محمد سلمان بجنوری

                ہمارے عزیز وطن ہندوستان میں کچھ رواج سا ہوگیاہے کہ وقفے وقفے سے ایسے مسائل کھڑے کیے جائیں یا ایسے شوشے چھوڑے جائیں جو باشندگانِ وطن اور خاص طور پر ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں ، کا چین وسکون درہم برہم کرڈالیں اور اس مقصد کے لیے میڈیا تو ایک عمومی اور مضبوط ذریعہ ہے ہی؛ لیکن میڈیا کے علاوہ جمہوریت کے جو باقی تین ستون ہیں یعنی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ، ان سب کو اپنے اپنے انداز سے ایک منصوبے کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔

                اس وقت جو مسئلہ موجب تشویش بنا ہوا ہے وہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مسئلہ ہے۔ جس کے لیے بعض صوبائی حکومتوں نے پہل کی اور عدلیہ نے اس کو سہارا دیا اور قانون ساز ادارہ پہلے ہی اس کی ترغیب دے چکا ہے، اگرچہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دستور بنانے والوں نے آئین میں جو یونیفارم سول کوڈ کی ترغیب یا گنجائش رکھی ہے وہ مغربی دنیاکے قوانین سے متاثر ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے؛ لیکن بہرحال اس کے سہارے ہماری  حکومتوں کو اس بات کا موقع ملتا ہے کہ وہ اس موضوع کو زیرغور لائیں ۔

                حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ ہی نہیں اور بھی بہت سے ایسے قوانین یا فیصلے جو گزشتہ سالوں میں پارلیمنٹ یا عدالتوں کے ذریعہ سامنے آئے، مغرب کی نقالی کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتے؛ کیوں کہ اُن میں صرف مسلمانوں ہی کے مذہب اور روایات کو نہیں ؛ بلکہ پورے ہندوستان کے مجموعی مزاج کو نظر انداز کیاگیاہے۔ ہندوستان اور مغربی دنیا کا موازنہ اگرکیا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے اکثر لوگ مذہبی مزاج کے حامل ہیں اور انھیں اپنی روایات بہت عزیز ہیں ؛ جب کہ مغرب کا معاشرہ آزادی کے اُس لق ودق صحرا میں سرگرداں ہے جہاں اسے اپنی سمت سفر کا بھی اندازہ نہیں رہ گیا ہے۔

                ایسے میں ہندوستان جیسے رنگارنگ تہذیبوں والے ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات درحقیقت زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مرادف ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے  ساتھ ساتھ اس ملک میں بسنے والے تمام لوگوں کے مذاہب اور تمام قبائل اور ذاتوں کی روایات کو نظر میں رکھے اور پھر سوچے کہ یہ اقدام کیا، ملک میں مطلوبہ قومی اتحاد ویک جہتی کے حصول میں معاون ہوگا یا تمام شہریوں میں مزید انتشار اور بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

                اس کے علاوہ ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ آئین میں یکساں سول کوڈ کی تو صرف گنجائش یا اجازت دی گئی ہے؛ لیکن مذہبی آزادی کو بنیادی حقوق میں شامل کیاگیا ہے اور یکساں سول کوڈ، مذہبی آزادی کے اس بنیادی حق کو لازمی طور پر متاثر کرے گا، خاص طور پر اس لیے کہ مسلمانوں سمیت اکثر مذہبی طبقات کے عائلی یا تہذیبی معاملات درحقیقت اُن کے مذہبی قوانین کے پابند ہیں جن سے دستبردار ہونا اُن کے لیے ناممکن ہوگا۔

                خلاصہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے؛ بلکہ تمام باشندگانِ وطن کی روایات واقدار اور مذہبی آزادی کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہوتا تب بھی سوچنا ضروری تھا کہ اتنی بڑی آبادی کی مذہبی آزادی سلب کرکے ملک کہاں جائے گا؛ لیکن یہ معاملہ تو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ، مسلمانوں کو پریشان کرنے کا اپنا شوق پورا کرنے کے چکر میں پورے ملک کی آبادی کو بے چینی اور انتشار میں مبتلا کردیں ۔

                اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان سے بھی یہ گزارش کردی جائے کہ شریعت پر عمل کی آزادی، اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہوتی ہے، جس کی قدر کرنا ہی اس کے باقی رہنے کا ذریعہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی شریعت کو نافذ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی بے نیاز ذات ہم سے ناراض نہ ہو اور ہم اپنی شریعت پر عمل کی آزادی سے سرفراز رہیں ۔

٭           ٭           ٭

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1، جلد:107‏، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء

Related Posts