دورجدیدمیں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت

از:  اے ۔ آزادقاسمی  / خادم جمعیۃعلماء ہند

                دورجدیدمیں تعلیم کی اہمیت وضرورت سے کسی فردواحدکو مفرنہیں ، اچھی اورمعیاری تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا فی زمانہ بے حدضروری ہے؛ کیونکہ بچے کسی بھی سماج اورمعاشرہ کاسرمایہ اورتابناک مستقبل کی تعمیر کے لیے ضروری اساس ہوتے ہیں ، بچوں کے ذہنی خدوخال نہایت ہی حساس اور کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں ،ان کی بہتر، نشوونماء اورتربیت ایک روشن مستقبل کے لیے بنیادکی فراہمی کاکام کرتی ہے،بچوں کے تعلق سے کسی بھی موقع پر تساہل یاکسی بھی زاویہ سے بے اعتناعی ملک وملت کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں ؛کیونکہ جو قوم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجائے اور اپنی فکری وتہذیبی نہج سے دست بردارہوجائے، تواس قوم کو زمانہ کے ساتھ چلنے میں قدم قدم پر ہزیمت کاسامناکرناپڑتاہے، ان کی نسلوں کو اس قعرمذلت سے باہرنکلنے اورامیدافزاشعوروآگہی تک رسائی حاصل کرنے میں زمانہ لگ جاتا ہے، یوں بھی عالمی تباہی ومعاشی بدحالی کے تسلسل میں ہمیں فی زمانہ اپنی نسلِ نوکی بہترپرورش اوردینی حمیت کی پاسداری کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے آئیڈیل تعلیم گاہوں کا سہاراچاہیے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوپائے گا،جب ہم اسکول،کالج اورعصری تعلیم گاہ کے انتخاب میں بہت ہی محتاط قدم کے ساتھ آگے بڑھیں گے، کیوں کہ موجودہ دورمیں ہرطرف الحادی وارتدادی قوتیں سرراہ اس تاک میں ہیں کہ دین حنیف کے پیرو کاروں کے پائے ثبات میں کس طرح تزلزل پیداکریں ، تاکہ اس کی نسلیں اپنے اسلاف واکابر سے کٹ کررہ جائیں ؛جب کہ تاریخی حوالہ جات یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر ایک دور ایسا بھی گزاراہے،جب اقوام عالم کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھی،لوگ دنیاکے کونہ کونہ سے علم وادب کی چاہ میں مسلم حکماء، اسکالرس اورمفکرین کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کے لیے دشوارگزارراستوں کا سفرطے کرتے تھے اور تعلیم کے حصول کے لیے تمام طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے تھے، آج بھی جدیدمیڈیکل سائنس، حساب (میتھ میٹکس )شہری ہوابازی،جہازرانی اوردیگر بہت سے میدان میں استعمال ہونے والے بنیادی اصول وفروع مسلم مفکرین کی مرہون منت ہیں ؛لیکن اب وہ مبادیات اورفروعات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ؛ کیونکہ وہاں تک ہماری رسائی بہت ہی محدودہوچکی ہے،اگرتھوڑی بہت ہے بھی توہماری نسلیں ان اصولوں ،فلسفوں اورقواعد کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں جان پاتی کہ اب ان کے نام انگریزی لاحقہ کے ساتھ متعارف کردیئے گئے ہیں ، کہاجاتاہے کہ یہ وہ دورتھا جب تعلیم وحکمت میں ان بزرگوں کا طوطی بول رہاتھا، پھرآپسی چپقلش،اپنوں کی بے رخی اوررب ذوالجلال کی عطاکردہ نعمت کی ناقدری کی وجہ سے اس عظیم دولت سے یکلخت ہم دورکردیئے گئے  اورآج ہماری یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی اس لازوال نعمت کے عشرعشیرکے بھی لائق نہیں ، الامان الحفیظ ۔

                اس وقت ہمارامطمح نظرمسلم امہ میں تعلیمی پسماندگی کے تناظرمیں کچھ گوش گزارکرنے سے ہے، انسانی فطرت میں خالق کائنات نے یہ بات ودیعت کررکھی ہے کہ انسانی جبلت کسی محدودشے کے حصول پر قانع نہیں رہ تی، وہ خوب سے خوب ترکی تلاش میں دن ورات سرگرداں رہتی ہے،ہمیشہ سے انسانی خواہش رہی ہے کہ سماج اورمعاشرتی زندگی میں کس طرح اپنی عزت وجاہ کی بالادستی قائم کی جاسکے، خواہ اس کوحاصل کرنے میں کسی حد تک جانا پڑجائے؛لیکن ہماری کوشش آج بھی انسانی زندگی پراثراندازہونے والی سب سے مؤثرترین دولت تعلیم کے حوالہ سے بے پرواہ اورلاابالی پن کاشکارہے،رائج اعدادوشماریہ بتاتے ہیں کہ مسلم معاشرہ عصری اورتکنیکی تعلیم کی طرف مثبت قدم بڑھا تورہی ہے؛ لیکن جس تیزی اوربرق رفتاری کایہ میدان متقاضی ہے،اس میں اب بھی ہم دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہیں ، جس کا اندازہ وقت وقت پرجاری ہونے والی مختلف بین الاقومی سروے رپورٹوں سے بخوبی لگایاجاسکتاہے،اس طرح کی شماریات کودیکھنے سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ مسلم امہ میں تعلیم کارجحان پہلے کے مقابلہ میں کچھ بڑھاضرورہے؛ لیکن جدیدتعلیم کی تحقیقات اورجدید مشمولات تک رسائی میں سردمہری جوں کا توں برقرارہے، عصری تعلیم سے منسلک اسکالراورمحقق عام طورپر موجودہ موادکی تحقیق کے بجائے اس کے تراجم پر زیادہ دھیان مرکوزکررہے ہیں ،جس کاخاطرخواہ فائدہ نظرنہیں آرہاہے، ہماری معاشرتی زندگی میں خاص کر شمالی ہندمیں اب پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں میں بچوں کی تعلیم کے لیے فکری مندی دیکھنے میں آرہی ہے،لوگ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے بجٹ تک مختص کررہے ہیں ،جس کی تحسین کی جانی چاہیے اوراس کی ہرطرح سے حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے؛ تاکہ اس بیدارمغزی کی لوکو اورتیزکیاجاسکے؛لیکن بحیثیت مسلم امہ ہماری کچھ دینی وملی ذمہ داریاں بھی ہیں ،جس سے ہمارامعاشرہ اب بھی باہرنہیں نکل پایاہے، معاشرہ اورسماج کو اس سے باہرنکالنے کے لیے بڑے پیمانہ پر تعلیمی مہم کی ضرورت ہے؛ تاکہ دوردرازگاؤں میں بسنے والے افراداورمعاشی پسماندگی کے شکارلوگوں کے دلوں میں بھی تعلیم کی جوت جگائی جاسکے اوران کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ بچوں کے بہترمستقبل کی تعمیر میں اچھی اورمعیاری تعلیم کیوں کر ضروری ہے؟ ۔

                حکومتی سطح پر شرح خواندگی بڑھانے کے لیے کچھ سال پہلے یوپی اے دورحکومت میں مڈے میل جیسی اسکیم لاکر معاشی پسماندگی کے شکارافرادکے بچوں کوتعلیم کی طرف راغب کرنے اوراس کو زندگی کاجزء لاینفک بنانے کی کوشش کی گئی تھی، باضابطہ چھ سال سے چودہ سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم کو بنیادی حق کے طورپرتسلیم بھی کیاگیاتھا،جس کا مثبت نتیجہ دیکھنے کو مل ضروررہاہے؛ لیکن اب بھی اس میدان میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے،اس تسلسل میں اگرہم ملت کے بچوں کاتجزیہ کرتے ہیں توہمیں ایک طرح کی سرمہری کے ساتھ ساتھ ماڈرن کلچر کی طرف رغبت زیادہ محسوس ہوتی ہے،بچوں کی تربیت اورتعلیم کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ اسکول وکالج کے ساتھ تربیت یافتہ اساتذہ کی ہوتی ہے، ہم اپنے بچوں کو نامی گرامی اسکول وکالج میں داخلہ کروا تو دیتے ہیں ؛لیکن اس میں بڑی حدتک لاپرواہی بھی کرجاتے ہیں ،ہماری سوچ صرف اس بات پر مرکوزرہتی ہے کہ ہمارے بچے معیاری اورہائی لیول اسکول کے طالب علم ہیں باقی اورکچھ نہیں دیکھتے، جبکہ بحیثیت سرپرست ہمارے اوپر دوہری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی عادات واطوارکاتجزیہ کریں ،اوراس کے ہرعمل پر اپنی نظررکھیں ، اس کے آپسی برتاؤاوردینی معاملات کے حوالہ سے بھی گاہے بہ گاہے جائزہ لیتے رہیں ؛کیونکہ عام طورپرآزادخیال ادارے میں بے جا آزادی کو پرموٹ کرنے کاایک رجحان پایاجاتاہے،جس کامنفی اثربچوں کے ذہن میں گھرکرجاتاہے اوراس کے نتیجہ میں زندگی بھرہمیں اس لاابالی پن کے سہارے جیناپڑتاہے، اس وقت جب کہ مختلف عصری تعلیم گاہوں میں داخلے کی کارروائی جاری ہیں ، ہمیں پہلی فرصت میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اپنی اولادکو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے اوراس کے تابناک مستقبل کی طرف رہنمائی ہمارامذہبی، ملی واخلاقی فریضہ بھی ہے، ہماری ایک معاشرتی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پاس پڑوس اورمحلہ میں لوگوں کواس جانب متوجہ کریں ، ان کو تعلیم کی اہمیت وضرورت سے متعلق ترغیب دیں تاکہ قوم کے بچے تعلیم سے آراستہ ہوکرایک اچھاشہری بن سکیں اورملک وملت کی خدمت کے قابل ہوسکیں ، اس سے کسی بھی مرحلہ میں کاہلی سستی اوربے رغبتی  ملک و ملت دونوں کے لیے خسارہ کا سوداہوگا؛کیونکہ تعلیم کے تناظرمیں آنے والی اکثررپورٹوں میں بتایاگیاہے کہ مسلم اقلیت کے بچے ڈراپ آوٹ میں سب سے آگے ہیں ، ہائرسکنڈری اسکول تک جاتے جاتے ہمارے بچے اسکول سے ڈراپ آوٹ ہوجاتے ہیں جو قابل توجہ نقطہ ہے، اس پر بہت سنجیدگی سے غوروفکراورتجزیہ کی ضرورت ہے، آج کے تقابلی دورمیں تعلیم سے جی چرانے کوایک فکری غلطی سے تعبیرکیاجاسکتاہے جویقینا خودکشی کے مترادف ہے، اس سلسلہ میں ملک کی مختلف تنظیمیں اورخاص کر اکابرملت کی قدیم جماعت جمعیۃعلماء ہند اپنے زیراثرعلاقوں میں ناخواندگی کو دورکرنے اورتعلیم کی اہمیت وضرورت کواجاگرکرنے میں مصروف عمل ہیں جو یقیناخوش آئندقدم ہے، اس کی پیروی میں ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالناچاہیے؛ تاکہ ملت کے سرسے تعلیمی ناخواندگی کے داغ کو مٹایاجاسکے ۔

                موجودہ وقت میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے ہم اپنے بچے کو غیرمعیاری اسکول کے حوالہ کردیتے ہیں ،پھرفکرمعاش اوردیگردنیاوی جھمیلوں میں کچھ اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ پلٹ کر کوئی خبرنہیں لیتے، بس صرف بچوں کو اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ تلے جکڑدیتے ہیں اورخالص انگلش کے چند الفاظ بول لینے کو تعلیمی معراج تصورکربیٹھتے ہیں ،اگریہی طالب علم کسی مقابلہ وغیرہ میں خاطرخواہ نمبرات نہیں لاپاتاہے، توطرح طرح کے طعنہ سے اس ناپختہ ذہن کو گرزرنا پڑتاہے جس کا نتیجہ کبھی کبھی اس قدربھیانک صورت اختیارکرلیتی ہے کہ بچہ زندگی کی قیمتی ڈوراپنی سانس تک کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے،ایسے لاتعدادواقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور پھر ہم ہائے افسوس کاماتم کرنے لگتے ہیں ۔عصری تعلیم وقت کی ضرورت ہے،اگریوں کہاجائے کہ ناگزیرہے توکسی طورغلط نہ ہوگا، اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے حالات میں عصری تعلیم سے محرومی جہالت کے زمرہ میں ہی تصورکی جائے گی؛لیکن اگر یہ تعلیم دین وایمان کے سودے کے ساتھ ہوتوہمارے لیے بہت بڑی حرماں نصیبی ہوگی جس کی بھرپائی کا ہمارے پاس کوئی موقع میسرنہ ہوگا؛ کیونکہ جب سادہ دلوں اورکورے اذہان پر ایمانیات اوروحدانیت سے بیزاری کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں تواس کو محوکرپانا بے حدمشکل مرحلہ ہوتاہے؛ اس لیے ملت کے بہی خواہ اورسماجی کارکن کوآگے آناچاہیے اوراپنے زیراثرعلاقوں میں بچوں کے سرپرست کواس بات کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ عصری تعلیم کے لیے ہم کس طرح کے ادارہ کاانتخاب کریں ، اسلامی مزاج میں علوم کے حصول کی تحدیدنہیں ہے؛ کیونکہ نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ اورآپ کے بیشمار اقوال وافکارسے یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے غیر مسلم قیدی کو جرمانے کے عوض عبرانی زبان اوراس وقت جس زبان کی ضرورت تھی صحابہ کرامؓ کو سکھانے کے لیے متعین کیاتھا، اس طرح کے اقوال سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اسلام میں تعلیم کے حصول میں کسی طرح کی کوئی بندش نہیں ہے، ہاں اتنی بات ضرورہے کہ اس زبان وعلم کی رومیں بہہ کر اپنے ایمان کاسوداکربیٹھنے کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ موجودہ دنیاوی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے جس علم کی بھی ضرورت ہواس کے حصول کے لیے ہرممکن کوشش کریں ، اس کے حصول میں کسی طوربھی بے اعتناعی کا ثبوت نہ دیں ؛ بلکہ ہر لمحہ بہترسے بہترکرنے کی کوشش کریں لیکن پھربات وہیں آجاتی ہے کہ ایمان کے سودے کے ساتھ کسی طرح کی تعلیم ہماری عاقبت کی خرابی کاباعث نہ بنے؛ تاکہ ہمیں روزمحشرشرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے؛ کیونکہ بطورگارجین ہمیں روزقیامت اپنی اولاداورکنبہ کے حوالہ سے بھی سوالات کا سامنا کرنا ہے، یادرکھیں ترقی کے مواقع خودنہیں آتے؛ بلکہ انھیں حاصل کیا جاتاہے اوراس کے لیے تعلیم سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا،ہم تعلیم کے ہتھیاڑسے ہی درپیش چیلنجوں کا نہ صرف کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں ؛بلکہ خودکو پسماندگی کی دلدل سے باہر نکال کرقوم وملت کو عزت ووقار کی جگہ پر کھڑاکرسکتے ہیں ۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12، جلد:106‏، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء

Related Posts