منظور کردہ اجلاس مجلس عمومی  رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دار العلوم دیوبند

منعقدہ: ۳؍ربیع الثانی۱۴۴۴ھ مطابق۳۰؍اکتوبر۲۰۲۲ء بروز یک شنبہ

بہ مقام:  جامع رشید  دار العلوم دیوبند

=========================

تجویز {۱}   مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کی عمدگی پرتوجہ دینے کی ضرورت

                رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس تمام ہی مدارس کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کو بہتر بنانا حددرجہ ضروری ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ عملی اقدامات کرنا نہ صرف وقت کا تقاضا ہے بلکہ مدارس کی بقا کے لیے ناگزیر ہے، اگر خدانخواستہ نظامِ تعلیم وتربیت میں انحطاط کاسلسلہ جاری رہا تو مدارس اپنا اعتبار باقی نہیں رکھ پائیں گے اور یہ مدرسوں کا ہی نہیں پوری ملت کا نقصان ہوگا۔

                نظامِ تعلیم وتربیت کی عمدگی کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ کچھ سخت تربیتی قوانین نافذ کردیے جائیں اور اُن پرعمل درآمد کرایا جائے؛ بلکہ اس کے لیے دنیا کے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں، انٹر نیٹ اور موبائل کے ذریعے آنے والی خرابیوں اور بچوں کی نفسیات کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔

                اس کے لیے چند امورپرتوجہ بہت ضروری ہے:

(۱)           طلبہ کے قیام وطعام کا حتی الامکان بہتر انتظام کیاجائے، جس سے ان کی صحت اورنفسیات پرخوشگوار اثرات مرتب ہوں۔

(۲)           دارالاقامہ کو محفوظ بنانے کے ساتھ نگرانی کانظام فعال ومستحکم کیا جائے، اور دارالاقامہ کے طلبہ کے باہر جانے کے اوقات متعین کیے جائیں، مقامی بچوں یا غیر اقامتی مدرسوں کے طلبہ کو بھی آزاد نہ رکھاجائے؛ بلکہ ان کے سرپرستوںکے تعاون سے مناسب نگرانی کا نظام بنایاجائے۔

(۳)          نگرانی اورتربیت کے نظام میں حکمت کو ملحوظ رکھاجائے، سخت تادیب کے روایتی طریقے کو خیر باد کہہ دیا جائے اور ذہن سازی پرتوجہ دی جائے۔

(۴)          تعلیم کی عمدگی کے لیے، اعلیٰ استعداد کے حامل اساتذہ کا تقرر کیاجائے اور اساتذہ کی معاشی فراغت کو بھی اہمیت دی جائے؛ تاکہ وہ یک سوئی اور امنگ کے ساتھ خدمت انجام دیں۔

(۵)          مدرسین کی تدریسی تربیت اورتدریب کا انتظام کیا جائے اور اس کے لیے ہر علاقے کے مرکزی مدارس میں تربیتی کیمپ منعقدکیے جائیں۔

(۶)           نحو وصرف کی تعلیم اور تمرین عربی پر خاص توجہ دی جائے، ابتدائی سالوں میں استعداد سازی پر بھرپور محنت کی جائے اور سال سوم تک پابندی سے ماہانہ امتحان کا نظم قائم کیا جائے۔

(۷)          جن مدارس میں دارالعلوم دیوبند کا مکمل نصاب جاری نہیں ہوسکا ہے، وہاں یہ نصاب جاری کیا جائے اور تعلیمی سال کے متعینہ اوقات میں اعتدال کے ساتھ مقررہ نصاب کی تکمیل کو لازم قرار دے کر اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے۔

(۸)          تکرار ومطالعہ کی نگرانی باقاعدہ نظام کے تحت ہو اور تمام امتحانات (داخلہ، درمیانی اور سالانہ) کے نظام میں باقاعدگی اور سنجیدگی عمل میں لائی جائے۔ امتحان کے نتائج کا اعلان اور اچھے نمبرات پرحوصلہ افزائی کا اہتمام کیا جائے۔

(۹)           مدرسہ کے ماحول میں نمازوں کی پابندی پوری ذمہ داری سے کرائی جائے اورطلبہ کو صفات حمیدہ سے آراستہ کرنے کے لیے ہرممکن کوشش عمل میں لائی جائے اور خارج اوقات میں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔

تجویز  {۲}   مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل کاجائزہ اور ان کا حل

                رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، موقرذمہ داران مدارس کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ موجودہ دو رمیں مدارس کو درپیش مسائل کا گہرائی سے جائزہ لے کر اُن کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں عمل میں لانا نہایت ضروری ہے، ان مسائل کے پیدا ہونے میں بلاشبہ ہماری کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی اور ملکی حالات اور مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا بڑا دخل ہے۔ پہلے تو مسلمانوں اور ان کے علماء ومدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیاگیا اور پھر سرے سے اسلامی تعلیمات کو امن مخالف قرار دے دیا گیا، اور چوں کہ مدارس، اسلامی تعلیمات کے علم بردار ہیں؛ اس لیے ان کو امن واخوت کا مخالف ثابت کرنے کی ناروا کوششیں ہوئیں، ملکی سطح پربھی اسی پروپیگنڈے کے بطن سے پیداہونے والی ذہنیت نے کام کیا اورا س کے نتیجے میں مدارس کے لیے متعدد داخلی وخارجی مشکلات ومسائل کھڑے ہوئے۔

                ان حالات میں جہاں غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے مسلسل اور منظم کام کی ضرورت ہے وہیں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا منصفانہ جائزہ لے کران کا تدارک بھی حد درجہ ضروری ہے۔ اس کے لیے چند امو رقابل توجہ ہیں:

(۱)           تحریر وتقریر اور سوشل میڈیا کے جائز ذرائع سے مدد لے کر اسلام اور مسلمانوں اور مدارس اسلامیہ کے خلاف جاری منفی مہم اور پروپیگنڈے کا توڑ کرنا اور مدارس کے امن وانصاف پرمبنی کردار کو اجاگر کرنا۔

(۲)           تمام قانونی کمزوریوں کو دور کرنے پرتوجہ دینا، خواہ ان کا تعلق زمین جائداد کے معاملات سے ہو یادیگر انتظامی امور سے۔

(۳)          مدارس میں شورائی نظام نافذکرنا اور روز مرہ کے کاموں میں بھی مشاورت کے عمل کو زندہ کرنا۔

(۴)          حتی الامکان عملہ اور طلبہ کو شرعی وانتظامی حدود کے تحت مطمئن رکھنا اور غیر مطمئن عناصر کو دوسروں کا آلۂ کار بننے سے ممکنہ حدتک بچانا۔

(۵)          کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے ہوئے تمام شرعی وقانونی پہلوؤں پرنظر رکھنا اور اس مقصد کے لیے مفتیان کرام اور قانونی ماہرین کی مشاورت کا باضابطہ انتظام کرنا۔

(۶)           خوداپنی ملت کے جو عناصر مدارس سے دوری یا بد گمانی کا شکار ہیں ان کی خیر خواہی کے لیے کام کرنا اوران کی بدگمانی دورکرنا۔

(۷)          اپنے سابق طلبہ یافضلاء کو اپنے سے مربوط رکھنا اوران کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا، اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی صورتیں پیدا کرنا اور ان کے معاملات ومسائل میں ان کی مدد کرنا۔

تجویز {۳}   رابطۂ مدارس کی افادیت اور صوبائی شاخوں کی فعالیت

                رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، اپنے شرکاء وارکان گرامی کو اس بات پر متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ رابطہ مدارس کے نظام کو پہلے سے زیادہ مفید وفعال بنانا وقت کی ضرورت بھی ہے اور مدارس اسلامیہ کے دل کی آوازبھی؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں کسی نہ کسی درجے میں ہم سبھی ذمہ دار ہیں، رابطہ کی فعالیت کے لیے ضروری ہے کہ رابطہ کی تجاویز پر عمل کیا جائے اور یہ ذمہ داری ہر رُکن پر عائد ہوتی ہے، آپ اگر شروع سے اب تک رابطہ کی مجالس میں منظور ہونے والی تجاویز اور رابطہ کے مرکزی دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے مشوروں پرسنجیدگی سے نظر ڈالیں تو اندازہ ہوجائے گاکہ ان میں ضرورت کی تمام باتیں موجود ہیںجن پر عمل کیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ مدارس کا نظام زیادہ مستحکم اور مفید ہوجاتا اور اُن سے اچھے افراد کی تیاری میں اضافہ ہوجاتا؛ بلکہ مدارس کو پیش آنے واے بعض مسائل سے بھی چھٹکارا مل جاتا؛ مگر یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ اب تک نصف سے زائد تجاویز کو اکثر مدارس نے درخورِاعتناء نہیں سمجھاہے،یہ تسلیم ہے کہ بعض تجاویز پر عمل نہ ہونے میں کچھ مجبوریاں آڑے آتی ہوںگی؛لیکن زیادہ تر دخل توجہ نہ ہونے کا رہا ہے؛ اس لیے تمام مدارس سے یہ اجلاس اپیل کرتا ہے کہ:

(۱)           تمام رُکن مدارس اور صوبائی وعلاقائی شاخیں رابطہ کے مرکزی دفترسے جاری ہونے والی تمام تجاویز اور مشوروں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔

(۲)           رکن مدارس اپنے صوبے کی شاخ اور اس کے ذمہ داروں سے رابطہ رکھیں اور صوبائی نظم کے تحت جاری اجتماعی امتحان میں اپنے طلبہ کو شریک کریں، اس سلسلے میں عموماً صوبائی ذمہ داران کو رُکن مدارس سے عدم تعاون کی شکایت ہے، اس پر توجہ دی جائے، امید ہے کہ اس سے معیار تعلیم بہتر بنانے میں مدد ملے گی، اب تک جن صوبوں میںاجتماعی امتحان کا نظم شروع نہیں ہوسکا ہے، وہ بھی توجہ فرمائیں اور صوبائی مجلس عاملہ سے مشورہ کرکے اپنے صوبے یا زون میں رابطے کے تحت اجتماعی امتحان کا نظم قائم کرنے کی سعی فرمائیں۔

(۳)          صوبائی ذمہ داران، تمام معیار پوراکرنے والے مدارس کو ممبر بنانے کی کوشش کریں اور تصدیق وغیرہ میں مدارس کے ساتھ بلاامتیاز تعاون کا طریقہ اپنائیں۔

(۴)          رابطہ مدارس اسلامیہ کے منظور کردہ نظامِ تعلیم وتربیت اور ضابطۂ اخلاق کو باقاعدہ نافذ کریں۔

(۵)          ضرورت کے مواقع پر مدارس قائم کرنا، رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے مقاصد میں شامل ہے؛ اس لیے ہرعلاقہ میں ضرورت کا جائزہ لے کر مدارس کے قیام کی مساعی جاری رکھیں؛ لیکن اس بات پر بھی توجہ مرکوز رکھیں کہ اس معاملہ میں علاقہ کی ضرورت ہی کو معیار بنایا جائے،دیگر محرکات کی بنا پر مدارس قائم کرنے سے احتیاط برتی جائے۔

تجویز {۴}   فرقِ باطلہ کا تعاقب

                مدارسِ اِسلامیہ کے قیام کا ایک اہم مقصد دین برحق کی اِشاعت اور عقائدِباطلہ اور فکری انحرافات سے اُمت کو محفوظ رکھنا ہے؛ چناںچہ دارالعلوم دیوبند اور اُس کے فیض یافتگان نے روز اول سے ترجیحی طور پر اِس ذمہ داری کو انجام دینے کی کوششیں کی ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔

                دارالعلوم دیوبند میں فتنۂ قادیانیت کے منظم تعاقب کے لیے ’’کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کا نظام قائم ہے، جس کی شاخیں ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ نیز فرقِ باطلہ کی تردید کے لیے تکمیلات کے طلبہ کے لیے ہفتہ واری محاضرات کا نظام بھی بخوبی چل رہا ہے۔

                لیکن باخبر حضرات واقف ہیں کہ آنے والے ہر دن نت نئے فتنے سر اُٹھارہے ہیں، خاص طور پر گذشتہ کئی سالوں سے ملک کے مختلف حصوں میں ’’شکیلیت‘‘ کا فتنہ سراُٹھارہا ہے، اور اُس سے ناواقف عوام؛ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ نوجوان زیادہ متأثر ہورہے ہیں۔

                اِسی طرح پسماندہ علاقوں میں ’’مرزائی‘‘ اور ’’قادیانی‘‘ مشنریاں بھی سرگرم ہیں۔

                ایسے ماحول میں اِس بات کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے کہ فضلاء مدارس اِسلام کے دفاع کے لیے علمی اور عملی طور پر تیار اور ہوشیار رہیں۔

                بریں بنا رابطہ مدارسِ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اِجلاس مربوط مدارسِ اسلامیہ کو متوجہ کرتا ہے کہ:

                الف :-  اپنے اَساتذہ کو فرقِ باطلہ سے مقابلے کے لیے تیار کرنے کی فکر کریں، اور اپنے اِرد گرد جہاں بھی کسی فتنے کا اثر محسوس ہو، وہاں تیار شدہ اَفراد سے کام لیں۔

                ب :-  ہر مدرسہ کے کتب خانے میں فرقِ باطلہ کی تردید سے متعلق منتخب اور اہم کتابیں اور لٹریچر موجود رہنا چاہئے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت اُن سے فائدہ اُٹھایا جاسکے۔

                ج :-  بڑے عربی مدارس میں دارالعلوم کے طرز پر ’’محاضراتِ علمیہ‘‘ کا نظام قائم کریں۔

                د :-  متأثرہ علاقوں میں حسبِ ضرورت علماء اور اَئمہ کے لیے تربیتی کیمپ کا اہتمام کیا جائے۔

                ہ :-  اسکول اور کالجز میں پڑھنے والے طلبہ میں ’’ردقادیانیت وشکیلیت‘‘ کے پروگرام رکھے جائیں اور اُنھیں اِسلام کے بنیادی عقائد؛بالخصوص ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘، ’’ظہور مہدی‘‘ اور ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ سے آگاہ کیا جائے۔

                و :-  علاقہ کی مساجد میں کسی بھی نماز کے بعد ’’درسِ قرآنِ کریم‘‘ کا سلسلہ جاری کیا جائے، جو عوام کی اِصلاح وتربیت کے لیے نہایت مؤثر ثابت ہوا ہے۔

                ز :-  فرقِ باطلہ کی زہرناکی سے واقف کرانے کے لیے مقامی آسان زبان میں مختصر لٹریچر شائع کرکے تقسیم کیا جائے۔ نیز سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی حتی الامکان غلط فہمیوں کے اِزالے کی کوشش کی جائے۔

تجویز {۵}   دینی مکاتب کے قیام پر زور

                یہ بات کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں ہے کہ آنے والی نسلوں میں دین کے تحفظ کا مدار دینی تعلیم کی بقا پر ہے۔ اور تاریخ اور موجودہ زمانے کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ دنیا کے جن علاقوں میںدینی تعلیم کا نظام جتنا مضبوط ہے، وہاں مسلم معاشرے میں اُتنی ہی دین سے وابستگی پائی جاتی ہے، اور جہاں دینی تعلیم سے غفلت ہے وہاں بددینی عام ہے۔

                بریں بنا مجلس عمومی رابطہ مدارسِ اسلامیہ عربیہ کا یہ کل ہند اجلاس مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ دار حضرات کو اِس طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ اپنے زیراثر علاقوں میں زیادہ سے زیادہ مکاتب قائم کرنے کی فکر کریں؛ کیوںکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جن ناخواندہ اور پس ماندہ علاقوں میں دینی تعلیم کا نظم نہیں ہے، وہاں جہالت کا فائدہ اُٹھاکر باطل فرقے مثلاً: قادیانیت، عیسائیت اور دیگر باطل مذاہب سرگرم ہوجاتے ہیں، اور مسلمانوں کو اپنے دامِ فریب میں اُلجھانے کی کوششیں کرتے ہیں۔

                اِس لیے مدارس کے ذمہ دار حضرات اپنے اپنے مدرسوں کی شاخوں کے طور پر حسبِ ضرورت مکاتب قائم کرکے اُن میں بنیادی دینی تعلیم کا انتظام فرمائیں۔ اور اُس کے لیے دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کی اس تجویز کو بروئے کار لائیں کہ:

                 ’’ہرمدرسہ اپنے سالانہ بجٹ کا دس فیصد حصہ مکاتب کے قیام اور انتظام وانصرام میں صرف کرے اور اُس کی سالانہ رپورٹ سے مرکزی دفتر رابطہ دارالعلوم دیوبند کو مطلع کیا جائے‘‘۔

تجویز {۶}   اِرتدادی سرگرمیوں کے تعاقب پر زور

                یہ بات قابل تشویش ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے دشمنانِ دین کی طرف سے اِسلام اور پیغمبر اِسلام علیہ السلام کی شان میں گستاخی اورمنفی پروپیگنڈے میں شدت آگئی ہے، کچھ میڈیا چینل تو باقاعدہ نشانہ بناکر ایسے سیریل چلا رہے ہیں جو سراسر زہرناک ہیں، اور اِسلامی تعلیمات کے بارے میں تلبیسات اور مغالطہ اَنگیزیوں پر مبنی ہیں، جس سے معاشرے میں نہ صرف یہ کہ سخت انتشار پھیل رہا ہے؛ بلکہ اِس بات کا بھی خطرہ ہے کہ اِس نفرت انگیز مہم سے کہیں بھولے بھالے مسلمان بھی متأثر نہ ہوجائیں۔

                اِس لیے مجلس عمومی رابطہ مدارسِ اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس؛ مدارسِ اسلامیہ کو مذکورہ سنگین صورتِ حال کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے، اور اُن سے اپیل کرتا ہے کہ وہ حکمت عملی اور دانائی کے ساتھ اِس فتنے کا مقابلہ کریں، اور مسلم معاشرے کو ذہنی اور فکری اِرتداد سے بچانے کی ہرممکن کوشش کریں، یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے؛ کیوںکہ خدانخواستہ اِیمان سے محرومی ایک مسلمان کے لیے دنیا وآخرت کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

تجویز {۷}   مدارس میں عصری تعلیم کے انتظام سے متعلق تجویز

                اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ مدارس اسلامیہ کا نصب العین، علوم اسلامیہ: قرآن وحدیث، تفسیر ،فقہ عقائد اور ان کے معاون دیگر علوم وفنون کی تعلیم دینا اور ایسے باصلاحیت علماء تیار کرناہے جو علوم نبویہ کی میراث کے سچے وارث وامین ہوں اور اس امانت کو اگلی نسلوں تک پوری ذمہ داری کے ساتھ منتقل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، ان اوصاف کے حامل رجال کار کی تیاری کے لیے الحمدللہ مدارس اسلامیہ کا موجودہ نصاب کافی وافی ہے، جس میں حسب ضرورت، مدارس کے مقاصد سے ہم آہنگ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔

                اس کے علاوہ یہ بات بھی آپ پر مخفی نہیںہے کہ مدارس کے مقصد اصلی کی تکمیل کرنے والے اس نصاب کے ساتھ ہی مبادی کے درجے میں ضروری عصری تعلیم بھی دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ میں چلی آرہی ہے، جو عام طور پر عربی کے سال اول سے پہلے پوری کرلی جاتی ہے؛ لیکن حکومت ہند کی نئی تعلیمی پالیسی نے اس کو زیادہ باضابطہ بنانے کی ضرورت پیدا کردی ہے؛ کیوں کہ اس پالیسی کی رُو سے ہر بچہ کے لیے ہائی اسکول یا بارہویں پاس کرنا لازمی ہوگیا ہے؛ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے اصل نصاب کو متاثر کیے بغیر ایسی ترتیب بنالی جائے کہ حکومتی ضابطہ کی تکمیل بھی ہوجائے اور طالب علم پر ناقابل تحمل بوجھ بھی نہ پڑجائے۔

                اس مقصد کے لیے دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کا فیصلہ رہنمائی کرتا ہے جس میں طے کیا گیا ہے:

                (۱)  ملک کے موجودہ حالات میں چوں کہ دسویں جماعت کی سرٹیفکیٹ اور عصری علوم سے واقفیت ایک ضرورت بن گئی ہے جو اشاعتِ دین میں بھی معین ہے، اس سے مدارس اسلامیہ میں زیر تعلیم طلبہ اور فضلاء کے لیے اپنے نظامِ تعلیم وتربیت اور دینی خدمات کو علیٰ حالہ باقی رکھتے ہوئے عصری تعلیم کا مناسب طریقہ اپنائیں۔

                (۲)  کوشش کی جائے کہ عربی درجات میں آنے سے قبل طالب علم دسویں کے امتحان سے فارغ ہوکر علومِ اسلامیہ عربیہ کی تحصیل کے لیے یکسو ہوجائے اور جس کومزید عصری تعلیم حاصل کرنی ہو وہ بعد فراغت مقاصد دینیہ کوملحوظ رکھتے ہوئے مزید تعلیم حاصل کرے۔

                (۳)  عصری تعلیم کے لیے NIOSاورOBEکا نظام ونصاب نسبتاًسہل اور لچک دار ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔

                (۴)  عربی درجات سے قبل طلبہ (جن کی عمریں ۱۱؍تا۱۴؍سال کے درمیان ہوں) عموماً شعبہ حفظ وناظرہ اور دینیات میںرہتے ہیں، انھیں دسویں کے امتحان کے قابل بنانے کے لیے جزوقتی تعلیم کا انتظام کیا جانا مناسب ہوگا۔

                (۵)  جو بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ان کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے صباحی اور مسائی مکاتب کا مضبوط نظام قائم کرنا چاہیے۔

تجویز {۸}   اصلاحِ معاشرہ کے لیے مستقل مبلغ کے تقرر کی ضرورت

                رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، تمام ذمہ دارانِ مدارس سے گزارش کرتا ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بھرپور کردار ادا کریں، اس وقت معاشرے میں ایمان وعقیدے کی کمزوری کے علاوہ بے شمار عملی خرابیاں اور سماجی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کی اصلاح کے لیے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔

                اس مقصد کے لیے یہ اجلاس، استطاعت رکھنے والے تمام مدارس سے یہ اپیل کرتا ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک مستقل مبلغ کا تقرر کریں جو اس مقصد کے لیے منظم انداز میں کام کرے۔

تجویز {۹}   تجویز تعزیت

                رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، ان تمام علماء ومشاہیر کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کرتا ہے جو گذشتہ اجلاس کے بعد جوارِ رحمت حق میں پہنچ گئے، ان میں دارالعلوم دیوبند کے بعض ممتاز اکابرومحدثین اساتذہ بھی ہیں اور دیگر اداروں کے محدثین وعلماء بھی ، ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ آفتاب وماہتاب کی حیثیت کے حامل تھے، اور ان کی رحلت ملت اسلامیہ کا بڑا نقصان ہے۔

(۱)           حضرت مولانا منظور احمد صاحب ، کانپوری رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند

(۲)           حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

(۳)          حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوریمعاون مہتمم واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

(۴)          حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

(۵)          حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی استاذ عربی ادب ومدیرماہنامہ ’’الداعی‘‘ دارالعلوم دیوبند

(۶)           حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند

(۷)          حضرت مولانا محمد جمال صاحب بلندشہری استاذ دارالعلوم دیوبند

(۸)          حضرت مولانا محمد جمیل احمد صاحب سکروڈوی استاذ دارالعلوم دیوبند

(۹)           حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب امیرشریعت سابع بہار ،اڈیشہ جھارکھنڈوسجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر

(۱۰)         حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور

(۱۱)          حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب صدر وفاق المدارس ومہتمم جامعہ بنوری ٹائون کراچی

(۱۲)         حضرت مولانا مفتی زرولی خاں صاحب بانی ومہتمم جامعہ احسن العلوم کراچی

(۱۳)         حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ فرزند حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ

(۱۴)         حضرت مولانا نظام الدین خاموش چھاپی، رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند

(۱۵)         جناب مولانا مفتی سعید احمد صاحب پرنام بٹ خلیفہ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ہردوئیؒ

(۱۶)         جناب مولانا محمد قاسم صاحب میرٹھی استاذ ونگراں شعبۂ دینیات دارالعلوم دیوبند

(۱۷ )        جناب مولانا سُرور احمد صاحب دیوبندی استاذ دارالعلوم دیوبند

(۱۸)         جناب مولانا غلام نبی صاحب کشمیری استاذ دارالعلوم (وقف) دیوبند

(۱۹)         جناب مولانا نثار احمد صاحب قاسمی صدرالمدرسین دارالعلوم اسلامیہ بستی

(۲۰)         جناب مولانا حمزہ حسنی صاحب نائب ناظم ندوہ العلماء لکھنؤ

(۲۱)         جناب مولانا محمود حسن حسنی صاحب ندوۃ العلماء لکھنؤ

(۲۲)         جناب مولانا محمد امین صاحب سفیر دارالعلوم دیوبند

(۲۳) جناب مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی صاحب کانپور صدر رابطہ مدارس اسلامیہ مشرقی اترپردیش زون(۱)

(۲۴)        جناب مولانامحمد جابرصاحب اڈیشہ سابق رکن عاملہ رابطہ مدارس اڈیشہ

(۲۵)        جناب مولانا مفتی عبدالرزاق صاحب بھوپال صدر رابطہ مدارس شاخ مدھیہ پردیش

(۲۶)         حضرت مولانا معزالدین صاحب ناظم امارت شرعیہ جمعیۃ علماء ہند

(۲۷)        جناب مولانا فضیل الرحمن ہلال عثمانی دیوبند صدر مفتی دارالعلوم (وقف) دیوبند

(۲۸)        جناب مولانا عبدالمغنی صاحب رکن مجلس عمومی رابطہ مدارس شاخ تلنگانہ

(۲۹)         جناب مولانا مفتی فیض الوحید صاحب جموں

(۳۰)        جناب مولانا عبدالمومن صاحب ندوی سنبھلی

(۳۱)         جناب مولانا سعدان جامی صاحب فرزند حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ

(۳۲) جناب قاضی انوار صاحب دیوبند

(۳۳) جناب مولانا محمد مرتضیٰ صاحب کارکن شعبہ اوقاف دارالعلوم دیوبند

(۳۴) جناب فرحت کلیم صاحب ملازم عظمت ہسپتال دارالعلوم دیوبند

(۳۵) جناب منشی محمد عدنان صاحب دیوبندپیش کار دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند

(۳۶) جناب منشی محمد جاوید صاحب کارکن کتب خانہ دارالعلوم دیوبند

(۳۷) جناب منشی شمیم احمد قریشی کارکن کتب خانہ دارالعلوم دیوبند

(۳۸)        جناب عبدالجبار صاحب کارکن رسالہ دارالعلوم دیوبند

(۳۹)        جناب مولانا ظہیرالدین صاحب سفیر دارالعلوم دیوبند

(۴۰)        جناب مولانا ذبیح اللہ صاحب سفیر دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم ‏، شمارہ : 11-12، جلد:106‏، ربيع الثاني – جمادي الاول 1444ھ مطابق نومبر – دسمبر 2022ء

Related Posts