از:  ڈاکٹرمولانا اشتیاق احمد قاسمی‏، مدرس دارالعلوم دیوبند

                ’’میڈیکل انشورنس‘‘ کا ترجمہ ہے: طبی یقین دہانی، انشورنس کو ہندی میں ’’بیمہ‘‘ بھی کہتے ہیں تو ترجمہ ہوگا ’’طبی بیمہ‘‘۔ عام آدمی اور انشورنس کمپنی کے درمیان نامعلوم نقصان کے واقع ہونے پر ایک مقررہ رقم ادا کرنے کی وجہ سے نقصان کی تلافی کا معاہدہ ہوتا ہے، مقررہ رقم یک مشت یا قسطوں پر ادا کی جاتی ہے اس کو پریمیم کہتے ہیں ۔ (اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ۴/۴۵۶ لاہور)

                سمندری سفر میں تجار آپس میں اس عنوان سے رقم جمع کرتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس میں سے اس کے نقصان کی تلافی کی جائے گی، اس کی تاریخ ۱۵۴۷ء بتائی جاتی ہے۔ زندگی، املاک، اعضاء، قیمتی دستاویز، اسناد اور ذمہ داریوں کا انشورنس ہوتا ہے، یہاں طبی انشورنس سے متعلق گفتگو ہے۔

                آج کل ایک طرف بیماریوں کی کثرت ہے دوسری طرف علاج مہنگے ہورہے ہیں ، ہر آدمی کے لیے اخراجات کا تحمل ناقابل برداشت ہے۔خصوصاً اعضائے رئیسہ کی بیماری اور کینسروغیرہ میں اخراجات کا تحمل ناقابل بیان حدتک ہوتا ہے؛ اس لیے میڈیکل انشورنس کا رواج ہورہا ہے؛ مگر دنیا میں ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کا راج ہے، اقتصادکی ہرصورت پر سود کی نوعیت کا بول بالا ہے، سوچنے والے سودی نقطئہ نظر سے ہی سوچتے ہیں ۔ سودی شکلیں ہی سامنے آتی ہیں ؛ چاہے اس میں بہ ظاہر تعاون کا پہلو بھی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انشورنس کی شکلوں میں شاید وباید ہی کوئی شکل ایسی ہوتی ہے، جس پر سودیا جوئے کا یا ان دونوں کا اطلاق نہ ہوتا ہو؛ میڈیکل انشورنس میں بھی یہی علت موجود ہے؛ اس لیے عام حالات میں میڈیکل انشورنس ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اگر محدود مدت کے اندر بیماری پیش آئے تو سود کے ساتھ رقم ملتی ہے اور بیماری پیش نہ آئے تو جمع رقم واپس نہیں کی جاتی اور اس طرح اس پر قمار کی تعریف صادق آتی ہے۔

                میڈیکل انشورنس کا حل یہ نہیں ہے کہ رائج صورتوں میں حلال کی نشاندہی کی جائے، یا حیلوں کے ذریعے حرام کو اپنایا جائے؛ بلکہ اہل علم، زعمائے ملت اوراہلِ خیر حضرات کو سرجوڑ کر بیٹھناچاہیے اوراس کی متبادل شکل تلاشنی چاہیے، ملی تنظیموں کے ذریعہ اس کا متبادل تیار کرنا مشکل نہیں ، جنوبی ہند میں بعض غیرمسلم پیشوائوں نے مفت طبی ادارے قائم کررکھے ہیں اور وہ بلافرق مذاہب ہر ایک کا علاج مفت کرتے ہیں ؛ جب کہ اُن کے مذہب میں آخرت کا تصور بالکل دھندلا اور سراب کی مانند ہے، پھر بھی وہ اپنے مذہب کے اہلِ ثروت سے تعاون حاصل کرکے بڑے اخراجات والے ادارے چلاتے ہیں ، مسلمانوں کے یہاں آخرت کا تصور ہے، ان میں خرچ کرنے کا جذبہ ہے اورمجبور ولاچار کی امداد کرنے کا قابلِ فخر حوصلہ ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا ادارہ ہو جو ضرورت مندوں کو بالکل مفت ان امراض کا علاج فراہم کرے اور مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کا انتظام کرے۔ آخر مذہبی ضرورت کی تکمیل کے لیے دینی مدارس بالکل مفت تعلیم فراہم کررہے ہیں یا نہیں ؟ ملی تنظیمیں ملت کے لیے کثیر رقم خرچ کرکے اُن کے مفاد کے کام کررہی ہیں یا نہیں ؟ اگر سوچا جائے تو انشورنس کا متبادل سامنے آسکتا ہے۔ کام مشکل ضرور ہے؛ مگر ناممکن نہیں ۔

حکومت سے درخواست

                اگر ممکن ہوتو حکومتِ ہند سے یہ درخواست کرنے کے سلسلے میں بھی سوچا جائے کہ پریمیم کی رقم لیے بغیر حکومت عوام کا تعاون کرے، اس صورت میں اگر تعاون کی مقدار کم ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ، حلال کے دائرے میں بات رہے گی۔

باہمی تعاون کی شکل

                ایسا بھی ممکن ہے کہ نام زد مسلمانان اکٹھے ہوں اور طبی تعاون کے عنوان سے رقم اکٹھا کریں اور یہ طے ہوکہ جتنے لوگ جمع کررہے ہیں اُن کا علاج اسی جمع شدہ رقم سے کی جائے گی، چاہے رقم جتنی بھی خرچ ہو۔

 میڈیکل انشورنس کی شرعی حیثیت

                میڈیکل انشورنس میں چوں کہ سود اور جوا دونوں ہیں ؛ اس لیے عام حالات میں اس سے استفادہ ناجائز ہے، اس میں جمع شدہ قسطوں سے زیادہ سے بھی انتفاع ہوتا ہے جو سود ہے اور مقررہ مدت میں بیمار نہ ہونے کی صورت میں رقم واپس نہیں ملتی؛ اس لیے جوا ہے اس میں تملیک علی الخطر کا پہلو غالب ہے۔ تعاون کا پہلو غیرسرکاری کمپنیوں میں بالکل نہیں ہے اور سرکاری میں کچھ ہے؛ مگر ابتدائی طور پر جمع شدہ پریمیم کی وجہ سے وہ بھی سود کے دائرے میں آتا ہے؛ اس لیے ناجائز تعاون ہے۔

قانوانی مجبوری میں میڈیکل انشورنس

                اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے میڈیکل انشورنس کرانا پڑرہا ہوتو اس کی گنجائش ہے؛ مگر بہ قدر مجبوری ہی۔ الاشباہ والنظائر میں قاعدہ ہے: مَا أُبِیْحَ لِلضَّرورۃِ یَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہا۔

                یعنی: جو چیز مجبوری کی وجہ سے جواز کے دائرے میں لائی جاتی ہے وہ اسی مجبوری کی حد میں محدود مانی جاتی ہے۔

                اور اگر شرط پائے جانے کی صورت میں انتفاع کی نوبت آئے تو وہ شخص جو مجبور ہے، اس کے لیے جمع شدہ رقم سے زیادہ سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے اور جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں اُن کے لیے جمع شدہ رقم سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں (فتاویٰ عثمانی ۳/۳۱۴) اور اگر استفادہ کرلیا تو اتنی رقم کا صدقہ کرنا بلانیتِ ثواب ضروری ہوگا۔

انشورنس کمپنی علاج کا خرچہ ہسپتال کو دے یا بیمار کو

                بعض مرتبہ بیماری پیش آنے پر علاج کا خرچہ ’’میڈیکل انشورنس کمپنی‘‘ بہ راہِ راست متعینہ ہسپتال کو دیتی ہے، انشورنس کرانے والے مریض کے ہاتھ میں نہیں دیتی، یہ صورت بھی جائز نہیں ؛ اس لیے کہ ہسپتال کا قبضہ کرنا مریض کے قبضہ کرنے کے حکم میں ہے، گویا ہسپتال مریض کا وکیل ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ کہلاتا ہے۔

                اور اگر بہ راہِ راست مریض کو دیتی ہے تب بھی ناجائز ہے، یعنی اگر مریض صاحبِ استطاعت ہے تو اس اضافی رقم کو لینا جائز نہیں ، صرف اتنی رقم لے سکتا ہے جو اس نے جمع کی ہے۔

اگر ملازم پر انشورنس کرانا لاز ہو

                بعض ممالک میں ملازم کے لیے میڈیکل انشورنس لازم ہے؛ مگر پریمیم کی رقم کبھی تو ملازم کی تنخواہ سے کٹتی ہے اور کبھی کمپنیاں اپنی طرف سے پریمیم جمع کرتی ہیں تو دونوں صورتوں کا حکم الگ ہوگا۔ یعنی اگر ملازم کی تنخواہ سے اس کی مرضی کے مطابق کٹتی ہے تو اس پر سود کی تعریف صادق آئے گی اور انتفاع ناجائزہوگا اور کمپنی کے ادا کرنے کی صورت میں اس پر سود کی تعریف صادق نہیں آئے گی؛ اس لیے ملازم کے لیے استفادہ جائز ہوگا۔

ہسپتالوں کا میڈیکل پیکیج

                آج کل بعض ہسپتالوں کی طرف سے متعینہ مدت کے لیے میڈیکل پیکیج جاری کیے جاتے ہیں اوراس پیکیج کو قبول کرنے والے لوگ متعینہ رقم ادا کرتے ہیں ، کبھی قسط وار کبھی یک مشت، اگر آدمی بیمار ہوا تو اس کے جملہ طبعی اخراجات ہسپتال برداشت کرتا ہے اور اگر بیمار نہیں ہوا تو وہ رقم ڈوب جاتی ہے، واپس نہیں ملتی۔ مذکورہ بالاصورت بھی سود اور جوے کی ہے؛ اس لیے ناجائز ہے۔

حکومت کی طرف سے غریبوں کے لیے میڈیکل انشورنس

                آج کل حکومتیں غریبوں سے معمولی رقم لے کر اُن کا میڈیکل انشورنس کراتی ہیں اور اُن کو ایک کارڈ  دیتی ہیں ، جس کے ذریعے متعین ڈاکٹروں کے یہاں اور متعین اسپتالوں میں علاج کرانے کے حق دار وہ ہوتے ہیں ۔                 اس کے بارے میں عرض ہے کہ غریب اورفقیر کے لیے تو شریعت نے بہت سی گنجائشیں رکھی ہیں ؛ اس لیے اس کے جواز میں شبہ نہیں ؛ جب کہ علاج فقیر کے بس سے واقعی باہر ہو۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2، جلد:107‏، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء

Related Posts