بہ قلم: ڈاکٹرمفتی اشتیاق احمد قاسمی / مدرس دارالعلوم دیوبند
’’خانقاہ رحمانی‘‘ مونگیر کا فیض ہمارے علاقے میں خوب پھیلا ہوا ہے، ہر خاندان اور ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد اس سے وابستہ ہے، بیعت وارشاد کا سلسلہ طویل ہے، مریدین و منتسبین کی کثرت ہے، حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ ایسے علاقے کو ’’مرید آباد‘‘ کہتے تھے، جب ان کا گزر وہاں سے ہوتا تو پوری آبادی ٹوٹ پڑتی حضرت کی ملاقات یاکم سے کم زیارت کو ہی غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ ادب کے مارے پوری آبادی میں حضرت مولانا کا نام نامی اسم گرامی نہیں لیا جاتا، لوگ ’’حضرت صاحب‘‘ کہہ کرتذکرہ کرتے؛ بلکہ موصوف کے والدگرامی قدر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی لوگ ’’حضرت صاحب‘‘ ہی کہتے تھے، ایک بار شرف زیارت نصیب ہوئی، میرا بچپناتھا، مادر علمی ’’مدرسہ معارف العلوم‘‘ جھگڑوا میں اجلاس عام تھا،پورے گاؤں میں ’’حضرت صاحب‘‘، حضرت صاحب‘‘ کی گونج تھی، خاص طور پر میرا خاندان شرف نیاز حاصل کرنے کا مشتاق تھا، عورتوں میں بھی بیعت وارشاد کی فضیلت کا خوب غُلغلہ تھا، میری عمر سات آٹھ سال کی رہی ہوگی، سب کے ساتھ شادمانی میں شریک تھا؛ مگرمعلوم نہ تھا کہ ’’حضرت صاحب‘‘ کون ہیں ؟ کہاں سے آنے والے ہیں ؟ میں انھیں کوئی مافوق الفطرت شخصیت تصور کرتا تھا، جب مہمانوں کی آمد شروع ہوئی، علمائے کرام تشریف لانے لگے، پنڈال کے لیے بانس کاٹا جانے لگا، ’’حضرت صاحب‘‘ کے دیکھنے کے لیے آنکھیں واقعی معنی میں فرشِ راہ تھیں ۔ ایک دن پہلے مدرسہ معارف العلوم کی طرف گیااور نہایت ہی متجسسا نہ نگاہوں سے ’’حضرت صاحب‘‘ کو تلاشنے لگا، کوئی خوش لباس، خوش وضع اور نستعلیق شخصیت کو دیکھتا تو رک جاتا اور خیال کرنے لگتا کہ شاید یہی ’’حضرت صاحب‘‘ ہیں ؛ مگر پھر کسی سے معلوم کرنے پر نفی میں جواب پاکرآگے بڑھ جاتا، یہاں تک کہ جلسہ شروع ہوگیا؛ لیکن حضرت صاحب کی زیارت سے محرومی ہنوز تھی، بڑے ابو جناب انصاراحمد صاحب کے خسرمحترم جناب مولانا بدیع الزمان رحمۃ اللہ علیہ بھی خانقاہ سے تعلق رکھتے تھے، غالباً مدرسہ رحمانیہ سوپول کے سفیر تھے، انھوں نے اس جلسہ میں نہایت ہی والہانہ انداز میں ایک نعت پڑھی تھی، جسے بڑا قبول حاصل ہوا، اہلِ علم کی فرمائش پر دوبارہ پڑھی گئی تھی، اس کا مطلع تھا:
محمدؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
خدا تک کسی کی رسائی نہ ہوتی
خدا کی قسم یہ خدائی نہ ہوتی
نہ آدم، نہ یوسف، نہ موسیٰ، نہ عیسیٰ
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
اور اگلا بند اس طرح تھا:
یہ کیسی قرینے سے محفل سجائی
یہ بخشش یہ رحمت یہ مشکل کشائی
زمیں آسماں اور یہ ساری خدائی
یہ جو کچھ بھی ہے بس نبی کا ہے صدقہ
محمدؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
٭ ٭ ٭
نہ سورج، نہ تارے، نہ دنیا یہ ہوتی
نہ دن ہی نکلتا، نہ یہ رات ہوتی
نہ نورِ محمد کی خیرات ہوتی
زمیں آسماں نہ یہ عرشِ معلی
محمدؐ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
غرض جلسہ ہوگیا؛ مگر حضرت صاحب کی زیارت نہ ہو سکی تھی، بچہ تھا اور وہ بھی کسان کے گھر کا، اسٹیج پر کون لے جاتا، پھر معلوم ہوا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب ’’بڑے آنگن‘‘ میں حضرت تشریف لائیں گے خاندان کی بہت سی خواتین بیعت ہوں گی، اب آنگن میں منتظر رہنے لگا ہمارے ساتھ خاندان کے دوسرے ہم عمر بچے بھی؛ چنانچہ آئے بھی اور بیعت کی مجلس بھی ہوئی، اپنی بڑی سی پگڑی پردے کے پیچھے بیٹھی خواتین کو تھما دیا سب بیعت ہوئیں ؛ لیکن اندر جا کر زیارت کرنے کی نوبت نہ آئی، پھر جبحضرت کو گھر کے قریب ’’جیٹھ رعیت‘‘ دادا کے دروازے پر لایا گیا تو بھیڑ میں گھس کر حضرت کے قریب پہنچ گیا، مصافحہ کرنا یاد نہیں ؛ مگر ایک سفیدلباس، سفید ڈا ڑھی، سفید رومال اوڑھے حضرت کو دیکھ کر اطمینان ہوا اور خوشی سے باچھیں کھل گئیں ، بھیڑ سے نکلنے کے بعد اُچھلتا کودتا، دولتیاں مارتا خوشیاں منانے لگا، دل کی مراد بر آئی؛ معلوم ہوا کہ حضرت کا نام نامی مولانا منت اللہ رحمانی ہے۔ بس وہی پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ ان کی وفات کے بعدسجادہ نشینی کا انتخاب ہوا اور حضرت مولانا محمدولی رحمانیؒکو ’’حضرت صاحب‘‘ بولا جانے لگا۔ اور حضرت استاذ محترم مفتی محمدظفیرالدین مفتی دارالعلوم دیوبند اُن کو شفقت واحترام کی آمیزگی کے ساتھ ’’پیرجی‘‘ کہتے تھے۔
دیوبند میں ملاقات
حضرت مولانا محمدولی رحمانیؒ دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر فرزند ارجمند تھے، ان کے اندر عقیدے کی پختگی، فکر کی بالیدگی، مزاح کی کرختگی، زبان کی عمدگی، علم کی گہرائی و گیرائی اور رہن سہن کی سادگی تھی، امت مسلمہ کا دردوغم رکھتے تھے، دیوبند اکثر آتے جاتے رہتے تھے، ۱۹۹۲ء افتاء کا سال تھا، حضرت مفتی محمد ظفیر الدین صاحبؒکے کمرے میں بیٹھے تھے، مجھے بھی قریب بیٹھنے کی اجازت تھی، دونوں بزرگوں کی گفتگو سے خوب محظوظ ہورہا تھا، ایک بات پرفرمانے لگے ترجیحات میں افراد واشخاص کو دیکھنے کے ساتھ دلائل کو بھی دیکھنا چاہیے! میں بول پڑا جی حضرت قوتِ دلیل کو افراد کی کثرت پر ترجیح حاصل ہوتی ہے اور یہ قاعدہ رسم المفتی اور فقہ کی دوسری کتابوں میں ہے، اس پر بہت خوش ہوئے اورشاباشی دی۔
ندوہ میں ملاقات
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی حضرت مولانا کے جد امجد حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ تھے، اس لیے ادارے سے مولانا والہانہ تعلق رکھتے تھے، مجلس شوریٰ کے رکن رکین تھے، مسلمپرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے موقع سے حضرت مفتی محمد ظفیر الدین صاحبؒ کے ساتھ خادم اور رفیق سفر کی حیثیت سے ندوہ جانے کا اتفاق ہوا۔
(الف) وہاں حضرت مفتی صاحب سے ملنے کے لیے حضرت مولانا رحمانی کمرے تشریف لائے، ان کے ساتھ ندوہ کے طلبہ کی ایک بھیڑ تھی، کافی دیر تک بیٹھے محو گفتگو رہے۔ مختلف موضوع پر اظہارِ خیال ہوتا رہا، میں افتاء کا طالب علم تھا، بات ’’دورد شریف اور فاتحہ خوانی کی مجلس‘‘ پر آئی، خانقاہ رحمانی مونگیر میں اس کا اہتمام کیا جاتاہے، میں نے اس کے ’’بدعت‘‘ ہونے کی بات کہی اور یہ بھی کہ اہلِ علم نے اس طرح کی رائے کا اظہار فرمایا ہے، تو حضرت مولانا نے مجھے سمجھایا، پھر میں نے اعتراض کیا، پھر سمجھایا اور حضرت علامہ عبدالحئی فرنگی محلّیؒکے مقالے کا حوالہ دیا کہ تم دیوبند جانے کے بعد اس کا بھی مطالعہ کرو اوریہیاد رکھو کہ میں ہرسال مختلف پروگراموں کی طرح اس کی بھی ایک تاریخ متعین کرتا ہوں ، ہمیشہ کے لیے ایک ہی تاریخ نہیں ہے اور میرا مقصد مریدوں کو اکٹھا کرکے انھیں جوڑنا ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے عقیدہ و عمل میں پختہ رہتے ہیں ، یہ ایک نظام ہے ’’التزام مالا یلزم‘‘ والا اشکال اس پر منطبق نہیں ہوتا، وہاں پر موجود طلبۂ ندوہ مجھے اشارے سے روک رہے تھے کہ بحث مت کرو، میں نے ان سے کہا یہ فاضل دیوبند ہیں ، علمی گفتگو سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتے، مجھے بولنے دو! بالآ خر حضرت نے یہ فرمایا: دیوبند جاؤ اور اس موضوع پر اور مطالعہ کرو؛ لیکن خیال رہے اگر اس پر کچھ لکھو تو پہلے مجھے دکھا دینا پھر شائع کرنا، بہر حال، ندوہ کے مہمان خانہ کی یہ مجلس بڑی اچھی اور علمی رہی۔
(ب) اس کے بعد کھانے کے دستر خوان پر ملاقات ہوئی، وہاں کی طشتریوں پر ’’ندوۃ العلماء‘‘ کے مونو گرام کے ساتھ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کا پرنٹ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو رہی تھی، اورنل کے پاس زمین پر رکھا دیکھ کر اس میں اضافہ ہو گیا تھا، کھانے کے لیے حضرت نے اپنے قریب بیٹھنے کا موقع عنایت فرمایا، اس موقع سے میں نے عرض کیا: حضرت دیکھیے طشتری پر’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہے، اس پر الزامی اورمسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا:نہیں ’’لا حول ولا قوۃ‘‘ لکھا ہے! میں نے کہا: حضرت! یہ بھی تو بے ادبی ہے! تو سنجیدہ ہو کر فرمایا: کہاں لکھا ہے؟ تو میں نے دکھایا، اس پر بہت افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا میں شوریٰ کا ممبرہوں ، آؤں گاتو کہوں گا کہ اس سے احتراز کیا جائے؛ مگر آگے کیا ہوا ؟ مجھے معلوم نہیں ۔
(ج) ندوہ جانے کا میرا مقصد کتب خانہ سے استفادہ تھا؛ اس لیے کہ اس زمانے میں سراجی کی شرح ’’طرازی‘‘ لکھ رہا تھا، اس موضوع پر دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ کی تقریباًسب کتابیں دیکھ چکا تھا، اب ندوہ کے کتب خانہ سے استفادے کا ارادہ ہو رہا تھا ؛ چنانچہ گیا، وہاں کیٹلاگ سے کتابوں کے نام نمبر نکالے اورملازم کو دیا، ملازم نے بڑی چستی پھرتی سے ساری کتابیں ایک ساتھ لاکررکھ دیں ، دوپہر میں تعلیمی اوقات کے بعد بھی کتب خانہ کھلا رہا اور بڑے اطمینان سے مطالعے میں مصروف رہا، ان دونوں باتوں نے متاثر کیا، تین دن میں فرائض کے موضوع کی ان کتابوں کو دیکھ لیا جن کی مجھے ضرورت تھی۔پھرحضرت مولانا سے جب ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا :حضرت! دیوبند میں کتب خانے کا نظام درست کروائیے، دیکھیے یہاں مطالعہ کے لیے ایک سے زائد کتابیں دینے پر ملازم ناراض نہیں ہوا اور دوپہر پھر مغرب کے بعد سے رات گیارہ بجے تک کتب خانہ کھلا رہتا ہے، کتنا اچھا نظام ہے! اس پر حامی بھری ایک نصیحت فرمائی اوربات ختم ہوگئی۔
جامعہ رحمانی میں تدریس کی دعوت
حضرت مولانا کا تعلق اپنے استاذ محترم حضرت مفتی محمد ظفیر الدین صاحبؒسے بڑا گہرا تھا، جب افتاء کے بعد تدریب افتاء کا دوسرا سال پورا ہوا تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا : ارے اشتیاق! پیر جی نے تمہیں یاد کیا ہے، ان کے یہاں پڑھانے کے لیے جائے گا؟ میں نے فوراً کوئی جواب نہ دیا، معلومات کرنے پر طلبہ نے بتایا کہ جامعہ رحمانی مونگیر بڑا اچھا ادارہ ہے، معیاری ہے، وہاں پڑھنے پڑھانے کا ماحول ہے؛مگر اساتذہ کی آپس میں چپقلش رہتی ہے اورتنخواہ کم دیتے ہیں ، معلوم ہوا کہ اٹھارہ سو روپے تنخواہ دیں گے، اس پرطبیعت آمادہ نہ ہوئی، جب حضرت مفتی صاحب نے کئی بار کہا تو یہی دونوں باتیں بتادیں ، پھر حضرت نے کچھ نہیں کہا۔ پھر جب دار العلوم حیدر آباد کی جگہ آئی اور دوگنے تنخواہ کے ساتھ پیش کش ہوئی تو حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ نے وہاں بھیج دیا۔
جامعہ رحمانی کا معیار تعلیم
بہار میں جامعہ رحمانی کا امتیازہے کہ وہاں کے طلبہ میں چند خصوصیات نمایاں نظر آتی ہیں :
(الف) طلبہ کی تحریر بڑی اچھی ہوتی ہے، دوسرے مدرسوں میں اسے ’’رحمانی تحریر‘‘کہتے ہیں ، اس کے بارے میں حضرت مولانا نے مجھے خود بتایا کہ وہاں سب سیپہلے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحبؒنے دس طلبہ کو نہایت عمدہ خط سکھایا، اس خط کو ’’نستعلیق‘‘ کے بجائے’’ شکستہ نستعلیق‘‘ یا اس جیسا کوئی نام دیا جاسکتا ہے، یہ خط ’’نستعلیق‘‘ سے قریب ہے جس میں حروف کے شوشے بالکل واضح، سطریں برابر، دائرے کشادہ، کھڑے ،یکساں انداز کے ہوتے ہیں ، دیکھنے والا دور سے پہچان لیتا ہے کہ اس کا سلسلۂ نسب بھی خانقاہ رحمانی سے مل رہا ہے۔
عرض ان طلبہ کو نصیحت کی کہ تم بھی دس کو سکھاؤ گے اورآگے کے سیکھنے والوں کو بھی یہی نصیحت کروگے؛ چنانچہ چند ہی دنوں میں مؤثر شخصیت نے پورے جامعہ کی کایا پلٹ دی، اس کے بعد جو طالب علم بھی وہاں داخل ہوتا اس کو سب سے پہلے اپنے رسم الخط کے درست کرنے کی فکر ہوتی۔ یہ حضرت مولانا کی ایک کرامت ہے۔
(ب) وہاں کے طلبہ کے اندر انتظامی صلاحیت ہوتی ہے، وہ پروگرام کرنے، جلسہ ترتیب دینے ادارہ اور تنظیم چلانے کی استعداد اپنے اندر بھرپور رکھتے ہیں ۔
(ج) علمی استعداد، عبارت خوانی اور عبارت فہمی میں ممتاز ہوتے ہیں اور اب تو مخصوص طلبہ کے لیے’’عربی میڈیم‘‘ کے سلسلے نے ایک اور انقلاب برپا کردیا ہے۔ وہاں کے سابق مدرس حضرت مولانا محمد زاہدؒ کشن گنج نے بھی اس کی تصدیق فرمائی۔
(د) ان طلبہ میں سیاسی بصیرت بھی ہوتی ہے، وہ ملکی اور عالمی حالات سے اچھی طرح باخبر رہتے اور اس پر اپنی ایک رائے بھی رکھتے ہیں ۔
(ھ) ان میں کسی قدر لکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے، وہ مضمون نگاری پر قدرے قدرت رکھتے ہیں اور ادنیٰ سی رہنمائی کے بعد ہی چل پڑتے ہیں ۔
غرض جامعہ رحمانی کی جملہ خصوصیات کی آبیاری میں حضرت مولانا ولی رحمانیؒکا خونِ جگر شامل ہے، وہ ان کی خدمات کا شاہ کا رہے۔
زبان وبیان میں مولانا رحمانی کا امتیاز
حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒکی جملہ خوبیوں میں ایک زبان و بیان کی عمدگی ہے، موصوف کی تحریربڑی صافتھی ہی، اسی کے ساتھ فکر ونظر کی صفائی بھی متاثر کن تھی، کسی موضوع پر لکھتے تو بڑی خوش اسلوبی سے لکھتے، بیعت و سلوک، سیرت نبویؐ، سیاسی اور نیم مذہبی نیم سیاسی بیانات، وغیرہ کی زبان کو کھلی آنکھوں سے ہر ایک دیکھ سکتا ہے۔
ایک بڑا سیمینار تھا، وہاں بہت سے اہلِ علم تشریف لائے تھے، اور اپنے اپنے مقالات سب نے پیش کیے، اس میں ایک مقالہ مولانا کا بھی تھا، اجلاس میں ایک بڑی شخصیت نے تبصرہ کیا کہ جتنے مقالات پیش کیے گئے، ان میں الفاظ ومفردات کا انتخاب بہت اچھا نہیں تھا، ان کی تعبیرات سے لگ رہا تھا کہ مقالہ کسی خانقاہ کے گوشے میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے، سوائے حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کے، کہ ان کا مقالہ زبان وبیان کے لحاظ سے ممتاز تھا، ان کے الفاظ کی عمدگی، تعبیرات کی جدت طرازی اور ترتیب و تہذیب کی بالیدگی سے اہلِ علم نے اچھا اثر قبول کیا۔۔۔۔ ابھی موصوف کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت نے فرمایا: جی حضرت! یہ مقالہ بھی خانقاہ کے گوشے میں ہی تیار کیا گیا ہے، اس پر مجلس خوشگوار ہوگئی، علماء کی ادبیات اور ان کے زبان وبیان پر نقدکرنے والی شخصیت قدرے خفت کا شکار ہوئی اور ہونا بھی چاہیے: خود کردہ را علاجے نیست!
مولانا رحمانی کے نزدیک مفتی کی زبان کا معیار
ایک بار حضرت نے اپنی مجلس میں فرمایا: افتاء کے طالب علم کو سبسے پہلے اپنے اندر لکھنے کی صلاحیت پر غور کرنا چاہیے، اگر لکھنے کی صلاحیت ہو تو بہتر؛ ور نہ پہلے اُسے ’’ادب‘‘ پڑھ کر زبان و بیان کا خاص ذوق حاصل کرنا چاہیے، مفتی کی زبان بہت اچھی اور معیاری ہونی چاہیے، وہ شریعت کا ترجمان، عوام وخواص کا دینی نمائندہ ہے، اس کی زبان میں اگر کمی دیکھتا ہوں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے؛ اس لیے میں مشورہ دیتا ہوں کہ ’’افتاء‘‘ میں صرف اسی طالب علم کا داخلہ لیا جائے جو’’ادب‘‘ پڑھ چکاہو!
دینی غیرت اور تصلب
مولانا رحمانیؒ کے اندر دینی حمیت و غیرت بہت تھی، وہ جس طرح اسلام مخالف سے آنکھ میں آنکھ ڈال کرگفتگوکرتے تھے، اسی طرح دینی تعلیم اور دینی مزاج سے متصادم مسلمان سے دوبدوباتیں کرتے اور ان کے اشکالات اور شبہات کا جواب ترکی بہ ترکی دیا کرتے تھے، اسلامی تعلیم اور اس کے نصاب اور نظام کی مخالفت میں اگر کوئی بولتا تو اس کوبھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے، اور (رف زبان میں) اس کی ایسی کی تیسی کر دیتے تھے۔ وہ اسلامی تشخص اور اس کے بقا و تحفظ کے لیے پوری زندگی کوشاں رہے۔ ایک بار حضرت کا نام کسی جگہ بغیر ’’محمد‘‘ کے لکھا گیااس پر بہت ناراض ہوئے، یہ بھی دینی حمیت وغیرت کی مثال ہے۔
اسی حمیت وتصلب والے مزاج نے ان کے رعب کو بڑھا رکھا تھا، وہ دین کے شیدائی اور اسلام کے فدائی تھے، امت کے موقف اور اپنے نظریے پر پختہ تھے، اس سے سرمو انحراف انھیں پسند نہیں تھا۔ ان کی زندگی کو دیکھنے والوں کے سامنے مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں !
ہر فاضل کے لیے دسویں کا امتحان ضروری
غالباً۲۰۰۸ء کی بات ہے، جب راقم حروف کا تقرر دارالعلوم دیوبند میں ہو گیا تھا، معلوم ہوا کہ حضرت مولانا دیو بند آئے ہیں اور مہمان خانہ میں تشریف فرما ہیں ، خدمت میں حاضر ہوا، سلام دعا کے بعد فرمانے لگے: اس بار حضرت مولانا مرغوب الرحمنؒمہتمم دارالعلوم دیوبند سے ملنے آیا ہوں اور میرا مقصد یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اپنے انتظام کے ساتھ ہر فاضل دارالعلوم کو دسویں کا امتحان دلائے؛ تا کہ کسی طالب علم کو آگے کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو، میں نے کہا: جو طلبہ عصری درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تو امتحان دیتے ہی ہیں ! اس پر فرمایا: میرا مقصد یہ ہے کہ یہ کام اجتماعی طور پر دارالعلوم کرے! میں نے کہا: حضرت! اس طرح تو ہمارا سرمایہ ضائع ہو جائے گا اور ہماری کھیتی برباد ہو جائے گی، فرمانے لگے : جو طالب علم جانا چا ہے، کیا آپ اس کو روک پاتیہیں ؟ میں نے کہا: نہیں ؛ لیکن آپ کی بات یہاں سنی نہیں جائے گی، آپ کی صدا ’’صدائے گنبد‘‘ ہو کر رہ جائے گی، فرمانے لگے :میں اپنا کام کر لیتا ہوں ، چاہے اس کو مانیں یا نہ مانیں ؛ اس لیے کہ ہندوستان میں ایک وقت آ رہا ہے جب مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑے گا، میں خاموش رہا، اس کے بعد کیا ہوا؟ نہیں معلوم!
نئی نسل کی فکر
میرے دوست جناب مفتی وصی احمد دربھنگوی مدظلہ قاضی امارت شرعیہ پٹنہ نے اپنے وطن کھینسا میں ایک جلسہ کیا، اس کی صدارت کا سہرا حضرت مولانا کے سر تھا، دور دور سے لوگ حضرت مولانا کی ملاقات، زیارت اور نصیحت کا نیاز حاصل کرنے آئے تھے۔ اس موقع سے دیوبند سے میں بھی پہنچاتھا، حضرت مولاناؒ کا بیان بہت مختصر ہوا؛ بڑا موثر! خطبہ کے بعد فرمایا: بھائیو! ہم اور آپ مسلمان ہیں توہمیں اپنی نسل کو بھی مسلمان چھوڑ کر جاناچاہیے، بس اسی مضمون کو بڑے اچھے انداز میں سمجھایا اور پورے مجمع سے وعدہ لیا اور یہ آخری تقریر تھی جو میں نے سنی، ایسا لگ رہا تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنی اولاد سے وعدہ لے رہے ہیں کہ میرے بعد تم سب کس کی عبادت کرو گے ؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مولاناؒکے نقش قدم پر چلائیں اور حضرت کے آثار سے استفادے کا موقع عطا فرمائیں !
خاکۂ حیات
مولانا سیّدمحمدولی رحمانی ابن مولانا سیّدمنت اللہ رحمانی ابن مولانا سیّدمحمد علی مونگیری بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔
ولادت: ۱۹۴۳ء وفات: ۳؍اپریل ۲۰۲۱ء عمر:۷۸ سال
مناصب
۱- سر پرست جامعہ رحمانی مونگیر
۲- سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر
۳- جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
۴- رکن بہار قانون ساز کونسل (۱۹۷۴-۱۹۹۶ء)
۵- امیرشریعت سابع امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ
۶- بانی رحمانی۳۰ پھلواری شریف، پٹنہ۔
تصانیف
(۱) بیعت عہد نبوی میں (۲) شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں (۳) آپ کی منزل یہ ہے (۴)کیا ۱۸۵۷ء پہلی جنگ آزادی تھی (۵) دینی مدارس میں صنعت و حرفت کی تعلیم (۶)تصوف اور شاہ ولی اللہؒ (۷)حضرت سجاد مفکر اسلام (۸)ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ عدالتی روایات کے پس منظر میں (۹) مفت اور لازمی حصول تعلیم بچوں کا قانونی حق (۱۰)یادوں کا کارواں (۱۱) مسلم پرسنل لا بورڈ اور ہندوستانی قانون (۱۲) لڑکیوں کا قتل (۱۳) اقلیتوں کی تعلیم اور حکومت ہند کو چند قانونی اور عملی مشورے (۱۴) مجموعہ رسائل رحمانی (۱۵) اقلیتی تعلیمی کمیشن ایک مختصر جائزہ (۱۶)صبح ایک زندہ حقیقت ہے یقینا ہوگی (۱۷)اپنے بچوں کی تعلیم کا عمدہ انتظام کیجیے!
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائیں ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں !
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء