حرف آغاز
محمد سلمان بجنوری
وقت کا سفر حسب معمول جاری ہے اور ایک بار پھر شمسی کیلنڈر تبدیل ہونے جارہا ہے، سال کی تبدیلی خواہ شمسی ہو یا قمری، کسی نہ کسی درجے میں غور وفکر پر مجبور کرتی ہے کہ ختم ہونے والا سال کیسا گذرا اوراُس میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ یہ سوال ہر شخص کی ذاتی زندگی سے متعلق بھی ہوسکتا ہے اور پوری امت کی اجتماعی صورت حال سے بھی۔ ذاتی معاملات پر گفتگو کا یہ محل نہیں ہے، ہر آدمی کو اپنے طور پر غور وفکرکرکے اپنے حالات ومعاملات کی بہتری کے لیے مستعد ہونا چاہیے؛ لیکن اجتماعی معاملات پر یہاں بات کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔
جب ہم امت کے اجتماعی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ وقت کا پہیہ تو بے شک گھوم گیا ہے؛ لیکن ہم اپنے سفر کی اُسی منزل پر ہیں جہاں تھے؛ بلکہ شاید منزل سے مزید پیچھے نہ ہوگئے ہوں ، اس میں شک نہیں کہ ہم میں کچھ فکرمند لوگ بھی ہیں اور ہلکی رفتارہی سے سہی، بیداری کی ایک لہر بھی ہے؛ لیکن اس کاتناسب بہت کم ہے اورحالات کی سنگینی کا صحیح ادراک رکھنے والے اور کم ہیں اوراس کے لیے عملی پہلوئوں پر نظر رکھنے اور کوشش کرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کم ہے، اکثریت کا جوحال ہے اُس پر، تو یہ شعرپوری طرح صادق نظرآتا ہے کہ۔؎
نہ کسی کو فکرِ منزل نہ کوئی سراغِ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
حالات کی تبدیلی کے لیے سب سے زیادہ اہمیت قیادت کے کردار کی ہوسکتی ہے اس پہلو سے اگر مسلم ممالک کی قیادت اور وہاں کی مقتدر طاقتوں پر نظر ڈالیں تو ایک دوملکوں کو چھوڑ کر امید کی کرن نظر آنے کا لفظ بولنا بھی مشکل ہے، عمومی طور پر مسلم ممالک کی قیادت کا کوئی ارادہ کتاب وسنت کی تعلیمات اور صحابہ کے کردار ونظام کو اختیار کرنے کاتو کیا ہوتا وہاں تو اپنے فیصلے پوری آزادی کے ساتھ خود کرنے کی منزل بھی دور نظرآتی ہے وہ تو ابھی تک اُسی عطار سے دوا لینے کی روش پر قائم ہیں جو تمام بیماریوں کا سبب ہے، جہاں تک مسلم اقلیتی ممالک کی قیادت کا تعلق ہے، اس کو بھی حوصلہ مندی کے ساتھ امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا کا حامل بننے کی ضرورت ہے جس کے آثار ابھی تک کمزور ہیں ۔
مزیدیہ کہ مسلم اکثریتی ممالک ہوں یا مسلم اقلیتی ممالک، ساری دنیا ہی میں اسلامی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہوتا جارہا ہے، عدالتوں کے فیصلے ہوں یا میڈیا کے ہنگامے یا قانون ساز اداروں کی سرگرمیاں سب کا رُخ یہی ہے کہ انسان کے لیے اسلامی طرززندگی پر قائم رہنا مشکل سے مشکل تر بنادیا جائے۔ ذہن سازی کی سطح پر دیکھیں تو سوشل میڈیا اور تمام وسائل وذرائع کا استعمال اسلامی افکار ونظریات کی تردید کے لیے ہورہا ہے اور اس کے مقابلے کا کام دس فی صد بھی نہیں ہوپارہا ہے۔ اسی طرح تعلیم کی راہ سے بھی کفروالحاد پھیلانے کے انتظامات مضبوط کردیے گئے ہیں اور اس زہر کا تریاق بھی ابھی تک امت کے پاس بقدر ضرورت نہیں ہے۔
مجموعی صورت حال ہرصاحب ایمان کے لیے تشویش ناک ہے، بے شک مایوسی غلط ہے؛ لیکن حالات کی اصلاح کے لیے جس یقین محکم، قوت ادراک اور عمل پیہم کی ضرورت ہے اور جن مربوط اجتماعی کوششوں کے بغیر تبدیلی ناممکن ہے اُن کے آثار ابھی نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اللہ رب العزت اس کارواں کو وہ احساسِ زیاں عطا کردے جس کے بعد متاع گم شدہ کی تلاش میں کامیابی حاصل ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی کی رحلت
یہ خبربرصغیر ہی نہیں ، عالم اسلام کے علمی حلقوں میں رنج وغم کے ساتھ سنی گئی کہ مفتی اعظم پاکستان، حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی تقریباً دوسال کی علالت کے بعد دارفانی سے رخصت ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ بلاشبہ اِس دور میں ایسی شخصیات کا اُٹھ جانا ایسا خلا پیدا کرتا ہے جس کا پُرہونا مشکل نظر آتا ہے، حضرتؒ کی وفات کی خبر نے دارالعلوم دیوبند کی فضائوں کو بھی سوگوار کیا۔ ویسے بھی وہ دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کے فرزند تھے، اُن کی ولادت دیوبند میں ہوئی تھی اور ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیوبند کی فضائوں میں ہوئی اور وہ دس بارہ سال کی عمر میں یہاں سے اپنے ناموروالد حضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی قدس سرہٗ کے ہمراہ گئے تھے اور اب بے شمار علمی وعملی خدمات اور اعمال صالحہ سے پُرنامۂ اعمال لے کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے ہیں ، ہم اُن کے تمام متعلقین بالخصوص اُن کے برادرگرامی اور زندگی بھر کے رفیق، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور مغفرت ورفع درجات کی دعا کرتے ہیں ۔
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء