از: عصمت اللہ نظامانی

تخصص فی علوم الحدیث/جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوی ٹاؤن۔ کراچی

            فقہائے احناف میں سے بہت سے حضرات عدیم النظیر، فقید المثال اور علم کے پہاڑ گزرے ہیں؛ لیکن ان میں سے بیشتر حضرات کا تذکرہ و سوانح لوگوں کے درمیان ان کی علمی خدمات کی طرح زندہ وجاوید نہیں اور وہ ان مصنّفین کی طرح مشہور نہیں جن کی کتابیں نصاب میں داخل ہوتی ہیں اور درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہیں، یا جن کی تصانیف حواشی وتعلیقات کے ذریعے مزیّن کی گئی ہیں۔

            حالانکہ ان جلیل القدر گم نام یا غیر معروف فقہاء کا علمی رسوخ، مضبوط استعداد، حیرت انگیز حد تک قوی حافظہ، دسیوں علوم وفنون پر گہری نظر اور تصنیف و تالیف کا عمدہ و لطیف ذوق اس بات کا متقاضی تھاکہ ان کے تذکرے ، حالاتِ زندگی اور علمی کارناموں سے لوگ واقف ہوں، جس طرح نصابی کتابوں کے مصنّفین کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔

            ایسے ہی بلند مقام (اکثر حضرات کے نزدیک گم نام) ہستیوں میں سے ایک ”علامہ قاسم بن قطلوبغا“ ہیں۔

نام ونسب اور ولادت

            ان کا مکمل نام زین الدین قاسم بن قطلوبغا بن عبد اللہ السودونی المصری ہے، موالی میں سے تھے؛ چونکہ ان کے والدکو ”سودون“ نامی شخص نے آزاد کیا تھا، تو اسی نسبت سے وہ ”السودونی“ کہلانے لگے، ان کی ولادت محرم الحرام سن 802ھ بمقام ”قاہرہ“ ہوئی۔ (۱)

حفظ قرآن

            ان کے بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا، اسی طرح انھوں نے یتیمی کی حالت میں اپنا بچپن گزارا اور محض اپنے شوق سے بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کیا اور اس کا کچھ حصہ قاضی ”عز بن عبدالسلام“کو سنایا۔(۲)

طلب رزقِ حلال کے لیے سعی و کوشش

            علامہ قاسم کے والد کا سایہ چونکہ بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا، اور مالی لحاظ سے بھی وہ کمزور تھے، اس لیے انھوں نے لڑکپن سے ہی طلبِ رزق کے لیے کوشش شروع کردی اور”خیاطت“ (سلائی)کا پیشہ اپنایا اور کافی عرصہ اس پیشہ کے ساتھ منسلک رہے۔ (۳)

پیشہ ورانہ مہارت

            علامہ قاسم نے نہ صرف ”خیاطت“سیکھی اور اسے کمائی کا ذریعہ بنایا؛ بلکہ اس میں مہارت تامہ حاصل کی، چنانچہ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جب وہ کالے رنگ کے دھاگے سے کوئی چیز سیتے تو اس طرح ماہرانہ انداز میں دھاگہ استعمال کرتے کہ دیکھنے والوں کو بالکل پتہ نہ چلتا کہ کون سا دھاگہ استعمال ہوا ہے؟ (۴)

تحصیل علم

            مالی حالات جب کچھ درست ہوئے تو آپ نے تحصیل علم کے لیے کوشش اور جستجو شروع کی اور تلاش کرکے وقت کے بڑے علماء اور ماہرینِ فن سے علم حاصل کیا؛ چنانچہ علم تجوید وقرآن ”الزراتیتی“ سے، علم حدیث علامہ ابن حجر اور التاج احمد الفرغانی سے، علم فقہ العز عبد السلام، الشرف السبکی اور المجد الرومی سے حاصل کیا،اسی طرح دیگر علوم و فنون بھی بڑے اساتذہ سے حاصل کیے۔ نیز علم فقہ وقت کے دو نامور فقہاء علامہ السراج قاری الہدایہ اور علامہ ابن الہمام سے بھی حاصل کیا۔ (۵)

علامہ ابن الہمام کی صحبت

            علامہ ابن قطلوبغا نے اپنے شیخ علامہ ابن الہمام محمد بن عبد الواحد السیواسی سے شرف تلمذ حاصل کیا، ان کی مجلس میں بالالتزام کثرت سے حاضری دیتے تھے، اور مروّجہ علوم وفنون میں سے اکثر کا سماع اپنے شیخ ابن الہمام سے کیا، اور ان کی وفات تک ان کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے۔(۶)

شیوخ حدیث

            علامہ قاسم نے اوّلاً بذات خود کتبِ احادیث کا مطالعہ شروع کیا، اور پھر اپنے عہد کے بلند پایہ محدثین اور بڑے مشائخ سے حدیث کا سماع کیا، ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

            (۱) حافظ ابن حجر، (۲) ابن الجزری، (۳) الشہاب الواسطی، (۴) الزین الزرکشی، (۵)التقی المقریزی، (۶) البدر حسین البوصیری وغیرہ۔(۷)

علمی اسفار

            علامہ قاسم نے اوّلاً اپنے شیخ ”التاج احمد“ کے ساتھ شام کا سفر کیا اور وہاں ان سے ”جامع مسانید ابی حنیفہ“ للخوارزمی اور”مقدمہ ابن الصلاح“کا سماع کیا، اسی طرح حجاز، اسکندریہ اور بعض دیگر علاقوں کا بھی سفر کیا۔

مخالفین کے ساتھ مناظرے

            علامہ کو فنِ مناظرہ میں ”ید طولیٰ“ اور کامل مہارت حاصل تھی، انتہائی حاضر ذہن اور سریع الجواب تھے، حق اور اہلِ حق کے دفاع کے لیے”کلام“ اور ”قلم“ دونوں کا استعمال کیا؛چنانچہ علامہ سخاوی آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

            وہو إمام علامة، ۔۔۔ طلق اللسان، قادر علی المناظرة وإفحام الخصم․(۸)

نقد و تنقید

            علامہ ابن قطلوبغا نہایت راست گو اور جرأت مند تھے، علمی مناقشے میں بلا دریغ تنقید کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو مخالفین کی طرف سے اتہام پرزداری اور افتراء و بہتان کا سامنا کرنا پڑا، مخالفین آپ کی ذات کو نشانہ بناتے اور دشنام طرازی سے بھی باز نہیں آتے تھے؛ چنانچہ دیگر القاب کے ساتھ آپ کو لقب”کذاب“سے بھی نوازا گیا۔ (۹)

            حلانکہ علامہ کی تنقید اورراست گوئی صرف مخالفین کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنے مشائخ کے حق میں بھی تھی؛ چنانچہ”نزہة النظر“کی شرح میں اپنے شیخ حافظ ابن حجر پر متعدد مقامات پر علمی گرفت اور تنقید کی ہے، نیز اپنے شیخ علامہ ابن الہمام کے تفردات کے بارے میں آپ کی نگارشات کسی سے مخفی نہیں اور اس سلسلے میں ان کا قول: ”لا یعمل بأبحاث شیخنا التی تخالف المذہب“۔(۱۰) اسی طرح ان کا قول: ”لا تقبل تفردات شیخنا“(۱۱) اہل علم میں کافی مشہور ہیں۔

تلامذہ وشاگرد

            آپ نے ایک طویل عرصہ تدریس کی خدمت سرانجام دی، جس کی وجہ سے سیکڑوں حضرات نے آپ سے علم حاصل کیا اور مستفید ہوئے، جن میں سے علامہ سخاوی، محب الدین ابن شحنہ اور علامہ ابو الفضل عراقی مشہور ہیں۔

تصانیف وتالیفات

            علامہ قاسم سے اپنی عمر کے اٹھارویں سال سن 820ھ سے تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کردیا، احادیث کی متعدد کتابوں کی تعلیق و حواشی اور شرح و تخریج کے ذریعے خدمت کی، اور حدیث ومتعلّقاتِ حدیث پر دسیوں کتابیں تصنیف کیں۔ نیز آپ کی چھوٹی بڑی تمام تصانیف کی تعداد سو(۱۰۰) سے زیادہ ہے، جن میں سے بعض کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔

            آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور:تاج التراجم، القول المبتکر علی شرح نخبة الفکر اور التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیار وغیرہ ہیں۔(۱۲)

اہل علم کی آپ سے متعلق آرا

            بہت سے حضرات نے آپ کی مدح سرائی اور علمی واخلاقی بلندی کی گواہی دی ہے، ان میں آپ کے معاصرین، تلامذہ اور اساتذہ سب شامل ہیں۔

            (۱) علامہ ابن حجر نے ”الإمام، العلامة، الفقیہ، الحافظ، المحدث الکامل، الأوحد“ جیسے گراں قدر القاب سے نوازا ہے؛ حالانکہ ابنِ قطلوبغا ان کے شاگرد تھے۔(۱۳)

            (۲) علامہ الزین رضوان نے”من حذاق الحنفیة، کتب الزائد واستفاد وأفاد“ کہاہے۔(۱۴)

            (۳) آپ کے شیخ علامہ المقریزی نے ”برع فی فنون من فقہ وعربیة وغیر ذالک“ لکھاہے۔

            (۴) علامہ العماد الحنبلی رقم طراز ہیں: وبالجملة فہو من حسنات الدہر، رحمہ اللّٰہ۔

            (۵) علامہ سخاوی نے تو آپ کے اوصافِ حمیدہ سے متعلق کئی صفحات تحریر کر ڈالے؛ چنانچہ لکھتے ہیں: وہو إمام علامة قوی المشارکة فی فنون، ذاکر لکثیر من الأدب ومتعلقاتہ، واسع الباع فی استحضار مذہبہ، وکثیر من زوایا خبایاہ․․․․الخ(۱۵)

            (۶) علامہ شوکانی تحریر فرماتے ہیں: وصار المشار إلیہ فی الحنفیة ولم یخلف بعدہ مثلہ۔(۱۶)

مالی تنگدستی

            علامہ قاسم ابتداء سے ہی مالی تنگدستی اور پریشان حالی کا شکار رہے، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت وقت نے بھی آپ کو کوئی عہدہ نہیں دیا،نیز دنیوی مناصب طلب کرنا آپ کی طبیعت کے بالکل خلاف تھا؛ اس لیے عمر کا اکثر حصہ مدرسہ اشرفیہ کی خدمت کرتے گزارا۔(۱۷)

مخالفین کی طرف سے ایذاء رسانی

            مخالفین کی طرف سے آپ کو وقتاً فوقتاً تکالیف اور ایذاء پہنچتی رہتی تھی؛ حالانکہ ان میں سے بعض حضرات نے آپ سے استفادہ بھی کیا تھا؛ مگر پھر بھی ایذاء رسانی سے باز نہیں آئے؛ چنانچہ ایک دفعہ انھوں نے آپ کو سخت ایذاء اور تکلیف پہنچانے کی ٹھان لی، تو قاضی العز بن جماعہ آپ کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، اور مخالفین کے عزم وارادے کو ناکام بنایا۔ علامہ قاسم کے شاگرد علامہ سخاوی لکھتے ہیں کہ آپ مجھ سے فرماتے تھے: ”أنا وأنت غرباء“، یعنی ہم دونوں ہی یہاں پردیسی ہیں۔(۱۸)

علالت اور انتقال

            علامہ قاسم بن قطلوبغا کافی عرصہ مثانے کی تکلیف اور پتھری کے مرض میں مبتلا رہے؛ چنانچہ ایک مرتبہ تکلیف زیادہ ہونے لگی اور پیشاب آنا بند ہوگیا ، یہاں تک کہ آپ کی زندگی خطرے میں پڑ گئی، تو آپ کا علاج کیا گیا، جس کا الٹا اثر ہواکہ آپ ”سلس البول“ کے مریض بن گئے اور انتہائی کمزور ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ کا آخری وقت آپہنچا اور جمعرات کی رات، ۴/ربیع الاول، سن ۹۷۹ھ بمقام قاہرہ آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔(۱۹)

#         #         #

حواشی

(۱)          الأعلام للزرکلی، 5/180، ترجمة:ابن قطلوبغا، ط:دار الملایین

(۲)         معجم حفاظ القرآن عبر التاریخ، محمد سالم، 2/330، ط:دار الجیل۔ بیروت، 1412ھ/1992ء

(۳)         المصدر السابق

(۴)         الضوٰ اللامع لأہل القرن التاسع للسخاوی، 6/184، ظ:دار مکتبة الحیاة۔ بیروت

(۵)         المصدر السابق:6/185

(۶)          المصدر السابق

(۷)         معجم حفاظ القرآن عبر التاریخ، محمد سالم، 2/330

(۸)         الضوء اللامع للعلامة السخاوی، 6/188

(۹)          البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للعلامة الشوکانی، 2/46، ط:دار المعرفة۔ بیروت

(۱۰)        شرح عقود رسم المفتی، ابن عابدین الشامی، ص:35، ط:مکتبة البشری، 1430ھ

(۱۱)         معارف السنن للعلامة البنوری، 1/216، ط:مجلس الدعوة والتحقیق الإسلامی

(۱۲)        الاعلام للزرکلی، 5/180

(۱۳)       الضوء اللامع للسخاوی، 6/185

(۱۴)       معجم حفاظ القرآن عبر التاریخ، محمد سالم، 2/332

(۱۵)        الضوء اللامع للسخاوی، 6/185

(۱۶)        البدر الطالع للشوکانی، 2/46

(۱۷)       معجم حفاظ القرآن عبر التاریخ، 2/332

(۱۸)       الضوء اللامع للسخاوی، 6/189

(۱۹)        البدر الطالع للشوکانی، 2/47۔۔ و الضوء اللامع للسخاوی، 6/188

———————————————–

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts