از: مفتی توقیر عالم قاسمی، استاذِ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال
ماں کا حق باپ پر مقدم
بچے کی پرورش میں محنت ومشقت زیادہ ماں اٹھاتی ہے؛ اس لیے شریعت میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے کی دو حدیثیں پڑھیے:
(۱) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ’’مَنْ أَحقُّ الناسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟ قال: أُمُّکَ، قال: ثُمّ مَن؟ قال: ثمّ أمّک۔ قال: ثمّ مَن؟ قال: ثمّ أمّک۔ قال: ثمّ مَن ؟قال: ثمّ أبُوکَ۔ (بخاری حدیث نمبر: ۵۹۷۱، باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ، مسلم حدیث نمبر: ۱-۲۵۴۸، باب بر الوالدین)
’’ یعنی مجھ پر خدمت اور حسنِ سلوک کا لوگوں میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا: پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا :پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا: پھر کس کا؟(تو چوتھی مرتبہ) آپ نے فرمایا: تمہارے باپ کا ‘‘۔
(۲) بہز بن حکیمؒ سے روایت ہے کہ میرے دادا معاویہ بن قشیریؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ؟ یارسول اللہ! مَنْ أَبَرُّ؟ قال: أمَّک، ثم أمَّک، ثم أمَّک، ثم أباکَ، ثم أباکَ، ثُمَّ الأقربَ فاأقربَ۔ (أبوداؤد حدیث نمبر: ۱۵۳۹، باب فی بر الوالدین، ترمذی حدیث، ۱۸۹۷، باب ماجاء فی بر الوالدین)
یعنی مجھے کس کی خدمت اورکس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے، اس بارے میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں کا، پھر تمہاری ماں کا، پھر تمہاری ماں کا، (اور چوتھی مرتبہ فرمایا:) پھر تمہارے باپ کا، اس کے بعد درجہ بدرجہ اہل قرابت اور رشتہ داروں کا حق ہے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔
ان دونوں حدیثوں میں صراحتاً مذکور ہے کہ خدمت اور حسن ِسلوک کے بارے میں ماں کاحق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے۔
جنت ماں کے قدموں کے میں
ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہاری ماں باحیات ہے؟ عرض کیا:ہاں ! آپ نے فرمایا: إِلْزَمْہَا؛ فَإِنَّ الجنۃَ عندَ رِجْلِہَا۔ (مسند أحمد حدیث نمبر:۱۵۵۳۸، مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر: ۹۲۹۰)
اور حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سوال کیا : یارسول اللہ! ماں باپ کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ہُمَا جَنَّتُکَ وَنَارُکَ۔ وہ تمہاری جنت اور جنہم ہیں ، یعنی تم ان کی خدمت اور حقوق ادا کروگے تو وہ تمہارے لیے دخولِ جنت کا سبب ہیں اور اگر ان کی نافرمانی کروگے اور ان کو ایذاء پہنچاؤگے تو یہ حرماں نصیبی اور باعثِ جہنم ہے۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر: ۳۶۶۲، باب بر الوالدین)
ماں کو محبت کی نظر سے دیکھنے میں مقبول حج کا ثواب
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَامِنْ ولدٍ بارٍّ ینظرُ إلی والدتِہ نظرۃَ رحمۃٍإِلاَّکانَ لہ بکلِّ نظرۃٍ حجۃٌ مبرورۃٌ، قالوا: وإِنْ نَظَرَ إلیہا کلَّ یومٍ مِأَۃَ مَرَّۃٍ؟ قال: نعم! اللّٰہُ أکبرُ وَ أَطْیَبُ۔ (شعب الإیمان للبیہقی،حدیث نمبر:۷۴۷۵، باب بر الوالدین)
’’یعنی ماں کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے والا جو بھی لڑکااپنی ماں کو محبت اور احترام کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کو ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول(نفلی) حج کا ثواب ملتا ہے، صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ وہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے؟ حضور نے فرمایا:ہاں ! اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے۔ اللہ بہت بڑا اور بہت پاکیزہ ہے۔یعنی تمہارے گمان میں جو یہ بات ہے کہ ہر نظر کے بدلے ایک مقبول نفلی حج کا بدلہ کیوں کر ملے گا تو سنو! یہ اجرو انعام اللہ تعالی کی شان اور اس کی وسعتِ رحمت کی نسبت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے، وہ اگر چاہے تو اس سے بھی بڑا اور زیادہ اجر عطا کرسکتا ہے اور اللہ ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک او ر منزہ ہے‘‘۔
ماں کی خدمت پر عظیم بشارت
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ میں سویا ہوا تھا،اسی اثنا میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا،تو میں نے ایک آدمی کو قرآن پڑھتا ہوا سنا، میں نے فرشتوں سے پوچھا: یہ کون ہے؟ جو قرآن کی تلاوت میں مشغول ہے، تو انھوں نے بتایا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی وہ فضیلت اور ثواب ہے جو والدین کے ساتھ نیکی کر نے پر حاصل ہوتا ہے، یہی وہ فضیلت اور ثواب ہے جو والدین کے ساتھ نیکی کر نے پر حاصل ہوتاہے (یعنی یہ جملہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا)،پھر آپ نے ارشاد فرمایا: ’’وَکَانَ أَبَرَ النَّاسِ بِأُمِّہِ‘‘ یعنی حارثہ بن نعمان اپنی ماں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ نے ان کو یہ مقام عطا کیا کہ وہ جنت میں بھی قرآن کی تلاوت کررہا ہے۔ (مسند أحمد حدیث نمبر: ۲۵۳۳۷، صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۷۰۱۵)
بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرناحرماں نصیبی
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاک آلودہو ناک اس شخص کی،خاک آلودہو ناک اس شخص کی،خاک آلودہو ناک اس شخص کی، ۔یعنی گویا آپ نے تین مرتبہ یہ بددعا فرمائی کہ وہ شخص ذلیل و خوار ہو۔پوچھا گیاکہ: یا رسول اللہ! وہ کون شخص ہے؟ جس کے حق میں بددعا فرمائی جا رہی ہے؟آپ نے فرما یا: وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو، یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور وہ شخص ان کی خدمت کرکے اور ان کو راضی کرکے جنت میں داخل نہ ہو سکا؛ کیوں کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا بڑے اجر کی بات ہے اور جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔ (مسلم حدیث نمبر: ۱۰- ۲۵۵۱)
والدین کی نافرمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپرماں باپ کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے۔إِنَّ اللّٰہَ حَرّمَ عَلَیکُمْ عُقُوْقَ الوالدینِ۔ (بخاری حدیث نمبر:۲۴۰۸،مسلم حدیث نمبر: ۱۲-۵۹۳)
اور ایک حدیث میں ہے، حضرت ابو بکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ الذنوبِ یغفر اللّٰہُ منہا ماشائَ إِلاَّ عقوقَ الوالدینِ؛ فإنّہ یُعَجِّلُ لِصاحبِہ فی الحیاۃ ِقبلَ المماتِ۔ (شعب الإیمان للبیہقی حدیث نمبر: ۷۵۰۶)
یعنی شرک کے علاوہ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالی جس گناہ کو چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے؛ مگر ماں باپ کی نافرمانی کا گناہ کہ اس کو نہیں بخشتا؛ بلکہ اللہ تعالی ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔
مشرک ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وِإِنْ جَاہَدَاکَ عَلَی أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْہُمَا، وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا، وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ،ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ، فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ (سورۂ لقمان:۱۵)
ترجمہ: اور اگر وہ دونوں یعنی ماں باپ تجھ پر اس کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے،جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں ، تو تو ان کا کہنا نہ ماننا،اور دنیا میں ان کے ساتھ شرافت سے بسر کیے جانا،اور اسی کی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع ہو،تم سب کو میرے پاس آنا ہے، پھر جو کچھ تم کرتے رہتے تھے میں تمہیں سب جتاؤں گا۔
اور سورۂ عنکبوت میں ہے:
’’اور ہم نے حکم دیا ہے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ سلوک نیک کا؛ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی چیز کو میرا شریک بنا، جس کی کوئی دلیل تیرے پاس نہیں ، تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میرے پاس ہی آنا ہے، میں تم کو جتلا دوں گاکہ تم کیا کچھ کرتے تھے‘‘۔ ( العنکبوت:۸)
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ اگر ماں باپ مشرک اور کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا؛ البتہ اگر وہ شرک وکفر، یا کسی معصیت کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی؛ اس لیے کہ ’’لاَطَاعَۃَلِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِق‘‘ یعنی اللہ کی نا فرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے، ام امؤمنین حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس آئی،جب کہ وہ مشرکہ تھی، تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا کہ میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے اچھا سلوک اور صلہ رحمی کی خواہش رکھتی ہے، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرو۔ (تفسیر قرطبی:۱۰/۲۳۹)
وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا: یعنی دنیا کے حوائج ومعاملات میں (جیسے ان کے ضروری اخراجات اور خدمات وغیرہ)،ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ’’مشرک ماں باپ کے ساتھ اچھی صحبت اختیار کرو جسے شریعت پسند کرتی ہے اور کرم ومروت جس کا تقاضہ کرتی ہے،جیسے ان کو کھانا کھلانا، ان کو کپڑا پہنانا، ان پرظلم وزیادتی نہ کرنا، ان کو نہ جھڑکنا،ڈانٹ ڈپٹ نہ کرنا، اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرنا اور جب وہ مرجائیں تو ان کی تدفین میں شرکت کرنا، وغیرہ۔ (روح المعانی: ۱۲/۱۳۲)
اویس قرنیؓ اور ماں کی خدمت
یمن کے رہنے والے حضرت اویس قرنیؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں دولت ایمان واسلام سے مشرف ہوئے،حضور سے بہت ہی زیادہ عشق و محبت تھی، اپنی تمام تر خواہشات اور تمناؤں کے باوجود آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے؛چوں کہ ان کی بوڑھی ماں تھی، جس کی وہ خدمت اور دیکھ بھال کرتے تھے، ماں کے علاوہ کوئی بھی بیوی بچہ نہیں تھا جو ان کی ماں کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتا، اس مجبوری میں وہ ماں کی خدمت کو چھوڑ کر حضور کی زیارت نہ کرسکے، اور صحابیت کا شرف حاصل نہ کر سکے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی منقبت اور فضیلت میں فرمایا: ’’ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللَّہِ لَأَبَّرَہُ‘‘۔ کہ وہ کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے پر اللہ کی قسم کھالے تو اللہ تعالی اس کو ضرور اس قسم میں بری کردے اور اس کو حانث ہونے نہ دے، مثلا یہ کہے کہ اللہ کی قسم کل بارش ہوگی، تو اللہ تعالی ان کی قسم کی رعایت میں بارش برسادے اور اس کو حانث ہونے نہ دے۔
اور آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’خیرُ التابعینَ أویس‘‘ تمام تابعین میں سب سے افضل اور بہتر اویس قرنی ہیں ۔
اور حضور نے حضرت عمرؓ سے ارشاد فرمایا:اویس قرنی ؓسے جب تمہاری ملاقات ہو تو ان سے اپنے لیے دعاکی درخواست کرنا؛ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدجب حضرت عمرؓ کی اویس قرنیؓ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ان سے اپنے لیے دعاکرائی۔
اویس قرنیؓ کو برص یعنی سفید داغ کی بیماری تھی، انھوں نے اللہ تعالی سے اس سے شفاء اور اس کے ازالہ کی دعا کی تو اللہ نے ان سے یہ بیماری دور فرمادی، صرف ایک دینار یا درہم کے بقدر سفید نشان باقی رہ گیا تھا۔
الحاصل وہ ماں کی خدمت میں مشغولیت کے سبب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر،صحابی ہونے کی عظیم مرتبت گرچہ حاصل نہ کرسکے؛ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے ان کو مستجاب الدعوات اور افضل تابعین ہونے کاجو تمغہ اور تحفہ عطا فرمایا، وہ ان کی منقبت وفضیلت کو بخوبی عیاں کرتا ہے؛بلا شبہ یہ اویس قرنیؓ کے لیے بلند ترین اعزاز ہے۔ (مسلم حدیث نمبر: ۲۲۳،۲۲۴، ۲۲۵- ۲۵۴۲، باب من فضل أویس القرنی۔ مرقاۃ المفاتیح: ۹/ ۴۰۳۵، باب ذکر الیمن والشام وذکر أویس القرنی)
ماں کی قلیل خدمت پر کثیر ثواب
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا،جو خانۂ کعبہ کا طواف کر رہا تھا اور اپنی ماں کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا، یعنی اپنی ماں کو کندھے پر اٹھا کر طواف کرارہا تھا، اس آدمی نے کہا: اے ابن عمر! آپ کا کیا خیال ہے، کیا میں نے اپنی ماں کو بدلہ دیدیا،ان کا میرے اوپر جو حق ہے میں نے وہ ادا کردیا؟ ابن عمرؓ نے فرمایا: نہیں ! اور نہ ایک مرتبہ خندہ پیشانی سے (تم اس کا حق ادا کر سکتے ہو)؛ البتہ تم نے اس کے ساتھ احسان کیا ہے اور اللہ تم کو قلیل خدمت پر کثیر بدلہ اور اجر وثواب عطا فرمائے گا۔ (تفسیر روح المعانی:۹/۷۳، زکریا بکڈپو دیوبند)
ماں باپ کی وفات کے بعد ان کی نافرمانی کرنے والی اولادکیا کرے؟
کسی آدمی نے اپنے ماں باپ، یا ان میں سے ایک کی نافرمانی کی، ان کے حقوق کو ادا نہیں کیا،جس کی وجہ سے والدین اس سے ناراض اور ناخوش رہے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی تو اس نافرمان اولاد کے لیے تلافیِ مافات کی صورت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے برابردعاکرتی رہے، ان کے لیے استغفار کرے اور ایصالِ ثواب کرتی رہے تو اللہ تعالی ان کی ناراضگی اور ناخوشی کو ختم کر دے گا اور اس نافرمان اولاد کا نام ان لوگوں میں شمار کرے گاجو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور ان کی رضا وخوشنودی کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی ایسے بندے کے ماں باپ مرجاتے ہیں ، یا ان دونوں میں سے ایک مر جاتا ہے جو ان کی نافرمانی کیا کرتا تھااور پھر ان کی موت کے بعد وہ ان کے لیے برابر دعا واستغفار کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کو نیک وفرماں بردارلکھ دیتا ہے۔ الفاظ حدیث یہ ہیں : أَنَّ العبدَ لَیموتُ والداہ، أو أحدُہماوأنہ لہما لعاقٌ، فلایزالُ یدعُولہما، ویستغفرُلہما حتی یَکْتُبَہ اللّٰہ بارًا۔ (شعب الإیمان للبیہقی حدیث نمبر:۷۵۲۴، باب فی حفظ حق الوالدین بعد موتہما)
اور ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے ماں باپ، یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کرے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اور اس کا نام نیکوکار اور والدین کی فرماں برداری کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (حوالہ سابق، حدیث نمبر:۷۵۲۲)
اور امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ جس شخص نے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کی، ان کی حیات میں ، پھر ان کے قرض ودین کو ادا کیا اگر ان پر کوئی قرض تھا، ان کے لیے استغفار کیا اور ان کو گالی دینے کا سبب نہیں بنا تو اس کو نیک وفرماں بردار میں شمار کیا جائے کا اور اس کا نام نیکوکار میں لکھ دیا جائے گا۔ (حوالہ سابق، حدیث نمبر:۷۵۲۹)
گالی دینے کا سبب بننا اس طرح ہوتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے اور وہ دوسرا جواب میں اِس کے ماں باب کو گالی دے، تو یہ آدمی اپنے والدین کو گالی دئے جانے کا ذریعہ اور سبب بنا۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ,,إنَّ ہدیۃَ الأحیائِ إلی الأمواتِ الاستغفارُ لَہُمْ،،۔ (شعب الإیمان للبیہقی حدیث نمبر:۷۵۲۷، باب فی حفظ حق الولدین بعد موتہما)
یعنی مُردوں کو زندہ لوگوں کا ہدیہ ان کے لیے استغقار کرنا ہے۔
اللہ تعالی میرے والدین کی، آباء واجداد کی، خویش واقارب کی، ہمارے جملہ اساتذہ کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے! آمین
(۵) بیوہ عورت کے حقوق
زمانۂ جاہلیت میں بیوہ عورت پر ظلم وزیادتی کی انتہاء نہ تھی، شوہر کی وفات کے بعد اس کے مال و جائداد کی طرح اس کی بیوی بھی وارثوں کی میراث شمار ہوتی اور اس پر طرح طرح کے مظالم کیے جاتے، اسلام نے اس دستور اور ظالمانہ رسم سے روکا اور بیوہ عورت کو بے مثال حقوق دیئے؛ چناں چہ قرآن کریم میں اللہ حکیم وقدیر نے فرمایا: یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَیَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَرِثُوْا النِّسَائَ کَرْہاً وَلاَ تَعْضِلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَاآتَیْتُمُوْہُنَّ إِلاَّ أَنْ یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیَّنَۃٍ۔(النساء:۱۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے جبرا ًمالک ہو جاؤ اور نہ انھیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کا کچھ حصہ وصول کرلو، بجز اس صورت کے کہ وہ صریح بدکاری کی مرتکب ہوں ۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں ,, اہلِ جاہلیت کے اس ظلم وتعدی کو روکا جاتا ہے جو تعدی وہ عورتوں پر طرح طرح سے کیا کرتے تھے، سو من جملہ ان صورتوں کے ایک صورت یہ ہوتی تھی کہ جب کوئی مرجاتا تو اس کی عورت کو میت کا سوتیلابیٹا، یا بھائی، یا اور کوئی وارث لے لیتا، پھر چاہتا تواس سے نکاح کرلیتا، یا بغیر نکاح ہی اپنے گھر میں رکھتا، یا کسی دوسرے سے نکاح کرکے اس کا مہر کل یا بعض لے لیتا، یا ساری عمر اس کو اپنی قید میں رکھتااور اس کے مال کا وارث ہوتا(جلالین) اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی مرجائے تو اس کی عورت اپنے نکاح کی مختار ہے،میت کے بھائی اور اس کے کسی وارث کو یہ اختیار نہیں کہ زبردستی اپنے نکاح میں لے لے، نہ وہ عورت کو نکاح سے روک سکتے ہیں کہ وہ مجبور ہوکر خاوند کے ورثہ سے جو اس کو ملا تھا کچھ پھیر دے۔ ہاں صریح بد چلنی کریں تو اس سے روکنا چاہیے۔ (فوائد عثمانی،ترجمۂ شیخ الہند: ۱۰۳،۱۰۴)
تفسیر ماجدی میں ہے:
عرب جاہلیت میں میت کی جائداد کی طرح اس کی بیویاں بھی سوتیلے لڑکوں کے ورثہ میں آجاتی تھیں اور یہی دستور یونانی تمدن اور رومی تمدن کے بھی کسی کسی دور میں رہ چکا ہے۔ (تقسیر ماجدی: ۱/۷۲۸)
حضرت تھانوی ؒفرماتے ہیں :
ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ عورت کو نکاح ثانی نہ کرنے دیاجائے،اور جب وہ مرجائے تو اس کے مال پر خود قبضہ کرلیا جائے۔ بعض مرتبہ خاوند طلاق دینے کے بعد بھی بدون کچھ لیے اس کو نکاح نہ کرنے دیتا۔ (بیان القرآن: ۱/۳۳۲)
تفسیر بغوی اور قرطبی میں ہے:
زمانۂ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کا رویہ اور دستور یہ تھا کہ جب کوئی شخص مرجاتاتو میت کا سوتیلا بیٹا، یا اس کے عصبہ میں سے کوئی قریبی اس عورت پر کپڑا ڈالتااور وہ اس بیوہ عورت کی ذات کا حق دار ہوجاتا، پس اگر وہ چاہتا تو اس سے بغیر مہر کے نکاح کرلیتا،یا اگر چاہتا تو دوسرے سے نکاح کرادیتا، اور اس میں جو مہر ملتاخود رکھ لیتا، یااگر چاہتا تو اس کو یوں ہی چھوڑے رکھتااور اس کو نکاح کرنے سے روکتااور کسی سے بھی نکاح کرنے نہیں دیتا،اسے تنگ کرتا اور تکلیف پہنچاتا؛تاکہ اس بیوہ کو اس کے میت شوہر سے جو مال ملا ہے اسے دے کر اپنی جان چھڑالے، یا وہ بیوہ عورت یوں ہی رہتی؛ تاآں کہ وہ مرجاتی اور وہ اس کے مال کا وارث ہوجاتا۔ شریعت نے اس رسم کو مٹانے کے لیے آیت : ’’یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَیَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَرِثُوْا النِّسَائَ کَرْہاً‘‘ نازل فرمایا؛ لہٰذا اس آیت سے مقصود دور جاہلیت کے اس رسم کو ختم کرنا ہے جس کے تحت وہ بیوہ عورتوں کا اسی طرح وارث ہوتے تھے جس طرح میت کے مال کا وارث ہوتے تھے ۔ (تفسیر بغوی:۱/۵۸۷، تفسیر قرطبی:۵/۹۴، ۹۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیوہ کے ساتھ نرم برتاؤ
عن عبدِ اللّٰہِ بنِ أبی أَوْفَیٰ یقولُ: کانَ رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہ وعلیہ وسلّم یُکْثِرُ الذکرَ، ویُقِلُّ اللغوَ، وَیُطِیْلُ الصلاۃَ، ویَقْصُرُ الخطبۃَ، وَلاَیَأْنِفُ أن یَمْشِیَ مَعَ الأَرْمِلَۃِ والمسکینِ،فیقضِی لہ الحاجۃَ۔(سنن نسائی حدیث نمبر:۱۴۱۴، سنن دارمی حدیث نمبر: ۷۵)
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے ذکر کرتے تھے، بے کار اور لغو بات بہت کم کرتے تھے، نماز لمبی پڑھتے تھے، خطبہ مختصر دیتے تھے، اور آپ کو بیوہ ومسکین کے ساتھ چلنے میں ناگواری نہیں ہوتی تھی، پس ان کے ساتھ چل کر ان کی ضرورت کو پوری فرماتے تھے۔
بیوہ کی خدمت کا ثواب
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : السَاعِیْ علی الأرملۃِ والمسکینِ کالمجاہدِ فی سبیلِ اللّٰہ -وأحسبہ- قال:کالقائمِ لاَیَفْتُرُ، وکالصائمِ لایُفطِرُ۔ (بخاری حدیث نمبر: ۶۰۰۷، باب السعی علی الارملۃ۔ مسلم حدیث نمبر: ۲۹۸۲، باب الاحسان الی الارملۃ)۔
’’یعنی بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گیری اور خدمت کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کے راستے میں سعی کرے یعنی جو شخص بیوہ عورت اور مسکین کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو پوری کرکے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے اس کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور حج کرنے والے کو ملتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گیری کرنے والااس شخص کی طرح ہے جو رات بھر بیدار رہ کر عبادت کرے اور اس میں کوئی سستی اور تھکان نہ ہو اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو (دن کو کبھی) افطار نہ کرے،یعنی مسلسل ہر دن روزہ رکھے، جس کو صائم الدہر کہتے ہیں ‘‘۔
بیوہ بیٹی کی کفالت کا اجر
عن سراقۃَ بن مالکؓ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: أَلاَأَدُلُّکُمْ عَلَی أفضلِ الصدقۃِ؟ ابنتُکَ مردودۃٌ إلیکَ، لیس لہا کاسبٌ غیرَک۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۶۶۷، مسند احمد حدیث نمبر: ۱۷۵۸۶)
ترجمہ: حضرت سُراقہ بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں بہترین اور افضلِ صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ صدقہ اپنی اس بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس پر خرچ کرنا ہے، جو تمہارے پاس واپس بھیج دی گئی ہے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ یعنی اگر تمہاری بیٹی کو اس کے شوہر نے طلاق دیدی ہو یا وہ مرگیا، اور اس کے پاس کسبِ معاش کا کوئی ذریعہ نہ ہو، ایسا کوئی کمانے والا نہ ہوجو اس کی کفالت کر سکے؛بلکہ صرف تم ہی اس کے لیے واحد سہارا ہو؛ اسی لیے ناچار ہوکر تمہارے گھر آن پڑی ہے تو تمہاری طرف سے اس کی کفالت، خبرگیری اور حسنِ سلوک ایک بہترین صدقہ ہے۔ اس پر مال خرچ کرنا افضل صدقہ ہے۔ اللہ تعالی تمام حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے ۔ آمین
دارالعلوم ، شمارہ : 2، جلد:107، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء