بہ قلم: ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند
عنوان دواجزاء پرمشتمل ہے: پہلا جز عورتوں کی میراث پر ہونے والے اعتراضات اور ا ن کے جواب، دوسرا جز یتیم پوتوں کو دادا کا ترکہ نہ ملنے پر ہونے والے اعتراضات اور ان سب کے جواب!
آئیے! پہلے عورتوں کی میراث اور اُن پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں ، فرانس کا ایک مستشرق ہے، جس کا نام (Gaston wiet) گیسٹن ویٹ ہے، اس نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میں عورتوں کو ذلیل و حقیر رکھا گیا ہے؛ یہاں تک کہ میراث میں بھی اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے۔‘‘ (مفتریات ص۳۸، مؤلفہ: محمد عبداللہ السمان بحوالہ: تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)
جواب: (۱) اس اعتراض کا تجزیہ کیجیے کہ کیا یہ الزام درست ہے؟ کیا ساری عورتوں کو اسلام نے مردوں کے مقابلے میں آدھا دیا ہے، یا چند عورتوں کو؟
ظاہر ہے کہ ساری عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے، جیساکہ کتاب وسنت کے ’’ابواب الفرائض‘‘ میں تفصیل موجود ہے اور چند عورتوں کو لے کر اعتراض ہے تو اتنا بڑا پروپیگنڈہ کیوں ؟ پورے اسلام کو بدنام کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر غور کیجیے تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آئے گا، وہ یہ کہ ’’اسلام نے مردوں سے دوگنا عورتوں کو دیا‘‘ ہے، میراث کی سب سے مشہور کتاب اٹھائیے، اس میں ’’اصحاب فرائض‘‘ کو دیکھیے یعنی ان لوگوں کو جن کا ترکہ قرآن وسنت میں مذکور ہے، وہ کل بارہ افراد ہیں ؛ جن میں آٹھ عورتیں ہیں اور مرد صرف چار ہیں ، عورتوں میں (۱) بیوی، (۲) بیٹی، (۳) پوتی، (۴) حقیقی بہن، (۵) علاتی بہن، (۶) اخیافی بہن، (۷) ماں ، (۸) دادی ہے اور مردوں میں (۱) باپ، (۲) دادا، (۳) اخیافی بھائی، (۴) شوہر ہے۔
گویا اسلام نے عورتوں کی زیادہ تعداد کو ترکہ دیا ہے، یعنی حصہ پانے والی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کو اگر دوگنا دیاگیا ہے تو یہ اس وجہ سے معقول ہے کہ ان کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں آدھی ہے تو دوگنا ملنا ہی چاہیے، تبھی تو دونوں صنفوں میں برابری ہوگی! اب یہ کہنا کہ عورتوں کو اسلام نے ذلیل رکھا ہے بالکل غلط ہوگا؛ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے عدل کیا ہے عورتوں کو عزت دی ہے، دوسرے مذاہب میں عورتوں کو ترکہ سے بالکل محروم رکھاگیا ہے۔
غیراسلامی قوانین ومذاہب میں میراث
اگرکوئی اسلام پر اعتراض کرتا ہے تو اُسے اسلام سے اچھا کوئی آسمانی یا انسانی قانون یا مذہب کے طو رپر مانا ہوا قانون پیش کرنا چاہیے، جس میں اسلامی قانون کی طرح پورے بسط و تفصیل کے ساتھ میراث کا قانون موجود ہو، مذاہب عالم کو اسلام سے حقیقت میں کوئی تقابل نہیں ؛ اس لیے کہ وہ یاتو انسانوں کے بنائے ہوے ہیں ، یا ان میں اتنی تبدیلی ہوئی ہے کہ ان کا آسمانی ہونا مشکل ہے اور الٰہی قانون کہنا کسی طرح درست نہیں ؛ لیکن ان کے ماننے والے دنیا میں ہیں تو کیا کوئی میراث کے اسلامی قانون کی طرح کوئی تفصیلی قانون دکھا سکتا ہے؟ جو اسلام سے بہتر ہو! ہرگز نہیں ، سوبار ہرگزنہیں !
عورتوں کے میراث کے پہلو کو لیجیے! تو معلوم ہوگا کہ روے زمین کے تقریباً سارے قوانین ومذاہب میں عورتوں کو میراث سے محروم رکھا گیا ہے، مثال کے طور پر ذیل میں چند مذاہب کا جائزہ لیتے ہیں :
(الف) ’’یونانی قانون‘‘ میں ترکہ صرف لڑکوں کو دیاگیا تھا، اس کی دلیل یہ تھی کہ خاندانی مسائل وحالات کی نگرانی لڑکا ہی کرتا ہے، گھریلو حقوق وفرائض وہی ادا کرتا ہے؛ اس لیے اسی کو ترکہ ملے گا۔ لڑکیوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں اور ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے لڑکیوں کو ترکہ نہیں ملے گا۔ (احکام المیراث ص۵۷ مؤلفہ ڈاکٹر محمد محمد براج بحوالہ تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)
(ب) ’’بابلی قانون‘‘ میں بھی لڑکیوں کو اس صورت میں ترکہ نہیں دیا جاتا تھا جب کہ میت کا لڑکا یا بھائی موجود ہوتا تھا، اگر دونوں موجود نہ ہوتے تو لڑکیوں کو ترکہ ملتا تھا۔ (الاعجاز لنظام المیراث، مؤلفہ احمد یوسف سلیمان)
(ج) ’’یہودی مذہب‘‘ میں میت کی لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملتا تھا جب کہ میت کا کوئی لڑکا موجود نہ ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی شرط تھی کہ لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملے گا جب کہ وہ اپنے قبیلے اور خاندان میں بیاہی جائے، اگر خاندان سے باہر شادی ہوتی تھی تو اس کو ترکہ نہیں ملتا تھا، یہودی مذہب میں بیوی کو بھی ترکہ نہیں دیا جاتا تھا اور بیوی کی کمائی اوراس کے ترکے کا مستحق اس کا شوہر ہوتا تھا۔ (تورات: کتاب گنتی باب ۲۱، ۲۷، باب ۳۶)
(د) ’’عیسائی مذہب‘‘ میں عورتوں کو ناپاک مخلوق مانا جاتا تھا، ان کے یہاں الگ سے کوئی قانونِ میراث نہیں ملتا؛ مگر عیسیٰ علیہ السلام چوں کہ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء ہیں اور تورات کے بدلے ہوئے احکام کو درست کرنے کے لیے تشریف لائے تھے؛ اس لیے مستقل احکامات انجیل میں نہیں ملتے، بالفرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیوں کے یہاں بھی اصولی طور پر توارت کا حکم ہی مسلّم ہے۔ یعنی ان کے یہاں بھی لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں لڑکیوں کو نہ دیا جانا مسلّم تھا۔
(نوٹ) یہاں ایک سوال ہوگا کہ اگر یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے آسمانی اور الٰہی ہونے کا دعویٰ کریں تو کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں مرحوم فرمایا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چوں کہ تورات وانجیل میں تحریفیں ہوتی رہی ہیں ؛ اس لیے یہ حکم بھی انھیں تحریفات میں سے ہوسکتا ہے؛ اور یہ کہ اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کہ میراث کے احکامات قرآن مجید میں بڑے اہم اور سخت ہیں ، میراث پر عمل نہ کرنے والا فاسق اور زبان سے انکار کرنے والا اور میراث کے قرآنی احکامات کو نہ ماننے والا کافر ہے؛ اس لیے اس کے لیے ہمیشہ ہمیش جہنم میں رکھے جانے کی وعید آئی ہے۔ (نسائ:۱۴) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تورات وغیرہ میں یہ حکم قرآن کی طرح ہوگا؛ مگر لوگوں نے اس میں تحریف کی ہوگی۔
(ھ) ’’ہندو مذہب‘‘ میں بھی میراث میں عورتوں کا کوئی حق نہ تھا، منوسمرتی (۹؍۱۰۲) میں لکھا ہے کہ ’’ماں باپ کی ساری دولت بڑا بیٹا لے، چھوٹا اور منجھلا بھائی بڑے بھائی سے اوقات گزاری کریں ، جس طرح والدین سے پرورش پاتے تھے۔‘‘ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۶۱)
یجروید،اتھر وید وغیرہ کا خلاصہ یہ تھا:
۱- عورت اور شودر دونوں نِردھن (مال سے محروم) ہیں ۔
۲- لڑکی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں ہے۔
۳- اگر کسی بیوہ کو اپنے شوہر کی طرف سے کوئی جائیداد ملی ہوئی ہے تو وہ اُسے بیچ نہیں سکتی۔
۴- لڑکا نہ ہوتب بھی لڑکی وارث نہیں ہوسکتی؛ البتہ متبنّیٰ یعنی لے پالک وارث ہوگا۔ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۲۸)
ہندوستان کے قانون میں ۲۰۰۵÷ میں ہندو عورت کو یہ حق دیاگیا کہ باپ کی مشترکہ جائیداد میں لڑکی کا حصہ بھی لڑکے کے برابر ہوگا۔ (تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)
(و) ’’عرب‘‘ میں زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو ترکہ نہ دینے کا رواج تھا، اسی پر سارے عرب عمل کرتے تھے، ان کے یہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ تھی، وہ کہتے تھے:
کَیْفَ نُعْطِي الْمَالَ؟ مَنْ لا یَرْکَبُ فَرَسًا وَلَا یَحْمِلُ سَیْفًا وَلَا یُقَاتِلُ عَدُوًّا (المواریث ص۲۱)
ترجمہ: ہم (اس صنف کو) مال کیسے دیں ؟ جو نہ گھوڑے پر سوار ہوتی ہے، نہ تلوار اٹھاتی ہے اورنہ دشمن سے جان توڑ مقابلہ کرتی ہے!
زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے یہاں عورتوں اور بچوں کو کوئی مال نہ دیا جاتا تھا، نہ ترکہ اورنہ مال غنیمت وغیرہ؛ بلکہ عورتیں مردوں کی دست نگر اور محتاج ہوتی تھیں ، ان کا کھانا، خرچہ، کپڑا اور رہائش مرد برداشت کرتے تھے؛ اس لیے ترکہ بھی نہ دیتے تھے۔ اسلام نے عورتوں کو انصاف دیا، جہاں اُن کو زندہ درگور ہونے سے بچایا، وہیں گھر کی ملکہ بناکرترکہ اورمیراث میں ان کا حصہ مقرر کیا، اُن کو کسی کا محتاج نہ چھوڑا۔
اوپر متعدد مشہور مذاہب میں وراثت کے قانون کا جائزہ لیاگیا، ان کو دوبارہ پڑھیں ، اندازہ ہوجائے گا کہ عورتوں کو ترکہ اور میراث سے محروم رکھنے میں سب کے سب متفق ہیں ، سب ہم آواز ہیں نہ تویونانی اور بابلی قوانین میں عورتوں کو ترکہ دیاگیاہے، نہ یہودیت وعیسائیت میں اور نہ ہی ہندومذہب اور عربی مذہب میں اس کمزور صنف کی اَشْک شوئی کی گئی ہے۔
یہاں سوال ہوتا ہے کہ جب دیگر مذاہب میں عورتوں کو بالکل دیا ہی نہیں گیا ہے تو ان پر اعتراض کیوں نہیں ہوتا، اسلام اُن سے بہرحال بہتر ہے کہ دیا توہے چاہے آدھا ہی سہی! اس کے جواب سے پہلے ہمارے یہاں کی مثل سنیے: ’’غریب کی بیوی سب کی بھوجائی‘‘ (بھابی) یعنی غریب کی بیوی سے سب مذاق کرتے ہیں ، آج اسلام غریب ہے؛ اس لیے مذاق بنا ہوا ہے۔
صرف اور صرف اسلامی قانون میں عورتوں کو عدل کے پیمانے سے تول تول کر ترکہ دیاگیا ہے، اسلام میں عدل ہے، جس کی مثال کسی دوسرے قانون میں کہیں بھی موجود نہیں ۔
جواب (۲): اسلام پر اعتراض تھا کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا ترکہ دیاگیا ہے، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ پورے قانون میں ذوی الفروض کا اگر جائزہ لیا جائے تو صرف تین جگہ ایسا ملے گا اور وہ اس وقت جب کہ مذکرومؤنث دونوں ایک ہی درجے میں ہوں ۔
۱- جب بھائی بہن کے ساتھ وارث ہوں ، اس کی چار شکلیں بنیں گی:
(الف) جب میت کے بیٹے بیٹی وارث ہوں
(ب) جب میت کے پوتے پوتی وارث ہوں
(ج) جب میت کے حقیقی بھائی بہن وارث ہوں
(د) جب میت کے علاتی بھائی بہن وارث ہوں
۲- جب میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوں تو اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو ربع (چوتھائی) اور بیوی کو ثمن (آٹھواں ) ملتا ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو نصف (آدھا) اور بیوی کو رُبع (چوتھائی) ملتا ہے، ان میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ شوہر کو بیوی کا دوگنا دیاگیا ہے۔
۳- جب ماں اور باپ وارث ہوں اور دوسرا کوئی نہ ہوتو ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دوتہائی ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ملتا ہے۔
مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں مذکر کو دوگنا دیاگیا ہے، وہ بھی باریک حکمتوں کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ (۲/۳۷۴) میں لکھتے ہیں :
أنَّ الذکَرَ یُفَضَّلُ علی الأنثٰی إذا کانا في منزلۃ واحدۃ أبدًا؛ لاختصاص الذکور بحمایۃ البیضۃ والذب عن الذمار؛ ولأنَّ الرجالَ علیہم إنفاقاتٌ کثیرۃٌ فہم أحق بما یکون شبہ المجان بخلاف النساء فإنَّہُنَّ کَلٌّ علی أزواجہن أو آبائہِنَّ أو أبنائِہِنَّ۔ وہو قولہ تعالیٰ: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ (نسائ:۳۴)
ترجمہ: مرد کو عورت پر (ترکہ میں ) صرف اسی صورت میں ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے جب کہ دونوں ایک درجے میں ہوں ، (گویا اوپرکی ساری شکلیں اس میں آگئیں ) وطن کی حمایت اور اپنوں کے دفاع میں مرد کے خاص ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ مردوں پر بہت سے اخراجات لازم ہیں ؛ اس لیے مفت کی طرح ملنے والے مال کے زیادہ حق دار ہیں ، برخلاف عورتوں کے؛ اس لیے کہ وہ (بلانکاح) اپنے باپ دادا، بیٹے پوتے اور (نکاح کے بعد) اپنے شوہروں پر بوجھ ہوتی ہیں اور یہ (باتیں ) اللہ تعالیٰ کے قول (میں ) ہیں : مرد عورتوں پر نگراں ہیں ، اس فوقیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال (ان کی کفالت میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے یہاں ’’ایک‘‘ بات تو یہ بیان فرمائی کہ مردوں کو عورتوں سے دوگنا صرف اس صورت میں ملتا ہے جب کہ دونوں ایک ہی درجے کے ہوں ، یہ بات اوپر کی تینوں صورتوں میں خوب واضح ہے کہ ماں باپ، میاں بیوی اور بھائی بہن سب ایک درجہ میں ہیں ۔
’’دوسری‘‘ بات یہ فرمائی کہ ترکہ میں مردوں کو دووجہ سے زیادہ ملتا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ مرد مردانگی کے کام کرتا ہے، اپنے اہل وعیال کی حفاظت میں شیردل ہوکر بیٹھا رہتا ہے، عزت، آبرو اور جان ومال کی حفاظت کے لیے لڑنے کی نوبت آتی ہے تو لڑتا بھی ہے، اس میں شاہ صاحب نے دیگر مذاہب اور عرب کے قیاسی استدلال کو ملحوظ رکھا اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ عورت پر مرد خرچ کرتا ہے، گویا ’’آمدنی بقدر خرچ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مردوں کو دوگنا دیاگیا کہ وہ بیوی بچے، ماں باپ اور خود اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی بیاہ شادی پر خرچ کرتا ہے، بیوی کا مہر دیتا ہے، کھانا، کپڑا اور رہائش کا انتظام کرتا ہے، آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرتا ہے، صدقہ خیرات کرتا ہے، گھر کے لوگوں کے دوا علاج پر خرچ کرتا ہے، کبھی کوئی جرمانہ کسی پر عائد ہوا تو اس کی ادائیگی کرتا ہے۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں :
والحکمۃُ أنَّ الرجال تلحقہم مُؤَنٌ کثیرۃٌ بالقیام بالعِیَالِ وَالضِّیفان والأرقّاء والقاصدین ومؤاسات السائلین وتَحَمُّلِ الغرامات وغیر ذلک۔ (شرح صحیح مسلم)
ترجمہ: (مردوں کو میراث زیادہ دینے کی) حکمت یہ ہے کہ مردوں پر بہت سی مالی ذہ داریاں آپڑتی ہیں ، اہل وعیال، مہمان، غلام، آنے جانے والے کی ذمہ داری، مانگنے والوں کی دل جوئی اور تاوان کا بوجھ وغیرہ۔
رہی عورت تو اس کا اسلام میں کوئی خرچہ نہیں ، شادی سے پہلے اور شادی نہ ہوتو پوری زندگی وہ باپ کے پاس رہتی اور باپ اس کی کفالت کرتا ہے، باپ پر کفالت واجب ہے اور شادی کے بعد شوہرپر شریعت نے نفقہ واجب کیا ہے اور اگر باپ نہیں ہے تو بیٹے پھر بھائی پھر چچا پر نفقہ واجب ہے؛ بلکہ محتاج ہونے کی صورت میں محرم رشتے دار پر بقدر میراث نفقہ واجب رہتا ہے اور وارث کو اس پر مجبور کیا جائے گا۔
والنفقۃ لکل ذي رحم محرم؛ إذا کان صغیرًا فقیرًا أو کانت امرأۃ بالغۃ فقیرۃ أو کان ذکرًا بالغًا فقیرًا زَمِنًا أو أعمٰی۔ (ہدایہ۲/۱۹۲ مکتبہ بُشری کراچی) ویجب علی مقدار المیراث ویجبر علیہ۔ (ایضًا)۔
ترجمہ: ہرمحرم رشتے دار کا خرچہ اس وقت واجب ہے جب کہ وہ نابالغ اور محتاج ہو یا عورت محتاج بالغ ہو یا بالغ محتاج اپاہج یا اندھا ہو اور نفقہ (بالفرض) وراثت پانے کی مقدار کے مطابق واجب ہوتا ہے اور اس (کی ادائیگی) پر رشتے دار کو مجبور کیا جائے گا۔
غور کرنے کا مقام
یہاں سوچنا چاہیے کہ عورت کو اسلام نے ایک طرف تو ترکہ میں حصہ دیا ہے، دوسری طرف مردوں پر اس کا خرچہ واجب ہے تو دونوں طرف سے تو اسی کوملا اور کسی کا خرچہ اس کے ذمہ واجب نہیں ہے تو اس کا تو سب بچا ہی رہ جائے گا، میراث کے ساتھ زندگی بھر کا خرچہ مل جاتا ہے؛ اس لیے وہ بڑے مزے میں رہتی ہیں اور مسلمان عورتوں کا پرس کبھی خالی نہیں رہتا۔
ایک تجربہ
عورتوں کا پیسہ بچا رہتا ہے اور مرد کا خرچہ ہوتا رہتا ہے، اس کا ایک تجربہ ناچیز کو حیدرآباد دکن میں ہوا، بیس سال پہلے جب میں وہاں ’’دارالعلوم‘‘ میں مدرس تھا، تنخواہ ساڑھے تین ہزار تھی، اپنی عادت کے مطابق تنخواہ ملتے ہی اہلیہ کو دوسو روپے دے دیتا تھا؛ تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرلے اور بقیہ سے دوسری ساری ضرورتیں پوری ہوتی تھیں ، اتفاق سے ایک دن ایک مہمان آگئے مہینے کا آخری عشرہ چل رہا تھا، ضیافت کا انتظام نہیں تھا، قرض لیتے ہوے شرم آرہی تھی، اہلیہ نے میری پریشانی کو محسوس کیا، اس نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں میرے پاس پیسے ہیں ، میں نے کہا: تمہارے پاس کہاں سے؟ اس نے کہا کہ آپ جو ہر مہینے دیتے ہیں وہ میرے پاس موجود ہے، پورا گھر تو آپ کی جیب سے چلتا ہے، میرا پیسہ کہاں خرچ ہوگا؟ اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ قرض کے طور پر دے دو؛ تاکہ ضیافت ہوجائے اورتنخواہ ملنے کے بعد یاد سے لے لینا۔ اب اطمینان ہوا اور مہمان کی ضیافت قدرے اچھے انداز میں ہوگئی۔
اس واقعہ میں غور کیجیے کہ گھر کے ذمہ دار مرد کے پاس تین ہزار روپے ہیں وہ خرچ ہوگئے اور عورت کے پاس صرف دو سو روپے ہیں وہ جمع ہیں اور کئی مہینوں کے جمع ہیں ، تو اگر اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا دیا تو وہ بھی بہت ہے۔
شیخ صابونی کی ایک مؤثر مثال
جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے استاذ تفسیر وفرائض شیخ محمد علی صابونیؒ نے فرائض کے موضوع پر ایک لاجواب کتاب لکھی ہے، اس کا نام ہے، ’’المواریث في ضوء الکتاب والسنۃ‘‘ اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ فرض کرو کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے، ترکہ تین ہزار ریال ہے، لڑکے کو دو ہزار اور لڑکی کو ایک ہزار ملے، اتفاق سے لڑکے کی شادی ہوئی اس کی بیوی کا مہر دو ہزار ہے تو اس نے پورے دے دیے اور اس کا ہاتھ خالی ہوگیا ابھی اس کے ذمے بیوی کا نان ونفقہ لباس اور رہائش کا انتظام باقی ہے، ادھر لڑکی کی شادی ہوئی اس کو اپنے شوہر سے مہر مثلاً دوہزار ملے، اس طرح اس کے پاس تین ہزار ریال جمع ہوگئے، اس کا خرچہ نہ پہلے تھا اور نہ بعد میں ہے؛ بلکہ کھانا، خرچہ، لباس وپوشاک اور رہائش کا انتظام سب کچھ اس کے شوہر کے ذمے ہے۔
اب اندازہ کیجیے کہ اسلام میں ترکہ کی تقسیم عقل وانصاف کے مطابق ہے یا عقل وانصاف کے خلاف؟
اعتراض کرنے والے جہاں عورتوں پر ظلم کی باتیں کرتے ہیں ، وہیں اپنے ظلم کو اگر دیکھیں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی، انھوں نے عورتوں کو بکائو مال بنارکھا ہے، دکانوں ، ہوٹلوں اور قحبہ خانوں میں ان کی عزتیں نیلام ہورہی ہیں ، اُن کو اخراجات کا انتظام کرنے کا مکلف بنایا جارہا ہے، حد یہ ہے کہ ان کے معاشرے میں بیوی اپنا کماکر خود کھاتی ہے شوہر اپنا کماکر کھاتاہے، دونوں اپنی رہائش وآسائش کا انتظام خود کرتے ہیں ؛ اس لیے ان کو اسلام پر اعتراض ہوتا ہے، وہ ایک آنکھ سے اسلامی احکام کو دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں ، اگر دونوں آنکھیں کھول کر اسلام کے سارے قوانین کا مطالعہ کریں تو ان کے دل کی آنکھیں بھی کھل جائیں !
اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت ہونے کی بنیاد پر بعض صورتوں میں فرق نہیں کیاہے؛ بلکہ مالی ذمہ داریوں کا خیال کیا ہے، جس کی مالی ذمہ داری زیادہ ہے اس کو زیادہ دیا ہے، اس کی تعبیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الخراج بالضمان‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی ۱۲۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نقصان برداشت کرتا ہے فائدہ بھی اسی کو ملتا ہے۔ اس کی دوسری تعبیر ’’الغُنْمُ بالغرم‘‘ بھی ہے، (الاشباہ والنظائر)۔
جواب (۳) یہ الزام ہے کہ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے آدھا دیاہے، درست نہیں ؛ اس لیے کہ بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ دیاگیا ہے:
۱- اگر کسی عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے ورثاء میں شوہر، ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں اور ترکہ سو روپے ہوں تو شوہر کو بیس، ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو تیرہ روپے تینتیس پیسے اور دونوں بیٹیوں کو مشترکہ طورپر ترپن روپے تینتیس پیسے ملیں گے؛ لیکن اگر دو بیٹی کی جگہ دو بیٹے ہوں تو بیٹے کو مشترکہ طورپر صرف اکتالیس روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے اور باپ اور ماں میں سے ہر ایک کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے اور شوہر کو پچیس روپے ملیں گے۔ تو دیکھیے کہ اس صورت میں بیٹی کی جگہ اگر بیٹا ہوتو بیٹی کا حصہ زیادہ اور بیٹے کا حصہ کم ہے۔ تو یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام نے بیٹے کو زیادہ دیا ہے اور بیٹی کو کم۔
۲- مذکورہ بالا مثال میں اگر بیٹی ایک ہو اور ترکہ سوروپے ہوں تو بیٹی کو چھیالیس روپے پندرہ پیسے ملیں گے اور ایک بیٹا ہوتو اسے اکتالیس روپے چھیاسٹ پیسے ملیں گے۔ یہاں بھی لڑکے کو کم اور لڑکی کو زیادہ مل رہا ہے۔ اس صورت میں شوہر کو پچیس روپے اور ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے۔
۳- اگر ورثاء میں شوہر، ماں اور دو حقیقی بہنیں ہوں اور ترکہ سو روپے ہو تو شوہر کو سینتیس روپے پچاس پیسے ملیں گے، ماں کو بارہ روپے اٹھائیس پیسے اور دونوں بہنوں کو پچاس روپے ملیں گے۔
اگر دو حقیقی بہنوں کی جگہ دو حقیقی بھائی ہوں تو حقیقی بھائی کو صرف تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے اورشوہر کو پچاس روپے اورماں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے۔
۴- اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور وہ شوہر، ماں اورحقیقی بہن چھوڑے اور ترکہ سو روپے ہوں تو شوہر کو بیالیس روپے پچاسی پیسے، ماں کو چودہ روپے اٹھائیس پیسے اور بہن کو بیالیس روپے پچاسی پیسے ملیں گے اور اگر اس صورت میں بہن کی جگہ ایک حقیقی بھائی ہوتو بھائی کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے اندازہ لگائیں کہ بہن کو بھائی کے مقابلے میں کتنا زیادہ مل رہا ہے۔ یہی اسلام کی نوازش ہے؛ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ اسلام میں عورتوں پر ظلم ہوا ہے۔
۵- بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے کافی بڑھ جاتا ہے، مثال کے طورپر ایک آدمی نے اپنی بیوی، ماں ، دوحقیقی بھائی اور دو اخیافی بہن چھوڑی اور ترکہ سو روپے ہیں تو بیوی کو پچیس روپے، ماں کو سولہ روپے اور حقیقی بھائی کو پچیس روپے اور اخیافی بہن کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے؛ لیکن اگر کسی عورت کا انتقال ہو اور وہ شوہر کے ساتھ دو حقیقی بھائی اور دو علاتی بہنوں کو چھوڑے تو ترکہ شوہر کو پچاس روپے اور دونوں حقیقی بھائیوں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے اور دونوں علاتی بہنوں کو تینتیس روپے تینتیس پیسے ملیں گے۔ یہاں دیکھیے کہ دونوں صورتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ ترکہ مل رہا ہے، تو کس منہ سے کہا جائے کہ اسلام نے عورت کو کم دیا ہے؟
۶- اگر کسی نے اپنے شوہر، ماں ، اخیافی بہن اور دو حقیقی بھائی کو چھوڑا اور ترکہ سو روپے ہیں تو شوہر کو پچاس، ماں کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے، تنہا اخیافی بہن کو سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے اور دونوں حقیقی بھائیوں کو مشترکہ طور پر سولہ روپے چھیاسٹھ پیسے ملیں گے تو یہاں دیکھیے کہ عورت کو اس کے برابر والے مرد کے مقابلے میں دوگنا مل رہا ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہوگیا کہ مرد کو عورت کے مقابلے میں آدھا ملا، تو کیا اعتراض کرنے والے اندھے ہیں ؟ یا اللہ نے انھیں اندھا کردیا ہے کہ نظر نہیں آرہا ہے۔؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی تھا
عورت وارث ہوتی ہے مرد نہیں
بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ ان میں عورت وارث ہوتی ہے اور اگر اس کی جگہ اسی کا ہم رتبہ مرد ہو تو وہ وارث نہیں ہوتا، مثال کے طور پر ایک عورت کا انتقال ہوا، اس نے اپنے شوہر، باپ، ماں ، بیٹی کے ساتھ پوتی کو چھوڑا تو پوتی وارث ہوگی اس کو چھٹا حصہ ملے گا؛ لیکن اگر اس کی جگہ پوتا ہوتو وہ عصبۂ قریب باپ کی وجہ سے محروم ہوجائے گا۔
جن صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر حصہ ملتا ہے
۱- اگر کسی نے اپنے ورثاء میں ماں ، باپ اور دو لڑکے چھوڑے تو ماں اور باپ دونوں کو الگ الگ چھٹا حصہ ملے گا اور بیٹا عصبہ ہوگا۔
مسئلہ چھ سے بنے گا باپ کو ایک، ماں کو ایک اور لڑکے کو چار ملیں گے۔
اس صورت میں اگر لڑکے کی جگہ میں دو لڑکی ہوتو اس کو دوتہائی ملے گا، یعنی چھ میں سے چار ملیں گے، گویا اس صورت میں اگر لڑکا ہوتو یا لڑکی ہوتو دونوں کو چھ میں سے چار ملیں گے، دونوں برابر ہوں گے۔
۲-ماں شریک بھائی اور بہن دونوں کو برابر حصہ ملتا ہے، یہاں مرد عورت برابر کے مستحق ہیں ۔ اس کی صراحت قرآن کریم میں ہے۔
۳- اگر کوئی آدمی صرف بیٹا چھوڑے تو سارا ترکہ بیٹا کو ملے گا، تو اگر وہ صرف بیٹی کو چھوڑے تو بھی سارا ترکہ بیٹی کو ملے گا، مطلب یہ کہ تنہا ہونے کی صورت میں بیٹا ہو یا بیٹی دونوں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں ۔
۴- اگر کوئی عورت شوہر اور حقیقی بھائی کو چھوڑے تو دونوں کے درمیان ترکہ آدھا آدھا تقسیم ہوگا شوہر ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے آدھا لے گا اور بھائی عصبہ ہونے کی وجہ سے بچا ہوا آدھا لے گا۔
اگر اس صورت میں بھائی کے بجائے ایک بہن ہوتو وہ بھی ذوالفرض ہونے کی حیثیت سے شوہر کے ساتھ آدھا ترکہ لے گی۔ گویا اس صورت میں عورت ہوتو بھی یا مرد ہوتو بھی دونوں کو برابر ملے گا۔
۵- مرنے والااگر کوئی ماں باپ کے ساتھ ایک لڑکا چھوڑے تو ماں اورباپ دونوں کو برابر یعنی سدس ملے گا۔
جواب (۴): یہ الزام کہ اسلام نے عورتوں کو مردوں سے کم دیا ہے؛ اس لیے بھی درست نہیں کہ قرآنِ پاک میں حصے کل چھ ہیں : ثلثان، (دوتہائی) نصف (آدھا) ثلث (تہائی) ربع (چوتھائی) سدس (چھٹا) ثمن (آٹھواں )۔
(الف) ان سب میں سب سے بڑا حصہ ثلثان (دوتہائی) ہے، اس کو لینے والیاں صرف عورتیں ہیں ، یعنی متعدد بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور علاتی بہن، کسی مرد کو یہ بڑا والا حصہ نہیں ملتا۔ اس سے بھی خوب واضح ہوگیا کہ اسلام نے عورتوں کو زیادہ دیا ہے۔
(ب) اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ان حصوں کو لینے والے ورثاء کل تیئس (۲۳) ہیں ، ان میں سترہ عورتیں اور چھ مرد ہیں ، اس سے بھی اندازہ لگائیے کہ اسلام نے عورتوں کو زیادہ دیے ہیں ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ثلثان کو لینے والیاں تو اوپر ذکر کی گئیں ، نصف بھی وہی چار لیتی ہیں اور ساتھ ہی شوہر کو بھی ملتا ہے۔ ثلث ماں ، ماں شریک بھائی، ماں شریک بہن کو ملتا ہے۔ کل بارہ ہوگئے، ربع میاں بیوی کو ملتا ہے، سدس آٹھ لوگوں کو ملتا ہے یعنی ماں ، دادی، پوتی، علاتی بہن ، اخیافی بہن، اخیافی بھائی اور باپ دادا۔ اور آٹھواں صرف بیوی کو ملتا ہے کل تیئس افراد ہوئے۔ دیکھیے مرد صرف چھ جگہ نظر آئیں گے۔ تو اسے عورت پر ظلم کس طرح کہا جاسکتا ہے؟ یہ تو عورتوں پراسلام کے نوازشات ہیں ۔
اسلام کو چھوڑ کر رواج کو اپنانا
جب متحدہ ہندوستان پر اسلامی حکومت تھی تو وراثت کی تقسیم کے لیے اسلامی قانون رائج تھا اور مغلیہ حکومت تک اس پر عمل ہوتا چلا آرہا تھا؛ مگر جب انگریزوں کا غلبہ ہوگیا اور وہ پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے تو انھوں نے مسلمانوں سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ قرآن وسنت کے مطابق ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں یا رواج کے مطابق؟ دونوں میں فرق یہ تھا کہ اسلامی قانون میں عورتوں کو ترکہ ملتا ہے جب کہ رواج نہ دینے کا ہے تو کیا آپ لوگ لڑکیوں کو دینا چاہتے ہیں یا نہیں ؟
تو اس کا جواب ہندوستان کے کئی اضلاع سے یہ آیا کہ ہم لوگ رواج مطابق ترکہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، عورتوں کو دینا نہیں چاہتے، (مفید الوارثین ص۳۲) یہ کتنا افسوس ناک جواب تھا، اس کو وہی آدمی سمجھ سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کے قانون کی عظمت ہے، جو قرآن وسنت پر ایمان ویقین رکھتا ہے، جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے محبت اور عشق ہے۔
یہ مشرکانہ جواب ان زمینداروں کا تھا جو دنیا کی محبت میں قرآن مجید کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے اور آخرت پر کامل یقین نہیں رکھتے تھے، ان کو معلوم نہیں تھا کہ زبان سے ترکہ کا انکار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور عملاً نہ دینا فسق ہے اور قرآن کے حکم کو حکم نہ سمجھنا کفر ہے جس کی سزا دائمی جہنم ہے۔ ان کا جواب ان عرب جاہلوں کے جواب کی طرح تھا جو لڑکیوں کو زندہ دفن کرتے، یتیموں کا مال کھاتے اور میت کا بڑا لڑکا، یا بھائی یا چچا وغیرہ مال پر قبضہ کرلیتا تھا۔ مالوں پر قبضہ باقی رکھنے کے لیے یتیم لڑکیوں کا نکاح نہیں کرتے تھے۔
میراث غصب کرنے کے لیے بہنوں کی تقسیم کا حیلہ
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عورتوں کو ترکہ سے محروم رکھنے کے لیے بھائی آپس میں بہنوں کی تقسیم کرلیتے ہیں ، ہمارے بہار میں بھی یہ حیلہ چل رہا ہے، مثال کے طورپر دو بھائیوں کی چار بہنیں ہیں تو دونوں بھائی دو دو بہن کو اپنے حصے میں تقسیم کرکے لے لیتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سب جب بھی میکے آئیں گی تو ان کی ضیافت متعلق بھائی کرے گا، واپسی کے وقت کپڑے اور دیگر ہدیے تحفے وہی دے گا اور ترکہ میں بہنوں کو حصہ نہیں دے گا، متعلقہ بہن ترکہ مانگ نہیں سکتی، اگر اس نے کبھی بھی ترکہ مانگا تو سارے لوگ اُسے اُلاہنا دیں گے اور بھائی قطع رحمی کی دھمکی دے گا کہ اگر تعلق باقی رکھنا ہے، آنے جانے کا سلسلہ قائم رکھنا ہے تو ترکہ نہیں ملے گا، اگر لے گی تو تیرے لیے میکے کا دروازہ بند ہوجائے گا۔
یہاں غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ رشتہ داریاں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی نعمت ہیں ، انھیں کوئی کاٹ نہیں سکتا؛ انسان کے کاٹنے سے اللہ کا جوڑا ہوا رشتہ نہیں کٹتا ہے، اگر کوئی قطع تعلق کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ عمل سزا کا سزاوار ہے۔
اس لیے بھائیوں کو ہدیہ تحفہ کی لالچ اور قطع تعلق کی دھمکی دے کر بہنوں کی میراث غصب کرنا جائز نہیں ، یہ گناہِ کبیرہ ہے، اللہ کی تقسیم کو زمین پر قائم کرنا ہم لوگوں کا فریضہ ہے میراث کو خود اللہ تعالیٰ نے تقسیم فرمایا ہے؛ اس لیے ہمیں کسی طرح اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے! ایسا کرنا عرب کے جاہلوں جیسا عمل ہے جو اپنے قریبی رشتہ دار کی عورتوں کو اپنے پاس میراث کے طور پر رکھ لیتے تھے، قرآن پاک میں صاف فرمایاگیا:
یَـٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ ئَامَنُواْ لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَآئَ کَرْہاً (نسائ:۱۹)
ترجمہ: اے مؤمنو! تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم عورتوں کو مجبور کرکے وارث بن جائو۔
عرب اپنے قریبی رشتہ دار کی وفات کے بعد عورتوں کو اپنے قابو میں کرلیتے تھے اور ان کے ساتھ چار طرح کا سلوک کرتے تھے۔
۱- یاتو ان سے بلامہر نکاح کرلیتے تھے، اگر نکاح کا رشتہ جائز ہوتا تھا، یا ان کو مہر نہیں دیتے تھے۔
۲- یا کسی سے ان کا نکاح کرادیتے اور مہر پر خود قبضہ جمالیتے تھے۔
۳- یا ان کو نکاح سے روکے رہتے تھے اور جب وہ اپنا سارا ترکہ اس کو دے دیتیں تو نکاح کی اجازت دیتے تھے۔
۴- یا ان کو موت تک اپنے پاس ہی رکھے رہتے اور مرنے کے بعد اُن کے مالوں پر قبضہ کرلیتے تھے۔ (جلالین)
اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ظلم ہونے کی وجہ سے خصوصی طور پر آیتیں نازل فرمائیں ؛ تاکہ ان کو اُن کا حق مل جائے اور مرد اپنا ترکہ اپنے حق سے زیادہ محض لاٹھی کے زور سے لے لیتے تھے؛ اس لیے ان کے لیے بھی قانون بنادیا؛ تاکہ زیادہ نہ لیں ؛ لیکن نزولِ آیت کا اصل مقصد عورتوں کو حق دلانا تھا۔
عورت کو انصاف دینے کے لیے آیت میراث کا نزول
حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیاتھا، وہ شہید ہوگئے تھے ان کی بیوی، دو لڑکیاں زندہ تھیں ، بھائی نے ترکہ پر قبضہ کرلیا، اب بیوی بہت پریشان ہوئیں ،دونوں بچیوں کے گزر بسر اور شادی بیاہ کا مسئلہ سامنے تھا؛ چنانچہ ان کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور پورا قصہ سنایا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ارجعي فَلَعَلَّ اللّٰہَ سَیَقضِي فیہ‘‘ ابھی واپس جائو اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں فیصلہ فرمائیں ؛ چنانچہ کچھ دنوں بعد وہ پھر دوبارہ واپس آئیں اور رونے لگیں ، ان کی آہ آسمانوں کو پار کرکے عرش تک پہنچ گئی اور آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچیوں کے چچا کو بلایا اور حکم فرمایا کہ مرحوم کی دونوں بچیوں کو دوتہائی اور بیوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور جو بچے وہ تیرا ہے۔ یہ میراث کی پہلی آیت ہے جو ایک مظلوم عورت کی دادرسی اور فریاد رسی کے لیے نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر نسائ:۱۱)
عورتوں کی میراث سے عرب میں ہلچل
جب آیت میراث نازل ہوئی اور عورتوں کو ترکے کا مستحق قرار دیاگیا تو عرب میں اس کا چرچا ہونے لگا انھیں ایسا لگ رہا تھاکہ شاید یہ حکم غلط ہے، رسول اللہ … سے بھول ہوگئی ہے، لوگوں نے ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ ابھی اس حکم کو عام نہ کرو ہوسکتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں کہ یا رسول اللہ! ہم لڑکی کو باپ کے ترکے میں سے آدھا کس طرح دیں گے؛ جب کہ وہ گھوڑے پر سوارنہیں ہوتی ہے، نہ دشمن سے لڑتی ہے اور کیا ہم میراث میں بچوں کو بھی حصہ دیں ؟ جب کہ وہ ہمیں کچھ کام نہیں آتے؛ چنانچہ ان لوگوں نے اپنی تسلّی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا؛ مگر چوں کہ یہ حکم قطعی اور لازمی تھا؛ ا س لیے ان کی ایک نہ سنی گئی۔ (طبری ۷؍۲۳)
میراث کا حکم جبری ہے
میراث کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے؛ اس لیے فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ حکم جبری اور ضروری ہے، کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، علامہ شامی لکھتے ہیں :
الإرثُ جَبْريٌّ لا یَسْقُطُ بالإسقاط۔ (کتاب الدعویٰ ۷/۵۰۵، ایچ، ایم سعید)
ترجمہ: میراث (کا حکم) جبری ہے کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ہے اور اس کے لیے ’’وصیت‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے جس کے معنی ہیں ’’بڑا تاکیدی حکم‘‘ پھر آگے ارشاد فرمایاکہ تم اپنے باپ دادا اور بیٹے پوتے کے بارے میں نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ فائدہ پہنچائے گا (نسائ:۱۱) مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی تقسیم کو بلاکسی غور وفکر کے مان لو، اسی میں خیرپوشیدہ ہے۔ پھر آگے فرمایاکہ ترکہ کی تعیین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ تعالیٰ (بندوں کے احوال ) خوب جانتے ہیں اور باریک گہری سوجھ بوجھ والے وہی ہیں ۔ (نسائ:۱۱) اس لیے اُن پر ایمان لاکرحکم کو فوراً مان لو، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ آگے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو اللہ اور اس کے پیغمبر کی بات مانے گا تواُسے ایسے باغوں میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (نسائ:۱۳) اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے تصویر کے دوسرے رخ کو بھی واضح فرمادیا کہ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کی بات نہیں مانے گا اور اللہ کے حدود (کھینچی ہوئی لکیروں ) سے آگے بڑھے گا اُسے اللہ تعالیٰ آگ میں ڈالیں گے وہ اس میں سدا رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے (نسائ:۱۴)
مذکورہ بالا آیتوں کو بار بار پڑھیے اور اندازہ کیجیے کہ میراث کا حکم کتنا سخت ہے کہ اس کی مخالفت دائرئہ اسلام سے نکال دیتی ہے اورہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیتی ہے۔
حدیث میں وعید: حدیث شریف میں ہے، حضرت انسؓ سے روایت ہے:
مَنْ قَطَعَ مِیْرَاثَ وَارِثِہٖ قَطَعَ اللّٰہُ مِیْراثَہٗ مِنَ الجنَّۃِ یوم القیامۃِ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۱/۲۶۶ باب الوصایا)
ترجمہ: جو آدمی اپنے (ساتھ والے) وارث کی میراث کو کاٹ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹ دیں گے یعنی جہنم میں بھیج دیں گے۔
یتیم پوتوں کی میراث
اب عنوان کے دوسرے جز پر گفتگو شروع کرتے ہیں ، یعنی ’’یتیم پوتوں کی میراث‘‘ یتیم کا لفظ آتے ہی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اسی کے ساتھ محتاج ونادار ہونے کا خیال بھی آتا ہے۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا تو ایک فطری بات ہے؛ مگر محتاج ہونا یتیم کا ضروری نہیں ؛ اس لیے کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یتیم کے پاس اس کے باپ کا چھوڑا ہوا بہت کچھ ہوتا ہے، یا کسی دوسرے رشتہ دار کی طرف سے اُسے کافی کچھ ملا ہوا ہوتا ہے یا ذاتی ملکیت بھی ہوتی ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم رہنا ضروری ہے کہ یتیمی بالغ ہونے سے پہلے ہوتی ہے، بالغ ہونے کے بعد آدمی یتیم نہیں کہلاتا، یہ شرعی اصطلاح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا یُتْمَ بَعْدَ حُلْمٍ۔ (مجمع الزوائد ۱۷۵۳) یعنی بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہے؛ لیکن ہم اپنے عرف میں جوان بلکہ بوڑھے کو بھی باپ کے مرنے کے بعد یتیم کہہ دیتے ہیں ، یہ شرعاً معتبر تعبیر نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعدیہ سمجھنا چاہیے کہ (الف) اسلام کا نظام میراث مستقل اصول وضابطے پر مبنی ہے، قرآن وسنت میں سارے حصوں کی صراحت موجود ہے۔
(ب) یہ انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی ہوسکے، یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے، اس میں ذرابرابر کم وکاست کرنا انسان کے بس میں نہیں ؛ چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہوں ! اس لیے حضرت سعد بن الربیعؓ کی بیوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے انتظار کا حکم فرمایا اگر آپ کے بس میں ترکہ کی تعیین ہوتی توآپ خود متعین فرماکر تقسیم فرمادیتے۔
(ج) پھر یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان جب تک زندہ رہتا ہے، وہ اپنے مال ودولت کا مالک رہتا ہے، اپنی زندگی میں وہ کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اپنے مال سے لین دین کے سارے معاملات کرسکتا ہے اور مرنے کے بعد کے لیے وہ ایک تہائی وصیت کرسکتا ہے اوراگر اس نے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کی ہے اور اس کے سارے ورثاء عاقل وبالغ ہیں تو تہائی سے زیادہ میں بھی وصیت جاری کرسکتے ہیں ۔
(د) ترکہ کی تقسیم کا مدارس شریعت نے قرابت (نزدیکی رشتے) پر رکھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
ألحقوا الفرائِضَ بأہْلِہَا فما بَقِيَ فَہُوَ لِأَوْلٰی رَجُلٍ ذکرٍ۔ (بخاری۲/۹۹۷، مشکوٰۃ۲۰۴۲)
ترجمہ: (میراث کے) حصے، حصّے والوں کو دے دو پھر جو بچے تو وہ بہت قریب آدمی یعنی مرد کے لیے ہے۔
محتاجی پر ترکہ کا مدار نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو مال داروں کے وارث فقراء ومساکین ہوتے، میت کے مال دار بیٹے، پوتے، باپ، دادا، بیوی اور بھائی بہن نہ ہوتے۔
(ھ) اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ترکہ قریب ترین کو ملتا ہے اور دور والے محروم رہتے ہیں ، اس کی صراحت ’’الاقربون‘‘ کی تعبیر کے ساتھ سورہ نساء (۷، ۳۳) میں تین جگہ آئی ہے۔ اسی کو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے اس طرح تعبیر فرمایا ہے:
الأصلُ فیہ أن الأقرب یَحْجُبُ الأبْعَدَ حِرمانًا۔ (حجۃ اللہ البالغہ ۲/۳۷۵ مکتبہ حجاز دیوبند)
ترجمہ: ترکہ میں بنیاد یہ ہے کہ نزدیک والا دور والے کو بالکل محروم کردیتا ہے۔
یہی شریعت کا تقاضا ہے اور عقل کا بھی؛ اگر ایسا نہ ہو اور قریب اور دور سب کو ترکہ ملے تو ہر آدمی آدم کی اولاد ہے، ساری دنیا اس میں شامل ہوگی اور دنیا کے سب سے بڑے مال دار آدمی کا ترکہ بھی ہر انسان کو نہیں پہنچ سکتا اور ایسا کرنا عملاً محال بھی ہے۔
ہرانسان اپنی زندگی میں جو کچھ کماتا ہے اُسے اپنے قریب اہل وعیال، باپ دادا وغیرہ پر خرچ کرتا ہے اورمرنے کے وقت اس کے دل کا داعیہ ہوتا ہے کہ اس کا ترکہ اُس کے قریب سے قریب وارث کو ملے۔
جب مذکورہ بالا پانچوں باتیں تسلیم ہیں تو یہ بھی سمجھیے کہ انھیں اصول کی بنیاد پر باپ کے ہوتے ہوئے دادا کو نہیں ملتا ہے اور دادی وارث نہیں ہوتی ہے؛ حالاں کہ دادا دادی کمزور ضعیف اور محتاج بھی ہوتے ہیں ، ماں کے ہوتے ہوئے میت کی نانی کو نہیں ملتا اور نانا کو بھی نہیں ملتا؛ حالاں کہ نانا نانی بھی ضعیف اورمحتاج ہوتے ہیں اور بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتیوں کو نہیں ملتا، چاہے اُن کے والد زندہ ہوں یا مرچکے ہوں بیٹی موجود ہوتو نواسوں نواسیوں کو ترکہ نہیں ملتا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کسی آدمی کے کئی بیٹے ہوں ، ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے اور ان کی یتیم اولاد موجود ہوتو دادا کے ترکہ میں ان کا حق ہونا چاہیے؛ مگر یہ درست نہیں ہے، یہ موقف قرآن مجید کے خلاف ہے اور عقل ودانش کے بھی خلاف ہے کہ میت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو دے دیا جائے (جواہر الفقہ ۷/۵۳۷، زکریا بک ڈپو دیوبند)۔
ضروری نہیں کہ پوتا چچائوں کے مقابلے میں محتاج ونادار ہوں ، دوسرے یہ کہ غربت کو اگر میراث کا معیار بنایا جائے تو میراث کا خدائی قانون پامال ہوکر رہ جائے گا۔
اجماع صحابہ
قرآن پاک اور حدیث شریف سے استدلال اوپر ذکر کیاگیا، یہاں اجماع صحابہ پیش کیا جارہاہے؛ چنانچہ علامہ ابن حزم ظاہری رقم طراز ہیں :
وَلَا یَرِثُ بَنُو الابنِ مع الابنِ الذَّکَرِ شیئًا أباہم کانَ أو عَمُّہُمْ۔ وہٰذا نَصُّ کلامِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم (في قولہٖ فلأولیٰ رجلٍ ذکرٍ) وإجماعٌ مُتَیَقنٌ۔ (المحلی ۹/۲۷۱)
ترجمہ: بیٹے کی موجودگی میں پوتے کسی چیز کے وارث نہیں ہوتے، ان کے باپ (زندہ) ہوں یا چچا زندہ ہوں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی صراحت ہے اور قابلِ اطمینان اجماع ہے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ صحابہ کے درمیان علم فرائض میں بڑا اونچا مقام رکھتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وأعْلَمُہَا بالفرائض زیدٌ۔
ترجمہ: علم میراث میں زید ان میں سب سے بڑے عالم ہیں ۔
ان کا ارشاد ہے:
ولد الأبناء بِمَنْزِلَۃِ الْوَلَدِ إذ لَم یَکُنْ دُوْنَہُمْ وَلَدٌ، ذَکَرٌ ذَکرُہم کذکرِہم وأناثہم کأناثہم یرثون کما یرثون ویحجبون کما یَحْجُبُونَ ولا یرث ولد الابن مع الابن۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب۷، عینی ۲۳/۲۳۸)
ترجمہ: پوتے پوتیاں لڑکے لڑکی کے درجے میں ہیں ، جب کہ اُن سے قریب کا کوئی لڑکا نہ ہو، ان کے لڑکے (پوتے) لڑکوں کی طرح اور ان کی لڑکیاں (پوتیاں ) لڑکیوں کی طرح ہیں وہ وراثت پائیں گے جس طرح وہ (بیٹے بیٹی) وراثت پاتے ہیں اور حاجب بنیں گے جیسے وہ حاجب بنتے ہیں اور پوتا پوتی، بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہوتے۔
’’یُوصیکم اللّٰہُ في أولادکم‘‘ (نسائ:۱۱) میں اولاد سے مراد بلاواسطہ صلبی لڑکے لڑکیاں ہیں اور اگر بیٹے نہ ہوں تو بیٹے کے بیٹے بیٹیاں اولاد کے قائم مقام ہوں گے اور یہ بھی نہ ہوں تو پوتے کے لڑکے اور لڑکیاں اولاد کے قائم مقام ہوں گے اور ذوی الفروض کو دینے کے بعد مذکر کو دو مؤنث کے برابر والے قاعدے (نسائ:۱۱) سے ترکہ تقسیم ہوگا۔
ناانصافی
اگر یتیم پوتوں کو دیا جائے اور جو بیٹے زندہ ہیں اُن کے بیٹوں کو نہ دیا جائے تو یہ بھی نا انصافی کی بات ہوگی کہ دادا کے ترکہ میں سے کچھ پوتوں کو ملا اور کچھ کو محروم رکھا گیا اور جن کے والد کو ملا ہے وہ اُن تک پہنچ جائے، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اور اگر پہنچے گا بھی تو اپنے والد کا ترکہ ہوگا، دادا کا ترکہ نہیں کہلائے گا۔
اشکال (۱) اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ روایت میں ’’لایَرِثُ ولد الابن مَعَ الابنِ‘‘ ہے، یہاں ابن سے مراد زندہ لڑکاہے، زندہ لڑکے کا بیٹا ترکہ نہیں پائے گا اور جس کا والد مرگیا ہے اس کا لڑکا ترکہ پائے گا۔
جواب: تواس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس عبارت کا یہی مطلب ہوتا تو عبارت یوں ہوتی ’’لا یرثُ الابن مع أبیہ‘‘ کہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ وارث نہیں ہوگا۔
اشکال کرنے والے نے شریعت کے خلاف اپنے من سے یہ مطلب بنایا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ بیٹا کی موجودگی میں ہر طرح کا پوتا اور ہر طرح کی پوتیاں محروم ہوتی ہیں ، پوتے کے محروم ہونے والی عبارت کو زندہ بیٹوں کے بیٹے کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
اشکال (۲): یتیم پوتے ’’اَبْعَد‘‘ (دور) نہیں ہیں ؛ اس لیے کہ جب باپ تھا تو یہ ’’ابعد‘‘ تھا باپ اقرب تھا، باپ کے مرنے کے بعد یہ پوتا اپنے باپ کی جگہ میں ہوکر قریب ہوگیا؛ اس لیے اقرب ہونے کی وجہ سے ترکہ ملنا چاہیے!
جواب: پوتا اپنے باپ کے واسطے سے ہی دادا کا پوتا ہوتا ہے اور یہ اَبعد ہی ہے، باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اور مرنے کے بعد بھی، دونوں صورتوں میں وہ پوتا ہی رہے گا، بیٹا نہیں بن سکتا اور نہ وراثت لینے کے لیے بیٹے کی جگہ آسکتا ہے۔
اس طرح اگر ’’ابعد‘‘ کو اقرب بنایا جائے تو بڑی خرابی لازم آئے گی، اقرب کے مرنے کے بعد ہر ابعد اقرب ہوجائے گا اور باپ کے مرنے کے بعد چچا اور پھوپی اور ماں کے مرنے کے بعد ماموں اور خالہ، باپ اور ماں کا ترکہ پالیں گی؛ حالاں کہ اس کا کوئی قائل نہیں ، اس طرح تو اللہ کا بنایا ہوا نظام میراث درہم برہم ہوجائے گا، اللہ کے قانون کو ہم نہیں بدل سکتے۔
یتیم پوتوں کی مشکل کا حل
یتیم پوتوں کے ترکہ کے سلسلے میں جو احکام اوپر بیان ہوے وہ قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہیں ، اُن میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں مسالک متفق ہیں ؛ اس لیے ان کو بدلنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر پوتا محتاج ہوتو اس کا سہارا کون بنے گا؟ کیا اسلام میں اس کی بے چارگی دور کرنے کی کوئی شکل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل شکلوں میں اس کی آشک شوئی کا سامان موجود ہے۔
۱- سب سے پہلا ذمہ دار اس کا دادا ہے، محض دادا کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے، مسئلہ کا پہلا حل اسی کے ہاتھ میں ہے، اس کی دو شکلیں ہیں :
(الف) اگر وہ چاہے تو ہبہ کردے، عطیہ کے طور پر جتناچاہے دے دے؛ لیکن وہ اتنا ہی دے جس سے دوسری اولاد کا نقصان نہ ہو، (جواہر الفقہ ۷/۵۳۸) اور دے کر رجسٹرڈ کردے؛ تاکہ بعد میں دوسرے ورثاء پریشان نہ کریں ۔
(ب) اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ایک تہائی یا اس سے کم کی وصیت کردے اور اس کو رجسٹرڈ کردے؛ تاکہ مرنے کے بعد پوتوں کو بھی مل جائے۔
مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ کا مثالی اقدام
حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے اپنے بڑے صاحب زادے مفتی رشید احمدؒ کے انتقال کے بعد اُن کے دونوں بیٹے مسیح اللہ اور سمیع اللہ کے لیے اپنے دو بیٹوں کے برابر وصیت کی، بیٹوں کو جمع کرکے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو ان کے لیے ایک تہائی ترکہ کی وصیت کرسکتا ہوں ؛ مگر اس طرح تم سب کا حصہ کم پڑجائے گا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد ان دونوں کو اپنا دوبھائی تصور کرکے تقسیم کرلینا۔ اس پر سب نے ہامی بھری۔ جب تک زندہ رہے اپنے بیٹوں کی طرح ان کی پرورش فرمائی اور وفات کے بعد اُن کو وصیت کیا ہوا ترکہ ملا، ہردادا کو ایسا ہی کرنا چاہیے؛ تاکہ یتیم کی پرورش ہو اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کی زبان بند ہوجائے۔
۲- جب تک یتیم، نابالغ اور کمانے سے عاجز ہے تب تک اس کا نفقہ (خرچہ) چچا پر واجب ہے۔ (عالم گیری ۱/۵۸۵ کتاب النفقات)
علامہ شامیؒ نفقۂ اقارب کی ترتیب پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’جب باپ کے پاس مال نہ ہو اور دادا، یا ماں ، یا ماموں یا چچا خوش حال ہوجائے تو وہ اس پر کیے ہوئے اخراجات کے لیے رجوع کریں ، اسی طرح اگر قریبی رشتہ دار موجود نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار کو نفقہ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر ماں خوش حال ہوتو ماں پر نفقہ ہوگا اور وہ بعد میں اس کے باپ سے وصول کرے گی، اسی طرح اگر باپ نہ ہوتو مذکورہ رشتہ داروں کو نفقہ پرمجبور کیا جائے گا۔ (ردالمحتار ۵/۲۳۵ باب النفقہ)
۳- یتیم پوتے کا والد اگر ترکہ چھوڑ کر مرا ہوتو پوتوں کے لیے وہی کافی ہوگا۔ اس کو پریشانی نہیں ہوگی۔ اس صورت میں اگر چچا اور اس کے لڑکے غریب ہوں تو کیا ان یتیموں کا مال چچا اور چچازادوں کو دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں !
۴- انسانوں کے گزارے کے لیے ترکہ ہی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ بہت سے لوگ بچوں کو یتیم اورمحتاج چھوڑ کر مرجاتے ہیں ، آخر ان کی پرورش کا کوئی نہ کوئی انتظام ہوہی جاتا ہے، اسی طرح اس محتاج یتیم کا بھی انتظام ہوجائے گا۔ (جواہر الفقہ ۷/۵۳۸)
۵- یتیموں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، سرکاری خزانہ سے اس کی کفالت ہوگی، اور اگر حکومت اسلامی ہے تو بیت المال سے یتیموں کو اخراجات دیے جائیں گے۔
۶- اگریتیم کا کوئی نہیں ہے تو عام مسلمانوں پر اس کا انتظام کرنا لازم ہوگا؛ اس لیے ضروری ہے کہ ’’یتیم خانہ‘‘ ہر علاقے میں ہو جو ان کی کفالت کرے!
٭ ٭ ٭
مراجع
(۱) قرآن کریم، سورئہ نساء
(۲) صحیح بخاری، مکتبہ اصح المطابع میرٹھ
(۳) حجۃ اللہ البالغہ، مکتبہ حجاز دیوبند
(۴) مفید الوارثین، دارالاشاعت دیوبند ۱۳۴۹ھ
(۵) جواہر الفقہ، جلد۷، زکریا بک ڈپو دیوبند
(۶) اسلام پر بے جا اعتراضات، مکتبہ نعیمیہ دیوبند
(۷) ماہ نامہ تکبیرمسلسل مارچ ۲۰۱۷م
(۸) ہدایہ ثانی مکتبہ بشریٰ کراچی
دارالعلوم ، شمارہ : 1، جلد:107، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء