از: مفتی توقیر عالم قاسمی
استاذِ حدیث مدرسہ اشرف العلوم بردوان، مغربی بنگال
بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم
قرآن وحدیث میں بیوی کے ساتھ حسن سلوک، دلداری، مناسب و معقول طریقے سے گزر بسر اور اچھے برتاؤ کا تاکیدی حکم آیا ہے۔
احکم الحاکمین کا ارشاد ہے:
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَإِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسَی أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ (النساء:۱۹)
ترجمہ: اور بیویوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کیا کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو عجب کیا ہے کہ تم ایک شئ کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی بھلائی رکھ دے۔
حضرت تھانویؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
ان عور توں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو یعنی خوش اخلاقی اور نان ونفقہ کی خبر گیری اور اگر بمقتضائے طبیعت وہ تم کو نا پسند ہوں اور ان کی طرف سے کوئی امر ناپسندیدگی کا موجب واقع نہ ہوتو تم بمقتضاء عقل یہ سمجھ کر برداشت کروکہ ممکن ہے کہ تم ایک شئ کو ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعتِ دنیوی یا اخروی رکھ دے، مثلاً وہ تمہاری خدمت گذار اور آرام رساں اور ہمدرد ہو، یہ دنیا کی منفعت ہے، یا اس سے کوئی اولا پیدا ہوکر بچپن میں مرجائے، یا زندہ رہے اور صالح ہو جو ذخیرۂ آخرت ہو جائے۔ یا اقل درجہ ناپسند چیز پر صبر کرنے کی فضیلت تو ضرور ہی ملے گی۔ (بیان القرآن: ۱/۳۳۲)
فَإِنْ کَرِہْتُمُوْہُن: علامہ آلوسیؒ رقم طراز ہیں : اس کے معنی اور مطلب یہ ہے کہ اگر تمہاری بیویاں تم کو نا پسند ہوں تو ان پر صبرکرواور محض طبعی ناگواری اور نا پسندیدگی کی وجہ سے ان کو طلاق دے کر الگ مت کرو،ممکن ہے جس کو تم ناپسند کرتے ہو اس میں بہت بھلائی ہو؛ اس لیے کہ بعض دفعہ نفس اچھی چیز کو ناپسند کرتا ہے اور اس کے بر خلاف کو پسند کرتا ہے، لہٰذا مطمح نظر وہ چیز ہونی چاہیے جس میں خیر اور بھلائی ہو،نہ کہ وہ جس کو خواہشات نفس چاہے اور پسند کرے۔ (روح المعانی:۲/۴۵۲)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاَیَفْرَکُ مؤمنٌ مؤمنۃً، إنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقاً رَضِیَ منہا آخرَ۔ (مسلم حدیث نمبر:۱۴۶۹، باب الوصیۃ بالنساء)
کوئی ایمان والا شوہر اپنی بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر اس کو کوئی عادت ناپسند ہوگی تو دوسری کوئی عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔
حضرت عکرمہؒ فرماتے ہیں : حَقُّہَا عَلَیْکَ الصحبۃُ الحسنۃُ، والکسوۃُ والرزقُ المعروفُ۔ (الدر المنثور: ۲/۴۶۵)
یعنی بیوی کا تمہارے اوپر حق یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ اچھی صحبت اختیار کرو، اس کو کپڑے اور لباس دو اور مناسب ومعقول رزق اور کھانے پینے کا سامان دو۔
حضرت معاویہ قشیریؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: یا رسول اللہ!ہماری بیوی کا ہمارے اوپر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’أََنْ تُطْعِمَہَا إذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوْہَا إذَا اکْتَسَیْتَ، وَلاَتَضْرِبْ الوجہَ، وَلاَتُقَبِّحْ، ولاَتَہْجُرْ إِلاَّ فِی البیتِ‘‘۔(أبو دؤد حدیث: ۲۱۴۲، باب فی حق المرأۃ علی زوجہا، مسند أحمد حدیث: ۲۰۰۲۲)
ترجمہ: جب تم کھانا کھاؤ تو اُسے کھلاؤ، جب تم کپڑا پہنو تو اُسے پہناؤ، اس کے چہرے پر مت مارو، نہ اس کو برا کہو، اور نہ یہ کہوکہ اللہ تیرا برا کرے اور اس سے صرف گھر کے اندر ہی علاحدگی اختیار کرو۔
منہ پر مت مارو: بطور خاص منہ پر نہ مارنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ تمام اعضاء میں چہرا سب سے افضل ہے، اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر مثلا فواحش کے صدور یا فرائض ترک کردینے پر یا مصلحتِ تادیب کے پیش نظر منہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر مارے تو جائز ہے۔ فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے: شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پرمار سکتا ہے ۔
(۱) شوہر کی خواہش اور حکم کے باوجود زینت و آرائش نہ کرے۔
(۲) شوہر جماع کا خواہش مند ہو؛ مگر بیوی کو کوئی عذر(جیسے حیض وغیرہ) نہ ہونے کے باوجود انکار کردے۔
(۳) اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑدے، جنابت وناپاکی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک ِفرائض کے حکم میں داخل ہے ۔
(۴) بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھرسے باہر جاتی ہے۔ (مظاہر حق جدید:۴/۱۴۰)
ایک حدیث میں بیوی کو مارنے کی صراحۃً اجازت دی گئی ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: لاَیُسْئَلُ الرجلُ فِی مَا ضَرَبَ امرأتَہ۔ (أبوداؤد حدیث نمبر: ۲۱۴۷، ابن ماجہ حدیث: ۱۹۸۶، باب فی ضرب النساء)
ترجمہ: آدمی سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں مواخذہ نہ ہوگا۔
اس سے صرف گھر کے اندر ہی علاحدگی اختیار کرو: نافرمان بیوی کی اصلاح کے طریقے کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ، وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوْہُنَّ، فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَتَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً، إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیاًّ کَبِیْرًا۔ (النساء:۳۴)
ترجمہ: اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم ان کی سرکشی کا علم رکھتے ہوتو انھیں نصیحت کرو، اور انھیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑو، اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو ان کے خلاف بہانے نہ ڈھونڈو، بے شک اللہ بڑا ہی رفعت والا، بڑی ہی عظمت والا ہے۔
یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہوتو پہلا درجہ اس کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاؤ اور اگر وہ محض سمجھانے بجھانے سے باز نہ آئیں تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر اپنے سے علاحدہ کردو؛ تاکہ وہ اس علاحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کرکے اپنے فعل پر نادم ہوجائیں ، جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑدے، اس میں ان کو رنج بھی زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی اس میں زیادہ ہے اور جو اس شریفانہ سزا وتنبیہ سے بھی متأثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت منقول ہے، اور اس پر عمل بھی ثابت ہے۔
آیت کے اخیر میں ارشاد فرمایاکہ ان تینوں تدابیرکے ذریعہ اگر وہ تابعدار ہوجائیں تو پھر تم بھی چشم پوشی سے کام لو، معمولی باتوں پر الزام کی راہ نہ تلاش کرو اور سمجھ لو کہ اللہ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔ (معارف القرآن:۲/۳۹۹،۴۰۰)
بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کمالِ ایمان کی علامت
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ مِنْ أکملِ المؤمینَ إیماناً أحسنُہم خُلُقاً، وألطفُہم بأہلِہ۔ (ترمذی حدیث نمبر:۲۶۱۲، شعب الإیمان للبیہقی حدیث نمبر: ۸۳۴۵)
ترجمہ: مسلمانوں میں اس کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاق اور برتاؤ سب کے ساتھ بہت اچھا ہو،اور خاص کر بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت اور نرمی کا ہو۔
ایک دوسری حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب میں سب سے اچھا ہوں ۔ الفاظ حدیث یہ ہیں : عَنْ عائشۃَ ؓ قالتْ: قال رسولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم: خیرُکم خیرُکم لأہلِہ، وأنا خیرُکُم لأہْلِی۔
(رواہ الترمذی، وقال: ھذا حدیث حسن صحیح حدیث نمبر: ۸۳۹۵، سنن دارمی حدیث نمبر: ۲۳۰۶، صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۴۱۷۷)
بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ سے ڈرو
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن ایک لمبا خطبہ دیا، اس میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا:
’’فَاتَّقُوا اللّٰہَ فی النسائِ؛ فإنّکم أَخَذْتُمُوْہُنَّ بأمانِ اللّہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُروجَہَنَّ بکلمۃِ اللّٰہِ، ولَکم علیہنّ أنْ لا یُوْطِئَنَّ فُرُشَکُمْ أحداً تَکْرَہُوْنَہُ، فإنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوہنّ ضرباً غیرَ مُبَرَّحٍ، ولہنّ علیکم رزقُہنّ وکسوتُہنّ بالمعروفِ‘‘۔(مسلم حدیث نمبر: ۱۴۷-۱۲۱۸، باب حجۃ الوداع)
ترجمہ: لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو اللہ کے امان کے ساتھ اپنے عقد میں لیا ہے اور اسی اللہ کے کلمہ اور حکم سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں ۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جس کا گھر میں آنا اور تمہارے بستر پر بیٹھنا تمہیں ناپسند ہو وہ اس کو آکر وہاں بیٹھنے کا موقع نہ دیں ، پس اگر وہ ایسی غلطی کریں تو ان کو تنبیہ اور تادیب کے طورپر تم سزا دے سکتے ہو، جو زیادہ سخت نہ ہو۔ اور ان کا تمہارے اوپر یہ بھی حق ہے کہ تم مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے وغیرہ ضروریات کا بندو بست اور انتظام کرو۔یعنی بیویوں کا شوہر پر یہ خاص حق ہے کہ وہ ان کو کھانے، کپڑے وغیرہ کی ضروریات اپنی حیثیت اور معاشرے کے دستور کے مطابق پوری کریں ،اس معاملہ میں بخل سے کا نہ لیں ۔
اس حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ مرد جو عورتوں کے با اختیار اورصاحبِ امر سربراہ ہیں وہ اپنی اس سربراہی کو خدا کے مواخذہ اور محاسبہ سے بے پرواہ ہوکر عورتوں پر استعمال نہ کریں ، وہ ان کے معاملہ میں خدا سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان خدا ہے، اسی کے حکم اور اسی کے ضابطۂ نکاح کے مطابق وہ ان کی بیوی بنی ہیں اور ان کے لیے حلال ہوئی ہیں اور وہ اللہ کی امان میں ان کی ما تحت اور زیر دست بنائی گئی ہیں ۔ یعنی ان کی بیوی بن جانے کے بعد ان کو اللہ کی پناہ حاصل ہے، اگر شوہر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کریں گے تو اللہ کے دیے ہوئے امان کو توڑیں گے اور اس کے مجرم ہوں گے۔ ’’أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ‘‘ کا یہی مطلب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے اس جملے نے بتایا جب کوئی عورت اللہ کے حکم کے مطابق کسی مرد سے نکاح کرکے اس کی بیوی بن جاتی ہے تو اس کو اللہ کا خاص امان حاصل ہوجاتا ہے۔ (معارف الحدیث:۶/۲۹۹)
شب باشی کے لیے باری مقرر کرنا
جس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں ، اس کے لیے ان بیویوں کے درمیان عدل ومساوات اور برابری کرنا واجب اور ضروری ہے، خاص کر شب گزاری کے لیے باری متعین کرنا واجب ہے، جیسے اگر کسی کی دو بیویاں ہوں ہر ایک کے پاس ایک ایک، یا دو دو رات گزارے، یہ قرآن وحدیث اور اسلام کا حکم ہے، اسی طرح دوسرے حقوق جیسے نان نفقہ وغیرہ میں بھی ان کے درمیان عدل ومساوات ضروری ہے، قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ ’’اگر تم کو خوف ہے کہ تم ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل وانصاف نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، ایک ہی بیوی رکھو اور ایک سے زیادہ نکاح مت کرو‘‘۔ (سورۂ نساء، آیت نمبر:۳۔ مرقاۃ المفاتیح: ۵/۲۱۱۱، باب القسم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں ، آپ ان میں سے آٹھ کے لیے شب باشی کے لیے باری متعین کرتے تھے، صرف ایک یعنی حضرت سودہؓ کے لیے باری متعین نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ انھوں نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کردی تھیں ۔(مظاہر حق جدید:۴/۱۲۱)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر فرماتے تھے اور عدل سے کام لیتے تھے(اورپھر اس کے باوجود) یہ دعا کرتے تھے: ’’اللّٰہُمَّ ہذہ قِسمتی فیما اَملِکُ، فَلاَتَلُمْنِیْ فیما تَمْلِکُ وَلاَاَمْلِکُ‘‘۔ اے اللہ! جس چیز کا میں مالک ہوں (یعنی باری میں عدل ) وہ میں نے کردیا ہے، پس جس چیز کا تو مالک ہے میں مالک نہیں ہوں (دل) اس پر مجھے ملامت ومواخذہ نہ کیجیے۔ یعنی باری مقرر کرنے اور ان کے نان ونفقہ کا مالک ہوں ،لہٰذا ان چیزوں میں عدل وبرابری میں کرتاہوں ، کسی بھی بیوی کے ساتھ ناانصافی یاحق تلفی نہیں کرتا؛ البتہ پیار ومحبت کا تعلق دل سے ہے، جس پر میرا اختیار نہیں ہے، وہ آپ کے قبضے میں ہے، میں اس میں برابری نہیں کر سکتا،اس لیے اگر مجھے کسی بیوی سے زیادہ محبت اور کسی سے کم محبت ہو تو چوں کہ میرے قصد وارادے کو دخل نہیں ہوگا، لہٰذا اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کیجیے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۴۰، باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر، ابوداؤدحدیث نمبر: ۲۱۳۴، ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۹۷۱)
علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ وہ چیز جو شوہر کی ملکیت اور قدرت کے تحت داخل ہے، اس میں بیویوں کے درمیان عدل وبرابری واجب ہے۔ (مرقاۃ:۵/۲۱۱۴)
اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس آدمی کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل و مساوات اور برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن میدانِ محشر میں اس حال میں آئے گا (اور لوگ اسے دیکھیں گے )کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہوگا، یا اس کے جسم کا آدھا حصہ فالج زدہ ہوگا۔ (ترمذی حدیث نمبر:۱۱۴۱، سنن نسائی: حدیث: ۳۹۴۲)
(۴) ماں کے حقوق
اللہ تعالی تو حقیقۃ بچہ کو وجود عطا فرماتاہے، والدین اس کی ایجاد کا ظاہری ذریعہ ہیں ؛ اس لیے کئی آیتوں میں اللہ تعالی کے حقوق کے ساتھ دالدین کے حقوق ذکر کیے گیے ہیں ، پھر ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ ہے؛ کیوں کہ باپ کے مقابلے میں ماں بچے کے لیے زیادہ تکلیف اور مشقت اٹھاتی ہے؛ چناں چہ حالتِ حمل میں مہینوں تک اس کا بوجھ اٹھائی، وضعِ حمل کی تکلیف برداشت کی، اس کے بعد دوبرس تک دودھ پلائی، اس دوران نہ معلوم کیسی کیسی تکلیفیں اور سختیاں جھیل کر بچہ کی تربیت کی، اپنے آرام کو اس کے آرام پر قربان کیا؛اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کا، خصوصاً ماں کا حق پہچانے اور ان کی خدمت واطاعت کرے۔
میں ذیل کی تحریر میں ماں کے حقوق کو بیان کروں گاچوں کہ سلسلۂ کلام ’’حقوقِ خواتین‘‘کا ہے؛ لیکن ضمن میں بعض جگہ باپ کے حقوق سے متعلق ذکر بھی آئے گا۔سب سے پہلے قرآن کریم کی چند آیتیں اور ان کے معانی وتفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
(۱) وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاہُ، وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً، إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہَُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَتَقُلْ لَہُمَا أُفٍّ وَّ لاَ تَنْہَرْ ہُمَا، وَقُلْ لَہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ، وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔ (بنی اسرائیل:۲۳،۲۴)
ترجمہ: اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ بجز اس (ایک رب) کے کسی اور کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک رکھنا۔ اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ،ان دونوں میں سے ایک، یا وہ دونوں ‘ تو تو ان سے (کہیں) اُف (ہوں) بھی نہ کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کے ساتھ بات چیت کرنااور ان کے سامنے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا‘کہ اے میرے پروردگار ان پر مہربانی فرمانا جیسا کہ انھوں نے مجھے بچپن میں پالا پرورش کیا۔
(۲) اُعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْبِہِ شَیْئًا، وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔ (النساء: ۳۶)
ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیزکا اس کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
ان دونوں آیتوں میں ماں باپ کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملاکر واجب فرمایا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد ماں باپ کی عبادت سب سے اہم ہے، صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے، جس میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا:نماز اپنے وقت (مستحب) میں پڑھنا۔ اس نے پھر دریافت کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔ ( تفسیر قرطبی، معارف القرآن:۵/۴۶۳)
سورۂ بنی اسرائیل کی مذکورہ آیات میں ماں باپ کے حق میں چند چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔
(۱) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا: ان کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے، شفقت ونرمی کی جائے، ان سے الفت ومحبت رکھی جائے، ان کی رضامندی اور خوشنودی کو ترجیح دی جائے، ان کی ضروریات پوری کی جائے، ان کی راحت اور آرام وسکون کا ہمہ وقت خیال رکھا جائے اور ہر ایسے عمل اور بات سے اجتناب اور گریزکیا جائے جو ان کے رنج وتکلیف کا موجب ہو۔
(۲) ماں باپ کے ادب کی رعایت خصوصاً بڑھاپے میں : بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے، جس سے بعض اوقات اہل وعیال بھی اکتانے لگتے ہیں ، زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش وحواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے۔ بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بڈھے والدین کی خدمت گزاری اور فرماں برداری سے جی نہ ہارے، قرآن نے تنبیہ کی کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کُجا، ان کے مقابلے میں زبان سے ’’ہوں ‘‘ بھی مت کہو؛بلکہ بات کرتے وقت پورے ادب وتعظیم کو ملحوظ رکھو۔ ابن مسیب ؒنے فرمایا: اس طرح بات کرو جیسے ایک خطاوار غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے۔ (فوائد تفسیر، ترجمہ شیخ الہند: ۳۷۷)
اللہ تبارک وتعالی نے ماں باپ کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانۂ طفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں ،تو جس طرح انھوں نے اپنی راحت وخواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار سے برداشت کیااب جب کہ ان پر محتاجی کا وقت آیا تو عقل وشرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے اس سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔ آیت میں ’’کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہے۔ (معارف القرآن: ۵/۴۶۶)
(۳) آیات مذکورہ میں ماں باپ کے بڑھاپے کی حالت کو پہنچنے کے وقت چند تاکیدی احکام اور ہدایات دی گئی ہیں ۔
پہلا حکم: ان کو اُف بھی نہ کہو: لفظ ’’اُف‘‘ سے مراد ہر ایسا لفظ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو، یہ ادنیٰ تکلیف دینے سے کنایہ ہے، اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ کے نزدیک ایذا رسانی میں ’’اف‘‘ سے کم تر چیز کا وجود ہوتا تو وہ بھی ذکر کیا جاتا اور اس سے روک دیتے، پس والدین کی نافرمانی کرنے والاجوچاہے عمل کرتا رہے وہ جنت میں ہرگزنہیں جائے گااور والدین کے ساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنے والا جو چاہے عمل کرے وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (روح المعانی:۹/۸۳، زکریا بکڈپو دیوبند)
دوسرا حکم: وَلاَتَنْہَرْہُمَا۔ان کو مت جھڑکو، مت ڈانٹو؛کیوں کہ اس میں ان کو تکلیف ہونا ظاہرہے۔
تیسرا حکم: وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا۔ پہلے دو حکم منفی پہلو سے متعلق تھے، جس میں والدین کی ادنیٰ سے ادنیٰ بارِ خاطر کو روکا گیاہے، اس تیسرے حکم میں مثبت انداز سے والدین کے ساتھ گفتگو کا ادب سکھلایا گیا ہے کہ ان سے محبت وشفقت کے نرم لہجے میں بات کی جائے ۔
چوتھا حکم: ان کے سامنے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا: یعنی ماں باپ کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل آدمی کی صورت میں پیش کروجیسے غلام آقا کے سامنے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ محض دکھلاوے کا نہ ہو؛بلکہ قلبی رحمت وعزت کی بنیاد پرہو اور یہ بھی ملحوظ خاطررہے کہ ماں باپ کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنا حقیقی عزت کا مقدمہ ہے؛ کیوں کہ یہ واقعی ذلت نہیں ؛ بلکہ اس کا سبب شفقت و رحمت ہے۔ (معارف القرآن ملخصاً: ۵/۴۶۶،۴۶۷)
پانچواں حکم: وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا: اپنے ماں باپ کے لیے رحمت کی دعا کرتا رہے: ان کی پوری راحت رسانی تو انسان کے بس کی بات نہیں ، اپنی مقدور بھرراحت رسانی کی فکر کے ساتھ ان کے لیے اللہ تعالی سے دعا بھی کرتا رہے کہ اے میرے رب! اپنی رحمت سے ان کی سب مشکلات کو آسان اور تکلیفوں کو دور فرما، یہ آخری حکم ایسا وسیع اور عام ہے کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی جاری ہے، جس کے ذریعہ وہ ہمیشہ والدین کی خدمت کرسکتا ہے۔ (حوالہ سابق)
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ، حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ، وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْنِ، أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ، إِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ (لقمان: ۱۴)
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو تاکید کی اس کے ماں باپ سے متعلق، اس کی ماں نے اس کو ضعف پر ضعف اٹھاکر اسے پیٹ میں رکھا، اور دوبرس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکرگزاری کیا کر، میری ہی طرف واپسی ہے۔
اس آیت کی تفسیر حضرت تھانویؒ سے سنیے:
’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے کہ ان کی اطاعت اورخدمت کرے؛ کیوں کہ انھوں نے اس کے لیے بڑی مشقتیں جھیلی ہیں بالخصوص ماں نے؛ چناں چہ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکراس کو پیٹ میں رکھا؛ کیوں کہ جوں جوں حمل بڑھتا جاتاہے حاملہ کا ضعف بڑھتا جاتا ہے اور پھر دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے، ان دنوں میں بھی وہ ہر طرح کی خدمت کرتی ہے، اسی طرح اپنی حالت کے موافق باپ بھی مشقت اٹھاتا ہے؛ اس لیے ہم نے اپنے حقوق کے ساتھ ماں باپ کے حقوق ادا کرنے کا حکم فرمایا؛ چناں چہ یہ ارشاد فرمایاکہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر، حق تعالی کی شکر گزاری تو عبادت واطاعت حقیقیہ کے ساتھ اور ماں باپ کی خدمت و ادائے حقوق شرعیہ کے ساتھ؛ کیوں کہ میری طرف سب کو لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں اعمال کی جزاء وسزا دوں گا؛ اس لیے احکام کی بجا آوری ضروری ہے‘‘۔ (بیان القرآن:۳/۱۴۵، مکتبہ عکاظ دیوبند)
(باقی آئندہ)
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء