از:   مولوی محمد شاہد اختر کھرساوی قاسمی ‏، دارالعلوم دیوبند

                ہندوستان میں جب انگریزوں نے اپنے ناپاک قدم رکھے، اورملک کے طول وعرض میں اپنی حکومت قائم کرکے مختلف مذاہب کے ماننے والی اقوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیاتوایسے نازک اورپرآشوب دورمیں متعدد رسائل وجرائداخبارِ صحافت کے افق پر نمودار ہوئے اورہندوستان میں بسنے والی قوموں کو غلامی کی زنجیروں سے آگاہ کرکے آزادی کا درد ان کے قلوب میں بھردیا اورلوگوں کودورِ غلامی جیسے ناپاک ظلم اور شکنجہ سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک ہتھیار مل گیا اور لوگ کثیر تعداد میں ان اخبار ورسائل سے لطف اندوز ہوتے رہے، بہت سے رسائل تو ایسے تھے کہ جس سے لوگ ایک زمانے تک علوم ومعارف کی پیاس بجھاتے رہے اوربہت سے رسائل ایسے ہیں کہ جس سے اب تک سیراب ہورہے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ ناسازگار حالات کی وجہ سے لوگ قلیل مدت تک ہی فائدہ اٹھاپائے؛ لیکن میدانِ صحافت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

                استخلاصِ وطن کے زمانہ میں نکلنے والے اکثررسالوں کے نام ونشان لوگوں کے ذہن وقلوب سے مٹ چکے ہیں لوگوں کی زبانیں ان رسائل کے تذکرے سے گونگی اور عاجروقاصر ہیں ، ان رسائل کے تذکرہ کوانتہائی بے دردی کے ساتھ آگ کی راکھ اور غبار کی طرح پھینک دیا، چاہیے تھا کہ ان رسائل وجرائد کی خدمات اور قربانیوں کوسراہتے ہوئے بطورِ عظمت اپنے دلوں میں جگہ دیتے؛ لیکن ہوا یہ کہ ان کے لیے اوراق پارینہ میں بھی جگہ نہ دی جاسکی، جب کہ ان رسائل نے آزادی کی جدوجہد میں نمایاں کردار اداکیا، اور نسل نوان رسائل سے بالکل ناواقف ہوکر رہ گئی، ان ہی رسائل میں سے دارالعلوم دیوبند سے نکلنے والا ایک باوقار علمی وتحقیقی اور ادبی رسالہ ’’ماہ نامہ دارالعلوم‘‘ بھی ہے۔

                چونکہ دارالعلوم دیوبند کے مقاصد تاسیس جوکہ اس کے قدیم دستور اساسی میں بیان کیے گئے ہیں ، ان میں کاتیسرا نمبر یوں درج ہے: ’’اسلام کی تبلیغ واشاعت اور دین کا تحفظ ودفاع اور اسلام کی خدمت بذریعہ تحریر وتقریر بجالانا اور مسلمانوں میں تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ سے خیرالقرون اور سلفِ صالحین جیسے اخلاق واعمال اور جذبات پیدا کرنا‘‘

                اس دستور کی روشنی میں اسلام کی تحریری خدمت انجام دینا اس ادارہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، گذشتہ ڈیڑھ سو سال کے عرصہ میں اس ادارہ نے تحریر وصحافت کے ذریعہ اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل کس انداز سے کی ہے، یہ تاریخ کا ایک روشن باب اور مستقل موضوع ہے، تحریر کے ذریعہ سے اسلام کی خدمت انجام دینے کا جہاں تک تعلق ہے، اس کے دوجزہیں ایک تصنیف وتالیف دوسرے تحریر وصحافت، اس وقت تصنیف وتالیف کی راہ سے انجام پانے والی خدمات کا تعارف مقصود نہیں ، پھر تحریر وصحافت کے ذریعہ سے انجام دی جانے والی خدمات کے بھی دوجز ہیں ۔: ایک تو براہِ راست دارالعلوم دیوبند کی خدمات دوسرے فرزندانِ دارالعلوم کی خدمات، مؤخر الذکر موضوع طویل تاریخ کا موضوع بھی ہے اور اس کے لیے سیکڑوں صفحات درکار ہیں ، تحریر وصحافت کے ذریعہ سے دارالعلوم دیوبند کی خدمات اس صورت کی اہمیت وفضیلت، اسلامی تعلیمات قرآن وحدیث کی روشنی میں اور صحیح مسلک کی اشاعت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا، براہ راست دارالعلوم دیوبند سے جاری ہونے والے رسائل وجرائدپر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔(ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر  ۲۰۱۶ء ص:۳،۴)

                 چنانچہ اس سلسلہ کا باضابطہ آغاز فخر الہند حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحبؒ عثمانی سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی ادارت میں (حیات عثمانی ص: ۱۸۴)  ۱۳۲۸ھ بمطابق  ۱۹۱۰ء کو ’’رسالہ القاسم‘‘ سے ہوا، نائب مدیر حضرت مولانا سید اصغر حسین ؒ سابق محدث دارالعلوم دیوبند، جب کہ سرپرست حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن صاحب دیوبندیؒ پھر حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ قرار پائے ان کے بعد حضرت مولانا مفتی احمد حسن امروہویؒ، حضرت مولانا خلیل احمد انبہیٹویؒ اور ابن القاسم حضرت مولانا حافظ محمداحمد صاحبؒ نے بھی رسالے کی سرپرستی فرمائی، رسالے کے اجراکے تین سال کے بعد حضرت مولانا سراج احمد رشیدیؒ استاذ دارالعلوم دیوبندکور سالہ کا نائب مدیر مقرر کیاگیا؛ کیوں کہ حضرت مولانا سیداصغر حسین صاحب دیوبندیؒاپنے تدریسی مشاغل اور دیگر مصروفیات کی بنا پر مدیر کے فرائض انجام دینے سے معذرت کرلی تھی، درمیان میں دوسال ۳۵،۱۳۳۴ھ/ ۱۷،۱۹۱۶ئادیب زماں حضرت مولانا سید مناظراحسن گیلانیؒنے بھی ’’القاسم‘‘ اور’’الرشید‘‘ کے معاون مدیر رہے، اور اس پر چے کا حجم ۳۲، صفحات پر مشتمل ہوتاتھا۔ (دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ ص:۱۰۵؍۱۰۶)

                رسالہ ’’القاسم‘‘ کے پہلے شمارہ میں فخر الہند حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒرسالہ ’’القاسم‘‘ کے مقاصد اجرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’ضرورت ہی کیاتھی‘‘ عنوان کے تحت فرمایا: ’’یہ سب کچھ صحیح ہے لیکن کچھ ضرورتیں دینی، مذہبی، اور تمدنی ایسی بھی تھیں ، جن کو خیال کرتے ہوئے نہ صرف مستحسن بلکہ نہایت ضروری معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کو ان کے تدین وتمدن میں عام غلط فہمی وگمراہی سے بچانے سیدھی اور سچی راہ چلانے، اسلام کے اصلی ذائقہ سے واقف کرنے، قوتِ روحانی کو ترقی دینے کے لیے ایسا سامان کردیاجائے، جوان کے لیے سچا رہنما، افراط وتفریط میں مبتلا ہونے سے بچا نے والا ہو‘‘(رسالہ القاسم نمونہ واشتہار؍ ۱۳۲۸ھ بہ موقع جلسہ دستار بندی بحوالہ القاسم ۱۳۲۸ھ شعبان/ شمارہ:۱/ ص:۲)

                دوسری جگہ بھی حضرت مولانا ؒ نے اس رسالہ کے مقصد ان الفاظ میں بیان کیے ہیں ، اس رسالہ کا اصل مقصد مسلمانوں کے لیے مذہبی ،علمی اور تاریخی معلومات کا صحیح محققانہ ذخیرہ بہم پہنچانا اور نرم ومتانت کے لہجے میں غلط خیالات (جو کہ بہ وجہِ لاعلمی ذہن نشیں ہوگئے ہیں ) کو مٹانا(القاسم ۱۳۲۸ھ شعبان/ شمارہ:۱/ ص:۱)

                اور اس رسالہ میں علی مضامین، اسلامی اصول، مسائل ونصائح، بزرگوں کے صحیح اور سچے تاریخی حالات وعقائد کا بیان ہوگا اور اس کے مقاصد واغراض سب مذہبی اور دینی ہوں گے پوٹیکل امور اور اس قسم کے مباحث سے ہرگز کسی قسم کا تعلق نہ ہوگا، (رؤداد مدرسہ اسلامیہ دیوبند ۱۳۲۷ھ و۱۳۲۸ھ سرورق)

                حضرت مولانا کی تحریر دینی رسائل وجرائد کی اہمیت پر مضبوط دلیل ہے اور مقاصد پر بھی بڑی جامعیت کے ساتھ روشنی پڑتی ہے، رسالہ کی پوزیشن ابتدائی زمانہ میں ایسی نہیں تھی کہ اس کے لیے باضابطہ ملازم رکھا جاتا یہی وجہ تھی کہ ایک ہی شخص جو رسالہ کا مدیر بھی تھا اور دارالعلوم دیوبند کا مدرس ونائب مہتمم بھی اور یہی حال نائب مدیر کا بھی تھا اس کے ذمے رسالہ کی ترتیب اور اس کی کتابت وطباعت اور ترسیل بھی تھی ساتھ ہی تدریسی مصروفیات بھی نیز بارہا ایسا ہوا ہے کہ رسالے کی اشاعت میں تاخیر ہوتی رہی آخر کار ان ہی وجوہ کی بنا پر گیارہ سال کے بعد ’’القاسم‘‘ کی اشاعت موقوف ہوگئی، جمادی الثانی ۱۳۳۹ھ کو مارچ ۱۹۲۰ء کا آخری شمارہ تھا، پھر چارسال کا عرصہ گذرنے کے بعد محرم الحرام ۱۳۴۴ھ /۱۹۲۵ء کو اس رسالہ کی نشأۃ ثانیہ ہوئی، اس وقت بھی مدیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ ہی رہے؛ البتہ نائب مدیر کی ذمہ داری ابن احمد حضرت مولانا قاری محمدطاہر صاحب کے کاندھوپرڈالی گئی، اور معاون مدیر عتیق احمد صدیقی اور سرپرست حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ وعلامہ شبیراحمد عثمانیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ رہے اس دور کے مشمولات کی نوعیت بھی وہی تھی جو ’’القاسم‘‘ کے دور اول کی تھی؛ البتہ کچھ اصول وضوابط اور ضروری جزوی ترمیمات کی گئی تھیں (دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ ص:۱۱۱؍۱۱۲)

                دارالعلوم کو ابتدائی مصارف سے بچانے کے لیے شروع کے دوتین سال تک اس پرچہ کے مصارف حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ ہی برداشت کرتے رہے، پھر ۱۳۳۱ھ میں اس رسالہ کے مصارف کا تعلق بھی دارالعلوم دیوبند سے ملحق ہوگیا(رسالہ دارالعلوم دیوبند دسمبر۲۰۱۶ء ص:۴؍۶) 

                اس کے ایک سال بعد ہی دوسرا رسالہ’’ الرشید‘‘ کے نام سے فخر الہند حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ ہی کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا ’’القاسم‘‘ اور ’’الرشید‘‘ دونوں رسائل میں وقت کے مستند اکابر :

                حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ

                حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ

                 حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں ؒ

                 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ

                حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ

                 حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب دیوبندیؒ

                حضرت مولانا مناظر حسن گیلانی ؒ

                مستقل مضمون نگاروں میں شامل تھے، بعض شماروں میں شیخ الہندؒ کے بھی افادات ملتے ہیں ، اس کے علاوہ بھی بہت سے حضرات ہیں جن کے مضامین برابر شائع ہوتے رہے۔ (دارلعلوم دیوبندکا صحافتی منظر نامہ ص:۱۰۹/ تاریخ دیوبند، ص:۲۵۲؍ سیدمحبوب رضوی)

                ان دونوں رسالوں نے اپنے علمی وتحقیقی مضامین ومقالات سے علمی دنیا میں بڑا انقلاب برپاکیا اور مسلمانوں کو شریعت اسلامیہ سے روشناس کرانے اورعلومِ اکابر سے استفادہ کرانے اور معلومات کے ذخائر لوگوں تک بہم پہونچانے میں نمایاں کردار اداکیا۔ ( دارالعلوم دیو بند کی جامع ومختصر تاریخ ص:۱۹۵)

                تقدیر کا فیصلہ کہ ’’القاسم‘‘ کا دور ِاول (از ۱۳۲۸ھ تاجمادی الثانی ۱۳۳۹ھ/ ۱۹۱۰ء تا مارچ ۱۹۲۰ء) اور دورِ ثانی (محرم الحرام ۱۳۴۴ھ تا ۱۳۴۷ھ /۱۹۲۵ء تا ۱۹۲۸ء) اور ’’الرشید‘‘ (از ۱۳۳۲ھ تا ۱۳۳۹ھ) کا سلسلہ مختصر مدت تک جاری رہنے کے بعد موقوف ہوگیا، اس کے بعد سے ۲۰؍ سال تک دارالعلوم کی اپنی ذمہ دارانہ نگرانی میں کوئی رسالہ نہ نکل سکا، حالانکہ دارالعلوم دیوبند کی ۲۰؍ سال طویل مدت میں دارالعلوم کے مخلصین ومحبین اورمتوسلین کی طرف سے برابر ایک رسالہ کے اجراء پر اصرار کیاجاتارہا، خود ارباب حل وعقد کو بھی اس ضروریات کا احساس رہا؛ لیکن مخلصین کے اصرار اور اربابِ انتظام کے احساس کے باوجود اس ضرورت کو عملی جامہ نہ پہنایاجاسکا اوریوں ہی ۲۰؍ سال کا عرصہ تشنۂ تکمیل میں گذرگیا؛ لیکن جب اہل انتظام کو اس کی اشد ضرورت پڑی تو بالآخر جمادی الاول ۱۳۶۰ھ/ ۱۹۴۱ء میں ’’ماہ نامہ دارالعلوم‘‘ کے نام سے ایک نئے رسالہ کا سلسلہ شروع کیا (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند جمادی الاولی  ۱۳۶۰ھ ص:۲/ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۶ دارلعلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ ص:۱۹۶)

                 رسالہ کا اجراء ایسے نامساعد حالات میں ہوا جب کہ نہ صرف ملک کی اقتصادی پریشان حالی ترقی پذیر افلاس اور حد درجہ گرانی کی وجہ سے وہ صحائف اور جرائد جو سالہاسال سے اپنی بنیادیں مضبوط بنانے میں مصروف تھے یا تو بالکل بند ہوگئے یا انھیں اپنا معیار اتنا پست کرنا پڑا کہ وہ کالعدم ہوگئے؛ لیکن ذمہ دارانِ دارالعلوم کی اخلاص وللہیت کی وجہ سے یہ رسالہ بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا، رسالہ دارالعلوم خالص ایک اسلامی اورمذہبی رسالہ ہے، جس کے مقاصد ۱۳۶۰ھ /۱۹۴۱ء کے ’’ماہ نامہ دارالعلوم‘‘ کے پہلے صفحہ پر اس طرح بیان کیے گئے ہیں :

                (۱)تعلیمات اسلام کو سہل ودل نشیں پیرایہ میں پیش کرکے مسلمانوں میں صحیح مذہبی ذہنیت پیدا کرنا۔

                (۲)اسلام کے قدیم وجدید مخالفوں کے حملوں کی بطریقِ احسن مدافعت کرنا۔

                (۳)دقیق علمی مسائل کے متعلق علمائے دیوبند کے محققانہ مقالات پیش کرنا۔

                (۴)حالات دارالعلوم سے معاونین متوسلینِ دارالعلوم کو باخبر کرنا۔

                یہ رسالہ حکیم الاسلام حضرت مولانا وقاری محمد طیبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں قضیۂ نامرضیہ کے پیش آنے تک نکلتارہا، صفحات ’’دارالعلوم‘‘ کی زینت بننے کے لیے جن بزرگوں نے دارالعلوم کی قلمی سرپرستی کا وعدہ فرمایاتھا، ان میں خصوصیت کے ساتھ حسب ذیل حضرات قابل ذکر ہیں :

                (۱)حضرت علامہ شبیر احمدعثمانیؒ                 

                (۲)سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ

                (۳)حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ    

                (۴)حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ                     

                (۵)حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ

                (۶)حضرت مفتی شفیع  دیوبندی ؒ

                (۷)حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی ؒ

                (۸)حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ

                (۹)حضرت مولانا سیدمحمدمیاں دیویندی ؒ

                (۱۰)حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ

                (۱۱)حضرت مولانا انوار الحسن شیرکوٹیؒ

                (۱۲)حضرت مولانا اصغر حسینؒ(پرنسپل شمس الہدی کالج پٹنہ)

                ان حضرات کے علاوہ دوسرے ذمہ داران اصحابِ علم وقلم مثلاً حضرت مولانا مناظر حسن گیلانی،حضرت مولانا منظور نعمانی ، مولانا عبدالحق مدنی رحمہم اللہ وغیر ہم کے مضامین بھی برابر شائع ہوتے رہے (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند جمادی الثانی ۱۳۶۰ھ ص:۵۰؍۵۱)

                چنانچہ رسالہ کی ایک ایک سطر علمی نکات سے عبارت ہے، یہ رسالہ ہمیشہ عمدہ اور متنوع مضامین کے ساتھ حضرت مہتمم صاحب کے اصلاحی اسفار زائرین کی آمد ورفت کی تفصیلات مجلس شوری وعاملہ کی کارروائیاں اور دارالعلوم کے پیش آمدہ حالات ومسائل اور حوادث سے بہی خواہاں دارالعلوم دیوبند کو آگاہ کرتارہا، جیسا کہ رسالہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتاہے، قضیۂ نامرضیہ کے بعدیہ رسالہ حضرت مولانا مرغوب الرحمنؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں نکلتارہا، رمضان المبارک ۱۴۰۳ھ /جون۱۹۸۳ء سے جمادی الاولی ۱۴۰۵ھ / فروری ۱۹۸۵ء تک مجلس ادارت میں حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ ،حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ،حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒکے نام مندرج ہیں ، اور اب یہ رسالہ استاد گرامی قدر حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مدظلہ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نگرانی میں نکل رہا ہے۔

ماہ نامہ دارالعلوم کی عہدِ ادارت بحیثیت مدیران

                ماہ نامہ دارالعلوم کے عہدادارت بحیثیت مدیر ان کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں ، ماہ نامہ دارالعلوم کی سب سے پہلے ادارت کی ذمہ داری حضرت مولانا عبدالوحید صدیقی غازی پوریؒ کے حوالے ہوئی جن کی شہرت  بعدمیں ’’نئی دنیا‘‘ کے بانی ومدیر کی حیثیت سے ہوئی (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر۲۰۱۶ء ص:۷)

                 ان کی ادارت میں ماہِ صفر المظفر ۱۳۶۱ھ میں ماہ نامہ دارالعلوم کا ایک مخصوص نمبر ’’سال نامہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا، یہ خاص نمبربیش قیمتی علمی مضامین کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے اہم کوائف اور ۱۳۶۰ھ کے حسابی گوشواروں اور نتائج امتحانات سالانہ کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے نظم ونسق فہرست اسماء ممبران شوری مدرسین وملازمین وغیرہ پر مشتمل تھا، سال نامہ نمبر تقریباً ڈیڑ ھ سو صفحات پر مشتمل تھا (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند ۱۳۶۰ھ ذی قعدہ/ ص:۲۹)

                 ان کی کل ادارت چار سال دومہینے ہیں یعنی جمادی الاول ۱۳۶۰ھ سے جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ /جون ۱۹۴۵ء تک بحیثیت مدیر رہے، اس کے بعد ۱۳۶۴ھ رجب المرجب  تا  ذی الحجہ /۱۹۴۵ء جولائی  تا  دسمبر مکمل چھ مہینے تک رسالہ معرضِ التوا میں رہا؛ کیوں کہ رجب المرجب کی ابتدا میں کچھ تو دشواریاں پیش آئیں ، اس کے بعد کتابت رسالہ کابروقت انتظام بھی نہ ہوسکا، مزید یہ کہ حضرت مولانا عبدالوحیدؒ صدیقی مدیر رسالہ چھ ماہ کی طویل رخصت پر دیوبند سے باہر تشریف لے گئے اور یہ کہ مولانا کی درخواست کے مطابق یہ بھی ممکن نہ تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں رسالہ پر بحیثیت مدیران کا نام شائع کیا جائے، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ طابع وناشر کے نام کی تبدیلی کے متعلق درخواست جناب کلکٹر وڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع سہارن پور کی خدمت میں پیش کی جائے؛ لیکن کسی وجہ سے اس میں بھی تاخیر ہوتی رہی۔ (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند، محرم؍ صفر؍ ربیع الاول ۱۳۶۵ھ مطابق جنوری؍ فروری ؍ مارچ ۱۹۴۶ء ص:۳)

                نیز چھ ماہ کی مدت گذرنے کے بعد محرم ۱۳۶۵ھ /۱۹۴۶ء جنوری سے رسالہ کی باضاطہ جدید اشاعت کاسلسلہ شروع ہوا۔ (ماہ نامہ دارلعلوم دیوبند ربیع الثانی وجمادی الاول ۱۳۶۵ھ / مطابق اپریل ومئی ۱۹۴۶ء ص/۴۱)

                تلاش وجستجوسے یہ بات واضح ہوگئی کہ چھ ماہ تک رسالہ کی اشاعت نہیں ہوئی اگر اشاعت ہوئی ہوتی تو ضرور کسی بھی مہینہ کا شمارہ کہیں نہ کہیں ضرور ملتا؛ لیکن اس کا تو کہیں وجودہی نہیں ہے، اس سے معلوم ہواکہ چھ ماہ رسالہ یوں ہی موقوف رہا۔

                اس کے بعد محرم ۱۳۶۵ھ /جنوری ۱۹۴۶ء سے قاضی خلیق احمد صدیقی سردھنوی نے ادارت کی ذمہ داری سنبھالی ، جن کی ادارت میں محرم ۱۳۶۸ھ/ نومبر ۱۹۴۸ء تک نکلتارہا۔ (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۷)

                صفر ۱۳۶۸ھ /دسمبر ۱۹۴۸ء میں مشہور مصنف صاحبِ مصباح اللغات ابوالفضل حضرت مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ رسالہ کے مدیر مقرر ہوئے، ان کی مدت ادارت بہت مختصر ہے، کل مدت ادارت سات مہینے ہیں یعنی ۱۳۶۸ھ صفر تا شعبان /دسمبر ۱۹۴۸ء تا جون ۱۹۴۹ء تک ان کی ادارت میں ماہ نامہ دارالعلوم شائع ہوا ۔(ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۷، دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی ص:۱۲۵)

                 اور اسی جون والے شمارے میں مجلسِ شوری دارالعلوم دیوبند نے مالی مشکلات اور دیگر اسباب کی بناء پر ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند کو بند کرکے سہ ماہی کا اعلان کیا اوریہ رسالہ ’’سہ ماہی‘‘ بھی آئندہ صرف کوائف دارالعلوم پر مشتمل ہوا کرے گا، رمضان میں شمارہ کا کوئی کام نہیں ہوا، اس کے بعد ماہِ شوال، ذیقعدہ وذی الحجہ ۱۳۶۸ھ کا شمارہ کوائف دارالعلوم دیوبند کے نام سے حضرت مولانا سیدازہر شاہ قیصرؒ ابن حضرت  علامہ سیدمحمد انور شاہ کشمیریؒ کی ادارت میں شائع ہوا، یہ قلم کے بے تاج بادشاہ اور قلندر صفت انسان تھے، ان کی تحریر بڑی دلچسپ ہوتی تھی ماہ نامہ دارالعلوم کے مدیر کی حیثیت سے ان کی بڑی شہرت ہوئی، مولانا کی ادارت میں رسالہ سہ ماہی سے بہت جلد دو بارہ ماہ نامہ ہوگیا اور اس کا معیار بھی بلند ہوگیا، حضرت مولاناازہرشاہ قیصرؒ کے زمانہ کاشمارہ مطالعہ کرنے میں بڑا لطف اور مزہ آتاہے۔

                اسی دور میں ماہ نامہ دارالعلو م دیوبند کی جلدوں میں بھی کچھ تبدیلی ہوئی اور کسی انتظامیہ مصلحت کی وجہ سے کچھ عرصہ تک چھ ماہ کی ایک جلد شمار کی گئی، حضرت مولانا سید ازہرشاہ قیصرؒ کی ادارت کا زمانہ بہت طویل ہے، کل مدت ادارت ۳۲ سال چھ مہینے ہیں یعنی جولائی ۱۹۴۹ء سے ۱۹۸۲ء تک مسلسل وہ رسالہ کے مدیر رہے، درمیان میں سترہ سال اداریہ لکھنے کی ذمہ داری حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین  مفتیؒ، مفتی دارالعلوم دیوبند نے پوری کی؛ لیکن اس کے باوجود حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کے اخیر زمانہ اہتمام تک حضرت مولانا ازہر شاہ قیصر ہی مدیر رہے، قضیہ کے پیش آنے کے بعد انتظامیہ میں تبدیلی ہوئی اور حضرت مولانا مرغوب الرحمن بجنوری منصب اہتمام پر فائز ہوئے، توایسے نازک اور مشکل حالات میں ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند کی ذمہ داری استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوریؒ کے حوالے ہوئی حضرت مرحوم کی ادبی حیثیت اور حسنِ تحریر تو مسلم ہے ، ترانۂ دارالعلوم اور نغمۂ سحر اورکلیات کاشف وغیرہ ان کا ادبی شا ہ کار ہے۔ (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند شعبان ۱۳۶۸ھ /جون ۱۹۴۹ء ص:۱؍۲/ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۷؍۸)

                 حضرت مولانا کی کل مدت ادارت تین سال پانچ مہینے ہیں یعنی جمادی الثانی ۱۴۲۰ھ مطابق اپریل ۱۹۸۲ء سے ذیقعدہ ۱۴۰۵ھ/ اگست ۱۹۸۵ء تک مدیر رہے اور آخر کے ایک سال چھ مہینے رسالہ کے لوح پر حضرت مولاناریاست علی بجنوریؒ کا نام مدیر مسئول کی حیثیت سے مطبوع ہوتارہا، اس کے بعد جب حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ کی انتظامی مصروفیات بڑھ گئیں تو ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند کی ادارت کی ذمہ داری استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن  اعظمیؒ کے سپرد کی گئی، مولانا کی ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند کی زمانۂ ادارت مولانا سید ازہر شاہ قیصر صاحبؒ کی طرح طویل ہے۔

                چنانچہ حضرت مولانا رجب المرجب ۱۴۰۴ھ /اپریل ۱۹۸۴ء سے بحیثیت مدیر کام شروع کیا (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۸)

                 لیکن باضابطہ مولانا موصوف ذی قعدہ ۱۴۰۵ھ مطابق اگست ۱۹۸۵ء میں مدیر مقرر ہوئے اور دوسال قبل نومبر ۲۰۱۶ء میں درازی عمر اور تدریسی علمی وتحقیقی مصروفیات کی بنا پر اس عظیم خدمات سے معذرت کرلی، حضرت مولانا ریاست علی بجنوریؒ کے زمانہ ادارت میں بھی گاہِ بہ گاہ مدیر کی حیثیت سے مضامین لکھتے رہے، حضرت الاستاد کے دورِ ادارت میں متعدد خاص نمبر بھی شائع ہوئے ہیں جن میں ’’ ختم نبوت نمبر‘‘  ’’الاحسان نمبر‘‘  ’’مسلم پرنسل لا نمبر‘‘ ’’وفیات نمبر‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ (ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند دسمبر ۲۰۱۶ء ص:۸)                 حضرت مولاناؒ کی مدت ادارت کل ملاکر ۳۲ سال آٹھ مہینے ہیں یعنی رجب المرجب ۱۴۰۴ھ /اپریل ۱۹۸۴ء سے /نومبر ۲۰۱۶ء تک مدیر رہے، اس کے بعد دسمبر ۲۰۱۶ء سے ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند کی ادارت کی ذمہ داری مشفق ومربی استاد گرامی قدرحضرت مولانا محمد سلمان بجنوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ فقہ وادب دارالعلوم دیوبند کے سپرد ہے، جوماضی کی طرح اب بھی عمدہ طباعت وکتابت کے ساتھ علمی وتحقیقی، ادبی وتاریخی، اسلامی واصلاحی، سوانح علماء دیوبند، سیرت رسول وصحابہ، تابعین وتبع تابعین، فقہ وفتاوی، احوال وکوائف، شعر وسخن، نظم ونثر، تزکیۂ ونفس اور قرآن وسنت پر مشتمل مستقل مضامین بحمد اللہ شائع ہورہے ہیں ، جس سے فضلائے دارالعلوم دیوبند اور عام مسلمانانِ ہند کے علاوہ بیرون ملک کے علماء وفضلاء اور عوام الناس فیض یاب ہورہے ہیں ، اللہ تعالی اس سلسلہ کو قیامت تک جاری رکھے اور حضرت مولانا کی عمر میں برکت عطا فرمائے! آمین!

دارالعلوم ‏، شمارہ : 2، جلد:107‏، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023ء

Related Posts