حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم سنی کے باوجود ر سول اکرم ﷺ   کا نکاح

از:  مفتی  اشرف عباس قاسمی‏، استاذ دارالعلوم دیوبند

                ام المومنین صدیقۂ کائنات، حضرت عائشہ بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما و ار ضاہما، ان پاکباز اور ستودہ  صفات خواتین میں سے ہیں ، جنہوں نے محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے مالامال ہو کر علم و فضل اور معرفت و دانش مندی کے وہ گہرلٹائے ہیں جس کی ہم سری دنیا کی کوئی خاتون نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں باضابطہ آیات نازل فرما کر آپ کے ذکر کو خلود عطا کر دیا اور آپ کی عفت کے ایقان کو جزء ایمان بنادیا،  زہد و و رع اور دنیا سے بے رغبتی میں بھی اپنی مثال آپ تھیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ پاک نے جس طرح سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت و رسالت کے لیے انتخاب فرمایا تھا، اسی طرح آپ کی زوجیت و مصاحبت کے لیے بھی اعلی صفات کی حامل ازواج مطہرات کو منتخب فرمالیا تھا؛ جن میں گونا گوں خصوصیات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک خاص مقام اور امتیاز حاصل ہے۔

تعارف

                آپ ام المومنین ام عبد اللہ ، عائشہ بنت ابی بکر صدیق،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ اور امت کی سب سے بڑی خاتون فقیہہ ہیں ، آپ کی والدہ: ام رومان بنت عامر ہیں ، آپ نے بر اہِ ر است رسول اکرم … کے علم کا ایک بڑا ذخیرہ نقل کیا ، اپنے والد ابو بکر نیز عمر، فاطمہ، سعد، حمزہ بن عمر و اسلمی اور جذامہ بنت وہب سے آپ نے حدیث روایت کی ہے۔ (سیراعلام النبلاء ۲/۱۴۱)

                علم و فضل اور حدیث وفقہ میں امتیاز: ابن شہاب زہری فرماتے ہیں : ’’لو جمع علم عائشۃ إلی علم جمیع النسائ، لکان علم عائشۃ أفضل‘‘ (سیر اعلام النبلائ۲/۱۴۱)

                ’’حضرت عائشہ کے علم کا جملہ خواتین کے علم سے تقابل کیا جائے تو عائشہؓ کا علم سب سے بڑھا ہو گا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالی نے آپ کو غیر معمولی ذہانت وذ کاوت اور سرعتِ حفظ کی دولت سے نوازا تھا، ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’لم یکن في الأمم مثل عائشۃ في حفظہا وعلمہا وفصاحتہا وعقلہا‘‘۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں :  ’’ما رأیت أحدا أعلم بفقہ ولا بطب ولا بشعر من عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا‘‘۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں :  ’’أفقہ نساء الأمۃ علی الاطلاق، ولا أعلم في أمۃ محمد؛ بل ولا في النساء مطلقًا امرأۃً أعلم منہا‘‘ (امت کی خواتین میں بلاکسی استثناء کے سب سے بڑی فقیہہ ہیں اور اس امت؛ بلکہ دنیا جہاں کی خواتین میں مجھے ایسی خاتون نظر نہیں آتی جو علم وفضل میں آپ سے بڑھی ہوئی ہو)۔

                آپ نے جو احادیث روایت کی ہیں ، ان کی تعداد حافظ ذہبی کے بہ قول دوہزار دو سو دس(۲۲۱۰) ہے، جن میں سے ایک سو ستر احادیث تخریج امام بخاری ومسلم نے مشترکہ طور پر کررکھی ہے، جب کہ ۵۴ میں بخاری اور انہتر میں مسلم منفرد ہیں (سیرأعلام النبلاء ۲/۱۳۹) اس حساب سے بخاری میں آپ کی دو سو اٹھائیس اور مسلم میں دو سو بتیس روایتیں ہیں ۔

زہدوعبادت

                حضرت عائشہؓ کو عبادت سے بھی بڑا شغف تھا، اس کثرت سے روزے رکھتی تھیں کہ آپ پر ضعف طاری ہوگیا تھا، زہد اور دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ حضرت عروہ کے بہ قول ایک بار آپ نے ستر ہزار دراہم صدقہ کردئیے؛ حالاں کہ آپ کے کپڑے پر پیوبند لکھے ہوئے تھے۔ ام ذرہ کہتی ہیں : ’’عبداللہ بن زبیر نے حضرت عائشہ کے پاس دو تھیلوں میں تقریباً ایک لاکھ دراہم بھیجے؛ لیکن شام ہوتے ہوتے اس طرح انھیں تقسیم کردیا کہ ایک درہم بھی نہیں بچ سکا کہ جس سے اس دن کے افطار کا نظم ہوپاتا‘‘۔

رسول اکرم … کی زوجیت میں

                حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قسمت کا ستارہ اس وقت اوج ثریّا پر پہنچ گیا جب وہ دنیا کے سب سے پاکباز انسان، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہوئیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا، بہ وقت نکاح آپ کی عمر پچیس اور حضرت خدیجہ کی چالیس برس تھی، حضرت خدیجہؓ نہایت غم گسار اور اطاعت شعار بیوی تھیں ، ہجرت سے تین سال قبل نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ کی وفات سے آپ کو بڑا رنج ہوا، جانثار صحابہ نے اس کیفیت کو محسوس کرکے آپ کو نکاحِ ثانی کا مشورہ دیا؛ چنانچہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ کے پاس آکر عرض کیا کہ آپ دوسرا نکاح کرلیں ، آپ نے فرمایا: کس سے؟ خولہ نے کہا: بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں ، جس کو پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے، فرمایا: وہ کون ہیں ؟ خولہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابوبکر کی لڑکی عائشہ، ارشاد ہوا: بہتر ہے تم اس کی نسبت گفتگو کرو۔

                حضرت خولہ رضی اللہ عنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔ جاہلیت کا دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے، اس بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عائشہ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہے، آپ سے نکاح کیوں کر ہوسکتا ہے؟ حضرت خولہ نے آکر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، آپ نے فرمایا: ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تھا تو انھوں نے قبول کرلیا۔

                لیکن اس سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جبیربن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں ؛ اس لیے ان سے بھی پوچھنا ضروری تھا، حضرت ابوبکر نے جبیر سے جاکر پوچھا کہ تم نے عائشہ کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی، اب کیا کہتے ہو؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ جبیر کا خاندان ابھی اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا، اس کی بیوی نے کہا: اگر یہ لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بددین ہوجائے گا ہم کو یہ بات منظور نہیں ۔ (مسنداحمد،۶؍۲۱۱، سیرت عائشہ ص۲۴)

                حدیثوں میں آیا ہے کہ نکاح سے پہلے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپ کے سامنے کوئی چیز پیش کررہا ہے، پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہیں ۔ آپ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔  عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اریتک في المنام مرتین، اذا رجل یحملک في سرقۃ حریر، فیقول: ہذہ امرأتک، فاکشفہا، فإذا ہي أنتِ، فأقول: أن یکن ہذا من عند اللّٰہ یمضہ۔ (صحیح بخاری، ۵۰۷۸)

بہ وقت نکاح اور رخصتی حضرت عائشہ کی عمر

                مشہور اور محقق قول یہی ہے کہ بہ وقت نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال کی تھی اور بہ وقت رخصتی نوسال کی تھی۔(بخاری، باب تزویج النبی عائشۃ وقدومہا المدینۃ وبنائہا بہا، ۳۸۹۴)

                اگرچہ بعض حضرات نے اس قول کی تغلیط کی ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بہ وقت نکاح سولہ سال اور بہ وقت رخصتی اٹھارہ سال کی تھیں ، ہمارے دیار میں اس قول کے قائلین میں سرفہرست مولانا محمد علی اور مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی صاحبان ہیں ، مؤخرالذکر کا اس موضوع پر ’’تحقیق عمر صدیقۂ کائنات‘‘ کے نام سے مستقل رسالہ ہے؛ لیکن یہ قول غیرمحقق اورناقابل اعتناء ہے: اس کی متعدد وجوہ ہیں

                (۱) صحیحین کی احادیث اس بات پر متفق ہیں کہ بہ وقت رخصتی حضرت عائشہ نوسال کی تھیں ۔

                (۲) حضرت عائشہؓ نے خود ہی اپنی شادی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ  ’’إنا زفت إلیہ وہی بنت تسع سنین ولعبہا معہا، ومات عنہا وہی بنت ثمان عشرۃ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث:۱۴۲۲)

                اور ظاہر ہے کہ خود صاحب واقعہ کی تصریح کو محض کمزور بنیادوں پر رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور حضرت عائشہ جیسی قوت حفظ وفہم میں ممتاز راویہ کا خود اپنی عمر کے متعلق ایسی غلطی ہونا کہ اپنی گیارہ برس کی عمر کو چھ برس کی اور سولہ برس کی عمر کو نوبرس کی اور اپنی پچیس برس کی بیوگی کو اٹھارہ برس کی عمر کی بیوگی کہہ دے، عجوبۂ روزگار ہے۔

                (۳)         جو حضرات اٹھارہ سال کے قائل ہیں ان کے بہ قول حضرت عائشہ کی پیدائش چار سال قبل بعثت ہوتی ہے؛ حالاں کہ یہ قول محققین کی تصریح کے بالکل خلاف ہے؛ چنانچہ ذہبی کہتے ہیں :  ’’عائشۃ ممن ولدت في الإسلام‘‘ اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’وولدت – یعنی عائشۃ – بعد المبعث بأربع سنین أو خمس سنین‘‘ (الاصابۃ)

                (۴)کتب سیرت میں وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ کا انتقال ۵۷ھ میں بہ عمر تریسٹھ سال ہوا ہے اور یہ اس وقت درست ہوگا؛ جب کہ بہ وقت ہجرت حضرت عائشہ کی عمر ۸ سال تسلیم کی جائے۔

                (۵) ہشام پر طعن کرنے کے بجائے مسئلے پر اس پہلو سے غور کریں کہ حضرت عائشہ جس وقت رخصت ہوکر میکے لائی جاتی ہیں تو وہ جھولے پر سے اورکھیل سے اٹھاکر لائی جاتی ہیں ، ان کی ماں ان کا منھ دھوتی ہیں ، بال برابر کردیتی ہیں ، چھوٹی سہیلیاں ساتھ ہوتی ہیں ، یہاں آکر بھی گڑیوں کے کھیلنے کا شوق باقی رہتا ہے اور تمام واقعات واحادیث میں بالتفصیل مذکور ہیں ، سوال یہ ہے کہ آیا یہ ایک نوبرس کی کم سن لڑکی کا حلیہ ہے یا سولہ برس کی پوری جوان عورت کا؟ (دیکھو: مسند طیالسی، ص۲۰۵، اور دارمی، ص۲۹۲، سیرت عائشہ، ص۳۱۹)

                بہ ہرحال دلائل سے یہ بات متحقق ہے کہ بہ وقت نکاح حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال اور بہ وقت رخصتی ۹ سال تھی۔

مستشرقین کا اعتراض

                اس پر مستشرقین اور متجددین کو سخت اعتراض ہے کہ ایک نوسالہ لڑکی کیسے کسی مرد کے قابل ہوسکتی ہے؟ اور وہ بھی جن کی عمر پچاس سے متجاوز ہو؟

نکاح بہ امر الٰہی تھا

                اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ یہ نکاح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ امر الٰہی فرمایا تھا۔۔۔ جیسا کہ روایت میں تصریح گزرچکی ہے کہ خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نکاح کی بابت بتلادیاگیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا تھا:  ’’إن یکن من عند اللّٰہ یمضہ‘‘۔

                لیکن ظاہر ہے کہ آج کی مادہ پرست، دین بیزار دنیا کو اس جواب سے قناعت اور تسلی نہیں ہوسکتی، تو آئیے ہم اس کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں :

اس عمر میں نکاح کا رواج تھا

                دراصل نکاح ایک معاشرتی عمل ہے؛ بلکہ معاشرتی ضرورت ہے؛ اس لیے نکاح میں ہرجگہ کے معاشرے، وہاں کی تہذیب اور عرف وعادت کو بڑا دخل ہوتا ہے، اس تناظر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ حضرت عائشہ جس معاشرے کا حصہ ہیں ، اس میں کم سنی میں نکاح قطعاً معیوب نہیں ؛ بلکہ متعارف اور رائج ہے؛ چنانچہ:

                (۱) حضرت قدابہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی نومولود لڑکی سے اسی دن نکاح پڑھادیا جس دن وہ پیداہوئی۔ (مرقاۃ ۳/۴۱۷)

                (۲) خود آنحضرت … نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے کم سن لڑکے سلم کا نکاح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نابالغ لڑکی سے کیا تھا۔ (احکام القرآن رازی، ج۲، ص۵۵) بلکہ ترکمانی فرماتے ہیں :  ’’وزوج غیر واحد من الصحابۃ ابنتہ الصغیرۃ‘‘ (ترکمانی علی البیہقی، ج۱، ص۷۶-۷۹)

                بلکہ نو، دس سال کی عمر اس زمانے اور اس معاشرے میں وہ عمر تھی جس میں میاں بیوی کے تعلقات قائم ہوسکتے تھے؛ چنانچہ بخاری شریف میں حسن ابن صالح کا قول نقل کیاگیا ہے  ’’أدرکت جارۃً لنا جدۃً بنت احدی وعشرین سنۃ‘‘ (باب بلوغ الصبیان وشہادتہم، کتاب الشہادات) (ہمارے پڑوس میں ایک خاتون تھیں جو اکیس سال کی عمر میں دادی بن گئی تھیں ) یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس جدہ کا نکاح صغرسنی میں ہوا تھا اور صرف دس سال کی عمر میں اس نے بچہ جنا تھا اور یہی صورت حال اس کی بیٹی کی بھی رہی۔

                امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی ایک خاتون کو دیکھا ہے جو نوسال کی عمر میں بالغ ہوگئی تھی اور دس سال کی عمر میں اس کے یہاں بیٹی کا تولد ہوا (دیکھیے فتح الباری، ج۵، ص۳۱۲) اس لیے فقہاء نے بھی رخصتی اور زفاف کے لیے کسی خاص عمر کی تحدید نہیں کی ہے؛ بلکہ اس کا مدار اس کی طاقت اور جسمانی ساخت پر ہے؛ چنانچہ ہدایہ میں ہے:  ’’أکثر المشائخ علی أنہ لا عدۃ للسن في ہذا الباب، وإنما العدۃ للطاقۃ إن کانت ضخمۃ سمیتہ تطبیق الرجال ولا یخاف علیہا الرمض من ذلک، کان للزوج أن یدخل بہا وإن لم تبلغ تسع سنین‘‘ (اکثر مشائخ کی رائے یہ ہے کہ اس باب (صغیرہ سے جماع) میں عمر کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ اعتبار طاقت وقوت کا ہے، اگر بھاری بھرکم اور موٹی ہو مردوں کو برداشت کرلیتی ہو اور اس کے سبب مرض کا اندیشہ نہ ہوتو شوہر دخول کرسکتا ہے اگرچہ وہ نوسال کی بھی نہ ہو)۔

                اور خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں بھی یہ اہم حقیقت ملحوظ ہے؛ چنانچہ ان کا عقد اگرچہ چھ سال کی عمر میں ہوگیا تھا؛ لیکن رخصتی کے لیے مزید تین سال انتظار کیاگیا اور اس دوران ان کی والدہ اِس کا خاص خیال رکھتی تھیں اور مختلف غذائوں کے ذریعے اس کی تدبیر کرتی تھیں کہ جسم کسی قدر فربہ ہوجائے، چنانچہ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں :  ’’أرادت أمی ان تسمننی لدخولی علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم أقبل علیہا بشيء مما ترید حتی اطعمتنی القئاء بالرطب، فسمنت علیہ کأحسن السمن‘‘ (رواہ ابودائود وابن ماجہ)

                اس لیے اس عرب معاشرے کو ہمارے اس معاشرے پر قیاس کرنا فضول ہے جس میں کمسن لڑکیوں سے نکاح معاشرتی جرم سمجھا جاتا ہے۔

عرب معاشرے میں آج بھی یہ قابل قبول ہے

                بلکہ آج بھی عرب معاشرہ اس کو قبول کیے ہوئے ہے؛ چنانچہ العربیۃ نیٹ نے یکم نومبر۲۰۱۰÷ کو ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان ہی تھا:  ’’صغیرات یفضلن کبار السن والمتزوجین‘‘ (کم عمر لڑکیاں معمر اور شادی شدہ مردوں کو ترجیح دے رہی ہیں ) اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی سکون اور مالی منفعت کی خاطر بہت سی عرب لڑکیاں کبیرالسن مردوں کو ترجیح دیتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک سولہ سالہ طالبہ کہہ رہی ہے کہ اسے اس پر اطمینان اور مسرت ہے کہ اس کا نکاح ایک چھیاسٹھ سالہ مرد سے ہونے جارہا ہے، ۲۰سالہ ’’حفان‘‘ کا کہنا ہے کہ اس کی پانچ بہنیں ہیں اور پانچوں کا نکاح شادی شدہ مردوں سے ہوا ہے اور وہ پانچوں آسودگی اور عافیت کی زندگی گزاررہی ہیں ۔(دیکھیے العربیہ ڈاٹ نیٹ)

                اس لیے اس کی سخت ضرورت ہے کہ نکاح چوں کہ ایک معاشرتی عمل ہے؛ اس لیے اس کے مختلف پہلوئوں میں اس سماج ومعاشرہ کے عرف ورواج کا خاص خیال رکھا جائے۔

                چنانچہ روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ سے نکاح کا مشورہ سب سے پہلے ایک قریشی خاتون حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، اگر کمسنی کا نکاح معاشرتی اعتبار سے معیوب ہوتا تو یقینا وہ خاتون کبھی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا مشورہ دیتیں اورنہ ہی حضرت عائشہ کی والدہ ام رومان کبھی اس کے لیے آمادہ ہوتیں اور کفار مخالفین کو بھی ایک موقع ہاتھ آجاتا اور آپ کی شخصیت کو داغدار کرنے اور آپ کے خلاف پروپیگنڈے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے؛ لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا؛ بلکہ حضرت عائشہؓ اس سے پہلے ہی جبیربن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں ، بیٹے کی ماں کی طرف سے رشتے کا انکار کیے جانے کے بعد ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ منظور کیا تھا۔

گرم آب و ہوا

                دوسری اہم بات یہ ہے کہ کمسنی کے نکاح کومعاشرتی طور پر قبول عام حاصل ہونے میں وہاں کی گرم آب وہوا کو بھی بڑا دخل ہے، جس کے نتیجہ میں لڑکیاں جلد مردوں کے قابل ہوجایا کرتی ہیں ، خاص کر ایسی لڑکیاں جن میں ذہنی نشوونما کی صلاحیت ہوتی ہے قامت اور جسم کے اعتبار سے بھی وہ جلد بڑھتی ہیں ۔ حضرت  علامہ سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں : ’’اس کم سنی کی شادی کا اصل منشاء نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی، ایک تو خود عرب کی آب وہوا میں عورتوں کی غیرمعمولی نشونما کی طبعی صلاحیت موجود ہے، دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قوی میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قد وقامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے،  بہرحال اس کم سنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی زوجیت میں قبول کرنا، اس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن ہی سے ان میں نشوونما، ذکاوت، جودت ذہن اور نکتہ رسی کے آثار نمایاں تھے۔‘‘ (سیرت عائشہ ص۲۵)

حضرت عائشہ کا تأثر

                اس مسئلہ پر اس پہلو سے بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس نکاح کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کبھی اس نکاح پر ناگواری کا اظہار تو کجا، وہ اس کو اپنی بہت بڑی خوش بختی سمجھتی تھیں ، ان کا ایقان تھا کہ وہ دنیا کی سب سے خوش قسمت بیوی ہیں اور کیوں نہ ہو جب کہ شوہر دنیا کے سب سے بہترین انسان، رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے، اس کے ساتھ ہی وہ اپنی اس شادی کو انتہائی مبارک خیال کرتی تھیں اور آپ کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئی؛ اس لیے آپ شوال ہی کے مہینہ میں اس قسم کی تقریبوں کو پسند کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ’’میری شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئی اور بایں ہمہ شوہر کے حضور میں مجھ سے خوش قسمت کون تھیں ‘‘ (صحیح بخاری ومسلم کتاب النکاح)

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری اور آپ کی مسرت کے حصول میں شب وروز کوشاں رہتیں ، اگر ذرا بھی آپ کے چہرے پر حزن وملال کا اثر نظر آتا، بے قرار ہوجاتیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا اتناخیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں ، ایک دفعہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے خفاہوکر ان سے نہ ملنے کی قسم کھابیٹھی تھیں ؛ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نانیہالی لوگوں نے سفارش کی تو انکار کرتے نہ بنا، آپ کے دوستوں کی بھی اتنی ہی عزت کرتی تھیں اور ان کی کوئی بات بھی رد نہیں کرتی تھیں ۔

علم کی اشاعت

                حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم سنی میں نکاح کی متعدد مصلحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا نصف حصہ جو عام نگاہوں سے اوجھل تھا وہ امت کے سامنے آگیا اور علم ومعرفت کے اعتبار سے مسلمانوں کو زبردست نفع پہنچا، علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں : ’’عرب میں خود مردوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا تو عورتوں میں کیا ہوتا، جب اسلام آیا تو قریش کے سارے قبیلہ میں صرف سترہ آدمی لکھ پڑھ سکتے تھے، ان میں شفاء بنت عبداللہ عدویہ صرف ایک عورت تھیں ، اسلام کی دنیوی برکتوں میں یہ واقعہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ نوشت وخواند کا فن بھی فروغ پاتا جاتا تھا، بدر کے قیدیوں میں جو نادار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فدیہ یہ مقرر کیاتھا کہ وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ، صفہ میں کم وبیش سو اصحاب داخل تھے ان کو دیگر تعلیمات کے ساتھ لکھنا پڑھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔

                ازواج مطہرات میں حضرت حفصہ رضی اجللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ، حضرت حفصہ نے خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ فن شفاء بنت عبداللہ عدویہ سے سیکھا تھا  بعض اور صحابیات بھی نوشت وخواند سے آشنا تھیں ۔

                آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ا زواج اور خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس کم سنی کی شادی میں بڑی مصلحت یہ تھی کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فیضان صحبت نے سیکڑوں مردوں کو سعادت کے درجہ اعلیٰ پر پہنچادیا تھا؛ لیکن فطرۃً یہ موقع عام عورتوں کو میسر نہیں آسکتا تھا، صرف ازواج مطہرات اس فیض سے متمتع ہوسکتی تھیں اور پھر یہ نور آہستہ آہستہ انھیں ستاروں کے ذریعے سے پوری کائنات نسوانی میں پھیل سکتا تھا۔

                حضرت عائشہ کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات بیوہ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں داخل ہوئی تھیں ، اس بنا پر ان میں حضرت عائشہ ہی خالص فیضان نبوت سے مستفیض تھیں ، لڑکپن کا زمانہ جو عین تعلیم و تربیت کا زمانہ ہے، ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ کاشانۂ نبوت میں پہنچادی گئیں کہ ان کی ذات اقدس، پُرنور اورکامل بن کر دنیا کی نصف آبادی کے لیے شمع راہ بن جائے۔ (سیرت عائشہ ص۳۱)

                چنانچہ علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف عام عورتوں پر، نہ صرف امہات المومنین پر، نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر؛ بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ رضی اللہ علیہم پر فوقیت عام حاصل تھی، صحیح ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’ما أشکل علینا أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث قط فسألنا عائشۃ إلا وجدنا عند ہا منہ علما‘‘ (ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات کبھی نہیں پیش آئی کہ جس کو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ اہم معلومات ہم کو نہ ملی ہوں ) عطا بن ابی الرباح تابعی رحمۃ اللہ علیہ جن کو متعدد صحابہ سے تلمذ کا شرف حاصل تھا، کہتے ہیں :  ’’کانت عائشۃ أفقہ الناس وأعلم الناس وأحسن رأیا في العامۃ‘‘ (حضرت عائشہ سب سے زیادہ فقیہ، سب سے زیادہ صاحب علم اور عوام میں سب سے زیادہ اچھی رائے والی تھیں )۔

                حفظ حدیث اور سنن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت کا فرض گودیگر ازواج مطہرات بھی ادا کرتی تھیں ؛ تاہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رتبہ کو ان میں سے کوئی بھی نہیں پہنچی، محمودبن لبید کا بیان ہے کہ ازواج مطہرات، بہت سی حدیثیں زبانی یاد رکھا کرتی تھیں ؛ لیکن حضرت عائشہ اور ام سلمہ کے برابر نہیں ، امام زہری کی شہادت ہے: ’’لو جمع علم الناس کلہم وعلم أزواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفکانت عائشۃ أوسعہم علمًا‘‘ (اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جاتا، تو حضرت عائشہ کا علم ان میں سب سے وسیع ہوتا) بعض محدثین نے حضرت عائشہؓ کے فضائل میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’خذوا شطر دینکم عن حمیرائ‘‘ (اپنے مذہب کا ایک حصہ حُمیراء سے سیکھو) اس حدیث کو ابن اثیر ’’نہایہ‘‘ میں اور فردوس اپنی مسند میں (بتغیر الفاظ) لائے ہیں ؛ لیکن لفظاً اس کی سند ثابت نہیں اور اس کا شمار موضوعات میں ہے؛ تاہم معناً اس کے صحیح ہونے میں کس کو شک ہے۔ (سیرت عائشہ ص۱۴۷)

کم سنی میں نکاح مسیحیت اور یہودیت کی نگاہ میں

                یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اس نکاح کے متعلق سب سے زیادہ شکوک وشبہات مستشرقین اور عالم نصرانیت نے پیدا کیے ہیں ؛ حالاں کہ اگر ہم نصرانیت کی اندرون خانہ تلاشی لیں تو یہ حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے کہ مسیحی مصادر، مثلاً انسائیکلوپیڈیا آف کیتھولوجیک کے مطابق حضرت مریم کا نکاح جس وقت یوسف نجار سے ہوا، اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال اور یوسف نجار کی عمر نوے سال سے متجاوز تھی) دیکھے (www.newadvent.org)

                ظاہر ہے یہ محض افسانہ ہے جس کا ہمارے نقطئہ نظر کے اعتبار سے حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ؛ لیکن اس سے اتنا تو ثابت ہے کہ عیسائی چرچ اس کم سنی کو زوجین کی عمر میں اس قدر واضح فرق کے باوجود نکاح کے مناسب خیال کررہا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس عمر کی شادی اس وقت کی ثقافت تھی جو صرف عربوں میں نہیں ؛ بلکہ عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔

                اسی طرح یہودی، بڑی تعداد میں مدینہ منورہ میں رہتے تھے، وہ بھی آپ پر لعن طعن کے مواقع کی تاک میں رہتے تھے؛ لیکن کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نکاح پر یہودیوں نے کبھی بھی تنقید کی ہو، یہ صاف اور صریح دلیل ہے کہ اس طرح کا نکاح اس وقت کے یہودی معاشرے میں بھی قابل قبول تھا۔

یورپی معاشرے میں کم سنی کے نکاح کا تصور

                اسی طرح واشنگٹن پوسٹ میں سارہ بوڈمین کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ مان رہی ہیں کہ اس دور میں بھی مغربی دنیا میں نوسال کی عمر میں جنسی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں ۔ (دیکھیے: واشنگٹن پوسٹ، ۱۰؍مئی ۲۰۰۶÷)

                اسی طرح بی بی سی کی سائٹ پر ایک رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسپین سے تعلق رکھنے والی ایک کم سن بچی نے اپنا پہلا بچہ محض دس سال کی عمر میں جنم دیا ہے اور اس کا خاندان اس پر بے انتہا مسرور ہے؛ بلکہ اس کی دادی کو بلاوجہ اس واقعہ کو میڈیا میں اہمیت دیے جانے پر سخت تعجب ہے؛ کیوں کہ اس معاشرہ کے لیے عام سی بات ہے۔

                ان حقائق سے واضح ہے کہ عقلاً یا عرفاً کسی بھی طرح یہ نکاح ایسا نہیں ہے کہ جس پر واویلا مچایا جائے، اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ شریعت کم سنی میں نکاح کی دعوت دے رہی ہے؛ بلکہ ہماری گفتگو کا حاصل ہے کہ اگر خاص مصالح کے پیش نظر طرفین کی رضامندی سے اس طرح کے نکاح کی نوبت آتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

                خلاصہ یہ ہوا:

                (۱) بہ وقت رخصتی حضرت عائشہؓ کی عمر کے سلسلے میں دوروایتیں ہیں : لیکن اٹھارہ سال والا قول روایت اور درایت دونوں اعتبار سے غلط ہے اور نوسال کی عمر والا قول ہی صحیح اور معتبر ہے، محض اس بنا پر اس قول کی تغلیط درست نہیں ہے کہ اسے ماننے کی صورت میں معاندین کا اشکال لازم آتا ہے؛ اس لیے کہ اس عمر میں نکاح پر کسی قسم کی معذرت یا اظہار ندامت کی کوئی ضرتورت نہیں ہے۔

                (۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے پہلے جبیربن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں اور ایک خاتون یعنی حضرت خولہ بنت حکیم نے سب سے پہلے آپ کو اس نکاح کا مشورہ دیا تھا، یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت کے معاشرے میں زواج کے لیے یہ معروف طبعی عمر تھی اور اس عمر میں نکاح کو معیوب بالکل نہیں سمجھاجاتا تھا۔

                (۳) عرب کا معاشرہ ایسا ہے کہ جس میں گرم آب وہوا کی وجہ سے نشوونماجس تیزی سے ہوتی ہے؛ وہ ہمارے یا کسی اور معاشرے سے بہت حد تک مختلف ہے۔

                (۴)اس وقت بھی مغربی ممالک میں اس عمر میں جنسی تعلقات قائم ہوکر توالد وتناسل کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا اورآج بھی بعض عرب معاشرے میں شادی شدہ، کبیر السن شوہروں سے نکاح کو افضل خیال کیا جاتا ہے۔

                (۵)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم سنی میں نکاح سے متعدد دینی تعلیمی اور تربیتی مصلحتیں وابستہ تھیں اور علم نبوت کا ایک اہم حصہ ان کے ذریعے امت تک پہنچ سکا۔

                (۶) مسیحیت کے بنیادی ماخذ میں یہ مذکور ہے کہ حضرت مریم کا نکاح یوسف نجار سے اس وقت ہوا تھا جب کہ وہ بارہ سال کی اور یوسف نجار نوے سال سے زیادہ کی عمر کے تھے، نیز یہود مدینہ جو قابل اعتراض امور کی تاک میں رہتے تھے، انھوں نے بھی کبھی اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انگلی نہیں اٹھائی، جو اس امر کی صریح دلیل ہے کہ عیسائی اور یہودی معاشرے میں بھی یہ قابل قبول عمل تھا۔

                (۷) آخری بات یہ ہے کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس نکاح سے حد درجہ مطمئن ہیں ، زوجین میں ایسا توافق اور مثالی محبت ہے جس کی نظیربہت کم ملتی ہے، ایسا ہرگز نہیں کہ کبھی بھی ان کے کسی عمل سے اس نکاح پر ناراضگی یا خفگی محسوس ہوئی ہو؛ بلکہ وہ تو اپنی خوش قسمتی پر حددرجہ نازاں تھیں ؛ حالاں کہ ایک موقع ایسا بھی آیا جب انھیں خود خالق کائنات کی طر ف سے اختیار دیاگیاکہ چاہے تو وہ اس نکاح میں ہی رہیں اور اگر چاہیں تو طلاق لے لیں ، دنیا کی بہاریں ان کی منتظر ہیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدائی فرمان کو پیش کرنے سے پہلے احتیاطاً یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تم جواب دینے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرلینا؛ لیکن انھوں نے فوراً کہہ دیا: کیا میں آپ کے سلسلے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی؟ مجھے اللہ اور اس کے رسول ہی پسند ہیں ۔ تو محبت واعتماد کی مضبوط بنیادوں پر قائم ایسے پاکیزہ نکاح کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اور طعن وتنقید کا نشانہ بنانا، حق وانصاف کا گلا گھوٹنا نہیں تو اور کیاہے؟

                اللہ پاک ہم سب کو فہمِ صحیح عطاکریں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رکھیں ؛ آمین، وصلی اللہ علی النبی الکریم محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔

٭           ٭           ٭

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1، جلد:107‏، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء

Related Posts