از: جناب نور اللہ جاوید صاحب
سب ایڈیٹر:یواین آئی، کولکاتا
ڈاکٹر محمد شمیم اخترقاسمی کی مرتب کردہ کتاب ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم‘‘مسلم سلاطین اور نوآبادیاتی دور میں تعلیم کے فروغ میں مسلمانوں کے کردار پرروشنی ڈالتی ہے۔گرچہ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ پانچویں صدی عیسوی میں صوبہ بہار میں واقع نالندہ کے ’’وکرم شیلا‘‘ میں قائم دنیا کی پہلی یونیورسٹی اور اس کی لائبریری مسلم حکم راں سلطان خلجی کے ذریعے تباہ و بربادکردی گئی تھی، جس کی تاریخی صداقت و حقائق پر گفتگو کی کافی گنجائش ہے۔ خلجی کی آمد اور اس یونیورسٹی کی تباہی وبربادی کے افسانے کے ماہ وسال میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے؛ تاہم نالندہ یونیورسٹی (وکرم شیلا خانقاہ)کی تباہی و بربادی کے واقعے کا حوالہ دے کر مسلمانوں کی سات سوسالہ حکومت کو تعلیم دشمن کے طورپیش کیا جاتا ہے؛جب کہ مسلم دور حکومت سے قبل یہاں کے رائج نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی خود بخود آشکارا ہوجاتی ہے کہ یہ ملک راجا ورجواڑوں میں تقسیم تھا۔ ذات پات، طبقاتی تفریق اور چھوت چھات جیسی گھنائونی سماجی لعنت سے یہاں کا معاشرہ متعفن ہوچکا تھا۔تعلیم کے حصول پر چند افراد اورخان دان کی ہی اجارہ داری تھی۔ملک کی بڑی آبادی کو تعلیم حاصل کرنے کا حق تک نہیں تھا۔ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی مسلم حکم رانوں نے مکاتب ومدارس، خانقاہوں ، کتب خانوں اور ادبی سوسائٹیوں کے قیام کے ذریعے دینی اور عمومی تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا اور تعلیم کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے، جس سے ہندوستان کی بڑی نیک نامی ہوئی۔زیر مطالعہ کتاب ’’ڈاکٹرقاسمی‘‘کی کوئی منصوبہ بند تصنیف نہیں ہے؛ بلکہ یہ ان کی پی ایچ ڈی کے مقالہ ’’ہندوستان میں اشاعت اسلام کے اسباب:معاشرتی و مذہبی پس منظر‘‘ کا حاصل مطالعہ ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں :
’’جب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات میں اپنی Ph.D. کا تحقیقی مقالہ تیار کررہا تھا، دوران مطالعہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم وتدریس کے حوالے سے بہت سی مفید باتیں نظر سے گزریں ، جو میرے مقالے سے براہ راست متعلق نہ تھیں ؛لیکن میں نے الگ سے اس کانوٹس بنالیا۔جب اس جانب سے فرصت ملی تو میں نے جمع شدہ موادکی روشنی میں الگ الگ عنوان سے تحقیقی مضمون تیار کیا، جو ملک وبیرون ملک کے موقر رسائل وجرائد(سہ ماہی تحقیقات اسلامی،ماہ نامہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ، ماہ نامہ زندگی نو، ماہ نامہ ترجمان دارالعلوم نئی دہلی، ماہ نامہ دارلعلوم دیوبند اور ششماہی الاضوا، پنجاب یونیورسٹی، لاہوروغیرہ)میں شائع ہوئے‘‘۔
ڈاکٹر قاسمی کے بارے میں یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ وہ بہار کے مردم خیز ضلع مدھوبنی کی ایک بستی ’’بھتوڑا ‘‘سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت وافتا کی سند حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم۔ اے کیا اور پھر یہیں سے انھوں نے 2008 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔وہ کئی سالوں تک علی گڑھ کے مایہ ناز علمی وتحقیقی ادارہ ’’تحقیق وتصنیف اسلامی‘‘میں بھی بحیثیت محقق خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان دنوں وہ عالیہ یونیورسٹی کولکاتا کے شعبہ اسلامیات میں سینئراسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ان کا قلم ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور معیاری رسائل وجرائد میں ان کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ ان کی ایک کتاب ’’سیرت نبوی پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ بڑی مقبول ہوئی، جس کے کئی ایڈیشنز اندرون ملک اور پاکستان میں شائع ہوچکے ہیں ۔ ان کی ایک دوسری کتاب ’’قتل بہ جذبہ رحم نوعیت مسئلہ اور اسلامی نقطہ نظر‘‘ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی پاکستان سے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جو بڑی مقبول ہوئی۔ گویاکہ یہ کتاب اس موضوع پر اردو زبان میں پہلی مستقل تصنیف ہے۔
زیر مطالعہ کتاب میں پانچ ابواب ہیں ، جن میں اسلام کا نظریۂ تعلیم، عہد اموی وعباسی کے ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم، علوم اسلامیہ کی اشاعت میں ہندوستانی مدارس کا کردار، ہندوستان کے قدیم مدارس کا نصاب تعلیم اور مدارس اسلامیہ اور دینی تعلیم کی افادیت جیسے مباحث شامل ہیں ۔گویا کہ ان مباحث کے ذریعے انھوں نے مسلم دور حکومت میں تعلیم کے فروغ اور اس کے بعد برصغیر میں مسلم سلاطین کے عہد میں مسلما نوں کے نظام تعلیم پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے کردار اور ان کے نصاب تعلیم پر بھی تفصیلی اور عالمانہ گفتگو کی ہے۔ نصاب تعلیم میں مختلف ادوار میں تبدیلی کا جائزہ لیتے ہوئے دینی درس گاہوں میں عصری علوم کی تعلیم کے موضوع پر بھی اپنے فکر وخیالات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو مستقل تحقیق کا متقاضی ہے اوریہ کافی اہم اس لیے بھی ہے کہ ماضی کی بازیافت اور عہدرفتہ کی عظمت کی بدولت مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے۔تاہم 160صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع پر کافی اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی سات سو سالہ دور حکم رانی میں تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اداروں کے قیام اور ان کی خدمات کی اہمیت کا اندازہ اسی وقت ہوگا جب ہمارے سامنے عہد وسطی میں رائج تعلیمی نظام اور اس کاطریقہ کار سامنے ہو۔دو سال قبل شائع ہونے والے مجلہ Indian Education at the Intersection of Globalization and Technology میں Indian Education Medieval and Modern Ancient: کے عنوان سے شامل ایک مضمون میں مسلم دور حکومت سے قبل نظام تعلیم کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
قدیم دور میں تعلیم کے دو نظام متعارف تھے، ویدک اور بدھ مت۔ ویدک نظام میں ذریعہ تعلیم سنسکرت تھا؛ جب کہ بدھ مت کا نظام تعلیم پالی تھا۔ اس زمانے میں تعلیم ویدوں ، برہمنوں ، اپنشدوں اور دھرم سوتروں کے لیے مخصوص تھی۔ تعلیم زیادہ تر آشرموں ، گروکلوں ، مندروں ، گھروں میں دی جاتی تھی۔ کبھی کبھی مندروں کے پجاری طلبا کو پڑھاتے تھے۔تعلیم زیادہ تر نیلے آسمان کے نیچے جنگلوں میں دی جاتی تھی جو طالب علم کے ذہن کو تازہ اور زندہ رکھتی ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اپنا کام لگن اور محنت سے کرتے تھے۔
مذکورہ اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم دور حکومت سے قبل برصغیر میں تعلیم سے متعلق تصور کیا تھا۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مندروں کے دروازے ہندووں کے تمام سماج کے لیے کھلے ہوئے نہیں ہیں ۔دلتوں اور پسماندہ طبقات کو مندروں میں جانے پر سزائیں دی جاتی ہیں ۔اس دور میں مندروں میں دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات کے داخلے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ہے۔اسی مضمون میں مسلم دور حکومت سے متعلق لکھا گیا ہے:
’’آٹھویں صدی عیسوی میں اینو ڈومینی(اے ڈی)کے دوران بڑی تعداد میں محمدیوں (مسلمانوں) نے ہندوستان پر حملہ کیا۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور لوٹی ہوئی دولت سے ملک میں بڑی تعداد میں اسکول اور لائبریریاں قائم کیں ۔ بعد میں مسلم رہنماوں نے ہندوستان میں اپنی مستقل سلطنت قائم کی،وہ اپنے ساتھ ہندوستان میں ایک نیا نظام تعلیم بھی لائے۔ قدیم تعلیمی نظام کو یکسر تبدیل کر دیا۔ عربوں اور ترکوں نے ہندوستان میں کچھ نئی ثقافتیں ، روایات اور ادارے متعارف کرائے جن میں سب سے نمایاں تبدیلی اسلامی طرز تعلیم تھی جو بدھ مت اور برہمنی نظام تعلیم سے مختلف تھی۔ قرون وسطیٰ میں تعلیم کا بنیادی مقصد علم کا پھیلاو اور اسلام کی ترویج تھا۔ ان کا مقصد تعلیم کو اس کے اصولوں اور سماجی روایات کو عام کرنا تھا۔ نظام تعلیم کا مقصد لوگوں کو مذہبی سوچ کا حامل بنانا تھا۔حکم رانوں نے تعلیم کے پھیلاو اور ترقی میں مدد کی۔ انھوں نے مختلف تعلیمی اداروں کے قیام میں مدد کی اور اس کی مالی امداد کی، بڑے جاگیرداروں نے انھیں اداروں کی ترقی میں مالی تعاون بھی کیا۔ تعلیمی اداروں اور ان کی انتظامیہ پر حکم رانوں کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ بدھ مت اور برہمنی دورکے برخلاف مسلم دور حکومت میں تعلیم کے دوازے سب کے لیے کھلے ہوئے تھے‘‘۔
انگریز مورخین نے مسلم دور حکومت میں تعلیم سے متعلق تصورات اور نظریات سے متعلق لکھا ہے کہ مسلم دور حکومت میں نظام تعلیم جمہوری تھا۔ مساجد،مکاتب،مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے دروازے ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں کھلے ہوئے تھے۔مسلم حکم رانوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ تعلیم کا حصول مخصوص طبقات تک محدود نہیں رہے۔دوسرے یہ کہ مسلم دور حکومت میں دنیا بھر سے تجار اور علمائے کرام کے وفود کی آمد اور ان کے علوم کی ترویج وترقی کے ذوق کی وجہ سے ہندوستان مختلف تہذیب و ثقافت سے روسناش ہوا اوریہاں کی تہذیبی روایات میں پیش قیمتی اضافہ ہوا۔اس کے نتیجے میں ہندوستان میں تعلیم کے کینوس کو وسعت ملی، ہندوستان مختلف اسلامی علوم و فنون سے آشنا ہوا۔اسلام کی خوشبوئوں سے معطرترکی، ایرانی اور عربی تہذیب و تمدن نے ہندوستان کی فضائوں کو یکسر تبدیل کردیا۔ہندوستان خوش نماسماجی اور تمدنی تبدیلیو ں سے گزر کر دنیا کی مہذب ترین اقوام کی صف میں کھڑا ہوا۔مسلم حکم رانوں کی مثبت اور تعمیری کوششوں کی وجہ سے ہی ہندوستان مشترکہ تہذیب و تمدن اور کنگا وجمنی تہذیب کا گہوارا بنا۔اس دور میں جہاں اسلامی علوم کی ترویج کی سرپرستی کی وہیں سنسکرت کی ترویج بھی اسی دور میں ہوئی۔ ہندئوں کے مذہبی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں کرائے گئے؛ اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلم حکم رانوں کے عہد میں ہی فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو زبانوں کی آبیاری ہوئی۔
سلطان محمودغزنوی جودائیں بازئوں کے نشانے پر رہے ہیں اور انھیں نفرت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا رہاہے؛مگر وہ ایک علم دوست حکم راں تھا۔ غزنی کا دربار ایشیا کے مختلف خطوں کے ادبی ستاروں کی کہکشائوں سے مزین تھا۔ البیرونی، عتبی، انصاری اور فردوسی کو محمود کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔غزنوی نے اپنے دور میں ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جس میں مختلف زبانوں کی اعلیٰ ادبی و معیاری کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ تھا۔ وہ اساتذہ اور طلبا کی دیکھ بھال اور کفالت میں دل کھول کرخرچ کرتاتھا۔ اس خان دان کے اور دوسرے فرماروائوں نے بھی ہندوستان میں علوم وفنون کی ترویج وترقی میں نیک نیتی اور اپنی ذمہ داری کے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں ۔جن میں سلطان مسعود، سلطان رضی الدین ابراہیم اور معزالدین بہرام شاہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
محمد غوری کے عہد کو تعلیمی ترقی کا عہد مانا جاتا ہے۔محمد غوری نے 1191میں اجمیر شہر میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسے کو کسی مسلم حکم راں کے ذریعے قائم کیے جانے والا پہلا باضابطہ تعلیمی ادارہ شمار کیا جاتا ہے۔یہ مدرسہ ہندوستان میں نظام تعلیم کومستحکم کرنے میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔محمد غوری نے اس کے علاوہ اسلامی ثقافت اور تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اسکولس، کالجز اور مدرسے قائم کیے۔اسی نے اپنے ترک غلاموں کی علمی و ادبی تربیت کی۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان میں غلام نسل کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملا۔قطب الدین ایبک ان میں سے ایک تھا۔ قطب الدین نے تعلیم کے ساتھ انتظامی امور اور حکومت چلانے کے لیے نوجوانوں کی تربیت کی۔قطب الدین ایبک، غلام خان دان کا بانی، ذاتی طور پر تعلیم یافتہ تھا، فارسی اور عربی میں مہارت حاصل تھی اور سائنس کا بھی اسے گہرا علم تھا۔ وہ اپنے ادبی و علمی ذوق کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ اہل علم سے محبت اور ان کا بڑا احترام کرتا تھا۔ اپنی پوری سلطنت میں اس نے سیکولر اور مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اس کے لیفٹیننٹ بختیار خلجی پربہار میں مشہور وکرم شیلا خانقاہ (ایک عظیم خانقاہی یونیورسٹی جس میں ایک لائبریری ہے) اور ندیا (بنگال) کے بہت سے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں ؛مگر اس دور میں بڑی تعداد میں مدارس اور دیگر تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔شمس الدین التمش (متوفی 1236)نے مولانا بدرالدین اسحاق، فخرالملک اور امیر کوہانی جیسے علماء کی سرپرستی کی وہیں ان کی صاحب زادی سلطانہ رضیہ صاحب فضل و کمال تھی۔اسی نے دہلی میں میوزی کالج کے نام سے ایک کالج قائم کیا تھا۔
فیروز شاہ تغلق نے فیروز آباد کے نام سے ایک نئی دارالحکومت کی بنیاد رکھی۔اس کے دور میں ثقافت کا مرکز دہلی سے فیروز آباد منتقل ہو ا۔ اس نے دہلی کے ساتھ فیروز آبادمیں بھی علم و علما کی سرپرستی کی اور ا س کی وجہ سے فیروز آباد تعلیمی مرکز کے طور پر مشہور ہوا۔فیروز شاہ تغلق عادل، نیک، فراخ دل اور آزاد خیال حکم راں تھا۔ اس نے اپنی رعایا کی تعلیم کے لیے حکومت کے خزانے کھول دیئے۔ اس کی مرتب کردہ کتاب تاریخ فیروز شاہی میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ۔ فیروز کے دور حکومت میں جون پور علم کا ایک مشہور مرکز بن گیا۔ دہلی نے بھی اپنی پرانی شان دوبارہ حاصل کر لی۔ علماء نے دینیات، اسلامی فقہ، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ اور دیگر کئی علوم پر لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ عہد فیروزی میں باضابطہ علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں ۔اس دور میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر اپنی سلطنت کے مختلف علاقوں میں رہنے کے لیے نامور اساتذہ بھیجے۔ اس عہدمیں علماء اور اساتذہ کے لیے پنشن اور تحائف جاری کیے گئے۔
مغلوں نے تین سو سال تک برصغیر پر حکومت کی۔ مغل حکم راں تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ بہت سے نامور علماء اور ادیب و شاعر مغل دربار سے وابستہ تھے۔ مغل بادشاہ فن و ادب کے بڑے حامی تھے۔ انھوں نے ہمیشہ علماء کرام کا خیر مقدم کیا اور تعلیم کے فروغ کے لیے بے مثال تعاون کیا۔ مغلیہ دور میں برصغیر میں بڑی تعداد میں مدارس قائم ہوئے۔ تعلیم کے فروغ اورغیر مشروط حمایت اور گہری دل چسپی کی وجہ سے مغل دور میں مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مغلیہ سلطنت میں تعلیمی پالیسی کو ہمیشہ ترجیح حاصل تھی۔مغلیہ دور حکومت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم ارتقائی عمل سے گزرا۔ اس دور میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے لیے ادارے قائم ہوئے۔ظہیر الدین بابر (برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا بانی)کی شاہی دستاویزات کے مطابق رعایا کی تعلیم ریاست کا فرض تھا۔ چنانچہ بابر کے دور میں ریاستی تعاون سے مختلف نوعیت کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ شہنشاہ اکبر برصغیر میں تعلیمی اصلاحات کا علمبردار مانا جا تاہے۔ اس نے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہندووں کے تعلیمی اداروں کو ریاستی سرپرستی فراہم کرنے کے لیے ایک ریاستی محکمہ قائم کیا۔اکبر برصغیر کا پہلا مسلمان حکم راں تھا جس نے تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ اس کی پالیسی ریاست کے مضامین کو ان کے مذہب سے قطع نظر تعلیم دینا تھی۔ اس نے ایسے مدارس بھی متعارف کروائے جن میں مسلمان اور ہندو بچوں کو ایک ہی کلاس میں عصری مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ ایسے مدارس میں مسلمانوں اور ہندئووں کے لیے مذہبی نصاب کی کلاسیں الگ الگ تھیں ۔اکبر کے دور میں علماء کے ساتھ غیر معمولی فراخ دلی کی وجہ سے بہت سے علماء نے شاہی دربار میں شمولیت اختیار کی۔ اکبر نے مدارس کے نصاب پر نظر ثانی کا فریضہ میر فتح اللہ شیرازی کو سونپا،جو اپنے وقت کے ایک مشہور فلسفی ومنطقی عالم تھے۔ انھوں نے مدرسہ کے نصاب کو اپ ڈیٹ کیا اور اس میں اخلاقیات، ریاضیات، زراعت، فلکیات، منطق، حکومتی امور، سنسکرت، گرامر، فلسفہ اور طب سے متعلق کورسز شامل کیے۔اکبر کی تعلیمی پالیسی کی سب سے نمایاں خصوصیت بنیادی نصاب میں عقلی علوم (منطق، فلسفہ اور علم تھیالوجی)کی شمولیت تھی جس نے عقلی علوم کی اہمیت کے بارے میں مسلمانوں کے تصور کو بدل دیا۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے وضاحت کی ہے کہ تعلیم کو مستحکم بنیادوں پر منظم کرنے کا سہرا اکبر (۱۵۴۲-۱۶۰۵)کے سر جاتا ہے۔اس نے اپنی تمام رعایا کے ساتھ یکساں سلوک کیا اور اپنی پوری سلطنت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندئووں کے لیے بھی بڑی تعداد میں اسکول اور کالج قائم کیے۔ اس نے طلباء کی انفرادی ضروریات اور زندگی کی عملی ضروریات پر مبنی چند نصابی تبدیلیاں بھی متعارف کرائی۔ نصاب کا دائرہ اتنا وسیع کیا گیا کہ ہر طالب علم اپنے مذہب اور زندگی کے نظریات کے مطابق تعلیم حاصل کر سکے۔ فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر متعارف کرانے سے ہندئووں اور مسلمانوں کو فارسی سیکھنے کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔اکبر کی پالیسی کو اس کے جانشین جہاں گیر اور شاہ جہاں نے جاری رکھا۔ اکبر نے مختلف ہندو کلاسک تاریخوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ متعدد یونانی اور عربی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔
شہنشاہ جہاں گیر نے ایک قانون متعارف کرایا۔ اگر کوئی امیر آدمی یا امیر مسافر بغیر وارث کے مر گیا تو اس کی جائیداد سلطنت کو منتقل کر دی جائے گی اور اس کی آمدنی مدارس اور خانقاہوں کی تعمیر و مرمت کے لیے استعمال کی جائے گی۔جہاں گیر نے ہزاروں مدارس کی مالی امداد بھی جاری رکھی۔ تعلیم کے امور میں ان کی دل چسپی کی وجہ سے لوگوں کو ان کے طبقے سے قطع نظر تعلیم دینے کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے۔شاہ جہاں کے دور میں ، امپیریل کالج دہلی میں 1650میں قائم ہوا۔ امپیریل کالج کا نصاب وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدید بنیادوں پر تیار کیا گیا تھا۔ بعد کے حکم رانوں کے مشکل دنوں میں بھی ادبی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں ۔ خطاطوں کی سرپرستی بہادر شاہ اور محمد شاہ جیسے شہنشاہوں اور مختلف علاقائی حکام اور جاگیرداروں نے کی۔شمالی دکن میں بہت سے مدارس کی بنیاد بہمنی خان دان کے حکم رانوں نے رکھی تھی۔ نصاب میں ان کتابوں کو شامل کیا گیا جو معاشرے کی مذہبی اور عصری ضروریات کے مطابق تھے۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے عہد عالم گیری میں اسلامی علوم و فنون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے اسلامی علوم و فنون کی ترویج و ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے اور اس دور کی سب سے بہترین یادگار لکھنؤ میں فرنگی محلّی کا دارالعلوم نظامیہ ہے۔عالم گیر نے ہی ملانظام الدین کو شان دار عمارت عطاکی جس میں دارالعلوم نظامیہ کی شروعات ہوئی اور انھوں نے جو نصاب مرتب کیا وہ گزشتہ تین صدیوں سے ہندوستان میں رائج ہے۔درس نظامیہ کے نصاب اور اس میں معقولات کی کتابوں کی کثرت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شمیم اختر قاسمی نے لکھا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت تھی۔علامہ شبلی نعمانیؒ،مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر اہل علم کے حوالے سے درس نظامی کی افادیت و اہمیت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پور، ندو ۃ العلما لکھنو اور دیگر اداروں کے قیام کی وجوہات اور ان اداروں کی افادیت کاجائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دینی اداروں نے سماج کی ہرسطح پر خدمت کی ہے۔
کتاب کا آخری باب مدارس اسلامیہ اور دینی تعلیم کی افادیت کے عنوان سے ہے۔ جس میں ہندوستان میں مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے دینی علوم سے بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کیاگیا ہے۔ساتھ ہی انھوں نے گزشتہ چار صدیوں میں مدارس کے کردار اور مدارس کے فضلاء کے علمی، سماجی اور تحریک آزادی میں کردار پر روشنی ڈالی ہے۔مصنف نے جن تاریخی حقائق کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ صداقت پر مبنی ہیں ۔یہ بات شبہ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو آج ہندوستان کی صورت حال بھی اسپین ہی کی طرح ہوتی۔اسپین میں طویل مدت تک مسلمانوں کی حکومت ہونے کے باوجود آج اسپین میں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے؛مگر ہندوستان میں مسلم حکومت کے زوال اور نوآبادیات کے باوجود آج یہاں اسلام نہ صرف زندہ وپائندہ ہے؛ بلکہ علوم اسلامی کی ترویج اور اس کی اشاعت میں یہاں کے علما، محدثین اور مفسرین نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ خوش نصیبی اسلامی ممالک کے علماء کے حصے میں نہیں آئی۔نوآبادیاتی دور میں مدارس کی ریاستی سرپرستی ختم ہوگئی، استعماری قوتوں نے مدارس، مساجد اور اسلامی درس گاہوں کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اس کے باوجود یہ درس گاہیں قائم رہیں ۔ظاہر ہے کہ مسلم رئوسا، امراء اور اہل خیر مسلمانوں کی فیاضی اور عطیات کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا؛مگر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان اہلِ خیر کے اعتماد کی وجوہات کیا تھیں ۔انھیں یہ بھروسہ کیوں تھا وہ اپنے عطیات جن ہاتھوں میں دے رہے ہیں وہ امین ہیں اور ان کی عطیہ کردہ رقومات کا صحیح جگہ استعمال ہوگا؟
تاہم کتاب کے مطالعے کے دوران چند سوالات بھی ابھرکرسامنے آتے ہیں او ر احساس ہوتا ہے کہ مسلم سلاطین کی خدمات کا جائزہ لینے میں معروضیت کا خیال رکھا نہیں گیا ہے؛ کیوں کہ اگر ان مسلم سلاطین نے تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردارا دا کیا ہے تو لال قلعہ، ہمایوں کامقبرہ، تاج محل،فتح پور سیکری کا قلعہ، قطب مینار جیسی عمارتوں کی طرح کسی اسلامی اداروں کی عمارتیں کیوں نہیں ہیں ۔ یقینا مسلم سلاطین نے علم و علماء کی سرپرستی کی، آزاد تعلیمی اداروں کے قیا م میں تعاون کیا پھر بھی یہ سوال بجا ہے کہ جب مسلم سلاطین اپنی عظمت و شوکت کے اظہار کے لیے عمارتوں کی تعمیر کرارہے تھے تو پھر ان کی توجہ اس جانب کیوں نہیں گئی؟اس سے ان کی ترجیحات کا انداز ہ ہوتا ہے۔تصور کیجیے اگر لال قلعہ کے طرز پر کسی تعلیمی ادارہ کی عمارت ہوتی تو ہمارے لیے عظمت و رفعت کا احساس کرنے کے کتنے مواقع ہوتے؟مسلم سلاطین کے برخلاف مسلم نوابین یا پھر چھوٹی ریاستوں کے حکم رانوں نے اس جانب زیادہ توجہ دی ہے۔جس میں جامعہ عثمانیہ، نوابین بھوپال اور نوابین رام پور کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔
درس نظامی میں معقولات کی کتابوں کی شمولیت اور اس کی افادیت پر اس کتاب میں بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔جب کہ ہم جانتے ہیں کہ18ویں صدی میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے نصابی کتابوں میں غیر متوازن طور پر عقلی علوم کی کثرت اور حدیث کی کتابوں کی شمولیت بہت ہی کم تھی۔ مشکوٰۃ شریف کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی تھی۔حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے نصاب میں صحاح ستہ کا اضافہ کیا۔ مدرسہ رحیمیہ کے پلیٹ فارم سے انھوں نے اسلامی شریعت کی نئی تشریح کی اور اسلامی علوم اور عصری حالات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مدرسہ رحیمیہ اور شاہ ولی اللہ کا کردار برصغیر میں مسلم تعلیم کے ارتقائی عمل میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔آج دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پوراور دیگر دینی اداروں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہی نصاب حدیث رائج ہے۔ نصابی کتابوں میں مختلف ادوار میں تبدیلیوں کا ذکر اس کتاب میں تو موجود ہے؛ مگر21ویں صدی میں کیا اسلامی اداروں میں رائج نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اس پر انھوں نے کھل کر گفتگو نہیں کی ہے۔شمیم اختر قاسمی کا یہ سوال بھی بجا ہے کہ مدارس کو عصری اداروں میں تبدیل کرنے والے عصری اداروں میں اخلاقیات اور مذہبی علوم کیو ں نہیں شامل کرتے ہیں ؟کیوں کہ شاہ ولی اللہ کا عہد 18ویں صدی اور 21صدی کے عہد میں سماجی، معاشرتی اور ملکی حالات میں نمایاں تبدیلی ہوچکی ہے،اس کے تقاضے بدل چکے ہیں اورمسلمانوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا نظریہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں بھی وہ تفصیل سے گفتگو کرتے تو شاید اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ایک ایسے وقت میں جب مدارس کے نصاب تعلیم کی تبدیلی ایک اہم موضوع ہی نہیں ؛ بلکہ اس عمل سے گزرنا ایک ناگزیر عمل اور چیلنج بن گیا ہے،ان حالات میں اس موضوع پر کوئی بھی تعمیری گفتگوامید افزاثابت ہوسکتی تھی۔
مجموعی طور پر یہ کتاب اپنے موضوع پر کافی معلومات فراہم کرتی ہے۔ کوئی بھی بات حوالے کے بغیر نہیں کہی گئی ہے۔ہرباب کے آخر میں حوالے موجود ہیں ؛ یہاں تک کہ انھوں نے کتابیات کے عنوان کے تحت ان تمام کتابوں کی فہرست بھی پیش کی ہے جو ان کے زیر مطالعہ آئیں ۔ اس سے مصنف کی عرق ریزی اور وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ کتاب کی طباعت بہت معیاری ہے، جسے برائون بک پبلی کیشنز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء