از: مولانامفتی محمد مصعب

معین مفتی دارالعلوم دیوبند

            مطالعہ اور کتب بینی کے دوران؛ نوادرات، اہم تحقیقات، علمی لطائف، سبق آموز واقعات، چند سطری مفید کلمات اوراثر انگیزعبارتیں عموماً نظر سے گذرتی رہتی ہیں، ایسے متفرق فوائد کو محفوظ کرنے اور رسالوں میں شائع کرنے کا معمول چلا آرہا ہے، اس سلسلہ کا حسن اس کی بے ترتیبی اور موضوع کا تنوع ہے۔

            ہمارے اکابر میں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے سابق صدرمفتی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی قدس سرہ نے ”ثمرات الاوراق“ کے عنوان سے دارالعلوم دیوبند کے قدیم ماہنامہ: ”القاسم“ اور ”الرشید“ میں یہ سلسلہ جاری فرمایا تھا، جس کا مجموعہ بعد میں ”کشکول“ نام سے شائع ہوا، ”السنة ومکانتہا فی التشریع الاسلامی“ کے مصنف شیخ مصطفی السباعیؒ ”دمشق“ کے مشہور عربی مجلہ ”حضارة الاسلام“ میں فرائد الفوائد“ کے عنوان سے دوسال تک علمی فوائد شائع فرماتے رہے جو ”القلائد من فرائد الفوائد“ نام سے طبع ہوا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے ”تراشے“ پر کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، قریبی وقت میں ماہنامہ ”النخیل“ کے سابق مدیر حضرت مولانا ابن الحسن عباسیؒ کا کشکول: ”کتابوں کی درسگاہ میں“ کافی مقبول ہوا۔

            اس کام کا ایک اہم فائدہ مطالعہ میں دقت وگہرائی کا حصول ہے، مزید یہ کہ اس سے وسعت مطالعہ کا مزاج بنتا ہے کہ اس کے بغیر کسی معاملے میں بصیرت وپختگی اور راہ اعتدال کو پانا مشکل ہے؛ اس لیے کہ وسعت مطالعہ ہی سے مظان بعیدہ اور غیرمتعلقہ مصادر سے مطلوبہ موادتک رسائی ہوتی ہے اورموضوع کے مختلف گوشے نکھرکر سامنے آتے ہیں، نتیجتاً ایک محقق افراط وتفریط سے بچ جاتا ہے، علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی بے نظیر تصنیف ”اکفار الملحدین“ کا ذکر یہاں فائدہ سے خالی نہ ہوگا، ترجمان کشمیری علامہ بنوریؒ لکھتے ہیں:

”اس موضوع پرقدماء ومتاخرین فقہاء، متکلمین ومفسرین کے علمی کارناموں یعنی تصانیف میں جہاں بھی غررونقول تھے، اگرچہ بعید سے بعید تر مظان میں تھے، ان سب کے جواہر ودُرَر کو حیرت انگیز غواصی کے کرشمے دکھاکر امت کے سامنے رکھ دیا․․․ تقریباً دوسو کتابوں کے صدہا اقتباسات اور حوالہ جات ہر مسئلہ اور ہر عنوان کے تحت اس حیرت انگیز استقصاء کے ساتھ جمع فرمادیے کہ دیکھنے والے کو گمان ہوتا ہے کہ شاید ساری زندگی اسی کتاب کی نذرہوگئی؛ لیکن آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ اس انداز کی یہ جامع کتاب صرف چند ہفتوں میں تصنیف فرمائی؛ لیکن یہ اسی جلیل القدر، محیرالعقول ہستی کا کارنامہ ہوسکتا تھا جس نے سارے علمی کتب خانے کھنگال ڈالے تھے اور ہر مطالعہ کی ہوئی کتاب ہمہ وقت اس طرح مستحضر رہتی تھی جیسے ابھی دیکھی ہے“(مقدمہ اکفار الملحدین، ص:۳۴، مکتبہ عمرفاروق، کراچی)

            چنانچہ اس کتاب نے اپنے موضوع پر نہایت اہم مصدر کی حیثیت اختیار کرلی، بعد میں علامہ کشمیری کے تلمیذخاص حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندیؒ نے آسان زبان میں اس کا خلاصہ رسالے کی شکل میں مرتب فرمایا جو ”جواہر الفقہ“ کی پہلی جلد میں مطبوعہ ہے۔

            یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علامہ کشمیریؒ کی بھی ایک بیاض تھی جس میں آپ علمی جواہرات نوٹ کیا کرتے تھے، علامہ ظفراحمد عثمانیؒ نے ایک موقع پر اس بیاض سے استفادہ کا تذکرہ کیاہے۔

            بہرکیف! بندہ تمام تر کوتاہ علمی کے اعتراف کے باوصف اپنے مشفق اکابر کے حکم کی تعمیل میں ایک مخصوص منہج کے ساتھ اس سلسلہ کا آغاز کررہا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو قبول فرماکر مفید ونافع بنائے، آمین۔ (محمدمصعب عفی عنہ)

”براہین قاطعہ“ کا جوہر

            سنت یا بدعت کے تعلق سے عموماً قرون ثلاثہ میں وجود وعدم وجود کی بات کہی اور لکھی جاتی ہے، اس سلسلے میں حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری قدس سرہ کا ایک قیمتی اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو حضرت کے الفاظ میں ”براہین قاطعہ“ کا جوہر اور مغز ہے۔

            حضرت سہارنپوریؒ لکھتے ہیں:

”جوشیٴ قرون ثلاثہ میں موجود ہو وہ سنت ہے اور جو بوجود شرعی موجود نہ ہو، وہ بدعت ہے، اب سنو کہ وجودِ شرعی اصطلاحِ اُصولِ فقہ میں اس کو کہتے ہیں جو بدون شارع کے بتلانے کے اور فرمانے کے معلوم نہ ہوسکے اور حس اور عقل کو اس میں دخل نہ ہو، پس اس شئے کا وجود شارع کے ارشاد پر موقوف ہوا، خواہ صراحتاً ارشاد ہو یا اشارةً ودلالةً، پس جب کسی نوع ارشاد سے حکم جواز کا ہوگیا تو وہ شئے وجود شرعی میں آگئی، اگرچہ اس کی جنس بھی خارج میں نہ آئی ہو اور معلوم رہے کہ سب احکامِ شرعیہ موجود بوجود شرعیہ ہی ہیں؛ کیونکہ حکم حلت اور حرمت کا بدون شارع کے ارشاد کے معلوم نہیں ہوسکتا، پس جس کے جواز کا حکم کلیتہً ہوگیاوہ لجمیع جزئیات شرع میں موجود ہوگیا اور جس کے عدمِ جواز کا حکم ہوگیا، توشرع میں اس کا عدم ثابت ہوگیا اور وجود اس کا مرتفع ہوگیا، پس یہ حاصل ہوا کہ جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلاثہ میں ہو خواہ وہ جزئیہ بوجود خارجی ان قرون میں ہو ایا نہ ہوا اور خواہ اس کی جنس کا وجود خارج میں ہوا ہویا نہ ہوا ہو، وہ سب سنت ہے اور وہ بوجود شرعی ان قرون میں موجود ہے اور جس کے جواز کی دلیل نہیں تو خواہ وہ ان قرون میں بوجود خارجی ہوا یا نہ ہوا؛ وہ سب بدعتِ ضلالہ ہے۔

اور یہ بھی سنوکہ اُس زمانہ کا شیوع بلانکیر؛ دلیل جواز کی ہے اور نکیرہونا اس پر دلیل عدمِ جواز کی ہے، علیٰ ہذا اس کی جنس پر نکیر ہونا دلیل اس کے عدمِ جواز کی اور قبول کرنا جنس کا؛ دلیل اس کے جواز کی ہوتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ حکم کا اثبات قرآن وحدیث سے ہی ہوتا ہے اور قیاس مظہرحکم کا ہے مثبت حکم کا نہیں ہوتا، پس جو قیاس سے ثابت ہوتا ہے وہ بھی کتاب وسنت ہی سے ثابت ہوتا ہے، اس قاعدہ کو خوب غور کرنا اور سمجھ لینا ضرور ہے․․․․ اس عاجز کو اپنے اساتذہ جہابذہ کی توجہ سے حاصل ہوا ہے، اس جوہر کو اس کتاب (براہین قاطعہ) میں ضرورة رکھتا ہوں کہ اپنے موافقین کو نفع ہو اور مخالفین کو شاید ہدایت ہو، اگر اس کو خوب نگہداشت کیا جائے تو تمام اس رسالہ (انوار ساطعہ) اور دیگر رسائل مبتدعین کی خطا واضع ولائح رہے“۔ (براہین قاطعہ، ص:۲۸،۲۹، مطبع قاسمی دیوبند)

فوائد

            فائدہ(۱) مذکورہ اقتباس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:

            # وجودِ شرعی؛ اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا براہ راست امر شارع سے تعلق ہے، حس اور عقل کا اس میں کوئی دخل نہیں؛ ہاں شارع کا ارشاد کبھی صراحتاً ہوتا ہے اور کبھی اشارةً اور دلالةً ہوتا ہے۔

            # اگر کسی امر کے بارے میں شارع کی طرف سے جواز ثابت ہوگیا تو اس کو وجودِ شرعی کہا جائے گا، خواہ اس کی جنس خارجاً وجود میں نہ آئی ہو۔

            # شریعت کے جتنے احکام ہیں، خواہ ان احکام کا تعلق حلت سے ہو یا حرمت سے؛ سب کو موجودبوجود شرعیہ کہا جائے گا۔

            # اگر شارع کی طر ف سے کسی چیز کا جواز کلیة ہوگیا، تو اس کے جزئیات کو بھی شریعت کی رو سے موجود کہا جائے گا، ہر ہر جزئی کے جواز کی نہ تصریح ضروری ہے اور نہ خارجاً وجود ضروری ہے، اسی طرح جس کا عدم جواز ثابت ہوگیا، تو اس کو سارے جزئیات کے ساتھ شریعت میں معدوم مانا جائے گا۔

            # قرونِ ثلاثہ میں کسی امر کا اس طرح شائع ہونا کہ اس پر نکیرنہ کی گئی ہو؛ جواز کی دلیل ہے۔

            # قرون ثلاثہ میں اگر کسی امر پر نکیر ثابت ہو، تو یہ اس کے عدم جواز کی دلیل ہے۔

            # بعد کے ادوار میں اگر کوئی امر ایسا ہو کہ قرون ثلاثہ میں اس کی جنس پر نکیر ثابت ہو، تو یہ بھی اس کے عدم جواز کی دلیل ہے، خاص اس جزء پر نکیر ہونا ضروری نہیں ہے، اسی طرح بعد کے ادوار میں اگر کوئی امر ایسا ہو کہ قرون ثلاثہ میں اس کے جنس کا شیوع بلانکیر ثابت ہوتو یہ جواز کی دلیل ہے۔

            # حکم شرعی کا اثبات قرآن وحدیث سے ہی ہوتا ہے اور قیاس کی حیثیت مظہر حکم کی ہے مثبت حکم کی نہیں؛ لہٰذا جو قیاس سے ثابت ہوتا ہے وہ بھی درحقیقت کتاب وسنت ہی سے ثابت ہوتا ہے۔

            # مذکورہ نتائج کا حاصل یہ نکلتا ہے جس امر کے جواز کی دلیل قرونِ ثلاثہ سے ثابت ہو خواہ اس جزئیہ کا ان قرون میں وجود ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور خواہ اس کی جنس کا وجود خارج میں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، وہ سب سنت (مشروع) ہے، اس کو ان قرون میں موجود ہی مانا جائے گا اور جس کے جواز کی دلیل (قرون ثلاثہ میں) نہیں ہے تو خواہ ان قرون میں اس کا خارجاً وجود ہوا ہو یا نہ ہوا ہو؛ وہ سب بدعتِ ضلالہ ہے، لہٰذا سنت وبدعت کے باب میں قرون ثلاثہ میں موجود ہونے کا مطلب یہ سمجھنا کہ خاص یہ جزئی حادث ہوکر خارج میں آگئی ہو اور موجود نہ ہونے کا مطلب یہ سمجھنا کہ خاص اس جزئی نے ان قرون میں وجود خارجی نہ پایا ہو؛ بالکل غلط ہے۔

            بہرحال! یہ قاعدہ واقعی ایک جوہر ہے، جس کا ایک ایک جملہ بجائے خود ضابطے کی حیثیت رکھتا ہے، اس سے ”براہین قاطعہ“ کی اہمیت اور حضرت سہارنپوریؒ کی فقاہت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، فقیہ النفس حضرت گنگوہی قدس سرہ نے بجا طور پر لکھاہے:

”فی الواقع یہ ”براہین قاطعہ“ اپنے مصنف کی وسعتِ نورِ علوم دینیہ، فسحتِ ذکاء وفہم، و حسنِ تقریر، وبہائے تحریر پر دلیل واضح ہے“۔

            فائدہ:(۲) مذکورہ اقتباس میں سنت؛ مشروع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

            فائدہ:(۳) حضرت سہارنپوریؒ نے بدعت کے تعلق سے ایک غلط مفہوم کی اصلاح فرمائی ہے اور صاحب انوارساطعہ کی بحث کے تناظر میں یہ اقتباس لکھا ہے، ورنہ بدعت کی حقیقت کو آسان تعبیر میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی قدس سرہ جن کو حضرت تھانویؒ نے اپنی کئی تصانیف پر نظرثانی کی ذمہ داری سونپی تھی؛ لکھتے ہیں:

بدعت؛ ہر ایسی نئی بات کو کہتے ہیں جو نہ نصوص میں منصوص ہو اور نہ ان سے مستنبط ہو، یعنی: جوامور مستندالی الدلائل الشرعیہ نہیں ہیں، وہ بدعت ہیں۔ (ضمیمہ ثانیہ اختری بہشتی زیور حصہ اوّل مسمہ بہ تصحیح الاغلاط وتنقیح الاخلاط، صفحہ:۹۴)

            فائدہ:(۴) حضرت مولانا شاہ محمداسماعیل شہیدقدس سرہ کی تصنیف ایضاح الحق الصریح میں بدعت سے متعلق اصولی انداز پر مفصل بحث کی گئی ہے، خصوصاً دینی امور میں اوقات،مقامات، تعداد اور مخصوص ہیئت کے تعین اور دینی امور میں مراتب کے تحفظ، خلفائے راشدین اور دیگر اسلاف کی اولیات کی حیثیت اور ائمہ مجتہدین کے استنباطات کی نوعیت کے سلسلے میں اچھی بحث ہے، اس رسالہ کے ساتھ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا رسالہ رسالہ: اعداد الجنة للتوقی عند الشبہة فی اعداد البدعة والسنة؛ بھی دیکھنا چاہیے، جو امداد الفتاویٰ:۱۰/۳۸۱، جدید میں شامل ہوکر مطبوعہ ہے، نیز جواہرالفقہ: (۱/۴۵۹، زکریا، دیوبند) میں سنت وبدعت کے عنوان سے ایک رسالہ ہے، جس میں آسان اور عام فہم انداز میں بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ عربی مصادر کے لیے دیکھیں: علامہ برکویؒ کی الطریقة المحمدیة والسیرة الاحمدیة، ص:۵۱، دارالقلم، دمشق، علامہ عبدالغنی نابلسی کی الحدیقة الندیة شرح الطریقة المحمدیة: ۱/۹۶ اور علامہ شاطبیؒ کی الاعتصام:۱/۴۹ تا ۵۶، الباب الاوّل: تعریف البدع، دارابن عفان، السعودیة۔

فقہائے سبعہ اور ان کے اجتماعی غوروخوض کا معمول

            حافظ عبدالقادرقرشیؒ (م:۷۷۵ھ)؛ ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کو محدثین نے حافظِ حدیث کا لقب دیا ہے، امام ذہبیؒ کی ”تذکرة الحفاظ“ کا ذیل؛ ”لحظ الالحاظ“ میں حافظ ابن فہدؒ نے آپ کا تذکرہ لکھا ہے، حافظ قرشیؒ اپنی مشہور تصنیف ”الجواہر المضیة فی طبقات الحنفیة“ میں لکھتے ہیں کہ فقہاءِ سبعہ؛ حسبِ ذیل حضرات ہیں:

            (۱) سعیدبن المسیبؓ (۲) عروہ بن زبیرؓ (۳) قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیقؓ (۴) خارجہ بن زید بن ثابتؓ (۵) عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودؓ (۶) سلیمان بن یسارؓ اور ساتویں کی تعیین میں تین اقوال ہیں:

            (۱) ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوفؓ، حاکم ابوعبداللہ نے اکثر علماءِ حجاز کا یہی قول نقل کیا ہے۔

            (۲) سالم بن عبداللہ بن عمر بن الخطابؓ، یہ ابن مبارکؒ کا قول ہے۔

            (۳) ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشامؓ، یہ ابوالزنادؒ کا قول ہے اور اسی قول کے مطابق کسی شاعر نے ان سب کو جمع کردیا ہے؛ چنانچہ وہ کہتا ہے:

الا ان من لا یقتدي بائمة                      #                                     فقسمتہ ضیزیٰ من الحق خارجة

فخذہم عبید اللّٰہ عروة قاسم                                                #                                     سعید ابوبکر سلیمان خارجة

(الجواہر المضیة: ج۲،ص۴۲۱-۴۲۲، میر محمد کتب خانہ، کراچی)

علامہ قاسم بن قطلوبغاؒ کے شاگرد حافظ سخاویؒ فتح المغیث میں لکھتے ہیں:

”یہ ساتوں فقہاءِ کرام وہ ہیں جو اپنے زمانے میں مدینہ طیبہ میں علمِ فقہ و حدیث کا مرجع تھے، امام ابن مبارکؒ کا بیان ہے:

وکانوا اذا جائتہم المسألة دخلوا فیہا جمیعا فنظروا فیہا، ولا یقضي القاضي حتی ترفع الیہم فینظرون فیہا فیصدرون․

جب کوئی مسئلہ آتا یہ سب ایک ساتھ مل کر اس پر غور کرتے تھے اور جب تک وہ ان کے سامنے پیش ہوکر طے نہ ہوجاتا، قاضی اس کی بابت کوئی فیصلہ صادر نہ کرتا تھا“۔ (فتح المغیث بشرح الفیة الحدیث: ۴/۱۵۳، ذکر الفقہاء السبعة، مصر، مزید دیکھیں: حاشیہ امام ابن ماجہ اور علم حدیث، ص:۲۹،۳۰، نور محمد، آرام باغ، کراچی)

شعر وشاعری کی شرعی حیثیت

            حضرت مولانا مفتی محمدشفیع دیوبندی قدس سرہ نے شعروشاعری کی شرعی حیثیت کے تعلق سے چند سطریں لکھی تھیں جو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی تعبیر میں شعروشاعری کی حقیقت واضح کرنے کے لیے طویل مقالوں پر بھاری ہیں۔

            حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:

”شعر ہر سلیم الطبع انسان کا فطری ذوق ہوتا ہے، اس سے بہت سے اچھے کام بھی نکلتے ہیں جو نثر عبارت سے حاصل نہیں ہوسکتے، انسان کی طبیعت کو کسی خاص چیز پر آمادہ کرنے کے لیے شعر بڑا کام کرتا ہے؛ مگر وہ دودھاری تلوار ہے، اپنی حفاظت کا سامان بھی بن سکتی ہے اور ہلاکت کا بھی، دنیا میں عام معاملات کی طرح اس میں بھی بڑی افراط وتفریط ہوتی چلی آتی ہے، بہت سے وہ لوگ ہیں جنھوں نے سارا علم وہنر شعر و سخن ہی کو قرار دے کر اپنی زندگی اس کے لیے وقف چھوڑی اور پھر اس دریا میں ایسے غرق ہوئے کہ حلال وحرام اورنیک وبدکا بھی امتیاز نہ رہا اور بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کو ایک شجرہ ممنوعہ سمجھتے ہیں، صحیح اور معتدل تعلیم وہ ہے جو اس کے متعلق حکیم الحکماء، امام الانبیاء ﷺ نے اپنے قول وعمل سے دی ہے کہ شعر اپنی ذات میں نہ اچھا ہے نہ برا؛ بلکہ نثر کلام کی طرح اپنے مضمون اور مقصود کے اعتبار سے اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی“۔ (میرے والد میرے شیخ اور ان کا مزاج ومذاق، ص:۲۳، ادارة المعارف، کراچی)

———————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ :9-8،    جلد:106‏،  محرم الحرام – صفرالمظفر 1444ھ مطابق   اگست-ستمبر 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts