سوال: اگرکوئی شخص امام مہدی کے آنے کا عقیدہ نہ رکھے اور دجال کے خروج کا انکار کرے تو کیا حکم ہے، کیا ایسا شخص کافر ہے؟

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت محمدمہدی کے ظہور کے سلسلہ میں جو احادیث آئی ہیں، وہ معنی کے اعتبار سے متواتر ہیں، یعنی: نفس ظہور مہدی امرمتواتر ہے جیساکہ متعدد کبار علمائے کرام نے صراحت فرمائی ہے اورمسیح دجال (دجال اکبر) کا خروج قیامت کی متفق علیہ پانچ علامات کبری میں سے ہے، جنھیں شیخ احمد دردیرمالکی نے ضروریاتِ دین میں سے شمار کیا ہے (دیکھیے: شرح الخریدة البہیة، ص۱۵۲) اور یہ عقیدہ احادیث متواترہ اوراجماعِ امت سے ثابت ہے (عقائد الاسلام حصہ اوّل، علامات قیامت کا بیان، ص۶۵)، پس اس پر بھی بلاتاویل ایمان لانا فرض ہے اوراس کا انکار کفر ہے؛ لہٰذا جو شخص حضرت محمدمہدی کے ظہور اور دجال اکبر کے خروج کا انکار کرے، وہ بلاشبہ کافر ومرتد ہے، اس کا اسلام سے کچھ تعلق نہیں۔

            اب سے تقریباً ساڑھے چھ سال پہلے، ربیع الاوّل، سنہ:۱۴۳۷ھ میں شکیل بن حنیف اوراس کے متبعین کے بارے میں دارالافتا دارالعلوم دیوبند سے ایک مفصل ومدلل فتوی (۳۰۶/ن،۳۱۸/ن، ۱۴۳۷ھ، آئی ڈی نمبر:۱۶۷۰۶۰) جاری ہوا تھا، جواب سے متعلق مزید تفصیل اور دلائل کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہوگا اور یہ فتویٰ دارالافتا کی ویب سائٹ پرموجود ہے، جس کی لنک حسب ذیل ہے:

https://darulifta-deoband.com/home/ur/islamic-beliefs/167060
الجواب صحیح: فخرالاسلام،وقار علی غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم حبیب الرحمن عفااللہ عنہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۱۷/۹/۱۴۴۳ھ=۱۹/۴/۲۰۲۲ء

=======================

            سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسائل کے بارے میں:

            (الف) ہمارے یہاں ایک مسجد میں فرش پر موٹا والا فوم بچھا ہوا ہے، چوں کہ فوم الگ الگ سائز کے آتے ہیں، جن میں سے کچھ تو بالکل باریک ہوتے ہیں اور کچھ درمیانی سائز کے اور کچھ موٹے ہوتے ہیں، ہماری مسجد میں پتلے والے فوم سے کافی موٹے سائز کا فوم بچھا ہوا ہے اور وہ فوم موضع سجدہ میں بھی بچھا ہوا ہے، اس سلسلے میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ایسے فوم پر سجدہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ اور اگر بالکل پتلا والا فوم بچھایا جائے تو اس پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں یہ جو کچھ موٹے سائز کا فوم بچھا ہوا ہے اس پر سجدہ کرنا کم از کم کراہت سے خالی نہیں؛ کیوں کہ موٹا ہونے کی وجہ سے اس کے زمین پر ٹکنے میں تردد ہے؛ لہٰذا کم از کم سجدہ کی جگہ سے کاٹ کر اس کو ہٹادیا جائے، اس سلسلے میں آپ مفتیان کرام کی کیا رائے ہے؟ فوم کا نمونہ استفتاء کے ساتھ منسلک کردیاگیا ہے۔

            (ب) ایک صاحب جو سرکاری ملازم ہیں، تعلیمی ابتداء سے اُن کی تاریخ پیدائش اُن کی عمر سے کچھ کم لکھی ہے؛ البتہ اُن کی پوری تعلیم اور تمام سرکاری امور تاریخ پیدائش میں درج عمر کے مطابق ہی ہوئی ہیں، اب وہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ سرکار نے رٹائرمنٹ کی جو عمر تجویز کررکھی ہے اگر سرکاری تاریخ پیدائش کے اعتبار سے دیکھیں تو کچھ سال مزید ملازمت کرسکتے ہیں اور اگر حقیقی عمر کے اعتبار سے دیکھیں تو ملازمت کے کچھ سال گھٹ جائیں گے؛ لہٰذا اس سلسلے میں ان کو کیا کرنا چاہیے، آیا تاریخ پیدائش جو کہ سرکارکے یہاں معتبر ہے اُس لحاظ سے ملازمت جاری رکھیں؟ کیوں کہ دیگر تمام چیزیں بھی اُسی تاریخ کے اعتبار سے چلتی آئی ہیں اور ملازمت کی ابتداء بھی اسی تاریخ کے اعتبار سے ہوئی ہے، یا پھر اپنی حقیقی عمر کے لحاظ سے چند سال پہلے ملازمت ترک کردیں؟ نیز اگر وہ سرکاری تاریخ کے اعتبار سے ملازمت جاری رکھتے ہیں تو حقیقی عمر کے لحاظ سے جو زائد سال ملازمت کے ہوئے اُن کی تنخواہ جائز ہوگی یا نہیں؟

المستفتی: محمد فیضان بیگ

شعبہٴ عربی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

۱۳/شوال المکرم ۱۴۴۳ھ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق : (ا) صحت سجدہ کی ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز پر سجدہ کیا جائے، وہ اتنی سخت ہوکہ پیشانی اُس پر اچھی طرح ٹھہرجائے، یعنی: پیشانی اُس پر دبتی نہ چلی جائے، نیز زور دے کر دبانے پر بھی نہ دبے، اگر پیشانی ٹھہرتی نہیں؛ بلکہ دبتی چلی جاتی ہے یا زوردے کر دبانے پر مزید دبتی ہے، تو سجدہ درست نہیں ہوگا۔

            اور آج کل مساجد میں جو فوم بچھائی جارہی ہے، اُس میں عام طور پر مطلوبہ سختی نہیں پائی جاتی؛ بلکہ اُس کی ساخت (بناوٹ) کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ درمیان میں کچھ چھوٹے چھوٹے ایئرہولس ہوتے ہیں، جس کی بنا پر اُس میں دبنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ زور دے کر دبانے کی صورت میں واضح طور پر محسوس ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس طور پر بھی کیا جاسکتا ہے کہ فوم کے کسی حصہ پر انگوٹھا یا انگلی رکھ کر زوردیا جائے تو انگوٹھا یا انگلی واضح طورپر اندر کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوگی، بہرحال اس قسم کے فوم میں مطلوبہ سختی نہیں ہوتی؛ اس لیے اس قسم کی فوم پر سجدہ کم ازکم مشکوک اور خلاف احتیاط ضرور ہے۔

            لہٰذا نماز کی اہمیت کے مدنظر اس طرح کی فوم مساجد میں سجدے کی جگہ نہیں بچھانی چاہیے؛ بلکہ صرف گھٹنوں تک یااس سے کچھ زائد بچھانی چاہیے، سجدہ کی جگہ بہرحال فوم سے خالی رکھنی چاہیے؛ تاکہ سجدہ کی ادائیگی اور نماز کی درستگی میں کسی طرح کا کوئی شبہ نہ رہے۔

            یفترض أن یسجد علی ما یجد حجمہ بحیث ان الساجد لو بالغ لا یتسفل رأسہ أبلغ مما کان علیہ حیالَ الوضع، فلا یصح علی نحو الأرز والذرة الا أن یکون في نحو جوالق، ولا علی نحو القطن والثلج والفرش الا ان وجد حجم الأرض بکبسہ (ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۲:۱۴۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳:۱۸۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)․

                                                ومن شروط صحة کونہ (علی ما) أي: شيء (یجد) الساجد (حجمہ) بحیث لو بالغ لا یتسفل رأسہ أبلغ مما کان حال الوضع، فلا یصح السجود علی القطن والثلج والتبن والأرز والذرة وبزر الکتان (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة وأرکانہا، ص:۲۳۱، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)․

                                                والأصل کما أنہ یجوز السجود علی الأرض یجوز علی ما ہو بمعنی الأرض مما تجد جبہتہ حجمہ وتستقر علیہ جبہتہ، وتفسیر وجدان الحجم أن الساجد لو بالغ لا یتسفل رأسہ أبلغ من ذلک، فیصح السجود علی الطنفسة والحصیر الوحنطة والشعیر والسریر (البحرالرائق، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۱:۵۵۸، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)․

                                                أوان لبدہ) حتی صار بحیث یجد صلابتہ ولا یغیب وجہہ فیہ، وضابطہ أن لا یتسفل بالتسفیل فجینئذ (جاز) سجودہ علیہ، (وعلی ہذا اذا ألقی الحشیش) الرطب أو الیابس فسجد علیہ ان لبدہ حتی لا یتسفل بالتسفیل جاز والا فلا، (وکذا) الحکم (اذا سجد علی التبن أو) القطن (المحلوج) أوالصوف ونحوہ (ان لم یستقر جبہتہ) بتمام التسفل (لا یجوز) سجودہ، وکذا کل محشو کالفرش والوسائد، وکذا کور العمامة مالم یکبسہ حتی ینتہي تسفلہ ویجد الصلابة لا یجوز سجودہ، (ولو سجد علی الأرز أو علی الجاورس) وہو نوع من الدخن (أو) علی (الذرة لا یجوز) سجودہ؛ لأن ہذہ الحبوب لملاستہا ولزازتہا لا یستقر بعضہا علی بعض، فلا یمکن انتہاء التسفل فیہا واستقرار الجبہة علیہ، (ولوسجد علی الحنطة أو الشعیر یجوز)؛ لأن حباتہا یستقر بعضہا علی بعض لخشونة ورخاوة في أجسامہا، (أما الأرز) ونحوہ من الحبوب أو المحلوج وشبہہ من المنفوش (ئذا کان) شيء منہا (في جوالق جاز) السجود علیہ اذا کان غیر متخلخل في الجوالق لامکان استقرار الجبہة علیہ ووجود الصلابة لتماسک أجزائہ بسبب الجوالق، ولا تَنْسَ اشتراط عم التسفل (شرح المنیة الکبیر، شورط الصلاة، آخر الشرط الخامس: السجدة، ص:۲۸۹، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)

                                                قولہ: ”فالقرار لجبہة“: ․․․․ وقرار الجبہة بأن یکون ما تحتہا لا یقبل الانزواء، وہل یکفي مجرد الوضع وان لم یکن معتمدًا؟ الظاہر لا لقولہم: لا بد أن یجد حجم ما سجد علیہ ولا یتأتی ذلک الا بالاعتماد، وقد أفادہ المصنف في شرحہ ونقلہ الحلبي في ما یأتي قریبًا (حاشیة الطحطاوي علی الدر، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۱:۲۰۶، ط: مصر ومکتبہ الاتحاد دیوبند، ۲:۱۳۲، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

                                                ومثلہ في حاشیة الشلبي علی التبیین (کتاب الصلاة، ۱:۱۱۷، ط: المکتبة الامدادیة، ملتان) عن الکاکي ومجمع الأنہر والدرالمنتقی (کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۱:۱۴۸، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) والفتاوی الہندیة (کتاب الصلاة، باب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الأول في فرائض الصلاة، ۱:۷۰، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر) وغیرہا من کتب الفقہ والفتاویٰ․

            (۲) اگر وہ سرکاری ملازمت میں مفوضہ ذمے داریاں انجام دینے کی مطلوبہ صالحیت اور ہمت وطاقت رکھتے ہیں، تو اُن کے لیے سرکاری دستاویز کے مطابق ملازمت کی متعینہ مدت پوری کرنے کی گنجائش ہے اور اس صورت میں حقیقی عمر کے اعتبار سے زائد سالوں کی ملازمت کی تنخواہ بھی جائز ہوگی، یعنی: اُس پر حرام وناجائز کا حکم نہ ہوگا؛ کیوں کہ تنخواہ مفوضہ ذمے داریوں کی انجام دہی اور کارکردگی کا عوض ہوتی ہے اوراگر وہ حقیقی عمر کے مطابق مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرمنٹ لے لیں، تو یہ از قبیل احتیاط وتقویٰ ہے۔

الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، فخرالاسلام مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمود حسن بلندشہری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۲۶/۱۱/۱۴۴۳ھ=۲۷/۶/۲۰۲۲ء

=======================

            سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ

            آج کل کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے، فرض، واجب اورنفل نماز کو کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے سے نماز درست ہوجائے گی یا نہیں؟

محمد اصغر

دریاپور، بلندشہر

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            الجواب وباللّٰہ التوفیق: آج کل کرسی پر نماز کے سلسلہ میں بے احتیاطی عام ہوتی جارہی ہے، دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے اچھے خاصے لوگ بلاکسی جھجک وتامل کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں اور صحیح مسئلہ جاننے کی کوئی فکر نہیں کرتے اور بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز، زمین پر بیٹھ کر (سجدہ میں زمین پر پیشانی رکھ کر) نماز کی طرح ہے اور وہ فرض یا واجب نماز تو کھڑے ہوکر رکوع سجدے کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور سنت یا نفل نماز کرسی پر بیٹھ کر(سجدہ کے اشارے کے ساتھ) پڑھتے ہیں؛ جب کہ کرسی پر بیٹھ کر جو نماز پڑھی جاتی ہے، اس میں حقیقی سجدہ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ سجدے کے لیے اشارہ کیا جاتا ہے۔

            اس لیے معلوم ہونا چاہیے کہ کرسی پر نماز ہر معذور کی جائز نہیں، صرف اُس معذور کی جائز ہے، جو اپنے کسی عذر کی بنا پر کسی صورت میں بھی زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ نہ کرسکے، یعنی: کرسی پر نماز کے جواز کے لیے زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ سے عاجز ہونا شرط ہے؛ ورنہ کرسی پر بیٹھ کر (سجدہ کے لیے) اشارے کے ساتھ نماز نہیں ہوگی، نہ فرض نماز اور نہ سنت یا نفل نماز۔

            پھر جو شخص حقیقت میں معذور ہے، وہ اگر زمین پر بیٹھ کر (سجدے کے لیے اشرے کے ساتھ) نماز پڑھ سکتا ہے، تو اُس کے لیے کرسی کے بجائے زمین پر بیٹھ کر (سجدے کے لیے اشارہ کے ساتھ) نماز پڑھنا اولیٰ ہوگا، کرسی پر نماز پڑھنا خلاف اولیٰ ہوگا۔

            نیز جو شخص کرسی پر بیٹھ کر (سجدہ کے لیے اشارے کے ساتھ) نماز پڑھے، اُسے کرسی پر اس طرح بیٹھنا چاہیے کہ پیچھے کی جانب کرسی کی ٹیک وسہارا حاصل نہ کرے؛ کیوں کہ بلا عذر ٹیک لگانا فرض نماز میں مکروہ تحریمی اورنفل میں مکروہ تنزیہی ہے اور اگر عذر ہو، تو کچھ کراہت نہیں؛ جب کہ آج کل کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والوں میں بہت سے لوگ فرائض ونوافل سب میں بلاعذر کرسی کی ٹیک لے کر نماز پڑھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ وہ کرسی کے بجائے اسٹول پر بیٹھ کر نماز پڑھا کریں۔

            (وان تغدرا) لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود (لا القیام أومأ)․․․․ قاعدًا، وہو أفضل من الایماء قائمًا لقربہ من السجود (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲:۵۶۷، ۵۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

                                                قولہ: ”لقربہ من السجود“: أي: فیکون أشبہ بالسجود، منح (ردالمحتار)․

                                                قلت: فان صلی وکان یستطیع أن یقوم ولا یستطیع أن یسجد؟ قال: یصلي قاعدًا یومي ایماء․ قلت: فان صلی قائمًا یوٴمی ایماء؟ قال: یجزیہ (کتاب الأصل المعروف بالمبسوط للشیبانی، کتاب الطہارة والصلاة، باب صلاة المریض فی الفریضة، ۱:۲۰۷، ط: عالم الکتب، الریاض)․

                                                ویکرہ ․․․․ الاتکاء علی العصا من غیر عذر في الفرائض دون التطوع علی الأصح کذا في الزاہدي (الفتاوی الہندیة، کتاب الصلاة، الباب السابع في ما یفسدہ الصلاة وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني في ما یکرہ في الصلاة وما لا یکرہ، ۱:۱۰۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)․

                                                ویکرہ یصلي وہو یعتمد علی حائط أو أسطوانة من غیر عذر ولا بأس بذلک في التطوع (الفتاوی الخانیة علی ہامش الفتاویٰ الہندیة، کتاب الصلاة، باب الحدث في الصلاة، فصل في ما یکرہ فیہا وفي ما لا یکرہ، ۱:۱۱۹، ۱۲۰، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)․

                                                وللمتطوع أن یتکیٴ علی شيء ان أعیا) أي: تعب؛ لأنہ عذر، أطلق في الشيء، فشمل العصا والحائط․ وأشار الی أن لہ أن یقعد أیضاً عند أبي حنفیة وعندہما: لا یجوز لہ القعود الا اذا عجز لما مر من قبل، وقید بقولہ: ”ان أعیا“؛ لأن الاتکاء مکروہ بغیر عذر؛ لأنہ اشائة في الأدب، وفیہ اختلاف المشایخ، والصحیح کراہتہ من غیر عذر وعدم کراہة القعود من غیر عذر عندہ (البحرالرائق، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲:۲۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)․

                                                (وجاز للمتطوع الاتکاء علی شيء) کعصا وحائط وخادم (ان تعب)؛ لأنہ عذر کما جاز أن یقعد (بلا کراہة وان کان) الاتکاء (بغیر عذر کرہ في الأظہر لاسائة الأدب) بخلاف القعود بغیر عذر بعد القیام (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص:۴۰۷، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

                                                قولہ: ”کرہ في الأظہر“: أي: تنزیہا بدلیل التعلیل․ قولہ: ”بخلاف القعود“: فانہ لا کراہة فیہ علی الأصح (حاشیة الطحطاوي علی المراقي)

                                                وانظر الدر المختار ورد المحتار (کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲:۵۷۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند․ ۴:۵۴۷، ت: الفرفور، ط: دمشق) أیضًا․

الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی، وقار علی غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبندفقط واللّٰہ تعالیٰ أعلم محمود حسن بلندشہری غفرلہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند ۹/۱۲/۱۴۴۳ھ=۹/۷/۲۰۲۲ء  

=======================

————————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts