خاکۂ حیات:  حضرت مولانا محمد اسماعیلؒ / نائب مہتمم و استاذِ حدیث جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ

از: حضرت مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری

 استاذ حدیث و مفتی جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ

انسان عالم ارواح سے محوسفر ہے اور جنت میں داخلہ تک یہ سفر جاری رہے گا۔ دنیا میں آنا اور یہاں سے رحلت کرنا اس سفر کا لازمی جز ہے جسے ہر شخص کو عبور کرنا ہے، یہ دنیا درحقیقت دارآخرت کے لیے توشہ حاصل کرنے کی جگہ ہے، جس شخص نے اس عالم میں اپنے پروردگار سے عالم ارواح میں عہد ’’الست‘‘کے مطابق زندگی گزار دی تو وہ شخص اس دنیا سے عالم آخرت کے واسطے کامیابی اور کامرانی کا تمغہ اور سند لے کر جاتا ہے اور جس شخص نے اس عالم میں اس عہد’الست‘‘ کو فراموش کر دیا اور اپنی نفسیانی خواہشات میں پھنسا رہا اور من چاہی زندگی گزاری تو اس کا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے اور رب ذوالجلال کی مشیت پر موقوف رہتا ہے، اگر وہ بحالت ایمان دنیا سے گیا ہے تو پروردگار عالم کی مرضی ہے، وہ چاہیں تو بلاحساب و کتاب اس کو معاف کر دیں ا ور چاہیں تو سزا دیں ۔

                کامیاب اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی پوری زندگی علوم قرآن و سنت کو سیکھنے اور سکھانے میں گزر گئی اور لائق صدمبارکباد ہیں وہ نفوس قدسیہ جنھوں نے قرآن کریم اور حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پڑھنے پڑھانے کو اپنا محبوب مشغلہ بنائے رکھا اور اسی حالت میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔

                انھیں خوش نصیب اور سعادت مند نفوس قدسیہ میں ہمارے ممدوح، نمونۂ اسلاف، مخدوم گرامی حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب نوراﷲ مرقدہٗ کی ذات والا صفات بھی ہے۔

نام و نسب

                آپ کا اسم گرامی محمد اسماعیل بن کفایت اﷲ ہے۔

وطن

                دہلی-مرادآباد شاہراہ پر واقع جویا ایک تاریخی قصبہ ہے جو مرادآباد سے تیس کلومیٹر جانب مشرق اور دہلی سے تقریباً ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر جانب مغرب میں واقع ہے۔ جویا بستی کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے اور یہاں کے باشندے حوصلہ مند اور جری واقع ہوئے ہیں ۔ ۱۹۴۷ء کے موقع پر جب تقسیم ملک کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہے اور انتقال مکانی اور تبادلۂ آبادی کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلمان پاکستان جانے لگے تو اس وقت کے جویا کے مسلمانوں نے اپنے اکابرین کے حکم سے جویا میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان ہجرت کا ارادہ ملتوی کر دیا تو اس وقت جویا کے مسلمانوں کی ہمت و شجاعت، دلیری و بہادری کو دیکھ کر قرب و جوار کے مسلمانوں نے بھی ترک وطن کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس دور میں جویا بستی کو ’’درۂ دانیال‘‘ کہا جاتا تھا۔ جویا پہلے ضلع مرادآباد کے زیرانتظام تھا، اب ضلع امروہہ کے زیر انتظام ہے۔

ولادت

                اسی بستی میں ۱۹۲۹ء میں ایک متمول ترک گھرانہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ اسی سال میرے والد محترم کفایت اﷲ مرحوم کی وفات ہوئی اور والد محترم کی وفات کے وقت میری عمر پانچ چھ مہینے تھی اور میری پرورش اور کفالت کی ذمہ داری میرے بڑے بھائی منشی محمد عباس مرحوم نے پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھائی۔

خاندان

                آپ کے والد محترم مرحوم و مغفور جناب کفایت صاحب کی نرینہ اولاد میں چار لڑکے تھے: (۱)ملا جی محمد عباس، (۲) ملا جی محمد اسحاق، (۳) ملا جی مظلوم، (۴) جناب مولانا محمد اسماعیل صاحب مرحوم۔

                اول الذکر ملا جی محمد عباس مرحوم کی نرینہ اولاد میں جناب مولانا ڈاکٹر عبدالستار صاحب اور حاجی ابرار احمد صاحب دو لڑکے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالستار صاحب ماشاء اﷲ عالم و فاضل جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ سے فارغ التحصیل ہیں اور لکھنؤ سے ڈاکٹری کا کورس کیا ہے اور اس وقت طبابت کے پیشہ سے وابستہ ہیں اور عوام و خواص میں مقبول ہیں ۔

                ثانی الذکرملا جی محمد اسحاق صاحب مرحوم کی اولاد نرینہ مولانا محمد یعقوب صاحب، منشی محمد مختار احمد صاحب، منشی بلیغ الرحمن صاحب اور ڈاکٹر آغا اکرام الحسن صاحب ہیں ۔ مذکورہ چاروں بھائیوں میں ثالث الذکر منشی بلیغ الرحمن صاحب ممدوح حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب کے داماد بھی ہیں ۔

                ثالث الذکر ملا جی مظلوم کی نرینہ اولاد میں دو لڑکے ظہیر الاسلام اور مولانا محمد عاقل ہیں اور ممدوح مولانا محمد اسماعیل صاحبؒ کی نرینہ اولاد میں چار لڑکے اور غیر نرینہ اولاد میں تین لڑکیاں ہیں ۔

تعلیم و تربیت

                آپ بچپن ہی میں سایۂ پدری سے محروم ہو گئے تھے اور آپ کے برادر کلاں جناب ملاجی محمد عباس صاحب مرحوم آپ کی پرورش اور کفالت کے ذمہ دار تھے جو شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد صاحب مدنی نوراﷲ مرقدہٗ کے حلقہ ارادت میں شامل اور ان کے مرید صفا تھے۔ طبیعت میں دینداری اور صلاح کی صفت غالب تھی، اسی صفت صلاح کے غلبہ کی وجہ سے موصوف نے اپنے چھوٹے بھائی محمد اسماعیل صاحب کی تعلیم و تربیت کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی۔

آغازتعلیم

                آپ کی دینی و عصری تعلیم کا آغاز اپنے وطن جویا ہی میں ہوا، قرآن کریم ناظرہ، دینیات، اردو، ہندی، ریاضی و حساب اور فارسی کی بنیادی تعلیم جویا ہی میں حاصل کی۔ آپ اگرچہ حافظ قرآن کریم نہیں تھے؛ مگر کثرتِ تلاوت کی وجہ سے آیات قرآنیہ آپ کو ازبر تھیں اور غلط خواں کو فوراً لقمہ دے دیا کرتے تھے۔ جویامیں آپ کے اساتذہ میں ماسٹر ثناء اﷲ صاحب اور حکیم محمد یامین صاحب قابل ذکر ہیں ۔ اول الذکر سے اردو، ہندی، حساب وغیرہ مضامین میں تعلیم حاصل کی اور ثانی الذکر سے قرآن کریم اور گلستاں ، بوستاں وغیرہ فارسی کی کتابیں پڑھیں ۔

دارالعلوم حسینیہ چلہ امروہہ میں داخلہ

                جویا میں عربی تعلیم کا نظم نہیں تھا؛ اس لیے عربی تعلیم حاصل کرنے لیے امروہہ تشریف لائے اور دارالعلوم حسینیہ چلہ میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے فارسی کی بعض کتابوں کے ساتھ عربی اول، دوم کی کتابیں پڑھیں ۔ دارالعلوم حسینیہ چلہ میں آپ کے خاص اساتذہ کرام میں حضرت مولانا عبدالودود صاحب نوراﷲ مرقدہٗ قابل ذکر ہیں ۔

مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں داخلہ

                آپ کے دارالعلوم حسینیہ چلہ امروہہ کے خاص استاذ حضرت مولانا عبدالودود صاحبؒ کی اچانک مدرسہ سے علیحدگی ہوگئی اور موصوف کا مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں تقرر ہو گیا تو آپ بھی اپنے استاذ کے ہمراہ مرادآباد تشریف لے گئے اور مدرسہ امدادیہ مرادآباد میں داخلہ لے کر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔

                ۱۹۴۷ء کے ہولناک فساد کے وقت آپ مرادآباد ہی میں قیام پذیر تھے اور اس وقت کے دردناک مناظر آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اور آپ ان کو موقع بہ موقع بیان بھی کیا کرتے تھے۔ حصول علم کے لیے مرادآباد میں آپ کا قیام ایک سال سے زیادہ نہ رہا۔

جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں داخلہ

                پھر مرادآباد میں قیام کے دوران ہی آپ کو ایک ساتھی کے ذریعہ پتہ چلا کہ امروہہ جامع مسجد میں ڈھکیہ چمن کے مولانا منظور احمد صاحب پڑھاتے ہیں اور طلبہ کے ساتھ اچھی محنت کرتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھی کے ساتھ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں داخلہ کا عزم مصمم اور پختہ ارادہ کر لیا اور پھر آئندہ سال ماہ شوال میں اس عزم و ارادہ کی تکمیل کرتے ہوئے جامع مسجد امروہہ میں غالباً  سوم عربی میں داخلہ لے لیا اور تعلیمی امور میں منہمک ہوگئے ۔ امروہہ داخلہ کے بعد آپ کے مؤقر استاذ حضرت مولانا منظور احمد صاحب نوراﷲ مرقدہٗ نے مجوزہ کتابوں کے علاوہ سابقہ خواندہ کتابیں دوبارہ آپ کو سبقاً سبقاً پڑھائیں ؛ تاکہ آپ کی استعدا داور صلاحیت ٹھوس اور پختہ ہوجائے پھر آپ نے اپنے مذکورہ استاذ محترم کے دامن کو تاحیات مضبوطی سے تھامے رکھا۔ حضرت مولانا منظور احمد صاحب کے علاوہ امروہہ مدرسہ کے آپ کے دیگر اساتذہ کرام میں حضرت مولانا مفتی نسیم احمد صاحب فریدی نوراﷲ مرقدہٗ، حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب صدیقیؒ، حضرت مولانا سید اعجاز حسنین صاحبؒ، حضرت مولانا عزت اﷲ صاحب صدیقیؒ قابل ذکر ہیں ۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت

                چند سال جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ۱۹۵۲ء  میں      ام المدارس دارالعلوم میں داخلہ لیا اور درس نظامی کی کتابوں کے ساتھ طب کی کتابیں پھر پڑھیں ۔ ۱۹۵۶ء میں صحاح ستہ کی کتابیں پڑھ کر دورۂ حدیث اور درس نظامی سے فراغت حاصل کی۔یہ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نوراﷲ مرقدہٗ کا مکمل تدریس بخاری شریف کا آخری سال تھا۔ اس کے بعد کے طالبان علوم نبویہ حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ سے مکمل بخاری شریف پڑھنے سے محروم رہے اور آئندہ سال ہی حضرت شیخ الاسلامؒ وصال فرما گئے اور اپنے مالک حقیقی کی جانب رحلت فرما گئے۔

اساتذئہ کرام اور خواندہ کتب کی تفصیل

                دارالعلوم دیوبند کے قیام کے دوران آپ نے اپنی پوری توجہ اسباق میں حاضری، تکرار اور مطالعۂ کتب بینی، اور اساتذہ کرام کی خدمت پر صرف فرمائی۔ آپ کے تمام ہی اساتذہ کرام آپ سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے اور آپ کے مستقبل کے حسین اور تابناک ہونے کی دعا فرماتے تھے۔ آپ نے بخاری شریف حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراﷲ مرقدہٗ سے پڑھی۔ ترمذی شریف حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور ابوداؤد شریف حضرت مولانا بشیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ سے پڑھی۔ دیگر اساتذئہ کرام میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا جلیل احمد صاحب کیرانویؒ، حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا فیض علی شاہ کشمیری، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا سید حسن صاحب دیوبندیؒ، حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہریؒ، حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاریؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ فن طب میں آپ کے مؤقر استاذ حضرت مولانا حکیم محمد عمر صاحب دیوبندیؒ تھے۔ فن تجوید و قرأت میں آپ کے استاذ قاری محمد عتیق قدس سرہٗ رہے۔ جدید عربی کی مشق و تمرین میں آپ کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ، شیخ عبدالمنعم النمرمصریؒ، شیخ عبدالعال مصریؒ قابل ذکر ہیں ۔

رفقاء درس

                آپ کے دورۂ حدیث شریف کے رفقاء درس میں حضرت مولانا سید نفیس اکبر صاحب فتح پوریؒ، سابق صدرالمدرسین جامعہ عربیہ ہتورا ضلع باندہ، حضرت مولانا شبیہ احمد خاں صاحب فیض آبادیؒ سابق صدرالمدرسین جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ، حضرت مولانا معین الدین خاں صاحب گونڈویؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ امدادیہ مرادآباد، حضرت مولانا خورشید عالم صاحب عثمانیؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند، حضرت مولانا حسیب احمد صاحب صدیقیؒ منیجر مسلم فنڈ دیوبند، حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمیؒ صاحب زادہ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا سعید احمد صاحب سہنسپوریؒ (والد ماجد مولانا محمد سلمان صاحب بجنوریؒ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا عقیل الرحمن صاحب رامپوری مدظلہ شیخ الحدیث مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد قابل ذکر ہیں ۔ بعض اسباق میں حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ، حضرت مولانا جمال احمد صاحب بلندشہری، حضرت مولانا عبداﷲ صاحب مغیثی مہتمم جامعہ گلزار حسینہ اجراڑہ بھی ہم درس رہے۔

تدریسی زندگی کا آغاز

                تمام علوم متداولہ سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن جویا تشریف لے آئے، آپ کے خسر آپ کو کاروبار میں مصروف رکھنا چاہتے تھے؛ مگر آپ کے مربی و سرپرست برادرکلاں جناب ملا جی محمد عباس صاحب مرحوم آپ کو کاروبار میں مصروف دیکھنا نہیں چاہتے تھے اور ان کی دلی خواہش اور تمنا تھی آپ درس و تدریس میں مشغول رہیں اور فرماتے تھے کہ جب آپ کو اﷲ تعالیٰ نے دینی تعلیم سے آراستہ کیا ہے اور علوم نبوت کی دولت آپ کو حاصل ہوئی تو اسی کو بچوں کو  پڑھاؤ اور امت مسلمہ کے نونہالوں کی دینی تعلیم و تربیت پر توجہ دو، اور خرچ کی بالکل فکر نہ کرو، ہم آپ کو زراعت کی آمدنی میں چوتھائی دیا کریں گے۔ آپ نے معلوم کیا کہ کہاں پڑھاؤں تو فرمایا کہ یہیں چوپال پر بیٹھ کر بچوں کو پڑھاؤ؛ چنانچہ آپ چوپال پر بچوں کو پڑھانے لگے اور کئی مہینہ تک یہ مشغلہ جاری رہا۔

جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں تقرر

                آپ جویا کے اندر مکتب کی تعلیم میں مصروف تھے اور اس سلسلہ کو جاری ہوئے ابھی چند ہی مہینہ گزرے تھے کہ اچانک جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ کے اس دور کے مہتمم حضرت مولانا اعجاز حسنین صاحب نوراﷲ مرقدہٗ ناظم مدرسہ حضرت مولانا قاری فضل الرحمن صاحبؒ اور آپ کے مشفق و مہربان استاذ حضرت مولانا منظور احمد صاحبؒ جویا آپ کے گھر تشریف لائے اور آپ سے فرمایا کہ آپ جویا کے بجائے جامع مسجد امروہہ آجائیں اور جامع مسجد میں بچوں کو پڑھائیں ، پھر آپ اپنے برادر کلاں سے مشورہ کے بعد ۱۹۵۷ء کے اواخر میں جامع مسجد امروہہ تشریف لے آئے اور جامع مسجد امروہہ کے علماء و مشائخ اور مدرسین کے زمرہ میں شامل ہوگئے اور عربی و فارسی کی ابتدائی کتابوں سے تدریس کا آغاز فرمایا اور ترقی کرتے ہوئے علیا کے مدرسین کے زمرہ میں شامل ہوگئے۔

                حیات مستعار کے آخری دور میں آپ مشکوٰۃ شریف، شرح وقایہ اول اور مؤ امام محمد پڑھاتے تھے، جامع مسجد میں قیام کے دوران آپ نے تمام علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں اور آپ کا پڑھانے کا انداز انتہائی سادہ اور پرمغز ہوتا تھا اور پوری زندگی تدریسی زندگی سے وابستہ رہے اور اسی خدمت کو اپنے لیے سرمایۂ آخرت اور ذریعۂ نجات تصور کرتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں آپ کے تدریسی دورانیہ کی مدت ۶۶؍سال کے طویل عرصہ کو محیط ہے۔

نیابت اہتمام کا عہدہ

                جامعہ کے سابق مہتمم حضرت مولانا سید محمد قاسم صاحبؒ کے وصال کے بعد جب مجلس شوریٰ نے جناب ڈاکٹر سید محمد طارق حسن صاحب مدظلہ کو مہتمم منتخب فرمایا تو اسی مجلس میں آپ کو جامعہ کا نائب مہتمم تجویز فرمایا اور پھر تاحیات تقریباً ۱۴؍سال تک آپ نے نیابت اہتمام کی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھایا اور مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔

جامعہ کی بے لوث خدمت

                آپ کو جامعہ سے بے پناہ محبت تھی اور جامعہ کی بے لوث خدمت کو آپ نے اپنا مجبوب مشغلہ بنائے  رکھا تھا، اس کا ثبوت اس بات سے ہوتا ہے کہ ذمہ داران مدرسہ نے آپ کو تدریس کے لیے منتخب فرمایا تو آپ نے تنخوہ کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی ذمہ دران نے کوئی تنخواہ مقرر فرمائی؛ بلکہ ڈیڑھ سال تک بلاتنخواہ پڑھاتے رہے۔ نہ ذمہ داران نے کوئی تنخواہ دی، نہ آپ نے ذمہ داران سے معلوم کیا کہ میری تنخواہ کیا ہے، جب ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا تو آپ کی تنخواہ اس وقت ۳۵؍روپئے ماہانہ مقرر کی گئی، اس کے بعد بھی تاحیات آپ نے کبھی تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ مدرسہ کی طرف سے تنخواہ کے نام سے جو کچھ ملتا رہا اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرتے رہے۔ ایک مرتبہ ذمہ داران مدرسہ کے پاس کانٹھ سے ایک وفد آیا کہ ہمیں جامع مسجد کے لیے ایک امام کی ضرورت ہے، امامت کی ذمہ داری کے ساتھ مقامی مدرسہ میں تدریس کا موقع بھی ملے گا اور ساٹھ روپئے ماہانہ تنخواہ ہوگی۔ ذمہ داران نے یہ پیشکش آپ کے سامنے رکھی اور کانٹھ جانے کے لیے فرمایا تو آپ نے معذرت فرما دی کہ مجھے میرے بھائی نے جامع مسجد، امروہہ میں پڑھانے کے لیے بھیجا ہے اور مجھے یہیں رہنا ہے ، اگر کسی وجہ سے امروہہ سے جاؤں گا تو صرف جویا ہی جاؤں گا اس جواب پر ذمہ داران نے خاموشی اختیار کرلی اور آپ جامع مسجد ہی میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔

جامعہ کے حلقہ اثر کی توسیع اور فراہمی مالیات کے لیے اسفار

                آپ نے ابتداء ہی سے اپنے استاذ مولانا منظور احمد صاحب نوراﷲ مرقدہٗ کے ہمراہ جامعہ کے حلقہ اثر کی توسیع اور جامعہ کے تعارف اور فراہمی مالیات کی غرض سے ملک کے طول و عرض میں بیشمار اسفار فرمائے اور آپ کے ذریعہ مدرسہ کے حلقہ اثر میں وسیع اضافہ بھی ہوا اور مادی منفعت بھی حاصل ہوئی۔ شروع میں آپ حضرت مولانا منظور احمد صاحبؒ کے ساتھ سفر کرتے تھے اور یہ سلسلہ موصوف کی حیات کے آخری لمحات تک برابر جاری رہا پھر موصوف کے وصال کے بعد آپ کے بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی وجہ سے آپ کے ساتھ مولانا منصور احمد صاحب استاذ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ آپ کے ساتھ ہم سفر رہے جو آپ کے داماد بھی ہوتے ہیں ۔ آپ کا سفر شعبان کے وسط سے شروع ہوتا تھا اور اختتام رمضان تک جاری رہتا تھا ، عیدالفطر سے دو تین روز پہلے تشریف لاتے تھے۔ پھر عیدالفطر کے بعد ۲؍شوال کوسفر شروع ہوجاتا تھا اور شوال کے تین ہفتہ سفرمیں مشغول رہتے تھے پھر ذی قعدہ تک تدریسی امور میں مصروف رہتے تھے، اس کے بعد ذی الحجہ کے اوائل میں سفر شروع ہوجاتا تھا اور ذی الحجہ کے دو عشرہ سفر میں مشغول رہتے تھے اور پھر واپس ہوکر تدریسی امور میں مصروف ہوجاتے تھے۔ آپ کے سفر کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا، چنانچہ کلکتہ، مغربی بنگال اور شہر گیا صوبہ بہار کے علاوہ روہیلکھنڈ میں روڑکی، اور صوبہ راجستھان میں جے پور شہر ضلع سوائی مادھوپور میں سات مقامات اور ضلع قرولی میں تین مقامات پر آپ فراہمی مالیات کے لیے سفر فرماتے تھے اور صوبہ اترپردیش میں مغربی اضلاع اور مشرقی اضلاع میں متعدد مقامات پر آپ تشریف لے جاتے تھے۔ مغربی اضلاع میں ضلع غازی آباد  میں دھپہ کمال پور، فریدنگر اور پلکھوا، ضلع مظفر نگر میں سات مقامات، ضلع شاملی میں قصبہ کیرانہ اور شہر میرٹھ کے بعض علاقوں میں آپ کا جانا ہوتا تھا۔ مشرقی اضلاع میں شہر لکھنؤ،شہر بنارس سمیت ضلع مئوناتھ بھنجن میں شہر مئو، مبارک پور، کوپاگنج، گھوسی، ضلع اعظم گڑھ میں  خیرآباد، ضلع امبیڈکرنگر میں آٹھ مقامات اور ضلع بارہ بنکی میں شہر بارہ بنکی سمیت سات مقامات، ضلع الہ آبادمیں شہرالہ آباد اور مئوائمہ اور شہر فیض آباد میں آپ تشریف لے جاتے تھے اور سبھی مقامات پر معقول مقدارمیں مدرسہ کو مالی فائدہ ہوتا تھا۔ جن مقامات پر آپ کی تشریف آوری ہوتی تھی ان کی مجموعی تعداد تقریباً پچاس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امروہہ کے مضافات میں غلہ اسکیم اور دوسرے تقاضوں کے تحت آپ کی باربار آمد ورفت ہوتی رہتی تھی۔ مدارس اسلامیہ کے سالانہ جلسوں کی سرپرستی اور معاون مدرسہ کے پاس عیادت، تعزیت اور جنازوں میں شرکت بھی بکثرت آپ فرماتے تھے۔

مشہور تلامذہ

                آپ کی چھیاسٹھ سالہ تدریسی زندگی میں بے شمار طالبان علوم نبوت نے آپ سے استفادہ کیا اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرکے اپنی علمی تشنگی بجھائی اور درس نظامی سے فراغت کے بعد ملک و بیرون ملک میں دینی خدمات سے وابستہ ہیں ۔ آپ کے تمام تلامذہ کو شمار کرنا اور ان کی فہرست سازی کرنا یقینا ناممکن اور دشوار ہے؛ البتہ آپ کے مشہور تلامذہ میں جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد طارق حسن صاحب مدظلہ ، سابق مہتمم حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ، حضرت مولانا سید طاہر حسین صاحب گیاویؒ، حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب فتح پوری مفتی اعظم صوبہ مہاراشٹر، نواسۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوریؒ استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند، نبیرۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا سید اخلد رشیدی مقیم مدینہ منورہ، مولانا سید ازہد مدنی (صاحب زادہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی) ، مولانا قاری محمد آفتاب خاں صاحب استاذ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالجبار صاحب صدر شعبہ کتابت دارالعلوم دیوبند، مولانا قاری شفیق الرحمن صاحب میرٹھی، مولانا محمد الیاس صاحب میرٹھی، مولانا مفتی محمد اسماعیل صاحب مالیگاؤں رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند، مولانا اسعد قاسم صاحب سنبھلی مہتمم مدرسہ شاہ ولی اﷲ مرادآباد، حضرت مولانا مصلح الدین صاحب بھاگلپوری استاذ جامعہ حسینیہ جونپور، قاری نجیب الرحمن صاحب بھاگلپوری کارگزار صدر جمعیۃ علماء شہر مرادآباد، حضرت مولانا اسعداﷲ صاحب صدیقی شیخ الحدیث دارالعلوم چلہ امروہہ قابل ذکر ہیں ۔

تزکیہ و سلوک

                تزکیۂ نفس، اصلاحِ باطن اور سلوک و تصوف کے حصول کے لیے آپ نے اپنے مؤقر استاذ حضرت مولانا منظور احمد صاحبؒ کے ہمراہ رائے پور پہنچ کر حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری نوراﷲ مرقدہٗ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور تاحیات خانقاہ رائے پور کے تلقین کردہ اوراد و وظائف پر پابندی سے عمل کرتے رہے، اپنی زندگی میں برابر خانقاہ رائے پور اور وہاں کے اکابرین کا تذکرہ فرماتے رہتے تھے۔ آپ نے اپنی حیات مستعار کے آخری سالوں میں پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلویؒ سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے لیے تجدید بیعت کا ارادہ بھی کیا اور متعدد مرتبہ راقم السطور سے سہارن پور ساتھ چلنے کے لیے فرمایا؛ لیکن امروز و فردا پر معاملہ ٹلتارہا اور آپ اپنی عدیم الفرصتی اور ذاتی اعذار کی وجہ سے سہارن پور نہیں جا سکے۔

اخلاق و عادات

                آپ انتہائی متواضع اور منکسرالمزاج اور مرنجا مرنج طبیعت کے مالک تھے اور اپنے کام خود کرنے کے عادی تھے۔ اپنے اعزہ، اقرباء اور خاندان کے افراد لڑکوں ، لڑکیوں ، پوتوں ، نواسوں سے بھی خدمت لینا پسند نہیں کرتے تھے، طلبہ اور شاگردوں سے خدمت لینا بھی آپ کو پسند نہیں تھا۔ مدرسہ کے ذمہ دار اعلیٰ ہوتے ہوئے کسی کو بلانے کی ضرورت پیش آتی یا کسی سے کوئی بات کہنی ہوتی تو خود جاکر بلاتے تھے، کسی چپراسی وغیرہ سے اس فرد کو بلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ مدرسہ سے عشق کے درجہ کا تعلق تھا، اپنے فرائض و واجبات کو وقت پر پورا کرنے کے عادی تھے؛ لیکن ان تمام کمالات و اوصاف کے باوجود جری اور بہادر تھے۔ شجاعت اور حوصلہ مندی آپ کا خاص وصف تھا اور کسی معاملہ میں جو موقف اختیار کر لیتے تھے، اس پر آخر تک قائم رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے مکان میں رات کی تاریکی میں چور آگئے اور آپ ایک چور کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے اور اس نے چھڑانے کی ہر ممکن کوشش کی؛ لیکن وہ چور آپ کے قبضہ سے باہر نہ ہو سکا حتی کہ اس کے ساتھی دوسرے چور نے آپ کو گولیاں مار دیں اور آپ کو لہولہان کر دیا۔ اس کے بعد وہ چور بھاگنے میں کامیاب ہو سکا۔ آپ کی آخری زندگی تک وہ گولیاں آپ کے جسم میں موجود تھیں اور لوگوں کو ہاتھ رکھ کر دکھایا کرتے تھے۔ بعد میں آپ کو ان چوروں کا پتہ بھی چل گیا؛ مگر آپ نے سب کو معاف کر دیا۔ مدرسہ میں متعدد مرتبہ مخالفین اور حاسدین کی جانب سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے؛ مگر اپنی جرأت و ہمت سے ان حالات میں آپ نے ذمہ داران مدرسہ کا ساتھ دیا اور مخالفین اپنے غلط عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے۔

مدارس اسلامیہ کی سرپرستی اور ذمہ داریاں

                آپ نے اپنی حیات مستعار میں بیشمار مدارس اسلامیہ، مکاتب قرآنیہ اور مساجد کی سنگ بنیاد میں شرکت فرمائی۔ متعدد مدارس اور مساجد کی تاسیس آپ ہی تحریک اور تجویز پر عمل میں آئی اور پھر متعدد مدارس کی سرپرستی اور  ذمہ دارانہ مناصب پر آپ فائز رہے۔

                جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ کے نیابتِ اہتمام کے عہدہ کے علاوہ آپ مدرسہ قاسم العلوم جویا کے سرپرست اور بانی، مدرسہ فریدیہ تاج المدارس ڈھکیہ چمن ضلع امروہہ کے مہتمم، مدرسہ قادرالعلوم مونڈھا ائمہ ضلع امروہہ کے صدر مجلس شوریٰ اور متعدد مدارس کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین رہے۔

جمعیۃ علماء ہند سے تعلق اور وابستگی

                آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراﷲ مرقدہٗ کے تلمیذ رشید تھے؛ اس لیے جمعیۃ علماء ہندسے محبت اور وابستگی اپنے استاذ سے محبت کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں راسخ تھی۔ پھر جب تدریسی زندگی میں قدم رکھا تو عملی طور سے بھی جمعیۃ علماء ہند سے اپنے آپ کو وابستہ رکھا۔ جمعیۃ علماء ہند کی ابتدائی ممبرسازی میں حصہ لینا جمعیۃ علماء کے جلسوں اور پروگراموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ شریک ہونا اور اس کی تجاویز و قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا، جمعیۃ علماء ہند کی چھوٹی اور بڑی میٹنگوں میں شرکت کرنا آپ کا معمول تھا۔ زندگی کے آخری سالوں میں بھی نقاہت اور پیرانہ سالی کے باوجود جمعیۃ علماء امروہہ، جمعیۃ علماء ضلع امروہہ کی میٹنگوں میں بھی پابندی سے شرکت فرماتے تھے۔ دنیا سے کوچ کرنے کے وقت آپ جمعیۃ علماء شہر امروہہ، جمعیۃ علماء ضلع امروہہ کے سرپرست؛ نیز جمعیۃعلماء صوبہ یو۔پی۔ اور جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے رکن رکین تھے۔ جمعیۃ علماء ہند سے آپ کی وابستگی کا دورانیہ ستر سال کے عرصہ کو محیط ہے۔

علالت اور وفات

                آپ کو رب ذوالجلال نے اچھی صحت سے نوازا تھا۔ سالہا سال تک جویا سے امروہہ آمدورفت پیدل رکھی۔ پیرانہ سالی کے زمانہ میں بھی زیادہ تر پیدل چلنا ہی پسند کرتے تھے۔ ریلوے برج سے جامع مسجد تک پیدل آنا جانا تو ہم نے بھی بارہا دیکھا ہے۔ چند سال پہلے آپ کا مرادآباد کے ڈی۔ایل۔نرسنگ ہوم میں آپریشن ہوا اور ایک ہی دن میں ڈاکٹر صاحبان کو چار آپریشن کرنے پڑے۔ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کے مہتمم مولانا سید طارق حسن صاحب مدظلہ عیادت کے لیے مرادآباد پہنچے تو ڈاکٹرصاحب آپ کے کمرہ میں آئے اور انھوں نے مہتمم صاحب سے فرمایا کہ حضرت کے سلسلہ میں جو رپورٹیں ہم نے کرائی تھیں ، ان کی روشنی میں مجھے آپریشن نہیں کرنا چاہیے تھا؛ مگر میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کا اﷲ تعالیٰ سے رشتہ بہت مضبوط اور طاقتور ہے؛ اس لیے اوپر والے پر بھروسہ کرکے آپریشن کر دیا اور ماشاء اﷲ آپریشن بہت کامیاب ہوا۔ اس گفتگو کے وقت آپ بستر علالت پر آرام فرما تھے۔ گفتگو نہیں کر سکتے تھے؛ لیکن سب بات سن رہے تھے پھر چند روز کے بعد ہسپتال سے گھر واپس آئے اور اس کے دوسرے دن ہی مدرسہ جانے کے لیے گھر سے پیدل چل پڑے۔ آپ کے فرزند مولانا محمد طارق صاحب نعمانی نے کہا کہ ابا کیا کررہے ہو تو فرمایا کہ مجھے چلنے دو اس میں مجھے راحت ہے۔ اگر میں پڑ گیا تو پڑا ہی رہ جاؤں گا۔ اس کے بعد برابر اپنی تدریسی ذمہ داریوں کو انجام دیتے رہے ۔ ادھر کرونا کے زمانہ میں آپ کی طبیعت زیادہ کمزور نظرآنے لگی اور رفتار و گفتار میں بھی نقاہت اور کمزوری محسوس ہونے لگی۔ کورونا کے بعد جب مدرسہ میں تدریسی سرگرمیاں شروع ہو گئیں تو اسباق بھی  موقوف ہوگئے؛ لیکن مدرسہ کی محبت میں مدرسہ آمد و رفت برقرار رکھی حتی کہ زیادہ علالت کے زمانہ میں بھی دوچار دن کے وقفہ سے مختصر وقت کے لیے مدرسہ ضرور تشریف لاتے تھے۔

                بالآخر قضاء الٰہی کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ وقت موعود آگیا۔ ۲۴؍ذی قعدہ ۱۴۴۳ھ بروز ہفتہ شام کے وقت آپ کے اوپر غشی طاری ہوگئی جب کوئی جاتا تھا تو بالکل خاموش رہتے، صرف سلام کا جواب دیتے  اور ڈیڑھ دو دن کی بیہوشی کے بعد مؤرخہ ۲۶؍ذی قعدہ ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۷؍جون ۲۰۲۲ء بروز پیر صبح نو بجے آپ کی روح سعید قفس عنصری سے پرواز کرکے مولائے حقیقی سے جاملی اور عالم فانی سے دارالقرار کی جانب رحلت فرما گئے اور آخرت کی ابدی نعمتوں اور راحتوں سے مالامال ہونے کے لیے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون۔ ان ﷲ مااعطی ولہ ما اخذ وکل عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب ان العین تدمع و ان القلب یحزن۔

جنازہ اور تدفین

                آپ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرح آناً فاناً نہ صرف پورے علاقہ میں پھیل گئی بلکہ دوردراز علاقوں میں بھی پہنچ گئی اور جوق درجوق، متعلقین و محبین، تلامذہ، اعزہ، اقرباء آخری دیدار کے لیے جویا آپ کے دولت کدہ پر پہنچنے لگے، غسل اور تکفین سے فراغت کے بعد اسی دن بعد نمازِ عصر عبدالرزاق ڈگری کالج سے متصل میدان میں آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند کلاں مولانا محمد عارف صاحب کی امامت میں ا دا کی گئی اور مقامی خاندانی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ میں دارالعلوم دیوبند، جمعیۃ علماء ہند کے وفود اور جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ کے طلبہ و اساتذہ و کارکنان کے علاوہ علی گڑھ، مرادآباد، سنبھل، حسن پور کلاں ، ڈھکہ، اوجھاری، ہاپوڑ،ٹانڈہ بادلی،  شہر امروہہ، نوگانواں اورقرب و جوار کے مسلمانوں نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی۔ اﷲتعالیٰ اعلیٰ علیین میں مقام رفیع عطا فرمائے۔ آمین

پسماندگان، اولادو احفاد

                آپ کے پسماندگان میں آپ کی نرینہ اور غیر نرینہ اولاد کے علاوہ پوتے، پوتیاں ، نواسے، نواسیاں ،  پڑپوتے، پڑنواسے، بھتیجے، بھتیجیاں اور ان کی اولاد و احفاد وغیرہ کئی سو افراد پر مشتمل خاندان، کنبہ اور قبیلہ ہے، اس کے علاوہ آپ کے تلامذہ، متعلقین، اعزہ و اقرباء بھی آپ کے پسماندگان میں شامل ہیں ۔

                آپ کو اﷲ تعالیٰ نے اولاد میں چار لڑکے مولانا محمد عارف، مولانا محمد طارق، مولانا محمد قاسم، مولانا عبدالقادر اور تین لڑکیاں عارفہ خاتون، رقیہ خاتون اور سمیہ خاتون عطا فرمائیں ۔

                 مولانا محمد عارف صاحب نے جامع مسجد، امروہہ سے فراغت کے بعد دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی۔ اس وقت مدرسہ سراج العلوم ہلالی سرائے سنبھل میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کی اولاد میں دو لڑکے قاری خلیل الرحمن، محمد یحییٰ اور دو لڑکیاں عظمیٰ نور اور حفصہ خاتون ماشاء اﷲ موجود ہیں اور تمام ہی اولاد ہنوز غیرشادی شدہ ہے۔

                مولانا محمد طارق نعمانی ماشاء اﷲ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ سے فارغ التحصیل ہیں اور دعوت و تبلیغ کے کام کو پوری دلچسپی اور مستعدی سے کرتے ہیں اور ساتھ میں اپنا کاروبار کرتے ہیں ۔ موصوف کی اولاد میں صرف چار لڑکے مولانا محمد واثق قاسمی، محمد فائق اور مفتی محمد شارق قاسمی اور سیف اﷲ خالد ماشاء اﷲ موجود ہیں ۔    اول الذکر دونوں صاحب زادے ماشاء اﷲ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں اور آخرالذکر دونوں لڑکے ابھی غیرشادی شدہ ہیں ۔

                مولانا محمدقاسم صاحب بھی ماشاء اﷲ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ سے فارغ التحصیل عالم فاضل ہیں ۔ مدرسہ قاسم العلوم جویا کا اہتمام آپ ہی کے دوش ناتواں پر ہے۔ آپ مدرسہ قاسم العلوم میں اہتمام کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور ساتھ میں اپنا ذاتی کاروبار بھی کرتے ہیں ۔ موصوف کی اولاد میں دو لڑکے مولانا محمد زکریا قاسمی اور محمد احمد ہیں ؛ نیز دو لڑکیاں عافیہ خاتون اور فائزہ خاتون ہیں ۔ مولانا محمد زکریا قاسمی ماشاء اﷲ دارلعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور اس وقت جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں شعبۂ انگریزی ادب میں مدرس ہیں ۔ موصوف کی اولادمیں مولانا محمد زکریا اور دونوں لڑکیاں شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں اور محمد احمد ہنوز غیرشادی شدہ ہیں ۔

                چوتھے فرزند مولانا عبدالقادر صاحب بھی امروہہ جامع مسجد سے فارغ التحصیل ہیں ۔ جویا میں کھجور والی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور مسجد سے متعلق مکتب میں اطفال کو پڑھاتے ہیں ۔ موصوف کی اولاد میں تین لڑکے محمد عفان، محمد حسان، محمد حمزہ اور دو لڑکیاں عفانہ، حسانہ ماشاء اﷲ موجود ہیں ۔ ایک لڑکی شادی شدہ ہے اور باقی اولاد غیر شادی شدہ ہیں ۔

                غیرنرینہ اولاد میں بڑی لڑکی عارفہ خاتون آپ کے بھتیجے منشی بلیغ الرحمن کے حبالۂ عقد میں ہیں ۔ ان کی اولاد میں مفتی عبیدالرحمن قاسمی، قاری سعید الرحمن اور پانچ لڑکیاں صفیہ رحمن، ذکیہ رحمن، عطیہ رحمن، رضیہ رحمن اور عائشہ رحمن ہیں ۔ مذکورہ اولاد میں اکثر شادی شدہ ہیں ۔ مولانا مفتی عبیدالرحمن قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل اور سندیافتہ ہیں ۔ اس وقت مدرسۃالبنات میں پڑھاتے ہیں ۔ قاری سعیدالرحمن جامع مسجد امروہہ کے شعبۂ تجوید سے فارغ ہیں ۔

                دوسری لڑکی رقیہ خاتون حافظ شجرالاسلام صاحب ساکن جوئی سے منسوب ہیں ۔ ان کی اولاد میں صرف پانچ لڑکیاں زینب بشری، عافیہ خاتون، محسنہ خاتون، امامہ خاتون اور زہدی خاتون ہیں جن میں سے غالباً بڑی دو لڑکیاں شادی شدہ ہیں ۔

                سب سے چھوٹی لڑکی سمیہ خاتون جناب مولانا قاری منصور احمد صاحب ساکن جویا کے حبالۂ عقد میں ہیں ۔ مولانا منصور احمد صاحب جامع مسجد امروہہ میں شعبۂ عربی کے مدرس ہیں ۔ آپ کے سفر و حضر میں مولانامنصور احمد صاحب ہی ساتھ رہتے تھے۔ ان کی اولاد میں دو لڑکے حمادالغفار اور عمار احمد اور ایک لڑکی فقیہہ خاتون ماشاء اﷲ موجود ہیں ۔ حماد سلمہ ماشاء اﷲ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ کے شعبۂ حفظ القرآن میں زیر تعلیم ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ سبھی پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور صلاح و فلاح دارین کی دولت عظمیٰ سے مالامال فرمائے۔

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12، جلد:106‏، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء

Related Posts