از:  عصمت اللہ نظامانی

جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹان۔کراچی

                اسلام نے مرد وعورت دونوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مرد کو تعلیم دیتے تھے، انھیں قرآن پاک اور دین کے احکام سکھلاتے تھے، اسی طرح خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جس طرح مرد میں فقہا ومحدثین اور دیگرعلوم وفنون میں مہارت رکھنے والے پیدا ہوئے ، اسی طرح خواتین میں بھی بلند پایہ عالمات، محدثات، فقیہات گزری ہیں، علمی میدان میں خواتین کسی طرح بھی مرد حضرات سے پیچھے نہیں رہیں،اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔

                ذیل میں ہم ان فقیہ خواتین کا تذکرہ کریں گے،جنہوں نے یاتو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ تربیت فقہ کی تعلیم حاصل کی، یا پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ افراد سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ یعنی پہلی صدی ہجری کی مشہورفقیہ خواتین کامختصر تذکرہ کریں گے جن کے فقیہ ہونے کی گواہی اہلِ علم نے دی ہے۔

                واضح رہے کہ صحابیات وغیرہ ایک بڑی جماعت کوفقہ کے ساتھ خصوصی شغف اور اس  میں مہارت حاصل تھی  اور بجا طور وہ ’’فقیہ‘‘ کہلانے کی مستحق تھیں؛ لیکن ذیل میں ہم نے پہلی صدی کی صرف ان خواتین کے تذکرے پر اکتفا کیا ہے جن کے فقیہ ہونے کی اہلِ علم نے تصریح کی ہے۔

پہلی فقیہ خاتون امّ المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

                امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق کی دختر ہیں، ان کی والدہ کا نام ام رومان تھا، نوسال کی عمرمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، فتاوی اور احادیث دونوں لحاظ سے ان کا شمار’’ مُکثرین‘‘ میں ہوتا ہے، حضور…کی رحلت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی، احادیث میں ان کے متعدد مناقب وارد ہوئے ہیں، سن۵۸ھ میں ان کا انتقال ہوا، اور جنت البقیع میں سپردِ لحد کیا گیا۔(۱)

حضرت عائشہ کی فقاہت

                حافظ ابن حجر(۲)، علامہ زرکشی(۳)  اور بعض دیگر حضرات انھیں فقیہہ کہا ہے۔نیز متعدد بلند پایہ اہلِ علم نے ان کی فقہی بصیرت، قوتِ استدلال اور علم میں پختگی کی گواہی دی ہے؛چنانچہ حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں:

                ما أشکل علینا أصحاب رسول اللّٰہ صل اللّٰہ علیہ و سلم حدیث قط فسألنا عائشۃ إلا وجدنا عندہا منہ علماً۔(۴)

                جب ہم لوگوں یعنی حضور…کے صحابہ کو کسی حدیث کے بارے میں اشکال ہوتا اور پھر اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے تو ان کے پاس لازماً اس کا علم ہوتا تھا۔

                حضرت عطا فرماتے ہیں:

                کانت عائشۃُ أفقہَ الناسِ وأعلمَ الناس(۵)۔

                حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ اور زیادہ علم والی تھیں۔

                 حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں:

                ما رأیت أحدًا أعلمَ بفقہٍ ولا بطبٍ ولا بشعرٍ من عائشۃ۔(۶)

                میں نے حضرت عائشہ سے بڑھ کر فقہ، طب اور شعر کا علم رکھنے والا نہیں دیکھا۔

                حضرت مسروق کا بیان ہے:

                رأیت مشیخۃ أصحاب محمد الأکابر یسألونہا عن الفرائض۔(۷)

                میں نے حضور…کے بڑے بڑے صحابہ کودیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے میراث سے متعلق سوال کرتے تھے۔

دوسری فقیہ خاتون امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا

                ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کانام ’’ہند بنت ابی امیہ‘‘ ہے،ان کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ کے ساتھ ہوا، ان کی وفات کے بعد سن 4ھ، میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا، امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں ان کی وفات ہوئی، سن 62ھ کو مدینہ منورہ میں ان کا نتقال ہوا، اور انھیں جنت البقیع میں سپردِ لحد کیا گیا۔(۸)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت

                علامہ ذہبی نے انھیں فقیہہ کہا ہے(۹)، اور متعدد احادیث سے کی ان کی فقاہت، فراست اور عمدہ ذہانت کا انداہ ہوتا ہے؛ چنانچہ صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر جب حضور…نے صحابۂ کرامؓ کوعمرہ کیے بغیر حلق کرنے کا حکم دیا تو ابتداء میں صحابہ نے اس پر عمل نہیں کیا، وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ انھیں عمرہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ جب حضرت ام سلمہؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے حضور…کو مشورہ دیا کہ آپ…خود اپنے بال کٹوالیں؛ چنانچہ جب صحابۂ کرامؓ نے حضور…کوبال کٹواتے دیکھا تو انھوں نے بھی ایک دوسرے کے بال کاٹنے شروع کردیے،اس طرح حضرت ام سلمہؓ کے مشورے پر عمل کرنے سے صحابۂ کرامؓ صدمہ کی حالت سے نکل آئے، اسی طرح ان کی فقاہت کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔(۱۰)

تیسری فقیہ خاتون امّ المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا

                ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بنو مصطلق قبیلے کے سردار ’’حارث‘‘کی بیٹی تھیں، غزوہ بنی مصطلق میں قید ہوکر آئیں،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے بدلِ کتابت ادا فرما کر آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا۔جب صحابۂ کرامؓ کو معلوم ہوا کہ حضور…نے ان سے نکاح کرلیا ہے تو انھوں بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو حضور…کے ساتھ رشتہ داری قائم ہونے کی وجہ سے آزاد کردیا؛چنانچہ حضرت عائشہؓ ان کے بارے میں فرماتی ہیں:

                فما أعلمُ امرأۃً أعظمَ برکۃً منہا علی قومِہا۔(۱۱)

                میں کسی عورت کو نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیے حضرت جویریہ سے زیادہ بابرکت ہو۔

                ماہِ ربیع الاول، سن 56 ھ میں ان کی وفات ہوئی۔(۱۲)

حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت

                ’’نساء حول الرسول‘‘ نامی کتاب کے مصنف محمدبرہان نے حضرت جویریہ کو فقیہ کہا ہے(۱۳)؛ چنانچہ ان کے بعض فتاوی مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق میں موجود ہیں۔(۱۴)

چوتھی فقیہ خاتون حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا

                حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ربیبہ یعنی آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی دختر تھیں؛ اس لیے وہ آپ …کی تربیت میںپروان چڑھیں، حضور…ان سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ وہ حضور … کے پاس گئیں ،اس وقت آپ غسل فرما رہے تھے، تو آپ نے حضرت زینت بنت ابی سلمہ کے چہرے پرازراہِ تلطّف پانی کے چھینٹے مارے، جس کی برکت سے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر جوانی کی خوبصورتی اور شادابی باقی رہی۔(۱۵) ان کی وفات سن 74 ھ میں ہوئی۔(۱۶)

حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت

                متعدد حضرات نے انھیں فقیہ کہا ہے؛ چنانچہ علامہ ابن اثیر جزری اور ابن عبد البر نے ان کو   ’’مِنْ أفقہِ نسائِ أہلِ زمانہا‘‘ (اپنے زمانے کی سب سے بڑی فقیہ خواتین میں سے ایک) قرار دیا ہے۔(۱۷) اور حضرت ابو رافع کہتے ہیں:

                کنت إذا ذکرت امرأۃ بالمدینۃ فقیہۃ ذکرت زینب بنت أبی سلمۃ۔(۱۸)

                یعنی میں جب مدینے کی کسی فقیہ خاتون کا ذکر کرتا تو زینب بنت ابی سلمہ کا ہی تذکرہ کرتا تھا۔

پانچویں فقیہ خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا

                مشہور صحابیہ ہیں، ابتدائی ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں،ان کے پہلے شوہر ابوبکر بن حفص نے انھیں طلاق دی تھی اور عدت کے بعدمتعدد حضرات نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھجوایا، تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کیا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لیے اہلِ شوریٰ ان ہی کے گھر میں جمع ہوئے تھے۔(۱۹) ان کی وفات تقریباً سن 50 ھ میں ہوئی۔(۲۰)

حضرت فاطمہ بنت قیس کی فقاہت

                امام شعبی نے انھیں فقیہ کہا ہے؛ چنانچہ ایک مرتبہ انھوں نے مطلقہ(طلاق یافتہ عورت)کے لیے دورانِ عدت نفقہ اور رہائش کے عدم وجوب سے متعلق حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیث بیان کی تو وہاں موجود ایک شخص نے کہاکہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی یہ روایت رد کردی تھی، اس پر امام شعبی نے فرمایا:

                ألا أصدق امرأۃً فقیہۃً نزل بہا ہذا؟(۲۱)

                کیا میں ایک فقیہ خاتون کی تصدیق نہ کروں جسے خود یہ مسئلہ پیش آیا تھا؟

چھٹی فقیہ خاتون حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا

                حضرت صفیہ صغار صحابیات میں سے ہیں، ان کے والد شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کعبہ کے محافظوں میں سے تھے،حضرت صفیہ بنت شیبہ حضور…سے بعض روایات بلاواسطہ نقل کرتی ہیں، نیز امہات المؤمنین میں سے حضرت عائشہ، حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ اور دیگر صحابہ سے روایت کرتی ہیں۔(۲۲) ولید بن عبد الملک کے دورِ خلافت میں سن 90ھ کو ان کی وفات ہوئی۔(۲۳)

حضرت صفیہ بنت شیبہ کی فقاہت

                علامہ ذہبی نے ان کو فقیہ کہا ہے(۲۴)، علم کے ساتھ گہرا شغف تھا، بہت سے حضرات نے ان سے احادیث لی ہیں،اصحاب سنن نے متصلاً؛ جب کہ امام بخاری نے تعلیقاً ان کی روایت ذکر کی ہے۔(۲۵)

ساتویں فقیہ خاتون حضرت ام درداء صغری

                ان کا نام ’’ہجیمہ بنت حیی‘‘ ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے معروف صحابی حضرت ابودرداء کی دوسری بیوی تھیں، ان کی پہلی بیوی کا نام ’’خیرہ‘‘ اور کنیت ام درداء کبری تھی، وہ صحابیات میں سے تھیں؛ جب کہ ام درداء صغری، تابعیہ ہیں، حضرت ابو درداء کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا؛ لیکن انھوں نے انکار کردیا، سن 81ھ کو ان کا انتقال ہوا۔(۲۶)

حضرت ام درداء صغری کی فقاہت

                امام بخاری(۲۷)، امام مکحول اور دیگر بہت سے اہل علم نے انھیں فقیہ کہا ہے،(۲۸) پوری زندگی انھوں حدیث وفقہ کی تعلیم حاصل کرنے اور پھر اس کی نشرواشاعت میں گزاری، خصوصاً فقہ میں تو انھیں بلند مقام حاصل تھا؛ چنانچہ علامہ نووی فرماتے ہیں:

                واتفقوا علی وصفہا بالفقہ۔(۲۹) یعنی اہل علم کا انھیں فقیہ قرار دینے پر اتفاق ہے۔

آٹھویں فقیہ خاتون حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن

                حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن تابعیہ ہیں،اور ان کے والد عبد الرحمن اور دادا سعد بن زرارہ دونوں صحابی ہیں،وہ مشہور محدث ابوبکر ابن حزم کی خالہ ہیں، بچپن سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کفالت اور پرورش میں رہیں،اسی وجہ سے حضرت عائشہ سے سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ایک حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن بھی ہیں،ان کی تاریخِ وفات میں اختلاف ہے، ابوحسان زیادی اور بعض دیگر حضرات کہتے ہیں کہ ان کا انتقال سن 98ھ میں ہوا۔(۳۰)

حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن کی فقاہت

                متعدد حضرات جیسے علامہ ذہبی(۳۱)، اور ہجرانی وغیرہ نے انھیں فقیہ کہاہے۔(۳۲) حضرت عائشہ کے بھانجے حضرت قاسم بن محمد (جومدینے کے فقہائے سبعہ میں سے ایک ہیں)نے مشہور محدث امام زہری سے ایک مرتبہ فرمایا: اے بچے!میں تم کو حصولِ علم کا حرص اور شوق رکھنے والا دیکھتا ہوں، کیا تمہیں علم کے خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں؟امام زہری نے کہا:کیوں نہیں، تو حضرت قاسم نے فرمایا: عمرہ بنت عبد الرحمن کی خدمت میں پابندی سے حاضر ہو۔امام زہری فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت عمرہ کے پاس آیا تو میں نے انھیں علم کا نہ ختم ہونیوالا سمندر پایا۔(۳۳)

نویں فقیہ خاتون بنت زید بن ثابت انصاری

                مشہور ومعروف صحابی کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دختر کو بہت سے حضرات نے فقیہ کہا ہے، رہی یہ بات کہ حضرت زید بن ثابت کی کون سی بیٹی مراد ہے؟ تو اس میں کچھ اختلاف ہے۔علامہ ابن ملقن نے اس کا نام ام سعد لکھا ہے(۳۴)؛ جب کہ حافظ ابن حجر نے ام کلثوم کہا ہے۔(۳۵)

بنت زید بن ثابت کی فقاہت

                حافظ ابن حجر نے انھیں فقیہ کہا ہے، امام بخاری نے حیض سے متعلق ان کی روایت تعلیقاً ذکر کی ہے  اور امام مالک نے متصلاً نقل کی ہے۔(۳۶)

دسویں فقیہ خاتون حضرت معاذہ عدویہ

                حضرت معاذہ بنت عبد اللہ عدویہ نہایت پرہیزگار، عبادت گزار اور ذی علم خاتون تھیں، بڑے بڑے محدثین نے ان سے علم حاصل کیا، جن میں ایوب سختیانی، جعفر بن کیسان اور یزید الرشک شامل ہیں۔ صبر اور رضا بالقضاء کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے شوہر حضرت صلہ بن اشیم اور بیٹا ایک جنگ میں شہید ہوئے تو بعض خواتین ان کے پاس تعزیت کرنے آئیں، آپ نے ان سے فرمایا: اگر تم مجھے مبارک باد دینے آئی ہو تو میں تمہیں خوش آمدید کہتی ہوں؛ لیکن اگر کسی اور نیت سے آئی ہو تو تمہارا واپس لوٹ جانا ہی بہتر ہے۔ سن 83ھ میں ان کی وفات ہوئی۔(۳۷)

حضرت معاذہ عدویہ کی فقاہت

                علامہ ذہبی(۳۸) اور ہجرانی نے انھیں فقیہ کہا ہے۔(۳۹)  مشہور محدث جعفر بن کیسان کہتے ہیں کہ میں نے معاذہ عدویہ کو دیکھاکہ وہ پردے میں تھیں، اور خواتین ان سے مختلف سوالات کر رہی تھیں۔(۴۰)

خلاصہ کلام

                خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں مرد وعورت کو یکساں حکم دیا ہے، علمی میدان میں خواتین مرد حضرات سے پیچھے نہیں، اس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرنِ اول یعنی پہلی صدی ہجری میں ہی خواتین کی ایک بڑی جماعت کے فقیہ ہونے کی بڑے بڑے اہلِ علم حضرات نے گواہی دی ہے۔

٭           ٭           ٭

حواشی

(۱)          سیر أعلام النبلاء الذہبی، (3/426)، الناشر: دار الحدیث-  القاہرۃ، ط:1427ھ-2006م۔

(۲)         تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/384)، الناشر:دار الفکر بیروت، ط:1404ھ -1984م۔

(۳)         الإجابۃ عما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ للزرکشی، (ص:37)، الناشر:المکتب الإسلامی بیروت، ط:1390ھ-1970م

(۴)         سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا، (6/188)، رقم الحدیث:3883، الناشر: دارالغرب الإسلامی  بیروت، ط:1998م۔

(۵)         المستدرک علی الصحیحین للحاکم، (4/15)، الناشر : دار الکتب العلمیۃ- بیروت، ط:1411ھ-1990م۔

(۶)          الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب لابن عبد البر، (4/1883)، الناشر: دار الجیل- بیروت، ط:1412ھ-1992م۔

(۷)         تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/386)۔

(۸)         معرفۃ الصحابۃ للأصبہانی، (6/3218)، الناشر: دار الوطن الریاض، ط:1419ھ-1998م- وأسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ للجزری، (7/278)، الناشر: دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔

(۹)          سیر أعلام النبلاء للذہبی، (2/203)۔

(۱۰)        الأعلام للزرکلی، (8/97)، الناشر: دار العلم للملایین، ط:2002م۔

(۱۱)         أسد الغابۃ لابن الأثیر الجزری، (7/57)۔

(۱۲)        الاستیعاب لابن عبد البر، (4/1804)۔

(۱۳)       نساء حول الرسول، محمد برہان، (ص:37)، الناشر: دار الجیل۔

(۱۴)       المصنف لعبد الرزاق،کتاب الطہارۃ، باب سؤر المرأۃ،(1/106)، رقم الحدیث:377، الناشر: المکتب الإسلامی- بیروت – والمصنف لابن أبی شیبۃ، کتاب الطہارۃ، من کرہ أن یتوضأ بفضل وضوئہا، (1/38)، الناشر: مکتبۃ الرشد الریاض۔

(۱۵)        الاستیعاب لابن عبد البر، (4/1855)۔

(۱۶)        سیر أعلام النبلاء للذہبی، (4/301)۔

(۱۷)       الاستیعاب لابن عبد البر، (4/1855)  وأسد الغابۃ للجزری، (7/132)

(۱۸)       تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/450)، رقم الترجمۃ:2801 ۔

(۱۹)        أسد الغابۃ لابن الأثیر الجزری، (7/224)، رقم الترجمۃ:7193 ۔

(۲۰)       الأعلام للزرکلی، (5/131)۔

(۲۱)        مستخرج أبی عوانۃ، کتاب الطلاق، باب الأخبار التی لاتجعل للمطلقۃ ثلاثاً علی زوجہا نفقۃ ولا سکنی، (3/181)، الناشر: دار المعرفۃ بیروت، ط:1419ھ-1998م۔

(۲۲)       تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/381)، رقم الترجمۃ:8978۔

(۲۳)      الوافی بالوفیات للصفدی، (16/190)، الناشر: دار إحیاء التراث العربی بیروت، ط:1420ھ -2000م۔

(۲۴)      سیر أعلام النبلاء للذہبی، (4/474)۔

(۲۵)       تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/381) – والکاشف للذہبی، (2/512)، رقم الترجمۃ:7027، الناشر: دارالقبلۃ- جدۃ، ط:1413ھ -1992م۔

(۲۶)       تہذیب الکمال فی أسماء الرجال للمزی، (35/352)، رقم الترجمۃ:7974، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ط:1400ھ-1980م۔

(۲۷)      صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب سنۃ الجلوس فی التشہد، (1/165)، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط:1422ھ۔

(۲۸)      تہذیب الکمال للمزی، (35/355)، رقم الترجمۃ:7974۔

(۲۹)       تہذیب الأسماء واللغات للنووی، (2/623)، الناشر: دار الفکر بیروت، ط:1996م۔

(۳۰)      تہذیب الکمال للمزی، (12/439)- والأعلام للزرکلی، (5/72)۔

(۳۱)       تاریخ الإسلام للذہبی، (2/1151)، رقم الترجمۃ:163، الناشر: دار الغرب الإسلامی، ط:2003۔

(۳۲)      قلادۃ النحر فی وفیات أعیان الدہر للہجرانی، (1/506)، الناشر: دار المنہاج جدۃ، ط:1428ھ-2008م۔

(۳۳)      سیر أعلام النبلاء للذہبی، (4/508)، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بیروت، ط:1405ھ-1985م۔

(۳۴)      التوضیح لشرح الجامع الصحیح لابن الملقن، (5/103)، الناشر: دار النوادر دمشق، ط:1429ھ-2008م۔

(۳۵)      فتح الباری لابن حجر، (1/420)، الناشر:دار المعرفۃ بیروت، ط:1379ھ۔

(۳۶)       تہذیب التہذیب لابن حجر، (12/512)۔

(۳۷)      سیر أعلام النبلاء للذہبی، (4/509)- وتہذیب الکمال للمزی، (35/307)۔

(۳۸)      العبر فی خبر من غبر للذہبی، (1/92)، الناشر: دار الکتب العلمیۃ بیروت۔

(۳۹)       قلادۃ النحر فی وفیات أعیان الدہر للہجرانی، (2/12)۔

(۴۰)      العلل ومعرفۃ الرجال للإمام أحمد بن حنبل، (3/80)، الناشر: المکتب الإسلامی بیروت، ط:1408ھ-1988م۔

٭           ٭           ٭

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1، جلد:107‏، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء

Related Posts