از: مفتی محمد مصعب

معین مفتی دارالعلوم دیوبند

اپنے حضرات کی رائے نہیں ہے!

                حضرت مولانا احمد رضا بجنوری رحمۃ اللہ علیہ علامہ انورشاہ کشمیری قدس سرہ کی خصوصیات کے تحت لکھتے ہیں :

                حضرت شاہ صاحبؒ کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ باوجود اس قدر علم وفضل، تبحر علمی، وسعت معلومات اور وسعت مطالعہ کے آپ کا یہ تثبت والتزام حیران کُن ہے کہ کبھی کسی ادنیٰ جزئی مسئلہ پر بھی سلف کے مسلک سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئے،حتی کہ اس دَور میں اکابر دیوبند کا جو ایک چھنا چھنا یا برگزید و معتدل حنفی مسلک ہے اور ہر طرح افراط و تفریط سے پاک اور علمائے سلف و خلف سے بطور تواتر وتوارث ہم تک پہنچا ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک بہتر اُسوہ ہے، اس کی بھی رعایت بدرجۂ اتم فرماتے تھے۔

                اگر کوئی گنجائش اُو پر سے کسی مسئلہ میں مل گئی تو اس کو فر ما دیا ؛ ورنہ نیا اجتہادکر کے کوئی گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں تھے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرتؒ کا سب سے بڑا کمال تھا جو دوسرے کمالات پر بڑی فوقیت رکھتا ہے؛ کیونکہ اس دَور میں تو بہت زیادہ اور پہلے اَدوار میں بھی ایسے علما ء ہوئے ہیں جن کوعلمی تبحر اور وسعتِ مطالعہ کی دولت ملی، تو وہ مجتہد بن گئے اور پھر وہ خود اپنے علم پر بھروسہ کر کے قرآن مجید کی تفسیر، احادیث رسول اللہﷺکی تشریح واقوالِ سلف کی تاویل میں آزاد ہو گئے اور جس طرح خودان کی سمجھ میں آیا اس کو اگلوں تک پہنچانے کے لیے اپنی ساری قوت تحریر و بیان صرف کر دی، جس سے کتنے ہی مفاسد اور فتنوں کے دروازے کھل گئے اور جن لوگوں نے ان نئے مجتہدوں کی تحقیق پر بھروسہ کیا ان کا اعتماد پہلوں سے اٹھ گیا، شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے کسی شاعر نے کہا ہے:

 فإنْ کُنْتَ لَا تدرِی فَتِلْکَ مصیبۃٌ   ٭  وإن کنتَ تَدْرِي فالمصیبۃُ أعظمٗ

                غرض میں یہ کہہ رہا تھا کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی سب سے بڑی خصوصیت وفضیلت میرے نزدیک یہ تھی کہ وہ سلف کے راستہ کوترک کرنا گوارہ نہیں فرماتے تھے، خیال فرمائیے کہ مصر کے بعض علماء موجودہ فوٹوگرافی کے ذریعے حاصل شدہ تصاویر کو جائز قرار دے رہے ہیں ، علامہ طنطاویؒ ان سب دلائل و براہین کو اپنی تفسیر میں یکجا کر دیتے ہیں ، جن سے جواز کی شکل نکل سکتی ہے،قرآن مجید سے، احادیث سے، آثار صحابہ سے اور پھر دلائل عقلیہ سے اور اس پورے مضمون کو پڑھ کر اور علامہ طنطاویؒ کی ساحرانہ طر زتحریر اور زور بیان سے بھی متاثر ہوکر میں نے اپنے دل میں یہ یقین کر لیا تھا کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی بھی چونکہ سب چیزوں پر نظر ہے، اگر کوئی بال برابر بھی گنجائش شرعی نقطئہ نظر سے نکل سکتی ہے تو حضرت ضرور اس کا اشارہ فرمائیں گے؛ مگر وہاں سے جواب کیا ملتا ہے صرف اتنا کہ:

’’اپنے حضرات کی رائے نہیں ہے‘‘

                اس جملہ کی قیمت کتنی بڑی ہے، کم از کم میں اپنے کو اس کے بیان سے عاجز پا تا ہوں ، آج اس واقعہ کو تقر یباً ۲۸،۲۹؍ سال گزر چکے ہیں ؛ مگر جب بھی یہ جملہ یاد آ جا تا ہے تو سوچا کرتا ہوں کہ حضرت نے کیا بات فرمائی تھی ؟ میرا اتنا لمبا چوڑ اخط، علامہ طنطاویؒ کے پیش کر دہ نقلی وعقلی دلائل کا انبار، علماء مصر کا طرز عمل اور اس کے اثر سے یہاں ہندوستان کے بھی بہت سے علماء و عوام میں اس امر کے رجحانات کہ کسی طریقہ سے بھی کچھ جوازِ شرعی کا شائبہ ہی نہ نکل آئے، یہ سب کچھ ہے؛ مگر حضرتؒ کا جواب کتنا مختصر، کتنا جامع و مانع اور کس قد مکمل وافی وشافی ہے، یہ قابلِ داد ہے؛ کیونکہ اس سے آپ نے صرف میرے سوال کا جواب ہی نہیں دیا؛ بلکہ اس کے ساتھ یہ ہدایت اور رہنمائی بھی ملی کہ آئند ہ بھی جب کبھی اس قسم کا خلجان کسی جزئی مسئلہ میں ہو توصرف یہ دیکھ لینا چاہیے کہ ’’اپنے حضرات کی رائے‘‘ کیا ہے؟ ( ملفوظات محدث کشمیریؒ، ملخصا، ص: ۴۰تا۴۲،ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، پاکستان )

فائدہ

                نئی تحقیقات کے مقابلے علامہ کشمیریؒ کا یہ جملہ کہ

’’اپنے حضرات کی رائے نہیں ہے‘‘

                واقعی اپنے آپ میں ایک زبردست پیغام رکھتا ہے، اِس جملہ کی اہمیت ومعنویت کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ امام العصر کے علمی مقام ومرتبہ اور اپنے حضرات (امام ربانی حضرت گنگوہیؒ وغیرہ) جیسی شخصیات کی شانِ تفقہ کا ادراک حاصل ہو، علامہ کشمیریؒ کے علمی مقام کے لیے صرف اتنا لکھنا کافی ہے کہ مشہور محقق و نا قد شیخ زاہد الکوثریؒ کا بیان ہے کہ احادیث نبویہ کے تحت نادر ابحاث کے اٹھانے میں شیخ ابن الہمامؒ کے بعد علامہ کشمیریؒ جیسا شخص پیدانہیں ہوااورپانچ چھ صدیوں  کا وقفہ کوئی معمولی مدت نہیں ہے اھ (نقد ونظر:۱/۲۱۱ بحوالہ مقد مہ عقیدۃالاسلام فی حیات عیسی علیہ السلام) جو حضرات شیخ کوثریؒ کے مزاج و مذاق سے واقف ہیں انھیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ ان کے جملوں کو کسی تصنع یا مبالغے پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔

                بہرحال!  ایسا متبحر عالم دین نئی تحقیقات کو یہ کہہ کر رد کر دیتا ہے کہ ہمارے حضرات کی رائے نہیں ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ کشمیریؒ کی نظر میں حضرت گنگوہیؒ وغیرہ کا کیا مقام تھا، آپ حضرت گنگوہیؒ کو فقیہ النفس سمجھتے تھے،فقیہ النفس فقہاء کی ایک اصطلاح ہے، اس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ تعالی نے فقہ میں کثرت ممارست کے بعد ایک ایسا ذوق سلیم عطافرمادیا ہوجس کی روشنی میں وہ کتابوں کی مراجعت کے بغیر بھی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہو، فقیہ النفس کی پہچان بھی انھیں لوگوں کا حصہ ہے جنہیں اللہ تعالی نے تبحر علمی سے نوازا ہو، ظاہر ہے کہ اس پہچان کے لیے علامہ کشمیری جیسی شخصیت سے زیادہ کون موزوں ہوسکتا ہے، آپ نے علامہ ابن عابدین شامیؒ جیسے وسیع العلم انسان کو بھی فقیہ النفس تسلیم کرنے سے انکار کیا اور فرمایا کہ یہ لفظ علامہ ابن نجیم جیسے حضرات پر راست آتا ہے اور حضرت گنگوہیؒکے بارے میں اعتراف فرمایا کہ وہ فقیہ النفس تھے۔(میرے والد میرے شیخ ص:۵۸، ملخصا)

                در حقیقت ہمارے اکابر کا یہ وصف امتیازی تھا کہ وہ سلف کے راستے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے، نورعلم کی برکت تھی کہ وہ استنباط واستخراج کے تعلق سے حدود سے تجاوز نہیں فرماتے تھے، انھوں نے علمی تحقیقات میں اپنے بڑوں کو یہ حق دے رکھا تھا کہ محض اعتماد کی بنیاد پر بھی ان کی رائے کو تسلیم کر لیا جا تا ہے اور اپنی تحقیقات کو یکسر نظر انداز کر دیا جا تا ہے، مجلس مولود کے مسئلے میں حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مکتوب میں حضرت گنگوہی قدس سرہ سے یہ بات ارشادفرمائی تھی کہ اگر حکم ہوگا تو میں بلا حجت اتباع کروں گا؛ کیونکہ احقر اپنی نسبت حضور سے ایسا سمجھتا ہے کہ جیسے مقلد کی نسبت مجتہد سے اھ(ایک اہم فقہی اور اصولی مکاتبت، ص:۴۹،۵۰، چوتھاخط،مرتبہ از:بندہ ناکارہ،مکتبہ علم وفقہ دیو بند ) ۔

                آج کے دور کی بعض تحقیقات و افکارکو پڑھ کر اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اکابر دیوبند کے اس وصف امتیازی کوان کی تحقیقات اور واقعات کی روشنی میں اجاگر کیا جائے اور اس امر کو واضح کیا جائے کہ یہ وصف؛ جامد اتباع اور کورانہ تقلید سے عبارت نہیں ہے؛ بلکہ یہ وہی مضبوط بندھن ہے جو سلف سے تو ارثاً چلا آرہا ہے، جس کو حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی تعبیر میں ’’اجتہاد فی التقلید اورتحقیق فی الاتباع‘‘کا عنوان دیا جاسکتا ہے، آج دین اسلام اسی وصف کی بنا پر اپنی اصل شکل میں باقی اورمحفوظ ہے، یہ موقع تفصیل کی اجازت نہیں دیتا،کسی دوسرے موقع پر انشاء اللہ اس کی تفصیلات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

’’تراجم بخاری‘‘کی شرح کا قرض

                محدث العصر حضرت مولا نا یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ ’’لامع الدراری‘‘کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

                میں کہتا ہوں کہ ابن خلدون کے بقول شرح بخاری کا قرض امت کی گردن پر ہے اور امام سخاویؒ دعوی کرتے ہیں یہ قرض ان کے شیخ حافظ ابن حجرؒ کی کتاب ’’فتح الباری‘‘ کی تالیف سے چکا دیا گیا، ہمارے شیخ (امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ ہمارے حضرت مولانا محمود حسن  دیوبندی شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ بخاری کے تراجم کا قرض ابھی امت پر باقی ہے، اسے آج تک کسی نے ادا نہیں کیا، میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت شیخ الہند کی کتاب ’’الابواب والتراجم‘‘ مکمل ہوگئی ہوتی تو یہ قرض ادا ہو جا تا؛ لیکن افسوس کہ وہ پوری نہیں ہوئی اھ اب میں کہتا ہوں کہ یہ سعادت از لیہ شیخ زکریاؒ کے لیے مقدر تھی کہ وہ اس قرض کو ادا کر دیں ؛ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ حضرت شیخ نے شرح ابواب و تراجم کی جو خدمت کی ہے اس سے انشاء اللہ یہ قرض ادا ہو گیا۔ (نقد ونظر:۱/۱۰۳، مکتبہ ختم نبوت کراچی)

                فائدہ: لامع الدراری کی خصوصیات وامتیازات کی تفصیل کے لیے دیکھیں : مقالات نعمانی (افادات حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم مہتمم وشیخ الحدیث دار العلوم دیو بند)

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12، جلد:106‏، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء

Related Posts