ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

خطاب:حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم

(شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند)

ترتیب و تلخیص: مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانی#

            اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

            ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے انھیں ابھارا جائے۔

            ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمند ظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں، عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔

پہلا کام

            سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَہِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ (آل عمران:۱۳۹) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی۔یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہے: فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً (فاطر:۴۳)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

            لہٰذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندرایمانی قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔

موت کا ایک دن معین ہے

            ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتاْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:۳۴) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی؛ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہٰذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فُزتُ وَرَبِ الکَعبَة خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا؛ اس لیے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انھیں کرتے رہیں،ایمان کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں، ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّٰہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ(یوسف:۹۰) جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی اِسی تقوی اور صبر کی بنیادپر مدد ہوئی ہے؛ لہٰذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔

دوسرا کام

            دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنے والے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیادپروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم نہیں ہوگا؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔

            آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر احساس پیداہوا اور اُنھیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے:

اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

            ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے، ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے؛ اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بنا پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کیسے دور ہوگی؟

ہماری بے وزنی کا اصل سبب

            اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکلَةُ إِلَی قَصْعَتِہَا. فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ: ”بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَةَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ“ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ: ”حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَةُ الْمَوْتِ“․

            ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،(آپ…کا یہ فرمان سن کر) ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ … نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ …نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی، اس وقت صحابہ کرام کی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا؛اس لیے وہ آپ … کا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ…نے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانے میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے،نشیب آیا تو نیچے گرگئے۔ بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔

            مزید فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی اورکیوں آئے گی؟آپ …نے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے اوردل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انھیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

دنیا کی محبت کیا ہے؟

            دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نیند ہمیں پیاری ہے،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے؛جس کے ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک مقام پرارشاد باری ہے: قُلْ إِن کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَٰنُکُمْ وَأَزْوَٰجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَٰلٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَٰسِقِینَ.(التوبة:۲۴)

            ترجمہ: اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

            یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ صحابہ  پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور صرف آپ … ہی پر نہیں،پچھلے انبیاء کرام پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔

            ایک مقام پراسی ابتلاوآزمائش کا یوں ذکر کیاگیا: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن(البقرة:۱۵۵) ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟ کس چیز سے آزمائیں گے؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقے میں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا اور امتحان کس لیے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا: اِس امتحان کے اندر کامیابی انھیں لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر انھیں برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی طاعت پرصبر، معصیت سے بچنے کے لیے صبراور مصیبت پرصبر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،اللہ فرماتے ہیں:ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے !جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے؛یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔

تیسرا کام

            ان حالات میں تیسرا کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

            ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ؛اس لیے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں۔

خلاصہٴ کلام

            ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔سب سے پہلی بات: اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔

            دوسری بات : برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے؛ تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔

            تیسری بات :دعا ئیں کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، اپنی حفاظت کا حق شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں؛ اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں؛ لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں ؛بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا ، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔

            اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے،آمین!

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts