بقلم: مولانامحمد عارف جمیل قاسمی مبارکپوری
استاذ دارالعلوم دیوبند
قرآن کریم میں سبب سے زیادہ بنی اسرائیل اور موسی علیہ السلام کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کے واقعات پڑھتے ہوئے ہم ایک اہم واقعہ سے گزرتے ہیں، جس کو قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ وہ واقعہ حضرت موسی علیہ السلام کا مدین میں مقررہ مدت پور ی کرنے کے بعد اپنے اہل خانہ کو لے مصر کی طرف روانگی کاہے،اور اسی سفر میں ان کو نبوت سے سرفراز کیا گیا،ایک جگہ پہنچ کر وہ راستہ بھٹک جاتے ہیں، رات کا وقت،گھٹا، اندھیرا،سخت سردی کا موسم،کسی راہ بتانے والے اور آگ کی ضرورت محسوس ہوئی، دور سے انھیں آگ نظر آئی تو گھر والوں کو روک کر فرمایا کہ تم یہیں ٹھہرو،مجھے آگ نظر آرہی ہے، شاید وہاں کوئی راہ بتانے والا مل جائے یا آگ کا شعلہ ہی لیتا آؤں؛ تاکہ سردی سے بچ سکیں۔
اس واقعہ کو قرآن کریم نے تین سورتوں میں بیان کیا ہے، لیکن ہرجگہ الفاظ میں تھوڑا بہت فرق ہے،مثلا:
۱- سورت طہ میں ہے: فقال: ﴿إِذْ رَأَی نَارًا فَقَالَ لِأَہْلِہِ امْکُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّی آتِیکُمْ مِنْہَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی﴾(طہ:۱۰)،یہاں صرف لفظ (قبس)آیاہے۔
۲- سورت نمل میں ہے: ﴿آتِیکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ﴾(نمل:۷)،یہاں (بشہاب قبس)آیاہے۔
۳- سورت قصص میں ہے: ﴿جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ﴾ (قصص:۲۹)، یہاں (جذوة من النار) آیاہے۔
سورت طہٰ والی آیت کاحضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے ترجمہ(شاید لے آؤں تمہارے پاس اُس میں سے سلگا کر یا پاؤں آگ پر پہنچ کر رستہ کا پتہ)کیا ہے،جب کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کا ترجمہ (شاید اس میں سے تمہارے پاس کوئی شعلہ لاؤں یا (وہاں)آگ کے پاس رستہ کا پتہ مجھ کو مل جائے)کیاہے۔
جب کہ سورت نمل میں لفظ (قبس)کو (شہاب)کی صفت بناکر لایا گیاہے، حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یوں کیاہے (اب لاتا ہوں تمہارے پاس وہاں سے کچھ خبر یا لاتا ہوں انگارا سلگا کر شاید تم سینکو) اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:( میں ابھی (جا کر) وہاں سے (یا تو راستہ کی)کوئی خبر لاتا ہوں یا تمہارے پاس (وہاں سے)آگ کا شعلہ کسی لکڑی وغیرہ میں لگاہوا لاتا ہوں تاکہ تم سینکو)۔
جب کہ سورت قصص میں اس سے بالکل الگ الفاظ (جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ)آئے ہیں،جس کا ترجمہ شیخ الہند رحمہ اللہ نے (انگارا آگ کا)کیا اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے (کوئی آگ کا ”دھکتا ہوا“ انگارا)کیاہے۔
عربی تفسیروں میں ان تینوں الفاظ (قبس،شہاب، جذوہ)کی مفصل تشریح کی گئی ہے:
مثلا:ابن قتیبہ کہتے ہیں:(شہاب)کے معنی آگ ہے اور(قبس) وہ آگ جو کسی جگہ سے لی جائے۔کہتے ہیں: قَبَسْتُ النار قَبْسًا، واسم ما قَبَستَ: قَبَسٌ․(۱)
ماور دی (أَوْ ء اتِیکُم بِشہَابٍ قَبَسٍ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:شہاب:روشن شعلہ۔ اسی مفہوم میں اس ستارہ کو شہاب کہا جاتاہے،جس کی روشنی آسمان میں گزرتی ہے،عربی کا شعرہے:
فِی کَفِّہِ صَعْدَةٌ مُثَقَّفَةٌ ․․․ فِیہَا سِنَانٌ کَشُعْلَةِ الْقَبَسِ․(۲)
( اس کے ہاتھ میں ایک سیدھا نیزاہے،جس کی انی شعلہ کی طرح ہے)۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ (أو آتیکم بشہاب)کی تفسیر میں لکھتے ہیں:لکڑی وغیرہ کے سرے میں جو آگ لی جاتی ہے ا س کو (شہاب)کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس کے بعد اس کی تخصیص (قبس) سے کی گئی؛کیوں کہ (شہاب) مقبوس اور غیر مقبوس دونوں ہوتاہے۔ اور (قبس)آگ کا وہ حصہ جو کسی لکڑی وغیرہ میں لیا جائے،جیسے (قبض) مقبوضہ چیز کو کہتے ہیں، اسی مفہوم میں ابو زید کا شعر ہے:
فِی کَفِّہِ صَعْدَةٌ مُثَقَّفَةٌ ․․․ فِیہَا سِنَانٌ کَشُعْلَةِ الْقَبَسِ․(۳)
( اس کے ہاتھ میں ایک سیدھا نیزاہے،جس کی انی شعلہ کی طرح ہے)۔
اسی مفہومیں ایک دوسرے شعر کا یہ مصرع ہے:
من شاء من نار الجحیم اقتبسا
(جس کی خواہش ہووہ جہنم کے آگ کا ایک حصہ حاصل کرلے)۔
اصل میں (شہاب) اس ستارے کو کہتے ہیں،جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرنے و الے شیطان کے تعاقب میں ٹوٹتاہے۔ہر روشن چیزکوتشبیہ کی وجہ سے (شہاب)کہا جاتاہے۔ زجاج کہتے ہیں:ہر سفید روشن چیز شہاب ہے؛ لیکن زجاج کے کلام پر اعتراض کیا گیاہے۔لفظ (قبس)کو اسم غیر صفت کہہ سکتے ہیں اور اسم صفت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگر اس کو اسم غیر صفت قراردیں تو اضافت بمعنی (بشہاب اقتبستہ أو اقتبسہ) ہوگی اور اگر بمعنی صفت لیں تو اس میں اضافت اسی طرح ہے جیسے (دار الآخرة) میں (دار)کی اضافت(الآخرة)کی طرف ہے یا جیسے (صلاة الأولی) میں (صلاة) کی اضافت (الأولی)کی طرف ہے(۴)۔
خازن کہتے ہیں:(قبس) وہ آگ جو کسی جگہ سے لی گئی ہو۔ ایک قول کے مطابق(قبس)وہ لکڑی جس کے ایک کنارے میں آگ ہو(۵)۔
ابن عاشور کہتے ہیں:”شہاب:دہکتا شعلہ۔ قبس:انگارہ یا آگ کا وہ شعلہ جو کسی دوسری جگہ سے حاصل کیا جائے تاکہ ایندھن یا آگ کی بتی وغیرہ کو جلایا جائے“(۶)۔
علامہ بقاعی (أو آتیکم بشہاب) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:(شہاب) یعنی آگ کا اٹھتاہوا شعلہ اور(قبس) یعنی خشک لکڑی جس کو بڑی آگ سے جلایا جائے، جس میں مکمل طور پر آگ پکڑ چکی ہو اور نہ بجھے۔امام بغوی کہتے ہیں کہ بعض حضرات کا کہناہے کہ شہاب:ستون کے مشابہ ہر نورانی چیز کو کہتے ہیں۔اہل عر ب ہرسفید نورانی چیز کو شہاب کہتے ہیں۔اور (قبس)آگ کا حصہ(۷)۔
آلوسی کہتے ہیں: (بقبس)وہ شعلہ جو لکڑی وغیرہ کے کنارے پر کسی آگ سے حاصل کیا گیاہو۔ فَعَل(قَبَس) کاوزن بمعنی (مفعول)ہے۔ اور شہاب سے مراد (قبس)ہے، اور (جذوہ)سے مراد دوسری آیت میں یہی ہے، اس کی تفسیر انگارے سے کرنا صحیح نہیں (۸)۔
جذوة:
اس کے بارے میں زمخشری کہتے ہیں: ”اس میں جیم پر تینوں حرکتیں(ضمہ،فتحہ، اور کسرہ) ہیں۔اس میں تینوں قراء تیں ہیں۔اس سے مرادموٹی لکڑی جس کے سرے پر آگ ہو یا نہ ہو، شاعر کثیر کہتے ہیں:
باتت حواطب لیلی یلتمسن لہا ․․․ جَزْل الجِذَی غیر خَوَّارٍ وَلَا دُعَرِ․(۹)
(لیلیٰ کے لیے رات میں لکڑیاں چننے والی خواتین،اس کے لیے درخت کی بھاری جڑوں کو تلاش کرتی رہیں،جو کم زور اور پرانی نہ ہوں)۔
ابن عطیہ کہتے ہیں:(أَوْ جَذْوَةٍ)آگ کا ٹکڑا جو کسی بڑی لکڑی میں ہو، جس میں شعلہ نہ ہو۔یہ انگارہ ہوتا ہے،اسی مفہومیں شاعر کا یہ قول ہے:
باتت حواطب لیلی یلتمسن لہا ․․․ جَزْل الجِذَی غیر خَوَّارٍ وَلَا دُعَرِ
اس کے بعد ابن عطیہ کہتے ہیں:اصل میں (جذوة)درخت کی جڑ کو کہتے ہیں،دیہاتی اس کو ہمیشہ جلانے کے کام میں لاتے ہیں،جذوہ کا حقیقی مفہوم یہی ہے،اسی مفہومیں سلمی شاعر کا یہ شعر ہے، جس میں وہ آگ کا ذکر کرتاہے:
حُمّٰی حُبِّ ہذی النارِ حُبُّ خلیلتی ․․․ وحُبُّ الغوانی فہو دونَ الحبائبِ
وبُدِّلْتُ بعد المِسْکِ والبانِ شِقْوةً ․․․ دخانَ الجُذا فی رأسِ أشمطَ شاحبِ(۱۰)
(اس آگ کی محبت کا بخار،میر ی معشوقہ کی محبت کی طرح ہے، اور حسیناؤوں کی محبت، معشوقاؤں کی محبت سے کم ہے۔
مجھے مشک اور درخت بان کے بعد،بد بختی کی وجہ سے بدلے میں درخت کی جڑوں کا دھواں،پراگندہ بال اور پھیکے رنگ کے سر میں ملا)۔
ابن عاشور کہتے ہیں:”جذوہ“ میں جیم پر تینوں حرکتیں ہیں،اور اس میں تینوں قراء تیں ہیں۔ جمہور کے نزدیک جیم پر کسرہ ہے؛ البتہ امام عاصم اس پر فتحہ جب کہ حمزہ اور خلف اس پر ضمہ پڑھتے ہیں۔جذوہ:موٹی لکڑی کو کہتے ہیں۔ ایک قول مطلقاً لکڑی کا ہے۔ایک اور قول کے مطابق شعلہ زن لکڑی کو جذوہ کہتے ہیں۔القاموس میں یہی لکھا ہے۔ پہلے قول کے مطابق جذوہ کی صفت (من النار) صفت مخصص ہے۔اور دوسرے قول کے مطابق صفت کاشف ہے۔ پہلی صورت میں (من) بیانیہ اور دوسری صورت میں تبعیضیہ ہے (۱۱)۔
ماوردی نے (جذوہ)کے معنی میں چار اقوال نقل کیے ہیں:
اول:درخت کی جڑ جس میں آگ ہو۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔
دوم:لکڑی جس کے ایک حصہ میں آگ ہو، اوردوسرے حصہ میں نہ ہو۔ یہ کلبی کا قول ہے۔
سوم:ایسی لکڑی جس میں آگ ہو ؛لیکن شعلہ نہ ہو۔یہ زید بن اسلم کا قول ہے۔
چہارم:شعلہ دار آگ۔ یہ ابن عباس کا قول ہے، شاعر کہتاہے:
وألقی علی قبس من النار جذوةً ․․․ شدیدٌ علیہا حمیہا والتہابہا․(۱۲)
(لائی گئی آگ پر،موٹی لکڑی ڈال دی،جو سخت گرم اوربھڑک دار تھی)۔
آلوسی کہتے ہیں:جذوہ موٹی لکڑی کو کہتے ہیں خواہ اس کے سرے پر آگ ہو،جیسا کہ اس شعرمیں وارد ہے:
وألقی علی قبس من النار جذوة ․․․ شدیدًا علیہا حرہا والتہابہا
(لائی گئی آگ پر،موٹی لکڑی ڈال دی،جو سخت گرم اوربھڑک دار تھی)۔
یا اس کے سرے پر آگ نہ ہو، جیساکہ اس شعرمیں وارد ہے:
باتت حواطب لیلی یلتمسن لہا ․․․ جَزْل الجِذَی غیر خَوَّارٍ وَلَا دُعَرِ
(لیلیٰ کے لیے رات میں لکڑیاں چننے والی خواتین،اس کے لیے درخت کی بھاری جڑوں کو تلاش کرتی رہیں،جوٹوٹی ہوئی اور پرانی نہیں) (۱۳)۔
اسی وجہ سے (جیساکہ بعض محققین نے فرمایا)اس کا بیان (من النار)کے ذریعہ لایا گیا،اور اس کو خود آگ قراردینا مبالغہ کے طورپر ہے،گویا کہ اس میں آگ کے لپٹنے کی وجہ سے وہ خو د آگ بن گئی۔امام راغب کہتے ہیں:جذوہ اس لکڑی کو کہتے ہیں جو جلنے کے بعد باقی رہ جائے۔ابو حیان کا قول بھی اسی مفہوم میں ہے کہ جذوہ ایسی لکڑی جس میں بلاشعلہ کے آگ ہو۔ابن ابو حاتم نے ابن زید کا یہ قول نقل کیاہے:جذوہ ایسی لکڑی جس میں آگ ہے(۱۴)۔
حاصل کلام یہ ہے کہ (قبس) آگ میں سے کوئی حصہ لینا ہے۔اورشہاب:آگ کا اٹھتاہوا شعلہ ہے۔ اور جذوہ:انگارہ ہے۔یعنی وہ حصہ جس میں آگ ہو لیکن شعلہ نہ ہو۔ اگر اس میں شعلہ بھی ہوتو اس کو شہاب کہتے ہیں،جیسا کہ اس کو شعلہ کہتے ہیں۔اوراگر اس میں دہکتاہوا حصہ لے لیں تو اس کو شہاب قبس کہتے ہیں اوراگر ایسا حصہ لیں جو دہکتانہ ہوتوا س کو جذوہ کہتے ہیں،جس میں نہ دہکتا ہوا شعلہ ہوتاہے،لہٰذا قبس کا لفظ جذوہ اور شہاب کو شامل و عام ہوا۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب واقعہ ایک ہے تو اس کو مختلف جگہوں پر بیان کرتے وقت الفاظ میں اختلاف کیوں ہوگیا ؟کیا اس کا مقصد محض اسلوب کا تنوع ہے،یا اس میں کوئی حکمت ومناسبت بھی ہے ؟
ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم حرف بہ حرف اللہ کا کلام ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔اسی طرح ایک مسلمان یہ بھی عقیدہ ہے کہ اس کا ہر لفظ اپنی جگہ پر نہایت مناسب ہے،اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی یا رد وبدل جائز نہیں۔قرآن کریم نے جس لفظ کو جہاں استعمال کیا ہے، اس جگہ وہی لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا۔یہی فصاحت وبلاغت کا تقاضا ہے۔
مذکورہ سوال کا جوا ب سمجھنے کے لیے ہمیں ان سورتوں خاص طورپر سورت قصص اور سورت نمل پر ایک تفصیلی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سورت قصص میں یہ قصہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے،جب کہ سورت نمل میں اجمال و اختصار کے ساتھ ہے؛لہٰذا دونوں سورتوں میں اس کے مناسب الفاظ واسالیب استعمال کیے گئے۔ نیز یہ بھی مدنظر رہے کہ سورت نمل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکریم واعزاز کا مقام،سورت قصص کے مقابلہ زیادہ واضح اورنمایاں ہے۔سورت قصص میں قصہ کے ماحول پر خوف کا عنصر غالب ہے، اس میں جگہ جگہ حضرت موسی کے تعلق سے خوف کا اظہار کیا گیاہے۔مثلا:
۱- حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر خوف کا ماحول نظر آتاہے،ولادت کے وقت ان کی والدہ کو فرعون کا خدشہ اورخوف تھا کہ اگر حضرت موسی کے بارے میں اس کو علم ہوگیا تو ان کو ذبح کیے بغیر نہیں چھوڑے گا،اس کا ذکر قرآن کریم نے اس انداز میں کیاہے:
(وَأَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیہِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَأَلْقِیہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِی وَلَاتَحْزَنِی إِنَّا رَادُّوہُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِینَ) (قصص:۷)
۲- ان کی والدہ کو مزید خوف محسوس ہوتاہے، جس کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایاہے:
(وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَی فَارِغًا إِنْ کَادَتْ لَتُبْدِی بِہِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَی قَلْبِہَا لِتَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ) (قصص:۱۰)
۳- ان کی والدہ کے بعد خود حضرت موسی علیہ السلام کو اس وقت خوف لاحق ہوتاہے جب وہ غلطی سے ایک فرعونی کو قتل کردیتے ہیں، فرمان باری ہے: (فَأَصْبَحَ فِی الْمَدِینَةِ خَائِفًا یَتَرَقَّبُ) (قصص:۱۸)۔ انتقاماً قتل کیے جانے کے خوف کے بعد ایک خیر خواہ کے مشورہ سے وہ مصر سے نکل جاتے ہیں، فرمان باری تعالی ہے: (فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ) (قصص:۲۱)۔ وہ یہاں سے نکل کر مدین پہنچتے ہیں او رحضرت یعقوب سے ملاقات ہوتی ہے، اپنا ماجرا بیان کرتے ہیں، حضر ت یعقوب انھیں تسلی دیتے ہیں (وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ) (قصص:۲۵)۔
اس قصہ میں اخیر تک خوف کا عنصر نظر آتاہے،حتی کہ جب اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس جاکر اللہ کا پیغام پہنچائے تو موسی علیہ السلام عرض کرتے ہیں: (قَالَ رَبِّ إِنِّی قَتَلْتُ مِنْہُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ یَقْتُلُونِ) ( قصص:۳۳)۔ اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا معاون بنانے کی درخواست کرتے ہیں: (وَأَخِی ہَارُونُ ہُوَ أَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا فَأَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْئًا یُصَدِّقُنِی إِنِّی أَخَافُ أَنْ یُکَذِّبُونِ)(قصص:۳۴)۔
اس کے برعکس سورتِ نمل میں قصہ کے اندر خوف کا ذکر صرف ایک جگہ ملتاہے،جب ان کو اپنی لاٹھی زمین پر ڈالنے کا حکم ہوتاہے۔ فرمانِ باری ہے: (وَأَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَلَّی مُدْبِرًا وَلَمْ یُعَقِّبْ یَا مُوسَی لَا تَخَفْ إِنِّی لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُونَ)(نمل:۱۰)۔
بہر کیف دونوں سورتوں میں موقع ومقام الگ الگ ہے، اسی وجہ سے ہر ایک میں الگ الگ انداز واسلوب اختیار کیا گیاہے،جس کی تفصیل یہ ہے:
۱- سورت نمل میں ہے (إِنِّی آنَسْتُ نَارًا)(۷)،جب کہ سورت قصص میں ہے: (آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَارًا)(۲۹)۔یہاں (مِنْ جَانِبِ الطُّورِ) کا اضافہ ہے،اس کی وجہ یہی ہے کہ سورت قصص کی بنیاد تفصیل پر رکھی گئی ہے،اور سورت نمل میں مقصود اجمال واختصار ہے۔
۲- سورت نمل میں ہے: (إِذْ قَالَ مُوسَی لِأَہْلِہِ إِنِّی آنَسْتُ نَارًا)(۷)،جب کہ سورت قصص میں ہے: (قَالَ لِأَہْلِہِ امْکُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَارًا)(۲۹)۔ یہاں (امْکُثُوا) کا اضافہ ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں سورتوں میں اجمال وتفصیل کے لحاظ سے فرق ہے جیساکہ ابھی بیان کیا گیاہے۔
۳- سورت نمل میں ہے: (سَآتِیکُمْ مِنْہَا بِخَبَرٍ)، جب کہ سورت قصص میں ہے: (لَعَلِّی آتِیکُمْ مِنْہَا بِخَبَرٍ)۔سورت نمل میں قطعی طورپر کہا (سَآتِیکُمْ)یعنی میں لے آؤں گا،جب کہ سورت قصص میں رجاء وامید کے طورپر فرمایا: (لَعَلِّی آتِیکُمْ)؛کیوں کہ سورت قصص میں خوف کے مقام کی وجہ سے ان کے لیے قطعی طورپر اس کا وعدہ کرنا ممکن نہ تھا،اورچوں کہ سورت ِنمل میں خوف کا ذکر نہیں؛ اس لیے اس میں وثوق وقطعیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔
ایک اور پہلو سے دیکھا جائے کہ سورتِ نمل میں جو کچھ مذکور ہے وہ حضرت موسی علیہ السلام کی تکریم واعزاز کے مقام کے مناسب ہے، جب کہ سورت قصص کا ماحول ومقام الگ ہے؛اس لیے اس کے مناسب اسلوب وانداز اختیار کیا گیا۔
یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ ہر تعبیر سورت کے اس ماحول کے مناسب ہے جس میں قصہ کا تذکرہ کیا گیاہے؛ چناں چہ سورت قصص کے اندر ترجی وامید کا پہلو نمایاں ہے؛لیکن سورت نمل میں قطعیت کا پہلو نمایاہے،مثلا سورت قصص میں ہے:
۱- (عَسَی أَنْ یَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ)(۹)۔
۲- (قَالَ عَسَی رَبِّی أَنْ یَہْدِیَنِی سَوَاء َ السَّبِیلِ)(۲۲)۔
۳- (لَعَلِّی آتِیکُمْ مِنْہَا بِخَبَرٍ)(۲۹)۔
۴- (لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ)(۲۹)۔
۵- (لَعَلِّی أَطَّلِعُ إِلَی إِلَہِ مُوسَی وَإِنِّی لَأَظُنُّہُ مِنَ الْکَاذِبِینَ)(۳۸)۔
۶- (لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ) (۴۳،۴۶،۵۱)۔
۷- (فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَی أَنْ یَکُونَ مِنَ الْمُفْلِحِینَ)(۶۷)۔
۸- (وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ)(۷۳)۔
سورت قصص کے ان دس مقامات پر ترجی ہے؛جب کہ سورت نمل میں صرف دو جگہوں پر ترجی ہے:
۱- (لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ)(۷)، ۲- (لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ)(۴۶)۔
سورت نمل میں قطعیت ویقین کا انداز باربار آیاہے،مثلا:
۱- فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَقِینٍ)(۲۲)۔
۲- عفریت کی زبانی فرمایا گیا: (قَالَ عِفْرِیتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَإِنِّی عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ أَمِینٌ)(۳۹)۔
۳- صاحب علم کتاب کی زبانی فرمایا گیا: (قَالَ الَّذِی عِنْدَہُ عِلْمٌ مِنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَنْ یَرْتَدَّ إِلَیْکَ طَرْفُکَ)(۴۰)۔
آپ دیکھ رہے ہیں ترجی،سورت قصص کے مشمولات کے مناسب ہے تو قطعیت ویقین سورتِ نمل کے مضامین کے مناسب ہے؛ اس لیے ہر جگہ اس کے مناسب اسلوب اختیار کیا گیاہے۔
۴- سورت نمل میں ہے: (أَوْ آتِیکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ)(۷)۔اور سورت قصص میں ہے: (قَالَ لِأَہْلِہِ امْکُثُوا إِنِّی آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّی آتِیکُمْ مِنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ)(۲۹)۔
سورت نمل (شہاب قبس)آیاہے،شہاب:آگ کا اٹھتاہوا شعلہ کہلاتاہے (۱۵) اور قبس: آگ کا وہ شعلہ جو کسی بڑی آگ سے حاصل کیا جائے،کہتے ہیں: قبس یقبس منہ نارا یعنی آگ حاصل کرنا، نیز: قبس العلم:علم حاصل کرنا (۱۶)۔
(شہاب)کے بعد (قبس)لاکر یہ بتادیاکہ یہ شعلہ آگ سے حاصل کیا گیا ہے،اس کو اچک کر یا اٹھاکر نہیں لایاگیا؛اس لیے کہ (شہاب)کا اطلاق مقبوس وغیر مقبوس دونوں پر ہوتاہے(۱۷)۔ اس تعبیرسے قوت اور دل کی پختگی کا اندازہ ہوتاہے کہ حضرت موسی علیہ السلام آگ کے پاس جائیں گے اور اس سے ایک شعلہ لے کر آئیں گے۔
اس کے برعکس سورت قصص میں(جذوہ) کا لفظ آیاہے،اور یہ مقبوس وغیر مقبوس دونوں پر بولاجاتاہے۔ پہلی حالت میں زیادہ کمال ہے ؛کیوں کہ جذوہ کے مقابلہ میں (شہاب)زیادہ نفع بخش ہے، نیز اس سے ثابت قدمی اور دل کی پختگی کی بھی غمازی ہوتی ہے۔
ہر تعبیر کو اپنے مناسب مقام پر لایاگیا، خوف کی جگہ پر (جذوہ)کا ذکر کیا گیا؛ جب کہ بے خوفی کے مقام میں (شہاب قبس)کا ذکر کیا گیا(۱۸)۔
# # #
حواشی
(۱) ابن الجوزی تفسیر آیت نمل۔ (۲) ماوردی تفسیر آیت۔
(۳) ماوردی تفسیر آیت۔ (۴) ابن عطیہ تفسیر آیت۔
(۵) الخازن فتفسیر آیت نمل۔ (۶) ابن عاشور تفسیر آیت۔
(۷) نظم الدرر از بقاعی تفسیر آیت۔ (۸) آلوسی تفسیر آیت۔
(۹) تفسیر الکشاف (۱۰) ابن عطیہ تفسیر آیت۔
(۱۱) ابن عاشور تفسیر آیت۔ (۱۲) ماوردی تفسیر آیت۔
(۱۳) آلوسی تفسیر آیت۔ (۱۴) آلوسی تفسیر آیت۔
(۱۵) القاموس المحیط (شہب)۔ (۱۶) دیکھیے:القاموس المحیط (قبس)۔
(۱۷) آلوسی تفسیر آیت
(۱۸) تفصیلات کے لیے دیکھیے ڈاکٹر فاضل صالح سامرائی کی تصنیف لمسات بیانیة فی نصوص من التنزیل۔
——————————————–
دارالعلوم ، شمارہ5۔6، جلد: 106 ، شوال المكرم۔ذی القعدہ 1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء
٭ ٭ ٭