از: ابوعبداللہ حسنین معاویہ

فاضل:جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد

            امام ابو حنیفہؒؒ کی شخصیت جامع کما لات ہے، آپؒ جیسے ایک بلند پایہ مجتہد، عظیم فقیہ، بلند مرتبت مفسر ، بے مثل اصولی ومتکلم ، صوفی با صفا ، ولی اللہ، عابد ،متقی ، پرہیز گار ، مجاہد فی سبیل اللہ، عظیم مدبراور زیرک سیاستدان تھے، ایسے ہی آپؒ ایک جلیل ا لقد ر محدث اور پختہ کار حافظ الحدیث بھی تھے؛ لیکن ان سب فضائل و کمالات کے ساتھ سا تھ آپؒ بہت بڑے مظلوم بھی ہیں، آپؒ اپنی زندگی میں ہی حا سد ین کے حسد اور معا ندین کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے رہے، اس وقت سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے؛ لیکن اللہ جس کو بلند کرنا چاہیں اس کو کون نیچا د کھا سکتا ہے!

            چنانچہ لوگوں نے جتنا آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کی، اللہ نے اتنا ہی آپؒ کو دنیا میں شہرت و عظمت عطاکی اور دن بدن آپؒ کے چاہنے اور ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہی اور بڑھتی جار ہی ہے۔

کانٹوں میں ہے گھرا ہوا چاروں طرف سے پھول

پھر بھی کِھلا ہوا ہے عَجَب خوش مزاج ہے

             بر صغیر (پاک و ہند ) میں انگریزی دور کی یاد گار جماعت غیر مقلدین ،جس کا مشن ہی امام ابوحنیفہؒ کی مخالفت کرنا اور آپؒ کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو آپؒ سے متنفر اور بیزار کرنا ہے،ان لوگوں کا آج کل سب سے بڑا پر و پیگنڈ ہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ علم حدیث میں کم پایہ تھے اور آپؒ کی فقہ حدیث کے مخالف اور محض قیاسات پر مبنی ہے۔ یہ لوگ امام ابوحنیفہؒ کے محدثا نہ مقام کو گرانے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ چھاپ رہے ہیں، ان کے وا عظین و مقر رین بھی اپنے بیانات میں آپ کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کیے ہو ئے ہیں۔ ایسی صورت میں اہل السنة پر یہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے اس عظیم محسن کے دفاع کا فریضہ سر انجام دیں اور آپؒ کے خلاف ان اہلِ بدعت (غیر مقلدین) کے اعتراضات ،الزامات ، اور مطا عن کا حقیقی اور مسکت جواب دیں(۱)۔

امام ابو حنیفہؒ کی مسا نید کا تعارف

            امام حاکم نیشا پوریؒ فرماتے ہیں :امام اعظم ابو حنیفہؒ ان مشہور ثقہ ائمہ حدیث میں سے ہیں، جن کی احادیث مشرق تا مغرب جمع کی جاتی ہیں اور ان سے تبرک حاصل کیا جاتا ہے۔ امام حاکم کے اس قول کی تصدیق کرنی ہو تو امام اعظم کی مسا نید کو دیکھ لیجیے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر طبقہ کے محدثین نے آپؒ کی احادیث سے ا عتنا کیا ہے اور بڑی کثرت سے آپؒ کے احادیث کے مجموعے مسا نید کی صورت میں لکھے ہیں۔

            آپؒ کا یہ شرف ہے کہ جس کثرت سے آپؒ کی مسا نید لکھی گئی ہیں اتنی کسی امام کی نہیں لکھی گئیں اورجن حضرات نے آپؒ کی مسا نید لکھی ہیں، وہ سب کے سب بلند پا یا حفاظِ حدیث ہیں۔

            امام حافظ ابن نقطہ حنبلیؒ(م ۶۲۹ھ)فرماتے ہیں: مسند ابی حنیفة جمعہ غیر واحد من الحفا ظ(۲)۔

            امام ابن حجر مکی شافعی (م ۹۷۳ھ) امام صاحبؒ کے مناقب میں لکھتے ہیں: و قد خرج الحفاظ من احا دیثہ مسا نید کثیرة، اتصل بنا کثیر منہا کما ھو مذکور فی مسندات مشا یخنا (۳)۔

            امام ابو ا لموٴید خو ا رزمیؒ(م ۶۶۵ھ)نے امام اعظمؒ کی ان مسا نید کثیر ہ میں سے پندرہ مسا نید کی ”جامع ا لمسا نید“میں تخریج کی ہے۔

            اسی طرح موٴ ر خ کبیر علامہ محمد بن یوسف صا لحیؒ(م ۹۴۲ھ)موٴلف ”السیرة ا لکبریٰ الشامیة“ نے امام اعظمؒ کے مناقب میں آپؒ کی سترہ مسا نید کی نشاندہی کی ہے اور ان کے موٴلفین تک اپنی اسانید بھی ذکر کر دی ہیں(۴)۔

            حافظ ابن طو لونؒ(م۹۵۳ھ)نے بھی ”الفہرست الاوسط“ میں امام اعظمؒ کی سترہ مسا نید کی اسناد اپنے سے لے کر ان کے موٴلفین تک ذکر کردیں ہیں(۵)۔

            امام ابو ا لصبرایوب الخلونیؒ (م ۱۰۷۱ھ)کی ”الثبت“ میں بھی سترہ مسا نید کی اسانید ان کے موٴلفین تک مذکور ہیں(۶)۔

            مصر کے مشہور عالم اور مایہ ناز محقق علامہ زاہد الکو ثریؒ (م ۱۳۷۱ھ )امام اعظمؒ کی ۲۱مسا نید کی نشاندہی کی ہے اور اپنی تصنیف ”التحریرالوجیز“ میں ان کے موٴلفین تک اپنی مسا نید بھی ذکر کر دی ہیں(۷)۔

مسا نید ا بی حنیفہؒ کی چند خصوصیات

            (۱) مسند ابی حنیفہؒ اُن دس کتب حدیث میں شامل ہے جو اسلام کی اساس ہیں اور جن پر دین کا مدار ہے۔ امام محمد بن جعفر الکتا ئیؒ(۱۳۴۵ھ)ان دس کتب کا تعارف کرانے کے بعد لکھتے ہیں: ائمہ اربعہ کی کتب حدیث(مسند ابی حنیفہ موٴطاامام مالک،مسندالشافعی، مسند امام احمد)پہلی چھ کتب صحیح للبخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن النسائی، سنن الترمذی اور سنن ابن ماجہ سے مل کر مکمل دس کتب ہو جاتی ہیں، جو اسلام کی بنیادیں ہیں اور جن پر دین کا مدار ہے۔ شیخ الا سلام حافظ ابن حجر عسقلا نیؒ(م۸۵۲ھ)نے امام حسینی کی اس کتاب سے کتب ستہ کے روات کو حذف کر کے صرف ائمہ اربعہ کی مسا نید کے روات کے حالات الگ ایک کتاب کی صو رت میں جمع کی ہیں اور اس میں کئی مفید اضافے بھی کیے ہیں۔ اس کتاب کا نام ”تعجیل المنفعة بزوائد رجال الائمة الأربعة“ ہے اور یہ کتاب بھی مطبوعہ ہے۔ امام اعظمکی کئی مسا نید کے روات کے حالات اس میں آ گئے ہیں۔

            (۲) امام اعظمؒ کی یہ مسا نید اور آپؒ کی تصنیف ”کتاب ا لآ ثار“ فقہ حنفی(جو تقریباً تیرہ سو سال سے امت مسلمہ کی اکثریت کا دستور عمل ہے) کی بنیاد ی کتب میں سے ہیں؛ چنانچہ مسند ا لہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ (م ۱۱۷۶ھ) فرماتے ہیں: ”فقہ حنفی کی بنیاد مسند ابی حنیفہؒ اور کتاب ا لآثا ر بر وا یت امام محمدؒ پر ہے(۸)۔

            (۳) ان مسانید میں امام اعظمؒ کی اسناد سے جتنی احادیث مذکور ہیں،وہ سب آپؒ کے فقہی مستدلات ہیں اور یہ آپؒ کی ان مرویات میں سے ہیں جو آپؒ کے نزدیک صحیح ہیں۔حافظ ابو المحاسن الحسینیؒ(م۷۶۵ھ)اپنی کتاب ”التذکرة“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ”وکذلک المسند الشافعی موضوع لأدلتہ علیٰ ما صح عندہ من مرویاتہ، وکذلک مسند أبی حنیفة“(۹)۔ یعنی مسند شافعیؒ کی طرح مسند ابی حنیفہؒ بھی ان دلائل پر مشتمل ہے جو امام صاحب کی صحیح روایات میں سے ہیں۔

            (۴) امام اعظمؒ کی ان مسا نید کو محدثین میں بہت پزیرائی ملی ہے جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ مسانید محدثین کے زیر نظر رہی ہیں،ان کے ہاں ان مسانید کو سماعت اور روایت کرنے کا رواج رہا ہے،اسی طرح امام اعظمؒ کی کئی مسا نید موٴرخ اسلام امام کمال الدین عمر بن احمدؒ المعروف بہ ”ابن العدیم“(م ۶۶۰ھ)کی زیر نظر بھی رہ چکی ہیں؛ چنانچہ وہ ایک حدیث کی تحقیق میں رقم طراز ہیں: ”وقد نظرت فی مسانید أبی حنیفہ“(۱۰)۔

            امام محمد بن معنہؒ (م۹۰۴ھ)جو ایک جلیل المرتبت محدث اور دمشق کے قاضی القضاة رہے ہیں،ان کے ترجمہ میں امام نجم الدین غزنوی شافعیؒ(م۱۰۶۱ھ)اور امام ابن العماد حنبلیؒ (م۱۰۸۹ھ)نے لکھا ہے کہ”وسمع بعض مسانید أبی حنیفة علیٰ قاضی القضاة حمیدالدین“(۱۱)۔

موٴلفین مسانید ابی حنیفہؒ کا تعارف

             اما م ابو حنیفہؒ کی مسا نید جن لوگوں نے تالیف کی ہیں وہ خود علم حدیث کے عظیم سپوت ہیں اور وہ خود اس لائق تھے کہ ان کی مسانید لکھی جاتیں(بعض کی لکھی بھی گئی ہیں)لیکن با یں ہمہ انھوں نے اما م اعظمؒ کی مسا نید کو فوقیت دی اور ان کو مسا نید کی صورت میں لکھ کرامت کے سامنے پیش کیا۔ ذیل میں ان حضرات کا تعارف پیش کیا جاتا ہے جنھوں نے مسا نید تالیف کی ہیں۔

۱- امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ

            اما م محمد بن حسن بن فرقد شیبانیؒ ، آپؒ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے، آپ ۱۳۲ھ میں واسط میں پیدا ہوئے اور کوفہ کی علمی فضا میں پروان چڑھے،آپؒ فقیہ عراق اور امام اعظمؒ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔آپؒ سے امام اعظمؒ کی احادیث کی دوکتابیں مروی ہیں: ایک ”کتاب الآثار“ جس کو انھوں نے اما م اعظمؒ سے روایت کیا ہے۔دوسری ”مسند ابی حنیفہ“ ہے، جس کو امام خوارزمیؒ نے جوامع المسا نید میں”نسخہ امام محمد“کہہ کر ذکر کیا ہے۔یہی کتاب ”مسند محمد“ کے نام سے مشہور ہے۔

            محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے امام محمدؒ کی دونوں تصانیف کا ذکر کیا ہے۔امام صالحیؒ نے امام محمدؒ کی مسند کا ذکر اپنے شیخ عبد العزیز بن عمر بن محمد ہاشمیؒ کی متصل سند کے ساتھ کیا ہے۔

امام محمدؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام محمدؒ خود اپنے علمی ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میرے والد نے وراثت میں تیس ہزار درہم چھوڑے،ان میں سے میں نے پندرہ ہزار نحو و شعر اور باقی پندرہ ہزار حدیث و فقہ پر خرچ کردیے“(۱۲)۔

            ۲- فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس شافعیؒ (م۲۰۴ھ)نے امام محمدؒ کے بارے میں فرمایا: ”میں نے دس سال ان کی شاگردی اختیار کی اور میں نے ان سے اس قدر علمی استفادہ کیا ہے کہ اگر اسے تحریری شکل دی جائے تو کتابت شدہ مواد اٹھانے کے لیے اونٹ درکار ہوگا ،وہ اگر اپنی عقل کے مطابق گفتگو کرتے تو ہم ان کے کلام کو نہ سمجھ پاتے؛ لیکن وہ ہماری عقلوں کے مطابق گفتگو کرتے تھے“(۱۳)۔

            ۳- امام محمد بن حسنؒ خود امام مالکؒ سے سماع حدیث کرنے کو بیان کرتے ہیں:”میں امام مالکؒ کی چوکھٹ پر تیس سال تک حاضر رہااور میں نے ان کی زبانی سات سو(۷۰۰)سے زائد احادیث کا سماع کیا“(۱۴)۔

            ۴- امام حمد بن حنبلؒ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب کسی مسئلہ میں تین اشخاص کا اتفاق ہو جائے تو ان کی مخالفت نا ممکن ہے۔ان سے پوچھا گیا :وہ کون ہیں؟ آپؒ نے فرمایا:”ابو حنیفہ ،ابو یوسفؒ اور محمدبن حسن ۔ابو حنیفہؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ قیا س میں ماہر ہیں،ابو یوسفؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ آثار پر نظر رکھتے ہیں اور محمدؒ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عربی لغت جانتے ہیں“(۱۵)۔

            جب خلیفہ ہارون الرشیدؒ رَے کے علاقے میں گئے تو امام محمدؒ بھی ان کے ساتھ گئے اور وہیں ۱۸۹ھ میں ۵۸سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا(۱۶)۔

۲- امام حماد بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ

            امام ابو حنیفہؒ کے لخت جگر اور اکلوتے بیٹے فقیہ ومحدث امام حمادؒ کوبھی اپنے والد گرامی کی مسند جمع کرنے کا شرف حاصل ہے۔امام حمادؒ کی کنیت ابو اسماعیل ہے۔آپؒ اپنے شفیق والد کے نقش قدم پر تھے۔امام حمادؒ نے اپنے والد بزرگوار سے ہی با لخصوص حدیث وفقہ کا علم حاصل کیا اور آپؒ سے آپؒ کے بیٹے نے اکتسابِ علم کیا(۱۷)۔

            ۱- حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنے شیخ ابو عبدالعزیز بن محمد بن شروطیؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ امام حمادؒ کی مسندِ ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۸)

            ۲- صاحب السیرة الشامیہ امام محمد یوسف صالحی شامیؒ نے بھی اپنے شیخ ابو فارس بن عمر مکی شافعیؒ کی متصل سند سے مسند امام حمادؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۹)

امام حمادؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            امام حمادؒ فقیہ اور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و ورع کا پیکر بھی تھے،اتنے عظیم وجلیل القدروالد کے زاہد و متقی بیٹے سے کذب و بطلان کا اظہارناممکنات میں سے ہے۔

            ۱- محدث کبیر امام عبد الرحمن بن ابی حاتمؒ (م ۳۲۷ھ) نے ”الجرح و تعدیل“ میں امام حمادؒ کا ذکر کیا ہے؛ لیکن ان پر کوئی جرح نہیں کی جو ان کے عادل و صادق ہونے پر واضح دلیل ہے۔(۲۰)

            ۲- امام صمیریؒ (م ۴۳۶ھ)امام حمادؒ کے متعلق لکھتے ہیں: ”علم و فقہ اور کتابت حدیث کے ساتھ ساتھ اما م حمادؒ پر دین داری اور زہد و تقویٰ کا بھی غلبہ تھا“۔(۲۱)

            ۳- حافظ شمس الدین ذہبیؒ(م ۷۴۸ھ)امام حمادؒ کویوں نذرانہٴ عقیدت پیش کرتے ہیں’ ’آپؒ صاحبِ علم ،دین دار، صالح اورپیکرِ ورع تھے“۔(۲۲)

            ۴- حافط عبد القادر بن ابی الوفا قرشیؒ (م۷۷۵ھ)نے آپؒ کے علمی مقام پر یوں روشنی ڈالی ہے: ”آپؒ نے پنے والد گرامی سے اس قدر علمِ فقہ حاصل کیا کہ ان کے زمانے میں فتویٰ دینے لگے اورآپؒ کا شمار امام ابو یوسف، امام محمد ،امام زفراورامام حسن بن زیادرحمہم اللہ کے اعلیٰ طبقہ میں ہوتاہے“۔(۲۳)

            ۵- امام محمد عبد الحی لکھنویؒ(م ۱۳۰۴ھ)،امام حمادؒ کی شان میں یوں گویا ہیں: ”امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ِر شید قاسم بن معنؒ کے بعد کوفہ کے منصبِ قضا پر آپؒ کو ہی بٹھایا گیا“۔(۲۴)

            # حافظ شمس الد ین ذہبیؒ کے مطابق امام حماد بن ابی حنیفہؒ کا وصال ۱۷۶ھ میں ہوا۔(۲۵)

۳- امام محمد بن مخْلَد ا لدّ و رِی رحمہ اللہ

            حافظ ابو عبداللہ محمد بن مخلد بن حفص ا لد ور ی ا لعطا رؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے جلیل ا لقد ر محدث ہیں۔ بقو ل ان کے آپؒ کی ولادت ۲۳۳ھ میں ہوئی۔امام موصوف علم حدیث کی بلند مرتبت شخصیت ہیں۔ امام ابن مخلدؒ نے کثیر محدثین کے ہاں زانوئے تلمُّذ تہہ کیا جن میں سے بعض نام درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو ا لسا ئب سلْم بن جُنا دہؒ، (۲) یعقوب بن ابراہیم دور قیؒ، (۳) فضل بن یعقوب ر خا میؒ، (۴) ابو حز یفہ سہمیؒ، (۵) زبیر بن بکّا رؒ، (۶) ابو یحییٰ محمد بن سعید ا لعطا رؒ، (۷) احمد بن عثمان بن حکیم اودیؒ، (۸) محمد بن حسّا ن ازرقؒ، (۹) حسن بن عرفہؒ، (۱۰)صاحب ا لصحیح امام مسلم بن حجاج قشیر یؒ۔

            امام محمد بن مخلد وہ بلند ہستی ہیں جن سے اکابر محدثین نے علم حدیث حاصل کیا۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابو ا لعبا س بن عقدہؒ، (۲) محمد بن حسین آجر یؒ، (۳) حافظ ابو بکر بن جعا بیؒ، (۴) محمدبن ا لمظفرؒ ، (۵) ابو عمر بن حیو یہؒ، (۶) صاحب ا لسنن امام ابو الحسن دارقطنیؒ، (۷) امام ابوحفص بن شاہینؒ اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ۔(۲۶)

            امام محمد بن مخلدؒ صاحب تصانیف کثیر ہ تھے ان کو مسند ابی حنیفہؒ کے جمع وتدوین کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

            ۱- حافظ خطیب بغدادیؒ نے ”تاریخ بغداد“ میں کئی ائمہ کے تعارف میں امام ابن مخلد ؒکی مسند ابی حنیفہؒ کو درج کیا۔

            انھوں نے محمد بن احمد بن الجہمؒ کے تذکرہ میں لکھا ہے:”محمد بن مخلد الدور یؒ نے ان سے مسند ابی حنیفہؒ میں روایت کیا ہے“۔(۲۷)

            ۲- خطیب بغدادی نے ہی احمد بن محمد جہم بلخیؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے:”محمد بن مخلد الدوریؒ نے ان سے مسند ابی حنیفہؒ میں روایت کیا ہے، یہ مسند انھوں نے جمع کی ہے“۔(۲۸)

            ۳- شیخ محمود الحسن طونکیؒ نے بھی حافظ امام ابو عبداللہ محمد بن مخلدؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔

            ۴- امام ابو سعد سمعا نیؒ (م ۵۶۲ھ)نے بھی اس مسند کا ذکر کیا ہے؛ چنانچہ وہ محمد بن الحسن ا لجمال الوازعیؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:”ان سے محمد بن مخلد دوریؒ نے اپنی تالیف ”جمع حدیث ابی حنیفہ“ میں روایت لی ہے“۔(۲۹)

امام محمد بن مخلدؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            محدثین اور محققین نے امام ابن مخلدؒ کے علمی رتبے کو اپنی کتب میں نمایاں جگہ دی ہے۔

            ۱- صاحب السنن امام دار قطنیؒ(م ۳۸۵ھ) نے امام ابن مخلدؒ کو ”ثقہ اور مامون“ بیان کیاہے۔(۳۰)

            ۲- اجل نقاد حافظ ذہبیؒ (م ۷۴۸ھ)نے امام ابن مخلدؒ کے مقام و مرتبہ پر لکھا ہے: ”آپؒ علمِ حدیث ، صا لحیت ، صد ق اور طلب و جستجو میں حد درجہ محنت جیسی اعلیٰ صفات سے متصف تھے، آپؒ کو طویل عمر نصیب ہوئی ،آپؒ کے نام کو خوب شہرت حاصل ہوئی، قاضی محا ملیؒ کے باوجود علوِّ مَر تبت کی انتہا ء آپؒ پر ہوئی۔(۳۱)

            ۳- حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ)نے امام ابن مخلدؒ کا علمی مرتبہ یوں بیان کیا ہے:”وہ ثقہ ثقہ ثقہ مشہور ہیں ،تاریخ بغداد میں ان کا تعارف درج ہے، انھوں نے ۳۳۱ھ میں انتقال کیا ہے، وہ اپنے ہم عصر و ں میں سب سے زیادہ علم الاسناد جانتے تھے۔ ہمیں اعلیٰ طریق سے تفصیلی سماع کے ساتھ ان کی حدیث ملی ہے جس میں اس پانچ سو سالہ دور میں ہمارے اور ان کے درمیان چھ اشخاص ہیں۔(۳۲)

            امام عبد ا لبا قی بن قانعؒ اور ابو الحسن بن فراتؒ کے مطابق امام ابن مخلدؒ کا ۳۳۱ھ میں وصال ہوا۔(۳۳)

۴- مسند امام ابن عقدہ رحمہ اللہ

            آپؒ کانام ، احمد بن محمد بن سعید بن عبدالرحمان بن ابراہیمؒ ہے، کنیت ابو لعبا س ، نسبت کوفی اور آپؒ ابن عقدہ کے نام سے مشہور تھے۔ آپؒ کی ولادت کوفہ میں ۲۴۹ھ میں ہوئی۔امام ابن عقدہؒ ایک مشہور اور عدیم المثل حافظ ہیں۔ امام ابن عقدہؒ نے طلب حدیث کے لیے کوفہ ، مکہ، بغداد اور دیگر علمی مراکز کا کونہ کو نہ چھان مارا ۔انھوں نے ان گنت محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔مثلاً

            (۱) ابو جعفر محمد بن عبید اللہؒ، (۲) حسن بن علی بن عفا نؒ، (۳) حسن بن مکرمؒ،

            (۴) احمد بن ابی خیثمہؒ،(۵) ابو بکر بن ابی الد نیاؒ، (۶) ابراہیم بن ابی بکر بن ابی شیبہؒ ودیگر ائمہ۔

            آپؒ کے بلند علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے درج ذیل اکابر محدثین نے آپؒ سے علم حاصل کیا۔ مثلاً

            (۱)محمد بن المظفرؒ، (۲) حافظ ابوبکر بن جعا بیؒ، (۳) صاحب المعاجم سلیمان بن احمد طبر انیؒ، (۴) صاحب السنن علی بن عمر دار قطنیؒ، (۵) عبداللہ بن موسیٰ ہاشمیؒ، (۶)ابو عبداللہ ا لمر ز بانیؒ و دیگر(۳۴)

            ۱- امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے ”سیر اعلام النبلاء“ میں ابو جعفر طوسیؒ کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اس میں آپ نے حافظ ابن عقدہؒ کی تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی ایک کتاب ”اخبار ابی حنیفہ“ کا تذکرہ کیا۔(۳۵)

            ۲- شارح صحیح البخاری ”حافظ بد ر الدین عینیؒ “نے اپنی کتاب ”ا لتا ر یخ الکبیر“ میں مسند ابی عقدہؒ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:”امام ابن عقدہؒ کی اکیلی مسند ابی حنیفہؒ ہی کی احادیث ایک ہزار سے زائد ہیں۔(۳۶)

            ۳- ابو القاسم حمزہ بن یوسف سہمی،خطیب بغدادی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ نے امام ابن عقدہؒ کے طریق سے امام اعظم ابو حنیفہؒ سے مروی احادیث کو روایت کیا۔(۳۷)

حافظ ابن عقدہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابو علی حسین بن علی نیشا پوری (م ۳۴۹ھ)نے آپ کے علمی مقام پر کہا:”میں نے ابوالعبا س بن عقدہؒ سے بڑھ کر کسی ایک شخص کو بھی کوفیو ں سے مروی حدیث کا حافظ نہیں دیکھا“(۳۸)

            ۲- صاحب ا لسنن امام علی بن عمر دارقطنیؒ (م ۳۸۵ھ) فرماتے ہیں:”اہل کوفہ کا (ایک زمانے میں)اس امر پر اجماع ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؒ کے زمانے سے لے کر ابو ا لعبا س بن عقدہؒ کے زمانے تک اِن سے بڑا کوئی حافظ حدیث نہیں دیکھا گیا“۔(۳۹)

            ۳- ابو ہما م محمد بن ابر ہیمؒ کرخی فرماتے ہیں:”احمد بن عمیر بن جو صا کا شام میں وہی مقام حاصل ہے جیسے کوفہ میں ابوالعباس بن عقدہؒ کا“۔(۴۰)

            ۴- امام محمد بن جعفرؒ ا لنجار بھی امام ابن عقدہؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”ابوالعبا سؒ ہمارے زمانے میں سب سے زیادہ حدیث کے حافظ تھے“۔(۴۱)

            امام موصوف نے امام اعظمؒ کی جو مسند لکھی ہے اس کا نام ”اخبار أبی حنیفة ومسندہ“ ہے۔

             حافظ ابو الحسن بن ابن سفیان کے بقول امام ابو العباس ابن عقدہؒ کا وصال ۳۳۲ھ میں ہوا۔(۴۲)

۵- امام عبداللہ بن ابی ا لعو ام رحمہ اللہ

            حافظ ابو القاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن سعدی ابن ابی العوامؒ بھی علم حدیث کی مثالی شخصیت ہیں، انھوں نے بھی امام اعظمؒ کی مسند کو جمع کیا ہے۔امام ابن ابی العوامؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث کا سماع کیا۔

            ۱- صاحب السنن امام نسائیؒ                ۲- امام ابو جعفر طحاوی          ۳- محمد بن احمد بن حمادؒ و دیگر

            جب کہ امام ا بن ابی العوامؒ سے ان کے بیٹے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہؒ ود یگر ائمہ نے اخذ حدیث کیا۔

            امام ابو القاسم عبداللہ محمد بن ابی العوامؒ کے مسند امام اعظمؒ کو تالیف وتد و ین کرنے پر دلائل حسب ذیل ہیں:

            ۱- حافظ محمد بن محمود خوارزمیؒ نے ”جامع المسا نید“ میں پندرہویں مسند امام ابن ابی العو امؒ کی ذکر کی ہے۔(۴۳)

            ۲-مشہور سیرت نگار و معروف محدثِ شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے دو شیوخ ابوالفارس بن عمر علویؒ اور ابوالفضل بن اوجاقیؒ کے طرق سے مسند ابی ا لعوا مؒ کا تذکرہ کیا ہے۔(۴۴)

امام ابن العوامؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ شمس الدین ذہبیؒ(م ۷۴۸ھ) نے امام نسائیؒ کے ترجمہ میں امام عبداللہ بن ابی العوامؒ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو ”قاضی مصر“ کا لقب دیا۔(۴۵)

            ۲- حافظ عبد القادر قرشیؒ (م ۷۷۵ھ)نے ابن ابی العوامؒ کے پوتے احمد بن محمدؒ کا تعارف کرتے ہوئے ان کے گھرانے کے متعلق لکھا ہے:”ان کے و الد (محمدؒ)اور دادا عبداللہؒ علماء وفضلاء کے گھرانے سے ہیں“۔(۴۶)

            ۳- محدثِ شام حافظ محمد بن یوسف صالحی (م ۹۴۲ھ) نے ابن ابی العوام، امام ابو جعفر طحاوی، قاضی ابو عبداللہ صمیری اور دیگر ائمہ احناف رحمہم اللہ کے متعلق لکھا ہے:”یہ سارے ائمہ حنفی ، ثقہ، ثبت اور نقاد محدثین ہیں جنہیں کثیر احادیث کا علم ہے“۔(۴۷)

            امام ابو القا سم عبداللہ بن ابی العو ا م کا ۳۳۵ھ میں وصال ہوا۔

۶- امام عمر بن حسن اشنا نی رحمہ اللہ

            حافظ حدیث امام قاضی ابو حسن عمر بن حسن بن علی بن مالک اشنانیؒ کو بھی امام اعظمؒ کی مسند جمع کرنے کا شرف حاصل ہواہے۔ان کی ولادت بغداد میں ۲۵۹ھ یا ۲۶۰ھ میں ہوئی۔امام اشنانیؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی ہے۔

            (۱) حافظ ابر ہیم حربیؒ، (۲) محمد بن عینی مد ائنیؒ، (۳) ابو اسماعیل ترمذیؒ، (۴) محمد بن مسلمہ واسطیؒ،(۵) ابو بکر بن ابی الد نیاؒ، (۶) محمد بن شداد مسمعیؒ ، (۷) موسیٰ بن سہل الو شاءؒ، (۸)حسن بن شنا نیؒ

            محدثین کی کثیر تعداد نے امام ا شنانیؒ سے روایت کیا ہے جن میں سے چندکے نام یہ ہیں:

(۱) ابو العبا س بن عقدہؒ، (۲) محمد بن المظفرؒ، (۳) ابو قاسم بن حبا بہؒ، (۴)حافظ ابن شاہینؒ و دیگر

            ۱- امام محمد بن محمود خوارزمیؒ نے اپنے تین شیوخ تقی الدین یوسف بن احمد بن ابی الحسن اسکاف، ابو محمد ابراہیم بن محمود بن سالم اور ابو عبداللہ محمد بن علی بن بقاء رحمہم اللہ کے طرق سے متصل سند کے ساتھ امام عمر اشنا نیؒ کی مسند کو نقل کیا ہے۔(۴۸)

            ۲- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے بھی اپنے شیوخ ابو الفضل عبد الر حیم بن محمد بن محمد ارجانی اور ابو حفص عمر بن حسن بن عمر ثو ر ی رحمہم اللہ کے طرق سے متصل اسناد کے ساتھ امام عمراشنانیؒ کی مسند کی تخریج کی ہے۔(۴۹)

            ۳- حاجی خلیفہؒ نے ”کشف الظنو ن“ میں امام عمر اشنا نیؒ کی مسند امام اعظمؒ کا ذکر کیا ہے۔(۵۰)

            ۴- علامہ سید مر تضیٰ ز بید یؒ نے ”عقود الجواھر المنیفة“ کے مقدمہ میں مسند امام ا شنا نیؒ کو ذکر کیا ہے۔(۵۱)

امام اشنانیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- المستدرک علی الصحیحین کے موٴلف امام حاکم نیشا پوریؒ کی روایت کے مطابق امام ابو علی ہر ویؒ نے ہی امام عمراشنا نیؒ کو ثقہ قرار دیا ہے۔(۵۲)

            ۲- خطیب بغدادیؒ بیان کرتے ہیں: ”آپ اپنے دور کے جلیل القدر لوگوں اور محدثین میں شمار ہوتے تھے،حافظ حدیث تھے اور بہت اچھے اسلوب میں محدثین سے مذاکرہ کیا کرتے تھے“۔(۵۳)

            ۳- خطیب بغدادیؒ نے ہی امام اشنانیؒ کے مقام حدیث کو یوں بیان کیا ہے: ”انھوں نے کثیر احادیث بیان کی ہیں اور لوگوں نے ان سے قدیم اور جدید احادیث حاصل کی ہیں“۔(۵۴)

            امام طلحہ محمد بن جعفرؒ کے مطابق بروز جمعرات ذوالحجہ۳۳۹ ھ امام عمر بن حسن اشنانیؒ کا وصال ہوا۔(۵۵)

۷- امام محمد بن ابراہیم بن حبیش بغوی رحمہ اللہ

            امام محمد بن ابراہیمؒ ایک بلند پا یا فقیہ اور عظیم المرتبت محدث ہیں،آپؒ نے فقہ کی تعلیم امام محمد بن شجاع ثلجیؒ وغیرہ سے حاصل کی اور حدیث کا درس امام عباس دوریؒ اور اسحاق حربیؒ وغیرہ سے لیا؛جب کہ آپ کے تلامذئہ حدیث میں امام دار قطنیؒ وغیرہ جیسے نامور حفاظِ حدیث بھی ہیں، امام دار قطنیؒ نے آپ کو اپنا شیخ بتایا ہے۔(۵۶)

            امام موصوفؒ بھی امام اعظمؒ کی مسند لکھنے والوں میں سے ہیں؛ چنانچہ علامہ جمال الدین قا سمی دمشقیؒ (م ۱۳۳۲ھ)نے تصریح کی ہے کہ علامہ محمد بن سلیمان مغربیؒ (م ۱۰۹۴ھ)نے اپنی ”ثبت صلة الخلف“ میں امام ابو حنیفہؒ کی جن چار مسانید کو ذکر کر کے ان کے موٴلفین تک اپنی اسناد ذکر کی ہیں،ان میں سے ایک امام محمد بن ابراہیم بن حبیش بغویؒ کی تالیف کردہ ”مسند ابی حنیفہ“ بھی ہے۔

            امام محمد بن ابراہیمؒ کی وفات ۳۳۸ھ میں ہوئی۔

۸- امام عبداللہ بن محمد حارثی رحمہ اللہ

            امام ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بن الحارث بن خلیل الحار ثی البخاری الکلا بازی الحنفیؒ ما و ر ا ء النہر سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم ،فقیہ اور محدث تھے۔ آپ ”استاذ“ کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ کی ولادت ۲۵۸ھ میں ہوئی،امام حارثیؒ نے درج ذیل محدثین سے روایت کیا ہے:

            (۱) عبداللہ بن واصلؒ، (۲) محمد بن لیث سر خسی، (۳) عمران بن فر ینامؒ، (۴) فضل بن محمد شعر ا نیؒ و دیگر ۔

            آپؒ کے حدیث کے شا گر د درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو طیب عبداللہ بن محمدؒ، (۲) محمد بن حسن بن منصور نیشا پوریؒ، (۳) احمد بن محمد بن یعقوب فارسیؒ۔(۵۷)

            امام موصوفؒ نے بھی مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کیا ہے ،ائمہ کے شواہد ملاحظہ فرمائیں:

            ۱- امام محمد بن محمود خوارزمیؒ نے ”جامع المسا نید“ میں اپنے چار شیوخ سے متصل سند کے ساتھ مسند حارثیؒ کو اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔(۵۸)

            ۲- امام شمس الدین محمد بن احمد بن عبدالہادی حنبلی (م۷۴۴ھ) نے مسائل طلاق پر احادیث بیان کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا حوالہ دیا ہے۔(۵۹)

            ۳- امام عسقلانیؒ نے ”الاصا بة“ میں حضرت رافع مولیٰ سعدؒ کا ذکر کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند کا حوالہ دیا ہے۔(۶۰)

            ۴- علامہ شوکانیؒ (م۱۲۵۵ھ)نے بھی حضرت عبداللہ بن عباسؒ سے مروی مرفوع حدیثِ حدود پر بحث کرتے ہوئے امام حارثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا حوالہ درج کیا ہے۔(۶۱)

اما م حارثیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو یعلیٰ خلیلیؒ (م ۴۴۶ھ) آپؒ کے متعلق لکھتے ہیں: ”انھیں علم حدیث کی معرفت حاصل ہے“۔

            ۲- امام سمعانی (م۵۶۲ھ) نے امام حارثیؒ کے متعلق لکھا ہے: ”آپ بزرگ تھے اور کثرت سے احادیث روایت کرنے والے تھے“۔

            ۳- امام ابو الموٴید خوارزمیؒ(م۶۶۵)نے اپنی کتاب ”جامع المسا نید“ میں امام حارثیؒ کے علمی مقام پر لکھا ہے: ”جو شخص بھی اما م حا رثیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا مطالعہ کرے گا وہ ان کے علم الحدیث میں تبحر اور حدیث کے متون و طرق میں بلند پایا معرفت کو جان لے گا“۔

            حافظ شمس الدین ذہبیؒ کی تحقیق کے مطابق امام حارثیؒ کا وصال ۳۴۰ھ میں ہوا۔(۶۲)

۹- مسند امام عبداللہ بن عد ی جر جانی رحمہ اللہ

            امام ابو احمد عبداللہ بن عدی بن عبداللہؒ جرجان سے تعلق رکھنے والے جلیل القدر حافظ حدیث اور علم جرح و تعد یل کے امام تھے۔ آپؒ نے حدیث کے رُوات ورجال پر جرح و تعد یل میں ”الکامل فی ضعفاء الر جال“ کے نام سے مشہور تصنیف لکھی۔ ا ن کی ولادت ۲۷۷ھ میں ہوئی۔

            آپؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی۔

            (۱) بہلول بن اسحاق تنو حیؒ، (۲) محمد بن یحیٰ مروز یؒ، (۳) صاحب المسند ابو یعلیٰ موصلیؒ ودیگر

            ان کے حدیث میں شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو ا لعبا س بن عقدہؒ، (۲) حسن بن ر ا مینؒ، (۳)ابو الحسین احمد بن العالیؒ ودیگر(۶۳)

            ۱- سلطان الملک ا لمعظم علامہ عیسی بن ابو بکر ایوبیؒ(م۶۲۴ھ)نے اپنی کتاب ”السھم المصیب فی الرد علی الخطیب“ میں امام ابن عد یؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کی اسنا درج کی ہیں۔(۶۴)

            ۲- امام محمد بن ا لخوارزمیؒ نے ”جامع المسا نید“ میں اپنے شیخ ابو محمد حسن بن احمد بن ھبة اللہؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ امام ابن عدیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کی اسناد درج کی ہیں۔(۶۵)

امام ابن عد یؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ابن عد یؒ کے شاگرد حمزہ بن یوسف سہمی جرجانیؒ(م ۴۲۷ھ)بیان کرتے ہیں:

            ”ابن عدیؒ حافظ حدیث اور پختہ محدث تھے، ان کے زمانے میں کوئی ان جیسا نہ تھا“۔(۶۶)

            ۲- اما م ابوالولید سلیمان بن خلف البا جیؒ نے آپ کے متعلق فرمایا:”ابن عدیؒ کے حافظ حدیث ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں“۔(۶۷)

            امام ابن عدیؒ کے تلمیذ خاص حمزہ بن یوسفؒ کے مطابق امام ابن عدیؒ کا انتقال ۳۶۵ھ میں ہوا، ابو بکر اسماعیل ؒنے آپؒ کی جنازہ پڑھائی۔(۶۸)

۱۰- امام محمد بن مظفر بغدادی رحمہ اللہ

            امام ابو الحسین محمد بن مظفر بن موسیٰ بن عیسی بن محمدؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے ممتاز حافظ حدیث تھے۔آپ ۲۸۶ھ ،میں پیدا ہوئے۔ یہ بات مشہور ہے کہ آپ حضرت سلمہ بن اکوعؒ کی اولاد میں سے تھے،امام صاحبؒ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث کا سماع کیا:

            (۱) حامد بن شعیب بلخیؒ، (۲) ابوبکر بن با غند یؒ، (۳) ابوالقاسم بغو یؒ ، (۴) ابو جعفر طحاویؒ ودیگر

            آپؒ کے حدیث میں بہت سے شا گر ہیں: مثلاً

            (۱) ابو حفص بن شاہینؒ ، (۲) ابو الحسن بن علی بن عمر دار قطنیؒ ، (۳) حسن بن محمد خلالؒ ودیگر(۶۹)

            امام صاحبؒ کے مسند امام اعظمؒ لکھنے پر ائمہ کے ثبوت:

            ۱- امام محمد بن عبدالغنی بغدادیؒ المعروف ابن نقطہ حنبلی( م۶۲۹ھ) امام محمد بن مظفرؒکا تعارف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں”انھوں نے مسند ابی حنیفہ کو جمع کیا ہے“۔(۷۰)

            ۲- امام محمد بن خوارزمیؒ نے اپنے چار شیوخ سے متصل سند کے ساتھ مسند امام ابن مظفرؒکو نقل کیاہے۔(۷۱)

            ۳- حاجی خلیفہؒ نے بھی مسند ابن المظفرؒ کا تذکرہ کیا ہے۔(۷۲)

امام ابن المظفرؒکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- علامہ خطیب بغدادیؒ(م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:”امام ابن مظفرؒ سمجھ دار ،حافظ الحدیث اور راست باز شخص تھے“۔

            ۲- حافظ ابو بکر احمد بن محمد البر قانیؒ نے ( م۴۲۵ھ) امام ابن مظفرؒ کے کثیر الحدیث ہونے کو یوں بیان کیا ہے:”میں نے دار قطنیؒ کے طریق سے امام ابن مظفرؒ سے ایک ہزار احادیث لکھیں، پھر ہزار احادیث لکھیں، پھر ہزار احادیث لکھیں انھوں نے اس طرح کئی مرتبہ عدد گنوا یا“۔(۷۳)

            امام ابو قاسم ازھریؒ اور احمد بن محمد عتیقیؒ کے مطابق امام ابن مظفرؒ کا وصال جمعہ کے دن ۳۷۹ھ میں ہوا۔(۷۴)

۱۱- امام طلحہ بن محمد العد ل رحمہ اللہ

            امام ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد ا لعد ل المقریؒ بغداد سے تعلق رکھنے والے محدث تھے۔ آپ ۲۹۱ھ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے درج ذیل ائمہ سے حدیث روایت کی ہے:

(۱) محمد بن عباسؒ، (۲) عبداللہ بن زید انؒ، (۳) ابو بکر بن ابی داوٴدؒ ، (۴)ابو القاسم بغویؒ و دیگر

شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ازہر یؒ، (۲) ابو محمد ا لخلا لؒ، (۳) علی بن محسن تنو حیؒ، (۴)حسن بن علی جوہریؒ و د یگر(۷۵)

مسند لکھنے پر تحقیق :

            ۱- امام محمد بن خوارزمیؒ نے امام اعظمؒ کی ۱۷مسا نید میں دوسری مسند جو آپؒ تک متصل سند سے بیان کی ہے، وہ یہی اما م طلحہ کی مسند ہے۔(۷۶)

            ۲- حاجی خلیفہؒ (م ۱۰۶۷) نے ”کشف الظنون“ میں امام ابو قاسم طلحہ بن محمدؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۷۷)

            ۳- امام تقی الدین سبکیؒ نے اپنی مشہور تصنیف ”شفاء السقام“ میں ایک حدیث کے تحت مسند ابی طلحہؒ کا حوالہ درج کیا ہے۔

امام طلحہؒ کا علمی مقام اور مرتبہ

            ۱- امام ابن جوزیؒ(م۵۷۹) آپؒ کے متعلق لکھتے ہیں : ”طلحہؒ کا شمار ابن مجاہدؒ کے صف اول کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔“(۷۸)

            ۲- امام خوارزمیؒ نے امام طلحہؒ کی ثقاہت پر اظہار خیال کیا:”وہ اپنے زمانے کے عدول،ثقات اور پختہ محدثین میں سب سے مقدم تھے“۔(۷۹)

            ۳- امام ذہبیؒ نے امام طلحہؒ کے بارے میں لکھا ہے:”امام دار قطنیؒ کے زمانے میں و ہ صحیح السماع مشہور تھے“۔(۸۰)

            امام از ہریؒ اور عتیقیؒ کے مطابق امام طلحہ بن محمدؒ کا وصال شوال ۳۸۰ھ میں ہوا۔(۸۱)

۱۲- امام محمد بن ابراہیم مقری رحمہ اللہ

            ابو بکر محمد بن ابراہیم بن علی بن عاصم بن زاذانؒ اصبہان کے ممتاز حافظ حدیث،ثقہ،صدوق اورطلب حدیث میں کثرت سے سفر کرنے والے تھے،آپ ابن المقریؒ کے لقب سے مشہورتھے۔ المعجم الکبیراوراربعین کے مصنف ہیں ۔ آپؒ کی ولادت ۲۸۵ھ میں ہوئی۔آپؒ کے شیوخ درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن نصیر بن ابا ن مدینیؒ، (۲) عمر بن ابی غیلا نؒ ، (۳) جعفر بن احمد بن سنا نؒ، (۴) محمدبن حسن بن قتیبہؒ ود یگر۔

            ان کے شاگرد درج ذیل ہیں:

(۱) حافظ ابو اسحاق بن حمزہؒ، (۲) ابو الشیخ بن حیانؒ، (۳) محمد بن عمر البقالؒ، (۴) ابو زیدمحمد بن سلامہؒ ودیگر(۸۲)

مسند تدوین کرنے پر ائمہ کی تحقیق

            ۱- امام ابن نقطہؒ فرماتے ہیں:”انھوں نے مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کیا“۔(۸۳)

            ۲- حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے امام ابن المقریؒ کے تعارف میں لکھا ہے:”انھوں نے مسند ابی حنیفہ تصنیف کی ہے“۔(۸۴)

امام ابن ا لمقر یؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ابن المقریؒ بنفس نفیس اپنے طلب علم کے متعلق لکھتے ہیں:”میں نے (حصول علم کی خاطر )چار مرتبہ شرق تاغرب سفر کیا“۔(۸۵)

            ۲- امام ابن المقریؒ ہی اپنے اسفار کے متعلق کہتے ہیں:”میں نے دس مرتبہ بیت المقد س حاضری دی، چار حج کیے ہیں اور ۲۵ مہینے مکہ مکر مہ میں قیام کیا ہے“۔(۸۶)

            ۳- امام ابن مردویہؒ (م ۴۱۰ھ)امام ابن لمقریؒ کے متعلق لکھتے ہیں:”آپ ثقہ، مامون اور صاحب اصول ہیں“۔(۸۷)

            امام ابن المقریؒ کا وصال ماہ شوال میں ۳۸۱ھ میں ۹۶سال کی عمر میں ہوا۔(۸۸)

۱۳- امام دار قطنی رحمہ اللہ

            شیخ الا سلام امام ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان بن دینا ر بن عبداللہؒ بغداد کے رہنے والے مشہور محدث تھے۔ آپؒ کی ولادت بغداد کے ایک محلے دار قطن میں ۳۰۶ھ میں ہوئی ۔آ پؒ کی تصنیف ”السنن“ کتب حدیث میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔آپؒ کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو القاسم بغویؒ، (۲) ابو حامد محمد بن ہارون حضر می، (۳) قاضی بدر بن ہیثمؒ و دیگر

            آپؒ سے درج ذیل محدثین نے حدیث روایت کی:

            (۱) حمزہ بن محمد بن طاہرؒ، (۲) صاحب المستد ر ک حاکم نیشا پوریؒ، (۳) تمام رازیؒ، (۴)ابومحمد خلالؒ و دیگر ائمہ

مسند لکھنے پر تحقیق

            ۱- محدث شام علامہ زاہد کوثریؒ لکھتے ہیں:”خطیب بغدادیؒ جس وقت بذات خود سفر کر کے دمشق گئے تو ان کے پاس امام دار قطنیؒ کی مسند ابو حنیفہؒ بھی تھی“۔(۸۹)

            ۲- مسند امام د ا رقطنیؒ کے مسند ابی حنیفہؒ کو تدوین کرنے پر یہ دلیل بھی ہے کہ انھوں نے اپنی السنن میں تقریباً ۱۳۰ احادیث آپؒ کے طریق سے روایت کی ہیں“۔

حافظ دار قطنیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو اطیب طبریؒ ان کو ”امیر الموٴمنین فی الحدیث“ قرار دیتے تھے۔(۹۰)

            ۲- ایک اور جگہ فرماتے ہیں:”میں نے کوئی حافظ حدیث ایسا نہیں دیکھا جو بغداد سے آیا ہو اور ان کے پاس سلام کے لیے حاضر نہ ہوا ہو“۔(۹۱)

            عبد العزیز بن ازجی،احمد بن محمد عتیقی اور محمد بن ابی الفوا رس رحمہم اللہ کے مطابق حافظ دارقطنیؒ ذوالقعدہ ۳۸۵ھ فوت ہوئے۔(۹۲)

۱۴- ا مام ابن شاہین رحمہ اللہ

            حافظ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بغدادی المعروف ابن شاہینؒ عراق کے بلند پایا محدث تھے۔ آپؒ کی ولادت ۲۹۷ھ اور آپؒ نے ۳۰۸ھ میں پہلی مرتبہ حدیث کا سماع کیا۔ آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن محمد بن غندیؒ، (۲) محمد بن ھارون بن المجدرؒ، (۳) شعیب بن محمد ذراعؒ ، (۴) ابوالقاسم بغویؒ ودیگر

            آپ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو سعد مالینیؒ، (۲) ابو بکر البرقانیؒ، (۳) ابو محمد خلالؒ، (۴) ابو محمد جوہریؒ ودیگر(۹۳)

            حافظ خطیب بغدادیؒ جس وقت بغداد سے دمشق گئے تو آپؒ کے پاس امام ابن شاہینؒ کی مسند ابی حنیفہؒ بھی تھی۔(۹۴)

امام ابن شاہینؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن ماکولاؒ آپؒ کے متعلق فرماتے ہیں:”ثقہ مامون ہیں، آپؒ نے شام ،فارس اور بصرہ میں حدیث کا سماع کیا، آپؒ نے احکام و مسائل اور علماء کے تراجم ذکرکیے نیز بہت سی کتب تصانیف کیں“۔(۹۵)

            ۲- امام ابو الفتح محمد بن احمد بن ابی الفوارسؒ فرماتے ہیں:”آپؒ ثقہ مامون ہیں ، آپ ؒجتنی تصانیف کسی نے نہیں کیں“۔(۹۶)

            حافظ ابو نعیم اصبہانیؒ اور عبدالعزیز بن علی ازجیؒ کے مطابق امام ابن شاہینؒ کا وصال ماہ ذو الحجہ ۳۸۵ھ میں ہوا۔(۹۷)

۱۵- امام ابن مندہ رحمہ اللہ

            ابو عبداللہ محمد بن ابی یعقوب اسحاق بن ابی عبداللہ محمد بن یحییٰ بن مندہ اصبہان کے رہنے والے بے مثل، حافظ حدیث اور اپنے زمانے کے ممتازمحدث تھے ،آپ کا سن ولادت ۳۱۰یا ۳۱۱ھ ہے، آپ نے سب سے پہلے حدیث کا سماع ۳۱۸ھ میں کیا۔ آپ نے پوری دنیا سے ۱۷۰۰ شیوخ سے علم حدیث حاصل کیا ، ان مین سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو یعقوب اسحاقؒ             (۲) عبدالرحمان بن یحییٰؒ،

             (۳) اسماعیل صفارؒ               (۴) احمد بن عمرو مدینیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو بکر بن مقریؒ، (۲) تمام بن محمد رازیؒ، (۳) حمزہ بن یوسف سہمیؒ ودیگر(۹۸)

            ۱- امام ابن مندہؒ نے بہت سی کتب تصانیف کیں جن میں مسند ابی حنیفہؒ بھی شامل ہے ۔ڈاکٹر فواد سیزگین نے مسانید ابی حنیفہؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ابن مندہ کی مسند کا بھی ذکر کیا۔(۹۹)

امام ابن مندہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن مندہ خود اپنے طلب ِعلم کے بارے میں فرماتے ہیں: ”میں نے حصول علم کے لیے شرق تا غرب دو مرتبہ چکر لگایا“۔(۱۰۰)

            ۲- حافظ ابو اسحاق بن حمزہ(م ۳۵۳ھ) فرماتے ہیں:”میں نے ابو عبداللہ بن مندہ جیسا نہیں دیکھا“۔(۱۰۱)

            ۳- حافظ ابو نعیم اصبہانی(م ۴۳۰ھ)کے پاس امام ابن مندہ کا تذکرہ ہوتا تو وہ فرماتے :”وہ علم کے پہاڑ تھے“۔(۱۰۲)

            حافظ ابو نعیم اصبہانی اوردیگر ائمہ کے مطابق امام ابن مندہ کا وصال ذو القعدہ ۳۹۵ھ میں ہوا۔

۱۶- امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ

            امام ابو نعیم احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق اصبہانیؒ ، جو ایک ثقہ حافظ الحدیث ،عظیم القدر صوفی اور مشہور صاحب تصانیف بزرگ ہیں۔ مشہور ِزمانہ کتب ”المستخرج علیٰ الصحیحین، دلائل النبوة اور حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء“ کے مصنف ہیں اورآپؒ کوبھی شرف حاصل ہے کہ انھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی مرویات کو اپنی مسند میں جمع کیا۔ آپؒ کی ولادت ۳۳۶ھ میں ہوئی۔آپؒ نے کثیر محدثین سے علم حدیث حاصل کیا،جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو محمد عبداللہ بن جعفرؒ                (۲) قاضی ابو احمد العسالؒ

            (۳) محمد بن عمر الجعانیؒ                      (۴) محمد بن معمر ذہلیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو بکر خطیب بغدادی ؒ                 (۲) ابو سعد محمد بن محمد مطرزؒ

            (۳) صالح ابن عبدالواحدالبقالؒ ودیگر ائمہ۔(۱۰۳)

مسند امام اعظمؒ تالیف کرنے پر ائمہ کی تحقیق

            ۱- امام ابو الموٴیدمحمد بن محمود خوارزمیؒ نے ( م ۶۶۵ھ) اپنے چار مشائخ سے متصل سند کے ساتھ امام ابو نعیمؒ کی مسند ابی حنیفہ کو روایت کیاہے۔(۱۰۴)

            ۲- حافظ حدیث شمس الدین ابن طولونؒ ( م۹۵۳ھ)نے ”الفہرست الاوسط“ میں اپنی سند کے ساتھ مسند ابی نعیمؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۰۵)

            ۳- علامہ سید محمد مرتضیٰ زبیدیؒ(م ۱۲۰۵) نے ”عقود الجواھر المنیفة“کے مقدمہ میں امام ابو نعیمؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو شمار کیا ہے۔(۱۰۶)

امام ابو نعیمؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو طاہر احمد بن محمدفرماتے ہیں کہ امام ابو نعیمؒ کی کتاب ”حلیة الالیاء“ جیسی کوئی کتاب تصنیف نہیں کی گئی۔(۱۰۷)

            ۲- اما م ابن النجارؒ(م ۶۴۳ھ) نے امام ابو نعیمؒ کے مقام حدیث کے متعلق فرمایا:”آپؒ محدثین کے تاج ہیں اور دین کی عظیم علامت ہیں“۔(۱۰۸)

            امام ابن نقطہ حنبلیاور اما م ذہبی کے مطابق امام ابو نعیم کا بروز پیر ۲۰/محرم الحرام کو ۴۳۰ھ میں وصال ہوا۔(۱۰۹)

۱۷- امام احمد بن محمدکلاعی رحمہ اللہ

            امام احمد بن محمد بن خالد خلی کلاعی مقریؒ نے بھی مسند امام ابی حنیفہؒ کو روایت کیا ہے۔ان کی کنیت ابوعمر ہے۔آپؒ قرطبہ سے تعلق رکھنے والے محدث تھے۔ مظفر عبدالملک ابن عامر کے عہد میں ۳۹۴ھ میں ان کی ولادت ہوئی،آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو محمد بن شفاقؒ             (۲) ابو محمد بن بنوشؒ

            (۳)ابو علی حدادؒ                 (۴)ابن نباتؒ ودیگر(۱۱۰)

تصریحات

            ۱- حاجی خلیفہؒ نے بھی امام کلاعیؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا نام درج کیا۔(۱۱۱)

            ۲- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے دو شیوخ فضل بن اوجاتیؒ اور ابو حفص عمر بن حسنؒ کے متصل طرق سے امام کلاعی کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۱۲)

 امام احمد کلاعیؒ کا مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابن بشکوال نے اپنی کتاب ”الصلة“ میں امام کلا عیؒ کا تذکرہ کیا ہے ۔وہ ان کے متعلق فرماتے ہیں:” وہ معلم قرآن، فاضل ،عبادت گذار، فن قراء ت اور اس کے وجوہ کے عالم اور حافظ تھے، انھوں نے قراء ت کے معانی ومفاہیم پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔(۱۱۳)

            امام ابو عمر کلاعیؒ نے ہفتہ کے دن بوقت زوال ۱۰/ذو القعدہ ۴۳۲ھ میں وصال فرمایا۔(۱۱۴)

۱۸-امام ابو الحسن ماوردی رحمہ اللہ

            امام ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردیؒ شافعی بصرہ سے تعلق رکھنے والے أقضیٰ القضاة تھے۔آپ کی ولادت ۳۶۴ھ میں ہوئی۔ انھوں نے درج ذیل اساتذہ سے حدیث روایت کی:

            (۱) حسن بن علی بن محمد الحبلیؒ             (۲) محمد بن معلی ازدیؒ

            (۳)جعفر بن محمد بن فضل بغدادیؒ ودیگر

            جب کہ امام ماوردیؒ سے خطیب بغدادیؒ اور ابو الفضل ابن خیرونؒ نے علم حدیث حاصل کیا۔(۱۱۵)

            ان کی کثیر کتب میں سے ایک تالیف مسند ابی حنیفہؒ بھی ہے۔ اس کا ذکر حاجی خلیفہؒ نے ”کشف الظنون“ میں کیا ۔انھوں نے امام اعظم سے مروی پندرہویں مسند امام ما ور دی کا ذکر کیا ہے۔(۱۱۶)

امام ماوردیکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- علامہ صلاح الدین الصفدیؒ لکھتے ہیں:”وہ بلند وبا لا علمی مرتبہ کے مالک تھے، بادشاہ وقت کے قریبی ساتھی تھے“۔(۱۱۷)

            ۲- خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:”میں نے ان سے علم حدیث لکھا ہے اور وہ ثقہ تھے“۔(۱۱۸)

            ۳- حافظ ابو الفضل بن خیرونؒ فرماتے ہیں:”وہ امام تھے، علم کے ہر فن میں ان کی قابل قدر تصانیف ہیں“۔(۱۱۹)

            حافظ خطیب بغدادیؒ کے مطابق اما م ماوردیؒ کا ماہ ربیع الاول ۴۵۰ھ میں وصال ہوا۔(۱۲۰)

۱۹- امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ

            جلیل القدر نقاد حافظ حدیث ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بغدادیؒ کثیر تصانیف کے مصنف ہیں۔ان کا شمار شام اور عراق کے عظیم محدثین میں شمار ہوتا تھا۔ آپؒ کی ولادت ۳۹۲ھ میں ہوئی۔ آپؒ نے سب سے پہلے سال کی عمر میں حدیث کا سماع کیا،۲۰سال کی عمر میں بصرہ تشریف لے گئے۔ ۲۳سال کی عمر میں نیشاپور حتی کہ بڑھاپے میں شام ،مکہ مکر مہ اور دیگر شہروں میں بھی حصول علم کے لیے تشریف لے گئے۔ حافظ خطیب بغدادیؒ نے بے شمار اساتذہ سے علم حدیث کا سماع کیا:

            (۱) ابو عمر بن مہدی فارسیؒ                (۲) ابو الحسین بن المتیّمؒ،

            (۳) حسین بن حسن جوالیقیؒ               (۴) محمد بن عیسیٰ ہمذانیؒ و دیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابو بکر احمد بن محمد بن بر قا نیؒ    (۲) ابو الفضل بن خیرونؒ

            (۳) عبدالعزیز کتانیؒ                        (۴)ابو نصر بن ماکولاؒ و دیگر(۱۲۱)

            شام سے تعلق رکھنے والے نقاد محدث محمد زاہد الکوثریؒ نے اپنی کتاب ”تانیب الخطیب“ میں مسانید امام اعظمؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”جس وقت خطیب بغدادیؒ خود سفر کر کے دمشق گئے تو ان کے ساتھ خود ان کی تالیف کردہ مسند ابی حنیفہؒ بھی تھی“۔(۱۲۲)

خطیب بغدادیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- مشہور فقیہ ابو اسحاق ابرہیم شیرازیؒ آپؒ کے متعلق فرما تے ہیں:”ابو بکر خطیب بغدادیؒ کو معرفت اور حفظ حدیث میں ابو الحسن دار قطنیؒ اور ان کے اقران کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے“۔(۱۲۳)

            ۲- حافظ ابو علی بن احمد بن محمد بردانی حنبلیؒ کہتے ہیں:”شاید خطیب بغدادیؒ نے اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا“۔(۱۲۴)

            آپؒ کا انتقال ۴/ذو الحجہ ۴۶۳ھ دوشنبہ کو ہوا۔ سہ شنبہ کو آپؒ کو بغداد میں صوفی باصفا حضرت بشر حافی کی قبر کے پاس ،امام احمدبن حنبلؒ کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔(۱۲۵)

۲۰- امام عبداللہ بن محمد انصاری رحمہ اللہ

            شیخ الاسلام امام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد بن علی بن محمد انصاری ہرات کے رہنے والے جلیل القدر حافظ حدیث تھے۔ آپؒ حضرت ابو ایو ب خالد بن زید انصاریؒ کی اولاد میں سے ہیں۔ آپؒ کی ولادت ۳۹۶ھ میں ہوئی۔ آپؒ کے حدیث کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) یحییٰ بن عمار سجستانیؒ                      (۲) محمد بن جبریل ماحیؒ

            (۳) ابو منصور احمد بن ابی العلاء ؒ           (۴) قاضی ابوبکر الحیریؒ و دیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) محمد بن طاہر مقدسیؒ                     (۲) موٴتمن بن احمد بن ساجیؒ

            (۳) حنبل بن علی بخاریؒ                   (۴) عبدالجلیل بن ابی سعد المعدلؒ(۱۲۶)

            امام ابو عبداللہ نے مسند ابی حنیفہ بھی تالیف کی۔ اس کتاب کا تذکرہ عبدالقادر بن ابی الوفا قرشی نے کیا ہے، انھوں نے اپنی کتاب ”الجواہر المضیئة“ میں نصر بن سیارؒ کے تعارف میں امام سمعانیؒ کا درج ذیل جملہ لکھا ہے: ”میں نے (نصر بن سیار) سے احادیث کی اس کتاب کا سماع کیا، ان احاد یث کو امام ابی حنیفہؒ نے روایت کیا جسے عبداللہ بن انصاری نے نصر بن سیار کے دادا قاضی صاعد کے لیے جمع کیا؛ کیونکہ یہ ان سے روایت کرتے تھے۔“

حافظ عبداللہؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ عبد الغا فر بن اسماعیل فرماتے ہیں:”ابو اسماعیل انصاریؒ کو عربی لغت، حدیث ، تواریخ اور انساب میں کامل دسترس حاصل تھی، آپؒ تفسیر میں امام کامل تھے اور تصوف میں بے داغ سیرت کے مالک تھے“۔(۱۲۷)

            ۲- شیخ ا لا سلام حافظ ابو القاسم اسماعیل بن محمد نے امام عبداللہ کو ”امام اور حافظ حدیث“ کے القاب سے یاد کیا ہے۔(۱۲۸)

            ۳- حافظ ابو النضر عبد الرحمن فامی فرماتے ہیں:”شیخ الاسلام ابو اسماعیل یگانہٴ روز گارتھے، معانی ومفاہیم کی ترتیب و تبویب کا ذریعہ اور فضائل ومحاسن کے فنون وانواع میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔(۱۲۹)

            امام ابو عبداللہ حسین بن محمد بن حسین ہرویؒ کے مطابق امام عبداللہؒ بروز جمعہ المبارک عشاء کے وقت ۲۲/ذو الحجہ۴۸۱ھ میں وصال فرمایا۔(۱۳۰)

۲۱- امام حسین بن محمد بن خسرو بلخی رحمہ اللہ

            ابو عبداللہ حسین بن محمد بن خسرو بلخیؒ بغداد کے بلند پا یا محدث اورممتاز عالم تھے ۔آپ نے بھی امام ابو حنیفہؒ کی مسند کو جمع کیا ہے۔آپ نے کثیر محدثین سے علم حاصل کیا ان میں چند درج ذیل ہیں:

            (۱) ابو یوسف عبدا لسلام، (۲) ابو محمد قز و ینیؒ، (۳) عبد ا لوا حد بن فہد اور دیگر ائمہ

            امام صاحب کے صرف دو شاگردوں کے نام معلوم ہوئے ہیں:

            (۱) حافظ ابوا لفر ج عبد الرحمن بن علی ابن جوزیؒ، (۲) حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ھبة اللہ ابن عساکرؒ(۱۳۱)

            ۱- حافظ ابو عبداللہ ابن نجارؒ نے تصریح کی ہے کہ ابن خسروؒ نے مسند امام ابو حنیفہؒ کو جمع کیا ہے۔(۱۳۲)

            ۲- حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے امام ابن خسروؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔(۱۳۳)

            ۳- امام ابو القادر بن ابی الوفا قرشیؒ نے بھی امام خسروؒ کی مسند امام ابی حنیفہؒکو جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔(۱۳۴)

امام ابن خسروؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابو عبداللہ محمد ابن نجارؒ نے اپنی تاریخ میں امام خسروؒکے تعارف میں لکھا ہے: ”ابوعبداللہ السمسار حنفیؒ ا پنے دور میں اہل بغداد کے لیے مفید شخصیت تھے“۔(۱۳۵)

            ۲- امام الجرح و التعدیل حافظ امام ذہبیؒ نے امام خسروؒ کو ”محدث مکثر“ کے لقب سے یادکیا۔(۱۳۶)

            ۳- امام قاسم بن قطلوبغا آپ کے متعلق فرماتے ہیں:”آپؒ اہل بغداد کی فیض دہندہ شخصیت اور اپنے دور کے عظیم محدث تھے“۔(۱۳۷)

            حافظ ابو القادر بن ابی الوفا قرشیؒ کے مطابق آپؒ کی وفات ۵۲۲ھ میں ہوئی۔(۱۳۸)

۲۲- امام محمد بن عبدا لبا قی انصاری رحمہ اللہ

            ابو بکر محمد بن عبدالباقی بن محمد بن عبداللہ خزرجی سلمی انصاری بغدادی حنبلیؒ بزار ،مرستان کے مشہور قاضی تھے۔آپ کی ولادت ماہ صفر۴۴۲ھ میں ہوئی۔ آپؒ نے درج ذیل ائمہ حدیث سے حدیث کا سماع کیا:

            (۱)ابو اسحاق برمکیؒ                          (۲)علی بن عیسی باقلانیؒ

            (۳) علی بن عمر برمکیؒ                        (۴)محمد بن وشاح زینیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱)ابو القاسم علی ابن عساکرؒ                (۲) ابو موسیٰ مدینیؒ

            (۳) سعید بن عطافؒ                        (۴) ابو حفص عمر ابن طبرزدؒ ودیگر

            ۱- امام محمد بن یوسف صالحی شامیؒ نے بھی اپنے شیخ ابو الفضل عبدالرحیم بن محمد الاوجاتیؒ کے طریق سے متصل سند کے ساتھ قاضی ابو بکر انصاریؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کو بیان کیا ہے۔(۱۳۹)

            ۲- حاجی خلیفہؒ (م ۱۰۶۷ھ) نے بھی قاضی ابو بکرؒ کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا۔

            ۳- علامہ سید محمد مرتضیٰ ز بیدیؒ نے بھی قاضی صاحبؒ کی مسند کو شمار کیا ہے۔(۱۴۰)

قاضی محمد بن عبدالباقی انصاریکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام ابو القاسم ابن السمر قندیؒ( م۵۳۶ ) بار بار قاضی ابو بکرؒ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے تھے: مابقی مثلہ ان جیسا اب کوئی نہیں رہا۔(۱۴۱)

            ۲- امام ابن جوزیؒ (م ۵۷۹ھ)اپنے شیخ قاضی انصاریؒ کی خدمت میں یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں:”میں نے ان کے سامنے کثیر احادیث پڑھیں ، آپؒ (حدیث میں)ثقہ، ذکی ،حجت اور ماہر تھے۔(۱۴۲)

            ۳- محدث بغداد حافظ ابن شافعؒ (م ۵۶۵ھ) نے اپنی تاریخ میں قاضی صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے:”وہ اہل علم کے شیخ ہیں، ساری روئے زمین پر بسنے والوں میں سب سے بڑی مستند ہیں اور ہمارے خیال میں وہ(اپنے زمانے کے)سب سے سن رسیدہ عالم ہیں“۔(۱۴۳)

            اما م ابن شافعؒ کے مطابق بروز بدھ ۲یا ۳/رجب ۵۳۵ھ میں قاضی صاحبؒ کا وصال ہوا۔(۱۴۴)

۲۳-امام ابن عساکر دمشقی رحمہ اللہ

            محدث شام ، فخر الائمہ، امام ابو القاسم علی بن حسن بن ھبة اللہ بن عبد اللہ شافعی المعروف ”ابن عساکرؒ“ کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی کہ انھوں نے مسند ابی حنیفہؒ کی تدوین کی ہے۔آپؒ مشہور ِعالَم کتاب ”تاریخ مدینہ دمشق“ کے مصنف ہیں،جو کہ ”تاریخ ابن عساکر“ کے نام سے مشہور ہے ۔آپؒ ۴۹۹ھ کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ آپؒ نے سات سال کی عمر میں ہی حدیث کا سماع کیا۔ آپؒ کے شیوخ کی تعداد ۱۳۰۰تک ہے، ان میں سے ۸۰سے زائد خواتین بھی ہیں۔ آپؒ کے بعض اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) سبیع بن قیراطؒ                          (۲) ابو القاسم ابن حصینؒ

            (۳)عبداللہ بن محمد الغزالؒ                (۴) یوسف بن ایوب ہمدانی ؒ

            آ پؒ سے احادیث کا سماع درج ذیل ائمہ نے کیا:

            (۱) آپ کا بیٹا قاسمؒ                          (۲)حافظ ابو سعد سمعانیؒ

            (۳) معمر بن فاخرؒ                            (۴)یونس بن محمد فاروقیؒ ودیگر(۱۴۵)

            ۱-امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے اما م ابن عساکرؒ کی کتب میں ”مسند ابی حنیفہ“ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔(۱۴۶)

            ۲- عربی لغت و ادب کے ماہر یاقوت بن عبداللہ حمویؒ(م ۶۲۶ھ) نے ”معجم الأدباء“ اور علامہ صلاح الدین خلیل صفدیؒ نے ”الوافی بالوفیات“ میں امام ابن عساکرؒ کی مسند کا ذکرکیا ہے۔

امام ابن عساکرؒ کا علمی مقام و مر تبہ

            ۱- امام ذہبیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:”امام ابن عساکرؒسمجھ دار ،حافظ الحدیث، پختہ کار اور علم حدیث میں بصیرت رکھنے والے تھے“۔(۱۴۷)

            ۲- ابو الحسن سعد الخیرؒ فرماتے ہیں:”میں نے حافظ ابو القاسمؒ کی عمر میں ان جیسا نہیں دیکھا۔(۱۴۸)

            ۳- حافظ ابن نجارؒ اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:”ابو القاسم اپنے زمانے میں محدثین کے امام تھے، حفظ ،اتقان ، ثقاہت اور معرفت تامہ کی ان پر انتہا تھی، علم حدیث کا فن ان پر ختم ہو گیا۔

            حافظ ابن عساکرؒ کا ۱۱/رجب۵۷۱ھ میں وصال ہوا۔(۱۴۹)

۲۴-امام علی بن احمد رازی رحمہ اللہ

            اما م علی بن احمد بن مکی رازیؒ کا لقب حسام الدین ہے۔آپؒ مشہور حنفی فقیہ ہیں ۔ابن عدیمؒ کہتے ہیں کہ ان سے ان کے چچا ابو غانم اور ایک جماعت نے علم فقہ حاصل کیا؛ جب کہ جلیل القدر فقیہ عمر بن بدر مو صلیؒ نے ان سے حدیث کا سماع کیا۔(۱۵۰)

            # ترکی کے نامور فاضل پرو فیسر فواد سیز گین نے اپنی کتاب ”تاریخ التراث العربی“ میں امام اعظمؒ کی مسانید کا تذکرہ کرتے ہوئے آٹھویں مسند کے متعلق لکھا ہے:”یہ مسند حسام الدین علی بن احمد رازی سے مروی ہے“۔

امام علی رازیؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ابن عساکرؒ ان کے متعلق لکھتے ہیں:”انھوں نے ماور اء ا لنہر سے علم فقہ حاصل کیا ہے، اس کے بعد دمشق چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی ،آپؒ مدرسہ صادر یہ میں تدریس کا فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ سا تھ امام ابو حنیفہؒ کے مذہب پر فتویٰ دیتے تھے اور (حدیث سے) شواہد لاتے تھے نیز اختلافی مسائل میں مناظرہ بھی کرتے تھے۔(۱۵۱)

            ۲- حافظ ابو القادر قرشیؒ آپؒ کے علمی مقام کے متعلق لکھتے ہیں: ”آپؒ نے مختصر القد و ر ی پر ”خلاصة الدلائل فی تنقیح المسائل“ کے نام سے ایک عمدہ کتاب لکھی ہے، یہ وہ کتاب ہے جسے میں نے فقہ میں مکمل حفظ کیا ہے اور ضخیم جلد میں اس کی احادیث کی تخریج کی ہے اور اس پر شرح لکھی ہے۔(۱۵۲)

            امام علی بن احمدؒ کا وصال ۵۹۸ھ میں ہوا۔(۱۵۳)

۲۵-امام موسیٰ بن زکریا ا لحصکفی رحمہ اللہ

            یہ صدر الدین کے لقب سے مشہور ہیں اور حدیث وفقہ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان سے متعدد ائمہ نے روایت کیا ہے جن میں حافظ دمیا طیؒ بھی ہیں، انھوں نے ان کا اپنی ”معجم الشیوخ“ میں تذکر ہ کیا ہے۔

            حافظ عبدالقادر قرشیؒ بھی ایک واسطہ سے ان کے شاگرد ہیں۔(۱۵۴)

            انھوں نے بھی مسند امام اعظمؒ لکھی ہے جس کو انھوں نے امام صاحبؒ کے شیوخ پر ترتیب دیا تھا پھر علامہ محمد عابد سندیؒ(م۱۲۵۷ھ) نے اس مسند کو فقہی ابواب پر ترتیب دیا ہے اور یہ مسند اب علامہ سندیؒ کی ترتیب کے ساتھ مطبوعہ ہے۔

علمی مقام و مر تبہ

            علامہ ابن العدیم(م ۶۶۰ھ)نے ”تاریخ حلب“ میں ان کے تذکرہ میں تصریح کی ہے کہ یہ مصر میں کئی علاقوں پر قاضی رہے ،اور متعدد مدارس میں تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔

            آپ کا انتقال ۶۵۰ھ میں قاہرہ میں ہوا اور حضرت سیدہ نفیسہؒ کے جوار میں مدفون ہوئے۔(۱۵۵)

۲۶-د امام ابو علی البکری رحمہ اللہ

            امام صدر الد ین ابو علی حسن بن محمد بن ابی الفتو ح محمد بن محمد بن محمد قرشی تیمی البکر ی کا سلسلہ نسب بوا سطہ قاسم بن محمد سیدنا حضرت ابو بکرؒ صدیق سے جا ملتا ہے۔ آپؒ ۵۷۴ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے چند مشائخ کے نام درج ذیل ہیں:

            (۱) آپؒ کے نانا ابو حفص المیانشیؒ         (۲) حنبل دمشقیؒ

            (۳) حفصہ بنت حمکاؒ                         (۴) موٴید بن محمد طوسیؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) تقی الدین بن الصلاحؒ                 (۲)بدر ابن التوزیؒ

            (۳) ابو عبداللہ بن زرادؒ                    (۴) ابوبکر بن یوسف حریریؒ(۱۵۶)

            ۱- محدث شام امام محمد بن یوسف صالحیؒ نے اپنے استاد شیخ الاسلام ابو الفضل بن ابی بکر شافعیؒ کے متصل طریق سے حافظ ابو علی البکر ی کی مسند ابی حنیفہؒ کا ذکر کیا ہے۔(۱۵۷)

            ۲- حافظ ابن طولونؒ نے بھی حافظ ابو علیؒ کی مسند کا ذکر کیا ہے۔(۱۵۸)

امام ابو علی ا لبکریؒ کا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- عمر بن حاجبؒ آپؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:”آ پ امام، عالم،فصیح و بلیغ، خوبصورت، تحصیل علم کے لیے بے حد سفر کرنے والے؛ مگر اکثر اوقات دعوے بھی کرتے تھے“۔(۱۵۹)

            ۲- زکی الدین برزالیؒ کہتے ہیں: ”کان کثیر التخلیط․․․․“ اس پر امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: ”آخر عمر میں ان کی حا لت بہتر ہو گئی تھی“۔(۱۶۰)

            امام ابو علی البکر ی وصال سے کئی سال پہلے فالج میں مبتلا ہو گئے۔ پھر آپؒ مصر چلے گئے اور وہیں آپؒ نے ۱۱/ذوالحجہ۶۵۶ھ میں انتقال فرمایا۔(۱۶۱)

۲۷-امام محمد بن محمد بن محمد بن عثمان بلخی بغد اد ای رحمہ اللہ

            یہ عظیم محدث اور جلیل القدر حنفی فقیہ ہیں ۔آپؒ کا لقب ”النظام“ ہے اور یہ اپنے اس لقب سے مشہور ہیں۔ آپؒ کے اساتذہ اجلہ محدثین ہیں:

            (۱)الموٴ ید الطو سیؒ، (۲) مسعود بن مودودا لاستر آبادی ؒ، (۳) محمد بن عبدالر حیم الفامیؒ

            آپؒ کے شاگردوں میں کئی محدثین ہیں، جن میں سے مشہور محدث حافظ دمیا طی بھی ہیں۔

            انھوں نے بھی مسند ابی حنیفہؒ لکھی ہے، جس کا نام ”جزء ابی حنیفة“ ہے۔ حافظ عبدالقادر قرشیؒ نے اس مسند کا ان کے صاحبزادے امام عبدالوہاب بن محمدؒ سے سماع کیا تھا؛ چنانچہ حافظ عبدالقا در ان کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:”آپؒ کے بیٹے امام عبدالوہاب بن محمدؒ نے ان سے ”جزء ابی حنیفة“کو روایت کیا ہے اور میں نے امام عبدالوہابؒ سے اس جزء کا سماع کیا تھا۔(۱۶۲)

علمی مقام و مرتبہ

            ۱- حافظ ذہبیؒ ان کو ”مفتی الحنفیة“ قرار دیتے ہیں اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ انھوں نے صحیح مسلم کا درس دیا ہے۔(۱۶۳)

            ۲- حافظ عبدالقادر قرشیؒ ان کے صاحبزادے کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :”آپؒ کے والد امام محمد کبارؒ فقہا ئے ا حنا ف میں سے تھے۔“

            امام محمد بن محمد بلخیؒ کا انتقال ۶۵۳ھ ہوا۔

۲۸-امام قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ

            امام موصوف کا شمار ان متبحر اور کثیر الاستحضار محدثین میں ہوتا ہے جن کی نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے حدیث کا درس امام بدرالدین عینیؒ، امام ابن حجر عسقلانیؒ اور امام ابن الہمامؒوغیرہ سے لیا ،جب کہ آپؒ سے شرف تلمذ رکھنے والے اس کثرت سے ہیں کہ موٴر ک ابن العمادؒ نے لکھا ہے:”ان سے علم حاصل کرنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا ہے“۔

            شیخ فواد سیز گین کی تصریح کے مطابق انھوں نے امام ابو حنیفہؒ کی مسند بھی لکھی ہے اور اس کا مخطوطہ برلن وغیرہ کے کتب خانوں میں موجود ہے۔(۱۶۴)

            علامہ محمد شوکانیؒ نے بھی ان کی تعریف کی ہے اور ان کے بارے میں لکھا ہے کہ:”انھوں نے اپنے بعد اپنا ہم مثل نہیں چھوڑا“۔(۱۶۵)

            امام قاسمؒ کا انتقال ۸۷۹ھ میں ہوا۔

۲۹-امام شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ

            حافظ شمس الدین ابو الخیر محمد بن عبدالرحمان بن محمد بن ابی بکر بن عثمان بن محمدؒ عظیم موٴرخ اور جلیل القدر محدث ہیں۔ آپؒ ماہ ربیع الاول ۸۳۱ھ میں قاہرہ مصر کے ایک علاقہ بہاوٴ الدین میں باب الفتوح کے قریب پیدا ہوئے”سخا“ خاندان سے تعلق کی وجہ سے آپؒ کو سخاو ی کہا جاتا ہے۔آپ شافعی المذہب تھے۔ آپ کے اساتذہ درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابن حجر عسقلانیؒ                 (۲) حافظ بدرالدین عینیؒ

            (۴)تقی الدین ابن فہدؒ                    (۴) برہان الدین زمزیؒ ودیگر(۱۶۶)

             حافظ شمس الدین سخاویؒ نے ”الضوء اللامع“ میں بنفس نفیس اپنی تصانیف کا تذکرہ کیا تو اس میں امام اعظمؒ سے مروی احادیث پر مشتمل اپنی کتاب ”التحفة المنیفة فیما وقع لہ من حدیث الامام أبی حنیفة“ کو بھی شامل کیا ہے۔(۱۶۷)

امام سخاویکا علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام سخاوی ؒنے شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ سے اس قدر اکتساب فیض کیا انھیں کہنا پڑا: ”میرے ہم منصبوں میں سے قریب ترین ہیں“۔(۱۶۸)

            ۲- امام سخاویؒ کے تلمیذ رشید شیخ جار اللہ بن فہد مکیؒ نے آپؒ کے متعلق فرمایا:”اللہ رب العزت کی قسم!یہ حقیقت ہے کہ متاخر حفاظ حدیث میں سے میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا،جس شخص نے بھی ان کی تصانیف کا مطالعہ کیا ہے یا انھیں دیکھا وہ اس بات کو جانتا ہے۔(۱۶۹)

            امام شمس الدین سخاویؒ نے مدینہ منورہ میں ۲۸/شعبان ۹۰۲ھ میں وصال فرمایا۔(۱۷۰)

۳۰- امام عیسیٰ بن محمد ثعالبی رحمہ اللہ

            امام الحرمین الشریفین ،عالم المغربین و المشرقین عیسیٰ بن محمد بن محمد بن احمد عامر کا لقب ”جاراللہ“ اور کنیت ابو مکتوم و ابو مہدی ہے۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت جعفر بن ابی طالبؒ سے ملتا ہے اس لیے جعفری اور ہاشمی کہلاتے ہیں ۔مولد کے اعتبار سے مغربی، اصلاًجزائر کے علاقہ ثعالبہ سے تعلق رکھنے کی بناپر ثعالبی جب کہ مذہب کی بنا پر مالکی ہیں۔ آپ مر اکش کے علاقہ زواوہ میں ۱۰۲۰ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے شیوخ درج ذیل ہیں:

            (۱) عبدالصادقؒ، (۲)برہان مامونیؒ، (۳) شمس محمد شوبریؒ، (۴) نور علی الاجھوریؒ ودیگر

            آپؒ کے شاگرد درج ذیل ہیں:

            (۱) احمد بن محمد نخلیؒ، (۲) حسن بن علی عجیمیؒ، (۳) سید احمد بن ابی بکر ؒودیگر

            حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

            ۱- ”محدث ثعالبی نے امام ابو حنیفہؒ کی مسند کو تالیف کیا ،اس میں وہ متصل سند کے ساتھ عنعنہ سے امام ابو حنیفہؒ تک احادیث لائے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کا دعوی باطل ہوگیا جو تابعین کے دور میں عدم اتصال سند کا گمان کرتے ہیں“۔(۱۷۱)

            ۲- ڈاکٹر فواد سیزگین نے بھی مسانید ابی حنیفہؒ میں بارہویں مسند ”مسند ثعالبی“ کو ہی درج کیا ہے۔(۱۷۲)

علمی مقام و مرتبہ

            ۱- امام محمد المحبی حافظ ثعالبی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:”امام ا لحر مین، دنیائے شرق و غرب کے نامور عالم،امام،با عمل عالم ،صالح، زہد و ورع کے پیکر،علم و تحقیق کے ہر میدان کا احاطہ کرنے والے ہیں۔“(۱۷۳)

            ۲- امام ثعالبیؒ کے شیخ برہان مامو نی نے آپ کو اجازت علمی دیتے ہوئے لکھا ہے:”انھوں نے کتنے زمانوں سے اپنی مثل بلکہ منزلت علم میں اپنے قریب تک کوئی نہیں دیکھا“۔(۱۷۴)

            امام محمد محبیؒ اور علامہ عصامیؒ کے مطابق امام ثعالبیؒ کا وصال بروز بدھ ۱۴/رجب ۱۰۸۰ھ میں ہوا۔(۱۷۵)

#         #         #

حواشی

(۱)          امام ابو حنیفہ کا محد ثا نہ مقام از حضرت مولانا حافظ ظہور أحمد الحسینی ۔ (۲) التقیید لمعرفة السنن و المسا نید: چ۳، ج۱۔

(۳)         الخیرات الحسان: ۱۴۴۔                                              (۴)         عقود الجمان،ص: ۳۲۳۔

(۵)         تانیب الخطیب ،ص: ۱۵۶۔                                         (۶)          الرسالة المستطرفة ، ص: ۲۱۔

(۷)         تانیب الخطیب ،ص: ۱۵۶۔                                         (۸)         قرة العینین فی تفصیل الشیخین ، ص:۱۵۸۔

(۹)          تعجیل المنفعة ،ص: ۱۸۔                                               (۱۰)        بغیة الطلب فی تاریخ حلب : جلد ۶، ص ۲۷۱۰۔

(۱۱)         الکواکب السائرة،ص: ۱۷۱۔                                       (۱۲)        تاریخ بغداد للخطیب بغدادی:جلد۲ ص۱۷۳۔

(۱۳)       مناقب الامام ابو حنیفہ لکردی :جلد۲ ص ۱۵۵۔               (۱۴)       لسان المیزان لعسقلانی:جلد۵ ص ۱۲۱۔

(۱۵)         الانساب لسمعانی :جلد۳،ص ۴۸۴۔                             (۱۶)        اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ لصمیری، ص۱۳۰۔

(۱۷)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۶ ص۴۰۳۔                       (۱۸)        المعجم المفہرس لعسقلانی: ص ۳۷۳، رقم ۱۱۲۱۔

(۱۹)        عقود الجمان لصالحی شامی: ص۳۳۰۔                              (۲۰)       الجرح و التعدیل لابن حاتم:جلد ۳ ص۱۴۹۔

(۲۱)        اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ للصمیری: ص ۱۵۱۔                      (۲۲)       سیر اعلام النبلاء للذہبی : جلد۶، ص۴۰۳۔

(۲۳)      الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۸۔                                (۲۴)      الفوائد البھیة لعبد الحی لکھنوی: ص۱۱۹۔

(۲۴)      سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۶ ص۴۰۳۔                      (۲۵)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۳ ص۳۱۰۔

(۲۷)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد۱ ص ۲۸۷۔           (۲۸)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۴ ص ۴۰۳۔

(۲۹)       کتاب الانساب :جلد۴، ص ۲۶۳۔                                (۳۰)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی : جلد ۳ ص ۳۱۱۔

(۳۱)       سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۵،ص ۲۵۷۔                   (۳۲)      لسان المیزان للعسقلانی: جلد ۵، ص ۳۷۴۔

(۳۳)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی : جلد ۳ ص ۳۱۱۔            (۳۴)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد ، ص ۔

(۳۵)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد، ص ۔                                (۳۶)       زاہد الکوثری، تانیب الخطیب للزاہد الکوثری

(۳۷)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی: جلد۴ ص ۳۲۷۔          (۳۸)      لسان المیزان للعسقلانی: جلد۱، ص۲۶۵۔

(۳۹)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد۵، ص ۱۶۔             (۴۰)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۵، ص ۳۴۵۔

(۴۱)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۵، ص ۳۴۴۔                   (۴۲)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی:جلد ۵، ص ۲۲۔

(۴۳)      جامع المسا نید للخوارزمی:جلد ۱، ص ۷۷۔                        (۴۴)      عقود الجمان للصالحی شا می: ص ۳۳۳۔

(۴۵)      تذکرة ا لحفاظ للذہبی: ۔جلد ۲، ص ۷۰۰۔                      (۴۶)       الجواھر ا لمضیئة للقرشی: ص۴۹۔

(۴۷)      عقود الجمان للصالحی شا می:ص۴۹۔                                (۴۸)      جامع المسا نید للخوارزمی جلد ۱، ص ۷۳۔

(۴۹)       عقود الجما ن للصالحی ص۳۲۷۔                                      (۵۰)       کشف الظنون لحاجی خلیفہ: جلد ۲، ص۱۶۸۱۔

(۵۱)        عقود الجو اہر المنیفةلمرتضی :جلد ۱، ص ۶۔                       (۵۲)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی :جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔

(۵۳)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۷۔        (۵۴)      تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔

(۵۵)       تاریخ بغدادی للخطیب بغدادی ،جلد ۱۱، ص ۲۳۸۔        (۵۶)       تاریخ بغداد، جلد ۱، ص۴۲۶۔

(۵۷)      سیر اعلام النبلاء للذہبی ۔جلد ۱۵، ص۴۲۴۔  (۵۸)      جامع المسا نید للخوارزمی : جلد ۱، ص ۷۰۔

(۵۹)       تنقیح تحقیق، أحادیث التعلیق لابن عبدالھادی: جلد ۳، ص ۲۱۵۔

(۶۰)       الاصابة فی تمییز الصحابہ للعسقلانی :جلد ۲، ص ۴۴۸۔

(۶۱)        نیل الأو طار للشوکانی،جلد ۷، ص ۲۷۲۔                         (۶۲)       سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۵، ص ۴۲۵۔

(۶۳)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۶، ص ۱۵۵۔                     (۶۴)       السھم المصیب لعیسی ایوبی: ص ۱۰۵۔

(۶۵)       جامع المسا نیدللخوارزمی: جلد ۱، ص ۷۳۔                        (۶۶)       تاریخ جرجان لحمزہ بن یوسف جرجانی: ص ۲۶۷۔

(۶۷)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۶، ص ۱۵۵۔                     (۶۸)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳، ص ۹۴۲۔

(۶۹)        سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص ۴۱۸۔                    (۷۰)      التقیید لمعرفة رواة السنن و المسا نید لابن نقطہ: ص ۱۱۳۔

(۷۱)       جامع المسا نید للخوارزمی : جلد۱ ص ۷۱۔                           (۷۲)      کشف ا لظنو ن لحاجی خلیفہ: جلد ۲، ص ۱۶۸۱۔

(۷۳)      تذ کرة الحفاظ للذہی: جلد ۳، ص ۹۸۱۔                           (۷۴)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۳، ص ۲۶۴۔

(۷۵)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی : جلد ۹ ص ۳۵۱۔                               (۷۶)       جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۱، ص۷۰۔

(۷۷)      جامع المسا نید للخوارزمی: جلد۲، ص ۴۸۷۔

(۷۸)      المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم لابن جوزی، جلد ۷، ص ۱۵۴۔

(۷۹)       جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ ص ۴۸۷۔                      (۸۰)      میزان الاعتدال للذہبی:جلد ۸، ص ۱۲۸۔

(۸۱)       تاریخ بغداد لخطیب بغدادی: جلد ۹، ص ۳۵۱۔               (۸۲)      سیر اعلام النبلاء :جلد ۱۶ ص۴۰۰۔

(۸۳)      التقیید لابن نقطہ: ص ۲۷۔                                         (۸۴)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۹۷۳۔

(۸۵)      سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص۴۰۰۔                    (۸۶)       سیر اعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۶، ص۴۰۰۔

(۸۷)      التقیید لابن نقطہ:ص ۲۷۔                                         (۸۸)      سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۶ ص ۴۰۲۔

(۸۹)       تانیب الخطیب لزاہد الکوثری:ص ۱۵۶۔                       (۹۰)       تذکرة الحفاظ: جلد ۳، ص ۱۳۲۔

(۹۱)        تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر: جلد ۴۳، ص ۱۰۱۔          (۹۲)       تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۱۲ ص ۳۹۔

(۹۳)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳، ص ۹۸۷۔                         (۹۴)       تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ۱۵۶۔

(۹۵)       تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۳ ص ۹۸۸۔                          (۹۶)        سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد ۱۶، ص ۴۳۲۔

(۹۷)       تاریخ بغداد للخطیب بغدادی: جلد ۱۱، ص ۲۶۷۔            (۹۸)       سیر اعلام االنبلاء للذہبی: جلد ۱۷، ص ۲۸۔

(۹۹)        تاریخ التراث العربی لفواد سیزگین :جلد ۳، ص ۴۲۔      (۱۰۰)     التقیید لابن نقطہ: ص ۴۰۔

(۱۰۱)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۰۳۴۔                        (۱۰۲)     تاریخ مدینہ دمشق،لابن عساکر :جلد ۱۷ ص ۳۶۔

(۱۰۳)     سیر اعلام النبلاء للذھبی : جلد ۱۷، ص ۴۸۷۔                  (۱۰۴)     جامع المسا نید للخوارزمی:جلد۱ ص ۷۲۔

(۱۰۵)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ص ۱۵۶۔                       (۱۰۶)     عقو دالجواھر المنیفہ:جلد۱ ص ۶۔

(۱۰۷)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۴۵۸۔                    (۱۰۸)     شذرات الذہب لابن عماد :جلد۳ ص ۲۴۵۔

(۱۰۹)      سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۴۶۲۔                     (۱۱۰)      الصلة لابن بشکوال: ص ۱۶۔

(۱۱۱)       کشف الظنون لحاجی خلیفہ:جلد ۲ ص ۱۶۸۱۔                   (۱۱۲)      عقود الجمان لصالحی شامی: ص ۳۲۸۔

(۱۱۳)      الصلة لابن بشکوال:ص ۱۶۔                                         (۱۱۴)      الصلة لابن بشکوال:ص ۱۶۔

(۱۱۵)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔              (۱۱۶)      کشف الظنون لحاجی خلیفہ:جلد ۲ ص ۱۶۸۱۔

(۱۱۷)      الوافی بالوفیات للالصفدی:جلد ۲۱ ص ۲۹۸۔                  (۱۱۸)      تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔

(۱۱۹)       لسان المیزان لعسقلانی:جلد ۴، ص ۲۶۰۔                     (۱۲۰)     تاریخ بغداد للخطیب بغدادی :جلد ۱۲ ص ۱۰۲۔

(۱۲۱)      سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷ ص ۲۷۰۔                    (۱۲۲)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری: ص ۱۵۶۔

(۱۲۳)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد ۱۷، ص ۲۷۶۔                   (۱۲۴)     سیراعلام النبلاء للذہبی:جلد۱۸ ص ۲۷۶۔

(۱۲۵)     تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر :جلد ۵ ص ۳۸۔              (۱۲۶)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۱۸۳۔

(۱۲۷)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۱۱۸۹۔                        (۱۲۸)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳، ص ۱۱۸۹۔

(۱۲۹)      تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۳ ص ۱۱۸۴۔                         (۱۳۰)     التقیید لابن نقطہ :ص ۳۲۳۔

(۱۳۱)      جامع المسا نید للخوارزمی:جلد ۲ ص ۴۳۴۔                      (۱۳۲)     جامع المسا نید للخوارزمی :جلد۲، ص ۴۳۵۔

(۱۳۳)    سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۱۹ ص ۵۹۲۔                      (۱۳۴)    الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۳۔

(۱۳۵)     جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ ص ۴۳۴۔                      (۱۳۶)     جامع المسا نید للخوارزمی: جلد ۲ص ۴۳۵۔

(۱۳۷)    تاج التراجم لابن قطلوبغا: ص۱۶۱ ۔                               (۱۳۸)    الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۱۴۳۔

(۱۳۹)     عقود الجمان لصالحی شامی: ص ۳۲۵۔                              (۱۴۰)     عقود الجواہر لمرتضیٰ زبیدی:جلد ۱ ص۶۔

(۱۴۱)      لسان المیزان للعسقلانی:جلد ۵ ص ۲۴۲۔

(۱۴۲)     سیر اعلام النبلاء للذ ہبی:جلد۲۰ ص۲۶۔

(۱۴۳)    التقیید لمعرفة رواة السنن و المسانید لابن نقطہ: ص ۸۲۔

(۱۴۴)    التقیید لمعرفة رواة السنن و المسانید لابن نقطہ: ص ۸۲۔

(۱۴۵)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۴ ص ۱۳۲۹۔

(۱۴۶)     سیر اعلام النبلاء للذہبی: جلد۲۰، ص ۵۶۳۔

(۱۴۷)    سیر اعلام النبلاء : (ت۵۱۲۹)۔

(۱۴۸)    تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد۴ ص ۱۳۳۱۔

(۱۴۹)     تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص ۱۳۳۷۔

(۱۵۰)     الجواہر المضئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۱)      تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر:جلد ۵۳ ص ۲۵۲۔

(۱۵۲)     الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۳)     الجواہر المضیئة للقرشی: ص ۲۳۰۔

(۱۵۴)     الجواہر المضیئة للقرشی :جلد ۲ ص ۱۸۶۔

(۱۵۵)     الجواہر المضیئة للقرشی :جلد ۲ ص ۱۸۶۔

(۱۵۶)     تذکرة الحفاظ للذہبی:جلد ۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۵۷)     عقود الجمان لصا لحی: ص ۳۳۴۔

(۱۵۸)     تانیب الخطیب لزاہد الکوثری:ص ۱۵۶۔

(۱۵۹)      تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۶۰)     تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص۱۴۴۴۔

(۱۶۱)      تذکرة الحفاظ للذہبی: جلد ۴ ص ۱۴۴۴۔

(۱۶۲)     الجواہر المضیئة:جلد ۱ص ۳۳۵۔

(۱۶۳)     سیر اعلام النبلاء : (ت ۵۸۶۶)

(۱۶۴)     تاریخ التراث العربی:جلد ۳ ص ۴۳۔

(۱۶۵)     البدر الطالع:جلد۱ ص ۳۸۴۔

(۱۶۶)      شذرات الذہب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۵۔

(۱۶۷)     الضوء اللامع لسخاوی:جلد ۸ ص ۱۶۔

(۱۶۸)     شذرات الذہب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۵۔

(۱۶۹)      النورالسافر لعبدالقادر عیدروسی: ص ۲۲۔

(۱۷۰)     شذرات الذھب لابن عماد:جلد ۸ ص ۱۷۔

(۱۷۱)      انسان العین فی مشائخ الحرمین لشاہ ولی اللّٰہ: ص ۷۔

(۱۷۲)     تاریخ التراث العربی لفواد سیز گین:جلد۳، ص ۴۴۔

(۱۷۳)    خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

(۱۷۴)    خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

(۱۷۵)     خلاصة الأثرلمحبی: جلد ۳، ص ۲۴۲۔

—————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts