الاجازات الہندیہ

کتبِ أثبات میں ایک منفرد اور قابلِ قدر اضافہ

از: مولانا محمدیاسر عبداللہ

استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی

            علومِ حدیث کا محور، احادیث کی اسانید اور متون ہیں، یہ علوم ان دوامور کے گرد گھومتے ہیں اور اسانید سے متعلق متنوع علوم میں سے ایک مستقل علم ”معرفة الاسناد العالي والنازل“ کے عنوان سے کتبِ مصطلح میں ذکر کیا جاتا ہے اور اس کی مناسبت سے مشائخ کی اسانید کو یکجا کرنے کا معمول بھی محدثین کے ہاں چلا آرہا ہے اور اس موضوع پر مرتب کردہ کتب کی کثرت کی بنا پر بلامبالغہ مستقل کتب خانہ تیار ہوچکا ہے، جو گلہائے رنگارنگ سے مزین گلستان کی مانند طلبہٴ علومِ حدیث کو ہردم خوشہ چینی کی دعوت دیتا ہے۔

”علم الأثبات“ کا مختصر تعارف

            علامہ محمد عبدالحئی کتانی رحمہ اللہ (۱۳۸۲ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب ”فہرس الفہارس والأثبات ومعجم المعاجم والمشیخات“ میں رقم طراز ہیں:

            ”تتبع وتلاش کے بعد یہ واضح ہوا کہ قدماء ایسے جز کو ”الْمَشِیْخَةْ“ کہا کرتے تھے، جس میں کوئی محدث اپنے اساتذہ ومشائخ کے نام اور ان کی مرویات درج کرتا، بعد ازاں اسے ”الْمُعْجَمْ“ کہا جانے لگا؛ کیونکہ ان اجزا میں مشائخ کے ناموں کو حروفِ معجم (حروفِ تہجی) کی ترتیب پر ذکر کیا جاتا تھا، یوں ”الْمَشِیْخَاتْ“ کے ساتھ ساتھ ”الْمَعَاجِمْ“ کا استعمال بھی بکثرت ہونے لگا۔ اہلِ اندلس ایسے جز کے لیے لفظِ ”بَرْنَامِجْ“ استعمال کرتے ہیں، آخری ادوار میں اہلِ مشرق ایسی کتاب کو ”ثَبَتْ“ کہتے ہیں؛ جبکہ اہلِ مغرب اب اسے ”الْفِہْرِسَةْ“ کہا کرتے ہیں۔“(۱) اردو ادب کی اصطلاح میں شعراء اور ادباء کے تعارف کی اس انداز کی تصنیف کو ”تذکرہ“ کہا جاتا ہے۔

”الاجازات الہندیة وتراجم علمائہا“ کی تالیف کا پس منظر

            پیشِ نگاہ کتاب اس ذخیرہ میں ایک عمدہ اور مفید تر اضافہ ہے، سات جلدوں اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب بحرین کے نامور محقق عالم شیخ نظام بن محمدیعقوبی حفظہ اللہ کے اہتمام سے حال ہی میں ”دارالمحدّث“ ریاض سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے جواں سال موٴلف شیخ عمر بن محمد سراج حبیب اللہ حفظہ اللہ نے مقدمہ میں اس کی تالیف کا پس منظر کچھ یوں ذکر کیاہے:

            ”کئی سالوں سے میرے ذہن میں یہ خیال پروان چڑھ رہا تھا کہ عالمِ اسلام کے مختلف حصوں سے متعلق اجازاتِ حدیث اور ان میں مذکور شخصیات کے احوال یکجا کیے جانے چاہئیں، اس وقت بالکل یہ خیال نہ تھا کہ میں خود اس موضوع کے کسی حصے کو متعین کرکے اس پر محنت کروں۔ بس یونہی سوچتا تھا کہ عالمِ اسلام کے ہر خطے میں تحقیقی مزاج کے حامل مسندین کی ایک جماعت کو اپنے خطے کی اسانید یکجا کرکے ان کی تحقیق اور ضبط کے پہلو بہ پہلو اُن میں سے عالی سندوں کو ممتاز کرنا چاہیے اور تمام اسانید میں درج اشخاص کے احوالِ زندگی قلم بند کرنے چاہئیں، یوں بعض سندوں کے اتصال کے حوالے سے بہت سی اُلجھنیں حل ہوں گی، نیز شیوخِ روایت اورمشایخِ درایت کے درمیان اتصال کے تئیں پیدا ہونے والا خلط بھی واضح ہوگا، اسنادِ روایت اور اسنادِ تصوف کے درمیان امتیاز ہوگا اور تصوف کے سلسلہ میں صحبت اور خلافت کے درمیان اختلاط بھی کھل کر سامنے آجائے گا، مزید براں اجازاتِ عامہ وخاصہ اور اجازاتِ معینہ (خاص شخصیات کو اجازت یا مخصوص کتب کی اجازت) اور اجازاتِ اہلِ زمانہ (تمام اہلِ زمانہ کو اجازت) کے درمیان فرق بھی واضح ہوگا۔ چاربرس سے زیادہ ہوئے کہ بنامِ خدا میں نے ہندوپاک کی اجازاتِ حدیث جمع کرنا شروع کیں؛ کیونکہ کتبِ سبعہ (بظاہر کتبِ ستہ اور موطا مالک مراد ہیں) وغیرہ کی سماعی سندوں (جن میں تلامذہ کو اپنے مشائخ سے قراء ت وسماع حاصل ہو) کا مدار انھیں ہندی سندوں پر ہے؛ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ دواوینِ سنت کی حفاظت کا سلسلہ انھیں سندوں میں سمٹ آیا ہے۔“(۲)

علمی دنیا میں ارضِ ہند کی تاریخی اہمیت

            شیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ ”مفتاح کنوز السنة“ کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:

            ”اس زمانے میں اگر علمائے ہند، علومِ حدیث کی جانب توجہ نہ فرماتے تو مشرقی ممالک میں ان علوم کا خاتمہ ہوچکا ہوتا؛ کیوں کہ مصر وشام اور عراق وحجاز میں دسویں صدی ہجری سے یہ سلسلہ کمزور پڑگیا تھا، جو چودہویں صدی کی ابتدا میں انتہائی ضعیف ہوچلا تھا۔“(۳)

            ادیبِ اریب شیخ علی طنطاوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی آپ بیتی؛ بلکہ جگ بیتی ”في مسیرة الحیاة“ کے مقدمہ میں بجا طور پر لکھا ہے:

            ”ہم (علمائے عرب) میں سے بیشتر لوگ ہندوستان کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ تاریخِ ہند، عالمِ اسلام کی عمومی تاریخ میں چوتھائی حصہ رکھتی ہے؛ اس لیے کہ ہم (مسلمانوں) نے اس ہندی خطے میں لگ بھگ ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے، کسی زمانے میں پورا ہندوستان ہمارا تھا اورہم ہی اس کے حکمران تھے، اگر اسپین میں ہم نے اندلس کو گنوایا ہے تو اس خطے میں اس سے بڑا اندلس ہمارے ہاتھ میں تھا، اگر ہم نے اندلس میں مسجدِ قرطبہ اور قصرِ حمراء تھا تو ہندوستان کے چپے چپے میں ہمارا پاکیزہ خون گرا ہے، ایک اعلیٰ تہذیب جس کے اطراف وجوانب، علم وانصاف اور کارناموں اور شجاعتوں سے مزین ہیں، یہاں ہمارے مدارس معاہد تھے، جنھوں نے نہ جانے کتنی عقلوں کو روشن کیا! اور اب تک وہ دلوں کو کشادہ کررہے اور دانش وبینش کو منور کررہے ہیں! یہاں کے ہمارے آثار اپنے جلال وجمال میں قصرِ حمراء سے فائق ہیں، صرف ایک ”تاج محل“ ہی کافی ہے، جو اس روئے زمین کی سب سے خوب صورت تعمیر ہے۔“(۴)

علمائے ہند کے تراجم و احوال سے قلتِ اعتنا

            خطہٴ ہند کی اس قدر اہمیت کے باوجودعربی مآخذ میں یہاں کے اہلِ علم اور مختلف مسالک سے وابستہ رجالِ علم کے تذکرے بہت کم ملتے ہیں، اس بنا پر موٴلف (جوعمری الاصل ہیں، ان کے اجداد، ہندوستان میں رہ چکے ہیں، پھر حجاز میں منتقل ہوئے ہیں، موٴلف، عالمِ عربی میں پلے بڑھے، وہیں نشوونما اور تعلیم وتربیت پائی ہے؛ لیکن ان کے مشائخ میں بہت سے ہندی علماء بھی ہیں؛ اس لیے انھوں) نے اپنے مشائخ سے وفا کا تقاضا نبھاتے ہوئے اس کام کا بیڑا اُٹھایا۔ ان کا مقصد، استیعاب کا دعویٰ کیے بغیر اپنی وسعت کے مطابق علمائے ہند کی اجازاتِ حدیث کو ایک کتاب میں یکجا کرکے ان کی روشنی میں ان کی مقروئات ومسموعات (مشائخ کے سامنے پڑھی یا سنی گئی احادیث اور کتب ورسائل) کی تعیین کرنا ہے۔ یہ دوسرا نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ عام طور پر کتبِ أثبات میں اسانید کی تو بہتات ہوتی ہے؛ لیکن بہت کم ہی متعین ہوپاتا ہے کہ صاحبِ ثبت نے کون کون سے کتب کن مشائخ سے پڑھی یا سنی ہیں؟ محدثین واصولیین نے کتبِ مصطلح واُصول میں علمِ حدیث کے حصول کے جو مختلف طریقے تحریر فرمائے ہیں، ان میں سے ایک نوع ”اجازت“ بھی ہے؛ لیکن اس کا درجہ ”القرائة علی الشیخ“ (استاذ کے سامنے شاگرد کا پڑھنا) اور ”السماع من لفظ الشیخ“ (شاگرد کا استاذ سے سننا) سے بعد کا ہے۔ قراء ت وسماع کے متعدد فوائد ذکر کیے گئے ہیں، جن میں ایک اہم فائدہ احادیث کا درست ضبط بھی ہے۔

کتاب کا منہج

            موٴلف کے بیان کی روشنی میں کتاب کا منہج درجِ ذیل نکات سے سمجھا جاسکتا ہے:

            ۱- موٴلف نے ایسی خطی اور طبع شدہ اجازاتِ حدیث کو یکجا کرنے کی تگ ودو کی ہے، جن کی کسی ایک جانب میں کوئی ہندی عالم ہوں اور حسبِ استطاعت ان کی عبارات کی تصحیح کا اہتمام کیا ہے، ان میں سے بیشتر اجازات اب تک شائع نہیں ہوئیں۔ نیز ”ہند“ سے ان کی مراد تقسیم سے پہلے برصغیر میں داخل پورا خطہ ہے، جس میں موجودہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان اورنیپال شامل ہیں۔

            ۲-بلادِ سندھ کی اجازات اس مجموعے سے مستثنیٰ ہیں؛ اس لیے کہ سندھ اور ہند کے درمیان تاریخی اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے، موٴلف کے بقول بلادِ سندھ کی اجازات کے متعلق معروف محقق عالم مولانا ڈاکٹر محمد ادریس سومرو مدظلہم کچھ ایسا ہی کام کررہے ہیں، اللہ کرے کہ وہ کام بھی جلد پایہٴ تکمیل کو پہنچے اور شائع ہوکر اہلِ علم کے ہاتھوں میں آئے۔

            ۳- اس مجموعہ میں سنہ ۹۹۹ھ سے ۱۳۹۹ھ تک گزشتہ چار صدیوں کی منتخب اجازات کو برعکس زمانی ترتیب کے مطابق ذکر کیا گیا ہے، یعنی موٴلف ۱۳۹۹ھ سے پیچھے چلتے گئے ہیں؛ چنانچہ کتاب میں درج پہلی اجازتِ حدیث، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ (۱۴۰۲ھ) کے قلم سے مولانا محمد عاشق الٰہی مدنی رحمہ اللہ (۱۴۲۲ھ) کے لیے تحریر کردہ ہے اور آخری اجازتِ حدیث، علامہ عبدالوہاب متقی رحمہ اللہ (۱۰۱۲ھ) کی جانب سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ (۱۰۵۲ھ) کے لیے تحریر کردہ ہے۔

            ۴-موٴلف نے محض روایتِ حدیث سے متعلق امور پر حواشی وتعلیقات قلم بند کی ہیں اور حتی الامکان کتاب کے موضوع سے خارج ہونے سے گریز کیا ہے۔ کہیں کہیں سنِ ولادت ووفات کی توثیق کی غرض سے متعلقہ شخصیات کی قبروں کی تصاویر اور دیگر شواہد درج کیے ہیں۔ نیز کتبِ حدیث کے علاوہ دیگر اجازاتِ خاصہ (کسی متعین شخصیت کو اجازت یا متعین کتاب یا کتب کی اجازت) سے اجتناب کیا ہے، مثلاً: خالص فقہی اجازات، یا اوراد واذکار اور سلاسلِ صوفیہ سے متعلق اجازات وغیرہ؛ کیونکہ یہ امور، کتاب کے موضوع سے خارج ہیں؛ تاہم کسی اضافی فائدہ کی بنا پر کہیں اس نوعیت کی اجازتوں کا ضمنی تذکرہ آیا ہے۔

            ۵- دست یاب مآخذ کی روشنی میں ”مُجیز“ (اجازت دینے والے شیخ) اور ”مُجاز“ (جن کو اجازت دی گئی ہو) کے حالاتِ زندگی، طوالت اور اختصار سے پہلو تہی کرتے ہوئے متوسط اسلوب میں لکھے گئے ہیں، نیز اجازات کے ضمن میں مذکور ایسے علمائے ہند جن کے حالات مستقل طور پر کہیں نہیں ملتے، متعلقہ اجازتِ حدیث کے بعد ان کے حالات تحریر کیے گئے ہیں۔ کسی شخصیت کے حالات لکھتے ہوئے تاریخی امانت کا لحاظ رکھا گیا اور جانب داری سے گریز کیاگیا ہے؛ البتہ موٴلف کے بقول: ”تمام مندرجات سے ان کا اتفاق ضروری نہیں۔“

            ۶-کتاب میں محض ہندوستانی مشائخِ روایت وحدیث کے حالات یکجا کیے گئے ہیں، دیگر کتب کے مشائخ میں سے بیشتر کے حالات، مآخذ کی کمیابی اور تحقیق کی مشکلات کی بنا پر تحریر نہیں کیے گئے؛ البتہ ایسے مشائخ مستثنیٰ ہیں، جن کے حالات کے متعلق وافرمآخذ دست یاب ہیں، یا مشائخِ حدیث کی سندوں کے ضمن میں جن کا تذکرہ آیا ہے۔

            ۷- ہر شخصیت کے احوال کے آخر میں موٴلف نے ان سے اپنی سند کا اتصال ذکر کردیا ہے؛ البتہ اس موقع پر ان سے متصل تمام اسانید ذکر کرنے کے بجائے اکثر جگہوں پر بعض زندہ مشائخ کے تذکرہ پر اکتفا کیا ہے، اس سے مقصود محض ان سے اتصال کی نشان دہی کرانا ہے، اپنے مشائخ کی فہرست سازی پیش نظر نہیں۔

            ۸- محققین کی سہولت اور نقلاباتِ زمانہ کی دست برد سے حفاظت کی غرض سے خطی اجازات کی تصاویر بھی کتاب میں شامل کردی گئی ہیں۔(۵)

کتاب کے مضامین پر ایک طائرانہ نظر

            یہ کتاب سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، پہلی جلد کی ابتدا میں عالمِ عربی کے معروف محقق نظام محمد صالح یعقوبی عباسی حفظہ اللہ کا تین صفحات پر مشتمل مقدمہ ہے، اس کے بعد موٴلف کا مقدمہ ہے، جس میں انھوں نے کتاب کا منہج ذکر کیا ہے، بعد ازاں موٴلف نے ”تمہید“ کے عنوان سے ہندوستان کے مدارس کے اسلوبِ تدریس کا تاریخی جائزہ لیا ہے اور پانچ بڑے جامعات (دارالعلوم دیوبند، جامعہ مظاہر علوم سہارن پور، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، دارالعلوم ندوة العلماء اور جامعہ سلفیہ بنارس) کے نصاب درج کیے ہیں، جن سے اس خطے میں زیرِتدریس کتبِ قراء ت وسماع کا کچھ خاکہ سامنے آگیا ہے۔

            اس تمہید کے بعد کتاب کا اصل مضمون شروع کیاگیا ہے، کتاب میں پانچ سو کے لگ بھگ اجازاتِ حدیث کی عبارات، ضبط و تحقیق کے ساتھ درج کی گئی ہیں، نیز اس ضمن میں متن وحواشی میں لگ بھگ پونے سات سو مشائخ کے حالاتِ زندگی قلم بند کیے گئے ہیں۔

          کتاب کے آخر میں تین ضمیمے ہیں:

(۱)       پہلے ضمیمہ میں بارہ (۱۲) استدعائات (مشائخ سے اجازتِ حدیث حاصل کرنے کے لیے لکھی گئی تحریریں)، استدعائات کے یہ نمونے بھی علومِ حدیث کے طلبہ لیے خاصے کی چیز ہیں۔

(۲)       دوسرے ضمیمہ میں کتاب پر کچھ استدراکات ہیں، جن میں علامہ عبدالقادر طرابلسی رحمہ اللہ (۱۳۱۶ھ) کے احوالِ زندگی اور کچھ اجازاتِ حدیث کے عکس ہیں، جو کتاب میں درج ہونے سے رہ گئی تھیں۔

(۳)      تیسرے ضمیمہ میں ہندوستان کی چند مشہور اسانیدِ حدیث کے شجرے ذکر کیے گئے ہیں۔

            بعد ازاں حروفِ تہجی کی ترتیب پر عربی کے (۳۰۲)، اردو اور فارسی کے (۱۳۵) اُن اہم مآخذ ومصادر کا ذکر کیاگیا ہے، جن سے اس کتاب کی تالیف کے دوران استفادہ کیاگیا ہے۔ کہا جاتا ہے: ”الْفَہَارِسُ مَفَاتِیْحُ الْکِتَابْ“ (کتاب کے آخر میں درج فہرستیں، کتاب کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہیں)، اس بنا پر کتاب سے استفادہ آسان کرنے کی غرض سے آخر میں کئی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں، جن کے عنوانات حسبِ ذیل ہیں: ۱: فہرس الآیات․ ۲: فہرست الأحادیث والآثار․ ۳: فہرست الأبیات․ ۴: فہرس الکتب: یعنی ان کتابوں کے نام، جن کا کسی مناسبت سے کتاب میں ذکر آیا ہے۔ ۵: فہرس الأعلام المترجم لہم: یعنی ان شخصیات کے ناموں کی فہرست، جن کے حالاتِ زندگی کتاب کے متن یا حواشی میں درج کیے گئے ہیں۔ ۶: الفہرس العام للأعلام: کتاب میں مذکور شخصیات کے ناموں کی عمومی فہرست۔ ۷: فہرس المواضیع: یعنی کتاب کے موضوعات کی فہرست۔

            یہ تمام فہرستیں کتاب کی ساتویں اور آخری جلد کی انتہا میں ہیں اور صفحہ نمبر بھی پہلی سے آخری جلد تک تسلسل کے ساتھ لگائے گئے ہیں۔

مشاہیر علمائے پاک وہند کی اجازات وتراجم

            سابقہ تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ اس کتاب میں وسیع پیمانے پر گزشتہ ساڑھے چار صدیوں کے علمائے ہند کی اجازاتِ حدیث اوراحوالِ زندگی درج کیے گئے ہیں، جن میں علمائے دیوبند کی ایک معتدبہ تعداد بھی شامل ہے، ذیل میں دیوبند کے علمی سلسلے سے وابستہ ایسی اہم شخصیات کے اسمائے گرامی درج کیے جارہے ہیں، جن کا اس کتاب میں ذکر ہے؛ لیکن اس تذکرہ میں ترتیبِ رتبی کے بجائے کتاب کی ترتیب کی رعایت کی گئی ہے:

            مولانا محمدزکریا کاندھلوی، مولانا عاشق الٰہی مدنی، مولانا سید محمدیوسف بنوری، مولانا تقی الدین ندوی، مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی، مفتی محمدشفیع، مولانا ابوالوفا افغانی، مولانا محمد عبدالرشید نعمانی، مولانا فضل اللہ جیلانی، مولانا قاری محمد طیب قاسمی، مولانا محمدابراہیم بلیاوی، مولانا فخرالدین مراد آبادی، مولانا مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد انورشاہ کشمیری، مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا بدرعالم میرٹھی، مولانارشید احمد گنگوہی، مولانا محمودحسن دیوبندی، مولانا ظہیراحسن نیموی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا محمدعبدالحئی لکھنوی، مولانا شاہ عبدالغنی مجددی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا احمدعلی سہارن پوری، مولانا قاری عبدالرحمن پانی پتی، مولانا محمدعبدالحلیم لکھنوی، شاہ محمد اسحاق دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، شاہ ولی اللہ دہلوی وغیرہ، رحمہم اللّٰہ تعالیٰ جمعیًا․

کتاب کے متعلق اہلِ علم کے تاثرات

            (۱) شیخ نظام محمد یعقوبی حفظ اللہ مقدمہ میں لکھتے ہیں:

            ”ذخیرئہ سنت کی تعلیم وتعلُّم اور روایت ودرایت کے سلسلے میں ہمارے جلیل القدر علماء کی نمایاں جدوجہد اور قابلِ قدر کارنامے ہیں، جو نمایاں اور اسلوب اور دقت رسی پر مبنی علمی منہج کے موافق ہیں، ایسے قواعد وضوابط اور اسالیب کے ضمن میں، جو اس فن کے علماء اور ماہرناقدین نے ترتیب دیے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اہلِ اسلام کے اعتنا کے پہلو سے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ برِصغیر ہند، روئے زمین کے ان مبارک خطوں میں سے ہے، جن کا ان آخری ادوار میں اس پاکیزہ طاقچے اور چشمہٴ صافی سے زیادہ اعتنارہا ہے، یہ نمایاں کوششیں اور کاوشیں مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہیں، ان میں سے بعض کے متعلق گفتگو، حدیثِ نبوی کے اہتمام کے تعلق سے خیروبرکت کی بادوباراں کے ایک قطرے کے بارے گفتگو کی مانند ہے۔ ان مساعی پر نگاہ ڈالنے سے آخری چار صدیوں میں (اہلِ ہندکا) روایت واسناد کے باب سے اعتناء واختصاص ظاہر ہوتا ہے، یہاں تک یہ خطہ روایت واسناد کا مدار بن چکا ہے، طولِ صحبت اور درایت کا اہتمام مزیدبراں، دیگر خطوں کی اکثر وبیشتر سندوں میں کوئی ایسی سند نہیں، جس پر ہندوستان کا احسان نہ ہو۔ پیش نظر کتاب ”خیر کی پوٹلی“، ”علم کا صحرا“ اور ”عطرفروش کی کپی“ ہے، جس کی جمع وتدوین اور تالیف کا سہرا شیخِ فاضل، محققِ مکرم عمر بن محمد سراج حبیب اللہ وفّقہ اللہ کے سر سجا ہے اور انھوں نے اس جمع وتدوین کے ذریعے ایک ایسے میدان میں چراغ روشن کیا ہے، جو تاریک تھا اور اس پہلو سے شغف رکھنے والوں اور اہلِ روایت کی تشنہ کامی کا سامان فراہم کیاہے، اللہ تعالیٰ اس مبارک تالیف کی قدردانی کے اسباب پیدا فرمائے، اس بابرکت مجموعے میں مزید برکتیں عطا فرمائے، جس نے ہمارے جلیل القدر علما کے کارناموں کو یکجا کردیا اور مبارک خطہٴ ہند کی اسانید کے اتصال وتحقیق میں بھی برکت ڈالے۔“(۶)

            (۲) شیخ محمد زیاد تُکلہ حفظہ اللہ کتاب پر تبصرہ وتجزیہ، قدرے مفصل مضمون میں لکھتے ہیں:

            ”مجھے انتہائی بے قراری سے اس موسوعہ کے شائع ہونے کا انتظار تھا؛ کیونکہ ذاتی طور پر اس کی جمع و تالیف کے دوران موٴلف کی تکان کا علم تھا، انھوں نے اس سلسلے میں اسفار کیے، موصوف کئی برس تھکادینے والی تحقیق میں مشغول رہے، میں نے (مختلف شخصیات کے) احوال اور متاخرین کی سندوں کے متعلق ان کی ایسی نفیس تحقیقات اور تدقیقات دیکھیں کہ آج کل گنے چنے افراد ہی ایسے عمدہ کام کرسکتے ہیں، یہ فنِ روایت اور اہلِ علم کے احوالِ زندگی کے متعلق موصوف کے تابناک مستقبل کی نوید ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے، انھیں درست راہ پر گامزن رکھے، انھیں تقویت بخشے اور ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ (متعلقہ مواد کے) حصول میں، اسفار میں، عکسوں کے حصول میں، (دیگر زبانوں سے) عربی ترجمہ اور فہرست سازی میں انھوں نے جتنا وقت اور مال صرف کیا، اللہ تعالیٰ انھیں اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے۔ موٴلف نے کام کے لیے برصغیر ہند کا انتخاب کیا ہے اور بہت اچھا فیصلہ کیا؛ اس لیے کہ یہ خطہ، روایتِ حدیثیہ سماعیہ (قراء ت وسماع کے ساتھ کتبِ احادیث کی روایت) کا مدار ہے، جو محدثین کے نزدیک عمدہ روایت شمار کی جاتی ہے اور خدمت حدیث، حفظ اصول، طباعت اور شرح احادیث کے پہلوؤں سے (روئے زمین کے) دیگر خطوں سے آگے ہے؛ لیکن بلادِ ہند کی وسعت، اطراف کے بُعد، یہاں کے بہت سے مآثر کے باہر( کی دنیا میں) نکل جانے، کثرتِ مدارس اور کثرتِ اشخاص کی بنا پر یہ مشکل ترین میدان تھا، مزید براں قلتِ مآخذ (خصوصاً عربی زبان میں) اور کتب خانوں کا انتشار اور بعض مکتبات سے استفادہ کی مشکلات (بھی اس راہ میں حائل تھیں)؛ البتہ اس موسوعہ کا دورانیہ ساڑھے چار صدیاں ہے۔ کوئی ”عُمَری عزیمت“ (موٴلف، عُمَریّ الاصل ہیں) اور ”طَبْرِیْ ہمت“ (غالباً ”بحیرہ طبریہ“ کی جانب نسبت مقصود ہے) کا حامل ہی اس نوعیت کے منصوبے کے دَرپے ہوسکتا تھا۔“

            بعض ازاں شیخ تکلہ نے کتاب کی خصوصیات قلم بند کی ہیں، جن میں بیشتر نکات اس تحریر میں آچکے ہیں؛ اس لیے حتی الامکان تکرار ختم کرکے اہم نکات درجِ ذیل ہیں:

            ”۱- موصوف نے انتہائی جفا کشی کے ساتھ برصغیر ہند کی صرف اجازاتِ حدیث کی عبارات یکجاکرکے ان کی تحقیق واشاعت کی ہے، اپنی شرط میں کچھ توسیع کرکے انھوں نے اجازت کے دونوں جانب (مُجیز اور مُجاز) میں سے کسی جانب کے ایسے مشائخ کو داخل کیا ہے، جو ہند (وسیع دائرے میں) کی طرف منسوب ہوں، یا اسے وطن بناکر مقیم رہے ہوں؛ البتہ بلادِ سندھ کو مستثنیٰ کیا ہے۔

            ۲- اجازاتِ حدیث کی تاریخوں کے حوالے سے موٴلف کی اختیار کردہ نزولی ترتیب اگرچہ عام طور پر کتبِ تراجم میں اختیار نہیں کی جاتی؛ لیکن موٴلف کی غرض یہ تھی کہ کبار معاصر مشائخ کا طبقہ بھی اس کتاب میں شامل ہوجائے، یوں اس کتاب میں بہت سی معاصر روایات کی جانب بھی رہبری ہوجائے گی، جس سے طلبہ ومحققین فائدہ اُٹھاسکیں گے، بلاشبہ آج کے معاصر امور، کل تاریخ کا حصہ ہوں گے۔ قریب زمانے کی تمام اجازات کا احاطہ تو دشوار تھا؛ اس لیے اہم اجازات یکجا کی گئی ہیں، یوں عملی طور پر کتاب کا دورانیہ چارسو چالیس (۴۴۰) سال ہوگیا ہے، جن میں بلندمرتبہ معاصرین بھی شامل ہوگئے، تاہم اس شرط کے باوجود بلاالتزام (کتاب کی شرط سے) خارج بہت سے اُمور اور فوائد بھی کتاب میں درج ہوگئے ہیں۔

            ۳-موٴلف نے بہت سی اجازاتِ حدیث پر حواشی لکھے اور بہتیری اغلاط واوہام پر تنبیہ کی ہے۔

            ۴- درمیانے اسلوب میں ہندی مُجیزین ومُجازین کے احوالِ زندگی لکھے؛ لیکن اہم بات یہ ہے کہ روایات کی تحقیق کا اہتمام کیا، شیوخِ روایت اور مشائخِ درایت میں امتیاز کیا، مسموعات (سنی گئی کتاب واحادیث) کے ضبط کا اہتمام کیا، متاخرین اہل تراجم (”ترجمة“ کی جمع، مراد شخصیات کے احوال) بہت کم ہی اس کا اہتمام کرتے ہیں۔

            ۵- کتاب کو سیکڑوں نفیس تاریخی وثیقہ جات سے بھردیا ہے، جن میں سے اہم اجازاتِ حدیث کے عکس ہیں، جن کی موٴلف نے تحقیق کی ہے، بہت سے مشائخ، مدارس، عمارتوں، تاریخی شواہد، مکاتیب اور دیگر متعلقہ فوائد کی تصاویر درج کی ہیں، جو تراجم و اسانید کے محقق کے لیے اہمیت کی حامل ہیں، ان میں سے بیشتر وثیقہ جات پہلی بار شائع ہورہے ہیں، بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ موٴلف نے بعض مکتبات اور شخصیات سے محض ایک ورق یا وثیقہ کا عکس حاصل کرنے کے لیے ہندوبیرونِ ہند کے اسفار کیے ہیں، ان وثیقہ جات میں اشخاص اور شخصی کتب خانوں کی غیرمشہور اشیاء بھی شامل ہیں۔

            ۶- کتاب کا آغاز ایک تمہید سے کیا ہے، جس میں تدریسی مناہج اور درسِ نظامی کے پھیلنے تک (جو اس خطے میں عام ہوچکا ہے) ہندی مدارس کے نصاب میں شامل اکثر معتمدکتاب کا ذکر کیا ہے، کچھ بڑے جامعات کے نصابہائے تعلیم بھی درج کیے ہیں؛ تاکہ ان کے ذریعے مسموعات کا علم ہو، نیز اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ہر جامعہ کے اعتبار سے تکمیل کی سند، پڑھائی کے ساتھ روایتِ عامہ کو بھی شامل ہوتی ہے، بعض جامعات (دارالعلوم دیوبند، مظاہرعلوم سہارن پور وغیرہ) کی سندوں میں اجازتِ عامہ بھی دی جاتی ہے؛ جب کہ بعض میں ایسا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس تمہید میں بہت سی دقیق تنبیہات ہیں، جن سے آگاہی ہونی چاہیے۔

            ۷- ضمیمہ میں موٴلف نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہندی استدعاء ات ذکر کیے ہیں، جو انھوں نے ہندوبیرونِ ہند کے پے دَرپے اسفار کے دوران حاصل کیے تھے، ضمناً ان معاصر مُجیزین کے احوال بھی قلم بند کیے اور ان کی مرویات کی تحقیق کی ہے۔ اس عمل پر بھی موٴلف شکریہ کے مستحق ہیں۔ مزید براں انھیں حرص ہے کہ وہ معاصرین اور دوست احباب سے حاصل شدہ فوائد کی انھیں کی جانب نسبت کریں، فی زمانہ یہ بہت کمیاب وصف ہے، افسوس کہ اس فن کا کام کرنے والوں میں بھی کم ہی یہ وصف ملتا ہے۔

            ۸- موٴلف، کتاب کی طباعت کے اخیر مرحلے تک اس میں اضافہ وتنقیح کرتے رہے ہیں؛ چنانچہ آپ کو کتاب میں سنہ ۱۴۴۲ھ کی وفیات بھی ملیں گی، مثلاً: ہمارے شیخ مفتی ثناء اللہ بن عیسیٰ خان مدنی اور شیخ محمدعمر ٹونکی رحمہما اللہ ودیگر مشائخ۔ موٴلف نے بتایا کہ وہ اب بھی برابر نئے معلومات کی جستجو میں ہیں اور انھیں مزید حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ! ممکن ہے کہ معتدبہ معلومات ملنے پر وہ اس موسوعہ کا ذیل بھی مرتب کردیں گے اور یہ محنت منظرِعام پر آنے سے بہت سے اعتنا کرنے والوں اوراہلِ ہند کے لیے (معلومات کے) دروازے کھلیں گے، وہ موٴلف سے تعاون کریں گے اور انھیں ایسے معلومات ارسال کریں گے جن کے ذریعے کام کی تکمیل ہوگی۔

            ۹- کتاب کے آخر میں ایسے معروف عربی مآخذ ذکر کیے ہیں، جن پر موٴلف نے اعتماد کیا ہے، ان کی تعداد (۳۰۲) ہے اور اردو وفارسی مآخذ کی تعداد (۱۳۵) ہے۔ بعد ازاں کئی فہرستیں مرتب کی ہیں (جن کا ذکر پہلے گزرچکا)۔ اس کتاب نے علمائے اسلام سے وابستہ تاریخ وتراجم اور روایت کے پہلو سے بہت بڑا خلا پرکیا ہے، ان علوم سے متعلق کوئی بھی کتب خانہ اس سے خالی نہ رہنا چاہیے، شاید کوئی اسے مبالغہ سمجھے؛ لیکن معاصرت اور موٴلف سے جان پہچان مزید کچھ کہنے میں رکاوٹ ہے، جسے اس میدان میں تحقیق کا موقع ملے گا وہ میرے اس کہے کو بھی کم سمجھے گا۔ میں نے بعض دوستوں سے کہا تھا: ”یہ کام متاخر کتابِ روایت کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اسے شیخ عبدالحئی کتانی کی ”فہرس الفہارس“ کے پہلو میں رکھنا چاہیے، جس کے متعلق ہمارے دوست شیخ احمد عبدالملک عاشور کا کہنا ہے: ”یہ کتاب ”وِرد أہلِ الروایة“ (محدثین کا وظیفہ) ہے۔“ نیز اسے سماعات اور (اسانید کی) تحقیقات کے تعلق سے میرے اسنادی کاموں میں مجھے فائدہ ہوتا۔“(۷)

خلاصہٴ کلام

(۱)       یہ کتاب برصغیر کے علماء کی لگ بھگ پانچ سو اجازاتِ حدیث اور ان کے ضمن میں پونے سات سو مشائخ کے احوالِ زندگی کا مجموعہ ہے۔

(۲)       اس کتاب کی بدولت برصغیر کی پچھلی ساڑھے چار سو سال کی علمی وحدیثی تاریخ کا معتدبہ حصہ محفوظ ہوگیا ہے، جس کے ذریعے اس خطے میں علمِ حدیث کے حوالے سے متنوع خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔

(۳)      کتاب میں درج اجازاتِ حدیث اور ان کے عکسوں سے مختلف ادوار کے مشائخِ حدیث کے ہاں اجازتِ حدیث کی عبارات کا تنوُّع سامنے آئے گا۔

(۴)      کتاب میں درج خطی اجازاتِ حدیث کے عکسوں کی مدد سے بہت سے اہلِ علم کے خط کی نشان دہی میں سہولت ہوگی۔

(۵)      تراجم کے ضمن میں بہت سے ایسے مشائخ کے احوالِ زندگی محفوظ ہوگئے ہیں، جن کے حالات مآخذ کی کمی یا عدمِ دست یابی کی بنا پر مہیا نہیں ہوپاتے۔

(۶)       کتاب میں درج اجازاتِ حدیث کے تنوع کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب علمائے ہند کی ”فہرس الفہارس“ ہے۔

(۷)      یہ کتاب علمِ حدیث وسنت اور تراجمِ علمائے ہند سے متعلق ہرکتب خانہ کی زینت بنائے جانے کے قابل اور علومِ حدیث کے طلبہ کرام کی خوشہ چینی کے لائق ہے۔

چند گزارشات

            (۱) کتاب کی تمام فہرستیں، ساتویں اور آخری جلد کی انتہا میں ہیں اور صفحہ نمبر بھی پہلی سے آخری جلد تک تسلسل کے ساتھ لگائے گئے ہیں، بہتر ہوتا کہ ہر جلد میں مستقل طور پر صفحات کے نمبر درج کیے جاتے اور آخرالذکر نوعیت کی فہرست بھی ہرجلد کے آخر میں بھی ہوتی تو استفادہ زیادہ آسان ہوتا، نیز کسی متعین شیخ کی اجازت واحوال کے لیے متعلقہ جلد کی فہرست دیکھنا کافی ہوتا اور بار بار آخری جلد کی عام فہرستوں کی مراجعت کی ضرورت پیش نہ آتی: ”وللناس فیما یعشقون مذاہب“ (پسند اپنی اپنی!)۔

            (۲) بہتر ہوتا کہ موٴلف، اجازاتِ حدیث اوراہلِ علم کے تراجم میں سے ہر ایک کے ساتھ مستقل طور پر مسلسل نمبر لکھتے۔

            (۳) موٴلف نے علامہ خیرالدین زِرکلی رحمہ اللہ کی ”الأعلام“ کی پیروی کرتے ہوئے کتاب میں جابجا مشائخ کی تصویریں بھی درج کی ہیں، برصغیر کے اکثر علماء آج بھی جاندار کی تصاویر کے عدمِ جواز کا فتوی دیتے اور اسی پر عمل پیرا ہیں، بہترہوتا کہ موٴلف اس حوالے سے اس خطے کے اہلِ علم کی رعایت فرمالیتے۔

            بہرکیف! اس نوعیت کے طویل موسوعاتی کاموں کا تو کیا کہنا، ہر انسانی عمل میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے اور منصف مزاج شخص ہمیشہ اصلاح وتنبیہ کا خیرمقدم کرتا ہے۔ موٴلف حفطہ اللہ کی جہدِ مسلسل قابلِ داد ہے اور چار سال کے قلیل عرصہ میں اس نوعیت کا وسیع موسوعہ مرتب کرنا ان کے عزم و ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اللہ تعالیٰ انھیں مزید ہمت واستقامت سے نوازے اور ایسی علمی خدمات کی توفیق مزید بخشے، آمین یا رب العالمین!

#         #         #

مآخذ ومصادر

(۱)                          فہرس الفہارس، ج:۱، ص:۶۷، دارالغرب الاسلامي، بیروت، لبنان، ۱۴۰۲ھ-۱۹۸۲ء۔

(۲)                          الاجازات الہندیة وتراجم علمائہا، ج:۱، ص:۸۔

(۳)                          مقدمة مفتاح کنوز السنة للشیخ محمد رشید رضا، ص: و، سہیل اکیڈمی، لاہور، پاکستان․

(۴)                          مقدمة ”في مسیرة الحیاة“ للشیخ علي الطنطاوي، ج:۱، ص: دارالقلم دمشق، ۱۴۰۷ھ۔

(۵)                          الاجازات الہندیة وتراجم علمائہا، ج:۱، ص:۱۱-۱۲․

(۶)                          ایضاً، ج:۱، ص:۵-۶۔

(۷)                          یہ تفصیلی مضمون ”الاجازات الہندیة وتراجم علمائہا، جمع واعتناء الشیخ عمر بن محمد سراج حبیب اللہ“ کے عنوان سے معروف عرب ویب سائٹ ”الألوکة“ پر موجود ہے۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts