از: مولاناخورشید عالم داؤد قاسمی
حرف آغاز
دعا عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی: پکارنا، مانگنا، التجا کرنا، التماس کرنا، مدد طلب کرنا وغیرہ ہیں۔ دعا کا اصطلاحی معنی انسان کا اپنی تمام ضروریات وحاجات کا اپنے خالق ومالک یعنی اللہ تعالی سے مانگنا ہے۔
اس امت کو پروردگار عالم نے مختلف خصوصیّات سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے؛ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے دعا اہمیت اورافادیت بڑی ہے۔ دعا کے ذریعہ انسان اپنی حاجات وضروریات کو اپنے خالق ومالک کے سامنے بغیر کسی جھجھک کے پیش کرکے، اپنی مراد مانگ سکتا ہے۔ جو شخص دعا نہیں مانگتا، اللہ تعالی اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کے لیے عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ﴾ (سورہ مومن:۶۰)
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو اور میں تمھاری درخواست قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔
مفتی محمد شفیع صاحب -رحمہ اللہ-(۱۹۷۶-۱۸۹۷ء) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو دعا نہ مانگے اس کے لیے عذاب کی وعید آئی ہے۔ حضرت قتادہ (رحمہ اللہ) نے کعب احبار (رحمہ اللہ) سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء (علیہم السلام)کی تھی کہ ان کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں، میں قبول کروں گا۔ امّت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امّت کے لیے عام کردیا گیا ۔“ (معارف القرآن:۷/۶۱۰)
ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ﴾ (بقرة:۱۸۶)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی صاحب فرماتے ہیں: ”(باستثناء نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی، جب کہ وہ میرے حضور میں درخواست دے۔ سو (جس طرح میں ان کی عرض معروض کو منظور کرلیتا ہوں) ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو (بجاآوری کے ساتھ) قبول کیا کریں (اور چوں کہ ان احکام میں کوئی نامناسب نہیں؛ اس لیے اس میں استثناء ممکن نہیں) اور مجھ پر یقین رکھیں (یعنی میری ہستی پر بھی، میرے حاکم ہونے پر بھی، میرے حکیم ہونے پر اور رعایت ومصالح پر بھی اس طرح) امید ہے کہ وہ لوگ رشد (وفلاح) حاصل کرسکیں گے۔“(معارف القرآن:۱/۴۵۱)
دعا میں گریہٴ وزاری، بے بسی ولاچاری اور مخلصانہ توجہ اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ قرآن شریف میں ہے: ﴿أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللّٰہِ قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ﴾(نمل:۶۲) ترجمہ: (یہ بہتر ہیں) یا وہ جو بے قرار کی (فریاد) سنتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) خدا ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔
امام قرطبی نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مُضْطَرّ (دنیا کے سہاروں سے مایوس ہوکر،خالص اللہ تعالی ہی کو فریادرس سمجھ کر، اس کی طرف متوجہ ہو)کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور اس آیت میں اس کا اعلان بھی فرمادیا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے مایوس اور علائق سے منقطع ہوکر، صرف اللہ تعالی ہی کو کارساز سمجھ کر، دعا کرنا سرمایہٴ اخلاص ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندہ سے پایاجائے، وہ مومن ہو یا کافر اور متقی ہو یا فاسق فاجر، اس کے اخلاص کی برکت سے، اس کی طرف رحمت حق متوجہہ ہوجاتی ہے، جیسا کہ حق تعالی نے کفار کا حال ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ لوگ دریا میں ہوتے ہیں اورکشتی سب طرف سے موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور یہ گویا آنکھوں کے سامنے اپنی موت کو کھڑا دیکھ لیتے ہیں، اس وقت یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ، اللہ کو پکارتے ہیں کہ اگر ہمیں اس مصیبت سے آپ نجات دیدیں ؛ تو ہم شکرگزار ہوں گے؛ لیکن جب اللہ تعالی ان کی دعا قبول کرکے خشکی پر لے آتے ہیں؛ تو یہ پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ (معارف القرآن :۶/۵۹۵)
حدیث کی کتابوں میں بہت سی حدیثیں ملتی ہیں، جن سے دعا کی حقیت، اہمیت اور افادیت کا پتہ چلتا ہے۔ رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- ہر وقت اللہ تعالی کے ذکر میں رطب اللسان رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان ہمہ دم دعاؤں میں مشغول رہتی تھی۔ کبھی ان دعاؤں سے دنیوی واخروی بھلائی اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے طلب کرتے تھے اور کبھی دنیوی واخروی شرور سے پناہ چاہتے تھے۔ ہمیں بھی دعا مانگنے کا معمول بناکر، اپنے اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر کرلینا چاہیے!
دعا سے آقا اور بندیکا رشتہ مضبوط ہوتا ہے
چاہے جتنی خوش حالی آجائے اور جتنا آرام وسکون کی زندگی گزررہی ہو، دعا سے بندے کو کبھی بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے؛ بل کہ جتنا ممکن ہوسکے، دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔دعا بھی ایک عبادت ہے۔ پھر عبادت سے کیسی غفلت؟!اگر ہم غفلت کرتے ہیں؛ تو یہ پروردگار کی نافرمانی ہے۔ دعا سے جہاں آقا اور بندہ کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور تعلق استوار ہوتا ہے، وہیں اس سے بندہ اپنی بے مائیگی وضعف، عجز وانکساری اوراطاعت وبندگی کا اعتراف کرتا ہے۔ ایک روایت ہے : ”فإذا قال: ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴾ (الفاتحہ:۵) قال: ہذَا بَینی وَبینَ عَبدِی، وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ․“ (صحیح مسلم:۳۹۵) یعنی نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے جب بندہ ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴾کی تلاوت مکمل کرتا ہے؛ تو اللہ عزّ وجلّ جواب میں فرماتے ہیں: ”ہذَا بَینی وَبینَ عَبدِی، وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ․“ یعنی یہ آیت مجھ سے اور میرے بندے سے متعلق ہے اور میرے بندے کے لیے ہر وہ چیز ہے جو اس نے مانگا ہے۔
دعا نیکی کے کاموں میں سے ہے
جس طرح نماز، روزہ، زکاة، حج وغیرہ اعمال صالحہ ہیں؛ اسی طرح دعا بھی عمل صالح ہے۔ مسند الہنداحمد بن عبد الرحیم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی -رحمہ اللہ- (۱۷۰۳-۱۷۶۲ء) اپنی مشہور تصنیف: ”حجة اللہ البالغہ“ میں، ”المبحث الخامس، مبحث البرّ والإثم“ کے تحت متعد ابواب ذکر کیے ہیں۔ ان بابوں میں سے ایک باب: ”باب أسرار أنواع من البرّ“ میں رقم طراز ہیں:
”وَمِنہَا: الدُّعَاء فَإِنَّہُ یفتح بَابًا عَظِیمًا مِن المحاضرةِ، وَیجعَل الانقیاد التَّام والاحتیاج إِلَی ربِ الْعَالمین فِی جَمِیعِ الْحَالَات بَین عَیْنَیْہِ، وَہُوَ قَولہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: ”الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ“․ (حجة اللہ البالغہ:۱/۲۶۳)، ناشر: دار ابن کثیر، دمشق- بیروت)
ترجمہ: اور ان (بر کی انواع) میں سے دعا (بھی) ہے۔ بے شک دعا نسبت حضوری کا بڑا دروازہ کھولتی ہے اور وہ کامل تابعداری کو اور ہر حال میں ربّ العٰلمین کے سامنے محتاج ہونے کو سامنے کرتی ہے اور وہ آپ… کا فرمان ہے: ”دعا عبادت کا مغز (جوہر)ہے“۔
دعا عبادت ہے
عام عبادتوں کی طرح دعا بھی ایک قسم کی عبادت ہے؛ بل کہ دعا تو عبادت کا مغز، جوہر اور خلاصہ ہے۔ ہمیں یہ شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ دعا میں ہم اپنی ضروریات وحاجات کو اپنے ربّ کے سامنے پیش کرکے، ان کے پورے ہونے کی درخواست کرتے ہیں؛ لہٰذا دعا ہماری ضروریات میں سے ہے،وہ عبادت نہیں ہے۔ بے شک دعا میں ہم اپنی ضروریات مانگتے ہیں؛ مگر اس میں اللہ تعالی کے حکم کا اتباع بھی ہے؛ اس لیے وہ عبادت؛ بل کہ عین عبادت ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر -رضی اللہ عنہ- ارشاد نبوی نقل کرتے ہیں: ”الدُّعَاء ُ ہُوَ العِبَادَةُ“․(سنن ترمذی:۳۳۷۲)ترجمہ: دعا ہی عبادت ہے، (یا)عبادت ہی دعا ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ”․․․․ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں، مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ وجہہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر، اس کے سامنے سوال کے لیے ہاتھ پھیلانا، بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالی سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لیے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو شخص میری حمد وثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے؛ تو اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا (یعنی اس کی حاجت پوری کردوں گا)۔ (رواہ الجزری فی النہایہ)
ترمذی ومسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِی وَمَسْأَلَتِی، أَعْطَیْتُہُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِی السَّائِلِینَ․“ (ترمذی:۲۹۲۶) یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے؛ تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہو کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے“۔ (معارف القرآن:۷/۶۱۰-۶۱۱)
دعا بہت محبوب چیز ہے
یہ بات اللہ تعالی کو بہت محبوب ہے کہ اس کا بندہ، اس کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ سوالی بن کر، دست دعا دراز کرے اور اپنے غنی وبے نیاز آقا سے مانگے۔ ایک حدیث ہے: ”لَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالَی مِنَ الدُّعَاءِ“․(ترمذی:۳۳۷۰) ترجمہ: اللہ تعالی کی نظر میں، کوئی چیز دعا سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ناراضگی
اللہ تعالی نے اپنے بندے کو مانگنے کا حکم دیاہے۔ اب اگر کوئی بندہ نہیں مانگتا ہے؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ اپنے رب کا نافرمان ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نہ مانگنے والے بندے سے ناراض ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ -رضی اللہ عنہ- فرماتے ہیں کہ رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: ”إِنَّہُ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ․“(ترمذی:۳۳۷۳)ترجمہ:جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے
انسان مصیبت وپریشانی کی صورت میں کسی شناسا شخص کے پاس جاتا ہے، تاکہ وہ اس کی ضرورت پوری فرمائے۔ کبھی وہ شناسا شخص اس کی ضرورت کی تکمیل کردیتا ہے اور کبھی زجر وتوبیخ کے ساتھ واپس کردیتا ہے۔ یہ تو بہت ہی کم سننے میں آتا ہے کہ ایک شخص کسی کی مدد سے ناکام ہوگیا؛ تو وہ اس پر شرم محسوس کرے اور اظہار افسوس کرے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرسکا اور اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا!مگر رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فرمان کے مطابق، اللہ تعالی کو شرم آتی ہے کہ ان کا بندہ، ان کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر، خیر کا سوال کرے، پھر اللہ تعالی ان ہاتھوں کو ناکام اور خالی لوٹا دیں۔ حدیث یہ ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ یَسْتَحْیِی أَنْ یَبْسُطَ إِلَیْہِ عَبْدُہُ یَدَیْہِ یَسْأَلُہُ بِہِمَا خَیْرًا فَیَرُدَّہُمَا خَائِبَتَیْنِ․“ (مصنف ابن أبی شیبہ:۲۹۵۵۵) ایک دوسری روایت ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیمٌ یَسْتَحْیِی إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ“․(ترمذی:۳۵۵۶) ترجمہ:بلاشبہ اللہ تعالی نہایت ہی حیا اور کرم والے ہیں۔ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو (مانگنے کے لیے) اٹھاتا ہے؛ تو اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے کہ وہ ہاتھوں کو خالی اور ناکام واپس کردے۔
دعا ہر وقت نفع بخش ہے
کوئی مصیبت، بلا،حوادث، بیماری، پریشانی وغیرہ آچکے ہوں یا ان کے آنے کا اندیشہ اور خدشہ ہو؛تو آدمی کو فورا اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس پاک ذات کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرنی چاہیے۔ اسے اللہ تعالی کی ذات سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ذات برحق دعا قبول فرمائیں گے اور ان حوادث کو دور اور دفع فرماکر نجات دیں گے۔ ایک حدیث ہے: ”إِنَّ الدُّعَاءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِالدُّعَاءِ“․(ترمذی:۳۵۴۸) ترجمہ: ”بے شک دعا نفع بخش ہوتی ہے ان حوادث میں جو آچکے ہیں اور ان حوادث میں (بھی) جو اب تک نہیں آئے ہیں؛ لہٰذا دعا تم پر لازم ہے اے خدا کے بندو۔“
خوش حالی میں کثرت سے دعا کا فائدہ
ہر ذی شعور اس سے واقف ہے کہ صرف اللہ تعالی کی ذات غنی وبے نیاز ہے اور بندے سب کے سب فقیر ومحتاج ہیں۔ بظاہر ایک بندہ چاہے جتنا بھی خوش حال ہو،اسے اللہ کے سامنے ہر دم عجز وانکساری اور فقیری ومحتاجی کے ساتھ دست دعا پھیلانا چاہیے۔ اس طرح سے اللہ تعالی اور بندے کا تعلق مضبوط رہتا ہے۔ پھر جب بندہ مصائب وآلام اورسختی وپریشانی سے دوچار ہو اور اس وقت دعا کرتا ہے؛ تو اس کی دعا فورا قبول کی جاتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَسْتَجِیبَ اللّٰہُ لَہُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالکَرْبِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَاءَ فِی الرَّخَاءِ“․(ترمذی:۳۳۸۲) ترجمہ: جس شخص کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ اللہ تعالی سختیوں میں اور بے چینیوں میں اس کی دعا قبول کریں؛ تو اس کو چاہیے کہ خوش حالی میں کثرت سے دعا کرے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حدیث مذکور کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”أَقُول: وَذَلِکَ أَن الدُّعَاء لَا یُسْتَجَاب إِلَّا مِمَّن قویت رغبتہ، وتأکدت عزیمتہ، وتمرن بذلک قبل أَن یُحِیط بِہِ مَا أحَاط“․ (حجة اللہ البالغہ:۲/۲۴۱، ناشر: دار ابن کثیر دمشق- بیروت) اس عبارت کی تشریح میں استاذ محترم مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ، سابق شیخ الحدیث: دار العلوم، دیوبند رقم طراز ہیں: ”خوش حالی میں بکثرت دعا کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ دعا اسی کی قبول ہوتی ہے، جو قوی رغبت اور پختہ ارادہ سے دعا کرتا ہے اور آفت میں پھنسنے سے پہلے دعا کا خوگر ہے۔ جیسے مصائب میں لوگ آشنا کی مدد پہلے کرتے ہیں اور صاحب معرفت وہ ہے جو بے غرضی کے زمانہ میں بھی آمد ورفت رکھتا ہے“۔ (رحمة اللہ الواسعہ:۴/۳۲۵)
دعا پہلے اپنے لیے کیجیے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ کسی کے لیے دربار الٰہی میں دعا کرتے؛ تو پہلے اپنے لیے دعا کرتے تھے۔ اس طرح دعا کرنے والے کی محتاجگی کا اظہار ہوتا جو بے نیاز اللہ کو پسند ہے۔ جب بھی ہم کسی کے لیے دعا کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول پر عمل کرتے ہوئے، پہلے اپنے لیے دعا کریں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آپ… کا معمول نقل کرتے ہیں: ”أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ إِذَا ذَکَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَہُ بَدَأَ بِنَفْسِہِ“․ (ترمذی:۳۳۸۵) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو یاد کرتے؛ تو اس کے لیے دعا کرتے، (لیکن دعا) اپنی ذات سے شروع کرتے۔
غافل کی دعاقبول نہیں کی جاتی
یہ درست ہے کہ اللہ تعالی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ مگر دعا مانگتے وقت انسان کا دل ودماغ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اسے یقین کرنا چاہیے کہ اللہ اس کی دعا قبول فرمائیں گے۔ پھر اس شخص کی دعا قبول ہوگی، ان شاء اللہ۔ اگر دعا مانگنے والا ایسا نہیں کرتا؛ بل کہ وہ غفلت، بے توجہی، تذبذب اور شش وپنچ کی حالت میں دعا کرتا ہے؛ تو اسے اپنی دعا کی قبولیت کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایک حدیث شریف میں نبی اکرم… کا فرمان ہے: ”ادْعُوا اللّٰہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ“․(ترمذی:۳۴۷۹) ترجمہ: اللہ سے دعا مانگو اس حال میں کہ تم دعا کی قبولیت کا یقین رکھتے ہو۔ جان لو کہ اللہ غافل اور لاپرواہ دل سے کی جانے والی دعا کو قبول نہیں کرتا ہے۔
دعا میں عزم مصمم ضروری
یہ بات ہمیشہ بندے کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ محتاج وفقیر ہیں اور صرف اللہ تعالی غنی وبے نیاز ہیں؛ لہٰذا دعا کرتے وقت بندے کو چاہیے کہ یقین واعتماد، عزم مصمم اور پختہ ارادے اور عجز وانکساری کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر، اس امید کے ساتھ مانگنا شروع کرے کہ یہی رحیم وکریم ذات عطا کرنے والی ہے۔ یہی ذات مرادیں پوری کرتا ہے، اس کے علاوہ کوئی عطا نہیں کرسکتا۔ پھر ان شاء اللہ ایسے بندے کی دعا قبول ہوگی۔ رسول اکرم… کا فرمان ہے: ”إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، وَلاَ یَقُولَنَّ: اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِی، فَإِنَّہُ لاَ مُسْتَکْرِہَ لَہُ“․ (صحیح بخاری:۶۳۳۸) ترجمہ: جب کوئی شخص تم میں سے دعا مانگے؛ تو وہ (پختہ) ارادے کے ساتھ مانگے۔ یہ نہ کہے کہ اے اللہ!اگر تو چاہے؛ تو عطا فرما؛ کیوں کہ وہ اللہ پر جبر نہیں کرسکتا ہے۔
جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول فرماتے ہیں
حدیث شریف میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر موجود ہے، جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول فرماتے ہیں۔ ان کی دعائیں خاص طور پر اس لیے قبول فرماتے ہیں کہ وہ بغیر کسی غفلت کے پورے اخلاص سے دل لگا کر، اللہ تعالی کے سامنے دست دعا دراز کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں:
مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی دعا اپنی اولاد کے لیے۔ (ترمذی:۱۹۰۵) حج کرنے والے کی دعا، جب تک کہ وہ سفر حج سے واپس نہ آجائے، اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے جانے والے کی دعا، جب تک کہ وہ لوٹ نہ آئے، مریض کی دعا، جب تک کہ وہ صحت یاب نہ ہوجائے اور ایک بھائی کی دعا دوسرے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں۔ (الدعوات الکبیر للبیہقی:۶۷۱)
دعا کی قبولیت کا مطلب
دعا کے قبول ہونے کا مطلب کیا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ مومن کی دعا رد نہیں ہوتی؛ بل کہ اللہ تعالی ان کی ہر دعاقبول فرماتے۔ مگر قبولیت کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ بندے نے دعا میں جو مانگا وہی بعینہ مل جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بندے نے جو چیز مانگی، وہ اللہ تعالی کے نزدیک مصلحت کے خلاف تھی؛ لہٰذا اسے قبول نہ کرکے، اللہ تعالی نے اسی کے مثل کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو اس بندے سے دفع کردیا۔ تیسری شکل یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی مانگی ہوئی دعا کے بدلے، اس کے نامہٴ اعمال میں نیکی درج کردیتے ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگر کوئی دعا ”گناہ“ یا ”قطع رحمی“ پر مشتمل ہوتی ہے؛ تو اللہ تعالی اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔ نبی اکرم… فرماتے ہیں:
”مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَیْسَ فِیہَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِیعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاہُ اللّٰہُ بِہَا إِحْدَی ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَہُ دَعْوَتُہُ، وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَہَا لَہُ فِی الآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ یَصْرِفَ عَنْہُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَہَا“․ (مسند احمد:۱۱۱۳۳)
ترجمہ: جب بھی کوئی مسلمان کوئی ایسی دعا کرتا ہے، جو گناہ اور قطع رحمی پر مشتمل نہ ہو؛ تو اللہ اس شخص کے لیے اس دعا کے بدلے، تین میں سے ایک (ضرور) عطا فرماتے ہیں: (۱) یا اسے اس کی مانگی ہوئی چیز بہ عجلت (مہیا)کردی جاتی ہے، (۲) یا کبھی اس دعا کو اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ بنادیتے ہیں، (۳) یا کبھی اس کے مثل کوئی مصیبت (وغیرہ جو آنے والی ہوتی ہے)اس سے دور کردیتے ہیں۔
دعا کی قبولیت کے خاص احوال واوقات
جب بندہ عجز وانکساری اور گہرے تعلق وربط کے ساتھ، اللہ کے سامنے دست دعا پھیلاتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کی دعا ہر وقت اور ہر حال میں قبول فرماتے ہیں۔ پھر کچھ خاص احوال واوقات ہیں، جن میں خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی (۱۹۹۷-۱۹۰۵ء) نے اپنی مشہور کتاب ”معارف الحدیث“ میں دعا کی قبولیت کے ان خاص احوال واوقات کو مختصرا تحریر فرمایا ہے: ”فرض نمازوں کے بعد،ختم قرآن مجید کے بعد،اذان و اقامت کے درمیان،میدان جہاد میں جنگ کے وقت،باران رحمت کے نزول کے وقت، جس وقت کعبة اللہ آنکھوں کے سامنے ہو، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو، میدان جہاد میں، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑدیا ہو اور رات کے آخری حصے میں۔․․․․ شب قدر میں اور عرفہ کے دن میدان عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت، اور سفر حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافر ی کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی حاض توقع دلائی گئی ہے۔“ (معارف الحدیث:۵/۱۰۵)
دعا قبول نہ ہونے کی کچھ وجوہات
جب دعا قبول نہیں ہوتی ہے؛ تو اس وقت بندے کے دل میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟ قبولیت دعا کی مختلف شکلیں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ اگر بندے کے ذہن میں وہ شکلیں مستحضر رہیں گی؛ تو دل میں یہ سوال عام طور پر پیدا نہیں ہوگا۔ مگر کچھ وجوہات بھی ہیں، جن میں سے کسی کے پائے جانے سے دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ وہ وجوہات یہ ہیں:
گناہ اور قطع رحمی کی دعا کی جائے؛ تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا میں عجلت طلبی کی ممانعت آئی؛ لہٰذا اس سے بھی دعا قبول نہیں ہوتی۔ غفلت کی حالت میں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی کا کھانا حرام ہو، پینا حرام ہو، پہننا حرام ہو اور حرام غذا سے ہی اس کا نشو ونما ہوا ہو؛ تو بھی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے:معارف الحدیث:۵/۹۶-۹۷)
ماثورہ دعائیں
ماثورہ دعائیں یا ادعیہٴ ماثورہ ان دعاؤں کو کہا جاتا ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا منقول ہیں۔ ادعیہ ماثورہ کی وہ دعائیں جو کچھ خاص اوقات واحوال کی مناسبت سے ہیں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان کا اہتمام کرتے تھے۔ ہمیں بھی ان دعاؤں کا پابندی سے اہتمام کرنا چاہیے۔ ان دعاؤں کے اہتمام سے جہاں انسان دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی طلب کرتا ہے اور شر سے پناہ اورحفاظت چاہتا ہے؛ وہیں ان دعاؤں سے انسان اپنے دل ودماغ کو اللہ کے جلال وعظمت کے تصور سے لبریز اور اپنے نفس میں عجز وانکساری پیداکرتا ہے۔ ان ماثورہ دعاؤں کی دو قسمیں ہیں۔ حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری فرماتے ہیں:
”․․․․ماثورہ دعائیں دو قسم کی ہیں: ایک: وہ دعائیں ہیں جن کے ذریعہ بندہ دنیا وآخرت کی بھلائیاں طلب کرتا ہے اور مختلف چیزوں کے شر سے پناہ چاہتا ہے۔ دوسری: وہ دعائیں ہیں جن سے مقصود قُوی فکریّہ (دل ودماغ) کو اللہ کے جلال وعظمت کے تصور سے لبریز کرنا ہوتا ہے، یا نفس میں فروتنی اور انکساری پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے؛ کیوں کہ باطنی حالت کا زبان سے اظہار، نفس کو اس حالت سے خوب آگاہ کرتا ہے، جیسے بیٹے سے کوئی غلطی ہوجائے اور وہ اپنی غلطی پر نادم ہوکر، باپ سے عرض کرے: ”ابا جان!واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی، میں خطاکار ہوں، اپنی غلطی پر نادم ہوں، آپ مجھے معاف کردیں“! تو اس اعتراف سے غلطی کا خوب اظہار ہوتا ہے اور کوتاہی نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔“(تحفة الالمعی:۸/۴۳)
حرف آخر
اگر ایک شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے؛ تو وہ شخص کبھی دیتا ہے اورناراض اورغصّہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ میرے ہی یہاں کیوں مانگنے آیا؟ کیا اس کو کسی اور کا دروازہ معلوم نہیں؟ بسا اوقات لوگ مانگنے والے کو برے الفاظ سے مخاطب کرکے، ذلیل ورسوا بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارا خالق ومالک، غفار وستار، رحیم وکریم اور وہّاب ورزّاق اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور خوب مانگیں۔ اگر ہم اس پاک ذات سے نہیں مانگتے ہیں؛ تو وہ ہم سے ناراض ہوتا۔ جب ہم اس پاک ذات سے مانگتے ہیں؛ تووہ خوشی ومسرت کے ساتھ، نہایت ہی مہربان بن کر، اپنے خزانہٴ غیب سے ہماری ضروریات وحاجات کا بہترین انتظام فرماتے ہیں۔ ہمیں عزم مصمم کرلینا چاہیے کہ ہم اسی پاک پروردگار کے سامنے دست سوال دراز کریں گے اور اپنی حاجات وضروریات کے تکمیل کی درخواست اسی سے کریں گے؛ تاکہ ہمیں کسی انسان کے سامنے ذلیل ورسوا نہ ہونا پڑے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لَا تَسْاَلَنَّ بَنِی آدَمَ حَاجَةً وَسَلِ الَّذِیْ اَبْوَابُہ لَا تُحْجَبُ
اللہُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْتَ سُوَالَہ وَابْنُ اٰدَمَ حِیْنَ یُسْاَلُ یَغْضَبُ
ترجمہ: اولادِ آدم کے سامنے کوئی ضرورت پیش مت کرو # اور اس ذات سے مانگو جس کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ اگر آپ اللہ سے مانگنا چھوڑدیں؛ تو وہ غصہ ہوتے ہیں # جب کہ اولادِ آدم سے مانگا جاتا ہے؛ تو وہ غصہ ہوتے ہیں۔
اکبر حسین اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶-۱۹۲۱ء)نے کیا ہی خوب صورت طریقے سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے:
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے، اے اکبر!
یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی
————————————————-
دارالعلوم ، شمارہ5۔6، جلد: 106 ، شوال المكرم۔ذی القعدہ 1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء
٭ ٭ ٭