فکرِعجم، زبانِ عرب، روحِ دیوبند (استاذ محترم مولانا نورعالم خلیل امینیؒ) (۳/۳)

بہ قلم: مولانا محمداجمل قاسمی

استاذ تفسیروادب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد

تابِ گویائی

            مولانا کا تکلم بڑا عمدہ،صاف اورواضح تھا،آوازوانداز میں دلکشی تھی،اردوعربی دونوں میں نہایت سلیقے اوربہترین لب ولہجے میں بولتے تھے،اردوتوہمہ وقت زیر استعمال تھی ؛ اس لیے سننے کا موقع بھی خوب ملا؛ البتہ عربی میں گفتگوسننے کے مواقع زیادہ نہیں آئے، چند بار ٹیلیفون پر کسی عرب شخصیت سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے سنا،یاایک بار جامعہ قاسمیہ دارالعلوم زکریا، ٹرانسپورٹ نگر، مرادآباد کے النادی الادبی کے سالانہ عربی اجلاس میں،اورتقریر تویہیں پہلی اورآخری بار سنی ؛اس لیے کہ مولانا جلسے جلوس میں شرکت سے حد درجہ دورونفورتھے،مولانا کی یہ تقریر عربی اردو دونوں میں تھی، عربی میں بولنا شروع کیا توبڑی سلاست اورروانی سے بولتے رہے،اسلوب دلکش اورالفاظ ان کی تحریروں کی ہی طرح فصیح و پُرشوکت تھے۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں مولانا نے محسوس کیا کہ حاضرین کی اکثریت نطق عربی کی وجہ سے محوحیرت ونظارہ توہے، پر سمجھنے سے قاصرہے؛اس لیے اردومیں بولنا شروع کردیا،پھر توگل افشانیِ گفتار کا انداز نرالا ہی تھا،آواز بلند ہوگئی اورزورخطابت اپنے عروج کو پہنچا۔

            آپ نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہرادا سنت ہے،جس کی پیروی ہرمسلمان کے لیے سعادت اورباعث اجروثواب ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے جان نثارصحابہ نے ہمیشہ عربی زبان ہی کواپنے افکاروخیالات کا ذریعہ بنایا؛ لہٰذا عربی زبان کواپنانا بھی سنت اورباعث اجروثواب ہوگا،ہمیں عربی کومحض ایک زبان کے طورپر نہیں ؛بلکہ عبادت اوردین سمجھ کرپڑھنا پڑھا نا اورلکھنا بولنا چاہیے۔ فرمایا:ہم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے منہج ومشرب سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کومعلوم ہے کہ عربی میں ان کا قد کتنا اونچا تھا؟ اُس عہد میں ان کے جیسی فصیح وبلیغ اورکتاب وسنت سے قریب ترزبان لکھنے والے عجم توکیا بلاد عرب میں بھی موجود نہیں تھے،ان کے دوسرے کمالات کی وجہ سے ان کا یہ کمال نظروں سے اوجھل ہوگیا، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے عربی کے سب سے بڑے انشاء پرداز تھے۔

            آپ نے فرمایا:جس طرح اقبال نے اپنے بلند افکار وخیالات کے اظہار کے لیے اردومیں اپنا ایک اسلوب ؛ بلکہ ایک نئی زبان تراشی ہے، اگروہ اپنے عظیم افکار کو میروغالب کی نرم ونازک زبان پر مسلط کر دیتے تواس کے پرخچے اڑ جاتے، اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنے بلند علوم ومعارف کے اظہارلیے نئی زبان تراشی ہے، ان کے زمانے کی گھسی پٹی عربی ان کے علوم ومعارف کا ترجمان بننے سے قاصرتھی۔

            مولانا کی گفتگو کا یہ تھوڑا سا حصہ حافظے کے کسی گوشے میں پڑا رہ گیا تھا، جواس وقت اچانک یاد آگیا، جولوگ مولانا کے انداز خطابت سے آگہی کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں مولانا کی کتاب ”حرف شیریں“ کا مطالعہ کرنا چاہیے، یہ کتاب درحقیقت مولانا کی ایک تقریر ہے جوآپ نے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں النادی الادبی کے سالانہ عربی پروگرام میں فرمائی تھی، یہ تقریراردو میں ہے۔

دارالعلوم کے تئیں مولاناکا اخلاص

            وہ دارالعلوم کے تئیں بے حد مخلص اوروفادار تھے،اوراس کوبہ سے بہتر دیکھنا چاہتے تھے،اس کے تعلق سے کوئی اچھی بات سنتے توخوش ہوتے،میڈیا وغیرہ میں اس کے خلاف ہرزہ سرائی سے بے حد مغموم ہوتے، وہ دارالعلوم اوراکابر دارالعلوم کے گرویدہ تھے؛ چنانچہ دورانِ درس اوراپنی عام مجالس میں دارالعلوم اور مشائخ دارالعلوم کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا کرتے تھے۔ الداعی کے ذریعہ دارالعلوم کی بہترترجمانی کی کوشش کرتے، دارالعلوم کی نمائندگی کے لیے بہترین تحریریں لکھتے،اس غرض سے اپنے طورپر بھی مختلف مواقع پر عربی سفارت خانوں اورعالم عرب کی معروف علمی و سیاسی شخصیات کومختلف انداز کے خطوط اور پیغامات ارسال کیا کرتے تھے۔

مولاناادیب سے پہلے عالم دین تھے

            مولانا ادیب سے پہلے ایک عالم دین تھے،شب خیزی ان کا معمول تھا،فجرکے بعد تلاوت پابندی سے کرتے،ذکروتسبیح کا بھی اہتمام رکھتے،ان کے دل میں اہل علم، بزرگان دین اورصاحبان صلاح وتقوی کا بے حد احترام تھا،حضرت تھانوی کے بے حد معتقد تھے، باتوں باتوں میں ان کا ذکر کرتے مولانا صدیق باندوی اورمولانا ابرارالحق ہردوئی ان کی گفتگو میں خلوص وللہیت کا استعارہ بن چکاتھا، وہ امت کے مسائل پر اسلامی نقطئہ نگاہ سے سوچنے اورغوروفکر کرنے کے عادی تھے،دینی غیرت وحمیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی،جس کی تپش ان کی تحریروں میں صاف محسوس کی جاتی، عالم عرب کے حالات پر جس انداز سے وہ جرأ ت مندانہ اورایمان افروزتجزیے کیا کرتے تھے،ان کے لیے طلاقت لسانی اورزوربیانی سے پہلے ایمان ویقین کی فروانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مرتب زندگی اورمثالی نظم وضبط

            مولانا کی مصروفیات اورکاموں کی فہرست طویل تھی اوراس کے حساب سے کام کرنے کا وقت بہت ہی محدودومختصر تھا،ظہر بعد دارالعلوم پڑھانے آتے تھے،اورعصر کے بعد کا وقت گھر کے صحن میں چہل قدمی اورلوگوں سے ملاقات اورچائے نوشی کے لیے تھا، شوگر اوردوسرے عوارض کی وجہ سے ڈاکٹروں نے رات میں کام کرنے سے روک رکھاتھا،اس لیے لکھنے اورتھکانے والے مطالعے سے پرہیزتھا،لے دے کران کے پاس صبح ناشتہ کے بعد سے دوپہر کے کھانے کے درمیان کا وقت ہوتا،قیلولہ نہیں کرتے تھے،اسی مختصر سے وقت میں وہ اپنے لکھنے پڑھنے کے سارے کام کرتے، تخصص کے طلبہ کو بھی وقت دیتے، ظہر کے بعد کے اسباق کی تیاری بھی کرتے اورگھر یلوذمہ داریاں بھی انجام دیتے،یہ سارے کام جوبظاہر اتنے تھوڑے وقت میں ناممکن تھے ان کے حسن انتظام سے بحسن وخوبی انجام پاتے ۔

            ناشتے سے فارغ ہوتے ہی بازار سے مطلوب سامانوں کی فہرست تیارکرتے،اورتھیلے وپیسے کے ہمراہ اسے طلبہ کے حوالہ کرتے، دوسرے چھوٹے بڑے کاموں کی ایک الگ فہرست تیار کرتے، جس میں کام اوراس کا وقت لکھتے، مثلا اتنے بجے دفتر اہتمام کوفون کرناہے،اتنے بجے بجلی والے کوبلاناہے،اتنے بجے فلاں کتب خانے سے کتابیں منگانی ہیں وغیرہ…..،پھرجب لکھنے بیٹھتے تو یہ فہرست ساتھ ہوتی، دوالارم گھڑیاں سامنے رکھی ہوتیں، فہرست میں دئے ہوئے وقت کے مطابق ان میں الارم سیٹ کرتے اور لکھنے پڑھنے میں مشغول ہوجاتے، الارم بجتا توفہرست پر نگاہ ڈالتے اور اس وقت کاکام کرتے،اگلا الارم سیٹ کرتے پھر اپنی مصروفیات میں منہمک ہوجاتے۔

            ان دونوں فہرستوں کی تیاری کے بعد اخبارات پر ایک نگاہ ڈالتے، مفید مطلب خبروں کونشان زد کرتے اوران کو مکمل حوالہ کے ساتھ بڑے سائز کے فولڈنگ رجسٹر میں نقل یا چسپاں کرتے، اکثریہ کام تخصص کے طلبہ سے لیا کرتے تھے،اخبارات کی حفاظت اوران میں سے متعلقہ خبروں کو ڈھونڈنا ایک بڑا مسئلہ تھا، اس تدبیر سے سارا مواد یکجا طوران کے پاس جمع ہوجاتااورکسی تحریر کی ترتیب میں ان کی مراجعت آسان ہوتی ۔نشست کے پاس میں موجود الماری میں مختلف ڈکشنریاں اور مراجعت کے لیے ضروری کتابیں ہوتیں، اسی الماری میں بڑی سائز کے مختلف لفافے تھے، جس پر ضروری عناوین قلم سے لکھے ہوئے تھے،ا ن لفافوں میں عناوین سے متعلق چیزیں رکھتے جاتے، جوالداعی یا دوسری تحریروں کی تیاری میں کام آتیں،اورآسانی سے ہاتھ آجاتیں،کیلنڈر اور اس طرح کی دوسری بہت سی چیزیں،لکھنے پڑھنے کے ضروری سامان اپنی اپنی جگہ موجود ہوتے،جوہاتھ بڑھاتے ہی مل جاتے۔

            ان کی زندگی میں نظم وضبط کی حکمرانی تھی، جوان کی ہرچیزمیں نمایاں تھی،عام ملاقات کے لیے عصرکے بعد کا وقت متعین تھا،پہلے فون سے اجازت لیجیے،ملاقات کا مقصد بتائیے، آپ تنہاہوں گے یا کوئی اوربھی ہوگا واضح کیجیے ،پھر اگر اجازت ہوتوشرف باریابی حاصل کیجیے،یہ ممکن نہ تھاکہ کوئی کسی بھی وقت منہ اٹھائے چلا آئے اورمولانا سے ملاقات ہوجائے ۔

            وہ وقت کے حددرجہ پابند تھے،اوراپنے متعلقین کوبھی اس کا پابند کرتے،درس گاہ میں کہہ دیتے کہ میرے پہنچنے کاجووقت ہے اگر اس سے دس منٹ لیٹ ہوجاؤں توتمہاری چھٹی،کسی اطلاع یا مزید انتظار کی ضرورت نہیں، اس اعلان کے باوجود وہ اپنی غیرحاضری کی صورت میں درس گاہ میں بروقت اطلاع بھی ضروردیتے، طلبہ کی ایسی رعایت اوران کے وقت کا ایسا خیال بھلاکون کرے گا؟؟تخصص کے سال ہمیں پابند کیا گیا تھا کہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہم مولانا کے دردولت پر حاضر ہوجائیں اورٹھیک وقت پر دستک دیں،اس میں اگر ذرا بھی دیر ہوجاتی توڈانٹ ضرور پڑتی،مزید الٹے پاؤں واپس کردئے جانے کاخوف بھی دامن گیررہتا۔

            وقت کی حدسے زیادہ بڑھی ہوئی پابندی بسااوقات ان کے لیے ضیاع وقت کا سبب بھی بنتی اوریہ بات وہ پہلے سے جانتے بھی ہوتے؛ مگر اپنے مزاج کے خلاف چلنا گوارا نہ فرماتے، دارالعلوم میں اساتذہ کی میٹنگیں ہوتیں،میٹنگ کا جومتعینہ وقت ہوتااس سے پہلے ہی حاضر ہوجاتے ضیاع وقت پر افسوس کا اظہار کرتے۔

سراپا نشاط وعمل

            جس وقت ہم مولانا کے پاس تھے ان کی عمر چوّن پچپن سال تھی، عہد شباب رخصت ہوچکا تھا،متعدد عوارض نے گھیرلیا تھا؛ مگر ان کی چستی پھرتی مثالی تھی،ہروقت مستعد رہتے اورہرکام بروقت کرتے،کاہلی اورکسل مندی ان کے پاس سے بھی نہ گذری تھی،ٹال مٹول کا ان کے یہاں تصوربھی نہ تھا،چہل قدمی، یا کسی سے گفتگوکرتے ہوئے کوئی مفید مضمون ذہن میں آجاتا تو بلاتاخیر فورًا کاغذ قلم طلب کرتے اورضروری یاداشت لکھ لیتے، کبھی یہ بھی فرماتے:”مولانا!اشراقے کا نزول ہواہے“۔

مزاج ومذاق

            مولانا کے مزاج میں حددرجہ نفاست تھی، ان کا لباس، ان کا سراپا، ان کی تالیفات، ان کے صحن کے گملے اوران میں لگے ہوئے پھول پودے، گھر کا رنگ وروغن، چائے کی پیالیاں اوران میں پی جانے والی دم کی چائے:غرض ہرچھوٹی بڑی چیزمیں نفاست کی جلوہ گری ہوتی،انھیں خوب سے خوب تر کی تلاش رہتی،ان کی ہرچیزمعیاری ہوتی اور ان کی ہرادا سے قرینہ اورسلیقہ مندی ٹپکتی:

مجھ سا مشتاق ِجمال ایک نہ پاؤگے کہیں

گرچہ ڈھونڈوے گے چراغِ رخِ زیبا لے کر

            شکل وصورت کے اچھے تھے،قدوقامت جامہ زیب تھا،اپنی عمدہ شیروانی، چوڑی دیوار کی ہم رنگ دیوبندی ٹوپی،اورچمک دار جوتے زیب تن کرکے جب وہ احاطہ دارالعلوم کی طرف محوخرام ہوتے،تو نگاہیں ہرطرف سے اٹھ کر ان پر ٹھہرسی جاتیں،ان کا سراپا ان کی عظمتوں کا ترجمان معلوم ہوتا:

ہزار مجمعِ خوبانِ ماہ رو ہوگا

نگاہ جس پہ ٹھہرجائے گی وہ تو ہوگا

            مولانا اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے بڑے شگفتہ مزاج، پر مزاح اورباغ وبہار طبیعت کے مالک تھے،مصروفیات کی جکڑبندیوں سے جب بھی آزاد ہوتے ان کے مزاج کا یہ رنگ نمایاں ہوجاتا، عصر بعد کی مجلسیں اورملاقاتیں بڑی پُر بہار ہوتیں،خوب کھلتے،اورایسے بے تکلف ہوجاتے کہ ان کا رعب مکمل انس میں تبدیل ہوجاتا،ہرطرح کی باتیں کرتے، کسی بھی سمت نکل پڑتے، جو موضوع بھی زیربحث لاتے اپنی آواز،طرزواندازاورحرکت وہیئت سے اسی کے مطابق فضاتخلیق کردیتے،اپنے شوخ،نادر اورظرافت سے پُر تبصروں سے دوسروں کوبھی ہنساتے اورخود بھی محظوظ ہوتے۔ایک دفعہ ہم مولانا کے پا س تھے کہ ایک بنگالی طالب علم وارد ہوکر عارض مدعا ہوئے اور تذکیر وتانیث کی غلطی کرگئے ،شوخ و سرخ کُرتا زیب تن کیے ہوئے تھے، مولانا کسی کی نقل اتارنے میں طاق تھے، انھیں کے بنگالی لب ولہجے میں ان کے سرخ وشوخ کُرتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: توجب یہ پہنتی ہے توتیرابیوی کیا پہنتاہے؟پھربالکل سنجیدہ ہوگئے اورکہا: مولانا میں آپ کو اردومیں تذکیروتانیث کا ایک مستحکم اصول بتاتاہوں جوکہیں نہیں ٹوٹے گا اندھے کو کیا چاہیے ؟ دوآنکھ، وہ طالب علم بھی سنجیدہ ہوگئے، سمجھے سچ مچ مولانا کوئی زبردست اصول تلقین فرمائیں گے،مولانا نے کہا: اردو بولتے ہوئے جہاں جہاں تمہاری زبان پر موٴنث آیا کرے مذکرکردواورجہاں مذکر آئے اسے موٴنث کردو، کبھی تذکیروتانیث کی غلطی نہیں ہوگی ؛اس لیے کہ تم بنگالیوں کی زبان پر صحیح کبھی آتا ہی نہیں یہ کہا اور زوردار قہقہہ لگایا، ہم لوگ ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہوگئے،وہ طالب علم بھی مولانا کے شاگرد تھے ہم سے سینئر،وہ بھی دل کھول کرہنسے۔ اور محظوظ ہوئے۔

             ایک مرتبہ میری حاضری ہوئی، مستی میں فنا# نظامی کانپوری کاایک شعر گنگنا رہے تھے،شعر مجھے اچھا لگا، میں نے جیب سے ڈائری نکالی اورلکھنے لگا، کہنے لگے شعر تمہیں اچھا لگا؟ جی !میں نے عرض کیا،وہ تیزی سے اندر گئے،ڈائری نکالی،اوراسے ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے اور بلند ترنم سے کھڑے کھڑے پوری غزل سناڈالی،اورمزے لیتے رہے، بعض اشعار کوکئی کئی باردہراتے، غزل کے چند اشعار قارئین کی نذرہیں:

گھر ہوا،گلشن ہوا، صحرا ہوا

ہرجگہ میرا جنوں رسوا ہوا

غیرت ِاہلِ چمن کوکیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

حسن کا چہرہ بھی ہے اُترا ہوا

آج اپنے غم کا اندازہ ہوا

غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے، مگر ٹھہرا ہوا

اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فنا رہزن کوبھی صدمہ ہوا

            غزل سنا کرفارغ ہوئے تورہبروں کی رہزنی کی مثالیں پیش کرنے لگے،اوریہ سب کچھ اسی طرح کہ وہ کھڑے تھے اورہم ان کے سامنے بیٹھے لکھ رہے تھے۔

            بات سے بات نکلتی ہے، مولانا نے شاعری نہیں کی؛ مگر ان کو شعرفہمی کا ستھراذوق تھا، اچھے اشعار پر پھڑک اٹھتے اوراس کونوٹ کرنے کا اہتمام کرتے،اس کے لیے مستقل ایک ڈائری تھی،ان دنوں قومی آوازکے ایک صفحے میں اوپر ایک گوشہ ہوتا جس میں کسی اچھے شاعر کا ایک یادوشعر لکھا ہوتا، شاعرکا نام بھی موجود ہوتا،مولانا ان اشعار کوشاعر کے نام کے ساتھ اپنی ڈائری میں نقل کرواتے۔

            ایک دفعہ حاضری ہوئی تواحمد ندیم قاسمی کی ایک نعت لیے ہوئے بیٹھے تھے،اور گنگنارہے تھے،اس کے چند اشعار کومولانا نے خوب خوب داد تحسین دی، جس کی وجہ سے وہ حافظے میں ثبت ہوگئے، وہ اشعار حسب ذیل ہیں:

تجھ سے پہلے کا جوماضی تھا ہزاروں کا سہی

اب جوتاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کوگلہ ہے تم سے

رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

پھر سے اک بارتویثرب سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی تیرا

            بات طویل ہوگئی؛مگر ان شاء اللہ قاری کے لیے لذیذ بھی ہوگی، مولانا شخصیات کے مثبت اور منفی پہلوؤں پرآزادی سے اظہار خیال کرتے،ان کی عیاریوں اورمکاریوں کوطشت ازبام کرتے، کہتے کہ مدارس کے طلبہ سادہ لوح ہوتے ہیں، وہ ہر کسی مولویانہ شکل والے کوقاری صدیق سمجھتے ہیں؛اس لیے انھیں لوگوں کے مکروفریب سے واقف کرانا ضروری ہے؛البتہ تحریروں میں محتاط رہتے، شخصیات کے مثبت اورحقیقی پہلوؤں کوہی زیرقلم لاتے۔

            یہ تومولانا کی طبیعت کا فطری رنگ تھا؛مگر جس وقت مصروفِ کار یا ذمہ داریوں سے زیر بار ہوتے تورویے میں چڑچڑا پن آجاتا، گفتگومیں جھنجلاہٹ ہوتی،جلدی جان چھڑا نے کی فکر میں رہتے۔

            وہ بڑے حساس تھے،مزاج میں انفعال زیادہ تھا،جب کسی چیزسے متاثر ہوتے،توتاثران کے چہرے بشرے اوراندازگفتگومیں صاف نمایاں ہوتا،خوش ہوتے توخوب سراہتے،کوئی خدمت کی جائے تو قدر شناسی کے جذبے سے مغلوب ہوکر جلدی جلدی دعائیں دینے لگتے، کبھی دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھالیتے اورآواز بھی گلوگیرہوجاتی،اورجب کسی حماقت پربرافروختہ ہوتے توپھر غصے کی تاب لانا آسان نہ تھا، یہ مرحلہ ان کے متعلقین اورخدام کے لیے بڑا صبر آزما تھا۔

            مولانا بہت کم آمیزتھے، فضول ملاقاتوں سے پرہیزکرتے تھے،اس لیے لوگوں کا آنا جانا ان کے یہاں کم تھا؛ مگر بایں ہمہ مولانا مہمان نواز اورکھانے کھلانے والے آدمی تھے، ایک مرتبہ فرمایا: مولانا میرا بچپن بڑے افلاس اورتنگی میں گذراہے،پیسے ویسے سے ملاقات نہیں ہوتی تھی،عام طورپر جولوگ غربت میں پلتے ہیں وہ خوشحال ہونے کے بعد بھی اپنی فطرت ومزاج کے اعتبار سے مفلس رہ جاتے ہیں؛ مگر اس کے برخلاف میری محرومیوں نے مجھے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا سبق دیا ہے مولانا خود اچھا کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے،خدام اوراہل تعلق کی پُرتکلف دعوت کیا کرتے تھے، دو سال رمضان کی چھٹیوں میں مولانا نے ہمیں اوربعض دوسرے ساتھیوں کوروکا توپورے رمضان افطار اورکھانا مولانا کے ساتھ ہی ہوا،ملاقات کے لیے آنے والے طلبہ کی چائے سے تواضع کرتے،کوئی مہمان ہوتا تو اور تکلفات بھی ہوتے،دارالعلوم میں آنے والی بہت سی اہم شخصیات کو مدعوکیاکرتے تھے، بعض کے لیے پرہیزی کھانا تیار کراکے بھیجتے،عرب مہمانوں کی خالص عربی انداز میں ضیافت ہوتی ۔

            کھانے کی دعوت پر یاد آیاکہ مولانا نے ایک مرتبہ ہم تخصص کے ساتھیوں کی دعوت کی، مولانا بھی دسترخوان پر تشریف فرما تھے،سالن کئی طرح کے تھے،ہمارے ایک ساتھی نے ڈونگے سے خاصی مقدار میں گوشت اورسالن نکالا،اورازرہ تواضع میری طرف بڑھادیا،مولانا نے خاموشی سے وہ پلیٹ اٹھائی اورانہی ساتھی کے سامنے رکھ دی،وہ متعجب ہوکر مولانا کو دیکھنے لگے تو مولانا نے فرمایا:تواضع کا یہ طریقہ مناسب نہیں، تمہارے ساتھی کوکیا پسند ہے کیا پسند نہیں ہے،زیادہ کھائے گا یا کم کھائے گا،تمہیں نہیں معلوم، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تم اپنی پلیٹ میں نکالواورتمہارا ساتھی اپنی پلیٹ میں نکالے؛ تاکہ وہ حسب منشا جوچاہے جتنا چاہے نکالے اورآزادی کے ساتھ اپنی چاہت کے مطابق کھائے،ہاں اگر ایک ہی سالن ہوتومضائقہ نہیں؛ مگر اس میں بھی یہ رعایت ہوکہ کسی اور کے لیے جب نکالے توزیادہ نہ نکالے،مبادا وہ پریشانی میں پڑجائے۔

            مولانا کی یہ بات مجھے بڑی معقول لگی اوربہت پسند آئی،وہ چھوٹی بڑی ہر چیزمیں تربیتی اور اصلاحی پہلو سے کبھی غافل نہیں ہوتے تھے، برموقع تنبیہ کرتے،ویسے تو ان کا رعب ہم پر ہردم مسلط رہتاتھا؛ مگر دسترخوان پر وہ ایسا ماحول بنادیتے کہ آدمی خوب کھل جائے اورکوئی تکلف نہ کرے، چیزیں مہمان کی طرف بڑھاتے رہتے،اورکہتے رہتے یہ لو، یہ اور لو،کم کھایا، نوجوان ہواورکھاؤ وغیرہ….

            مولاناکے یہاں ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا بھی اہتمام تھا، اقرباء کی صلہ رحمی کرتے، دارالعلوم کے بعض نادارملازمین کا تعاون فرماتے،دیوبند میں ان کے ایک مرحوم استاذکی بیوہ کس مپرسی کا شکار تھیں،میرے ذریعہ ایک سے زائد بار ان کی خدمت میں ندرانے کے لفافے ارسال کیے،ہم سے تاکید ہوتی کہ لفافہ مرسل الیہ کوہی دیا جائے۔

مولانا سے میرا تعلق

            سن ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۰۰۴ء شعبہٴ تکمیل ادب میں ہمارا داخلہ ہوا،اسی سال ہمیں حضرت مولانا سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ایک عام طالب علم کی طرح سبق میں شریک ہوتااوراستفادہ کرتا، اس سے زیادہ کوئی تعلق نہیں رہا۔ اگلے سال تخصص فی الادب میں مزید ایک سال عربی پڑھنے کو ترجیح دی،دو اورطالب علم مولوی عبد الرحمن پٹنوی اورمولوی انوارمبارکپوری ہمارے ساتھی رہے، یہ شعبہ اس وقت مکمل حضرت مولانا سے ہی متعلق تھا،دن کا خاصا حصہ حضرت کے گھر گذرتا تھا،یہاں حضرت کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،حضرت نے ہمیں پہلے اپنی کتاب حرف شیریں پڑھنے کودی، تاکہ ہمیں املااوررموزواوقاف کے ضروری قواعد معلوم ہوجائیں،اورعربی سیکھنے کی رہنمائی حاصل ہوجائے،اس کے بعد جاحظ کی کتاب البخلاء میں قصة الکندی سبقاً پڑھایا، جاحظ کے بڑے مداح تھے، پڑھا نے کا انداز وہی تھا جوتکمیل ادب میں ہوتا تھا؛ البتہ یہاں عبارت کی مکمل زنجیری ترکیب بھی کراتے تھے،مولانا کی نحووصرف نہایت پختہ تھی۔اس کے علاوہ اردوعربی اوراس کے برعکس ترجمہ بھی کراتے،نثر قدیم میں ابن خلکان کی وفیات الاعیان اورابن المقفع کی کلیلہ دمنہ کا کچھ حصہ اورنثر جدید میں احمد امین کی حیاتی شیخ علی طنطاوی کی من نفحات الحرم اوررجال من التاریخ مطالعہ کے لیے تھی،احمد امین کوپڑھنے کی ترغیب خاص طورسے دیا کرتے تھے، کہتے تھے اس کی نثر سے اخذ واستفادہ زیادہ آسان ہے، دوسومنتخب عربی تعبیرات بھی اردوترجمے کے ساتھ مولانا کوپیش کرنی تھیں،ان تعبیرات کوجمع کرانے کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ تعبیر تلاش کرنے کے بہانے عربی تحریروں کا مطالعہ کریں!

            کسی موضوع پر سوصفحے کا ایک مقالہ بھی پیش کرنا ہوتاتھا جس کاوقت ششماہی کے بعد تھا، اس کے عنوان کا انتخاب طالب علم کے رجحان اور دلچسپیوں کو دیکھ کرکیا کرتے، شخصیات پر لکھنا آسان ہوتاہے، طلبہ عمومًا اپنے مقالے کے لیے کسی شخصیت کا ہی انتخاب کرتے، مولانا کی خواہش ہوتی تھی کہ مقالہ علمی ہو؛مقالہ جیسے جیسے تیار ہوتا جاتا، دوتین دن کے وقفے سے چیک کرتے رہتے اورضروری اصلاحات فرماتے۔

اس کے علاوہ مولانا اپنے تحریری وتصنیفی کاموں میں بھی تعاون لیتے، کبھی الداعی کی پروف ریڈنگ کراتے، کبھی کوئی تحریرنقل کراتے،کبھی کسی تحریر کا اصل سے مقابلہ کراتے،سودا سلف کی خریداری بھی ہم شوق سے کرتے،جوبھی کام لیتے خواہ لکھنے پڑھنے کا ہویا ضروریات زندگی سے متعلق ہو پہلے اچھی طرح اس کوسمجھاتے،ممکن ہوتا توکرکے دکھاتے،اس طرح ہروقت مفید تجربے ہوتے، خود ان کو مختلف کاموں کوانجام دیتا دیکھ کر بہت سی چیزوں کا سلیقہ پیدا ہوتا،اس وقت تو ہمارے نزدیک ان باتوں کی بہت زیادہ اہمیت نہ تھی؛ لیکن جب عملی زندگی میں آئے تومولانا کے یہاں جودیکھا اورسیکھا تھا،اس سے بے حد فائدہ ہوا اورتعلیم کے ساتھ تربیت کی افادیت کا اندازہ ہوا۔

            مجھے سودا سلف خریدنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اورنہ ہی کوئی دلچسپی تھی؛ہاں پڑھنے لکھنے سے لگاؤ تھا،مولانا کی زندگی کے اس پہلوکوتجسس کے ساتھ دیکھا کرتا،مولانا تاڑنے کے ماہر تھے،میری طبیعت کے رجحان کوجلد ہی سمجھ گئے،ایک دن فرمایا: خارجی کام تو تمھیں آتا نہیں ؛ البتہ پڑھنے لکھنے کے کاموں میں اچھے ہو اس کے بعد سے مجھے پڑھنے لکھنے کے کاموں میں مصروف رکھنے لگے اوریہی وہ نقطہ تھا جہاں سے میرے مستقبل کا راستہ طے ہوتاچلاگیا،رفتہ رفتہ مولانا کا اعتماد مجھ پر بڑھتا رہا اورمیں ان سے مانوس ہوتا گیا، اس سال رمضان بھی مولانا کے یہاں گذرا۔

۱۴۲۷ھ مطابق ۲۰۰۶ئمیں شعبہٴ افتاء میں داخلہ ہوا،یہ سال میری تعلیمی زندگی کا نہایت اہم رہا، محنت سے تعلیم حاصل کی جس کا نتیجہ سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن کی شکل میں ظاہر ہوا،مدنی دارالمطالعہ کا عربی ترجمان جداری مجلہ ”البلاغ“ نکالا،جس کی طلبہ میں بڑی پذیرائی تھی،اوراس کے علاوہ مولانا سے مکمل مربوط رہ کر الداعی کی پروف ریڈنگ کرتارہا،اس پروف ریڈنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاکہ عربی نثرکا مطالعہ بڑی ترکیزکے ساتھ ہوجاتا،مجھے پروف ریڈنگ کے دوران بعض مضامین اپنے اکابر کی فکرکے خلاف نظر آئے،نشان زد کرکے مولانا کے سامنے اس کااظہارکیا،جس سے مولانا کا اعتماد اوربڑھا،اوروہ بعض مضامین کمپوزنگ سے پہلے ہی مجھے دے دیتے اورکہتے دیکھواس میں کوئی چیزہمارے پرچے کے مزاج کے خلاف تونہیں،کسی مضمون پر ہم کوئی اشکال کرتے تومولانا اس پر غورکرتے، بعض مرتبہ بدلتے اورکبھی میرا خلجان دور فرماتے،دوایک مضمون ایسے بھی رہے جن کوشائع کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔اس سال مولاناکے کہنے پر کچھ طلبہ کوعربی بھی پڑھائی۔

            اسی سال ماہ محرم الحرام میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی رحمة اللہ علیہ طویل علالت کے بعد اللہ کوپیارے ہوگئے، دارالعلوم میں تعزیتی اجلاس ہوا،مولانا نے مجھے مکلف کیا کہ جلسے میں جاکر مقررین کی باتیں قلم بند کرواوررپورٹ تیارکرو،رپورٹ کولے کرحاضرہواتوحکم ہوا کہ اس کی تعریب کرکے مجھے دکھاؤ، مولانا نے اس رپورٹ میں اصلاحات کیں اورکمپوزنگ کے لیے بھیج دیا،میرے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں تھاکہ رپورٹ مولانا الداعی میں شائع کریں گے، یہ رپورٹ کسی اہمیت کی حامل نہ تھی،مگر کسی پرچے میں شائع ہونے والی میری سب سے پہلی تحریرتھی؛ چنانچہ مولانانے مجھے جب الداعی کا تازہ شمارہ عنایت فرمایا اورمیری نظر اس رپورٹ پر پڑی جس کے عنوان کے نیچے میرا نام تھا،تو میرے ہربن مُوسے خوشی کی لہریں اٹھنے لگیں،خانہ ئدل میں شادمانی کے نغمے بجنے لگے اورصحن خیال میں مسرت کی پریاں رقص کرنے لگیں، دوستوں کو دکھاتے،تنہائی میں کھول کردیکھتے، اس رپورٹ کے شائع ہونے سے مجھے آگے بڑھنے کا ناقابل بیان حوصلہ ملا۔

            اخیر سال میں مولانا نے فرمایا:میری رائے ہے کہ تم سال دوسال ابھی اوررکواورمناسب لگے توکسی شعبہ میں داخلہ لے لو؛چنانچہ میں اگلے سال تدریب فی الافتاء میں داخل ہوگیا،تعلیمی اوقات میں دارالافتاء میں اساتذہ کی نگرانی میں فتوی نویسی کا کام کرتا اورخارج میں فقہ وفتاوی کی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ الداعی کے لیے اردواخبار ات سے منتخب خبروں کی تعریب کرتا، دارالعلوم میں جو جلسے اورپروگرام ہوتے ان کی رپوٹیں تیار کرتا،اس کے علاوہ الداعی کی تیاری میں مولانا کا تعاون کرتا،بعض دفعہ کام اتنے ہوگئے کہ مسلسل کئی کئی دنوں تک راحت وآرام کو مکمل تج دینا پڑا،دوسال اسی طرح گذرگئے۔

            ایک بار پھر مولانانے مجھے اورمولوی سعد کانپوری (جومولانا کے شاگر د ہیں،اورمولانا کی جی جان سے خدمت کی ہے،مولانا ان کی بڑی تعریف کیاکرتے تھے)کورمضان کی چھٹیوں میں روکا، اور اپنے مضامین کی جمع وترتیب کے ابتدائی کا م کا آغازکیا،الداعی کے تمام شمارے منگائے،سارے اشراقے الگ کرکے یکجا کیے، اسی طرح شخصیات کی وفات پرلکھے گئے سارے مضامین بھی شماروں سے الگ کرکے اکٹھے کیے گئے، بقیہ مضامین کے لیے بڑی سائز کے لفافے لائے گئے، مولانا نے جلی قلم سے ان پر عناوین لکھے اورتمام مضامین کوعناوین اورموضوع کے اعتبار سے لفافوں میں رکھ دیا گیا۔ یہ مرحلہ پورا ہواتومولانا نے اشراقے کے مضامین پرضروری حرکات اوررموزواوقاف لگوانے شروع کیے،اس لیے کہ ابتدائی شماروں میں ان باتوں کا اتنا اہتمام نہیں تھا جوبعد کے شماروں میں ہوگیا تھا،پھر اشراقے پر حاشیہ کا کام شروع کیا۔صبح نوبجے سے ظہر تک یہ کام ہوتا، افطار اورکھانا مولانا کے یہاں ہوتا،تراویح بھی مولاناکے ساتھ ہوتی،مولوی سعد کانپوری امام ہوتے،تراویح کے بعد ہم مولانا کی کچھ خدمت کرتے،اس وقت مولاناپورے موڈ میں ہوتے اورمجلس بڑی پرلطف ہوتیپھر اپنے کمرے پر آتے۔

            تدریب فی الافتاء کے دوسرے سال کے اخیر میں مولانا نے ایک سے زائد بار عندیہ ظاہر کیاکہ میں شعبہٴ الداعی میں ملازمت قبول کرکے الداعی میں مولانا کا تعاون کروں؛ مگر میرا رجحان یہ تھا کہ لکھنے لکھانے کا کام تدریس کے ساتھ ہو، مولانا کا بھی یہی ذوق و مزاج تھا،وہ بارہا اس کے فوائد اور اہمیت پر روشنی ڈال چکے تھے؛ چنا نچہ میں نے جب اپنا رجحان رکھا تومولانا نے سراہا۔اگلے سال عربی کے ساتھ کچھ انگریزی سیکھنے کی غرض سے معہد التخصص فی اللغة العربیہ وآدابہا،ذاکر نگر، دہلی؛ کا رخ کیا جومولاناعمید الزماں قاسمی کیرانوی کی نگرانی میں چلتا تھا، یہاں ایک سال رہا،اورمولانا سے مربوط رہا،بعض تحریر یں الداعی کے لیے ارسال کیں جومولانا نے ازراہ عنایت شائع کیں۔

            یہاں رسمی تعلیم کا سلسلہ پورا ہوگیا، اب سامنے میدانِ عمل تھا،جامع مسجد امروہہ سے شعبہٴ عربی ادب میں کا م کرنے کی دعوت مل رہی تھی،مشرقی یوپی کے بعض اہم مدارس میں بھی کام کی راہ ہموار ہورہی تھی،رائے مشورے کی غرض سے اگلے سال شوال ۱۴۳۰ھ میں دیوبند کا سفر کیا اورمولانا سے عارض مدعا ہوا،مولانا نے کہا کہ مظاہر علوم جدید کوایک ایسے آدمی کی ضرورت ہے جوعربی پرچہ نکال سکے،انھوں نے مجھ سے کہہ رکھاہے،شعبہٴ عربی ادب میں تدریس کا بھی کام رہے گا،میں وہاں بات کرلیتاہوں تم وہیں چلے جاؤ، میں نے اپنی عدم استعداد اورناتجربہ کاری کا عذر کیا تومولانا نے فرمایا ہمیں اطمینان ہے تم چلے جاؤ؛چنانچہ مولانا کی ہدایت کے مطابق مظاہرعلوم حاضری ہوئی،اورمولانا محمداسجدبن قاری جمشیدعلی استاذعربی ادب مظاہر علوم کے ہمراہ حضرت ”امین عام“ سے ملاقات کی، وہاں تعارف اورتعلیمی لیاقت معلوم کی گئی،اورکہا گیا اس وقت جائیں تقرر کا فیصلہ ہوا تومطلع کیا جائے گا؛ مگروہاں سے کوئی جواب نہ ملا، جس سے مولانا کو رنج ہوا۔ پھرمیرے محسن استاذ حضرت مولانامحمد احمد صاحب زیدمجدہم سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند نے مدرسہ شاہی کے لیے کوشش کی، جوبحمد اللہ کامیاب ہوئی، میرے اِن دونوں اساتذہ نے میرے لیے مہتمم مدرسہ شاہی زیدمجدہم کے نام بہترین تحریریں بھی لکھیں، جومیرے لیے ہمیشہ باعث فخر رہیں گی،مولانا امینی رحمة اللہ علیہ کی تحریر حسب ذیل ہے جوانھوں نے اپنے لیٹرپیڈ پر رقم فرمائی تھی:

            محترم جناب مہتمم صاحب جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد            زید مجدہ              سلام مسنون!

            مولوی اجمل قاسمی دارالعلوم دیوبند میں دورئہ حدیث شریف کے بعد تکمیل ادب، تخصص فی الادب اوردارالافتاء کرچکے ہیں، انھوں نے ایک سال مولانا عمیدالزماں قاسمی کیرانوی برادرِاوسط حضرت الاستاذ مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی کے یہاں تخصص ادب عربی میں بھی اپنی استعداد کوپختہ کیا ہے۔ میرے علم وتجربے کے مطابق موصوف نہ صرف ذی استعدادبل کہ سنجیدہ اورسلیم الطبع بھی ہیں۔انھوں نے الداعی میں اردوخبروں کا عربی میں مسلسل اورکام یاب ترجمہ کیاہے۔کسی اچھے اورتعلیم وتربیت کے مسئلے پرخصوصی توجہ دینے والے مدرسے میں تعلیمی وتربیتی وتحریری کام کے لیے وہ میرے نزدیک لائق اعتماد فاضل ہیں، ولا أزکی علی اللّٰہ أحداً۔

            توقع ہے کہ یہ سطریں ان پر اعتماد اورمدرسین کومطلوبہ ذمے داریوں کے لیے منتخب کیے جانے کے عمل میں ترجیح دینے کے لیے کافی ہوں گی ۔

کتبہ بخط یدہ:نورعالم امینی عفی عنہ

دارالعلوم دیوبند، ۱۶/شوال ۱۴۳۰ھ مطابق ۶/اکتوبر۲۰۰۹ء

            میں نے مدرسہ شاہی میں کام شروع کردیا ،مولاناکے یہاں جوتجربے ہوئے تھے وہ بڑے معاون ثابت ہوئے،یہاں کاماحول بھی مجھے بہت راس آیا،مولانا سے برابررابطہ رہا، مختلف چیزوں میں رہنمائی لیتا رہتا،کوئی ڈیڑھ سال گذرے ہوں گے کہ ایک دن مولانا کا فون آیاکہ دارالعلوم حیدرآباد میں الصحوة الاسلامیہ (مدرسہ کا عربی مجلہ)کے لیے ایڈیٹرکی ضرورت ہے،مختصر تدریس بھی ہوگی، اس کے علاوہ مولانا نے مدرسہ شاہی سے ڈبل تنخواہ اوردیگربہت سی مراعات کا ذکر کیا جومدرسہ شاہی میں مجھے حاصل نہیں تھیں؛ مگر وہاں کے لیے میری رائے نہیں ہوئی۔مولانا کی عنایتوں کے طفیل اس کے بعد بھی کام کے بعض اچھے مواقع میسرآئے ؛مگر میری حرماں نصیبی کہ میں ان سے مستفید نہیں ہوسکا۔

            اس مختصر تحریر میں اپنے مشاہدات وتاثرات کے کچھ لمحوں کوقید کرنے کی کوشش کی گئی ہے،مولانا کی شخصیت کا کوئی جامع خاکہ پیش نظر نہیں ہے اورنہ اس چندورقی تحریر میں یہ ممکن ہے۔لوگ مولانا کی شخصیت کے ہرپہلوپر لکھیں گے اوراچھا لکھیں گے، خود مولانا نے اپنے حالات زندگی اورذوق و مزاج کے بارے میں الداعی کے صفحات میں بہت لکھا ہے اوربہت اچھا لکھا ہے،اگران کو سلیقے سے یکجا کردیا جائے توایک جامع سوانح مرتب ہوجائے گی اورقندمکرر کا لطف دے گی۔

            دعا ہے کہ اللہ تعالی استاذ محترم کی مغفرت فرمائے،ان کی خدمات وحسنات کوقبول فرمائیں، زلات اورسیئات سے عفودرگذرکا معاملہ کرے،ان کے ادھورے کاموں کی تکمیل کے اسباب پیدا فرمائے،ان کی رحلت سے دارالعلوم میں جوخلا پیداہوا اس کی بھرپائی کرے، اہلیہ محترمہ اوربچوں کوصبر وتسلی عطافرمائے اورمولاناکے بعد ان کی بہترین سرپرستی فرمائے، آمین، یارب العالمین!

فکر عجم ، زبان عرب، روح دیوبند

تنہا تھا، اس کے ساتھ مگر کارواں گیا

————————————————-

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏، شوال المكرم۔ذی القعدہ  1443ہجری مطابق مئی۔جون 2022ء

٭        ٭        ٭

Related Posts