۳۰؍اکتوبر ۲۰۲۲ء بروزیک شنبہ،رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ کا کل ہند اجلاس عام،حضرت مولانا مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم، مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کی زیر صدارت، جامع الرشید دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہوا، جس میں پورے ملک سے چھ ہزار سے زائد حضرات علماء کرام ومندوبین مدارس اسلامیہ نے شرکت فرمائی۔
اجلاس کی صدارت حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی، زید مجدہم مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ نے فرمائی اور نظامت کے فرائض جناب مولانا شوکت علی قاسمی بستوی ،استاذحدیث دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ نے انجام دئیے۔اجلاس کا آغاز جناب قاری عبدالرئوف صاحب ،استاذ تجوید دارالعلوم دیوبند کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا، محمد ذیشان و محمد ذکوان سلمہ نے ترانۂ دارالعلوم پیش کیا۔
حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم نے اپنا وقیع اور قیمتی خطبہ صدارت پیش فرمایا، خطبۂ صدارت میں حضرت صدر اجلاس مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی ،مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ زید مجدہم نے رابطۂ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کے کل ہند اجلاس میں ہندوستان کے گوشے گوشے سے تشریف لائے ہوئے اربابِ مدارس، علمائے دین اور دانشورانِ ملت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ:
’’اس پر مسرت موقع پر بندہ اپنی اور خدام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے آپ حضرات کا صمیم قلب سے خیر مقدم کرتاہے اور دل کی گہرائیوں سے جذباتِ تشکر پیش کرتا ہے کہ آپ حضرات نے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم کی مجلس عمومی کے اس اہم اجلاس میں شرکت کے لیے اپنا قیمتی وقت فارغ فرمایااور زحمت سفر برداشت کرکے دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔ بندہ اس موقع پر معذرت خواہ بھی ہے کہ ہم خدام دارالعلوم کوشش کے باوجود آپ کے شایان شان استقبال اور ضیافت کا حق نہیں ادا کرسکے۔ہمیں یقین ہے کہ آپ اس بارے میں ہوئی کوتاہی کو معاف فرماکر شکرگزار فرمائیں گے۔
مدارس اسلامیہ کی خدمات سے متعلق ارشاد فرمایاکہ: ان مدارس اسلامیہ کی کوکھ سے قابل قدر اورلائق فخر فرزندوں اور سپوتوں نے جنم لیا اور ایسے نفوس قدسیہ تیار ہوئے جنھوں نے بے سروسامانی اور حالات کی تمام تر نامساعدت اور سنگینی کے باوجود ایسی زریں خدمات انجام دیں جو تاریخ کا روشن باب ہیں ۔ یہ حضرات علوم اسلامیہ میں رسوخ ومہارت، مسلک حق کے بارے میں تصلب اور وسعت نظر کے ساتھ مومنانہ فراست، الہامی بصیرت، خلوص وللہیت، تواضع و فروتنی ،اتباع سنت اورملک و ملت کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔
صدرمحترم نے رابطہ مدارس کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی، اور نظام تعلیم وتربیت ، باہمی ربط واتحاد کے فروغ، مدارس کے داخلی نظام، اصلاح معاشرہ، مدارس اسلامیہ میں عصری تعلیم کے انتظام وغیرہ موضوعات پر مشتمل اہم ہدایات سے مہمانوں کو روشناس کرایا: حضرت والا نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا: مدارس اسلامیہ کے داخلی نظام کے استحکام کے لیے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ موجودہ عالمی یا ملکی حالات کے نتیجے میں کسی قسم کی منفی سوچ یا مایوسی کاشکار ہونے سے پرہیز کیا جائے اور مسلمانوں کو بھی مثبت انداز فکرکی تلقین کی جائے، برادرانِ وطن کے ساتھ رواداری اور پُرامن بقائے باہم کے اصول پر عمل کیا جائے، مدرسے کی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر مسلم بھائیوں کومناسب مواقع پر مدعوکرکے مدارس سے براہِ راست واقفیت کا موقع فراہم کیا جائے، مسلمانوں کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور اسلامی اخلاق کا معاملہ کرنے کی تلقین کی جائے، ساتھ ہی ساتھ تحفظ کے نقطۂ نظر سے واردین وصادرین پر نظر رکھی جائے، کسی مشتبہ شخص کو مدرسے میں آمدورفت اور قیام کی اجازت نہ دی جائے۔
اسی کے ساتھ مساجد اور مدارسِ اسلامیہ کے کاغذات کو درست رکھا جائے، اگر کاغذات میں کوئی کمی اور نقص ہے تو پہلی فرصت میں انھیں درست کرایا جائے،اگر صوبائی حکومتوں کی طرف سے مدارس کے سلسلہ میں سروے یاتفتیش کی کارروائی کا حکم ہو توارباب مدارس کسی خوف یا ذہنی انتشار کا شکار نہ ہوں ، نہ کسی جذباتیت کا مظاہرہ کریں ، نہ میڈیا کے لوگوں سے کوئی منفی بات کریں ؛البتہ جو سروے ٹیم معلومات حاصل کرنے آئے تو پہلے اس کے بارے میں یہ تحقیق کرلیں کہ کہیں یہ کوئی فرضی ٹیم تو نہیں ،اگر واقعی حکومت کے افراد اور کارندے آئیں تبھی ان کو معلومات دیں ، بغیر مطالبے کے کوئی دستاویز سپرد نہ کریں ، معلومات صحیح اور درست دیں ، مدارس کی انتظامیہ کے افراد،حضرات اساتذہ اور طلبہ سبھی کا اندراج آدھار کارڈیا ووٹرآئی ڈی کے مطابق کریں اوربغیر آدھار کارڈ کے کسی طالب علم کا داخلہ نہ کریں ۔
انھوں نے مزید فرمایاکہ مالیات کا نظام حکومت کے اصول وضوابط کے مطابق چست درست رکھیں ، کسی آڈیٹر (C.A)کے ذریعہ حسابات کی سالانہ جانچ کراکر اس کی رپورٹ محفوظ رکھیں اوراس سلسلے میں کوئی خامی باقی نہ رہنے دیں ۔ مدرسے کی زمین، جائداد کے ملکیتی کاغذات کو درست رکھیں ، مدرسہ کو چلانے والی سوسائٹی یا ٹرسٹ اور مدرسہ کی جائداد کا رجسٹریشن قانونی تقاضوں کے مطابق کرالیں ۔مدرسہ میں طلبہ کے لیے،صحت مند ماحول میں صاف ستھری رہائش اور کھانے کا بندوبست رکھیں ، غسل خانوں اور استنجاخانوں کو خاص طور پر صاف رکھاجائے۔ ان تمام امور کے ساتھ ضروری ہے کہ پہلے سے زیادہ رجوع الی اللہ اور دعائوں کا بھی اہتمام کیا جائے۔
موصوف محترم مجلس عمومی رابطہ مدارس کے کل ہند اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش فرمارہے تھے۔
وقیع خطبۂ صدارت کے بعد رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کے ناظم عمومی جناب مولانا شوکت علی قاسمی بستوی نے سکریٹری رپورٹ پیش کی۔رپوٹ میں انہوں نے کہا کہ رابطہ مدارس اسلامیہ ایک ملک گیراور مؤثر تنظیم ہے جس کے بنیاد ی مقاصد، مدارس دینیہ کے نظام تعلیم و تربیت کو فعال بنانا اور در پیش مسائل و مشکلات کے ازالے کی کاوش کے ساتھ ساتھ مدارس کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور سازشوں پر نظر رکھنا اور حتی الوسع ان کا سدباب کرنا ہے،نیزمدارس اسلامیہ عربیہ کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا، مدارس اسلامیہ کی بقا وترقی کے لیے صحیح اور مؤثر ذرائع استعمال کرنا،جہاں ضرورت ہو وہاں مدارس ومکاتب کی جد وجہد کرنااور مسلم معاشرے کی اصلاح اور شعائر اسلام کی حفاظت کرناہے۔ انھوں نے گذشتہ ۲۸؍سالوں میں دارالعلوم دیوبند میں منعقد رابطہ مدارس اسلامیہ کے اجتماعات کی تجاویز اور پیش رفت کا جائزہ بھی پیش کیا،نیز مرکزی رابطۂ مدارس اور ملک کے مختلف صوبوں میں سرگرم صوبائی رابطۂ مدارس کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ جناب مولانا شوکت علی صاحب قاسمی ناظم عمومی رابطہ کی رپورٹ میں رابطے کی شرائط ،ارتباط کا طریقۂ کار،مجلس عمومی وعاملہ کے اجلاس، اجتماعی امتحان کا طریقۂ کار وغیرہ کی وضاحت فرمائی۔ مجلس عاملہ رابطہ کے ارکان ، مدعووین خصوصی اور صوبائی رابطے کی صدور حضرات کے اسماء بھی پیش کیے گئے۔دستور العمل میں ترمیم کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔
دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زید مجدہم صدر جمعیۃ علماء ہند نے اپنے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ رابطۂ مدارس اسلامیہ کا یہ اجلاس درحقیقت دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر چلنے والے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران علماء کرام کا نمائندہ اجلاس ہے۔
حضرت مولانا نے دارالعلوم دیوبند کے قیام اور اس کے پس منظر پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ دارالعلوم کا بنیادی مقصد صرف تعلیم ہی نہیں ؛ بلکہ آزادی وطن بھی تھا، اسلام غلامی کو برداشت نہیں کرتا، آزادی وطن کے بعد جمہوری ملک میں ان مدارس نے پارٹی اور ووٹ کی سیاست سے کنارہ کش ہوکر تعلیمی ،تعمیری اوراصلاحی خدمات کی راہ اپنے لیے منتخب کی، پارلیمانی سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا نے فرمایاکہ ماضی کی شان دار خدمات کے باوجود موجودہ حالات میں آج ہمیں ہرقدم پر رکاوٹیں پیش آرہی ہیں ، مدارس کو مشکلات کا سامنا ہے،دنیا کی ہر قوم کو مذہبی افراد درکار ہیں ، اس ملک میں اپنے مذہب سے محبت اور اس کی حفاظت ہر شہری کا حق ہے۔ مدارس کے لیے حکومتی امداد اور مدرسہ بورڈ سے الحاق کی بابت فرمایا کہ مدارس اسلامیہ نے کبھی سرکاری امداد نہیں لی، مدارس اسلامیہ کو سرکاری امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے،اور نہ ہی مدارس کو مدرسہ بوڈر سے الحاق کی ضرورت ہے۔
تعلیم وتربیت کے نظام کو مستحکم کرنے اور نئے فضلاء کی تدریب اور اس کے لیے مضبوط نظام کے قیام پرزوردیا اورتعلیمی معیار کی رکاوٹوں کو دور کرنے اور معیار تعلیم میں بہتر ی لانے سے متعلق اہم مشورے بھی دیے۔
حضرت والانے مدارس اسلامیہ میں ابتدائی سالوں میں ضروری عصری علوم کی شمولیت کا ذکر بھی کیا، اسی کے ساتھ دارالعلوم دیوبنداور دیگر مدارس اسلامیہ کے شان دار ماضی کا تذکرہ بھی کیا اور تاکید کی کہ اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظامِ تعلیم کو مضبوط کیا جائے، رابطۂ مدارس کو مستحکم کیا جائے،انھوں نے معاشرے کی اصلاح اور فرق باطلہ کے تعاقب پربھی زوردیا۔ حضرت مولانا نے براداران وطن سے قربت کی اہمیت وافادیت کا بھی ذکر کیا۔
حضرت مولانا نے مزید فرمایا کہ اسلام ،مسلمان اور پوری اقلیت جس طرح کے مسائل میں گھری ہوئی ہے اس کے اندر رابطہ کا ایہ اجلاس پہلے کے مقابلے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اسلام اور مسلمانوں سے متعلق برادران وطن میں بہت سی غلط فہمیاں پھیل گئیں ہیں ،جس کی وجہ سے برادران وطن اسلام ،مسلمان اور مدارس اسلامیہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم برادران وطن کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ان سے ربط بڑھائیں ۔مختلف مواقع پربرادران وطن کواپنے مدرسوں میں بلائیں اور ان کے سامنے مدارس کا تعارف کرائیں ، اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے روشناس کرائیں ۔ہمارے اکابر واسلاف کا بھی یہی طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ برادران وطن کے ساتھ ربط قائم رکھتے تھے۔
مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو توجہ دلاتے ہوئے حضرت نے فرمایا کہ آج کی صورتِ حال کے اندر مدارس کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا ہے، آپ حضرات پوری قوت کے ساتھ مدارس کو صحیح نہج پر لے کرچلنے کی کوشش کریں ، ہر مدرسے کو چاق وچوبند رہنا چاہیے۔
حضرت مولانا مدنی زیدمجدہم نے کہا کہ مدارس میں تعلیمی معیار کم ہوتا جارہا ہے، اور یہ اس نظام کے لیے اچھی بات نہیں ہے۔ مدارس کی کمزوریوں کی طرف ذمہ داران مدارس کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا کہ اپنی کمزوریوں کودور کرنے کی کوشش کریں ، مدرسے کی آمدوصرف کا مکمل حساب حکومت کے ضابطہ کے مطابق رکھیں ، قانونی کمزوریوں کو بھی دور کریں ۔فرق باطلہ کے رد اور ملک میں بڑھتے ارتدادی فتنے کی طرف بھی توجہ کی بھرپورضرورت ہے۔
حضرت صدرالمدرسین صاحب زیدمجدہم کے کلیدی خطاب کے بعد مجلس عمومی کے اجلاس میں نظام تعلیم وتربیت ، رابطہ مدارس کی افادیت اور صوبائی شاخوں کی فعالیت، دینی مکاتب کے قیام اور مدارس میں عصری علوم کے انتظام سے متعلق تجاویزناظم اجلاس نے پیش کیں ،دیگر تجاویز جناب مولانا محمد راشد صاحب اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور جناب مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری استاذ دارالعلوم نے پیش کیں ۔اجلاس میں انھیں اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔
ایک روز قبل ۲۹؍ اکتوبرکو بعد نماز مغرب مہمان خانہ دارالعلوم میں حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زید مجدہم، مہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہ مدارس اسلامیہ کی صدارت میں مجلس عاملہ کا اہم اجلاس بھی ہوا،جس میں اہم فیصلے لیے گئے اور حضرت صدر المدرسین دامت برکاتہم نے اہم خطاب بھی فرمایا۔
مجلس عاملہ ومجلس عمومی میں اظہار خیال،تائید اور شرکت کرنے والوں میں حضرات ارکان شوریٰ حضرات اساتذۂ دارالعلوم اور اہم علماء ومندوبین کرام ومدعووین خصوصی حضرات میں درج ذیل حضرات کے اسمائے گرامی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں : حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب زیدمجدہم صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیۃ علماء ہند،حضرت مولانا قمرالدین صاحب زید مجدہم، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی زیدمجدہم،حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب، حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی ، حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب میر قاسمی ، حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب کھیروی ، حضرت مولانا انوارالرحمن صاحب بجنوری ، حضرت مولانا محمد عاقل صاحب اراکین شوریٰ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدارسی زید مجدہم نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانامجیب اللہ صاحب گونڈوی ،حضرت مولانا مفتی محمد یوسف صاحب ،حضرت مولانا محمد نسیم صاحب ،حضرت مولانا شوکت علی قاسمی بستوی صاحب، حضرت مولانا حسین احمد صاحب ہریدواری اساتذۂ دارالعلوم،حضرت مولانا محمد شاہد صاحب مظاہری، جناب مولانا عبدالہادی صاحب پرتاپ گڈھ، جناب مولاناسید اشہدرشیدی صاحب مرادآباد، جناب مولانا قاری شوکت علی صاحب ویٹ،جناب مولانا صدیق اللہ صاحب مغربی بنگال، جناب مولانا مفتی اشفاق احمد صاحب سرائمیر،جناب مفتی عبدالسلام صاحب کولکاتہ،جناب مولانا ارشد صاحب پوکرن، جناب مولانا احمد دیولوی صاحب گجرات، جناب مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب پلمنیر، جناب مولانا عبدالقوی صاحب حیدرآباد، جناب مولانا ریاست علی صاحب (استاذ دارالعلوم) اتراکھنڈ ،جناب مولانا عبدالقادر صاحب قاسمی آسام،جناب مولانا عقیل الرحمن صاحب آسام، جناب مولانا زین العابدین صاحب بنگلور،جناب مولانا شمس الدین بجلی صاحب بنگلور، جناب مولانا علی حسن صاحب مظاہری یمنانگر، جناب مولانا محمد فاروق صاحب اڈیشہ، جناب مولانا نذیر احمد صاحب کشمیر،جناب مولانا عبدالمجید صاحب چنئی، جناب مولانا ابوالحسن صاحب چنئی، جناب مولانا عبدالکریم صاحب تلنگانہ،جناب مولانا مفتی سراج احمد صاحب منی پور، جناب مولانا دائود ظفر صاحب دہلی، جناب مولانا محمد ابراہیم صاحب کیرالا، جناب مولانامحمد ممتاز صاحب شملہ، جناب مولانا محمد احمد خاں صاحب مدھیہ پردیش، جناب مولانا ضیاء اللہ صاحب مدھیہ پردیش، جناب مولانا مرغوب الرحمن پٹنہ، جناب مولانا عبدالقدیم صاحب ہاپوڑ، جناب مولانا محمد اسحاق صاحب دھنباد جھارکھنڈ، جناب مولانا شوکت علی صاحب جھن جھنوں ، جناب مولانا محمد خالد صاحب نوح،جناب مولانا خورشید صاحب میرٹھ، جناب مولانا مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی کان پور، جناب حافظ عبدالقدوس ہادی صاحب کان پور،جناب مولانا عبدالمالک صاحب مغیثی، جناب مولانا مفتی محمد خلیل قاسمی مالیر کوٹلہ، جناب مولانا محمد صاحب رانچی، جناب مولانا مفتی محمد اقبال صاحب وانیم باڑی، جناب مولانا عنایت اللہ صاحب جموں جناب مولانا محمد محسن صاحب مہاراشٹر۔
مجلس عاملہ اور مجلس عمومی میں نظامت کے فرائض جناب مولانا شوکت علی قاسمی بستوی ناظم عمومی رابطہ نے انجام دئے۔اجلاس کا آغاز صبح ۹؍بجے ہوا اور دوپہر ڈیڑھ بجے حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم کی رقت آمیز دعا پر اختتام عمل میں آیا، دعا سے قبل حضرت والا صدر اجلاس دامت برکاتہم نے مہمانان ومندوبین کرام کے ایک بار پھر اظہار تشکر فرمایا، اسی طرح انتظامی کمیٹیوں کے کنوینر،ارکان، کارکنان اور سرکاری انتظامیہ اور میڈیا کے افراد کا بھی شکریہ ادا کیا۔
دارالعلوم ، شمارہ : 11-12، جلد:106، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء