سوال: فیروزہ کی انگوٹھی پہننا کیسا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                الجواب وباللّٰہ التوفیق:-    فیروزہ کے نگ والی انگوٹھی پہنا جائز ہے؛ بہ شرطیکہ فیروزہ پتھر کو کسی قسم کے جانی یا مالی نفع و نقصان میں مؤثر نہ سمجھا جائے؛ کیوں کہ کسی پتھر میں نفع و نقصان یا تاثیر کا عقیدہ غلط ہے؛ بلکہ غیر اسلامی ہے؛ چناں چہ صحیح مسلم شریف میں حجر اسود کے بارے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور ارشاد گرامی آیا ہے: واللّٰہ إنی أقبلک وأنی أعلم أنک حجر وأنک لا تضر ولا تنفع إلخ، یعنی حجر اسود میں بھی نفع و نقصان کی تاثیر نہیں ہے۔

                نیز مرد کے لیے ضروری ہے کہ فیروزہ پتھر کا نگ صرف چاندی کی انگوٹھی میں ہو، سونے کی انگوٹھی میں نہیں اور اس انگوٹھی کا وزن ساڑھے چار ماشہ، یعنی: ۴؍گرام،۳۷۴ملی گرام سے زیادہ نہ ہو؛ بلکہ اگر اس سے کچھ کم ہو تو بہتر ہے۔

                اور اگر کسی علاقے میں فیروز ہ پتھر میں تاثیر کا عقید ہ عام ہے یعنی :عام طور پر لوگ اسی عقیدے سے فیروزہ پتھر کے نگ والی انگوٹھی پہنتے ہیں، تو وہاں صحیح العقیدہ لوگوں کو بھی بر بنائے تشبہ اس سے احترازکرناچاہیے۔

                (ولا یتحلی) الرجل (بذہب وفضۃ) مطلقاً (إلا یخاتم إلخ) (الدر المختار مع رد المختار، کتاب الخطر والإباحۃ، فصل فی اللس ۹:۵۱۶، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند)۔

                (ولا یتختم) إلا بالفضۃ لحصول الاستغناء بہا فیحرم بغیرہا کحجر إلخ (وذہب وحدید وصفر) ورصاص وزجاج وغیرہا إلخ ولا یزیدہ علی مثقال (المصدر السابق ۹:۵۱۷-۵۲۰)

                قولہ: ’’ولا یزیدہ علی مثقال‘‘: وقیل: لا یبلغ بہ المثقال، ذخیرۃ۔ أقول: ویؤیدہ نص الحدیث السابق من قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ’’ولا تتمہ مثقالاً‘‘ (رد المحتار)۔

                وینبغي أن تکون فضۃ الخاتم المثقال ولا یزاد علیہ، وقیل: لا یبلغ بہ المقال، وبہ ورد الأثر کذا في المحیط (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب العاشر في استعمال الذہب والفضۃ، ۵:۳۳۵، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)۔

                نقل صاحب الأجناس: لا بأس للرجل أن یتخذ خاتمًا من فضۃ فصہ منہ، وإن جعل فصہ منہ من جزع أو عقیق أو فیروزج أو یاقوت أو زمرد فلا بأس إلخ (حاشیۃ الشلبي علی التبیین،کتاب الکراہیۃ، فصل فی اللبس، ۶:۱۵،۱۶، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر نقلًا عن الإتقانی)۔

                عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (سنن أبی داود، کتاب اللباس، باب فی لبس الشہرۃ، ۲:۵۵۹، رقم:۴۰۳۱، ط: دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی، ص:۳۷۵، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)۔

                (من تشبہ بقوم) أی: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً فی اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار إلخ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ۸:۲۲۲، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم‏، محمود حسن بلندشہری غفرلہٗ‏، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏،  ۳۰؍۱؍۱۴۴۴ھ=۲۹؍۸؍۲۰۲۲ء

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام‏، مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

رضاعی بھانجے سے پردہ:

                سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں

                 کہ زید نے اپنی بہن فاطمہ سے ایک بچہ گود لیا ہے، بچے کے بالغ ہونے کے بعد زید کی بیوی کا اس بچہ سے پردہ کرنا ایک مشکل ترین امر ہے اور زید کی بیوی دودھ پلانے کی حالت میں بھی نہیں ہے کہ جس سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے؛ لہٰذا  ز ید چاہتا ہے کہ اپنی بیوی کی بہن (سالی) سے اس بچے کو دودھ پلوا دے؛ تاکہ زید کی بیوی اس بچہ کی رضاعی خالہ بن جائے توکیا ایسا کرنے کے بعد بعدالبلوغ پر دہ کرنے کا حکم ساقط ہوگا یا نہیں۔ خلاصہ یہ رضاعی بھانجے سے پردہ ثابت ہے یا نہیں؟

                تشفی بخش جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔

فقط والسلام‏، المستفتی:کاشف مظاہری‏،پتہ :دارالعلوم ٹانڈہ  رامپور

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

                الجواب وباللّٰہ التوفیق:-  شریعت میں نسبی بھانجے کی طرح رضاعی بھانجہ بھی محرم ہے، یعنی:رضاعی بھانجے سے نکاح نہیں ہو سکتا، پس اُس سے پردہ نہیں، یا یوں کہا جائے کہ شریعت میں نسبی خالہ کی طرح رضاعی خالہ بھی حرام ہوتی ہے، رضاعی بھانجے کا اس سے پردہ نہیں، پس صورت مسئولہ میں اگر زید کی بیوی کی بہن (سالی) نے زید کی بہن: فاطمہ کے بچے (زید کے بھانجے)کو شیرخوارگی کی مدت میں (چاند کے حساب سے۲؍ سال کے اندر اندر) دودھ پلا دیا، تو وہ زید کی بیوی کے لیے رضاعی بھانجہ ہو جائے گا اور زید کی بیوی اُس کے لیے رضاعی خالہ اور پردے کے لائق ہونے پر دونوں کے درمیان شرعی پردہ نہ ہوگا۔

                قال اللّٰہ تعالی:  {وأخوتکم من الرَّضاعۃ} (سورۃ النسائ، رقم الآیۃ:۲۳)۔

                (و) حرم (الکل) مما مر تحریمہ نسباً ومصاہرۃ (رضاعًا) إلا ما استثني في بابہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ۴:۱۰۵، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ۸:۱۰۵، ت: الدکتور حسام الدین بن محمد صالح فرفور، ط: دمشق)۔

                یحرم علی الرضیع أبواہ من الرضاع وأصولہما وفروعہما من النسب والرضاع جمیعًا۔۔۔۔۔ فالکل إخوۃ الرضیع وأخواتہ وأولادہم أولاد إخوتہ وأخواتہ وأخو الرجل عمہ وأختہ عمتہ وأخو المرضعۃ خالہ وأختہا خالتہ۔۔۔۔۔ کذا فی التہذیب (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الرضاع، ۱:۳۴۳، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)

فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم‏، محمود حسن بلندشہری غفرلہٗ‏، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏، ۱۴؍۲؍۱۴۴۴ھ=۱۲؍۹؍۲۰۲۲ء

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام‏، مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

کھانے کے بعد پانی پینا:

                سوال: میں نے سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں کہ کھانے کے آدھے گھنٹے بعد پانی پینا سنت ہے اور میرے معاشرے میں بہت سے لوگ اس کو سنت کے طور پر مانتے ہیں۔ میں نے اس کے متعلق کوئی حدیث نہیں سنی، تو میر اسوال یہ ہے کہ کیا کھانے کے بعدپانی پینا سنت ہے ؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

                الجواب وباللہ التوفیق:-  حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول مبارک یہ تھا کہ آپ کھانے کے بعد پانی نوش نہیں فرماتے تھے، نیز طبی اعتبار سے بھی کھانے کے بعد پانی پینا نقصان دہ ہے بالخصوص ٹھنڈا یا گرم پانی اور اگر کبھی پانی کا شدید تقاضہ ہو، تو سادہ پانی استعمال کیا جائے، ٹھنڈا یا گرم پانی استعمال نہ کیا جائے۔

                ولم یکن من ہدیہ [صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم] أن یشرب علی طعامہ فیفسدہ ولا سیما إن کان الماء حارًا أو باردًا؛ فإنہ ردیٔ جدًا۔۔۔۔۔۔۔ ویکرہ شرب الماء عقیب الریاضۃ والتعب وعقیب الجماع وعقیب الطعام وقبلہ وعقیب أکل الفاکہۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہذہ کلہ مناف لحفظ الصحۃ إلخ (زاد المعاد في ہدي خیر العباد [صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم] قبیل فصل في ہدیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم في الشرب وآدابہ، ۴:۲۲۴، ت: شعیب الأرنؤوط وعبد القادر الأرنؤوط، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)۔

                اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

                حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے بعد پانی نوش نہ فرماتے ؛ کیوں کہ مضرہضمہے، جب تک کھانا ہضم کے قریب نہ ہو، پانی نہ پینا چاہیے (مدارج النبوۃ)۔ (اسوئہ رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم، ص:۱۱۴،۱۱۵، مطبوعہ:  ادارۃ الرشید، بنوری ٹاؤن ، کراچی)۔

                نیز ص:۱۱۶ پر ہے:

                کھانے کے بعد پانی پینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے، خصوصاً اگر پانی گرم ہو یا زیادہ سرد ہو؛ کیوں کہ یہ دونوں صورتیں بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں (زاد المعاد۔  حوالہ بالا، ص:۱۶)۔

                اور مدارج النبوۃ میں ہے:

                و آں حضرت آب بر طعام نمی خورد کہ مفسد است و تا طعام بانہضام نیارد آب نباید خورد (مدارج النبوۃ، ۱:۵۴۱، مطبوعہ: منشی نول کشور، کان پور)

     فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم‏، محمود حسن بلندشہری غفرلہٗ‏، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏، ۱۷؍۲؍۱۴۴۴ھ=۱۵؍۹؍۲۰۲۲ء

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام‏، مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

کمیٹی میں جمع شدہ رقم سے کم لینا:

                سوال:- ایک کمیٹی ہے جو اپنے ممبر سے ماہانہ اقساط وصول کرتی ہے اور پھر جمع شدہ رقم کو نیلامی کے ذریعے ان ہی 10 ممبران میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 10 ممبران ہیں، ہر ایک ممبر100 کا حصہ ڈالتا ہے۔ ہر ماہ 1000 روپئے جمع ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک ہزار روپئے کسی بھی کم رقم پر نیلام ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 10 ممبروں میں سے کسی ایک کامیاب ممبر کو ایک ہزار روپئے 900 روپے میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ اور پھر 100 روپئے باقی 9 ممبران میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اور کمیٹی اپنے 10 ماہ مکمل ہونے تک جاتی ہے۔ براہ کرم بتائیں کہ یہ صحیح ہے یا غلط؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

                الجواب وباللّٰہ التوفیق:-  ایک ہی ملک کی کرنسی میں کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ بلاشبہ سود اور حرام ہے، یعنی:اگرکوئی شخص کسی کو بہ طور ادھار نو سو روپے دے اور بعد میں ایک ہزار روپے وصول کرے، یا دس ماہ تک ماہانہ ہزار روپے وصول کرے، جس کے نتیجے میں لین دین میں کمی بیشی پائی جائے ، تو یہ بلاشبہ سودی معاملہ ہے۔

                پس سوال نامے میں ماہانہ کمیٹی کسی ممبر کو کٹوتی کے ساتھ دینے کی جو شکل ذکر کی گئی ہے، وہ بلا شبہ سودی شکل اور حرام ہے  اور کسی مسلمان کے لیے ایسی کمیٹی چلانا، یا اُس میں شرکت کرنا جائز نہیں   اور جن لوگوں نے اب تک ماہانہ کمیٹی میں فاضل رقم حاصل کی ہے، اُن پر ضروری ہے کہ وہ فاضل رقم اُس کے مالکان کو واپس کریں، تو بہ واستغفار کریں اورآئندہ اس قسم کی کمیٹیوں میں شرکت سے پر ہیز کریں۔

                قال اللّٰہ تعالی: {وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا} (سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:۲۷۵)۔

                عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سوائ‘‘ (الصحیح لمسلم، ۲:۷۲، ط: المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)۔

                {وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} أی: بالحرام، یعنی بالربا، والقمار، والغصب والسرقۃ (معالم التنزیل ۲:۵۰)۔

                الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷:۳۹۸-۴۰۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ۱۵:۲۱۹-۲۲۳، ت: الدکتور حسام الدین بن محمد صالح فرفور، ط: دمشق)۔

                قال اللّٰہ تعالی: {ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} (سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ:۲)۔

     فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم‏، محمود حسن بلندشہری غفرلہٗ‏، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏، ۱۷؍۲؍۱۴۴۴ھ=۱۵؍۹؍۲۰۲۲ء

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام‏، مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

عقد شرکت میں نفع کی تعیین:

                سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:

                زید نے  ۲؍لاکھ روپئے تجارت کی غرض سے دے کر عمرو کے ۲۰؍ لاکھ سے متجاوز کاروبارمیں شرکت کی اور عمرو کا ہارڈ ویئر کا کاروبار ہے اور ابتداء میں منافع کا فیصد طے نہیں کیاکہ کس کو کتنا فیصد ملے گا ؟ زید کا کاروبار میں کوئی دخل نہیں ، سارا کام عمرو دیکھتا ہے؛ البتہ زید کی شرکت کی بنا پر ہر ماہ اسے کچھ رقم دے دیتا ہے۔

                جیسے کبھی پانچ ہزار ، کبھی چھ ہزار۔۔۔۔۔ اور یہ رقوم بغیر کسی حساب و کتاب کے دے دیتا ہے۔ اب جواب طلب امر یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت جائز ہے یا نہیں ؟

فقط و السلام ‏، المستفتی:محمد آصف امروہوی ، متعلّم دار العلوم دیوبند

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

                الجواب وباللّٰہ التوفیق :- عقد شرکت یا مضاربت میں فریقین کے درمیان نفع کا باعتبار فیصد معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے، اور اگر نفع کی مقدار دونوں کے درمیان باعتبار فیصد معلوم ومتعین نہ ہو، تو شرکت یا مضاربت کا معاملہ درست نہیں ، پس صورت مسئولہ میں دولاکھ روپے پر ماہانہ کیف ما اتفق پانچ ہزار یا چھہزار روپے دے دینا درست نہیں؛ بلکہ ضروری ہے کہ باعتبار فیصد نفع کی مقدار متعین کی جائے اور باقاعدہ حساب لگا کر  دولاکھ روپے پر حاصل شدہ نفع حسبِ معابد ہ با ہم دیانت داری کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔

                (وکون الربح بینہما شائعًا) فلو عین قدرًا فسدت۔۔۔۔۔۔ وفي الجلالیۃ: کل شرط یوجب جہالۃ في الربح أو یقطع الشرکۃ فیہ یفسدہا، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارًا بالوکالۃ (الدر المختار مع رد المحار، کتاب المضاربۃ، ۸:۴۳۳، ۴۳۴، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند، ۱۸:۲۲۴-۲۲۹، ت: الدکتور حسام الدین بن محمد صالح فرفور، ط: دمشق)۔

                ومنہا أن یکون نصیب المضارب من الربح معلوماً علی وجہ لا تنقطع الشرکۃ کذا في المحیط، فإن قال: ’’علی أن لک من الربح مأۃ درہم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرۃ دراہم‘‘ لا تصح المضاربۃ کذا في محیط السرخسي (الفتاوی الہندیۃ، کتاب المضاربۃ، الباب الأول في تفسیرہا ورکنہا وشرائطہا وحکمہا، ۴:۲۸۷، ط: المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، بولاق، مصر)

     فقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم‏، محمود حسن بلندشہری غفرلہٗ‏، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند‏، ۱۷؍۲؍۱۴۴۴ھ=۱۵؍۹؍۲۰۲۲ء

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام‏، مفتیانِ دارالافتائ، دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم ‏، شمارہ : 1، جلد:107‏، جمادی الثانی 1444ھ مطابق جنوری 2023ء

Related Posts