاندار اور تحقیقی ترجمہ کیا، جو تفسیر کابلی(۱۱)کے نام سے معروف ہے۔
علوم الحدیث خاص طور پر صحاح ستہ کی تعلیم آپ نے علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ سے حاصل کی، علامہ کشمیریؒ اس وقت دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے(۱۲) یہی وہ زمانہ تھا کہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ پشاور سے قصد کرکے دیوبند پہنچے؛ چنانچہ جس وقت آپ دار العلوم دیوبند میں استاذ اور مدرس تھے، اس عرصہ میں حضرت بنوریؒ وسطانی صفوف میں علوم آلیہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کررہے تھے؛ چنانچہ حضرت بنوریؒ سے آپ کی شناسائی طالب علمی کے دور سے رہی اور آخری وقت تک دونوں حضرات میں نہایت گرم جوشانہ بے تکلف اور علمی تعلق رہا، حضرت بنوریؒ آپ کے علم وفضل کے معترف تھے۔
یاد رہے کہ حضرت بنوریؒ کی تاریخ پیدائش ۱۹۰۸م جب کہ مولانا غلام نبی کامویؒ کی تاریخ پیدائش ۱۸۹۵م ہے، اس اعتبار سے آپ حضرت بنوریؒ سے تقریباً بارہ سال عمر میں بڑے تھے، ہر دو حضرات کے علمی تعلق اور باہمی الفت ومحبت کی کچھ تفصیل آگے آئے گی۔
افغانستان، بُھوپَال، دہلی وغیرہ میں کئی برس تک علوم آلیہ میں مغز پچی کرنے کے بعد نو سال تک آپ نے دار العلوم دیوبند میں رہ کر نہایت محنت اورکد وکاوش کے ساتھ تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ میں مہارت حاصل کی، اِس دوران آپ نے اپنی لیاقت کا لوہا منوایا، اپنے رفقا درس میں ہمیشہ آپ ممتاز رہے، دِیُوبند میں آپ کا شمار حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے خاص الخاص شاگردوں میں رَہا۔
سن ۱۳۳۹ھبمطابق ۱۹۲۱م میں آپ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے صحاح ستہ کی اکثر کتب میں شہادت فراغ حاصل کی، اسی سال آپ کا دار العلوم دیوبند میں بطور مدرس تقرر ہوا، پانچ سال تک آپ نے نہایت محنت اور جانفشانی کے ساتھ چھوٹی بڑی کئی کتابوں کی تدریس کی، آپ کی علمی لیاقت اور قابلیت اور حدیث شریف میں کثرتِ مطالعہ کو دیکھتے ہوئے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے آپ کو اپنا ’’معاون مدرس‘‘ مقرر کیا؛ چنانچہ کئی دفعہ ان کی غیابت میں آپ نے صحیح البخاری کا درس بھی دیا، ۱۳۴۳ھبمطابق ۱۹۲۵م تک آپ دارالعلوم دیوبند میں مدرس کے طور پر رہے، ۱۹۲۵م میں آپ وطن جلال آباد لوٹ آئے۔ (۱۳)
آپ کے زمانۂ تعلیم اور تدریس کے تفصیلی حالات ہمیں نہ مل سکے؛ البتہ تاریخی گوشواروں میں موجود بعض اکابر دیوبند کے تاثرات اور آپ سے متعلق ان کے علمی تبصرے ضرور موجود ہیں ، جو آپ کی علمی لیاقت، دانشمندی اور فنِ تدریس میں کامل مہارت کا پتہ دیتی ہیں ، ذیل میں بعض اکابر کے تاثُّرات پیش خدمت ہیں :
علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کے تاثرات
علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے استاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : این ملا کابلی مجتہد عصر است ۔ ایک استاذ کی اپنے شاگرد سے متعلق اس قدر وقیع گواہی بھر پور معنی رکھتی ہے، اور اس وقت اس کی قوت اور ثقاہت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جب مخاطب شیخ الہند جیسا عظیم استاذ ہو۔ (۱۴)
آپ کے رفیق ا ورمعاصر دوست حضرت علامہ محمد یوسف بنوریؒ کا تاثُّر ومشاہدۃ
حضرت بنوریؒ کے بقول حضرت انور شاہ کشمیریؒ کے سفر ومصروفیت کی صورت میں حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ دار العلوم دیوبند کے دورہ حدیث میں بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے۔ (۱۵)
اور غالباً اس امر کا مشاہدہ حضرت بنوریؒ نے اپنے طالب علمی میں کیا ہوگا؛ کیونکہ جس وقت مولانا غلام نبیؒ دیوبند میں مدرس تھے، ٹھیک اسی عرصہ میں حضرت بنوریؒ دار العلوم دیوبند میں وسطانی درجات کے طالب علم تھے، پھر ظاہر ہے حضرت علامہ کشمیریؒ کے اعتماد اور استناد کے بغیر ان کے عظیم منصب پر بیٹھ کر درس حدیث دینا ممکن نہ تھا، اس مذکورہ مشاہدہ سے حضرت کشمیریؒ کے گذشتہ قول کی بھی تایید ہوتی ہے۔
مصری عالم استاذ الشیخ عبد العال عطوہؒ کی گواہی
دار العلوم عربی کابل میں جامعہ ازہر مصر کی طرف سے مبعوث مشہور مصری استاذ الشیخ عبد العال عطوہ نے ایک مجلس محاضرہ میں حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ کے علم وفضل کی گواہی ان الفاظ میں دی : صاحب الفضیلۃ إنکم حقًا لَفَقِیہٌ۔ (۱۶)
ان مذکورہ اقوال وتاثرات سے آپ کے علمی منصب، لیاقت، خداد صلاحیت اور استعداد کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
وطن مالوف واپسی اور دینی وعلمی خدمات
۱۳۴۳ھ بمطابق ۱۹۲۵م کو آپ اپنے آبائی مسکن ووطن واپس لوٹ آئے، کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد آپ نے صوبہ سرحد موجود خیبر پختونخواہ کا رخ کیا اور پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے مشرقی علاقوں مثلا مسجد طرہ قل باے پشاور (۱۷)،دتوسی، اور ڈمگرو (غالبا ڈبگری مراہ ہے)وغیرہ میں تقریبا ۱۹۲۵م سے لے کر ۱۹۳۷م تک 12 سال تدریسی خدمات انجام دی، اس دوران آپ کے سیکڑوں شاگر د ہوئے، شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیریؒ نے بھی اس عرصہ میں آپ سے استفادہ کیا، اسی زمانہ میں ( ۱۹۳۰م تا ۱۹۳۴م) حضرت بنوریؒ نے بھی پشاور کے دو مدرسوں :(۱) مدرسہ تعلیم القرآن یکہ توت اور(۲) مدرسہ رفیع الاسلام بہانہ ماڑی میں تدریسی فریضہ انجام دیا ۔
بعد ازاں آپ افغانستان لوٹ آئے اور دار العلوم عربی کابل میں بحیثیت استاذ کبیر آپ کی تقرری عمل میں آئی اور یوں علوم کشمیری کا فیض ہندو ستان سے افغانستان منتقل ہوا، دار العلوم عربی کا شمار اس وقت کے افغانستان کے نامور اور ممتاز دینی اداروں میں ہوتا تھا، غالباً حضرت علامہ بنوریؒ نے بھی علامہ عبد القدیر لغمانیؒ سے یہی ملا جلال پڑھی۔ (۱۸)
دار العلوم عربی، کابل کا ایک قدیم نیم سرکاری ادارہ تھا، اور اس کا تعارف جامعہ ازہر مصر کے ایک شاخ کے طور پر ہوتا تھا؛ چنانچہ مصری مبعوث اساتذہ کی یہاں ایک معتد بہ جماعت تھی، جو افغانی طلباء کو عربی ادب اور بلاغت وغیرہ کی تعلیم پر مامور تھی، مولانا غلام نبی کامویؒ نے ۱۳۵۶ھ سے لے کر ۱۳۷۴ھ تک بمطابق ۱۹۳۷م تا ۱۹۵۴م یہاں رہ کر منطق، فلسفہ، علم الکلام، فقہ حدیث اور تفسیر کا درس دیا اور نہایت مختصر مدت میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے، یہاں آپ کا قیام 17سال پر محیط رہا، اس دوران آپ کابل کے دیگر مدارس سے بھی وابستہ رہے اور عرصۂ درا ز تک آپ نے بطور شیخ الحدیث حدیث کی مختلف کتابوں کا درس بھی دیا، نیز اسی عرصہ میں سرکاری طور پر آپ کو ریڈیو افغانستان پر درس اور موعظت، اور علمی تقریروں کے لیے بطور مبصر مقرر کیا گیا اورسالہاسال تک آپ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ (۱۹)
صحیح بخاری کی تدریس میں بطور خاص آپ نے اس بات کا اہتمام کیا کہ علامہ محمدانور شاہ کشمیریؒ کی فیض الباری کے علاوہ حافظ ابن حجرؒ کی فتح الباری، علامہ عینیؒ کی عمدۃ القاری، اور علامہ قسطلانیؒ کی ارشاد الساری سے احکام الحدیث، اور تخریج الحدیث کے مباحث کا لب لباب طلبہ کے سامنے بیان کرتے؛ البتہ ترجیحِ راجح اور استنباط مسائل میں ان کا منفرد خاص ذوق تھا؛ چنانچہ آپ کے درس میں طلبہ حنفی مذہب کی تائید میں اس خاص ذوق کو بھر پور ملاحظہ کرتے تھیں ۔
جس وقت مولانا افغانستان آئے اور کابل کے دار لعلوم عربی میں بڑی کتابوں کے مدرس مقرر ہوئے، اس دورانیہ میں وزارت تعلیم کی بڑی شخصیات کے ساتھ علمی اجتماعی اجلاسوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا، ریاست نے آپ کی لیاقت اور قابلیت کے بل بو تے پر آپ کو وزارت تعلیم کے شوری کا صدر مقرر کیا، اس کے ساتھ ہی وزارت اطلاعات کے شرعی مشاور کی حیثیت سے بھی ان کو اہم وظیفہ سونپا گیا، سال ۱۳۷۵ سے ۱۳۷۹ھبمطابق ۱۹۵۶م تا ۱۹۵۹م تک قندہار کے محکمۂ شرعیہ کے قاضی القضاۃ کے طور پر کام کیا‘‘ بعد ازاں سردار محمد داؤد خان کی حکومت میں اعزازاً آپ دار الحکومت کابل کے محکمۂ شرعیہ کے ’’قاضی مُرافع‘‘ مقرر ہوئے، ۱۳۸۷ھ بمطابق ۱۹۶۷م میں حاکم وقت ظاہر شاہ کے حکم پر تشکیل پانے والے نئے ’’مجموعۂ قوانینِ اسلامی‘‘ کے مسودہ کی تصحیح اور ترتیب کے لیے آپ کو اس کمیٹی کا خصوصی رکن نامزد کیا گیا،۱۳۹۰ھ بمطابق ۱۹۷۰م میں آپ کو ’’افغان جمہوری پارلیمان کا سینئر‘‘ نامزد کیا گیا، نیز اس دوران شاہانِ وقت اور امراء کی آپ پر خصوصی عنایات رہیں ،نیز بحیثیت ’’قاضی القضاۃ‘‘ اس وقت کے جرگہ نظام میں قول فیصل آپ ہی کا معتبر ہوتا تھا، قضا اور عدلیہ میں آپ نے کارہائے نمایاں انجام دیے اور آپ نے محکمہ قضا میں قاضیوں کی کئی جماعتوں کی تربیت کی اور انھیں اسلامی قضا کے نشیب وفراز سمجھائے۔ (۲۰)
انیسویں صدی عیسوی میں جن شخصیات نے سرزمینِ افغانستان میں لازوال علمی، تحقیقی اور دعوتی، خدمات انجام دی ہیں ، آپ ان کے سرخیل شمار ہوتے ہیں ، آپ کی خدمات کا دائرہ اور مقبولیت عوام اور خواص میں یکساں رہی،ننگر ہار سے لے کر ہرات تک اور غزنی سے لے کر بلخ و دیگر شمالی علاقوں میں آپ کے سیکڑوں شاگردوں نے آپ کے منہج، فکر اور طرز عمل کو اپنا کر دینِ حنیف کی خوب خدمت کی اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔
مولانا غلام نبی کامویؒ اور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا باہمی تعلق اور رفاقت
مولانا غلام نبیؒ کی مولانا یوسف بنوریؒ سے رفاقت کی مدت اور باہمی تعلق کا زمانہ کافی قدیم ہے؛ چنانچہ سن ۱۹۲۵م میں جس وقت آپ دار العلوم دیوبند کے استاذ تھے، اسی عرصہ میں حضرت بنوریؒ یہاں طالب علم تھے، جیسا کہ ماقبل میں گزرا کہ دیوبند میں حضرت شاہ صاحب کی غیرموجودگی میں صحیح بخاری کی تدریس آپ کے ذمہ تھی اور اس امر کی گواہی حضرت بنوریؒ نے خود دی؛ چنانچہ علامہ کامویؒ کے پوتے شیخ قاضی عامر کاموی (فاضل جامعہ ازہر مصر، مقیم حال ترکیا) نے اپنے والد محترم مولانا عبد العلی کامویؒ کے حوالہ سے یہ روایت راقم کو سنائی کہ قیام دار العلوم دیوبند کے زمانہ میں ہر دو حضرات علامہکشمیریؒ کے ہاں شریک درس بھی رہے، ( یہ وہ زمانہ تھا کہ جب مولانا غلام نبی کامویؒ دار العلوم دیوبند کے استاذ اور حضرت بنوریؒ درجہ موقوف علیہ کے طالب علم تھے) مولانا غلام نبیؒ چونکہ علامہ کشمیریؒ کے معاون مدرس تھے؛ اس لیے آپ علامہ کشمیریؒ کی موجودگی میں بحیثیت قاری شریک ہوتے اور علامہ کی داہنی طرف تپائی پر آپ کی نشست ہوتی اور آپ صحیح بخاری کی قرأت فرمایا کرتے تھے، حضرت بنوریؒ (درجہ موقوف علیہ کے طالب علم تھے اور ابھی تک انھیں علامہ کشمیریؒ سے براہ راہ راست وباقاعدہ علوم حدیث میں استفادہ کا موقع نہ ملا تھا؛ البتہ اپنی فطانت ذہانت اور شدتِ اشتیاق کی وجہ سے ان کا علامہ کشمیریؒ سے گہرا ربط اور علمی تعلق استوار ہوچکا تھا)بھی موقع ملنے پر درس حدیث میں آشریک ہوتے اور حضرت مولانا غلام نبی کامویؒ کی نشست کے پاس ہی بیٹھ جایا کرتے تھے، یہی وہ زمانہ تھا کہ حضرت بنوریؒ علامہ کشمیریؒ کے مشورہ اور حکم سے حدوثِ عالم پر حضرتؒ کی شاہکار تصنیف ’’مرقاۃ الطارم فی حدوث العالم‘‘ کی تخریج میں مصروف تھے۔
قیام کابل کے زمانہ میں جن اساطینِ علم سے مولانا غلام نبی کامویؒ نے تعلیم حاصل کی، انھیں میں سے بطور خاص علامہ عبد القدیر لغمانیؒ سے حضرت بنوریؒ نے بھی تلمذ کیا، جس وقت جلال آباد مولانا غلام نبیؒ کا مسکن تھا، اسی عرصہ میں حضرت بنوریؒ بھی یہاں فروکش رہے۔
ان تمام قرائن کو مد نظر رکھتے ہوئے، یہ بات غالب گمان کے درجہ میں کہی جاسکتی ہیں کہ مولانا غلام نبی کامویؒ کا تعارف اور پھر تعلق مولانا بنوریؒ سے دار العلوم دیوبند کے زمانہ سے بہت پہلے کابل یا جلال آباد میں ہی ہوچکا تھا؛ البتہ حضرت بنوریؒ کی تحریرات میں ان کے باہمی تعلق سے متعلق جو یاداشتیں ملتی ہیں ، وہ سن ۱۹۲۵م کے بعد کے زمانہ پر مشتمل ہیں ، اس سے قبل کی باہمی رفاقت سے متعلق کوئی تحریر ہنوز نہ مل سکی، نیز پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے مشرقی علاقوں میں تقریبا ۱۹۲۵م تا ۱۹۳۷م تک مولانا غلام نبی کامویؒ نے تدریسی خدمات انجام دیں ، اسی زمانہ میں ( ۱۹۳۰م تا ۱۹۳۴م) حضرت بنوریؒ نے بھی پشاور کے دو مدرسوں ؛ مدرسہ تعلیم القرآن یکہ توت اور مدرسہ رفیع الاسلام بہانہ ماڑی میں تدریسی فریضہ انجام دیا، نیز اس دوران حضرت بنوریؒ نے جمعیت علماء سرحد کے صدر کے طور پر بھی دو سال کام کیا؛ لہٰذا دونوں کی باہمی ملاقاتیں ، ایک دوسرے کے پاس آمد ورفت کا زیادہ سلسلہ بھی پشاور ہی میں رہا۔
(باقی آئندہ)
٭ ٭ ٭
حواشی
(۱) دیکھئے :شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:5 و ص:41)، باہتمام :ڈاکٹر عبد الملک کاموی، ط:انتشارات نعمانی، کابل۔
(۲) آپ کا پورا نام نجم الدین آخوند زادہ ہیں ، حضرت ہڈی ملا صاحب سے شہرت رکھتے ہیں ، آپ کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہوسکی، آبائی تعلق افغانستان کے مشہور صوبہ غزنی کے مضافتی علاقہ شیلگرہجویر سے ہے، ابتدائی تعلیم کابل اور غزنی وغیرہ میں حاصل کی، آپ کا خاندان علم وفضل کا حامل کا رہاہے، تحصیل علم کے بعد آپ نے صوبہ ننگر ہار کے ضلع جلال آباد کے ہڈا نامی بستی میں سکونت اختیار کی ، اس وجہ سے آپ کو ہڈے ملا کہا جاتاہے، آپ نے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ عالم دین اور مجاہد مولانا سید عبد الغفور آخوند ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور طویل عرصے تک ان کی راہنمائی میں ارشاد وصلاح لیتے رہے، ان کی سرکردگی اور امامت میں انگریز کے خلاف جہاد بالسیف بھی کیا، اور داد شجاعت پائی، آپ کے خلفا میں حاجی صاحب ترنگزئی، اور مولانا شیخ ولی احمد المعروف بہ سنڈاکی بابا مشہور ہے، آپ کا شمار سلسلہ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے، آپ کی وفات 1319ھ بمطابق 1901م کو ہوئی۔ مزید تفصیلی حالات کے لیے دیکھئے:تذکرہ صوفیائے سرحد، ۔ مؤلفہ اعجاز الحق قدوسی ۔ (ص:575)، ط:مرکزی اردو بورڈ لاہور۔ تاریخ اولیا ۔ ابوالاسفار علی محمد بلخی ۔ (ص:212)، نورانی کتب خانہ پشاور۔
(۳) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:23)، مضمون نگار :خلیل زی۔
(۴) شخصیت ومیراث علَّامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:7)، مضمون نگار :ڈاکٹر عبد الملک کاموی۔
(۵) ماہنامہ بینات اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ، سن 1398ھ بمطابق 1978م (ص:24)، مضمون:مولانا لطف اللہ پشاوریؒ۔
(۶) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:42)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔
(۷) ایضاً:(ص:43)۔
(۸) سہ ماہی فکر وآگہی دہلی ۔ بھوپال نمبر ۔ مقالہ نگار:مفتی جنید صدیقی، (ص:476-481 )
(۹) حضرت بنوری نایاب مضامین، خاکوں ، اور یاداشتوں کا مجموعہ، مرتبہ مولانا محمد عمر نور بدخشانی، (ص:120 – 121)، مضمون نگار:مولانا سید سیاح الدین کاکاخیلوی، ط:زمزم پبلشرز کراچی، 1432ھ۔
(۱۰) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:42)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔
(۱۱) تین جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر فارسی اور دری زبان میں لکھی گئی ہے، افغانستان ، ایران، اور پاکستان سے سالانہ یہ کئی دفعہ چھپتی ہے، اب تک اس کے دسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔
(۱۲) یاد رہے کہ 1929م تک آپ اس منصب جلیل پر فائز رہے، 1929م میں آپ نے گجرات کی طرف رحلت کی، اور دار العلوم اسلامیہ ڈابھیل کے نام سے ایک قد آور مدرسہ کو آباد کیا، 1930م میں اپنے آبائی وطن کشمیر جنت نظیر کا طویل سفر کیا، 1931 میں واپس ڈابھیل آئے، 1933میں آپ کا انتقال ہوا، تدفین دار العلوم دیوبند کے قریب ’’مزارانوری‘‘ میں ہوئی۔ تفصیلی حالات کے لیے دیکھئے:نفحۃ العنبر فی حیاۃ الشیخ محمد نور ۔ مؤلفہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ ۔
(۱۳) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:42)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔
(۱۴) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:1)، مضمون نگار :ڈاکٹر عبد الملک کامویؒ ۔
(۱۵) ایضاً۔
(۱۶) ایضاً۔
(۱۷) لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے عقب میں موجود اس مسجد اور مدرسہ کی بنیاد تین دہائی قبل بخارا(تاجکستان) کے ایک نیک دل تاجر نے رکھی، کسی زمانہ میں یہاں ایک شاندار دارالعلوم ہوا کرتا تھا، گزشتہ 25 سال سے یہاں قوت سماعت سے محروم افراد (نابیناؤں ) کو قرآن حفظ قرآن کرانے کی غرض سے مدرسہ حفظ القرآن کے نام سے ایک مکتب قائم ہے، اور اب تک تقریبا دو ہزار نابینا طلبہ حافظ قرآن بن چکے ہیں ، یہ مملکت پاکستان کا واحد مدرسہ ہے، جہاں معلم اور متعلّم دونوں نابینا ہیں ۔
(۱۸) ماہنامہ بینات، اشاعت خاص بیاد حضرت بنوریؒ (ص:9)، مضمون نگار:مولانا محمد یوسف بنوریؒ، خود نوشت۔
(۱۹) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:45- 47)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔
(۲۰) شخصیت ومیراث علامہ مولوی غلام نبی کامویؒ (ص:45- 47)، مضمون نگار :مولوی محمد ہاشم کاموال۔
دارالعلوم ، شمارہ : 2، جلد:107، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء