از: محمد طیب بن محمد حنیف
متعلّم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن
ناخوشگوار حالات و وقائع ، مصائب وآلام سے نجات کے لیے دعاؤں کے اندر جو قوی تاثیر ہے اس کے سامنے دوسری سعی وتدابیر ہیچ ہیں ،حق تعالی کے سامنے دست بستہ راز ونیاز، آہ وزاری، سابقہ گناہوں کا اعتراف، رحمت وعنایت کے نزول کا مکرر سوال اور پھر اس کے جواب میں حق تعالیٰ کاعفو ودرگذر اور حاجت برآری یہ ایک ایسا وسیع باب ہے جو سارے دین کاخلاصہ ولب لباب ہے، جو بمنزلہ حصن وحصین کے ہے، جس کے حصار میں رہنے والا شخص کبھی نامراد وناکام نہیں ہوتا، اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں دعا کی حقیقت اور اجابت سے متعلق احکامات ذکر کیے گئے ہیں ۔
دعا کا لغوی معنی
کلمہ ’’دعا‘‘ یہ دعوۃ سے مشتق ہے، ابن فارس اس کا معنی یو ں بیان کرتے ہیں :
’’إمالۃ الشیء إلیک بصوت وکلام یکون منک‘‘ صادر ہونے والے کلام وآواز کے ذریعہ کسی کو اپنی جانب مائل و مخاطب کرنا‘‘(۱)
اصطلاحی تعریف
اس سلسلہ میں امام خطابیؒ لکھتے ہیں : ’’ومعنی الدعاء: استدعاء العبد ربّہ -عزّ وجلّ- العنایۃَ واستمدادہ إیاہ المعونۃَ‘‘
یعنی بندہ کا اللہ عز وجل سے عنایت ومددکا خواستگار ہونے کا نام ’’دعا‘‘ہے۔(۲)
حافط ابن القیم ؒ اس کو سادہ پیرائے میں یوں بیان کرتے ہیں : ’’ھو طلب ماینفع الداعی، وطلب کشف مایضرّہ أو دفعہ‘‘
یعنی داعی کا اپنے واسطے نفع بخش چیز کا سوال کرنا اور باعث مضرّت چیز کے زوال کا طالب ہونا(۳)
دعا کی حقیقت
حقیقت دعا سے متعلق امام رازیؒ رقم طراز ہیں ’’حقیقۃ الدعاء استدعاء العبد ربہ جلّ جلالہ العنایۃ واستمدادہ إیاہ المعونۃ‘‘
’’دعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد ورحمت کا طلبگار ہو‘‘
چنانچہ حضرت مولانا الیاس صاحب ؒ دعا کی حقیقت سے یوں بیان فرماتے ہیں : ’’اپنی حاجتوں کو بارگاہ ذوالجلال میں پیش کرنا یہ دعا کی حقیقت ہے ، جتنی بلند بارگاہ ہے اتنا ہی دعاؤں کے وقت دل کو متوجہ کرنا اور الفاظِ دعا کو تضرع و زاری سے ادا کرنا مندوب ہے اور حاجت برآری کے یقین واذعان کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے؛ چونکہ وہ سخی ذات ہے، زمین وآسمان کے خزانے اسی کے دست قدرت میں ہیں ‘‘۔(۴)
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اپنے دینی ودنیوی مطالب زبان سے، دل سے، یا حال سے پیش کرنا یہ تمام انواع اس وسیع مفہوم کے تحت داخل ہیں ۔
حافظ ابن القیم حنبلیؒ فرماتے ہیں :
دعاؤں کا اہتمام اور تعوذات یہ بمنزلہ اسلحہ وہتھیار کے ہیں ، کسی بھی ہتھیار میں بذاتہ قوت وطاقت نہیں ؛ بلکہ ضارب کے زور بازو پر اس کا مدار ہے، لہٰذا جب ہتھیار درست ہو، کوئی امرخارجی مانع نہ ہو، دست وبازو زور آور ہو تو وہ دشمن کے سینہ پر وار کرنے میں ضرور کامیاب ہوتا ہے؛ البتہ کسی ایک شرط کا فقدان بھی اس کی تاثیر میں وقوع کمی کا موجب اور غیر مؤثر ہوگا ، بعینہٖ اسی طرح دعا مانگتے وقت دل وزباں آپس میں موافق ہوں ، امرخارجی مانع نہ ہو تو وہ دعا (قبولیت میں) اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے۔(۵)
دعا مانگنے سے متعلق آداب
دنیاوی چند رقبوں پر محیط عارضی سلطنت وحکومت کرنے والے بادشاہ کے دربار شاہی میں مخصوص آداب کو بجالانا ضروری سمجھا جاتا ہے، تو جو تمام کائنات، آسمان و زمین کا از اول تا آخر مالک حقیقی ہے اس سے ہم کلامی کے آداب نہ ہونگے؟ لہٰذا ذیل میں ان آداب کو درج کیا جاتا ہے، نیز ان آداب کی رعایت اجابت دعا میں مؤثر ثابت ہوتی ہیں ، جیسا کہ امام طرطوشی (مؤلف کتاب الدعاء والمأثور) المتوفی:۵۹۰ فرماتے ہیں :
دعا مانگے کے چند آداب اسلاف سے منقول ہیں اور اس سے متعلق چند شرائط ہیں ،جن کی رعایت کرنے کی صورت میں قوی امید ہے کہ وہ اپنی مراد کو پالے گا اور جس نے ان کا لحاظ کرنے سے غفلت برتی تو وہ خدا کی ناراضگی، رحمت الٰہی سے دوری اور نعمتِ ابدیہ سے محرومی کا موجب ہوگا۔(۶)
وہ آداب درج ذیل ہیں :
(۱)سب سے پہلے اللہ رب العزت کی حمد وثنا بیان کرے،حضور نبی کریمﷺ پر درود پڑھنے کا اہتمام کرے پھر اپنی قلبی حاجات کو پیش کرے۔
(۲)سابقہ گناہوں وغلطیوں کا اعتراف ہو، اللہ کے حضور حیل وحجت سے گریز کرے۔
(۳)دعا سے قبل عمل صالح (صدقہ ونوافل)کا اہتمام کرے۔
(۴)آہ وبکا کے ساتھ مکرّر سوال کرے۔
(۵)خوشی وغمی، آسان و مشکل ہر گھڑی ولمحہ میں دعا پر مداومت اختیار کرے۔
(۶)استقبال قبلہ کی رعایت کرے۔
(۷)مسواک کا اہتمام رکھے ۔
(۸) طہارت بدنی وقلبی کا حصول، با وضو حالت میں دعا مانگے۔
(۹) ہاتھ اٹھاکر دعا مانگے۔
(۱۰) بلند ہمتی وثواب کی امید رکھے۔
اجابت دعا سے متعلق شرائط
سہل بن عبداللہ تستری-رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ قبولیت دعا کے واسطے سات شرائط ہیں :
(۱)تضرع: قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہ ط لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘(۷)
ترجمہ:’’تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو۔ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
(۲)خوف: خوف وخشیت الٰہی کے آثار نمایا ہوں ، جیسا کہ اسلاف کا مشہور مقولہ ہے: ’’الإیمان بین الخوف والرجاء‘‘(۸)
یعنی ایمان امید و بیم(خوف) کے درمیانی کیفیت کا نام ہے۔ اس کی تفصیل میں ہمارے مشکوٰۃ شریف کے استاذمولانا عادل صاحب ـحفظہم اللہ ـ فرماتے ہیں کہ عنفوان شباب کی حالت میں خوف غالب رہنا چاہیے؛ جبکہ پیرانہ سالی وضعف العمری میں امید کا غلبہ ہونا چاہیے۔
(۳)امید: روایت میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’أدعوا اللّٰہ وأنتم موقنون بالإجابۃ، واعلموا أن اللّٰہ لایستجیب دعاء من قلبٍ غافلٍ لاہٍ‘‘(۹)
’’اللہ تعالی سے اس دعا کی قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے دعا مانگو اور جان لو کہ اللہ تعالی غافل وبے دھیان دل سے کی جانے والے دعا کو قبول نہیں فرماتے‘‘
(۴)مداومت: اجابتِ دعا میں جلدبازی سے کام نہ لے، جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ ’’لا یَزَالُ یُسْتَجابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَدْعُ بإثمٍ أو قَطِیعَۃِ رَحِمٍ، ما لم یستعجل‘‘ قیل: یا رَسول اللَّٰہ، ما الاستعجال؟ قال: ’’یقول: قد دعوتُ، وقد دَعَوتُ، فلَمْ أرَ یَستجیبُ لی، فَیَسْتَحْسِرُ عند ذلک، ویَدَعُ الدعائَ‘‘(۱۰)
’’بندہ کی دعا اس وقت تک مسلسل قبول کی جاتی ہے جب کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی یا جلدبازی نہ کرے، صحابہ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ، جلد بازی کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا:وہ یوں کہنا ہے کہ میں نے تو دعا مانگی، ابھی پھر دعا مانگی؛ مگر میں اس کو قبول ہوتا نہیں دیکھتا ہوں ، جس کے بعد وہ مایوس ہوکر دعا مانگنا ہی چھوڑ دیتا ہے‘‘
(۵)خشوع : قرآن مجید میں ارشاد ہے {اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھبًا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ}(۱۱)
’’یقینا یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے اور ہمیں شوق اور ڈر کی حالت میں پکارا کرتے تھے، اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے‘‘۔
(۶)دعا کو محدود و مقید نہ کرے: اس سے متعلق ایک روایت میں آتا ہے صحابی رسول عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کا بیٹا یہ دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ، اگر میرے واسطے جنت لکھی ہو تو مجھے جنت کے دائیں جانب سفید محل عنایت فرما۔جب آ پ رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ سنا تو نہایت شفقت سے سمجھایا: اے بیٹے، اللہ سے (مطلقاً بدون تقیید مکان) جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو،اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا ’’سیکون قوم یعتدون فی الدعاء‘‘ (عنقریب ایسی قوم پیدا ہوگی جو دعا میں حد اعتدال سے تجاوز کرے گی)(۱۲)
(۷) حلال روزی وآمدنی کا اہتمام:اس سے متعلق روایات میں آتا ہے ’’إن اللّٰہ طیّب لایقبل إلا طیّبا، ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمدّ یدیہ إلی السماء، ویقول: یاربّ، یارب، ومطعمہ حرام، ومشربہ حرام، وملبسہ حرام، وغذی بالحرام، فأنی یستجاب لذلک(۱۳)
یعنی اللہ تعالیٰ طیب ہیں ، لہٰذا پاکیزہ چیز کو قبول فرماتے ہیں ، پھر نبی کریم ﷺنے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو سفرِدراز کی مشقت اٹھائے، پراگندہ بال، غبار آلود حالت میں اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب دراز کیے پکارتا ہے، اے میرے رب، اے میرے رب؛ لیکن اس کی خورد ونوش حرام، اس کا زیب تن لباس اورپرورش حرام آمدنی سے ہوتی ہے، سو بھلا کہاں اس کی دعا قبول کی جائے گی؟
لمحہ فکریہ
ایک مرتبہ ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں ؛ مگر ہماری دعائیں قبول نہیں کی جاتی ہیں ؟
حضرت ؒ نے جواب دیا : اس لیے کہ تم اللہ جل شانہ کو رب تو تسلیم کرتے ہو؛ مگر اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ تم رسول ﷺکو نبی برحق دل سے قبول کرتے ہو؛ مگر ان کی سنتوں کی اتباع وپیروی سے روگردانی کرتے ہو۔ تم قرآن مجید کو سراپا پیغام ہدایت ومشعل راہ مان کر بھی اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔تم اللہ تعالی کی انگنت نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود بھی اس کا شکر بجا نہیں لاتے۔ تم جنت اور اس کی لازوال نعمتوں سے بخوبی واقف ہو مگر اس کی تمنا وآرزو نہیں کرتے۔ تم جہنم اوراس کی ہولناکی کا علم رکھتے ہو؛ مگر اس سے راہ نجات تلاش نہیں کرتے۔تم شیطان کوازلی دشمن قرار دینے کے باوجود اس کی راہ پر گامزن ہوتے ہو۔ تم موت کو برحق تسلیم کرنے کے باوجود اس کی تیاری سے غافل ہو۔ (المجالس السنیۃ فی شرح أربعین للنووی)
اجابت دعا کا مفہوم
ایک اشکال عام طور پر سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں وارد ہوتا ہے کہ ہر فرد انسانی کو سوال کردہ چیز عطاء کیوں نہیں کردی جاتی ہے،یہ تو اجابت دعا کے معارض ہے؟
اس کا جواب فقہاء کرام نے مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں دیا ہے:
’’عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال: ’’ما من مسلم یدعو بدعوۃ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحم الا اعطاہ اللّٰہ بھا احدی الثلاث، اما ان یعجل لہ دعوتہ، واما ان یؤخرھا لہ فی الآخرۃ، واما ان یکف عنہ من الشر مثلھا‘‘(۱۴)
جب کوئی شخص آداب و شرائط کی رعایت بجالاتے ہوئے رب کے حضور دعا مانگتا ہے تو وہ ہرگز رد نہیں کی جاتی؛ البتہ اس کی اجابت کی چند صورتیں ہوتی ہیں : (۱) مطلوبہ ومسؤولہ چیز سے نواز دیا جانا (۲) اس کے عوض اس سے بڑھ کر نعمت کا عطا کیا جانا، مثلا پیش آمدہ آفات وبلیات کا اس کے عوض ازالہ فرمایا جانا (۳) آخرت کے واسطہ ذخیرہ کیا جانا۔
ملاحظہ:مولانا منظور احمد نعمانیؒ نے اپنی شہرہ آفاق تالیف ’’معارف الحدیث‘‘ میں ایک عجیب نکتہ ذکر کیا، وہ فرماتے ہیں : ’’بسا اوقات بہت سے بندوں کی دعا جو بڑے اخلاص و اضطرار سے کرتے ہیں اس لیے بھی جلدی قبول نہیں کی جاتی کہ اس دعا کا تسلسل ان کے لیے ترقی اور ترقب الی اللہ کا خاص ذریعہ ہوتا ہے، اگر ان کی منشا کے مطابق ان کی دعا جلدی قبول کرلی جائے تو اس عظیم نعمت سے وہ محروم رہ جائیں ‘‘۔(۱۵)
اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ ہمیں مرتے دم تک اپنے در کا بھکاری بنائے، مخلوق کے سامنے دست سوال سے محفوظ فرمائے، آمین
٭ ٭ ٭
حواشی
(۱) مقاییس اللغۃ لابن فارس ۲/۲۷۲، مطبع دار الفکر۔
(۲) شأن الدعاء للخطابی ص۴، ط ۔ دار الثقافۃ العربیۃ۔
(۳) بدائع الفوائد لابن القیم۳/۲، مطبع دار الکتب العربی، بیروت، لبنان۔
(۴) ملفوظات مولانا الیاس صاحب ، ملفوظ نمبر۵۳،ط مدنی کتب خانہ کراچی۔
(۵) الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی، ص۱۵، ط دار المعرفۃ، المغرب۔
(۶) الدعاء والمأثور ص۴۴۔
(۷) سورۃ الاعراف آیت نمبر۵۵۔
(۸) ذخیرہ احادیث میں اس قسم کے الفاظ کے ساتھ تو روایت نہیں ملتی، البتہ اس مضمون کو سموئے متعدد روایات موجود ہیں ۔
(۹) ترمذی، کتاب الدعوات، رقم الحدیث ۳۴۷۹۔
(۱۰) صحیح مسلم ، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب استحباب حمد اللہ تعالی بعد الأکل والشرب، برقم۲۷۳۵۔
(۱۱) سورۃ الأنبیاء آیت نمبر۹۔
(۱۲) ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب کراھیۃ الاعتداء فی الدعاء، برقم ۳۸۶۴۔
(۱۳) صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ، رقم ۱۰۱۵۔
(۱۴) ترمذی، باب انتظار الفرج رقم الحدیث۳۵۷۳، تفسیر قرطبی۱/۳۱۰، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر۱۸۶۔
(۱۵) کتاب الاذکار والدعوات صفحہ۹۷، حصہ۵۔
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء