میدانِ تیہ، کوہ ِطور،وادیِ مقدس اور صحرائے سینا: ایک تعارف

{"visual”:false,”legacy”:false}

از:  مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی‏، رکن الاتحاد العالمی لعلما ء المسلمین

                ہفتہ وار مجلس درسِ قرآن کریم میں حاضرین و سامعین کی طرف سے بسا اوقات بڑے خوبصورت  اور اہم سوالات سامنے آتے رہتیہیں، اس ہفتہ کے درسِ قرآن میں ایساہی ایک خوبصورت علمی سوال مفتی نفیس احمد قاسمی سلمہ کی طرف سے سامنے آیا۔سوال تھا ’’میدان تیہ‘‘ سے متعلق کہ میدان تیہ کسے کہتے ہیں اور فی الحال وہ کس ملک میں واقع ہے اور اس کی تاریخ اورجغرافیہ کیا ہے؟فوری طور پر اختصار کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی ہوا کہ عام طور پر ترجمہ و تفسیر قرآن کریم سے دل چسپی رکھنے والے افراد کے ذہنوں میں اس طرح کے سوالات آتے رہتے ہیں؛ اس لیے مناسب ہے کہ ’’میدانِ تیہ، کوہ طور،وادی مقدس اور صحرائے سینا‘‘ کی تفصیلات کو ایک مضمون کی شکل میں پیش کیا جائے۔

                ’’میدان تیہ‘‘ مصر اور شام کے درمیان ستائیس میل کا ایک وسیع وعریض میدان ہے۔ اسے ’’وادی تیہ‘‘ اور ’’صحرائے سینا ‘‘بھی کہتے ہیں۔یہ جزیرہ نما ئے سینا کا ایک حصہ ہے،مکمل جزیرہ نمائے سینا تقریبا 67 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔فی الحال یہ خطہ عربی جمہوریہ مصر کا حصہ ہے۔

                اس کے شمال میں بُحیرہ روم، مغرب میں خلیج سویز اور نہر سویز، مشرق میں فلسطین (غزہ کی پٹی اور اسرائیل )، خلیج عقبہ، اور جنوب میں بحیرہ احمر(لال سمندر، بحر قلزم) واقع ہے۔ اسے براعظم افریقہ اور ایشیا کے درمیان لنک سمجھا جاتا ہے، اس وادی سے اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کے بہت سے آثار وابستہ ہیں، اسی میدان میں بنو اسرائیل اپنے نبی حضرت موسیٰ کے ساتھ گستاخانہ اور عدم تعاون کا رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہے۔ ’’تیہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی ہیں سرگرداں رہنا، گھومتے رہنا ۔ تیہ لق و دق بیابان یا ایسے بیابان کو بھی کہتے ہیں جس میں مسافر گم ہو جائے۔

                چوں کہ بنی اسرائیل اس میدان میں دن رات چلتے رہتے تھے؛ لیکن اس میدان کو قطع نہیں کر پاتے تھے وہ صبح کو جہاں سے چلنا شروع کرتے شام کو پھر وہیں پہنچ جاتے تھے اور شام کو جہاں سے چلتے تھے صبح وہیں پہنچ جاتے تھے؛اسی لیے وادی سینا کے اس حصے کا نام وادی تیہ یا میدان تیہ پڑ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کی اس کیفیت کی عکاسی کرنے کے لیے ’’یتیہون‘‘ کا جملہ استعمال فرمایا۔

                قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۲۶)

                ترجمہ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا:پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے، یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے،تو (اے موسیٰ!)آپ (اس) نافرمان قوم پر افسردہ نہ ہوں۔

                اُس وقت یہ وادی ایک چٹیل میدان کی طرح تھی، اس وادی میں نہ کوئی سایہ دار درخت تھا اور نہ ہی کوئی عمارت تھی، ان کے پینے کے لیے نہ تو پانی میسر تھا، نہ کھانے کے لیے کوئی چیز نہ ضروریات زندگی کے دیگر لوازمات؛ اس بے سروسامانی کے عالم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو اپنی قوم کی حالت پر بڑا ترس آیا اور بدحالی کو دور کرنے کے لیے رب العالمین سے دعا کی، ان کی دعا سے ان کے لیے راحت کے سب سامان مہیا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دھوپ سے بچائو اور سایہ کے حصول کے لیے بادل بطور سائبان نازل فرما دیا، کھانے کے لیے من وسلوی بھیج دیا۔

                اسی خطہ میں واقع پہاڑ کو قرآن کریم میں  ’’طور سینا‘‘ بھی کہا گیا ہے اور ’’طور سینین‘‘ بھی۔ اسے ’’جبل موسی اور جبل طور‘‘ بھی کہتے ہیں۔’’سینین‘‘ دراصل جزیرہ نمائے سینا ہی کا دوسرا نام ہے، اب یہ سارا ہی علاقہ جس میں کوہ طور واقع ہے اور جواب مصر کے قبضہ میں ہے، ’’صحرائے سینا‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔سینین بنیادی طور پر اس خطہ کا نام ہے؛ البتہ اس کے کئی اور معانی بھی آتے ہیں، جن میں  ’’خوب صورت، اچھا، وہ پہاڑ جس پر گھنے یا پھل دار درخت ہوں،شامل ہیں۔طور سینین کو سورۃ المومنون کی آیت نمبر 20 میں طور سیناء کہا گیا ہے  اور آج کل بھی سیناء کا نام سیناء ہی ہے۔

                صحرائے سینا اور کوہ طور یہ دونوں مصر کے ایشیائی حصے میں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔آپ اگر زمین کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو لال سمندر (بحیرئہ احمر) غلیل کی وی(V)کی طرح دو حصوں میں بہتا نظر آئے گا، غلیل کی یہ وی درمیان میں مثلث بناتی ہے اور یہ مثلث سینا کہلاتا ہے، مثلث کی نوک پر مصر کا سیاحتی شہر ’’شرم الشیخ‘‘ آباد ہے؛ جب کہ اوپری حصہ چار ملکوں اور بحیرہ روم سے جا ٹکراتا ہے، وہ چار ملک سعودی عرب اردن فلسطین،اسرائیل اور مصر ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام دومرتبہ اس مثلث یعنی جزیرہ نما ئے سینا میں داخل ہوئے۔آپ پہلی بار اس وقت سینا میں آئے جب آپ فرعون کے لے پالک صاحبزادے تھے آپ کی پرورش محل میں ہوئی تھی، آپ فرعون کے وارث بن رہے تھے؛ لیکن پھر ان سے نادانستہ طور پر ایک قبطی قتل ہو گیا اور آپ سزا اور فرعون کے ظلم سے بچنے کے لیے سینا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔سینا اس وقت فرعون کی سلطنت میں شامل نہیں تھا، حضرت موسیٰؑ صحرا میں چلتے چلتے مدائن پہنچ گئے، دوسری بار جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے بنو اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات عطا کی۔

                آپ نے بنی اسرائیل کو ساتھ لیا، اپنے عصاسے ’’ریڈ سی‘‘ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور بنی اسرائیل کے ساتھ دوبارہ صحرائے سینا میں داخل ہو گئے؛ جب کہ فرعون اپنی فوج سمیت ریڈسی میں غرق ہوگیا۔  فرعون سے نجات پاکر آپ اپنی امت کے ساتھ کوہ طور کے گرد پناہ گزین ہو گئے۔

                 سورئہ تین میں اللہ تعالیٰ نے طور سینین کی قسم بھی کھائی ہے،’’سینا/سینین‘‘ ایک بلند پہاڑ ہے جو مصر سے مدین یا مدین سے مصر جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام ’’طور‘‘ ہے۔ اسی پہاڑی پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی وہ تجلی دکھائی تھی جس کے اثر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے تھے۔

                اس واقعہ کی طرف سورہ اعراف آیت143 میں اشارہ کیا گیا ہے: وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہ(۱۴۳)۔

                ترجمہ:اور جب موسیٰ ہمارے وعدے کے وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا،تو اس نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا؛ تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں ۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا:تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا؛ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا تواسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر پڑے، پھر جب ہوش آیا تو عرض کی: یا رب تو پاک ہے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔

                صورتِ حال یہ بنی تھی کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا؛ تو کلامِ ربانی کی لذت نے انھیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا مشتاق بنا دیا؛ چنانچہ شدت شوق میں بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:  اے میرے رب!مجھے اپنا جلوہ دکھا دیجیے؛ تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں۔

                اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ’’طور‘‘ کی قسم بھی کھائی ہے اور اس نام سے ایک مکمل سورہ بھی اتاری ہے۔ کوہِ طور ان مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے۔

                متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طور سینا میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں؛ جن میں حضرت موسی کا اللہ تعالی سے ہم کلام ہونا، چالیس دن کا میقات، بنی اسرائیل کے 70 لوگوں کے ساتھ میقات پر جانا اور حضرت موسیؑ کی وفات شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات اردن میں ’’کوہِ نبو‘‘ کے دامن میں ہوئی۔  اسی پہاڑ کے دامن میں ایک وادی ہے جس کا نام ’’طویٰ‘‘ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور البقعۃ المبارکہ بھی کہا گیا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی اور دو دفعہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔

                قرآن میں اس کا ذکر دو جگہ ہے۔سورہ 20 آیت 12 میں فرمایا: بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔

                اسی طرح سورہ 79 آیت 16 میں فرمایا: جب ان کے رب نے طویٰ کی مقدّس وادی میں انھیں پکارا تھا۔

                کوہِ طورپرحضرت موسی علیہ السلام دو مرتبہ گئے تھے۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب موسی وادی مقدس میں آگ کی تلاش میں تھے اوروادی میں چمکنے والا شعلہ دراصل خدا کے وجود کا نشان تھا۔ اس وقت موسی کو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اورانھیں خدا کی طرف سے معجزات عطا کیے گیے۔ اس واقعے کا تلمیحی استعمال ان مرکبات سے ہوا ہے۔ وادیِ ایمن، شجرایمن، آگ، وادیِ مقدس، شعلہ سینا وغیرہ ۔ دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب موسی نے اپنی قوم کو فرعون کے قہر سے نجات دلا کر وادیِ سینا میں قیام کیا۔ اس وقت موسی کو بنواسرائیل کی ہدایت ورہنمائی کے لیے شریعت عطا کرنے کے لیے کوہِ طورپربلایا گیا۔ شروع میں انھیں تیس راتوں کے لیے بلایا گیا تھا بعد میں دس راتوں کا اوراضافہ کردیا گیا ۔ جب موسی کے چالیس دن پورے ہوئے توانھیں شریعت عطا کی گئی اور اللہ تعالی سے باتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ موسی کواللہ تعالی کے دیدارکا شوق ہوا،انھوں نے درخواست کی موسی کے جواب میں اللہ تعالی نے کہا: ’’لن ترانی‘‘ تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ ہم اپنی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے، اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے؛ چناچہ اللہ تعالی نے کوہِ طورپراپنی تجلی کا ظہورکیا وہ پہاڑ تجلی کوبرداشت نہ کرسکا اورپارہ پارہ ہوگیا۔ موسی بھی بے ہوش ہوکر گرپڑے اور اپنی عاجزی کا اعتراف کیا۔ اس واقعہ کا تلمیحی استعمال شعروادب میں اس کے مختلف پہلووں کے حوالے سے کثرت سے ہوا ہے۔ کچھ تلمیحی مرکبات یہ ہیں ۔’’برقِ طور، ارنی، لن ترانی‘‘۔ ان واقعات کے تلمیحی اشارات کو ان شعروں میں برتا گیا ہے۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آو نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

غالب

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر

غالب

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

موسی نہیں جو سیر کروں کوہِ طور کا

سودا

یار کے دیدار کا طالب ہے موسی ہر زماں

اے ولی!دربار اس کا اس کوں کوہ طور ہے

ولی دکنی

طور تو ہے ’’رب ارنی‘‘ کہنے والا چاہیے

’’لن ترانی‘‘ ہے مگر نا آشنائے گوش ہے

فانی بدایونی

دیکھ سکتا جو تجلی رخ جاناں کو

’’لن ترانی‘‘ کا سزا وار نہ موسی ہوتا

ذوق

دل ہی نگاہِ ناز کا ایک ادا شناس تھا

جلوہ ’’برقِ طور‘‘ نے طور کو کیوں جلا دیا

فانی بدایونی

                بنی اسرائیل کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ گستاخانہ رویہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے تو فرعون اور اس کی فوج نے آپ کا تعاقب کیا، اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کو سمندر میں غرق کردیا اور موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔حضرت موسیٰ اپنی قوم بنو اسرائیل کے ساتھ سمندر عبور کر کے بحکم الٰہی صحرائے سینا میں ٹھہرے، وہیں آپؑ کو اللہ رب العالمین کی طرف سے کوہِ طو رپر بلایا گیااور کتاب ہدایت  ’’تورات‘‘ عطاء کی گئی ۔ اس کے بعد آپؑ کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کے ساتھ فلسطین میں آبادمشرک اور کافر قوم (جو فلسطی کہلاتے تھے)کے ساتھ جہاد کر کے انھیں وہاں سے نکال دیں اور اپنی قوم کے ساتھ اس مقدس شہر میں داخل ہو جائیں اور وہیں مستقل بود وباش اختیار کریں؛ کیونکہ یہ ارضِ مقدس آپ کے لیے اللہ کی طرف سے موعود ہے۔

                ان کے جد ِامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کا تعلق اس خطہ سے تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں منتقل ہوئے ۔ پھر جب حضرت موسیٰؑ انھیں مصر سے لے کر نکلے تو انھیں حکم ہوا کہ اب جائو اپنے اصل گھر (ارضِ فلسطین) کو دوبارہ حاصل کرو؛ لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کورا جواب دے دیاکہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس کم ہمتی کی وجہ سے سے انھیں وادی تیہ میں بھٹکنا پڑا۔

                چالیس سال تک صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے، یہاں تک کہ ان کے وجود سے چار سو سال کی غلامی کے اثرات ختم ہو گئے اور وہ ایک نارمل اور آزاد انسان اور آزاد قوم بن گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی سن لی انھیں صحرا سے نکلنے کا راستہ مل گیا، اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہدِ خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کر سکیں۔

                متعدد آیات کی تفسیر میں میدان تیہ، کوہ طور،وادی مقدس اور جزیرہ نما ئے سینا کی تفصیلات متعدد مورخین و مفسرین واہل جغرافیہ نے لکھی ہے۔ان سب کاخلاصہ پیش کیا گیا، وباللہ التوفیق!

٭           ٭           ٭

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1، جلد:107‏، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء

Related Posts