رسول اکرم… کے متعدد نکاح اور مستشرقین کے افتراء ات
از: مولانا اشرف عباس قاسمی
استاذ دارالعلوم دیوبند
رحمت عالم، پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر مستشرقین ومخالفین نے طعن وتشنیع اور افتراء ات واتہامات کے جو تیر چلائے ہیں اور آپ کی معصوم شخصیت اورپاکیزہ کردار سے دنیا کو متنفر کرنے کے لیے شکوک واعتراضات کی جو منصوبہ بند مہم چھیڑ رکھی ہے؛ ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایک دو نہیں؛ بلکہ گیارہ نکاح کیے اور نعوذ باللہ آپ مغلوب الشہوہ تھے اور ہمہ وقت اسی طرح کی چیزوں میں مستغرق رہتے تھے، ظاہر ہے ایک ایسا پیغمبر جس نے دنیا کو عفت وعصمت اور شرم وحیا کا سبق پڑھایا اور اعلیٰ اخلاق واقدار کا حامل صالح معاشرہ تشکیل دیا، ہزار جتن کے باوجود مکہ کے کفار ومعاندین اور مدینہ کے یہود ومنافقین کو جس کے کردار پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکا؛ مستشرقین ومخالفین ایسی بلند کردار شخصیت میں بھی کیڑے نکالنے سے محض خبث باطن اور تعصب وعناد کی وجہ سے باز نہ رہ سکے۔
مستشرقین کے گستاخانہ تبصرے
چنانچہ فرانسیسی مستشرق مکسیم روڈنسن کہتا ہے:
”کان من سوء الحظ أن شعر تجاہ خدیجة بالعاطفة الطبیعیة، التی أرواہا بعدما تقدمت بہ السن مع النساء الشابات والمحبوبات في حریمہ“ (محمد،ص۵۱)
”یہ بدقسمتی کی بات تھی کہ محمد کو خدیجہ سے ساتھ فطری، پیار محسوس ہوا، جس کو انھوں نے اپنے حرم کی جوان اورمحبوب خواتین کے ساتھ بڑھاپے کے بعد بیان کیا۔“
جب کہ عیسائی پادری واٹنز جیری نے کلیسا کی مذہبی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہوت پرست قرار دیا اور کہا:
”الرسول کان یتحرش بالأطفال وتزوج اثنتی عشرة زوجة“ (معجم افتراء ات الغرب علی الاسلام، ص۱۰۱)
”یہ شخص جن کو مسلمان پیغمبر مانتے ہیں بچوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے تھے اور بارہ خواتین سے انھوں نے شادی کررکھی تھی“۔
اس طرح کے دسیوں اور اوچھے الزامات اور بے ہودہ تعبیرات سے مستشرقین کی تحریریں بھری پڑی ہیں، جنھیں نوک قلم پر بھی نہیں لایا جاسکتا، ان کی جرأت گستاخانہ اور صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے مذکورہ بالا دو اقتباسات ”نقل کفر کفر نباشد“ کے احساس کے ساتھ بادل ناخواستہ نقل کردیے گئے ہیں۔
سب سے پہلے تو مخالفین کے حلق سے یہی نہیں اتررہا ہے کہ اسلام میں مرد کو ایک سے زائد چار عورتوں سے بہ یک وقت نکاح کی اجازت کیوں دی گئی ہے، یہ تو عورت پر ظلم اور گھریلو زندگی میں پیچیدگی کا سبب ہے۔ ثانیاً یہ کہ اگر چار تک کی اجازت ہے تو رسول مطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سے زائد گیارہ نکاح کیوں کیے۔
اس مختصر مضمون میں انھیں دو سوالوں کے جواب دے کر حقیقت حال واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسلام اور تعدد ازواج
اسلام ایک ہمہ گیر دین فطرت ہے، اس نے فطری جذبات کی رعایت کرتے ہوئے، حرام کاری سے حفاظت اور افزائش نسل کے صالح مقاصد کے لیے نکاح کا حکم دیا ہے اور اس کو میاں بیوی کے درمیان مودت ورحمت اور ایک دوسرے کے لیے تسکین قلب کا سامان فراہم ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے، ارشاد باری ہے:
”وَمِنْ ئَایَٰتِہِٓ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَٰجا لِّتَسْکُنُوٓاْ إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّة وَرَحْمَةً إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیٰت لِّقَوْم یَتَفَکَّرُونَ“ (الروم:۲۱)
”اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں، تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی، اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو فکر سے کام لیتے ہیں۔“
اس کے ساتھ ہی اگر ضرورت ہو تو تعدد ازواج یعنی ایک ہی وقت میں ایک سے زائد دو، تین اور چار تک کی مخصوص شرائط و تفصیلات کے ساتھ اجازت دی گئی ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
”وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِی لْیَتَٰمَیٰ فَنکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ لنِّسَآءِ مَثْنَیٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَٰنُکُمْ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ“ (سورة النساء:۳)
”اور اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکوگے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو۔ دو دو عورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو، وہی سہی، اس میں امید ہے کہ ایک طرف نہ جھک پڑوگے۔“
تعدد ازواج کی شرائط وقیود
البتہ تعدد زوجات کی اجازت غیرمحدود اور علی الاطلاق نہیں ہے؛ بلکہ نصوص کی روشنی میں یہ تین اہم شرطوں کے ساتھ مشروط ہے:
۱- مسلمان کے لیے ایک وقت میں چار تک کی ہی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، اس شرط پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
۲- تعدد ازواج کی رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیویوں کے حقوق کی ادائیگی پر قدرت کا ہونا ضروری ہے؛ لہٰذا جو شخص ایک سے زائد بیوی کے مہر اور دیگر اخراجات کا متحمل نہ ہو، اس کو تعدد کی اجازت نہیں ہے اور اگر ایک کا بھی خرچ نہیں اٹھاسکتا ہے، تو مال کا انتظام ہونے تک وہ ایک نکاح سے بھی باز رہے گا۔ قرآن کریم میں ہے:
وَلْیَسْتَعْفِفِ لَّذِینَ لَا یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتَّیٰ یُغْنِیَہُمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ(سورة النور:۳۳)
”اور ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کا مقدور نہیں ان کو چاہیے کہ ضبط کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردیں۔“
۳- ایک سے زائد خواتین سے نکاح کی صورت میں ان کے درمیان عدل اور برابری بھی ضروری ہے؛ اس لیے کہ اللہ پاک نے جہاں تعدد کی اجازت دی ہے، وہیں یہ بھی ارشاد فرمادیا ہے: ”فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُواْ فَوَٰحِدَةً“ (سورة النساء:۳)
”اگر تم کو احتمال ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو“
اور اس عدل کا مطلب یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان نان ونفقہ، رہائش، لباس، پوشاک، باری اور ان تمام مادی امور میں مساوات ضروری ہے جو شوہر کے بس میں ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے اندرونی لگاؤ اور دلی محبت کا، تو یہ اس کے اختیار سے باہر کی چیز ہے، وہ اس میں برابری کا مکلف نہیں ہے۔
فحاشی اور بے راہ روی کا جائز متبادل
مردوزن میں مساوات کا نعرہ دے کر جو لوگ مرد کے لیے ایک سے زائد نکاح پر اعتراض کرتے ہیں وہ یا تو حقائق کو جانتے نہیں، یا جان بوجھ کر ان سے آنکھیں موندلیتے ہیں، عام اندازے کے مطابق لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہوتی ہے، تو کیا تعدد پر قدغن لگاکر لڑکیوں کی ایک تعداد کو شتربے مہار کی طرح چھوڑدیا جائے کہ ان کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرکے فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دیا جائے؟ اور بیوی کی حیثیت سے باعزت زندگی گزارنے کا حق ان سے چھین لیا جائے؟ یاد رکھیے! اسلام کی نظر میں زنا اور بدکاری انتہائی قبیح عمل ہے اوراس کے ناسور سے معاشرے کوپاک رکھنے کی اسلام بہت زیادہ کوشش کرتا اوراس کے مرتکب کے لیے انتہائی سخت سزا تجویز کرتا ہے۔ اس لیے اس طرح کی بے راہ روی سے حفاظت اور فطری جذبات کی جائز طریقے پر تسکین کے لیے نکاح اور متعدد نکاح کی اجازت دے رکھی ہے۔
متعدد نکاح کے جواز کے اسباب اور حکمتیں
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلے کا سنجیدگی اور معروضیت کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔ گہرائی کے ساتھ غور وفکر کے نتیجے میں واضح طورپر تعدد ازواج کی حکمتیں اور اسباب سمجھ میں آجاتے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
۱- عورت کی حفاظت اور اس کے وقار کا خیال: ایک سے زائد نکاح کی اجازت میں عورت کا مفاد ہے؛ اس لیے کہ عموماً عورتوں کی تعداد، مردوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے اور قانون قدرت نہیں چاہتا کہ عورتوں کی ایک تعداد کنواری ہی رہ جائے؛ جب کہ کوئی بھی عورت اپنی فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے مرد سے مستغنی نہیں ہوسکتی ہے اور جیسے ہر مردکو شوہر اور باپ بننے کا حق ہے، اسی طرح ہر عورت کو بھی بیوی اور ماں بننے کا حق ہے اور تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں تعدد کی اجازت کے بغیر ہرعورت کو اس کا یہ حق نہیں دیا جاسکتا ہے۔
۲- حالت مرض میں نگہداشت: کبھی بیوی کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے اور شوہر کو ضروریات کی تکمیل کے لیے دوسری شادی کرنی ہی پڑتی ہے، تو پہلی خود بھی طلاق لینے کے بجائے اسی کی زوجیت میں رہنے کو پسند کرتی ہے؛ کیوں کہ شوہر اس کے بھی نان ونفقہ اور رہائش کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اور کبھی عورت شوہر کے قابل نہ رہ جانے کے باوجود اس کے ساتھ قلبی تعلق اور دیرینہ محبت کی وجہ سے اس سے الگ نہیں ہونا چاہتی اور سوکن کو برداشت کرنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کی فطری محبت کی رعایت بھی اس کی متقاضی ہوتی ہے کہ اسے بھی شوہر کی زوجیت میں رہنے دیا جائے۔
۳- حصول اولاد کی خواہش کی تکمیل: انسان کو فطری طور سے اولاد کی بے پناہ چاہت ہوتی ہے اور بعض مرتبہ عورت کے بانجھ پن کی وجہ سے اسے دوسری شادی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اب ایک شکل تو یہ ہے کہ اس کو کہا جائے کہ تم اپنی پہلی بانجھ بیوی کو طلاق دو، تب ہی دوسری شادی کرسکتے ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو نکاح میں باقی رکھتے ہوئے اور اس کے حقوق کی ادائیگی بھی شوہر پر لازم رکھتے ہوئے اسے دوسری کی اجازت دی جائے۔ شریعت عورت کے ساتھ فطری ہمدردی اور طلاق کو ناپسندیدہ قرار دینے کی وجہ سے دوسری صورت کو ترجیح دیتی ہے۔
۴- عورتوں کا تعاون: بعض دفعہ کوئی خاتون بیوہ ہوجاتی ہے، جس کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہوتے ہیں، یا مرد کی غیرمحرم قریبی رشتہ دار خاتون ہوتی ہے اور یہ مرد پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے ایسی خاتون سے نکاح کرکے اس کے اوراس کے بچوں کی کفالت کاذمہ دار اور باعزت زندگی کا سہارا بن جاتا ہے۔
۵- مردوعورت میں فطری تفاوت کی رعایت: مرد کی تولید کی صلاحیت بسا اوقات ستراسّی سال کی عمر ہوجانے کے باوجود باقی رہتی ہے، جب کہ خواتین پچاس سال کی ہوتے ہوتے اس صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اس صورت میں افزائش نسل جو ایک محمود مقصد ہے؛ کی تکمیل کے لیے تعدد کی اجازت کے سوا اور کیا شکل رہ جاتی ہے؟
۶- مرد کی جنسی طاقت کی رعایت: اللہ رب العزت نے بعض مردوں کو زبردست جنسی طاقت عطا کررکھی ہے اور عورتوں پر بعض مراحل ایسے آتے ہیں جن میں جنسی تعلقات قائم نہیں کیے جاسکتے، مثلاً حیض، نفاس اوربعض ایام حمل، تو ان صورتوں میں مرد کو حرام کاری سے بچانے کے لیے شریعت نے دوسرے نکاح کی شکل میں جائز راہ عمل فراہم کردی ہے۔
۷- کوئی محروم نہ رہے: اسلام نے تمام خواتین کے لیے توازن اور عدل کا نظام قائم کررکھا ہے، اس لیے کوئی ایسی عورت جس کے شوہر کا انتقال ہوجائے، یا وہ مطلقہ ہوجائے یا خاصی عمر گزرگئی اور اب تک اس کی شادی نہ ہوسکی۔ ایسی عورت کو بھی محرومی سے بچانے کا نظام کردیاگیا ہے کہ اگر معاشرے کے نوجوان اس کو پہلی بیوی کے طورپر اپنانے سے گریز کریں تو شادی شدہ لوگ آگے بڑھ کر اپنی زوجیت میں لے کر ذمہ داری کا ثبوت دیں اور کسی بھی خاتون کو تنہائی اور ذلت کی آگ میں نہ جھلسنے دیں۔
۸- رشتہ داری اور ارتباط کے دائرے کی وسعت: تعدد ازدواج دعوتی، رفاہی اور سماجی خدمات کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے قرابت اور ارتباط کا دائرہ وسیع ہوتا ہے؛ اس لیے سسرالی رشتے کو بھی اللہ رب العزت نے مقام امتنان میں ذکر کیا ہے:
”وَہُوَا لَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا“ (الفرقان:۵۴)
”اور وہی ایسا ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔“
حکیم الامت حضرت تھانوی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”چنانچہ باپ دادا وغیرہ شرعی خاندان اور ماں نانی وغیرہ عرفی خاندان ہیں جن سے پیدائش کے ساتھ ہی تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر شادی کے بعد سسرالی کے رشتے پیدا ہوجاتے ہیں، یہ دلیل قدرت بھی ہے کہ نطفہ کیا چیز تھی پھر اُس کو کیسا بنادیا کہ وہ اتنے علاقوں والا ہوگیا اور نعمت بھی ہے کہ یہ تعلقات مدارِ معاونت ہیں۔“ (ترجمہ وتفسیر بیان القرآن، ص۷۱۹)
تعددازواج کی یہ چند حکمتیں اور اسباب ذکر کردیے گئے، کھلے ذہن کے ساتھ غور وفکر سے یہی نہیں؛ بلکہ ہر حکم ربانی اور قانون خداوندی میں مخفی مصلحتیں اس طرح آشکارا ہوجاتی ہیں کہ عقل سلیم رکھنے والے خود ہی مکمل انشراح کے ساتھ سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔
غوروفکر کا ایک اہم پہلو
یہاں اس امر پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ مخالفین نے اس طرح پروپیگنڈا کررکھا ہے جیسے ہر مسلمان نے ایک سے زائد نکاح کررکھا ہو اور یہ اسلام کا ایسا حکم ہو جس کی بجا آوری ہرحال میں ضروری ہو، جب کہ عملی صورت حال خاص کر برصغیر میں یہ ہے کہ تعدد نکاح کے واقعات شاذ ونادر ہی پیش آتے ہیں اور مسلمانوں کا معاشرتی مزاج بھی عام طور سے اس کو قبول نہ کرنے کا ہے۔ مخالفین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ شریعت مطہرہ نے بہ وقت ضرورت تعدد کی اجازت دی ہے؛ لیکن تعدد ازواج شریعت کی طرف سے ایسا لازمی حکم نہیں ہے کہ ہر مسلمان کو ایک سے زائد نکاح کرنا ہی ہوگا اور اس کے لیے بھی اس عورت کی رضامندی ضروری ہے جس سے نکاح ہورہا ہے اوراگر پہلی خاتون یہ محسوس کرے کہ شوہر واقعی اس کی حق تلفی کررہا ہے تو وہ اس کو عدالت میں گھسیٹ سکتی ہے اور برابری کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
اسلام نے تعددازواج کے تصور کی اصلاح کی ہے
تعدد ازواج کا تصور اسلام کی ایجاد اور کوئی نیا تصور نہیں ہے؛ بلکہ دنیا کی بیش تر اقوام وملل میں صدیوں اس کا تصور رہا ہے۔ زمانہٴ جاہلیت میں لوگوں نے بیک وقت دس دس خواتین سے نکاح کررکھا تھا: بعض انبیاء سابقین علیہم السلام کے حرم میں کئی کئی خواتین رہی ہیں۔ ہندوؤں کی بعض نمایاں مذہبی شخصیات کے یہاں بیک وقت سو سے بھی زائد خواتین رہتی تھیں (کچھ تفصیلات آگے آرہی ہیں)
اسلام نے معاشرتی ضرورت کے پیش نظر بالکلیہ اس پر پابندی عائد نہیں کی؛ البتہ اس کی تطہیر، چار تک تحدید اور شرائط وضوابط کی تعیین کرکے بے راہ روی اور عورتوں کی حق تلفی پر ضرور قدغن لگادیا ہے۔
مغرب کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کا امتیاز
مغرب جس نے اسلام کے تعدد ازواج کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے اور اپنی تہذیب ومعاشرت پر حددرجہ نازاں ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ اس کے یہاں تعدد زوجات بالکل ممنوع ہے؛ بلکہ مغربی معاشرے میں ایک مرد کا متعدد عورتوں کے ساتھ تعلق عام سی بات ہے اور اس کو جرم بھی خیال نہیں کیا جاتا ہے۔ درج ذیل نکات کے ذریعے تعدد کے سلسلے میں دونوں معاشرے کے فرق کو واضح کیا جاسکتا ہے:
# اسلام میں ایسی عورت کو زوجہ اور بیوی کا نام دیا جاتا ہے جب کہ مغربی معاشرے میں اس کو دوست یا گرل فرینڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
# اسلام میں ایک سے زائد نکاح علانیہ طور پر ہوتا ہے جب کہ مغرب میں خفیہ طریقے پر ایک سے زائد عورتوں کے ساتھ تعلقات بنائے جاتے ہیں۔
# اسلامی معاشرے میں یہ عمل شرعی اور قانونی طریقے پر انجام پاتا ہے؛ جب کہ مغربی معاشرے میں حرام اور غیرقانونی طریقے پر انجام دیا جاتا ہے۔
# اسلامی معاشرے میں یہ اجازت چار عورتوں تک محدود ہے؛ جب کہ مغربی معاشرے میں عورتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔
# اسلامی معاشرے میں یہ تعداد عوتوں کے ساتھ مختص ہے؛ جب کہ مغرب میں یہ مردوعورت دونوں کو شامل ہے۔ یعنی ایک خاتون کے بھی متعدد مرد دوست اور بوائے فرینڈ ہوسکتے ہیں۔
# اسلام میں اس تعدد کا ایک خاص نظام ہے اور یہ نظام بیویوں اور ان کی اولاد کے حقوق کی ضمانت لیتا ہے؛ جب کہ مغربی معاشرے میں اس کا کوئی خاص نظام اور ضابطہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے انتشار پھیلتا ہے۔ ان خواتین اور ان کے بطن سے جنم لینے والی اولاد کی حق تلفی ہوتی ہے۔ (تعدد الزوجات فی الاسلام، د․ عبدالجبار فتی زیدان، شبکة الالوکہ)
تعدد زوجات کے تعلق سے معاصر دنیا کا رویہ
اس وقت چند ممالک میں ایک سے زائد بیوی کی قانونی اجازت ہے اور بعض ممالک میں قانونی اجازت نہ ہونے کے باوجود لوگ یہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں، چند اور ممالک میں شادیاں کم اور محض جنسی پارٹنرشپ کا رواج عام ہوچکا ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما چار بیویوں کے شوہر ہیں اور وہاں کے قبائلی قنون اس کی اجازت دیتے ہیں۔ فرانس کے آں جہانی صدر فرانکوئس متران کی دوسری غیرسرکاری بیوی کا راز اس وقت فاش ہوا جب ان کی دوسری بیوہ پہلی بیوی کی موجودگی میں جنازے میں شرکت کے لیے آئیں۔ انسائیکلوپیڈیا بیبلیکا کے مطابق ”ایک عام یہودی کو چار شادیاں کرنے کی اجازت تھی“ ۱۹۵۰/ میں یہودیوں کے چیف ربّی نے ایک سے زیادہ شادی کی عام ممانعت کردی؛ تاہم اب بھی یہودیوں میں کسی نہ کسی شکل میں یہ رائج ہے۔ اسی طرح امریکہ میں مارمان کرچین فرقہ میں اب تک کئی خواتین سے بیک وقت شادیوں کا رواج چلا آرہا ہے۔ اس عیسائی فرقے کے بیش تر پیروکار بوٹاہ اور وائیومنگ وغیرہ ریاستوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح آفروایشین چرچ کے پادری بھی کثیر زوجیت کو خواتین سے بے وفائی، زنا کاری اور بیویوں کے تبادلے جیسی قبیح برائیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ۱۹۵۵/ میں ہندو میرج ایکٹ کے منظور کیے جانے تک ہندوؤں پر شادی کے سلسلے میں کوئی تحدید نہیں تھی۔ اس ایکٹ نے پہلی بار ایک سے زائد شادی کو غیرقانونی قرار دیا، تاہم ہندوؤں کی مقدس کتابوں کی رو سے یہ اب بھی غیرقانونی نہیں ہے؛ لہٰذا یک زوجگی کا دعویٰ محض ملمع کاری ہے اور اسلام اور مسلمانوں پر متعدد شادیوں کا الزام اپنے منافقانہ طرز عمل کی پردہ پوشی ہے“ (فکر وخبر ڈاٹ کام)
خلاصہ یہ کہ تعدد ازواج کا قانون فطرت سے ہم آہنگ، عورتوں کو تحفظ اور مردوں کو عفت بخشنے اور آوارگی وفحاشی سے بچانے والا صدیوں سے چلا آرہا قانون ہے۔ اس کے تناظر میں مسلمان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا تعصب وجہل پر مبنی ہے اوراس الزام کو میڈیا میں بڑھا چڑھاکر اس انداز سے پیش کرنے سے بھی ہوا ملی ہے کہ ایک سے زائد نکاح ہر مسلمان کے لیے لازمی حکم ہے اور مسلمان فطری طور سے ہی شہوت پرست ہوتا ہے۔
مرد کی طرح عورت کو چار شادیوں کی اجازت کیوں نہیں؟
مردوعورت کے درمیان مساوات کے نعرے کے تناظر میں یہ سوال بھی بڑے زور وشور کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ شریعت میں اگر مردوں کو چار بیویوں کی اجازت ہے تو عورت کو بہ یک وقت چار شوہر کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام میں؛ بلکہ ہر مہذب سماج میں خاندان کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور خاندان کا مدار نسب کے تحفظ پر ہے؛ اس لیے کہ اگر نسب ہی معلوم نہ ہو تو رشتوں کا تعین ہی نہیں ہوسکے گا جس سے خاندان بنتا ہے اور ظاہر ہے کہ عورت اگر ایک مرد سے زیادہ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے گی تو پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا تعین انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔ جاہلیت میں جب بدکاری عام تھی، اس مسئلے کا حل یہ نکال رکھا تھا جیساکہ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اپنے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے سارے مردوں کو اکٹھا کرکے ان میں سے کسی ایک کو کہہ دیتی کہ یہ بچہ تمہارا ہے اور اسے بچے کی ذمہ داری قبول کرنی پڑتی تھی۔ یا بعض دفعہ قیافہ شناس کی مدد لی جاتی تھی۔ آج کل مغرب نے ”سنگل پیرنٹ“ کا قانون بناکر بچے کی ذمہ داری کے سلسلے میں ماں کو تنہا چھوڑدیا ہے۔ جو عورت پر صریح ظلم ہونے کے ساتھ فیملی سسٹم کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔
اور نسب متعین نہ ہونے کی صورت میں خود اس بچے کی خوراک، پوشاک اور تعلیم کے بھاری بھرکم اخراجات اور شفقت وتربیت کا ذمہ کون لے گا؟ نزاع کی صورت میں بے چاری ماں کو ہی سب کچھ سہنا پڑے گا۔
نفسیاتی اعتبار سے عورت کی فطرت میں محکومیت اور مرد کی فطرت میں حاکمیت کا عنصر پایا جاتا ہے؛ اس لیے کئی عورتیں ایک مرد کی حاکمیت کو تسلیم کرکے خوش گوار زندگی گزارسکتی ہیں؛ لیکن ایک عورت ایک سے زائد حاکم اور گارجین اس پر مسلط ہونے کی صورت میں ہمیشہ ڈپریشن کی شکار رہے گی اور اس کا سکون غارت ہوجائے گا۔
شادی کا ایک اہم مقصد اولاد کا حصول اور نسل کی افزائش ہے۔ ایک مرد کے نکاح میں چار عورتوں کے ہونے سے یہ مقصد بہ درجہٴ اتم حاصل ہوتا ہے جب کہ ایک عورت کی چار مردوں سے شادی میں افزائش نسل میں کوئی تیزی نہیں آتی ہے۔(al.Islam.org)
”طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایڈز اور سرطان رحم کا بنیادی سبب جنسی آوارگی اور صنفی انتشار ہے، عورت کے رحم میں مختلف لوگوں کے مادہ منویہ کا جمع ہونا عورت کے اندر ایڈز اور سرطان رحم کا شدید خطرہ پیدا کرتا ہے۔“ (parhlo.com)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد نکاح
اس مختصر تفصیل کے بعد زیربحث اصل مسئلے سے متعلق حقائق پیش کرتے ہیں، مستشرقین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر شہوت پرستی کا جو بے بنیاد الزام عائد کیاہے، اس میں اسلام کے اسی عام حکم کو زینہ بنایا ہے کہ جب عامة المسلمین کے لیے حسب ضابطہ چار کی ہی گنجائش ہے تو آخر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ نکاح کیوں کیا؟ کیا یہ شرعی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
چنانچہ کل گیارہ ازواج مطہرات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آئیں۔ جن میں سے دو یعنی حضرت خدیجہ بنت خویلد اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی آخرت کو سدھار گئیں۔ جب کہ نو یعنی امہات المومنین عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، ام سلمہ، سودہ، زینب بنت جحش، میمونہ، جویریہ اور صفیہ رضی اللہ عنہن آپ کی وفات کے وقت بھی بہ قید حیات تھیں۔“ (السیرة النبویہ لابن ہشام ۲/۶۴۳-۶۸۴)
چار سے زیادہ کی اجازت
بعض جدید افکار وخیالات کے حامل مسلمانوں کو بھی یہ خلجان پریشان کرتا ہے اور رسول مطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سے زائد متعدد نکاح کی تشریعی حیثیت کے تعلق سے وہ بھی شکوک و شبہات کی وادیوں میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
اس لیے سب سے پہلے اسی شبہے کا دفعیہ کیا جائے گا۔ اس شبہے کے ازالے کے لیے ہمیں تین اہم نکات ضرور سامنے رکھنا چاہیے:
(۱) وحی اور شریعت کے عین مطابق عمل
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل عین مطابق وحی، مرضی رب کی نمائندگی اور حکم خداوندی کی شرح وتبیین ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے تنہا آپ ہی شریعت مطہرہ کے مبلغ اور شارح ہیں۔ آپ ہی کے واسطے سے دین کا علم ہوتا ہے اور تنہا آپ ہی کو اللہ پاک نے اقوال وافعال کے اعتبار سے معصوم قرار دیا ہے؛ لہٰذا کسی بھی حکم کو شریعت اسلامی کے مخالف قرار دینا شرعاً بھی باطل ہے اور عقلاً بھی؛ اس لیے کہ شریعت اور وحی تو صرف آپ پر نازل ہوئی، تو اس معترض کو کیا وحی کے علاوہ کسی اور طریقے سے پتہ چلا کہ فلاں چیز عین شریعت ہے اور فلاں چیز مخالف شریعت؟
(۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عامی انسان نہیں؛ بلکہ اللہ کے سب سے منتخب بندے اور پیغمبر ورسول ہیں۔ آپ پر جس طرح ایسی ذمہ داریاں اور فرائض عائد کیے گئے ہیں جو عام افراد امت سے مختلف ہیں۔ اسی طرح آپ کو ایسی منزلت اور خصوصیات عطا کی گئی جو اوروں کو نصیب نہ ہوسکیں : مثلاً تہجد اور قیام اللیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض ہے، امت پر نہیں۔ زکاة وصدقات کا استعمال آپ کے لیے اور آپ کی اولاد کے لیے حرام قرار دیاگیا، جب کہ دوسروں کے لیے اس کی اجازت ہے۔ تو انھیں خصوصی احکام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہی وقت میں چار سے زائد خواتین سے نکاح کی اجازت ہے، جس میں کئی دینی وشرعی مصلحتیں مضمر ہیں۔
(۳) اللہ کی اجازت اور ازواج کی مرضی سے سارے نکاح ہوئے
اللہ رب العزت نے صراحت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چار سے زائد نکاح کو مباح قرار دے کر قرآن کریم میں اس کا اعلان فرمادیا ہے، تو کیا اس کے بعد بھی اس کو خلاف شرع اور نقص وعیب کا باعث قرار دینے کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟ ارشاد باری ہے:
”یَٰٓأَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّآ أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَٰجَکَ الَّٰتِیٓ ئَاتَیْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّآ أَفَآءَ للَّہُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّٰتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَٰلَٰتِکَ لَّٰتِی ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَمْرَأَة مُّؤْمِنَةً إِن وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِیُّ أَن یَسْتَنکِحَہَا خَالِصَة لَّکَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ“․ (الاحزاب:۵۰)
”اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی یہ بیویاں جن کو آپ ان کے مہر دے چکے ہیں، حلال کی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو تمہاری مملوکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اوراس مسلمان عورت کو بھی جو بلاعوض اپنے کو پیغمبر کو دے دے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں، یہ سب آپ کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں نہ کہ اور مومنین کے لیے۔“
اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ سارے نکاح ان تمام خواتین کی طرف سے مکمل رضامندی اور قبولیت تامہ سے ہوئے تھے۔ ان میں سے کبھی کسی کا ایسا تاثر سامنے نہیں آیا جس سے محسوس ہوکہ وہ اس نکاح پر راضی نہیں تھیں؛ بلکہ تنگی وعسرت اورنامساعد حالات کے باوجود وہ اس رشتے کو ہمیشہ اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتی رہیں اور ایک بار قضیہٴ نامرضیہ پیش آنے کے بعد جب اللہ رب العزت کی طرف سے انھیں دنیا کے سامان عیش اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کے درمیان اختیار دیاگیا اورکہا گیا:
”یَٰٓأَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَٰجِکَ إِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَوٰةَ لدُّنْیَا وَزِینَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیلاً # وَإِن کُنتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْأٓخِرَةَ فَإِنَّ اللَّہَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَٰتِ مِنکُنَّ أَجْرًا عَظِیمًا“․(الاحزاب:۲۸-۲۹)
”اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرمادیجیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ متاع دے دوں اور تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہواوراس کے رسول کواور عالم آخرت کو تو تم میں سے نیک کرداروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرعظیم مہیا کررکھا ہے۔“
تو اس اختیار کے بعد بھی تمام ازواج مطہرات نے مکمل انشراح کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کو ہی منتخب کیا۔ (صحیح بخاری:۴۴۱۲)
تو جب ان متعدد نکاح کو اللہ رب العزت نے مباح قرار دیا اور ساری بیویاں بھی پوری طرح رضامند تھیں، تو کسی اور کے لیے اس پر طعن یا اعتراض کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟
متعدد نکاح کے اسباب اور مصلحتیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ امر خداوندی جتنے نکاح کیے ہیں، سب میں زبردست مصلحتیں اور حکمتیں مخفی ہیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ اہم تعلیمی ودینی مفادات ومصالح ان متعدد نکاحوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے بعض تو مشترکہ عمومی مفادات ہیں جو ساری ازواج سے متعلق ہیں اور بعض عمومی مفادات ومنافع وہ ہیں جو کسی خاص زوجہ سے متعلق ہیں اور اسی نوعیت کے بعض خاص مفادات ہیں۔ ذیل میں ان نکاحوں سے وابستہ تینوں طرح کے مفادات پر مختصراً روشنی ڈالی جارہی ہے:
مشترکہ عمومی مفادات ومصالح
چنانچہ ان نکاحوں سے وابستہ تمام ازواج کے درمیان مشترک عمومی مفادات میں ایک اہم مفاد یہ ہے کہ یہ امہات المومنین دیگر مومن عورتوں کے لیے معلّمات ومربیات ثابت ہوسکیں، خاص کر عورتوں کے مخصوص مسائل میں جن میں انھیں حیا اور شرم محسوس ہوتی ہے۔
دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنس کی تفریق کے بغیر سب کے لیے معلم بناکر بھیجے گئے تھے؛ اس لیے آپ نے مہذب سماج کی تشکیل کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی خیال نہیں فرمایا؛ بلکہ عورتوں کی تربیت اور تعلیم کو بھی ضروری سمجھنا؛ لیکن آپ کا لایا ہوا صالح نظام، فطری حیا اور شرعی ضابطہ مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کو ممنوع قرار دیتا ہے؛ اس لیے عورتوں کی تعلیم کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی یہی ایک شکل رہ گئی تھی کہ آپ کی زوجیت میں مختلف عمر، طبقات اور صلاحیتوں کی حامل خواتین آئیں اور ان کو تعلیم وتربیت دے کر اس لائق بنادیں کہ وہ شہری، دیہاتی اور جوان وبوڑھی ہر قسم کی خواتین کو مثالی تربیت دیں اور آپ کے مشن کو آگے بڑھائیں؛ چنانچہ ان امہات المومنین سے امت کو بڑا علمی فیض پہنچا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور احادیث وآثار کاایک بڑا ذخیرہ انھیں کارہین منت ہے۔ بعد میں صحابہٴ کرام بھی اپنے لاینحل مسائل میں جب ان سے رجوع کرتے تو وہ مسائل حل ہوجایا کرتے تھے۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں:
”قد کان الصحابة یختلفون في الشيء فتروی لہم امہات المومنین عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم شیئًا فیأخذون بہ ویرجعون الیہ ویترکون ما عندہم لہ“ (زادالمعاد ۵/۵۳۴)
”صحابہٴ کرام کا کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا اور امہات المومنین رسول اکرم … کی کوئی روایت بیان کردیتیں تو صحابہ اسی کو لے لیتے اور اس کی طرف رجوع کرلیتے اور اپنی رائے چھوڑ دیتے تھے۔“
تو امہات المومنین چوں کہ خلوت نبوی کی رازدار اور آپ کی خانگی زندگی کی محرم اسرار تھیں، اس لیے خود قرآن کریم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر جو علم ومعرفت اور حکم و حکمت سکھائی جاتی ہے، دوسروں تک منتقل کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈالی ہے؛ چنانچہ ارشاد باری ہے:
”وَذْکُرْنَ مَا یُتْلَیٰ فِی بُیُوتِکُنَّ مِنْ ئَایَٰتِ اللَّہِ وَالْحِکْمَةِ إِنَّ اللَّہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا“․ (الاحزاب:۳۴)
”اور تم ان آیات الٰہیہ کو اور اس علم کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ رازداں ہے پورا خبردار ہے۔“
خواتین کے سرپر تاج عظمت
اسی طرح ان نکاحوں کی ایک مشترکہ عمومی مصلحت خواتین کی عظمت کا اظہار اور ان کی قدر ومنزلت کا درس دینا ہے۔ اس وقت کے جاہلی معاشرے میں عورت کے صرف فرائض تھے حقوق نہیں، اسے صرف اپنے جنسی جذبات کی تسکین کا سامان اور وراثت میں منتقل ہونے والا مال، یا فقر، عار اور نحوست کا سبب خیال کیا جاتا تھا، ایسے معاشرتی ماحول میں رسول اکرم … نے ان خواتین سے نکاح فرماکر انھیں زبردست عزت و وقار بخشا، یہ سارے مومن مردوں کی مائیں کہلائیں اور امت کے تمام مردوعورت کی معلّمائیں بنیں اوراسی شرافت وعظمت حاصل ہوئی جس پر کوئی بھی عورت فخر کرسکتی ہے۔
خاص خاص نکاح سے وابستہ عمومی مصلحتیں اور مفادات
۱- تالیف قلب اوراسلام مخالف جذبات کا خاتمہ: نسب کی طرح سسرالی رشتے کی عربوں میں بڑی اہمیت تھی اور سخت دشمنی کے باوجود بھی عموماً اس کا پاس ولحاظ رکھا جاتا تھا۔ قبیلے، برادری اور خاندان کی عصبیت نے بھی بہت سوں کو دین حق سے دور کررکھا تھا اور ان جاہلی بیماریوں کے علاج کی بھی حکمت ورافت کے ساتھ سخت ضرورت تھی؛ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان نکاحوں نے بھی بہت سے اشخاص اور قبائل کے دلوں پر لگے نفرت کے تالوں کے لیے شاہ کلید کا کام کیا۔ مثلاً ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا سے نکاح نے کفر کی مشترکہ طاقت کے سالاراعظم اور نمایاں ترین مخالف ابوسفیان کی نفرت و عداوت کی تلوار کو بہ تدریج کند کرنے میں خاص کردار ادا کیا؛ چنانچہ آیت کریمہ ”عَسٰی اللّٰہُ أنْ یَجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِنْہُمْ موَدَّة“(الممتحنہ:۷) ”اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تمہاری عداوت ہے دوستی کردے“
میں مودت اور محبت کا مصداق بعض مفسرین نے ام حبیبہ سے نکاح کو ہی قرار دیا ہے جس کی وجہ سے ابوسفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں نرم گوشہ ہوگئے تھے (دیکھیے ابن کثیر ۸/۹۰)
اور خود ابوسفیان کو جب اس نکاح کا علم ہوا تو انھوں نے بڑے اعزاز کے ساتھ کہا تھا: ”ہو الفَحْلُ لا یُقْدَعُ انفُہ“ (سیراعلام النبلاء، ج۲، ص۲۲۳)
”وہ ایسا نر (باعزت شوہر) ہے جس کو (نکاح سے روکنے کے لیے) ناک پر مارا نہیں جاسکتا“ دراصل جب کمزور اونٹ بہت عمدہ اونٹنی سے جفتی کا ارادہ کرتا ہے تو لوگ اس کی ناک پر مارکر الگ کردیتے ہیں اور جب اس کے خلاف ہوتو یہ محاورہ بولتے ہیں، ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھی، دونوں مسلمان تھے اور حبشہ کی طرف دونوں نے ہجرت کی؛ مگر اتفاق سے عبیداللہ نے عیسائیت کو قبول کرلیا تو ام حبیبہ کا معاملہ مشکل میں پڑگیا؛ اگر وہ مکہ واپس آتیں تو سارا خاندان مشرک تھا، ایمان کی حفاظت مشکل ہوتی، تو حضرت نجاشی نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا۔ اس پر ابوسفیان نے اس محاورے سے خوشی کا اظہار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اعتراف بھی، یہ بڑاہی معنی خیز ہے، وہ حضور سے جدائی نہیں چاہتا تھا۔ بعض نے اس کا مطلب بتایا ہے: محمد ایک معزز انسان ہیں، جن کی عزت کو داغ دار نہیں کیاجاسکتا، یا یہ کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقابل شکست اور مستحکم ہونے کی طرف اشارہ تھا۔
اسی طرح بنوالمصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ جب حبالہٴ عقد میں آئیں تو ایسے حالات بنے کے وہ قبیلہ جو مسلمانوں سے برسر پیکار تھا، بہ رضا ورغبت اسلام کے جانثاروں میں شامل ہوگیا۔ (سیرة ابن ہشام ۲/۲۹۵)
اسی طرح حضرت میمونہ سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقے میں اسلام اور صلح کی راہیں ہموار ہوئیں۔
۲- تشریعی حکمتیں: انھی مصالح اور مفادات میں بعض تشریعی حکمتیں ہیں،رسول اللہ … نے نکاح کے ذریعے اپنے عمل سے بعض جاہلانہ رسوم و معتقدات کی اصلاح فرماکر امت کو صحیح راہ عمل دکھائی؛ چنانچہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کرکے متبنّیٰ کو حقیقی بیٹا قرار دینے اور اس کی مطلقہ سے نکاح نہ ہونے کے تصور کے غلط ہونے کو واضح فرمادیا، ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا قَضَیٰ زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُونَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَج فِیٓ أَزْوَٰجِ أَدْعِیَآئِہِمْ إِذَا قَضَوْاْ مِنْہُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ اللَّہِ مَفْعُولاً․ (الاحزاب:۳۷)
”پھر جب زید کا اس سے جی بھرگیا تو ہم نے آپ سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کچھ تنگی نہ رہے، جب وہ ان سے اپنا جی بھرچکیں اور خدا کا یہ حکم تو ہونے ہی والا تھا۔“
۳- بعض خاص صحابہ کا اعزاز واکرام: چنانچہ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کا مقصدیہ بھی تھا کہ اپنے یار غار صدیق اکبر اور فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے دیرینہ مخلصانہ تعلقات کو سسرالی ودامادی رشتے کے ذریعے مزیدمستحکم کرکے انھیں اس خاص اعزاز واکرام سے نوازا جائے۔
۴- قبیلے پر نوازشات اور مخالفین کی حیثیت عرفی کا لحاظ: آپ کے نکاح سے بعض مرتبہ فوری عمومی فائدہ یہ ہوا کہ قبیلے کی ایک خاتون سے نکاح کی خبر جیسے ہی عام ہوئی مسلمانوں نے اس رشتہ داری کے احترام میں، قبیلے کے جن افراد کو غلام اور باندی بنارکھا تھا، سب کو ازاد کردیا؛ چنانچہ حضرت جویریہ بنت حارث سے جو قبیلہ بنو مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں، نکاح کی خبر سے مسلمانوں نے بنومصطلق کے تمام قیدی جو جنگ میں ہاتھ لگے تھے، آزاد کردیے اور کہنے لگے:
أصہار رسول اللّٰہ یسترقون؟ کیا رسول اللہ … کے سسرالی رشتہ داروں کو غلام بنایا جاسکتا ہے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جویریہ بنت حارث کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کرلینے سے بنومصطلق کے سو گھرانوں کو آزادی نصیب ہوگئی، میرے علم میں نہیں کہ کوئی اور خاتون، جویریہ سے زیادہ اپنی قوم کے لیے خیروبرکت کا ذریعہ بنی ہو۔ (زادالمعاد ۳/۲۵۸)
اسی طرح بعض نکاح میں دشمنوں کی حیثیت عرفی اور آنے والی زوجہ کی نسبی وخاندانی وجاہت کا خیال بھی پیش نظر رہا؛ چنانچہ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ حیی بن اخطب یہودیوں کے نامور قبیلے بنو نضیر کا سردار اور بے حد معزز شخص تھا۔ باپ نے اپنی بیٹی کا نکاح اسلام بن مشکم القرظی سے کردیا؛ لیکن اس سے طلاق ہوجانے کے سبب کنانہ بن ابی الحقیق سے کردیا جو خیبر کے رئیس ابورافع کا بھتیجا اور خود بھی خیبر کے قلعہ القموص کا حاکم تھا۔
سن ۷ ھ میں یہودیوں کی شرارت کا قلع قمع کرنے کے لیے مسلمانوں نے جب خیبر پر چڑھائی کی تو وہاں سے حاصل ہونے والے اموال غنیمت میں حضرت صفیہ بھی شامل تھیں، جن کے باپ، بھائی اور شوہر جنگ میں کام آگئے تھے اور وہ نہایت قابل رحم حالت میں تھیں۔ جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو حضرت دحیہ کلبی نے حضرت صفیہ کو اپنے لیے پسند کرلیا؛ لیکن چوں کہ وہ تمام اسیران جنگ میں معزز تھیں؛ اس لیے صحابہ نے عرض کیا: صفیہ بنوقریظہ اور بنونضیر کی رئیسہ ہے، خاندانی وقار اس کے بشرے سے عیاں ہے، وہ ہمارے سردار (یعنی حضور…) کے لیے ہی موزوں ہے؛ چنانچہ رسول اکرم … نے حضرت دحیہ کلبی کو دوسری لونڈی عطا فرماکر حضرت صفیہ کو آزاد کردیا اور انھیں اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے گھر چلی جائیں یا چاہیں تو رسول … کے نکاح میں آجائیں۔ انھو ں نے نکاح میں آنا پسند کیا تو حضور … نے ان کے حسب منشاء ان سے نکاح فرمالیا، صہبا کے مقام پر رسم عروسی ادا کی گئی اور وہیں دعوت ولیمہ بھی ہوئی۔ (السیرة النبویہ ۲/۳۳۶، البدایہ والنہایہ ۴/۱۹۷-۱۹۸)
۵- اشک شوئی ودل جوئی: بعض نکاح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ازواج کے خاص حالات کے پیش نظر ان کی اشک شوئی، کفالت اور دل جوئی کے لیے بھی کیے: جیسے کہ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا، ابتدا میں ہی مسلمان ہوکر اپنے شوہر حضرت سکران بن عمرو کے ہمراہ حبشہ ہجرت کرگئیں، جب وہاں سے مکہ واپسی ہوئی تو حضرت سکران انتقال کرگئے اور یہ بے سہارا ہوگئیں، گھروالوں کی طرف بھی لوٹ نہیں سکتی تھیں؛ کیوں کہ وہ سب اسلام کے خلاف سخت رویہ رکھتے تھے، ادھر ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی افسردہ اور اپنی بچیوں کی دیکھ ریکھ کے لیے فکرمند رہتے تھے؛ چنانچہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ سے نکاح فرمالیا۔
اسی طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نہایت کربناک حالات سے گزری تھیں، حبشہ کے بعد جب اپنے شوہر حضرت ابوسلمہ کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کے لیے نکلیں، تو ان کے میکے والوں نے نہیں جانے دیا اور ابوسلمہ کو تنہا مدینہ روانہ ہونا پڑا،کچھ دنوں کے بعد سسرال والے چھوٹے بچے کو بھی ان کے پاس سے چھین لے گئے، اس طرح تینوں جدا ہوگئے، پھر ایک صاحب کی رحم دلی سے بچہ واپس ملا اور وہ مدینہ پہنچیں؛ لیکن یہاں غزوئہ احد کے بعد محبوب اور غم گسار شوہر حضرت ابوسلمہ انتقال کرگئے اور وہ پھر قابل رحم حالت کو پہنچ گئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کبرسنی کے باوجود نکاح فرماکر ان کی اعزاز واطمینان والی زندگی سے نوازا۔
نکاحوں کا محرک خواہش نفس یا شہوت پرستی ہرگز نہیں
اوپر کی تفصیلات سے یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے نکاح کیے، ان کے پیچھے انسانی، دینی، تعلیمی، عمومی اور خصوصی مصلحتیں تھیں اور یہ متعدد نکاح ان ازواج کے لیے اور پوری امت کے لیے خیرکثیر اور نفع عظیم کا باعث بنے اور تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان نکاحوں کا محرک محض خواہش نفس کی تکمیل یا شہوت پرستی ہرگز نہیں تھا۔ اس کے علاوہ درج ذیل حقائق سے بھی اس تاثر کی پوری طرح نفی ہوجاتی ہے:
أ- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عین عنفوان شباب پچیس سال کی عمر میں اپنا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کرتے ہیں جن کے اس سے قبل دو نکاح ہوچکے ہیں اور عمر بھی چالیس سال تک پہنچ چکی ہے اور پچیس سال تک وہی آپ کی اکلوتی بیوی ہوتی ہیں اور آپ اپنی عمر کے پچاس سال تک کوئی دوسرا نکاح نہیں کرتے، یہاں تک کہ حضرت خدیجہ کی وفات کا غم آپ کو جھیلنا پڑتا ہے۔
ب- رسول اکرم … کی زوجیت میں جتنی خواتین آئی ہیں، ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا تمام کی تمام شادی شدہ تھیں، کوئی کنواری نہیں تھیں، بعض کی ایک بار اور بعض کی دوبار شادی ہوچکی تھی، سابق شوہر کی وفات یا اس سے طلاق کے بعد رسول اکرم … کی زوجیت میں آئیں۔
ج- اکثر بیویوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اس وقت ہوا ہے جب آپ کی عمر مبارک پچاس کیا، ستاون سال سے بھی متجاوز ہوچکی تھی، جیساکہ درج نقشے سے واضح ہے:
نمبرشمار | ام المومنین کے اسماء گرامی | نکاح کا سال | بہ وقت نکاح رسول اللہﷺ کی عمر مبارک |
۱ | حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا | ۱۵ قبل نبوت | ۲۵ سال |
۲ | حضرت سودہ رضی اللہ عنہا | ۱۰ نبوی | ۵۰ سال |
۳ | حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا | ۱۱ نبوی | ۵۱ سال |
۴ | حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا | ۳ ھ | ۵۶ سال |
۵ | حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا | ۴ ھ | ۵۷ سال |
۶ | حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا | ۴ ھ | ۵۷ سال |
۷ | حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا | ۵ ھ | ۵۸ سال |
۸ | حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا | ۶ ھ | ۵۹ سال |
۹ | حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا | ۷ ھ | ۶۰ سال |
۱۰ | حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا | ۷ ھ | ۶۰ سال |
۱۱ | حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا | ۷ ھ | ۶۰ سال |
(شیخ ایہاب کمال احمد، رد افتراء ات اللئام aluka.net )
تو اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم العیاذ باللہ شہوت پرست اور عورتوں کے شیدا تھے؛ تو آپ نے عین جوانی میں چالیس سالہ خدیجہ کے بجائے کسی حسین وجمیل کنواری لڑکی کا انتخاب کیوں نہیں کیا اور پچاس سال کی عمر تک ایک ہی نکاح پر کیسے اکتفا کرلیا اور زیادہ تر نکاح ستاون سال کی عمر کے بعد ہی کیوں کیے؟
دیگر مذاہب کی مقدس شخصیات کے یہاں تعدد ازواج
اب ہم اس مسئلے کواس نقطئہ نظر سے بھی دیکھتے ہیں کہ کیا ایک سے زائد نکاح کوئی نئی چیز تھی جس کی ابتدا پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی؟ اور کیا یہ واقعی کسی عظیم مذہبی شخصیت کے لیے نامناسب عمل ہے کہ یہود ونصاریٰ اور ہندوؤں نے اس کی بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو مطعون کرنے کی سعی نامشکور کررکھی ہے؟ تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں؛ نہ تویہ نامناسب عمل ہے اور نہ ہی اسلام سے اس کی ابتدا ہوئی ہے؛ بلکہ یہود ونصاریٰ کی مسلّم شخصیات، انسانیت کے سب سے افضل اور منتخب طبقے انبیاء کرام علیہم السلام اور ہندوؤں کے بھگوانوں کے یہاں صدیوں پہلے یہ روایات ملتی ہیں۔
چنانچہ تورات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویاں تھیں: سارہ، ہاجرہ اور قتورہ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار بیویاں تھیں: لیاہ، زلفہ، راخل اور بلہ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چار بیویاں تھیں اور انھیں لاتعداد بیویوں کی اجازت تھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی نو بیویاں جب کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیگمات اور ۳۰۰ حرمیں تھیں۔
دوسری جانب ہندوؤں کے سب سے بڑے دیوتا رام کے والد راجہ دسرتھ کی تین بیویاں ہٹ رانی کوشلیا، رانی سمترا اور رانی کیکئی معروف ہیں۔ کرشن جی کی 16,100 بیویاں بتائی جاتی ہیں، لالہ لاجپت رائے نے اپنی کتاب ”کرشن چرتر“ میں ۱۸/رانیوں کو خود ہی تسلیم کیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: رحمة للعالمین، جلد دوم، ص۹۹-۱۰۲)
ان متعدد بیویوں کی وجہ سے ان شخصیات کو ماننے والوں کے نزدیک ان کے تقدس میں کوئی فرق نہیں آیا تو آخر سیدالانبیاء محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد نکاح کیسے نامناسب اور غلط قرار دیے جاسکتے ہیں؟ جب کہ یہ سارے نکاح تعلیمی، معاشرتی، دینی اور شرعی مصلحتوں سے ہوئے تھے۔
چار سے زائد ازواج کو نکاح میں کرنے اور طلاق نہ دینے کی ایک اہم سماجی و شرعی مصلحت
پہلے ہی اس سوال کے جوابات دیے جاچکے ہیں کہ جب ایک عام مسلمان کے لیے صرف چار کی اجازت ہے تو رسول اکرم … کے نکاح میں بہ یک وقت نو خواتین کیسے جمع ہوئیں؟ یہاں ان جوابات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اس کی ایک اور خاص وجہ بھی ہے، جو خود قرآن کریم سے سمجھ میں آرہی ہے۔ اس کو سمجھ لینے سے ذہن پوری صاف ہوجاتاہے کوئی خلجان باقی نہیں رہتا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ سورة الاحزاب میں ازواج مطہرات کو تمام مسلمانوں کی مائیں قرار دیاگیا ہے: چنانچہ ارشاد ہے: النَّبِیُّ أَوْلَیٰ بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِہِمْ وَأَزْوَٰجُہُ أُمَّہَٰتُہُمْ (الاحزاب:۶)
”نبی مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں اورآپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔“
اور اسی وجہ سے ان ازواج میں سے ہر ایک ”ام المومنین“ کہلاتی ہیں؛ لیکن ان کا ماں ہونا محض اعزاز واکرام کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے کچھ عملی پہلو بھی ہیں؛ چنانچہ اسی سورت میں دوسری جگہ فرمایاگیا ہے:
وَمَا کَانَ لَکُمْ أَن تُؤْذُواْ رَسُولَ اللَّہِ وَلَآ أَن تَنکِحُوٓاْ أَزْوَٰجَہُ مِن بَعْدِہِٓ أَبَدًا إِنَّ ذَٰلِکُمْ کَانَ عِندَ اللَّہِ عَظِیمًا․ (الحجرات:۵۳)
”اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو کلفت پہنچاؤ اور نہ یہ جائزہے کہ تم آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو۔“
جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ ازواج امت کی مائیں ہیں اور امت کے افراد بیٹے ہیں اور جیسے ماں بیٹے میں مناکحت ممنوع ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے کسی فرد کا نکاح ان میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوسکتا ہے۔ تو چار کی ممانعت کے بعد جیسے دیگر صحابہ نے زائد بیویوں کو الگ کردیا ایسے ہی اگر آپ بھی اپنی کسی بیوی کو زوجیت سے الگ کردیتے تو ان کے لیے بڑی دشواری پیش آجاتی؛ کیوں کہ عام عورتوں کی طرح ان کو کسی بھی مرد سے بیٹے ہونے کی نسبت سے نکاح کی اجازت ہی نہیں تھی۔ اس طرح وہ بے یارومددگار اور بغیر کسی شوہر کے رہ جاتیں؛ اس لیے ان میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے محروم نہیں کیاگیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چار سے زیادہ بیویوں کو بہ دستور اپنے نکاح میں رکھنا دینی ومعاشرتی مصالح کے ساتھ خود ان معزز خواتین کے احترام اور مفاد میں تھا۔
بعض مغربی مصنّفین کا اعتراف حقیقت
ایک معاصر مغربی مصنفہ کیرن آرام اسٹرانگ اپنی کتاب Mohammad a Prophet for our Time میں لکھتی ہیں:
”قرآن میں تعدد ازواج کا حکم سماجی قانون کا ایک حصہ ہے، اس کا مقصد مردانہ جنسی خواہشات کو بڑھانا نہیں تھا؛ بلکہ ان نا انصافیوں اور مظالم کی اصلاح کرنا تھا جو بیواؤں، مطلقہ عورتوں اور دیگر خواتین کے ساتھ روا رکھے جاتے تھے۔ ایسا بہت ہوتا تھا کہ سرکش لوگ خاندان کے کمزور لوگوں سے سب کچھ چھین لیتے اور ان کے پاس کچھ نہ بچتا․․․ تعدد ازواج کا جواز اسی لیے تھا کہ پریشان حال عورتوں کی عزت کے ساتھ شادی کو یقینی بنایا جاسکے، پرانے نقصان کی تلافی ہو اور غیرذمہ دارانہ تعلقات کا خاتمہ کیا جائے۔ دراصل قرآن عورتوں کو وہ قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا، جو اکثرمغربی عورتوں کو انیسویں صدی کے آخر تک نہیں ملی تھی، آزادیٴ نسواں محمد… کا نہایت عزیز منصوبہ تھا۔“
برطانوی سیرت نگار آر․ وی․ سی باڈلی اپنی کتاب ”دی لائف آف محمد“ میں رقم طراز ہے:
”پیغمبر اسلام کی ازدواجی زندگی کو مغربی پیمانوں سے ناپنے کی مطلق ضرورت نہیں، نا ہی عیسائی طرز حیات سے، یورپ اورامریکہ کی طرز زندگی کا اسلام اور مسلمانوں کے طرز حیات سے موازنہ کرنا بھی فضول ہے؛ جب تک مغرب کے عوام یہ ثابت نہ کردیں کہ ان کی طرز معاشرت دیگراقوام سے اونچی اخلاقی اقدار پر استوار ہے؛ ان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کوکم تر نہ سمجھیں۔“
(Fikrokhabar.com)
—————————————-
دارالعلوم ، شمارہ5۔6، جلد: 106 ، شوال المكرم۔ذی القعدہ 1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء
٭ ٭ ٭